رسول اللہ کے 5 حقوق از بنتِ افتخار احمد،فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ
کلاں لالہ موسیٰ

پیارے آقا ﷺ نےاپنی امت کی ہدایت واصلاح کے لیے بے شمار
تکالیف برداشت فرمائیں۔ پیارے آقا ﷺپوری پوری رات جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور
امت کی مغفرت کے لیے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ وزاری فرماتے
یہاں تک کے آپ کے پاؤں مبارک پر کھڑے رہ رہ کر ورم آجاتا تھا چنانچہ جس طرح ہر
انسان پر والدین، استاد، اولاد کے حقوق اُس پر ادا کرنافرض ہوتا ہے اس طرح پیارے
آقا ﷺ کے بھی اپنی امت پر بہت زیادہ حقوق ہیں جن کو شمار نہیں کی جا سکتا۔ان میں
سے پانچ حقوق درج ذیل ہیں۔لیکن اس سے پہلے حق کی تعریف بتاتی چلوں کہ حق کہتے کسے
ہیں؟
حق کی تعریف:حق کے لغوی معنی صحیح، درست،واجب،سچ، انصاف یا جائز مطالبے
کے ہیں۔ ایک طرف حق سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے
قانوناً اور باضابطہ طور پر ہی اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کر
سکتی ہیں۔ اب حقوقِ مصطفٰےکی طرف چلتی ہیں کہ ہم پر کیا کیا حقوق ہیں:
1۔ اتباع ِسنتِ رسول:پیارے آقا
ﷺ کی سیرت اور سنت ِمقدسہ پر عمل کرنا ہر مسلمان پر واجب ولازم ہے۔قرآنِ پاک میں
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ
تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ
ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ
3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو
دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ
بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اسی لیے آسمانِ امت کے چمکتے ہوئے ستارے اللہ یاک اور اس کے
محبوب ﷺکے پیارے صحابہ کرام و صحابیات طیبات آپ کی ہرسنت کریمہ کی پیروی کو لازم و
ضروری جانتے اوربال برابر بھی کسی معاملے میں اپنے پیارے آقاﷺ کی سنتوں سے انحراف
یا ترک گوارا نہیں کرتے تھے۔
2۔ اطاعتِ رسول: یہ
بھی ہر امتی پر رسولِ خدا ﷺ کا حق ہے کہ
ہر امتی ہر حال میں آپ کے حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں بال کے
کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور نہ کرے۔ کیونکہ آپ کی اطاعت اور
آپ کے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔ اس کا حکم الله
پاک نے قرآنِ پاک میں بھی کئی دفعہ ارشاردفرمایا ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ
فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ
کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔
اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور
اطاعتِ رسول کرنے والوں کیلئے بہت بلند درجات ہیں اس لیے ہم پر ضروری ہے کہ ہر قسم کے قول،فعل میں آپ کی سیرتِ طیبہ سے
رہنمائی لی جائے۔
3۔ محبتِ رسول:ہر امتی پر رسولِ خدا ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر
آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت پر قربان کردے۔ پیارے
آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک
میں اس کی جان سے بھی سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر دل میں
محبتِ رسول نہ ہو تو بنده ایمان والا نہیں ہوتا۔ اللہ کریم ہمیں سچا عاشقِ رسول
بنائے۔
محمد کی
محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
4۔ درود شریف: اللہ پاک نے ہمیں اپنے حبیبﷺ پر درود پاک پڑھنے کا حکم دیتے
ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ وَ
مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22،
الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس
غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
بہارِ شریعت جلد اول صفحہ75 پرہے: جب (ایک ہی مجلس میں بار
بار) حضور ﷺ کا ذکر آئے تو بکمال ِخشوع و خضوع و انکسار با اد ب سنے اور نامِ پاک سنتے ہی درودِ رپاک
پڑھے کیونکہ یہ پڑھنا (پہلی بار) واجب (اور باقی ہر بار مستحب)ہے۔ حبیبِ خدا، مکی
مدنی مصطفٰے کی شانِ محبوبیت کا کیا کہنا!ایک حقیر و ذلیل بندۂ خدا کے پیغمبر
جمیل کی بارگاہِ عظمت میں درودِ پاک کا ہدیہ بھیجتا ہے تو خداوندِ جلیل اس کے بدلے
میں اس بندے پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اللہ پاک ہمیں زیادہ درود پاک پڑھنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
5۔ مدح ِرسول:صاحبِ
قرآن ﷺ کا ہر امتی پر یہ حق ہے کہ وہ آپ کی مدح وثنا کا ہر طرف چر چا اور اعلان
کرتا رہے اور ان کے فضائل کو علی الاعلان بیان کرے۔ آپ کے فضائل و محاسن کا ذکرِ
جمیل رب العالمین اور تمام انبیا و مرسلین کا مقدس طریقہ ہے۔ اللہ کریم نے قرآنِ
کریم کو اپنے محبوب ﷺ کی مدح و ثنا کے مختلف رنگا رنگ پھولوں کا ایک حسین گلدستہ
بناکر نازل فرمایا اور پورے قرآن میں آپ کی نعت وصفات کی آیات بینات اس طرح جگمگا
رہی ہیں جیسے آسمان پر تارے جگمگاتے ہیں۔
رسول اللہ کے 5 حقوق از بنتِ ساجد، فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں
لالہ موسیٰ

حبیبِ خدا، مکی مدنی مصطفٰے ﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح
اور فلاح کے لیے بے شمار تکالیف برداشت کیں نیز آپ کی اپنی امت کی نجات و مغفرت کی
فکر اور شفقت ورحمت کی اس کیفیت پر قرآن بھی شاہد ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ
اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ
بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (پ11،التوبۃ:128)ترجمہ کنز الایمان: بےشک تمہارے پاس تشریف
لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے
نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہرباں مہربان۔
محبوبِ باریﷺ پوری پوری رات جاگ کر
عبادت میں مشغول رہتے اور امت کی مغفرت کے لیے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے
ساتھ گر یہ وزاری فرما تے تھے یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثرآپ کے پائے مبارک پر ورم
آجاتا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اپنی امت کے لیے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضہ ہے کہ
امت پہ آپ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا بھی امتی پر فرض و واجب ہے۔
حق کی تعریف: حقوق آزادی یا استحقاق کے قانونی، سماجی یا اخلاقی اصول
ہیں یعنی حقوق بنیادی قوانین ہیں جو کسی قانونی نظام، سماجی کنونشن یا اخلاقی اصول کے مطابق افراد
کو دیگر افراد کی جانب سے اجازت یا واجب الادا ہیں۔
1-ایمان بالرسول: رسولِ
خداﷺ پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائےہیں صدقِ دل سے اس کو
سچا ماننا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بغیر رسول پر ایمان
لائے ہر گز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا یا درکھئے کہ محض توحید و رسالت کی
گواہی کافی نہیں بلکہ کسی کا بھی ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ
پاک کے پیارے حبیب ﷺکو اپنی جان ومال بلکہ سب سے زیادہ محبوب نہ بنا لیا جائے۔
جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے محبوبﷺ نے فرمایا:تم میں
سے کوئی اس وقت (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس
کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤ ں۔(صحابیات و صالحات کے اعلیٰ
اوصاف،ص75)
خاک ہوکر
عشق میں آرام سے سونا ملا جان
کی اکسیر ہے الفت رسول الله کی
2-اتباعِ سنتِ رسول:سرورِ
کائنات،فخرِ موجودات ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور سنتِ مقدسہ کی پیروی ہر مسلمان پر واجب
و لازم ہے جیسا کہ فرمانِ باری ہے۔ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ
اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
(پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے
گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اس لیے آسمان امت کے چمکتےہوئے ستارے، ہدایت کے چاند تارے، اللہ
پاک اور اس کے پیارے رسولﷺکے پیارے صحابہ کرام و صحابیات طیبات آپﷺ کی ہر سنت
کریمہ کی پیروی کو لازم و ضروری جانتے اور بال برابر بھی کسی معاملہ میں اپنے
پیارے رسولﷺ کی سنتوں سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کرتے تھے۔(صحابیات وصالحات کے
اعلیٰ اوصاف،ص76)
3-اطاعتِ
رسول: یہ بھی ہر امتی پر رسولِ خداﷺ کا حق
ہے کہ ہر امتی ہرحال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں بال
کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور نہ کرے کیونکہ آپ کی اطاعت
اور آپ کے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرض ِعین ہے۔ چنانچہ
ارشاد خداوندی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا
الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز
الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ ایک اور مقام پر ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا
بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔
اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا اور
اطاعت کرنے والوں ہی کے بلند درجات ہیں۔ لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہر قسم کے قول و
فعل میں آپ کی سیرت طیبہ سے رہنمائی لی
جائے اور آپ کی بیان کردہ شرعی حدود سے تجاوزنہ کریں۔(صحابیات و صالحات کے اعلیٰ
اوصاف،ص76)
4-
تعظیمِ رسول: امت پر ایک بہت بڑایہ بھی حق ہے کہ
ہر امتی پر فرض عین ہے کہ آپ اور آپ کی نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی
تعظیم و توقیر اور ادب و احترام بجا لائے اور ہر گزہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی
بےادبی نہ کر ے جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان عالیشان
ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا
وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 9) ترجمہ کنز الایمان:
بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ
اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔
5۔ محبتِ رسول:اسی
طرح ہر امتی کا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی
محبوب چیزوں کو آپ کی محبت پر قربان کر دے۔ حضور کی محبت صرف کامل واکمل ایمان کی
علامت ہی نہیں بلکہ ہرامتی پر آپ کا یہ حق بھی ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ سے
محبت رکھےاور ساری دنیا کو آپ کی محبت پہ قربان کردے۔
محمد کی
محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہ اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
محمد کی
محبت ہے سند آزاد ہونے کی خدا
کے دامنِ توحید میں آبادہونے کی
(صحابیات
وصالحات کے اعلی اوصاف،ص77)
رسول اللہ
کے 5 حقوق از بنتِ ظفراللہ خان، فیضان
فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ

تاریخ کا مطالعہ
کریں تو اس بات کا اندازہ ہوگاکہ اللہ کے پیارے رسول ﷺنے ہم گنہگاروں کے لیے کتنی
مشقتیں برداشت کیں ہیں۔ آج ہمیں جو ایمان کی دولت میسر آئی، راہ حق کا پتہ ملا،
قرآن ملا،قرآن کے احکام کو سمجھنے کا سلیقہ ملا، حلال و حرام کی تمیز سمجھ میں
آئی، ہمیں جو زندگی ملی حتی کہ ہماری ہر ہر سانس پر سرکار دوعالم ﷺ کا احسان
ہے کیونکہ آپ ہی کے صدقے دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب کی تخلیق ہوئی ہے۔جب اس قدر
ہم پر آپ کے احسانات ہیں تو ہم امت پر بھی آپ ﷺ کے حقوق ہیں ان حقوق کومختصر طور پر
بیان کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
حق کی تعریف:حق کے
لغوی معنی صحیح، درست، واجب، سچ، انصاف یا جائز مطالبہ کے ہیں۔ ایک طرف حق سچائی
کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس
چیز کی طرف جسے قانوناًاور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس پر اپنی
ملکیت کا دعوی کر سکتی ہیں۔
حضور کے اپنی امت پر کیاکیا حقوق ہیں؟حضور نبی کریم
ﷺ کے اپنے امتیوں پر بہت سے حقوق ہیں جن میں سے پانچ (5) درج ذیل ہیں:
1۔ حضور پر ایمان:حضور ﷺکی
نبوت و رسالت اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں ان تمام پر ایمان لانا
اور دل سے انہیں سچا ماننا ہر اُمتی پر فرضِ عین ہے۔ رسول اللہ ﷺ پر ایمان
لائےبغیر کوئی شخص ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتا۔ الله پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ 26،
الفتح: 13) ترجمہ کنز الایمان: اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو
بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی ہے اس آیت میں مکمل طور پر بیان
کر دیا گیا ہے کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لائیں گے وہ کافرر ہیں گے اگر
چہ وہ اللہ پاک پرایمان لاتے ہوں کیونکہ رسول ﷺپر ایمان لائے بغیر توحید پر ایمان قبول
نہیں کیا جائے گا۔
یہ اک جان
کیا ہے اگر ہوں کروڑوں ترے
نام پر سب کو وارا کروں میں
2۔ اطاعتِ رسول:مسلمان
کےلئے نبی کریم ﷺ کی اطاعت کرنا انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ جوشخص نبی کریم ﷺ کے
احکام کو مانتا ہے وہ حقیقت میں اللہ پاک کی اطاعت کو ہی اختیار کرتا ہے۔ ارشاد
باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ
تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ
ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل
عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست
رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش
دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
مختصر یہ جان لیجیے
کہ جس کو اللہ کا محبوب بننا ہو اور جو یہ چاہتا ہو کہ اُس کے درجات بلند ہوں تو وہ رسول اللہ ﷺ کی
اطاعت کو خود پر لازم کرلے۔
3۔ محبتِ رسول: ہر امتی
پر رسول اللہ ﷺکا حق ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت رکھے کیونکہ تب تک وہ امتی کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ سب سے بڑھ کر حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ حضور ﷺ
کو محبوب نہ رکھے۔
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ
وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ
اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ
تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ
سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا
یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ:
24)ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی
اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے
نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور
اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ
اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
محمد کی
محبت ہے سند آزاد ہونے کی خدا
کے دامنِ توحید میں آباد ہونے کی
4۔ درود شریف:جو شخص
نبی کریمﷺ پر درود بھیجتا رہتا ہے اللہ پاک اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور اس
کے غموں کو دور فرما دیتا ہے۔ اللہ پاک قرآن ِمجید میں ارشادفرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ
عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ
سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)
(پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے
ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
پڑھ لے
درود غفلت نہ کر خدا کی قسم!
تیرے سلام کا وہ اب بھی جواب دیتے ہیں
5۔ قبرِانور کی زیارت:حضور ﷺکے
روضۂ مقدسہ کی زیارت سنتِ مؤکَّدہ قریب بواجب ہے۔ ارشاد باری ہے:ترجمہ:اور
اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ
سے معافی چاہیں اور رسول ان کی سفارش فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
اس آیت میں صاف طور
پربیان کیا گیا ہے کہ جو گناہ گار قبرِ انورکے پاس حاضر ہو جائے اور وہاں خدا سے
استغفار کرے ان شاء الله اس کی ضرو ر مغفرت ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ حضور کریم ﷺ
نے فرمایا ہے:جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی، لہٰذا
ہر امتی کو چاہیے کہ وہ ہو سکے تو روضہ رسول ﷺ کی زیارت ضرور کرے۔دعا ہے کہ اللہ
پاک ہم سب کو نبی کریمﷺ کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطافر مائے۔ آمین
اک جھلک
دیکھنے کی تاب نہیں عالَم کو
وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو
(صحابیات
و صالحات کے اعلیٰ اوصاف)
رسول اللہ کے 5 حقوق
از بنتِ عابد حسین، فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ

حبیبِ خدا،مکی مدنی مصطفٰےﷺ نے اپنی امت کی ہد ایت و اصلاح و فلاح کے لیے بے شمار تکالیف برداشت
فرمائیں نیز آپ کی اپنی امت کی نجات و مغفرت کی فکر اور شفقت و رحمت کی اس کیفیت پر قرآن بھی شاہد ہے۔
چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا
عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)
(پ11،التوبۃ:128)ترجمہ کنز الایمان: بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول
جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں
پر کمال مہرباں مہربان۔
محبوب باریﷺ پوری پوری راتیں جاگ کر
عبادت میں مصروف رہتے اورامت کی مغفرت کے لیےدر با ر باری میں انتہائی بے قراری کے
ساتھ گریہ و زاری فرماتے رہتے یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ کے پائے مبارک پرورم
آجاتا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اپنی امت کے لئے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر آپ ﷺ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔
حق کی تعریف:حق کے
لغوی معنی صحیح، مناسب، درست، ٹھیک،موزوں، بجا، واجب،سچ، انصاف، جائز مطالبہ یا
استحقاق کے ہیں۔ اس طرح حق ایک ذومعنی لفظ ہے۔ ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا
ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جیسے قانوناً اور با ضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا
دعویٰ کر سکتی ہیں۔
مفہوم:حقوق جمع
ہے حق کی جس کے معنی ہیں: فرد یا جماعت کا ضروری حصہ۔(المعجم الوسیط،ص 188 )حق کا
معنی اصل میں مطابقت اور ہم آہنگی ہے، اس لئے جو چیزوا قعیت سے مطابقت رکھتی ہے
اسے حق کہتے ہیں۔
1-اتباعِ سنتِ رسول: سرورِ کائنات،فخرِ موجوداتﷺ کی سیرت مبارکہ
اورسنتِ مقدس کی پیروی ہرمسلمان پر واجب و لازم ہے جیسا کہ فرمانِ باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ
اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
(پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے
گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اس لیے آسمانِ ہدایت کے چمکتے ہوئے ستارے، ہدایت کے چاند
تارے، الله پاک اور اس کے رسول کے پیارے صحابہ کرام رضی الله عنہم وصحابیات طیبات آپ کی ہر سنت کریمہ کی پیروی کو لازم
وضروری جانتے ہوئے اور بال برابربھی کسی معاملہ میں اپنے پیارے رسولﷺ کی سنتوں سے
انحراف یا ترک گو ارا نہیں کرتے تھے۔(صحابیات
و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، جلد اول)
2-اطاعتِ رسول:یہ بھی ہر
امتی پر رسولِ خدا ﷺ کاحق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور
آپ جس بات کا حکم دیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور نہ
کریں۔ کیونکہ اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرض
ِعین ہے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے۔ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم
مانو رسول کا۔ ایک اور مقام پر ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا
بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔
3-محبتِ رسول: اسی طرح
ہر امتی پر رسول خداﷺکا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری
دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت پر قربان کردے جیسا کہ مروی ہے کہ حضرت
امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی خالہ حضرت فاطمہ بنت عقبہ ایک بار سرکارِ مدینہ،قرارِ
قلب و سینہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: ایک وقت میں چاہتی تھی کہ آپ کے علاوہ دنیا بھر میں
کسی کا مکان نہ گرے مگر اللہ پاک کے رسول! اب میری خواہش ہے کہ دنیا میں کسی کا
مکان رہےیا نہ رہے مگر آپ کا مکان ضرور سلامت رہے۔ ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی
بھی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ
محبوب نہ ہو جاؤں۔
اللہ پاک کے پیارے حبیبﷺ کی محبت صرف کامل و
اکمل ایمان کی علامت ہی نہیں بلکہ ہر امتی
پر رسول الله ﷺکاحق یہ بھی ہے کہ وہ سارے
جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری
دنیا کو آپ کی محبت پر قربان
کردے۔(صحابیات و صالحات کے اعلی اوصاف)
4-تعظیمِ
رسول:امت پر ایک نہایت ہی اہم اور بہت بڑا
حق یہ ہے کہ امتی پر فرض عین ہے کہ آپ سے
نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم وتوقیر اور ادب و احترام بجالائے اور
ہرگز ہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ
مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز
الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ (صحابیات و صالحات کے اعلی اوصاف)
5-درود شریف: اللہ پاک
نے ہمیں اپنے حبیبﷺ پر درود پاک پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ
عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ
سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)
(پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے
ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ بہار
شریعت جلد اول،ص 15 پر ہے: جب حضور ﷺکاذکرآئے تو بکمال خشوع و خضوع وانکسار با دب
سنے اور نامِ پاک سنتے ہی درود پاک پڑھنا وا جب ہے۔ (صحابیات و صالحات کے اعلیٰ
اوصاف)
رسول اللہ کے 5 حقوق
از بنتِ عبدالخالق محمود، فیضان
فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ

جس طرح دنیا میں ہر شخص مثلاً والدین، استاد، پیر ومر شد
اور رشتہ داروغیرہ کے کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ اسی طرح اُمت مصطفٰے پر بھی نبی کریم ﷺ
کےکچھ حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا ہم پر فرض و واجب ہے۔چنانچہ ارشادہوتاہے۔: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ
اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ
بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (پ11،التوبۃ:128)ترجمہ کنز الایمان: بےشک تمہارے پاس تشریف
لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے
نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔
محبوبِ باری ﷺ پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے
اور اُمت کی مغفرت کیلئے در بار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ وزاری
فرماتے رہتے یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ کے پائے مبارک پرورم آجاتا تھا چنانچہ
آپ ﷺنے اپنی اُمت کیلئے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر آپ کے کچھ
حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہم پر فرض و واجب
ہے۔ پہلے حقوق کی تعریف ملاحظہ فرمائیے۔
حقوق: حقوق
آزادی یا استحقاق کے قانونی، سماجی یا اخلاقی اصول ہیں یعنی حقوق بنیادی معیادی
قوانین ہیں جو کسی قانونی نظام، سماجی کنونشن یا اخلاقی اصول کے مطابق افراد
کو دیگر افراد کی جانب اجازت یا واجب الادا ہیں۔
حقوقِ مصطفٰے:
1۔ ایمان بالرسول: رسولِ خداﷺپر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے
لائے ہیں صدق دل سے اس کو سچا ماننا ہر
امتی پر فرضِ عین ہے اور اس میں کوئی شک
نہیں کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہرگز ہر گز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذ ا محض
توحید و رسالت کی گواہی کافی نہیں بلکہ رسول اللهﷺکو اپنی جان ومال بلکہ سب سے
زیادہ محبوب ماننا ضروری ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،نبی پاک ﷺ
نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک ( کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس
نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو
جاؤں۔(بخاری،ص74،حدیث:15)
خاک ہو کر
عشق میں آرام سے سونا ملا
جان کی اکسیر ہے الفت رسول الله کی
(حدائق
بخشش،ص 153)
2-اتباعِ سنتِ رسول: سرورِ کائنات، فخر ِموجودات ﷺکی سیرتِ مبارکہ
اورسنت مقدسہ کی پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے جیسا کہ فرمانِ باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ
اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
(پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے
گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اسی لیے آسمان امت کے چمکتے ستارے، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و صحابیات رضی اللہ عنہن آپ کی ہر سنت کریمہ
کی پیروی کو لازم و ضروری جانتے اور کسی بھی معاملہ میں آپ ﷺکی سنتوں سے انحراف
یاترک گوارا نہ کرتے تھے۔ (صحابیات و
صالحات کے اعلیٰ اوصاف،ص76)
3-اطاعتِ رسول: یہ بھی ہر امتی پر رسول اللہ ﷺکا حق ہے کہ ہر
امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت
کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا
تصور نہ کریں کیونکہ آپ کی اطاعت اور
احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرضِ عین ہے چنانچہ ارشاد باری ہے:
ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو الله کا اور حکم مانو رسول کا۔(پ5،النساء:59) ایک اور
مقام پر ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا
بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔
4-تعظیم رسول:امت پر
ایک نہایت ہی اہم اور بہت بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرض ہے کہ آپ اور آپ سے
نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم وتوقیر اور ادب و احترام بجالائے اور
ہر گزہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی بے
ادبی نہ کرے جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ
نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز
الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔
درود شریف: اللہ پاک نے ہمیں اپنے حبیب ﷺ پر درود پاک پڑھنے کا حکم
دیتے ہوئے ارشاد فر مایا: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ
عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ
سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)
(پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے
ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
بہارِ شریعت جلد اول صفحہ75 پرہے: جب (ایک ہی مجلس میں بار
بار) حضور ﷺ کا ذکر آئے تو بکمال ِخشوع و خضوع و انکسار با اد ب سنے اور نامِ پاک سنتے ہی درودِ رپاک
پڑھے کیونکہ یہ پڑھنا (پہلی بار) واجب (اور باقی ہر بار مستحب)ہے۔

حق کا مطلب ایک ایسی ذمہ داری جو اللہ پاک کی طرف سے ایک
ذات پر کسی دوسری ذات کے مقابلے میں لازم کی گئی ہو۔اب اگر وہ ذات خود اللہ پاک کی
ہے تو اس نے اپنی ذات کے پیشِ نظر کچھ ذمہ داریاں رکھی ہیں،اسے اللہ کا حق کہتے ہیں اور اگر کسی بندے کو مبعوث
رکھتے ہوئے اللہ نے اس کے مقابلے میں ذمہ داریاں دی ہیں تو یہ بندے کا حق کہلائے گا۔اسی طرح پڑوسیوں کا حق، والدین کا
حق،رسول اللہ ﷺ کا حق ہوتا ہے۔
ہمارے آقا و مولیٰ، محمد مصطفٰے ﷺ وہ عظیم ہستی ہیں کہ آپ
وجہ تخلیق ِ کائنات ہیں جن کی عظمت و شان سب سے ارفع و اعلیٰ ہے۔یہ ہم پر اللہ پاک
کا بہت بڑا احسان ہے کہ بن مانگے اپنے محبوب کی امت میں پیدا کیا جو اپنی امت پر
اتنے شفیق و مہربان ہیں کہ امت کا مصیبت اور مشکل میں پڑنا ان پر گراں گزرتا ہے۔جو
ہر وقت اپنی امت کی بخشش کے لئے اپنے رب کے حضور روتے رہے، التجا کرتے رہے،یا رب امتی،یا رب امتی کہتے رہے۔اعلیٰ حضرت کیا خوب لکھتے ہیں:
جو نہ
بھولا ہم غریبوں کو رضا یاد
اس کی اپنی عادت کیجیے
ہمارے نبی کریم ﷺ ہم پر اتنے مہربان ہیں تو ہم پر بھی ان کے
کچھ حقوق ہیں جن میں سے 5 حقوق یہ ہیں:
1-نبی کریم ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا کہ آپ جو
کچھ بھی اللہ پاک کی طرف سے لے کر
آئے وہ حق اور سچ ہے، اس میں کسی قسم کا
کوئی شک نہیں اور اس پر ہر مومن کا ایمان ہے،بغیر اس کے ایمان کی تکمیل ممکن ہی
نہیں۔قرآنِ مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ
فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ 26،
الفتح: 13) ترجمہ کنز الایمان: اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو
بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی ہے۔ اس آیت سے واضح ہوا کہ توحید کے ساتھ نبی کریمﷺ کی
رسالت پر ایمان لانا بے حد ضروری ہے۔
2-نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ سے محبت کرنا یعنی آپ ﷺ نے اپنی
حیاتِ مبارکہ میں جو کام کیے اس کی اتباع کرنا،اس کی پیروی کرنا اور اس پر عمل کرنا۔اللہ پاک قرآنِ مجید میں فرماتا
ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ
تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ
ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل
عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست
رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش
دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس لئے تو ہدایت کے چاند ستارے ہمارے پیارے صحابہ کرام قدم بہ قدم نبی کریم ﷺ کی
ہر سنت کی اتباع و پیروی کیا کرتے تھے۔
3-یہ بھی امتی پر رسول اللہ ﷺ کا حق ہے کہ ہر امتی نبی کریم
ﷺ کے حکم کو مانے، اس کو دل سے تسلیم کرے،آپ ﷺ جس بات کا حکم دیں، اس کی خلاف ورزی
کا تصور بھی نہ کرے۔اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا
الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز
الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا
بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔
اسی طرح قرآنِ مجید کی متعدد آیات میں آپ ﷺ کی اطاعت کا حکم
دیا گیا ہے اور احادیث میں بھی اس کا تذکرہ ہے،چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد
فرمایا:جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ پاک کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی۔(بخاری،2/297،حدیث:2957)
4-ہر امتی پر یہ بھی نبی کریم ﷺ کا حق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی
مدح و ثنا کرتا رہے،ان کے فضائل و کمالات کا خوب چرچا کرے،ان کی نعت پڑھے،نبی
کریمﷺ کے اوصاف،معجزات اور فضائل کا ایسا ذکرِ خیر کریں کہ ہر منکر عاجز آجائے۔اعلیٰ
حضرت کیا خوب فرماتے ہیں:
رہے گا
یوں ہی ان کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہوجائیں جل جانے والے
5-ہر مسلمان پر بھی یہ آقا کریم ﷺ کی حق ہے کہ وہ آپ ﷺ پر
کثرت سے درود پاک پڑھتا رہےچنانچہ اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ
عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ
سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)
(پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے
ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ اس
آیت مبارکہ میں رب کریم خود مومنو کو نبی کریم ﷺ پر درود پاک پڑھنے کا حکم دے دہا
ہے۔حدیث پاک میں ہے:حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ مجھ پر ایک مرتبہ ددرود پاک بھیجتا ہے
اللہ پاک اس پر دس مرتبہ درود شریف(رحمت) بھیجتا ہے۔
درود شریف پڑھنے کے بہت سے فضائل ہیں۔اللہ پاک ہم سب کو
کثرت سے درود پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
مومنو!
پڑھتے رہو تم اپنے آقا پر درود ہے
فرشتوں کا وظیفہ الصلوۃ و السلام

امت مسلمہ کی یہ فضیلت اور اونچا مقام نبی کریم ﷺ کی رفعتِ شان
پر دلالت کرتا ہے۔جب آپ ﷺ اس قدر عظیم و
رفیع شان و منزلت کے حامل ہیں تو اللہ پاک نے آپﷺ کے کچھ حقوق و واجبات بھی رکھے ہیں جن کی
ادائیگی مسلمانوں پر فرض ہے۔لہٰذا ہر کلمہ گو پر ان حقوق و واجبات کو
پہچاننا،سمجھنا اور پھر ان پر قولی و عملی اعتقاد رکھنا لازم ہے لیکن افسوس! اکثر
لوگ اس بارے میں جہالت کا شکار ہیں اور جن لوگوں کو ان حقوق و واجبات کی معرفت و پہچان ہے وہ بھی ان کی
ادائیگی میں کوشاں نظر نہیں آتے۔
حق کی تعریف:حق کے
لغوی معنی صحیح،مناسب،درست،ٹھیک،موزوں،بجا،سچ،انصاف،جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔اس
طرح حق ایک ذو معنی لفظ ہے۔ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے تو دوسری جانب
اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور با ضابطہ
طور پر ہم اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔
1۔ حضور
ﷺ پر ایمان:لفظ ایمان کے اہلِ لغت کے ہاں کئی
معانی ہیں،ان میں سے ایک معنی تصدیق کرنا ہے جیسا کہ امام محمد بن احمد الہروی الازہری فرماتے ہیں:لغت والوں اور
ان کے علاوہ اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایمان کا معنی تصدیق ہے۔لیکن
علمائے سلف کے ہاں اس کے معنی اکیلے تصدیق کے نہیں،بلکہ تصدیق کے ساتھ ساتھ اقرار اور اس کے مطابق عمل بھی لازمی ہے۔ایمان
کا لغوی معنی سکون قلب و تصدیق ہے جس کی
ضد تکذیب ہے اور تیسرا معنی امن ہے جس کی
ضد خوف ہے، کیونکہ انسان ایمان لے آتا ہے تو وہ امن میں آجاتا ہے اور اللہ پاک اس
کو اپنی امان میں لے لیتا ہے،جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ
یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ
مُّهْتَدُوْنَ۠(۸۲) (پ 7، الانعام:82)ترجمہ کنز الایمان: وہ
جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی انہیں کے لیے امان ہے
اور وہی راہ پر ہیں۔
رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی تصدیق
کی جائے کہ آپ ﷺ اللہ پاک کے بندے اور سچے رسول ہیں جن کو اللہ پاک نے تمام لوگوں
اور جنوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ جو
کچھ لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق، پیروی و اتباع کرنا واجب ہے۔
2۔اطاعتِ رسول:آپﷺ کے
حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے،یہ اللہ کی طرف
سے ہم پر لازم ہے۔اللہ نے اپنے فرامین میں
ہم پر فرض کیا ہے، جیسا کہ فرمانِ باری ہے:اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرو اور اس
کے رسول کا کہا مانو او ر اپنے اعمال غارت نہ کرو۔(محمد:33)
3۔اتباعِ رسول:نبی کریم
ﷺ کا ایک حق یہ ہے کہ آپ ﷺ کے فرامین کو مانا جائے اور عمل کیا جائے اور اتباع کا
مطلب یہ ہے کہ جو کام آپ ﷺ کریں اس کے مطابق عمل کیا جائے۔فرمانِ باری ہے:کہہ
دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابع داری کرو خود اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا۔
4۔ اختلافی امور میں نبی کریم ﷺ کی طرف رجوع:نبی
کریمﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اختلافی امور میں رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع
کیا جائے۔انسان ہونے کے ناطے اختلاف طبع اور اختلاف فہم کی وجہ سے اعمال و افعال میں ایک دوسرے سے اختلاف رائے ہوسکتا
ہے اور اس سے صحابہ کرام علیہم الرضوان
بھی محفوظ و مامون نہ تھے، لیکن ایسی صورت حال میں اختلاف کا حل کتاب اللہ اور
سنتِ رسول کے ہاں سمجھتے تھے۔یہی سبیل
المومنین ہے۔اگر اختلافی امور میں رجوع الی اللہ اور رجوع الی الرسول نہیں ہوگا تو اختلاف و تنازعات ختم کرنا خام خیالی ہے،جیسا کہ فرمانِ باری ہے:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ
شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ(پ 5، النساء:
59) ترجمہ کنز الایمان: اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اُسے اللہ و رسول کے
حضور رجوع کرو۔
5۔ رسولِ کریم ﷺ کی کسی معاملہ میں مخالفت نہ کی جائے:آپﷺ کے
حقوق میں سے پانچواں حق یہ ہے کہ کسی بھی معاملہ میں رسول اللہ ﷺ کی مخالفت نہ کی
جائے،کیونکہ آپ ﷺ کی مخالفت کرنے والوں کو اللہ نے فتنہ اور عذاب الیم سے ڈرایا ہے۔فرمانِ باری ہے: فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ
اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۳) (پ 18، النور: 63) ترجمہ: سنو جو لوگ حکمِ رسول کی مخالفت
کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں
درد ناک عذاب نہ پہنچے۔اور یہاں صرف ڈرایا نہیں بلکہ فی الواقع ایسا ہوا ہے کہ آپ
ﷺ کی مخالفت کرنے والوں کو اسی دنیا میں اللہ پاک نے کسی مصیبت اور آزمائش
میں مبتلا کردیا۔

اللہ پاک نے حضرت محمد ﷺ کو ساری مخلوق کی طرف مبعوث فرمایا
اور ظاہر و کھلے معجزات کے ذریعے ان کی تائید فرمائی۔آپ ﷺ نے پل صراط،میزان،حوض
وغیرہ امور آخرت نیز برزخ،نکیرین کے سوالات اور قبر کے ثوابات و عذابات وغیرہ کے متعلق جو بھی خبریں دیں وہ ان سب میں
سچے ہیں۔قرآنِ پاک اور تمام آسمانی کتب حق
ہیں۔تمام انبیا ومرسلین علیہم السلام حق
ہیں۔جنت و دوزخ حق ہیں اور ان سے متعلق جو کچھ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے بتایا وہ سب
حق ہے۔(مختصر منہاج العابدین،ص17)
حق کی تعریف:حق کا
مطلب ہوتاہے کہ ایسی ذمہ داری جو اللہ پاک
کی طرف سے ایک ذات پر کسی دوسری ذات کے مقابلے میں لازم کی گئی۔اگر وہ ذات خود
اللہ کی ہے، اس نے اپنی ذات کے پیشِ نظر ہم پہ ذمہ داری کچھ رکھی ہے وہ حق اللہ ہے جیسے نماز پڑھے،روزہ رکھے،زکوٰۃ
دے،گناہ نہ کرے تو یہ حق اللہ کہلائے گا،اور اگر کسی بندے کو ملحوظ رکھتےہوئے اللہ پاک نے اس کے مقابلے میں ہمیں
ذمہ داری دی ہے وہ اس بندے کا حق کہلائے گا۔بندے کے سلسلے میں شوہر کی ذمہ داریاں
تو ہیں اس کا حق،اگر شوہر کو پیش نظر رکھ
کر بیوی پر ذمہ داری رکھی تو بیوی کا حق ہے۔ایسے ہی پڑوسی کا حق،ایسے ہی افسر و حاکم، ماتحت،عالمِ دین کا حق۔اس کا مطلب یہ
ہوا کہ پہلے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ مجھ پر فلاں شخص کے مقابلے میں کیا ذمہ داری
عائد ہوتی ہے،تبھی میں تعین حق کرسکوں گا اور جب حق کی تعیین ہو اس کو ادا بھی کرسکتا ہے اور اگر میں سمجھتا ہوں کہ دوسرے پر میرے پیش نظر کچھ
چیزیں ذمہ داری کے طور پر لازم کی گئی ہیں
تو اس کا مطالبہ بھی کرسکتا ہوں۔
امت پر حقوق ِ مصطفے:حضور
اقدسﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور ان کی صلاح و فلاح کے لئے جیسی تکالیف
برداشت فرمائیں اور اس راہ میں آپ کو کئی
مشکلات درپیش ہوئیں، پھر آپ کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اس کی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ
کی شفقت و محبت کی جو کیفیت ہے اس پر قرآن میں خداوند قدوس کا فرمان گواہ
ہے،چنانچہ سورۂ توبہ میں ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا
عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)
(پ11،التوبۃ:128)ترجمہ کنز الایمان: بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول
جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں
پر کمال مہربان مہربان۔
پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی
مغفرت کے لئے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرماتے رہتے
یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ کے پائے مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ظاہر ہے کہ حضور
سرور انبیا ﷺ نے اپنی امت کے لئے جو جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر
حضور ﷺ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض ہے۔اس کا خلاصہ تحریر کرتے
ہوئے مندرجہ ذیل پانچ حقوق کا ذکر کرتے ہیں:
1-ایمان بالرسول:حضور
اقدسﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ ﷺ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں
صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرضِ عین ہے اور ہر مومن کا اس پر ایمان
ہے کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہوئے ہرگز
ہرگز کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ قرآنِ پاک کی سورہ فتح میں خداوند عالم کا فرمان
ہے: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لایاتو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی
ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔
اس آیت نے نہایت
وضاحت و صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کردیا کہ
جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر
بھر ڈنکا بجاتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے،اس لئے اسلام کا بنیادی
کلمہ یعنی کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی مسلمان ہونے کے لئے خدا کی توحید اور رسول اللہ ﷺ
کی رسالت دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔
2-اتباعِ سنتِ رسول:رسول اللہ
ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔رب کریم کا سورۂ اٰل عمران میں فرمان ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ
اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
(پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے
گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اسی لئے آسمان امت کے چمکتے ہوئے
ستارے، ہدایت کے چاند ستارے،اللہ اور رسول ﷺ کے پیارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ
کی ہر سنت کریمہ کی اتباع اور پیروی کو اپنی زندگی کے ہر قدم قدم پر اپنے لئے لازم
الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور بال برابر بھی کبھی کسی معاملہ میں بھی اپنے پیارے آقا ﷺ کی مقدس سنتوں سے انحراف
یا ترک گوارا نہیں کرسکتے تھے۔
اطاعتِ رسول اللہﷺ:یہ بھی ہر امتی پر رسول اللہ ﷺ کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال
میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دے دیں بال کے کروڑویں حصے کے
برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام
کے آگے سر تسلیم خم کردینا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔قرآنِ پاک کی سورۂ نساء میں ارشاد خداوندی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا
الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز
الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ اسی سورت میں ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا
بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔ قرآن پاک کی
یہ مقدس آیات اعلان کر رہی ہیں کہ اطاعت رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا
جاسکتا اور اطاعت رسول کرنے والوں ہی کے لئے ایسے ایسے بلند درجات ہیں کہ وہ حضرات
انبیائے کرام،صدیقین،شہدا اور صالحین کے ساتھ رہیں گے۔
4-درود شریف:ہر مسلمان
کو چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ پر درود شریف پڑھتا رہے۔فرمانِ باری ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ
عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ
سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)
(پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے
ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
5-تعظیم
رسول:امت پر حضور ﷺ کے حقوق میں سے ایک
نہایت ہی اہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرضِ عین ہے کہ حضور ﷺ
اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و
احترام کرے اور ہرگز ہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔اللہ پاک کا
فرمان ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا
وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز
الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

نبی پاکﷺ کے ہم پر بہت سے حقوق ہیں جن کا ادا کرنا امت
مسلمہ پر فرض و واجب ہے۔حضور اقدس ﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور ان کی صلاح
و فلاح کے لئے جیسی تکلیفیں برداشت فرمائیں اور اس راہ میں آپ کو جو جو مشکلات
درپیش ہوئیں آپ ﷺ نے ان کو برداشت کیا ان
کا تقاضا ہے کہ ہم پر نبی کریم ﷺ کے حقوق ہیں جن کو پورا کرنا ہم پر لازم ہے، ان
میں سے5 درج ذیل ہیں:
اتباعِ سنتِ رسول:حضور
اقدسﷺ کی سیرت مبارکہ، آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع و پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے،جیسا کہ اتباع سنت کے متعلق اللہ پاک
نے ارشاد فرمایا: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ
اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
(پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے
گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اللہ و رسول ﷺ کے
پیارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کی ہر سنت کریمہ کی اتباع اور پیروی کو اپنی
زندگی میں ہر دم قدم پر اپنے لئےلازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور بال
برابر بھی کبھی کسی معاملے میں بھی اپنے پیارے رسول ﷺ کی مقدس سنتوں سے انحراف یا
ترک گوارانہیں کرسکتے تھے۔
تعظیمِ رسول:امت پر
حضور ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرضِ عین ہے کہ حضور ﷺ اور
آپ سے نسبت وتعلق رکھنے والی تمام چیزوں
کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام
کرے اور ہرگز ہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے، جیسا کہ تعظیم رسول کے
متعلق اللہ پاک کا فرمان ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ
نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز
الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔
قبرِ انور کی زیارت:حضور
اقدسﷺ کے روضہ مقدسہ کی زیارت سنتِ موکدہ قریب بواجب ہے۔اس کے متعلق اللہ پاک کا
قول ہے:اور اگر یہ لوگ جس وقت کہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور آپ کے پاس آجاتے
اور خدا سے بخشش مانگتے او ررسول ان کے
لئے بخشش کی دعا فرماتے تو یہ لوگ خدا کو بہت زیادہ بخشنے والا مہربان پاتے۔
یہ حکم حضور ﷺ کی ظاہری دنیوی حیات ہی تک محدود نہیں بلکہ
روضہ اقدس میں حاضری بھی یقیناً دربارِ رسول میں حاضری ہے۔اسی لئے علمائےکرام نے
تصریح فرمادی ہے کہ حضور ﷺ کے دربار کا یہ فیض آپ کی وفات اقدس سے منقطع نہیں ہوا۔
محبتِ رسول:اسی طرح
ہر امتی پر حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی
محبوب چیزوں کو آپ کی محبت کے قدموں پر قربان کردے،جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب
تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ،اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ
ہوجاؤں۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر چیز سے بڑھ کر نبی ﷺ سے محبت کرنی چاہئے۔
اطاعتِ رسول:ہر امتی
پر رسولِ خدا ﷺ کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس
بات کا حکم دیں اس کو بجالائے اور جس بات
سے منع کریں اس سے رکا رہے۔اللہ پاک
نے ارشاد فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ
فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80)
ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔ قرآن کی
یہ آیت اعلان کر رہی ہے کہ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا
جاسکتا،اس لئے ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک کے
رسول کا حکم مانیں۔اللہ پاک حقوق الرسول
کی ادائیگی کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین

حضور اقدس ﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور ان کی صلاح و
فلاح کے لئے بہت سی تکلیفیں برداشت کیں،پھر آپ کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور
اس کی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ کی شفقت ورحمت کی جو کیفیت ہے اس پر قرآن میں خداوند
کریم کا یہ فرمان گواہ ہے: لَقَدْ
جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ
عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ( التوبۃ:128)ترجمہ:
بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا نا
گوار ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے
والے مسلمانوں پر بہت ہی رحم فرمانے والے
ہیں۔
پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں
مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کے لئے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ
و زاری فرماتے رہتے،یہاں تک کہ کھڑےکھڑے اکثر آپ کے پائے مبارک پر ورم آجاتا
تھا۔ظاہر ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی امت کے لئے جو جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ
امت پر حضور ﷺ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔
ایمان بالرسول:حضور اقدس ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ
اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرضِ عین
ہے اور ہر مومن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہوئے ہرگز ہرگز کوئی
مسلمان نہیں ہوسکتا۔قرآن میں خداوند عالم کا فرمان ہے:وَ مَنْ لَّمْ
یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ
سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ
لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔
اس آیت نے نہایت وضاحت اور صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کر دیا
کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان
نہیں لائیں گے وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے۔
درود شریف:ہر مسلمان
کو چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ پر درود شریف پڑھتا رہے، چنانچہ خالقِ کائنات کا حکم ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ
عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ
سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)
(پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے
ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ حضور کریم ﷺ کا ارشاد ہے:جو مجھ پر ایک مرتبہ
درود شریف بھیجتا ہے اللہ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجتا ہے۔
اللہ اکبر! شہنشاہِ کونین کی شان محبوبیت کا کیا کہنا! ایک
حقیر و ذلیل بندہ خدا کے پیغمبر جمیل کی
بارگاہ عظمت میں درود شریف کا ہدیہ بھیجتا ہے تو خداوند جلیل اس کے بدلے میں دس
رحمتیں اس بندے پر نازل فرماتا ہے۔
اتباعِ سنتِ رسول:حضور اقدس
ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و
لازم ہے۔رب کائنات کا فرمان ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ
اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
(پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے
گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اسی لئے آسمان امت کے چمکتے ہوئے ستارے،ہدایت کے چاند
تارے،اللہ و رسول ﷺ کے پیارے صحابہ کرام
آپ ﷺ کی ہر سنت کریمہ کی اتباع اور پیروی کو اپنی زندگی کے ہر قدم پر اپنے لئے
لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور بال برابر بھی کسی معاملہ میں اپنے پیارے رسول ﷺ کی مقدس سنتوں سے انحراف
یا ترک گوارا نہیں کر سکتے تھے۔
اطاعتِ رسول: ہر امتی
پر رسول ﷺ کا یہ بھی حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے۔قرآنِ مجید میں ارشاد
خداوندی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ
اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز
الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص
کو دیکھا کہ وہ سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے ہے۔آپ نے اس کے ہاتھ سے انگوٹھی نکال کر
پھینک دی اور فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ آگ کے انگارے کو اپنے ہاتھ
میں لے؟حضور ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد لوگوں نے اس شخص سے کہا کہ تو اپنی انگوٹھی
کو اٹھالے اور اس سے نفع اٹھا تو اس نے
جواب دیا:خدا کی قسم:جب رسول ﷺ نے اس انگوٹھی کو پھینک دیا تو اب میں اس انگوٹھی
کو کبھی بھی نہیں اٹھاسکتا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/78)
تعظیمِ رسول:امت
پر حضور ﷺ کے حقوق میں ایک نہایت ہی اہم
اور بہت ہی بڑا حق یہ ہے کہ ہر امتی پر فرض عین ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام
چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے۔فرمانِ رحمٰن ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا
وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز
الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور
کریم ﷺ سے کچھ پوچھنے کا ارادہ رکھتا تھا
مگر کمالِ ادب اور آپ کی ہیبت سے برسوں تک
بھی نہ پوچھ سکا۔(شفاء،2/32)

ارشاد باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا
وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز
الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔یہ آیت مبارکہ
رسول اللہ ﷺ کی عظمت و شان،مقام و منصب،امت پر لازم حقوق اور اللہ پاک کی تسبیح و
عبادت کے بیان پر مشتمل ہے۔(تفسیر خازن،4/103)
امت پر نبی پاک ﷺ کے حقوق کے پہلو سے اس آیت مبارکہ کو
دیکھا جائے تو اس میں اللہ پاک نے آپ کے تین حقوق بیان فرمائے ہیں:ایمان،نصرت و
حمایت اور تعظیم و توقیر۔یہاں ان تینوں حقوق کو کچھ تفصیل سے بیان کرکے مزید چند حقوق کے بارے میں ذکر
کیا جائے گا تاکہ علم میں اضافہ ہو اور عمل کی توفیق ہو۔آئیے حق کی تعریف جانیے کہ حق کسے کہتے ہیں۔
حق کے لغوی معنی
صحیح،مناسب،درست،ٹھیک،موزوں،بجا،واجب،سچ،انصاف،جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔اس
طرح حق ایک ذو معنی لفظ ہے۔ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب
اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور باضابطہ طور پر اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس کی بابت
اپنی ملکیت کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔
1-ایمان:حضور پاک
ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھنا فرض ہے اور یوں ہی ہر اس چیز کو تسلیم کرنا بھی
لازم و ضروری ہے جو آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں۔یہ حق صرف مسلمان پر نہیں بلکہ
تمام انسانوں پر لازم ہے کیونکہ آپ تمام
انسانوں کے لئے رسول ہیں اور آپ کے احسانات تمام مخلوق پر ہیں۔جو آپ ﷺ پر ایمان نہ
رکھے وہ مسلمان نہیں اگرچہ وہ دیگر تمام
انبیائے کرام علیہم السلام پر ایمان رکھتا ہو۔
2- رسول اللہ ﷺ کی نصرت وحمایت:اللہ
پاک نے روزِ میثاق تمام انبیائے کرام و مرسلین علیہم السلام سے اپنے حبیب ﷺ کی
نصرت و مدد کا عہد لیا تھا اور اب ہمیں بھی آپ ﷺ کی نصرت و حمایت کا حکم دیا
ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ ﷺ کی تائید و نصرت میں جان،مال،وطن،رشتے
دار سب کچھ قربان کردیا۔ دورانِ جنگ پروانوں کی طرح آپ ﷺ پر نثار ہوتے رہتے۔فی
زمانہ بھی آپ کی عزت و ناموس کی حفاظت، آپ کی تعلیمات و دین کی بقا وترویج کی کوشش اسی نصرت و حمایت میں داخل اور
مسلمانوں پر لازم ہے۔
3- رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر:ایک
انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ دل و جان،روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر طرح سے نبی
کریم ﷺ کی تعظیم و توقیر کی جائے بلکہ آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا ادب و
احترام کیا جائے۔ادب وتعظیم میں یہ بھی
داخل ہے کہ اپنی زبان و بدن،اقوال و افعال میں امورِ تعظیم کو ملحوظِ خاطر رکھے جیسے نامِ مباک سنے تو درود پاک پڑھے۔سنہری جالیوں کے سامنے ہو تو
آنکھیں جھکالے اور دل کو خیالِ غیر سے پاک رکھے۔ اسی ادب و تعظیم کا اہم
تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے گستاخوں اور
بے ادبوں کو اپنے جانی دشمن سے بڑھ کر ناپسند کرے اور ایسوں کی صحبت سے بھی دور
رہے اور اگر کسی کو حضور ﷺ کی ادنیٰ سی بھی توہین کرتا پائے چاہے وہ استاد،باپ،عالم،پیر،
غرض کوئی بھی ہو اسے دودھ سے مکھی کی طرح باہر پھینک دے۔
4- رسول اللہ ﷺ کی اطاعت:رسول
اللہ ﷺ کا یہ بھی حق ہے کہ آپ کا ہر حکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے۔جس بات
کا حکم ہوا ہے اسے بجالائیں۔جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کریں اور جس چیز سے
روکیں اس سے رکا جائے۔
5-رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت:امتی
پر حق ہے کہ وہ حضور پاک ﷺ کا ہر حکم ماننے کے ساتھ ساتھ ہر چیز سے بڑھ کر حضور
پاک ﷺ سے سچی محبت کرےکہ آپ ﷺ کی محبت روحِ ایمان،جانِ ایمان اور اصلِ ایمان
ہے۔(ماہنامہ فیضان مدینہ،دسمبر 2017،ص3-4)اس کے علاوہ بھی حضور پاک ﷺ کے ہم پر بے
شمار حقوق ہیں۔اللہ پاک ہمیں نبی پاک ﷺ کے تمام حقوق بجالانے کی توفیق عطا
فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ

امت مسلمہ کی یہ فضیلت ا ور اونچا مقام نبی کریم ﷺ کی رفعت
شان پر دلالت کرتا ہے۔جب آپ اس قدر عظیم و
رفیع شان و منزلت کے حامل ہیں تو اللہ پاک نے آپ کے کچھ حقوق و واجبات بھی رکھے
ہیں جن کی ادائیگی امتِ مسلمہ پر فرض ہے۔لہٰذا ہر کلمہ گو پر ان
حقوق و واجبات کو پہچاننا،سمجھنا اور پھر
ان پر قولی و عملی اعتقاد رکھنا لازمی ہے،لیکن افسوس! اکثر لوگ اس بارے میں جہالت
کا شکار ہیں اور جن لوگوں کو ان حقوق و
واجبات کی معرفت و پہچان ہے وہ بھی ان کی ادائیگی میں کوشاں نظر نہیں آتے۔
1-رسول اللہ پر ایمان:امام محمد
بن احمد الھروی الازھری فرماتے ہیں:لغت والوں اور ان کے علاوہ اہلِ علم کا اس بات
پر اتفاق ہے کہ ایمان کا معنی تصدیق
ہے۔لیکن علمائے سلف کے ہاں اس کے معنی اکیلے تصدیق کے نہیں بلکہ تصدیق کے ساتھ ساتھ اقرار اور اس کے
مطابق عمل بھی لازمی ہے،کیونکہ انسان جب ایمان لے آتا ہے تو وہ امن میں آجاتا ہے
اور اللہ ا س کو اپنی امان میں لے لیتا ہے جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے:ترجمہ:جو لوگ
ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے،ایسوں ہی کے لئے
امن ہے اور وہی راہِ راست پر چل رہے ہیں۔
2-اطاعتِ رسول:آپ ﷺ کے
حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے۔یہ اللہ پاک کی
طرف سے ہم پر لازم ہے جیسا کہ فرمانِ باری ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم
مانو رسول کا۔
3-اتباعِ رسول:اطاعت اور
اتباع میں فرق ہے۔اطاعت سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ کے فرامین کو مانا جائے اور عمل کیا
جائے اور اتباع کا مطلب ہے کہ جو کام آپ ﷺ کریں اس کے مطابق عمل کیا جائے۔فرمانِ باری
ہے:ترجمہ:کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ پاک سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود
اللہ پاک تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا۔
4-اختلافی امور میں نبی کریم ﷺ کی طرف رجوع:نبی
کریم ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اختلافی امور میں رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کیا جائے۔اگر اختلافی
امور میں رجوع الی اللہ اور رجوع الی
الرسول نہیں ہوگا تو اختلافات و تنازعات ختم کرنا خام خیالی ہے،جیسا کہ فرمانِ
باری ہے:ترجمہ:پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف۔
5-رسولِ پاک ﷺ کی مخالفت نہ کی جائے:آپ
ﷺ کے حقوق میں سے پانچواں حق یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں رسول اللہ ﷺ کی مخالفت نہ کی جائے،کیونکہ آپ ﷺ کی مخالفت
کرنے والوں کو اللہ پاک نے فتنہ او ر عذابِ الیم سے ڈرایا ہے۔فرمانِ باری ہے:سنو
جو لوگ حکمِ رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی
زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے۔
اور یہاں صرف ڈرایا ہی نہیں بلکہ فی الواقع ایسا ہوا بھی ہے
کہ آپ ﷺ کی مخالفت کرنے والوں کو اسی دنیا میں اللہ پاک نے کسی مصیبت و آزمائش میں مبتلا کردیا۔لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے
فرامین اور سنن کی مخالفت نہ کی جائے بلکہ ہو بہو پیروی کی جائے۔