آج تک جس نے جو کچھ
بھی پایا وہ صرف ادب ہی کی وجہ سےپایا اور جو کچھ بھی کھویا وہ بے ادبی کی وجہ سے
ہی کھویا، شاید اسی وجہ سے یہ بات بھی مشہور ہے کہ ”باادب با نصیب بے ادب بے نصیب“
شیطان نے بھی بے ادبی کی تھی یعنی حضرت آدم علیہ
السلام کی بے ادبی کی جب کہ یہ معلم الملکوت تھا یعنی فرشتوں کا
سردار ، یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس
قدر مقرب تھا مگر حکم الہی کی نافرمانی کی تو اس کی برسوں کی عبادت ختم ہوگئی اورہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہوگیا
ہمیں بھی شیطان کے اس برے انجام سے ڈر جانا چاہیے اور جن جن کی اللہ پاک نے ادب کر نے کا حکم دیا ادب کرنا چاہیے، اور ادب کرنے سے تو ایمان جیسی
دولت بھی مل جاتی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ادب کرنے سے جادو گروں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی،
ہمیں انبیا کرام کے ساتھ ساتھ علمائے کرام کی بھی عزت کرنی چاہیے۔
علما ہی تو دین اسلام
لوگوں تک پہنچاتے ہیں، بدقسمتی سے آج کل
ان کی عزت لوگوں کے دلوں سے ختم کی جارہی ہے یاد رکھیے علما ہی انبیا کے وارث ہیں،
ادب کرنے کی وجہ سے ہی ولایت کا درجہ بھی مل جاتا ہے۔
حضرت بشر حافی جو کہ
ولایت سے پہلے ایک شرابی تھے ، بس انہوں نے اللہ پاک کے نام کی یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تعظیم کی جس کی وجہ سے اللہ پاک نے ولایت کا
ایسا درجہ عطا فرمایا کہ جانور بھی آپ کی تعظیم کی خاطر راستے میں گوبر نہ کرتے
کیونکہ آپ رحمۃ اللہ
علیہ ننگے پاؤں ہوا کرتے تھے بزرگان دین کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ان کی زندگیاں ادب سے بھری ہوتی ہیں،
اعلیٰ حضرت سادات کرام کا بے حد ادب فرماتے جب بھی سادات کرام کو کچھ پیش کرنا
ہوتا ڈبل حصہ عطا فرماتے، ہمیں بھی ان کی زندگی سے سیکھنا چاہیے ۔
اسلام میں مسجد کے آداب بھی سکھانا ہے ملفوظات
اعلیٰ حضرت میں مسجد کے اداب بیان کیے چند ایک
پیشِ خدمت ہے۔
مسجد میں دوڑنا یا
زور سے پاؤں رکھنا جس سے دھمک پیدا ہو،
منع ہے ۔
مسجد میں چھینک آئے تو
کوشش کریں آؤاز نہ نکلے حدیث پاک ہیں ہے ۔
مفہوم حدیث: اللہ
عزوجل کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد میں زور سے چھینک کو ناپسند فرماتے۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
کردم
از عقل سوالے کہ بگو ایمان چیست
عقل
در گوش دلم گفت کہ ایمان ادب است
میں
نے عقل سے سوال کیا کہ تو یہ بتا کہ
"ایمان" کیا ہے؟ عقل نے میرے دل کے کانوں میں کہا ایمان ادب کا نام
ہے۔(فتاوی رضویہ ج23ص393)
پیارے
اسلامی بھائیوں ! ادب سرا سر دین ہے ادب چراغ راہ مبین ہے ادب رضائے العالمین ہے ادب ہے تو دین ہے ادب نہیں تو کچھ
نہیں ادب کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا:
ادب
تاجیست از فضل الٰہی
بنہ
برسر برو ہر جا کہ خواہی
ترجمہ
: ادب اللہ کے فضل کا
تاج ہے سر پے رکھ اور جس جگہ چاہے تو جا سکتا ہے
حضرت منصور بن عمار
کا انداز ادب:
حضرت
سیدنا منصور بن عمار رحمۃ اللہ علیہ کی توبہ کا سبب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ ان کو
راہ میں کاغذ کا ٹکڑا ملا جس پر بسم اللہ
الرحمٰن الرحیم لکھا تھا۔ انہوں نے ادب سے رکھنے کی کوئی مناسب جگہ نہ پائی
تو اسے نگل لیا۔ رات خواب دیکھا کوئی کہہ رہا ہے اس مقدس کاغذ کے احترام کی برکت
سے اللہ نے تجھ پر
حکمت کے دروازے کھول دیئے۔(فیضان سنت ص 113)
سیدنا امیر
معاویہ کا انداز ادب:
ایک
صحابی حضرت عابس ابن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی
صورت کچھ کچھ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے
ملتی تھی جب وہ تشریف لاتے حضرت امیر معاویہ رضی
اللہ عنہ تخت سے تعظیماً سیدھے کھڑے ہو جاتے۔(ملفوظات اعلی حضرت ص377
مطبوعہ العلمیہ)
ایمان کی حفاظت کا نسخہ:
حضرت
علامہ ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ سے منقول ہے حضرت سیدنا جنید بغدادی علیہ الرحمۃنے فرمایا محفل میلاد میں ادب و تعظیم کے ساتھ حاضری دینے والے کا ایمان
سلامت رہے گا۔(فیضان سنت ص 112)
بے ادبی کی نحوست:
تفسیرِ
روح البیان میں ہے کہ پہلے زمانے میں جب کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا
تھا تو اللہ اسے (اس کی
بے ادبی کی وجہ سے) زمین میں دھنسا دیتا تھا۔
ایک
اور جگہ نقل ہے کہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت صلی
اللہ علیہ وسلم میں عرض کی کہ میں فاقہ کا شکار رہتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ
تو کسی بوڑھے شخص کے آگے چلا ہوگا۔ (روح البیان پارہ 17۔آداب مرشد کامل ص 25)
محفوظ
خدا رکھنا سدا بے ادبوں سے
اور
مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو
بے ادبی کا وبال :
شیطان
نے لاکھوں سال اللہ پاک کی
عبادت کی ایک قول کے مطابق چھ لاکھ سال عبادت کی اور وہ صرف ایک بے ادبی کی وجہ سے
چھ لاکھ سال کی عبادت ضائع کر بیٹھا اور وہ بے ادبی حضرت آدم
علیہ السلام کی تعظیم نہ کرنا تھا ۔
(
ادب کی اہمیت از مفتی امین صاحب ص26 مطبوعہ جمیعت اشاعت اہلسنت)
اسی
لیے قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا" وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ
تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)تَرجَمۂ کنز الایمان: اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس
میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور
تمہیں خبر نہ ہو۔(الحجرات ۔2)
خاموش
بھری محفل میں چلانا اچھانہیں
ادب
پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
ادب ایسے وصف کا نام
ہے جس کے ذریعے انسان اچھی باتوں کی پہچان حاصل کرتاہے، یا اچھے اخلاق اپناتا ہے۔
حضرت سیدنا ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیر ی علیہ الرحمۃ
فرماتے ہیں ادب کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان بارگاہِ الہی
میں حضوری کا خیال رکھے۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں
ارشاد فرماتا ہے: قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ
اَهْلِیْكُمْ نَارًا ترجمہ کنزالایمان ۔ اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ
سے بچاؤ۔(پارہ ۲۸، سورہ التحریم آیت۶)
اس آیت مبارکہ کی
تفسیر میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:مطلب یہ ہے کہ اپنے گھر والوں کو دین اور آداب
سکھاؤ۔
مزید فرماتے ہیں
حقیقت ادب یہ ہے کہ انسان میں اچھی عادات جمع ہوجائیں اور حضرت سیدنا عبداللہ بن مبار ک علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :ہمیں زیادہ علم کے مقابلے میں تھوڑے ادب کی زیادہ ضر ورت ہے۔(رسالہ قشیریہ باب الادب ص ۳۱۵)
شریعت مطہرہ میں ادب
کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے ایک مسلمان کو چاہیے کہ اپنے اخلاق و آداب کو استوار
کرنے کی کوشش کرے، ہر مسلمان اپنی زندگی میں ایسے عمدہ و بہترین نمونے کا محتاج
ہے، جس کے سانچے میں زندگی ڈھال كر اپنے اخلاق و آداب کو شریعت کے مطابق بناسکے۔
حضور صلی
اللہ تعالٰیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے میرے رب
نے اچھا ادب سکھایا۔‘‘ (الجامع الصغیر سیوطی ، باب الھمزہ الحدیث، ۳۱۰)
حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ادب سیکھنے اور سکھانے کا حکم دیا، اور ہمیں چاہیے
کہ خود بھی اخلاق و ادب سیکھیں اور اپنے
بچوں کو بھی اس کی تعلیم دیں، زندگی کے ہر شعبہ میں ادب لازمی ہے وہ چاہے علم حاصل
کرنا ہو یا دنیا یا دین کے کسی بھی شعبہ میں ہو، اخلاق و آداب لازمی ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں،:ولادین
لمن لا ادب لہ ترجمہ : یعنی جو
باادب نہیں اس کا کوئی دین نہیں، (فتاویٰ رضویہ ج ۲۸،ص ۱۵۹)
دین کے آداب کا بہت
بڑا حصہ ہے اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
آداب کے متعلق امام
محمد بن محمد غزالی علیہ الرحمۃ کا بہت ہی خوبصورت رسالہ ہے جس کا نام الادب فی
الدین ہے یہ رسالہ عربی میں ہے اس کا ترجمہ دعوت اسلامی کے شعبے
المدینہ العلمیہ نے کیا ہے جس کا نام آداب دین رکھا ہے، اس کا مطالعہ کرنا بہت مفید ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاق و آداب سیکھنے اور سکھانے کی توفیق دے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
ہمارا
پیارا مذہب، دینِ اسلام ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم مقدس ہستیوں، متبرک
مقامات اور با برکت چیزوں کا احترام کریں اور بے اَدَبی اور بے اَدَبوں کی صحبت سے
اپنے آپ کو دور رکھیں۔ جیسا کہ منقول ہے کہ :
” مَا وَصَلَ مَنْ وَصَلَ إلِّا بالحُرْمَۃ وَمَا سَقَطَ مَنْ
سَقَطَ إلَّا بِتَرْکِ الحرمۃ والتَعْظَیْمِ“ یعنی جس نے
جو کچھ پایا ادب و احترام کے سبب سے پایا اور جس نے جو کھویا ادب و احترام نہ کرنے
کی وجہ سے ہی کھویا۔۔ ( تعلیم المتعلم طریق التعلم، ص42) شاید اسی وجہ سے یہ بات مشہور ہے کہ " با
ادب با نصیب، بے اَدَب بے نصیب "
محفوظ سدا رکھنا شہا! بے اَدَبوں سے.
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے اَدَبی ہو۔
( وسائل بخشش)
الحمد للّٰہ ہم
مسلمان ہیں اور مسلمان کیلئے بنیادی طور پر (Basically) اللّٰہ
اسکے رسولوں اسکی کتابوں، فرشتوں، قرآنِ کریم، علماءِ کرام وغیرہم کی تعظیم و تکریم
اور ان کا ادب کرنا لازم ہے۔ آئیں اسی
ضمن میں نامِ خدا، انبیاء کرام وغیرہم کی تعظیم کے متعلق روایات ملاحظہ کرتے ہیں۔
نامِ خدا کے ادب کی برکت:
چنانچہ حضرت سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو
نامِ خداوندی کا ادب کرنے سے کیسا عظیم مقام حاصل ہوا کہ آپ خود فرمایا کرتے
کہ" مجھے وہ مقام حاصل ہوا کہ 100 سال کی عبادت و ریاضت سے بھی وہ مقام حاصل
نہ ہو سکتا تھا۔
(حضرات القدس، مکاشفہ،35، جز،2، ص،113)
انبیاء کرام کا ادب و
احترام: اللّٰہ پاک
کے بعد تمام مخلوق میں انبیاء کرام علیہم السلام
افضل و اعلیٰ ہیں، ان کی تعظیم و ادب ضروری اور ان کی شان میں ادنی سی توہین یعنی
گستاخی و بے اَدَبی کفر ہے، جیسا کہ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: کسی نبی کی ادنی توہین یا
تکذیب (یعنی جھٹلانا) کفر ہے۔۔ (بہار شریعت، حصہ،1، 1 /47)۔
علماء کرام کا ادب
و احترام: انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ علمائے کرام رحمہم
اللّٰہ السلام کا ادب بھی ضروری ہے۔ یاد رکھئے! علماء وارثِ انبیاء ہیں کیونکہ
یہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی میراث یعنی
علمِ دین حاصل کرتے اور اس کی ذریعے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیثِ پاک
میں ہے: زمین پر علماء کی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن سے کائنات کی تاریکیوں میں
رہنمائی حاصل کے جاتی ہے۔ (مسند امام احمد، مسند انس بن مالک، 4/ 314،حدیث،
12600)۔
قرآنِ کریم کا ادب و
احترام: قرآنِ کریم کا سب سے
بڑا ادب جو ہر مسلمان پر انتہائی واجب ہے وہ یہ کہ طہارت و پاکی کے بغیر (Without
Cleanliness & Purity) اسے ہر گز ہر گز نہ چھوئے جیسا کہ نور الٕایضاح
میں ہے " اگر وضو نہ ہو تو قرآن عظیم چھونے کیلئے وضو کرنا فرض ہے۔ (نور الإیضاح،ص،59)
مذکورہ صرف چند امور بنیادی طور پر جن کا ادب
ضروری ہے وہ بیان کیے گئے۔ جبکہ مسلمان پر
ہر وہ چیز جس کا دینِ اسلام سے تعلق ہو اس کا ادب کرنا چاہیے۔
اللّٰہ پاک
ہمیں با ادب بنائے اور بے ادبی اور بے اَدَبوں کی صحبت سے ہمیں اور ہماری نسلوں کو
بھی محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللّٰہ علیہ وسلم۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
انسان اور جانور میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ ہے ادب ہے ۔ یہ وہ
تحفۂ آسمانی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ
نے انسان کو بطورِ خاص عطا فرمایا۔
ادب وآداب اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرۂ امتیاز ہے گو کہ دیگر
اقوام یا مذاہب نے اخلاق و کردار اور ادب و آداب کو فروغ دینے میں ہی اپنی عافیت
جانی مگر اس کا تمام تر سہرا اسلام ہی کے سر جاتا ہے جس نے ادب و آداب اور حسن
اخلاق کو باقاعدہ رائج کیا اور اسے انسانیت کا اولین درجہ دیا۔
یہی وجہ ہے کہ یہ بات
کی جاتی ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں زبان (یعنی اخلاق) سے پھیلا۔ حسنِ اخلاق اور
ادب پر لاتعداد احادیث مبارکہ ہیں کہ چھوٹے ہوں یا بڑے‘ سب کے ساتھ کس طرح ادب سے
پیش آنے کی تلقین اور ہدایت فرمائی گئی ادب اور اخلاق کسی معاشرے کی بنیادی حیثیت
کا درجہ رکھتا ہے جو معاشرے کو بلند تر کر دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا
ہے۔ادب سے عاری انسان اپنا مقام نہیں بنا سکتا۔ باادب بامراد اور بے ادب بے مراد
ہوتا ہے۔ سید ابو بکر غزنوی زندگی بھر خلوص اور گرم جوشی سے سیرت طیبہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ان شفاف چشموں سے لوگوں کو سیراب کرنے کے لیے
کوشاں رہے۔ ان کے لیکچرز، خطبات اور تحریریں اسلامی آداب، شائستگی اور قرینوں کی
تعلیم کے پاکیزہ اور جانفزا جھونکوں سے بھر پور ہوتے۔ ۔ یہی آداب ہیں جنہیں اخلاق
بھی کہا جاتاہے اور اخلاق ہی میزان عمل کاسب سے وزنی اثاثہ ہے
ادب کی مثالوں میں مشہور ترین مثال حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ہے جنہوں نے اپنے والد حضرت ابراہیم
کے حکم پر اپنی جان کا تحفہ موت کی طشتری میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا۔ بقولِ شاعر:
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
ہاں اس میں کوئی
شبہ نہیں کہ بھوک اور مفلسی انسان کی نفیس حسوں کی قاتل ہے۔’’
چنانچہ اگر کوئی قوم دنیا میں عزت پانا چاہتی ہے تو پہلے وہ
اپنے لیے بانصیب افراد ڈھونڈ کے لائے۔ اگر بانصیب لوگ چاہییں تو پہلے باادب لوگ
لاؤ ! اگر باادب لوگ چاہییں تو پہلے قوم سے بھوک ، افلاس اور غربت کو دور کرو۔
آج اگر ہم قعرِ مذلت میں گرے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ
ہم ادب کرنا بھول گئے ہیں۔
نوٹ: یہ
مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی
ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
یہ بات حقیقت ہے کہ ادب کے سبب انسان ترقی وعروج پاتا ہے ،اسی ادب کی بدولت انسان
دنیا و آخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہو تا او ر بے ادبی کے سبب ذلت و رسوائی کے عمیق گھڑے میں گر سکتا ہے ۔ ،اسی ادب کی بدولت موسی علیہ السلام کے مقابلے
میں آنے والے جادوگروں کو کلمہ نصیب
ہوا۔اسی لئے کہا جاتاہے ”با ادب با نصیب
“مزید چند واقعات ملاحظہ فرمائیں ۔
بسم اللہ
شریف کے ادب کی برکت:
حضرتِ سیِّدُنا مَنْصُور بن عَماّر رحمۃ اللہ علیہ کی توبہ کا سبب یہ ہوا کہ آپ نے بسم اللہ
الرحمن الرحیم لکھا ہواکاغذ رکھنے کی کوئی مناسب جگہ نہ پائی تو نگل گئے
۔رات کو خواب میں کسی نے کہا: مُقَدَّس کاغذ کے اِحتِرام کی بَرَکت سے اﷲ پاک نےتجھ پر حِکمت کے دروازے کھول
دیئے۔(الرسالۃ القشیریۃ ص48)
منقول ہے کہ ایک نیک شخص کے شَرابی بھائی کا انتقال نشے کی حالت میں ہوا خواب میں اسے دکھا گیا اور پوچھا تجھے جنت
کیسے ملی ؟کہا کہ ایک کاغذدیکھاجس پر بِسْمِ
اﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم تَحریرتھا،میں نے اُسے اُٹھایا اورنِگل
لیا۔(پھر انتقال ہو گیا )جب قَبْرمیں پہنچا تو مُنْکَرنکَیرکے سُوالات پرمیں نے
عرض کیا : آپ مُجھ سے سُوالات فر ما رہے ہیں، حالانکہ میرے پیارے پَروَرْدگار کاپاک نام میرے پیٹ میں موجودہے ۔ کسی نِدادینے
والے نے نِدا دی: صَدَق عَبْدِی قَدْغَفَرْتُ لَہٗ یعنی میرابندہ سچ
کہتاہے بے شک مَیں نے اِسے بخش دیا۔''
(نزہۃ المجالس1/41)
اساتذہ کا ادب:
جو اپنے اساتذہ کا ادب کرتا ہے اور ان کی چاہت کو
پورا کرتا ہےوہ کامیابی کی منزلیں طے کرتا ہے اور جو ان کا دِل دکھاتا ہے، ان کی
غیبت کرتا ، ان کی بیٹھنے کی جگہ کی بےادبی کرتا یا بلاوجہ ان سے بغض رکھتا ہےوہ
نہ صرف علم کی مٹھاس سے محروم رہتا ہےبلکہ اسے ناکامیوں کا منہ دیکھنا
پڑتاہے۔ہمارے بڑے بڑے اَئمہ و فقہاء جن کا چہار سو شہرہ ہے،جن کا کلام بطورِ دلیل
پیش کیا جاتا ہےاور جن کا نام بہت احترام سے لیا جاتا ہےان کی سیرت میں استاد کے ادب کا پہلو بہت نمایاں نظر آتا
ہے۔
جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اذیت پہنچی،وہ علم کی
برکات سے محروم رہے گا۔
(فتاویٰ رضویہ،10/96،97)
اپنے اُستاذ کا ادب کریں:
کسی عربی
شاعر نے کہا ہے : مَاوَصَلَ
مِنْ وَصْلٍ اِلاَّ بِالْحُرْمَۃِ وَمَاسَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلَّا بِتَرْکِ الْحُرْمَۃِ، یعنی
جس نے جو کچھ پایا اَدب واحترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ
اَدب واحترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا ۔
حضرت سہل بن
عبداللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ
سےکوئی سوال کیا جاتا، تو آپ پہلو تہی فرمالیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ فرمایا: آج جو کچھ پوچھنا چاہو،مجھ سے پوچھ
لو۔''لوگوں نے عرض کی، ''حضور!آج یہ کیا ماجرا ہے؟آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں
دیا کرتے تھے؟'' فرمایا،''جب تک میرے اُستاد حضرت ذوالنون مصری رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ حیات تھے،ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے
سے گریز کیاکرتا تھا۔''
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے آگے بڑھ کر زید بن ثابت رضی اللہ
عنہ کی سواری کی رکاب تھام لی۔یہ دیکھ کر حضرت زیدرَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا،''اے رسول اللہ
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمَ کے چچا کے
بیٹے!آپ ہٹ جائیں۔'' اس پر حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا،''علما
واکابرکی اسی طرح عزت کرنی چاہیئے۔''(جامع بیان العلم وفضلہ،ص 116)
کتابوں کا ادب:
شيخ امام حلوانی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ميں نے علم کے خزانوں کو
تعظيم و تکريم کرنے کے سبب حاصل کيا وہ اس طرح کہ ميں نے کبھی بھی بغيروضو کاغذ کو
ہاتھ نہيں لگايا۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم ،ص 52)
ایک مرتبہ شيخ شمس الائمہ امام سرخسی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا پیٹ خراب ہو گيا۔ آپ کی عادت تھی کہ
رات کے وقت کتابوں کی تکرار اور بحث و مباحثہ کيا کرتے تھے ۔ ایک رات پيٹ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو17 بار وضو
کرنا پڑا کیونکہ آپ بغير وضو تکرار نہيں کيا کرتے تھے۔(تعلیم المتعلم طریق
التعلم،ص52)
“باادب با نصیب ”کے مقولے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی
کتابوں ، قلم، اور کاپیوں کی تعظیم کریں ۔ انہیں اونچی جگہ پر رکھئے ۔ دورانِ
مطالعہ ان کا تقدس برقرار رکھئے۔ کتابیں اُوپر تلے رکھنے کی حاجت ہوتو ترتیب کچھ
یوں ہونی چاہے ، سب سے اُوپر قرآنِ حکیم ، اس کے نیچے تفاسیر ، پھر کتبِ حدیث ،
پھر کتبِ فقہ ، پھر دیگر کتب ِ صرف ونحو وغیرہ ۔ کتاب کے اوپر بلاضرورت کوئی دوسری
چیز مثلاً پتھر اور موبائل وغیرہ نہ رکھیں ۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی
ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
شرفِ انسانیت یہ ہے
کہ انسان ادب کے زیور سے آراستہ ہو، جس انسان میں ادب کا جوہر نہ ہو وہ انسان نما
حیوان ہوا کرتا ہے۔ اصلاحی تعلیمات مکمل طور پر ادب ہی پر مبنی ہیں او رادب ہی کی
تعلیم و تلقین کرتی ہیں۔
اس کارخانہ قدرت میں
جس کسی کو جو نعمتیں ملیں ادب ہی کی بنا پر ملی ہیں اور جو ادب سے محروم ہے حقیقتا
ایسا شخص ہر نعمت سے محروم ہے، شاید اسی لیے کسی دانش مند نے کہا ہے کہ ”باادب
بانصیب اور بے ادب بے نصیب “
عرض یہ کہ ادب ہی ایک
ایسی نعمت ہے جو انسان کو ممتاز بناتی ہے۔
جس طرح ریت کے ذروں میں موتی اپنی چمک اور اہمیت نہیں کھوتا اسی طرح مودب شخص
انسانوں کے جم غفیر میں اپنی شناخت کو قائم و دائم رکھتا ہے۔
حدیث پاک میں ہے کہ
اصحابِ کہف اللہ والوں سے محبت کرنے
کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کتے کو
انسانی شکل میں جنت میں داخل فرمائے گا اب دیکھیں اللہ والوں سے محبت کرے، اگر نجس جانور وہ تو وہ جنت میں داخل
ہوجائے اور بلعم بن باعورا جس نے نبی کی بے ادبی کی حضرتِ موسیٰ علیہ
السلام کی شان میں گستاخی کی ، انسان ہونے کے باوجود فرمایا کہ
گستاخی کی وجہ سے یہ جہنم میں کتے کی شکل میں جائے گا۔
انسان اگر بے ادب ہو
جہنمی ہوجائے اگر کتے جیسا نجس جانور با ادب ہو اور اللہ کے نیک بندوں کا ادب کرنے والا ہو ان سے محبت کرنے والا ہو
تو اللہ تعالیٰ اسے جنتی
بنادے ۔
حضرت سیدنا موسیٰ کلیم
اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام جب اللہ
تعالیٰ کے حکم سے فرعون کو دعوتِ ایمان دینے کے لئے تشریف لے گئے
تو فرعون نے آپ علیہ السلام کے معجزات کو دیکھ
کر آپ علیہ السلام پر ایمان لانے کے
بجائے آپ کے مقابلے کے لیے اپنی سلطنت کے جادو گروں کو جمع کیا، جب مقابلےکا وقت
ہوا تو ان کے جادوگروں نے حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہا اے موسی یا تو آپ اپنا اعصا ڈالیں یا ہم اپنے جادو کی
لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکیں، ان کا یہ کہنا حضرت سیدنا موسیٰ علیہ
السلام کے ادب کے لیے تھا کہ وہ بغیر آپ کی اجازت کے اپنے عمل میں
مشغول نہ ہوئے، حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، تم پہلے ڈالو جب انہوں نے
اپنا سامان ڈالا جس میں بڑے بڑے رسے اور لکڑیاں تھیں تو وہ اژدھے نظر آنے لگے اور
میدان ان سے بھرا ہوا معلوم ہونے لگا، پھر اللہ کے حکم سے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا Stap ڈالا تو وہ ایک عظیم الشان اژدھا
بن گیا، اور جادو گروں کی سحر کاریوں کو ایک ایک کرکے نگل گیا، پھر جب موسیٰ علیہ
السلام نے اپنے دست مبارک میں لیا تو ہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ یہ
معجزہ دیکھ کر ان جادوگروں پر ایسا اثر ہوا کہ وہ بے اختیار ’’اٰمنا برب العالمین ‘‘ یعنی ہم
تمام جہانوں کے ر ب پر ایمان لائے کہتے ہوئے سجدے میں گر گئے، جادو گروں نے حضرت موسیٰ
علیہ السلام کا ادب کیا کہ آپ کو مقدم کیا اور آپ کی اجازت کے بغیر
اپنے عمل میں مشغول نہ ہوئے اس ادب کا عوض انہیں یہ ملا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان او رہدایت کی دولت سے سرفراز فرمادیا۔
گہرا بہت ہے رشتہ ادب
اور نصیب کا
جس طرح بھوک پر ہے حق
غریب کا
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
با ادب
با نصیب
ادب ایسے وصف
کا نام ہے جس کے ذریعے انسان اچھی باتوں کی پہچان حاصل کرتا ہے یا اچھے اخلاق اپناتا
ہے اور ہمارا مذہب دین اسلام تو ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم مقدس ہستیوں ،
متبرک مقامات اور بابرکت چیزوں کا ادب کریں گزشتہ دور میں ہر مسلمان با ادب ، حیادار
، خوش اخلاق اور سنت سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یادگار ہوا کرتا تھا ۔
اولاد اپنے
والدین ، شاگرد اپنے استاذ سے مرید اپنے پیر
سے آنکھ ملانا تو دور کی بات ان کے سامنے آنے میں جھجھک محسوس کرتے تھے ادب کی وجہ
سے ان کے سامنے اپنی آواز کو دباتے تھے اور بڑوں کو اچھے القاب سے پکارتے تھے اور یہی نہیں انبیا ئےکرام اولیائے کرام ،مساجد، قرآن پاک، مزارات ، کتابیں اور اللہ
والوں سے نسبت رکھنے والی چیزوں کا خوب ادب و احترام کیا جاتا تھا، لیکن اس زمانے میں اکثریت ادب و احترام سے محروم نظر آتی ہے ۔نہ صرف والدین،
استاذ اور پیر کے ادب و احترام میں کمی آ
رہی ہے بلکہ ان سے زیادہ مقدس ہستیوں کا ادب و احترام کم ہو رہا ہے شاید ان
بے ادبیوں کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ترقی
کا رجحان نظر نہیں آ رہا اور گھروں میں خوشحالی نظر نہیں آتی اور ہم برکتوں سے
محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
منقول
ہے :
جس نے جو کچھ
پایا ادب و احترام کے سبب پایا اور جس نے جو کچھ کھویا ادب و احترام نہ کرنے کی
وجہ سے کھویا شاید اس لیے یہ بات مشہور ہے با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب ۔
اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے :تَرجَمۂ کنز الایمان: اپنی
جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ ۔(پ 28 ،تحریم: 6)
اس آیت
مبارکہ کی تفسیر میں حضرت سیدنا عبد اللہ بن
عباس رضی
اللہ عنہما نے فرمایا: مطلب یہ ہے اپنے گھر والوں کو دین اور آداب سیکھاؤ (الرسا لۃ القشیریۃ،باب الادب ،ص
٣١٥)
نا
م پاک کا ادب کرنے سے بلند مقام حاصل ہوا:
حضرت سیدنا
مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ
ایک دن بیت الخلا میں بڑا سا مٹی کا پیالہ پایا غور سے دیکھا تو بے تاب ہو گئے کیونکہ اس پیالے پر لفظ اللہ کندہ تھا(کسی خادم نے بے دھیانی میں
رکھ دیا تھا ) لپک کر پیالہ اٹھا لیا اور خادم سے پانی کا لوٹا منگوا کر اپنے دست مبارک سے خوب مَل مَل کر دھو کر اس کو پاک
کیا پھر ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر ادب کے ساتھ اونچی جگہ پہ رکھ دیا ایک دن اللہ پاک کی طرف سے آپ
علیہ الرحمۃ کو الہام فرمایا گیا کہ جس طرح تم نے میرے نام کی تعظیم کی میں
بھی دنیا و آخرت میں تمہارا نام اونچا کرتا ہوں آپ علیہ
الرحمۃ فرماتے ہیں: کہ اللہ کریم کا نام پاک کا ادب کرنے سے مجھے وہ مقام حاصل
ہوا جو سو (100) سال کی عبادت و ریاضیت سے بھی حاصل نہ ہو سکتا تھا ۔
ادب
کے متعلق بزرگوں کے اقوال:
حضرت سیدنا
ابو علی دقّاق علیہ الرحمۃ
فرماتے
ہیں: بندہ اطاعت سے جنت تک اور اطاعت الہی میں ادب کرنے سے اللہ پاک
تک پہنچ جاتا ہے۔“( الرسالۃ القشیریۃ ،
باب الا دب ، ص ٣١٦)
حضرت سیدنا
داتا علی ہجویری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ”دینی اور دنیوی تمام امور کی زینت ادب ہے اور مخلوقات کو ہر مقام پر ادب کی ضرورت ہے۔“ (کشف المحجوب،
باب المشاہد ہ ،ص ٣٦٩)
قتاویٰ رضویہ
میں امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ” کہ جو با ادب نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔“ (فتاویٰ رضویہ، ج ٢٨ ،ص ١٥٨)
جو قابل ادب
چیزوں اور ہستیوں کا ادب کرتے ہیں ان کے نصیب اچھے ہوتے ہیں دنیا اور آخرت میں
برکتیں پانے میں کامیاب ہوتے ہیں اللہ کریم ہمیں ان بزرگوں کا صدقہ عطا فرمائے ہمیں با ادب با نصیب بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
انسانی زندگی
کے شب و روز کے اعمال مثلاً رہن سہن، میل جول اور لین دین کے عمدہ اصول و ضوابط
کو آداب کہا جاتا ہے۔
ان آداب کی پابندی سے ہی انسان تہذیب
یافتہ اور شائستہ لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ قراٰنِ
مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السَّلام اور جادوگروں کا واقعہ بیان کیا گیا۔
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ
اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ(۱۱۵)
تَرجَمۂ کنزُالایمان:بولے اے موسیٰ یا تو آپ ڈالیں یا ہم
ڈالنے والے ہوں۔([1])
تفسیرِ صِراطُ
الجنان میں ہے کہ جادوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ السَّلام کا یہ ادب کیا کہ آپ کو مقدّم کیا اور آپ کی اجازت کے بغیر
اپنے عمل میں مشغول نہ ہوئے، اس ادب کا عوض انہیں یہ ملا کہ اللہ پاک نے انہیں ایمان و ہدایت کی دولت سے سرفراز فرما دیا۔([2])
٭تمام نبیوں کے
سرور، حُضورِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے اَنس! بڑوں کا ادب و
احترام اور چھوٹوں پر شفقت کرو، تم جنّت میں میری رفاقت پالو گے۔([3])
٭مشہور
فقہی امام، عاشقِ رسول حضرتِ سَیّدُنا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے 17برس کى عمر سے ہی دَرسِ حدیث دینا شروع
کردیا تھاحالانکہ 17سال کی عمر میں تقریباً جوانى کا آغاز ہی ہوتا ہے۔ جب حدىثِ
پاک سنانى ہوتى تو پہلے غسل کرتے، چوکى یعنی
مسند بچھائى جاتى اور آپ عمدہ لباس پہن کر خوشبو لگا کر نہایت عاجزى کے
ساتھ اپنے مُبارَک کمرے سے باہر تشرىف لا کر اس چوکی پر بااَدب بىٹھتے۔ دَرسِ حدىث
کے دَوران کبھى پہلو نہ بدلتے جىسے ہم لوگ بیٹھے بیٹھے کبھی ٹانگ اونچى کرتے ہیں اور کبھی نىچے تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ دَرسِ حدىث کے دَوران کبھى پہلو نہ بدلتے تھے۔ جب تک اس مجلس مىں اَحادىثِ
مُبارَکہ پڑھى جاتىں تو انگىٹھى مىں عُود اور لوبان سلگتا رہتا، خوشبو آتی
رہتى۔([4])
٭اسی طرح ہمارے اسلافِ کرام بھی ادب کو اپنی زندگی کا حصہ
بنا چکے تھے۔ ”اَلخَیراتُ الحِسان“ میں ہے: حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ زندگی بھر اپنے استاذِ محترم سیِّدُنا امام حمّاد رحمۃ اللہ علیہ کے مکانِ عَظَمت نشان کی طرف پاؤں پھیلا کر نہیں لیٹے
حالانکہ آپ رحمۃ
اللہ علیہ کے مکانِ عالی شان اور استاذِ محترم رحمۃ اللہ علیہ کے مکانِ عظیمُ الشّان کے درمِیان تقریباً سات گلیاں پڑتی
تھیں۔([5])
کسی دانا کا قول ہے:مَا وَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَّا بِالْحُرْمَۃِ یعنی جس نے جو کچھ پایا اَدب واحترام کرنے کےسبب ہی پایا ۔([6])
ادب وہ انمول چیز ہے کہ جس کی تعلیم خود ربِّ کائنات نے
اپنے مدنی حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ارشاد
فرمائی چُنانچہ نبیِّ اکرم، نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اَدَّبَنِيْ رَبـِّيْ فَاَحْسَنَ تَاْدِيْبِـيْ یعنی مجھے میرے ربّ نے ادب سکھایا اور بہت اچّھا ادب
سکھایا۔([7])
مشہور کہاوت ہے
کہ”با ادب با نصیب“ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دِل و جان سے اللہ پاک کے ولیوں کا ادب بجالائے کیونکہ ادب
انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابیاں اور عزّت و شہرت دلواتا ہے۔
بنتِ عبدالجبار بلوچ عطاریہ مدنیہ
(جامعۃ ُالمدینہ
فیض ِمکہ کراچی)
حكایت:
امام بخار ی رحمۃ اللہ علیہ کی علمی شہرت اورقدر و منزلت سے طلبا خوب واقف ہیں، جب امام
محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ جوامام ربانی (از آئمہ احناف) کے نام سے مشہور ہیں کی خدمت میں تعلیم کے لیے حاضر ہوئے
تو آپ علیہ
الرحمۃ کی طبیعت کو استاذ مکرم نے دیکھ کر فیصلہ فرمایا کہ
بخاری تم بجائے فقہ، حدیث کا متن سیکھو، با ادب شاگرد با ادب سر جھکاتے ہوئے فقہ چھوڑ کر حدیث شریف پڑھنے لگ
گئے، امام زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ استاد صاحب کے فرمان پر چلنے کی برکت ہے
کہ آج امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی لکھی ہوئی کتاب قرآن مجید کے بعد اول درجہ
رکھتی ہے۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم ص ۵۵)
اس کارخانہ قدرت میں
جس کو جو نعمتیں ملی آدب کی بنا پر ملی ہیں اور جو ادب سے محروم ہے حقیقتاً ایسا شخص ہر نعمت سے محروم
ہے، کسی شاعر نے کہا:
ما وصل من وصل الابالحرمة وما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ
یعنی جس نے جو کچھ
پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا
اور جس نے جو کچھ کھویا ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب ، طالبِ علم
کون، صفحہ ۵۵) شاید اسی وجہ سے یہ بات مشہور ہے کہ ”باادب بانصیب بے ادب بے نصیب“
استاد
کا احترام کر نے کی برکت:
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ایک مدرسے میں
تشریف فرما تھے ، شاگرد بیٹھے ہوئے تھے سلسلہ درس و تدریس جاری تھا ،نہ جانے کیا
خیال آیا کہ حکم دیا ایک اونٹ لایا جائے جب اونٹ آگیا شاگردوں سے فرمایا اسے کوٹھے(چھت) پرپہنچادو ، عجیب و غریب
حکم سن کر طلبا ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ، بھلا اونٹ چھت پر کیسے چڑھ سکتا ہے؟سب سوچتے رہے لیکن دو طالبِ علم
جن میں ایک کا نام یوسف اور دوسرے کا نام محمد ہے آگے بڑھے اونٹ کو رسیوں سے باندھ کر کھینچنا شروع کردیا۔
امام علیہ الرحمۃ نے دیکھا تو فرمایا بس اب چھوڑ دو اونٹ کو چھت پر چڑھانا
مقصود نہیں تھا بلکہ میں تمہاری فرمانبرداری کا امتحان لینا چاہتا تھا۔شاباش ہے
تمہاری ہمت پر اور آفرین ہے اس اطاعت اور فرمانبرداری پر اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں اس اطاعت و فرمانبرداری کے بدلے علم و عزت عطا فرمائے اور پھر استاد کی دعا قبول ہوئی آج
دنیا ان طالبِ علموں کو امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ (آداب استاد و شاگرد صفحہ۹)
ادب استاد ینی کا
مجھے سرکار عطا کردو
دلوں جاں سے کروں ان
کی اطاعت یارسول اللہ
(وسائل بخشش )
اطاعت
سے بہتر کیا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ الحر
مة خیر من الطاعة یعنی ادب و احترام کرنا اطاعت کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔(راہِ
علم ص ۲۹)
غرض یہ کہ ادب ایک
ایسی صفت ہے جو انسان کو ممتاز بناتی ہے، شرف انسانیت یہ ہے کہ انسان ادب کے زیور سے آراستہ ہو جس انسان میں ادب کا جوہر نہیں وہ انسان نما
حیوان ہے۔
ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہ اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے میرے پیارے بیٹے
کوئی بھی عمل کرو وہ عمل ادب کے ساتھ کرو، اور اس انداز سے کرو کہ عمل آٹے میں نمک
کے برابر ہو اور ادب آٹے جتنا ہو۔
(اسلامی آداب، صفحہ
۵۲)
جو ہے باادب وہ بڑا
بانصیب ہے
جو ہے بے ادب وہ
نہایت برا ہے
(وسائل بخشش مترجم، ص
۴۵۴)
طلبائے کرام کو چاہیے
وہ ہر صورت میں اپنے اساتذہ کا ادب و احترام بجالائیں اور ان تمام باتوں سے بچنے
کی کوشش کریں جن سے بے ادبی کا اندیشہ ہو، یاد رکھیے جوطالبِ علم استاد کی بے
ادبیاں کر تا ہے وہ کبھی بھی علم کی روح کو نہیں پاسکتا، اگر وہ بظاہر بہت بڑا
عالم بن جائے تب بھی ایسی خطائیں کرجاتا ہے کہ وہ خود حیران رہ جاتا ہے کہ مجھ سے یہ خطائیں کیسے ہوگئیں، یہ سب استاد
کی بے ادبی کا نتیجہ ہوتا ہے، جو طالب علم اپنے استاد اور دینی کتب کا ادب و
احترام نہیں کرتا وہ علم کی روح سے محروم ہوجاتا ہے۔(حافظہ کمزور ہونے کی وجوہات ص ۱۹)
محفوظ س دا رکھنا شہا
بے ادبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد
نہ کبھی بے ادبی ہو
اللہ عزوجل ہمیں اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (وسائل بخشش مترجم )
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
اسلام ایک روشن دین
ہے، اس نے ہمیں ایک دوسرے کو پہچاننے اور ایک دوسرے کا ادب واحترام کرنے کا درس
دیا ہے، اور ہمیں اپنے والدین، پیرو مرشد ، اساتذہ اور اسی طرح مقدس ہستیوں اور
مقدس مقامات کی تعظیم کا درس دیا ہے، اور جو کوئی بھی ان ہستیوں کا ادب و احترام
بجالایا وہ دنیا میں بھی سرخرو اور شادو آباد ہے اور آخرت میں بھی بلند درجوں پر فائز
ہوگا۔اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد
فرماتا ہے:
آیت ِ
مبارکہ :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ۔
تَرجَمۂ کنز الایمان: ۔ اے ایمان والو ! اللہ
اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔( سورہ حجرات پارہ ۲۶، آیت نمبر ۱،۔۲ )
اس آیت مبارکہ سے
معلوم ہوا کہ کسی معاملے میں سید
عالم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے پیش قدمی نہ کرو اور اس جملے
میں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب اور فرمانبرداری کی طرف اشارہ ہے۔
یہ آیت اس وقت نازل
ہوئی جب چند شخصوں نے عید الاضحی کے دن سید عالم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے قربانی کرلی تو ان کو
حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں(حوالہ تفسیر عطائین)
اسی طرح متعدد احادیث میں ادب و احترام کے بارے میں روایات
درج ہیں چنانچہ حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا۔
حدیث
مبارکہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں:برکت تمہارے اکابرین کے ساتھ ہے۔
اور دوسری جگہ ارشاد
فرمایا: اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں یہ بات
بھی شامل ہے کہ سفید بالوں والے مسلمان اور قرآن کے عالم کا احترام کیا جائے جو قرآن
کے بارے میں غلو نہ کرتا ہو اور اس سے اعراض بھی نہ کرتا ہو نیز انصاف کرنے والے حکمران کا احترام کیا جائے۔( حوالہ
الترغیب والترہیب جلد ۱)
اس حدیث مبارکہ میں
بوڑھے مسلمان قرآن کے عالم اور انصاف کرنے والے حکمران کا ادب اور احترام کرنے کا
حکم ارشاد فرمایا ہے ان کی تعظیم گویا اللہ عزوجل کی تعظیم ہے۔ادب اور احترام کے بارے میں بہت سارے اسلاف کرام کے واقعات موجود ہیں ، وہ ادب ہی کی وجہ سے ولایت کے اعلیٰ مقاموں پر فائز
ہوئے۔
حضرتِ سیدنا بشر حافی
رحمة
اللہ علیہ توبہ سے قبل بہت بڑے شرابی تھے آپ ایک مر تبہ شراب کے نشے
میں دھت کہیں جارہے تھے کہ راستے میں ایک کاغذ پر نظر پڑی جس پر بسم
اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہوا تھا، آپ نے تعظیما اٹھالیا اور عطر لگا کر ایک بلند جگہ پر ادب سے رکھ دیا اسی رات ایک بزرگ
نے خواب میں سنا کہ کوئی کہہ رہا ہے
جاؤ!بشر سے کہہ دو کہ تم نے میرے نام کو معطر کیا اور تعظیم کی ہم بھی تمہیں
پاک کریں گے اسی طرح اس بزرگ نے ۳ ر ات یہی خواب
دیکھا اور یہ بھی سنا کہ یہ پیغام بشر ہی کی طرف ہے جاؤ انہیں ہمارا پیغام دو، وہ
بزرگ نکلے بشر حافی شراب کی محفل میں تھے،
بشر حافی رحمۃ اللہ
علیہ کو فرمانے لگے کہ: اللہ عزوجل کا پیغام لایا ہوں جب آپ کو یہ بات بتائی گئی تو اٹھے فورا ننگے پاؤں باہر تشریف لے آئے پیغام
حق سن کر سچے دل سے توبہ کی اور بلند مقام پر پہنچے آپ مشاہدہ حق کے غلبہ سے ننگے
پاؤں چلا کر تے اسی لیے حافی کے لقب سے مشہور ہوگئے۔(حوالہ تذکرہ الاولیا جز۱، ص ۴)
کروڑوں مالکیوں کے
عظیم پیشوا حضرت سیدنا امام مالک علیہ الرحمۃ زبردست عاشق رسول تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ مدینہ پاک کی گلیوں میں ننگے پاؤں چلا کرتے تھے۔( الطبقات الکبریٰ الشعرنی جز ء اول)
امام مالک رحمۃ
اللہ علیہ گھوڑے پر نہیں چلتے مدینے شریف میں مدینہ کی گلیوں کی تعظیم کرتے اور فرماتے کہ اس
مبارک زمین کو گھوڑے کے قدموں تلے روندوں جس میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں یعنی روضہ مبارکہ ہے۔
ہاں ہاں رہِ مدینہ ہے
غافل ذرا تو جاگ
او پاؤں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہے
اسی تعظیم اور عشق کا
صلہ تھا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کوئی رات ایسی نہیں گزری جس میں میں نے سرکار علیہ
السلام کی زیارت نہ کی ہو۔ اور اللہ عزوجل نے آپ کو وقت کا بڑا محدث اور امام بنادیا۔(حوالہ ، عاشقانِ رسول کی 130حکایات)
حضور علیہ السلام کی
بارگاہ میں آواز بلند کرنے پر سختی سے منع کیا گیا ہے ۔ اللہ عزوجل نے پست آواز والوں کی صفات بیان فرمائی ہیں۔ لہذا ہمیں
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے والدین
پیرو مرشد اساتذہ کرام اور قرآن مجید سمیت دیگر دینی کتب کا ادب و احترام کرنا ضروری ہے، اسی ادب نے
گناہگاروں کو ولایت کے مرتبے پرفائز کیا ہے۔
دعا ہے اللہ
عزوجل ہمیں باداب بانصیب بنائے، اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ادب استاد دینی کا
مجھے آقا عطا کردو
دل و جان سے کروں ان
کی اطاعت یارسول اللہ
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
شرفِ انسانیت یہ ہے کہ
انسان ادب کے زیور سے آراستہ ہو، جس انسان میں ادب کا جوہر نہ ہو یقینا وہ ہر نعمت
سے محروم ہے ، جیسا کہ حسن اخلاق کے پیکر تمام نبیوں کے سرور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم
نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی توقیر نہ کرے۔( ترمذی، حدیث
۱۹۲۶،جلد۳۔ص ۳۶۹)
اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: جو با ادب نہیں اس کا کوئی دین
نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ، ج ۲۸، ص ۱۵۸، رضا فاونڈیشن )
معلوم ہوا کہ ادب
انسان کے لیے انتہائی ضروری ہے، کہا جاتا ہے کہ بندہ اطاعت سے جنت تک اور ادب سے
خدا تک پہنچ جاتا ہے۔ ادب کے بے شمار فوائد و ثمرات ہیں لیکن انہیں جاننے سے پہلے
اس کے مختصر تعریف ذہن نشین کرلیجئے۔
ادب کی
تعریف:
ادب ایسے وصف کا نام
ہے جس کے ذریعے انسان اچھی باتوں کی پہچان حاصل کرتا یا اچھے اخلاق اپناتا ہے۔(آداب
دین صفحہ ۴)
ادب
کرنے کے دنیوی و اخر وی فوائد :
ادب کرنے کے بے شمار
دنیوی و اخروی فوائد ہیں ان میں سے چند ایک ملاحظہ کیجئے۔
ادب کی برکت سے انسان
کے علم و عمل ،عزت و وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔
جس طرح ریت کے ذروں
میں موتی اپنی چمک اور اہمیت نہیں کھوتا اسی طرح مودب شخص لوگوں کے جھرمٹ میں اپنی
شناخت قائم و دائم رکھتا ہے، پھر اگر ادب نیک لوگوں کی بارگاہ میں ہو تو بندے کو
بلند درجات تک پہنچادیتا ہے، اور دنیا و آخرت کی سعادتوں سے نوازاتا ہے۔
قرآن کریم میں باادب
خوش نصیبوں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمہ کنزالعرفان ۔ بیشک جو لوگ اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں نیچی
رکھتے ہیں وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پر ہیزگاری کے لیے رکھ لیا ہے ان
کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔ (سورة الحجرات آیت۳)
دیکھا آپ نے کہ مؤدب
افراد کے لیے کسی قدر خوش خبری ہے۔ ہمارے اسلاف کرام تو سیاہی کے نقطے کا بھی ادب فرمایا کرتے
تھے اور ہماری آج حالت یہ ہے تازہ کھانوں
کی ڈشیں کبھی ہم کچرا کنڈی کی نظر ک ردیتے
ہیں۔
یاد رکھیں! کہ جیسا ادب کرنے پرانعام و اکرام کی خوشخبریاں
ہیں وہیں ادب نہ کرنے کے نقصانات بھی بہت ہیں۔
بے ادبی انسان کو
دنیا و آخرت میں مردود کروا
دیتی ہے، جیسے ابلیس کی ساری عبادت ایک بے ادبی کی وجہ سے بر باد ہوگئی اور وہ
مردود ٹھہرا۔
حضرت ذوالنون مصری علیہ
الرحمۃ فرماتے ہیں: جب
کوئی مرید ادب کا خیال نہیں رکھتا تو وہ
لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا
تھا۔ (الرسالہ القشیریہ ، باب الادب ص ۳۱۹)
اسی لیے ابن مبارک علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ہمیں زیادہ علم حاصل کرنے کے مقابلے میں تھوڑا
سا ادب حاصل کر نے کی زیادہ ضرورت ہے۔ (الرسالہ
القشیریہ ، باب الادب ص ۳۱۷)
اللہ پاک ان نیک ہستیوں کے ادب کے صدقے ہمیں بھی ادب کی توفیق عطا فرمائے اور بے ادبی سے محفوظ فرمائے۔امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں