قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ پاک کا ارشاد  ہے:وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰیترجمۂ کنز الایمان:نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔(پ6،المائدہ:21)چنانچہ اس فرمانِ باری میں نیکی پر مدد کرنے کا حکم ہوا۔نیکی کی چند صورتیں پیشِ خدمت ہیں:1۔کسی کو سیڑھیاں چڑھتے دیکھ کر اس کو اللہُ اکبر کہہ کر یاد دہانی کروانا ،نیکی پر مدد کرنا ہے۔2۔جن علاقوں میں سنی مدارس و جامعات نہ ہوں،وہا ں پر مدارس و جامعات کی تعمیر کروا دینا۔3۔کسی کو غیبت کرتی دیکھ کر توجّہ دلانا کہ یہ غیبت ہے ۔کسی طالبہ کے پاس کتابیں نہ ہوں تو اسے دینی کتابیں مہیّا کرنا۔نماز کے درست مسائل سکھا دینا۔6۔کوئی اسلامی بہن علاقے میں نئی نئی رہائش کیلئے آئی ہو تو اس کو سُنی اداروں،مساجد،جامعات و مدارس کے ساتھ تعاون کرنے کی ترغیب دلانا ۔7۔کسی کو غلطی کرتی دیکھ کر اس کو اللہ پاک کی بے نیازی سے ڈرانا ۔ 8۔کسی کو اعمال کے محاسبہ کا ذہن دینا۔9۔کہیں مدرّسہ کی کمی ہو،تو بہتر مدرسہ تلاش کر کے دینا،نیز مساجد و جامعات وغیرہ کے ساتھ مالی تعاون کرنا ۔الحمدُللہ!ہمارے مرشد امیر ِاہلِ سنّت دامت برکاتہم العالیہ نے ہمیں اس چیز کا بھر پور ذہن دیا ہے کہ ہر کوئی انفرادی کوشش کے ذریعے دوسروں کو نیکی پر مدد کرنے کی ترغیب دلانے میں کوشاں رہے۔اللہ پاک دعوتِ اسلامی کو خوب ترقیاں و عروج عطا فرمائے اور ہمیں بھی معاون ومددگار بنائے۔اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


قرآنِ کریم میں حکمِ خداوندی ہے:تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى(پارہ 6، المائدۃ، آیت نمبر2)ترجمۂ کنز العرفان: نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔تفسیر صراط الجنان میں ہے:بِر سے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ (جلالین، المائدۃ، تحت الآیۃ: 2، ص 94)نیکی کے کاموں میں تعاون کی متعدد صورتیں ہیں جن میں سے 10 درج ذیل ہیں:1:مسجد، مدرسہ، جامعہ وغیرہ دینی اداروں کی تعمیر میں حسبِ توفیق مالی تعاون کرنا، نیز ان کے اخراجات اپنے ذمے لے لینا۔2:قرآنِ پاک پڑھانا، مختلف دینی علوم کی تدریس کرنا، کسی کو دینی مسئلہ بتانا، نماز کا طریقہ، سنت وغیرہ سکھادینا3:کسی طالبہِ علم وغیرہ کو قرآنِ کریم، دینی کتابیں پیش کرنا، تقسیمِ رسائل کے ذریعے لوگوں تک مستند دینی لٹریچر پہنچانا۔4:مسجد،مدرسہ،اجتماع وغیرہ مجالسِ خیر میں جانے آنے کیلئے پک اینڈ ڈراپ سروس مہیا کرنا۔5:دینی حلیے، داڑھی،عمامہ شریف، شرعی پردے کے مطابق برقع پر حوصلہ افزائی کرناورنہ کم از کم اعتراض کرنے، مذاق اڑانے، طعنہ دینے سے بچنا۔6:اسی طرح اگر کوئی ناجائز رسومات مثلا میت یا سوئم میں دعوت کے انداز پر اغنیاء (مالدار) رشتہ داروں کو کھانا کھلانا،بہنوں کو وراثت میں سے حصہ نہ دینا، شادیوں میں گانے باجے، بےپردگی وغیرہ کو ترک کرکے شریعت پر عمل کرے تو اس کو سپورٹ کرنا۔ 7:دینی پوسٹس، ویڈیوز،تحاریر،لنکس وغیرہ شیئر کرنا البتہ ان کا مستند ہونا نہایت ضروری ہے۔ الحمد للہ دعوتِ اسلامی کے مختلف سوشل میڈیا پیجز، یوٹیوب چینلز اور ویب سائٹ پر عین اسلام و شریعت کے مطابق مواد شیئر کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔8:سیٹھ، دکاندار وغیرہ کا نماز کے اوقات میں اپنے ماتحتوں کو باجماعت نماز ادا کرنے کی رخصت دینا، اسی طرح مدنی قافلے میں سفر کیلئے چھٹی کی سہولت فراہم کرنا۔9:کسی کو گھر سے دینی کاموں وغیرہ کی اجازت نہ ہو تو اس کے گھر والوں کا ذہن بناکر انہیں قائل کرنا۔10:گھر/خاندان کے بڑوں کا اپنے گھر/خاندان میں دینی ماحول بنانا تاکہ بچے بےحیائیوں اور برے کاموں سے بچ کر اسلام و سنت کے مطابق زندگی گزارنے والے بنیں۔اس سلسلے میں امیر اہلسنت مولانا الیاس قادری دامَتْ بَرَکاتُہمُ العالِیَہ کی شخصیت یقینا قابلِ تقلید ہے کہ آپ کی بنائی ہوئی تحریک دعوت ِاسلامی کے دینی ماحول کی بدولت ہزاروں نوجوان شریعت و سنت پر عمل کرنے والے بنے ہیں۔اللہ پاک اپنے اس نیک بندے کے طفیل ہمیں بھی نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


قرآنِ پاک کی روشنی میں:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَتَعَاوَنُوْا عَلَی البرِ ّوَالتَّقْوٰی اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔(پارہ 6،سورہ مائدہ)اس آیت ِمبارکہ میں اللہ پاک نے نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔بِرْ سے مراد وہ نیک کام ہے، جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے، جس سے شریعت نے روکا ہے۔ایک مسلمان کے لئے جس طرح امر بالمعروف ونہی عن المنکر لازمی قرار دیا گیا ہے، اسی طرح اُس کے لئے ضروری ہے کہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کریں، تاکہ نیکی کی اشاعت ہو سکے اور ہمارے معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہو سکے، فی زمانہ جس طرح نیکیاں کرنے کی طرف لوگوں کا رُجحان کم ہوتا جا رہا ہے، اسی طرح نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے اور نیکی میں تعاون کرنے کا نیک کام بھی بہت کم ہو چکا ہے۔حدیث کی روشنی میں:ترمذی شریف کی حدیث ہے،حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:ایک شخص نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس سواری مانگنے آیا تو آپ کے پاس اسے کوئی سواری نہ ملی، جو اسے منزلِ مقصود تک پہنچا دیتی، آپ نے اسے ایک دوسرے شخص کے پاس بھیج دیا، اس نے اسے سواری فراہم کر دی، پھر اس نے آکر آپ کو اس کی اطلاع دی، تو آپ نے فرمایا: بھلائی کی طرف راہ نمائی کرنے والا، بھلائی کرنے والے کی طرح ہے۔اس حدیث پاک میں ہے کہ بھلائی کی طرف راہ نمائی کرنے والا بھلائی کرنے والے کی طرح ہے، یعنی اس کو بھی اتنا ہی ثواب ملتا ہے۔ تو اگر بندہ نیکی کے کام میں کسی کی مدد کر دے تو اس پر کتنا اجروثواب ہوگا! بہت سارے کام ایسے ہیں جو بندے کے لئے صدقہ جاریہ کا سبب بن جاتے ہیں، جیسے مسجد،مدرسہ،جامعہ کی تعمیر یا کسی کو قرآن پڑھانا، نیکی کی دعوت دینا وغیرہ۔الغرض نیکی کے کاموں میں تعاون کی متعدد صورتیں ہیں۔ یہاں پر دس ذکر کی جا رہی ہیں:1) جامعہ و مدرسہ تعمیر کرنا: نیکی کے کاموں میں تعاون کی صورتوں میں ایک بہترین اور صدقہ جاریہ کی صورت ہے مدرسہ تعمیر کر دینا یا تعمیر میں مدد کرنا، اپنے مال کے ذریعے تعمیر میں حصّہ ڈالنا، اس میں طلباء یا طالبات قرآن کی تعلیم سے آراستہ ہونگے، انہی مدارس سے حُفّاظ تیار ہونگے، آئمہ تیار ہونگے، قاری تیار ہونگے، جو دینِ متین کی خدمت کر سکیں گے، اسی طرح جامعات سے عالمِ دین بنیں گے، جو دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کر سکیں گے۔2) مسجد تعمیر کروانا: نیکی کے کاموں میں تعاون کی ایک بہترین صورت مسجد کی تعمیر ہے کہ لوگ عبادت کریں، بالخصوص ایسی جگہیں جہاں پر مساجد دُور ہوتی ہیں یا وہ علاقے یا ممالک جہاں پر مساجد ہوتی ہی نہیں، ایسی جگہوں پر مساجد تعمیر کرنا یا تعمیر میں حصّہ ڈالنا بہت بڑے اَجروثواب کا کام ہے۔3) دینی کتابیں یا رسائل تقسیم کرنا:دینی کتابیں اور رسائل تقسیم کرنا بھی نیکی کے کام میں تعاون کی ایک اہم صورت ہے کہ اس سے علمِ دین کی ترویج و اشاعت ہوگی،لوگ ان کتب و رسائل کا مطالعہ کر کے فرائض و واجبات، سُنن و مستحبات، ممنوع و مکروہات سیکھنے کی سعادت حاصل کریں گے اور دینی کتب و رسائل بندے کے لئے صدقہ جاریہ کا اہم ذریعہ ہیں۔4) علمِ دین حاصل کرنے کے لئے ذہن سازی کرنا:کسی بھی اسلامی بھائی یا بہن کو علمِ دین حاصل کرنے کے لئے ذہن دینا، جیسے اجتماع کی دعوت دی، سُنی علماء و مفتیانِ کرام کے بیانات سننے کی دعوت دینا یا جامعہ و مدرسہ میں علمِ دین حاصل کرنے کا ذہن دینا۔5) صلح کروا دینا:دو مسلمانوں میں صلح کروا دینا بھی نیکی کا کام ہے، جس کی ترغیب قرآن و احادیث سے ملتی ہے اور یہ نیکی کے کام میں تعاون کی اہم صورت ہے۔6) کسی کے عمرہ یا حج کے اخراجات ادا کر دینا: بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو حاضریِ مکہ و مدینہ کی تڑپ رکھتے ہیں، مگر اس کے اسباب نہیں رکھتے، ایسے لوگ سوال بھی نہیں کرتے اور عمرہ اور حج کے لئے شرعی طور پر سوال کرنے کی اجازت بھی نہیں، تو اگر ایسےسفید پوش لوگوں کو عمرہ یا حج کروا دیا تو بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔7) درس و بیان کرنا:سنتوں بھرے اجتماعات، دینی محافل یا ذکر کے حلقوں میں درس و بیان کرنا، نیکی کے کاموں میں تعاون کی اہم صورت ہے کہ اس سے لوگوں کو کثیر علمِ دین حاصل ہوتا ہے، عشقِ رسول کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، توبہ کی توفیق ملتی ہے اور صراطِ مستقیم پر چلنانصیب ہوتا ہے۔8) رمضان المبارک میں غریبوں کو سحری و افطاری کروانا:رمضان المبارک میں امیر لوگوں کے گھروں میں عظیمُ الشّان دسترخواں سجتے ہیں، مگر بیچارے غریب لوگ ایک کھجور کے لئے بھی ترستے ہیں،سحری و افطاری کروانا مطلقاً ایک ثواب کا کام ہے،لیکن اگر غریب و ضرورت مند کو کروا یا جائے تو اور زیادہ ثواب کا کام ہے۔ 9) قرآن و حدیث کی تعلیم دینا: چھوٹے بچوں کو قرآن سکھانا یا درسِ حدیث دینا، اسی طرح بالغات کو قرآن سکھانا ایک بہت ہی اہم نیکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم میں سے بہتر وہ ہے، جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔10) عقیدہ حق اہلسنت کی ترویج کرنا:عقیدہ حق اہلسنت وجماعت اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کی ترویج کرنا اور لوگوں کے عقائد کو پختہ کرنے کے لئے کوشش کرنا، ان کو قرآن و حدیث، علماءو اسلاف کے اقوال پڑھنے کی ترغیب دینا۔اللہ پاک ہمیں نیکی کرنے، نیکی کی دعوت دینے، برائی سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


دینِ اسلام اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے ۔اگر کوئی غیرجانبداری کے ساتھ دینِ اسلام کی تعلیمات پر غور کرے تو اس کو ہر مذہب سے افضل ہی  پائے گا۔ دینِ اسلام کی روشن اور پاکیزہ تعلیمات اس کی حقانیت و افضلیت کی واضح دلیلیں ہیں ، انہی تعلیمات میں سے ایک اہم روشن تعلیم”نیکی کے کام میں تعاون “بھی ہے۔اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪۔ ترجمۂ کنزالایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔(پ6 ، المائدہ : 2) اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس میں تمام مخلوق کیلئے حکم ہے کہ بھلائی اور پرہیزگاری کے کام میں ایک دوسرے سے تعاون کریں یعنی ایک دوسرے کی مدد کریں۔علامہ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہنےتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ (یعنی نیکی کے کام میں تعاون کرنے)کی کچھ صورتیں بھی بیان فرمائی ہیں،چنانچہ لکھتے ہیں:عالم اپنے علم کے ذریعے لوگوں سے تعاون کرے اور انہیں سکھائے اور غنی اپنے مال کے ذریعے ، بہادر راہِ خدا میں اپنی بہادری کے ذریعے۔(تفسیر قرطبی، 3/1648 ،المائدہ، تحت الآیۃ : 2)حکیمُ الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : تعاون کے معنیٰ ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنا ، مدد عام ہے خواہ مالی مدد ہو یا زبانی مدد یا ارکانی یعنی اعضاء سے مدد یا جانی مدد جس قسم کی مدد درکار ہو اور جس مدد پر قدرت ہو وہ کرنا۔بِرّ سے مراد ہر نیکی ہے۔ ( تفسیر نعیمی ، 6/174 )* حدیثِ پاک میں ہے:اِنَّ الدَّالَّ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ یعنی بے شک نیکی کی راہ دکھانے والا، نیکی کرنے والے کی طرح ہے۔حکیمُ الاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یعنی نیکی کرنے والا،کرانے والا، بتانے والا اور مشورہ دینے والا، سب ثواب کے حق دار ہیں۔(مراۃ المناجیح،1/ 194) اس حدیث کے تحت حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:خیر اور نیکی کا راستہ دکھانا عملِ خیر میں شامل ہے۔ (اشعۃاللمعات،1)نیکی کے کاموں میں تعاون کی بہت سی صورتیں ہیں ان میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے :1) اگر کوئی قرآنِ پاک پڑھنا چاہتی ہے اور آپ قرآنِ پاک پڑھا سکتی ہیں تو ضرور پڑھائیے۔اللہ پاک کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقرآن وَ عَلَّمَهٗ یعنی تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔( بخاری ، 3/410 ،حدیث : 5027 )2)کوئی دینی کتاب پڑھنا چاہتی ہو اور آپ کے پاس وہ کتاب ہو تو اسے دے دیجئے ،ان شاء اللہ وہ پڑھے گی اور اس پر عمل کرے گی تو آپ کو بھی ثواب ملے گا۔3) کوئی طالبہ کسی درسی بحث میں اُلجھی ہوئی ہے یا اسے سبق سمجھ نہیں آرہا ، اگر آپ کو آتا ہے تو اس کی مدد کردیں اور سبق سمجھا دیں۔ 4)کوئی سُنّی عالمہ صاحبہ دینی کتاب لکھنا چاہتی ہیں لیکن ان کے پاس وسائل نہیں یا کتاب تو لکھ لی ہے لیکن اسے شائع کرنے کے وسائل نہیں تو اس کتاب کے لکھنے اور شائع کروانے میں ان کی مدد کیجئے۔5)سوشل میڈیا پر کوئی دینی کتاب مانگتی ہے تو معتبر سنی عالمِ دین کی لکھی ہوئی کتاب اس کے ساتھ شیئر کریں۔اَلحمدُ لِلّٰہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.netپر کثیر دینی کُتب و رسائل فری ڈاؤن لوڈنگ کی سہولت کے ساتھ موجود ہیں،جس موضوع پر کتاب یا رسالہ درکار ہوتو اسے سرچ کرکے ڈاؤن لوڈ کریں اور شیئر کریں۔6) اگر آپ کے پاس دینی کتب ہیں اور آپ انہیں پڑھ چکی ہیں یا ابھی آپ کے استعمال میں نہیں تو دوسروں کو پڑھنے کے لئے دے دیجئے۔7) اگر وسعت ہو تو دینی کتب و رسائل خرید کر اسلامی بہنوں میں تقسیم کرنے چاہئیں ۔8) اگر کسی مسجد کافرش نہ بنا ہو اور نمازیوں کو نماز پڑھنے میں مشکل پیش آتی ہو توشوہر یا محارم کے ذریعے مسجد کا فرش بنوادیں تاکہ نمازیوں کو نماز پڑھنے میں آسانی ہو۔9) مساجد،جامعات یا مدارس میں سردیوں میں گرم پانی یا قالین اور گرمیوں میں ٹھنڈے پانی کی ضرورت ہو تو شوہر یا محارم کے ذریعے اس نیکی کے کام میں تعاون کیا جائے۔10) اہلِ محلہ اگر گلی محلے کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنا چاہتے ہوں اور انہیں آپ کے تعاون کی ضرورت ہو تو شوہر یا محارم کے ذریعے ضرور تعاون کریں کہ صفائی کو حدیثِ مبارکہ میں نصف ایمان فرمایا گیا ہے۔(مسلم،ص،115،حدیث: 534) اللہ پاک ہمیں اسلام کی روشن تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے نیکی کے کاموں میں دوسروں کا ساتھ دینے کی توفیق دے۔ اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


آج کل نیکی کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ نیکی کرنا اب بہت آسان ہے۔ اگر زندگی میں انسان جیتے جی آخرت کی بہتری کا ذہن بنا کر جیتا ہےاور انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہے، تو ایسے انسان کے لئے نیکی کرنابلکہ چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے ذریعے اپنی آخرت سنوارنا کوئی مشکل کام ہی نہیں۔اگر آپ کو اللہ پاک نے دین کی خدمت یا پھر کسی ایسے انسان کی مدد کے لئے چُنا جس کی زندگی مہنگائی کے حساب سے بہت مشکل ہوتی جارہی ہے تو یقیناً آپ وہ خوش نصیب ہیں، جس پر ربّ کریم کی خصوصی نظرِ کرم ہے۔ اپنے قلم کو صدقہ جاریہ بنانے کی نیت سے نیکی کے کاموں میں تعاون کی دس صورتیں پیشِ خدمت ہیں:1۔ کسی ایسی اسلامی بہن کی مدد کریں جو حافظہ، عالمہ، مفتیہ بن رہی ہو، لیکن اپنی ضرورت کی چیزیں بھی لینے کی استطاعت نہ رکھتی ہو، ہم اس کو چھوٹا موٹا سہارا دے کر اس کی مدد کریں تاکہ جب وہ دین کے کام میں مصروفِ عمل ہوتو اس کے ذریعے سے صرف اس کی ہی نہیں ہماری بھی آخرت سنور رہی ہو۔2۔مسجد ،جامعات و مدارس کی تعمیرات میں حصّہ ملانا چاہیے، چاہے رقم کی صورت میں ہو یا سامان کی صورت میں،جب تک اس مسجدمیں عبادت ہوتی رہے گی، ہم بھی ثواب کماتی رہیں گی۔ ان شاءاللہ3۔مسجد ،جامعات و مدارس میں قرآنِ مجید یا ضروری اشیا وقف کردینا،جو حق دار ہوتے ہوئے بھی فی سبیلِ اللہ پڑھا رہی ہیں،صرف ثواب کی نیت سے انہیں اپنے ذاتی خرچ سے شوہر یا محارم کے ذریعے ہر ماہ کچھ نہ کچھ ہدیہ بھجوایا کریں۔4۔فی زمانہ تیزی سے بجلی اور گیس پر قیمتیں بڑھ رہی ہیں، لہٰذا اگر اللہ پاک نے اتنا نوازا ہے کہ آپ کسی سُنّی مدرسے،جامعہ یا مسجد کا بِل بھر سکتی ہوں تو ان کے بلوں کی ادائیگی میں تعاون کردیں، یہ بھی آپ کے لئے صدقہ جاریہ میں شمار ہوگا،نیز نمازی پنکھے کے نیچے سکون سے نماز پڑھیں گے، ان شاءاللہ اس کی راحت آپ بھی محسوس کریں گی۔ 5۔اگر فرض حج ادا کرچکی ہیں اور دوبارہ جانے کی بھی چاہت رکھتی ہیں اور بندوبست کرچکی ہوں تو اس ثواب کو مزید بڑھائیے اور شدتِ غمِ مکہ و مدینہ والیوں کو بھی حج کروائیے،آپ کا ثواب ڈبل ہوجائے گا۔ان شاءاللہ6۔کسی غریب کی بیٹی کی شادی میں اس کے جہیز یا طعام وغیرہ کی مد میں اس کی مدد کردینا یا سہارا لگا دینا۔7۔اگر آپ کو آپ کے ربّ نے اتنا علم عطا کیا ہے کہ طالبۂ علمِ دین کو سبق پڑھانے یا سمجھانے میں کچھ مدد کرسکیں تو اس نیک کام میں ضرور حصّہ لیں، کیونکہ علم جتنا خرچ ہوتا ہے اتنا ہی بڑھتا ہے۔8۔کسی غریب کے گھر کی کفالت کردینا،ان کو کپڑا یا راشن مہیا کردینا یا اتنی رقم کی مالک کردینا کہ جتنی آپ گنجائش رکھتی ہوں۔9۔کسی مظلوم کے حق میں شہادت دے دینا۔10۔راہ چلتے جھاڑیوں اور پتھروں کو راستے سے ہٹا دینا یا کسی کی فوتگی میں جو بے سہارا ہوں، اس کے کفن دفن کا انتظام کردینا، غسلِ میت جانتی ہوں تو دے دینا۔”یہ دنیا فانی ہے، یہاں ہر چیز ایک دن ختم ہوجانی ہے“ لیکن وہ نیکی جو آپ نے اخلاص کے ساتھ کی ہے اور ریا کاری سے بچنے کی بھی پوری طرح کوشش کی ہے، وہ مرتے دم تک ختم نہیں ہوتی، نیکی چھوٹی سوچ کر نہیں چھوڑنی چاہئے، شیطان لاکھ سستی دلائے، اس نیکی میں ریا کاری کا عنصر بھی پایا جارہا ہو، آپ اخلاص کے ساتھ کر گزرئیے، کیونکہ ”اخلاص قبولیت کی چابی ہے۔“


بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيم ۔صلّوا عليّ فإنّ الصّلاۃ عليّ زکاۃ لّکم’’مجھ پر درود پڑھا کرو بلاشبہ مجھ پر (تمہارا) درود پڑھنا تمہارے لئے (روحانی و جسمانی) پاکیزگی کا باعث ہے۔‘‘(مصنف ابن ابی شيبہ ، 2 : 253، رقم : 8704) اللہ پاک نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے، یہی وہ صلاحیتیں ہیں جن کے بہتر استعمال سے انسان معاشرے کا کارگر فرد بن سکتا ہے۔ یہ ایسی اہم ذمہ داری ہے جس کو ادا کیے بغیر کوئی بھی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا، کیونکہ اس کے بغیر معاشرے کا انتظام و انصرام مشکل ہو جاتا ہے۔نیک اعمال ایک مسلمان کارأس المال ہیں‘ ان ہی کیلئے وہ پیدا ہوا‘ ان ہی کا حساب ہوگا اور ان ہی پر اس کی دنیا کی پاکیزہ زندگی اور آخرت میں جنت کی زندگی کا دارومدار ہے ۔ اللہ پاک اور رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نیک اعمال کی طرف رغبت دلائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ پاک نے اپنے بندوں کے نیک اعمال قبول کرنے اور ان پر دنیا و آخرت میں بہترین اجر و ثواب دینے کا وعدہ کیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّۃ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا ﴿١٢٤﴾ سورۃ النساء۔’’ اور جو بھی نیک کام کرے گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ صاحبِ ایمان بھی ہو- ان سب کو جنّت میں داخل کیا جائے گا اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا ‘‘۔(١٢٤) سورۃ النساء۔کسی بھی نیکی کو چھوٹا نہی جاننا چاہئے۔ ہر مسلمان دین ِاسلام کا مبلغ ہے ، جس کا کام نیکی کی دعوت کو عام کرنااور دوسروں کی اصلاح کرنا ہے۔نیکی کے کاموں میں پہل کرنا اور دوسروں کو نیکی کی طرف رغبت دلانا ایمان والوں کا ہی شیوا ہوتا ہے جیسا کہ قرآنِ پاک کی آیت سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ،فرمانِ الٰہی ہے: (1) يُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَيُسَارِعُوْنَ فِی الْخَيْرٰتِ ط وَاُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ0(ال عمران، 3/ 114)وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں میں تیزی سے بڑھتے ہیں، اور یہی لوگ نیکوکاروں میں سے ہیں۔اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ پاک نے عملِ صالح کی قبولیت کو ایمان کے ساتھ مشروط کیا ہے۔نیکی کے کاموں کی بہت سی صورتیں ہیں۔ دارومدار انسان کی نیت پہ ہوتا ہے جس کا اصول اللہ پاک کی رضا ہونا چاہیے ۔یہاں چند صورتوں پہ روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ نیکی کے کاموں میں تعاون کی دس صورتیں:1)اسلام سماج کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ جہاں کہیں ظلم ہورہا ہو ، ظلم کی جو بھی شکل ہو اس کو روکا جائے ، مظلوم کی دست گیری اور مدد کی جائے ، اسے بے یارو مددگار نہ چھوڑ ا جائے بلکہ اس کو ظلم کے پنجے سے چھڑایا جائے اور حسبِ استطاعت ظلم کو روکنے میں اپنی طاقت کا استعمال کرے جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ0 (پ6،المآئدۃ:2)ترجمۂ کنز الایمان:اور نیکی اور پرہیزگاری  پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اوراللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔2)بھائی چارے کا تقاضا یہی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بن جائیں یعنی امداد باہمی کے اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں،ہمارے معاشرے میں امداد باہمی کو وہ اہمیت حاصل نہ ہو سکی جو ایک اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے ہونی چاہیے تھی ،ایک دوسرے کی کفالت کرنا ،مل جل کر دکھ درد بانٹا، ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنا ،اسے امداد باہمی کہتے ہیں،امداد باہمی کا مطلب کسی کو قرض دینا نہیں بلکہ اس کی اس طرح مدد کرنا کہ دوسرا اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے ہے ۔3)دوسروں کی مشکلات و مسائل کو محسوس کرتے ہوئے ان کا ہاتھ بٹانا ہے۔4)ہماری مدد و معاونت سے اگر کسی کی جان بچ سکتی ہے،کسی کی مشکل آسان ہوسکتی ہے۔ 5)کسی مجبور بیمار کا علاج ہوسکتا ہے ۔ 6)کسی کے حصولِ رزق میں معاونت ہوسکتی ہے۔ 7)کسی بے کس اور ضرورت مند کی بیٹی کے ہاتھ پیلے ہوسکتے ہیں۔ 8)کسی کے بچوں کا طرزِ زندگی بہتر ہوسکتا ہے۔ 9)کسی کو حصولِ علم میں مدد دی جاسکتی ہے تو یہ ہمارے لیے باعثِ اعزاز اور باعثِ راحت ہونے کے ساتھ رضائے الٰہی کا ذریعہ بھی ہے۔ لہٰذا ہمیں زندگی کو اس انداز سے گزارنا چاہیے تاکہ دین و دنیا میں کامیابی کے ساتھ ہمیں قلبی اطمینان بھی حاصل ہو۔جو لوگ معاشرے سے غربت و افلاس اور ضرورت و احتیاج دور کرنے کے لیے اپنا مال و دولت خرچ کرتے ہیں، اللہ پاک ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرضِ حسنہ قرار دیتا ہے۔10)نیکی کی کاموں میں تعاون کیلئے ہم دعوتِ اسلامی جیسی غیر سیاسی تحریک کا ساتھ دیکر بھی اپنی دنیا وآخرت سنوار سکتی ہیں۔دینی کاموں کیلئے اپنا وقت دےکر اس کےعلاوہ مالی مدد سے زکوٰۃ و صدقات ادا کر کے اور اس کی دعوت کو عام کر کے کہ یہ دین کاہی کام ہے۔

میں نیکی کی دعوت کی دھومیں مچا دوں ہو توفیق ایسی عطا یاالٰہی

ہمیں فلاحِ انسانیت کے لیے اپنا طرزِ زندگی بدلنا ہوگا، جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے کہنے پر اپنی جان و مال اپنے مسلمان بھائیوں پر نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیا ر رہتے تھے۔ اسی طرح آج ہمیں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ اپنے رشتے داروں،غرباء و مساکین، ہمسایوں اور ملازمین کے ساتھ ہمارا برتاؤ کیسا ہے؟ کہیں ہم اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کرکے جہنم کا ایندھن بننے کی تیار ی تو نہیں کر رہیں؟ ہمیں خود کو نکھارنے اور اپنے اندر اعلیٰ اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔جیسا کی دعوتِ اسلامی کا مدنی مقصد ہے کہ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے ۔ان شاءالله۔


دینِ اسلام اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اسلام معاشرے کے ہر فرد کے اندر باہمی تعاون کا احساس دلاتا ہے۔دینِ اسلام ہمیں مسلمانوں کے ساتھ باہمی تعاون اور پیار و محبت کا درس دیتا ہے۔کوئی بھی شخص اگر غیرجانبداری کے ساتھ دینِ اسلام کی تعلیمات پر غور کرے تو ہر مذہب سے اسے فائق و افضل پائے گا اور اللہ پاک کی بارگاہ میں بھی یہی دین مقبول ہے۔ فرمانِ باری ہے: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ۫ترجمۂ کنزُ الایمان: بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔ (پ3 ، اٰل عمران : 19)دینِ اسلام کی روشن اور پاکیزہ تعلیمات اس کی حقانیت و افضلیت کی دلیل ہیں،انہی تعلیمات میں سے ایک اہم روشن تعلیم نیکی کے کاموں میں ساتھ دینا بھی ہے۔ اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪ ترجمۂ کنزُالایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔ (پ6 ، المآئدۃ : 2)بِر نیکی ہے اور نیکیوں میں سب سے اعلیٰ نیکی علمِ دین ہے، لہٰذا اس میں جو تعاون ہو گا وہ حکمِ قرآنی پر بھی عمل ہے اور صدقہ جاریہ بھی ہے۔نبیِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی روشن تعلیمات سے بھی ہمیں نیکی کے کاموں میں دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے کا درس ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، ایک شخص آیا اور دائیں بائیں نظر دوڑانے لگا، نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کے پاس زائد سواری ہو تو وہ اس کی مدد کرے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زاد راہ(یعنی سفر میں کام آنے والا سامان) زائد ہو تو وہ اس کی مدد کرے جس کے پاس زاد راہ نہیں ہے۔(صحیح مسلم، ص737، حدیث 4517)نیکی کے کاموں میں تعاون کسی بھی طریقے سے کیا جا سکتا ہے جن میں سے چند صورتیں بیان کی جاتی ہیں:1۔ نماز پڑھنے کی ترغیب دلائیے، جنہیں نماز نہیں آتی انہیں نماز سکھائیے۔ اگر آپ کے سبب ایک بھی اسلامی بہن نمازی بن گئی تو جب تک وہ نمازیں پڑھتی رہے گی اس کی ہر ہر نماز کا آپ کو بھی ثواب ملتا رہے گا۔2۔ اگر کوئی اسلامی بہن قرآنِ پاک صحیح مخارج کے ساتھ پڑھنا چاہتی ہے تو آپ قرآنِ پاک پڑھائیے کہ اللہ پاک کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقرآن وَعَلَّمَهٗ یعنی تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (بخاری ، 3 / 410 ، حدیث: 5027)3۔ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی ترغیب دلائیے۔ اگر آپ نے کسی کو ایک سنت بھی سکھا دی تو جب وہ اس سنت پر عمل کریں گی آپ کو بھی اس کا ثواب ملتا رہے گا۔4۔ اگر کوئی اسلامی بہن دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں تو آپ انہیں اچھا مشورہ دے دیجیے کہ جامعۃ المدینہ میں چلی جائے تو اگر وہ آپ کے مشورے سے جامعۃ المدینہ میں چلی گئی اور عالمہ بن گئی دین کی خدمت کی، پڑھا پڑھایا تو اس سارے کا ثواب آپ کو بھی ملے گا۔ نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ان الدال علی الخیر کفاعله یعنی بے شک نیکی کے راہ دکھانے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہے۔(ترمذی،4 / 305، حدیث: 2679) حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یعنی نیکی کرنے والا، کرانے والا، بتانے والا(اور) مشورہ دینے والا سب ثواب کے مستحق (یعنی حق دار) ہیں۔(مرآۃ المناجیح، 1\ 194)5۔ کسی کو فرض علوم سیکھنے کی حاجت ہو تو فرض علوم سکھا دیجیے جیسے نماز کے مسائل، زورے کے مسائل، زکوۃ کے مسائل وغیرہ۔6۔ جامعات یا مدارس کی تعمیر میں اپنے صدقات اور زکوۃ کے ذریعے اس نیک کام میں تعاون کیجیے کہ یہ صدقہ جاریہ کا بہترین ذریعہ ہے۔7۔ جامعات اور مدارس کی اشیاء جیسے پنکھے، کارپیٹ ،چٹائیاں، ڈیسک وغیرہ ان چیزوں کی خرید فرمانے میں دوسروں کا ساتھ دیجیے۔ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ تحریر فرماتے ہیں: مسلمانوں کو نفع رسانی سے اللہ پاک کی رضا و رحمت ملتی ہے اور اس کی رحمت دونوں جہان کا کام بنا دیتی ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 621، رضا فاؤنڈیشن لاہور)8۔ اہلِ محلہ اگر گلی محلے کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنا چاہتے ہوں اور انہیں آپ کے تعاون کی ضرورت ہو تو ضرور تعاون کیجیے، صفائی کو حدیثِ مبارکہ میں ایمان کا حصہ فرمایا گیا ہے۔ (مسلم ،ص 115، حدیث: 534)9۔ کسی ضرورت مند نے آپ سے قرض لیا اور وہ تنگدست ہے تو آپ اسے قرض معاف فرما دیجیے۔ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کو یہ پسند ہو کہ قیامت کی سختیوں سے اللہ پاک اسے نجات بخشے، وہ تنگدست کو مہلت دے یا معاف کر دے۔(صحیح مسلم، الحدیث: 32۔(1563)،ص845)10۔ یتیموں کے کھانے پینے اور تعلیم کے لئے ان کی مالی امداد کیجیے۔ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو یتیم کے سر پر اللہ پاک کی رضا کے لئے ہاتھ پھیرے تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ گزرا ہر بال کے بدلے اس کے لئے نیکیاں ہیں اور جو یتیم لڑکی یا یتیم لڑکے کے ساتھ بھلائی کرے، (دو انگلیوں کو ملا کر فرمایا) میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے۔(مسند احمد، ج8، ص272، حدیث:22215)حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:یہ ثواب تو خالی ہاتھ پھیرنے کا ہے جو اس پر مال خرچ کرے، اس کی خدمت کرے، اسے تعلیم و تربیت دے، سوچیں اس کا ثواب کتنا ہو گا۔(مراٰۃ المناجیح، ج6، ص562)اللہ پاک ہمیں نیک کام کرنے، نیک کاموں کی ترغیب دلانے اور نیکی کے کاموں میں دوسروں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


نیکی کے کاموں میں تعاون کرنا بڑے ثواب کا کام ہے ۔چنانچہ اس کے متعلق اللہ پاک قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ترجمہ کنزالایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو ۔(پ 6،المائدہ 2)

حدیث پاک: حضرت سیدنا ابو مسعود عقبہ بن عامر انصاری بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی کو نیکی کی طرف رہنمائی کی تو اس کے لئے نیکی کرنے والے کی مثل اجر ہے۔( ریاض الصالحین 2/626)

اب آپ کے سامنے نیکی کے کاموں میں تعاون کی 10 صورتیں پیش کی جا رہی ہیں:۔

(1) کوئی شخص کسی مسجد یا مدرسے یا پھر کسی دینی محافل کا راستہ پوچھے تو اس کو راستہ بتا دینا۔

(2) خود کو کسی وظیفہ کا علم ہو تو اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو یہ وظیفہ بتا دینا کہ اس وظیفہ کا اتنا ثواب ہے۔

(3) جس شخص کو قرآن پڑھنے نہ آتا ہو اس کو قرآن پڑھنا سکھا دینا۔

(4) جس کو درست انداز میں نماز نہ آتی ہو اس کو نماز سیکھا دینا۔

(5) مسجد مدرسے اور جامعات کے تعمیراتی کاموں میں حصہ لینا۔

(6) سو فیصد درست شرعی مسئلہ معلوم ہونے پر دوسرے کو وہ شرعی مسئلہ بتا دینا۔

(7) کوئی طالب علم درسیات کی کتابیں نہ خرید سکتا ہو اس کو وہ کتابیں خرید کر دے دینا۔

(8) کسی مدرسے جامعہ میں ہر مہینےنفلی صدقہ ( جتنی استطاعت ہو )دیتے رہنا۔

(9) علمائے کرام کو کتابیں تحریر کرنے کے معاملے میں مالی تعاون کرنا (کتاب کو چھاپنے اور دیگر معاملات میں) ۔

(10) کوئی شخص آنکھوں کی نعمت سے محروم ہو اور مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے جانا چاہتا ہو تو اس کو ہاتھ پکڑ کر مسجد تک پہنچا دینا۔(بہار شریعت جلد 1 صفحہ 583 پر ہے کہ اندھے پر جماعت واجب نہیں ہے اگرچہ اندھے کے لئے کوئی ایسا شخص ہو جس کو ہاتھ پکڑ کر مسجد تک پہنچا دے)۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیکی کرنے اور نیکی کے کاموں میں تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


فطرت انسانی کا تقاضہ ہے کہ جو شخص کو اس کی مشکل میں مدد کرے ،اس کو اچھے راستے کی رہنمائی کرے۔ اس کی طرف میلان ہوتا ہے۔ دینِ اسلام کا یہ خاصہ ہے کہ اس نے اپنے چاہنے والوں کو اس کی ترغیب دیتا رہتا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے:وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ترجمہ کنزالایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو ۔(پ 6،المائدہ 2)

اس آیت کو اگر پیش نظر رکھیں تو ہمیں اللہ پاک کی طرف سے ایک دوسرے کو نیکی اور تعاون کرنے کا حکم دیا گیا۔ نیکی پر تعاون کرنے کی کئی صورتیں ہیں جس میں سے 10 صورتوں کو ذکر کیا جاتا ہے:۔

(1) علم دین کی اشاعت میں مال، وقت عطا کرنا۔

(2) کسی طالب علم کو دینی کتب وغیرہ دلوا دینا ۔

(3) تحریر اور تقریر کے ذریعے علم دین کو عام کرنا ۔

(4) نیکی کی دعوت دینا اور اس کی خاطر ملک ملک شہر شہر سفر کرنا۔

(5) اپنی اور دوسروں کی اخلاق کی اور مالی حالات درست کرنے کی کوشش کرنا ۔

(6) ملک وملت کے مفاد میں ایک دوسرے کی مدد کرنا۔

(7) فقراء اور صالحین کو کھانا کھلانا۔

(8) جہاد کہ بعد غازیانِ اسلام کی مدد کرنا ۔

(9) سماجی خدمات کرنا ۔

(10) روزے دار کو افتار کروانا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی نیکی کی کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


پیارے اسلامی بھائیو! دین اسلام ایک ایسا کامل دین ہے جو عام فطری تقاضوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ انسان کی فطری طور پر یہ عادت ہے کہ اچھی باتوں کو پسند کرتا ہے اور بری باتوں سے اکتاتا ہے۔ اللہ پاک نے دنیا میں جتنے انبیاء مبعوث فرمائے ان کی تشریف آوری کا مقصد بھی یہ تھا کہ وہ لوگوں کو نیکی کی دعوت دے ، ایک خدا کی توحید اور عبادت کی دعوت دے اور برائی والے کاموں سے منع کرے اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی قرآن پاک میں یہ ارشاد فرمایا گیا کہ :

وَ  لْتَكُنْ  مِّنْكُمْ  اُمَّةٌ  یَّدْعُوْنَ  اِلَى  الْخَیْرِ  وَ  یَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ  وَ  یَنْهَوْنَ  عَنِ 

الْمُنْكَرِؕ ترجمہ کنز الایمان: اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بُری سے منع کریں۔ (پ 4، آل عمران 104)اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا: كُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ   تَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ  وَ  تَنْهَوْنَ  عَنِ  الْمُنْكَرِ

ترجمہ کنز الایمان: تم بہتر ہوان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔(پ 4،آل عمران 110)

اس سے واضح ہوتا ہے کہ اب یہ کام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے سپرد ہے کہ وہ اپنے ارد گرد رہنے والوں کو نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کریں۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ترجمہ کنزالایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو ۔(پ 6،المائدہ 2)

نیکی کے کاموں میں مدد کرنے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں جن میں سے 10 درجہ ذیل ہیں:۔

(1) قول سے نیکی کے کام میں تعاون ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر حدیث پاک میں بیان فرمایا گیا: حضرت سیدنا عقبہ بن عامر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے نیکی کی طرف رہنمائی کی اس کے لئے نیکی کرنے والے کی طرح اجر ہے ۔(فیضان ریاض الصالحین 2/626)

کسی کو مدرسہ، مسجد یا جامعہ یا کسی نیک مقام کا پتہ بتا دینا بھی قول کے ذریعے تعاون ہے ۔اسی طرح کسی ایک بندے کو کسی وِرد ،وظیفے یا پھر کسی بات کے بارے میں علم ہے تو ورد، وظیفہ اپنے دوسرے بھائی کو بھی بتا دے تو یہ عام صورتیں قول میں ذریعے نیکی کے کام میں تعاون کے تحت داخل ہیں۔

(2) فعل سے رہنمائی کے ذریعے نیکی کے کام میں تعاون کرنا ۔اس کی مثال جیسے کسی کو نماز پڑھنی نہیں آتی تھی، قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا تھا، نیکی کی دعوت دینا نہیں آتی تھی، انفرادی کوشش کرنا نہیں آتی تھی یا پھر وضو کرنا نہیں آتا تھا۔ تو کسی نے اس کو یہ ساری چیزیں سکھا دی تو یہ سب فعل کے ذریعے تعاون ہوا ۔

(3) اشارے سے نیکی کے کام میں تعاون کرنا۔ اس کی مثال جیسے راستے میں کسی نے پوچھ لیا کہ مسجد، مدرسہ یا اجتماع گاہ کس طرف ہے؟ تو اس کو اشارے سے بتا دینا۔ جی ہاں اس طرف ہے۔ یہ اشارہ سے نیکی کے کام میں تعاون کی صورت ہے۔

(4) لکھ کر نیکی کام میں تعاون کرنا ۔اس کی مثال جیسے کسی کو کسی جگہ جانا ہے لیکن اس کو مکمل پتہ معلوم نہیں ہے کسی نے اس کو کاغذ پر پورا پتہ لکھ کر دے دیا ۔یہ لکھ کر نیکی کے کام میں معاونت ہوئی۔یا پھر کسی نے دوسرے بندے کو نیکیوں والے کوئی اعمال لکھ کر دیئے کہ تم بھی اس پر عمل کرو تو یہ بھی لکھائی کے ذریعے تعاون ہے۔

(5) اپنے وقت کے ذریعے نیکی کے کام میں تعاون کرنا۔

(6) اپنے مال کے ذریعے نیکی کے کام میں تعاون کرنا ۔کہ کسی دینی ادارے میں اپنے مال کو خرچ کرنا تاکہ مال کے ذریعے یہ دینی ادارہ زیادہ مضبوط ہو کر اچھی طرح دین اسلام کی تبلیغ کر سکے یا پھر کسی دینی طالب علم کی مالی معاونت کرنا تاکہ اس کو اگر کوئی علم دین حاصل کرنے میں مشقت ہو تو دور ہو جائے اور وہ اچھی طرح علم دین حاصل کر سکے۔

(7) دین اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچانے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا۔

(8) اپنے اور دوسرے لوگوں کے عملی حالات سدھارنے کے لئے نیکی کے کام میں تعاون کرنا۔

(9) تدریس اور تفہیم کے ذریعے نیکی کے کام میں تعاون کرنا۔ کہ کسی کو اگر کوئی دینی مسئلہ سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہو تو اس کو سمجھا کر اس کی دشواری دور کرنا۔

(10) سفر کے ذریعے نیکی کے کام میں تعاون کرنا جیسے مدنی قافلوں میں سفر کے ذریعے نیکی کی دعوت دینا۔


شریعتِ مطہرہ جس نیک کام کے کرنے کا حکم دیتی ہے وہ نیکی ہے۔ اور جس کام کا شریعت حکم دیتی ہو یا نہ دیتی ہو لیکن اس سے اسلام اور مسلمان کو فائدہ پہنچتا ہو تو بلا شبہ یہ بھی نیکی ہے۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ جتنا ممکن ہو نیکی کا کام نہ صرف خود کرے بلکہ ہر ممکنہ مدد بھی کرے۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:” وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى“ ترجمہ کنزالعرفان:”اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو“۔(پ 6، المائدہ 2)

نیکی اور تقوی میں ان کی تمام انواع اور اقسام شامل ہیں جن میں سے دس مندرجہ ذیل ہیں:

(1) علم دین کی اشاعت میں وقت، مال، درس وتدریس اور تحریر وغیرہ سے ایک دوسرے کی مدد کرنا۔

(2) دینِ اسلام کی دعوت اور اسکی تعلیمات دنیا کے ہر گوشے میں پہنچانے کے لئے باہمی تعاون کرنا۔

(3) اپنے اور دوسروں کے عملی حالات سدھارنے میں کوشش کرنا۔

(4) نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا۔

(5) ملک و ملت کے اجتماعی مفادات میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا۔

(6) سوشل ورک اور سماجی خدمات میں حصہ لینا۔

(7) حقوق عامہ کی فراہمی کا خیال رکھنا اور لوگوں کو اس کا ذہن دینا۔

(8) برائی کے دروازے بند کرنے کی جدوجہد کرنا اور

(9) نیکی کے راستوں کو ہموار کرنے کے لئے کوشاں رہنا۔

(10) تمام تر نیکی کے کاموں کو خود عملی جامہ پہنا کر لوگوں کے لئے رہنما بننا۔

یہ تمام تراعمال نیکی اور تقوی میں شامل ہیں ۔جن پر عمل کرنے سے دنیا بھی بہتر اور آخرت میں بھی بیڑاپار ہو جائے گا، ان شاء اللہ ۔

اللہ پاک ہمیں نیکی کے کام کرنے اوران میں تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


قولہ تعالیٰ: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰىترجمۂ کنزُالایمان:اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔(پ 6،المائدہ 2)

اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں ہیں : اس میں تمام مخلوق کیلئے حکم ہے کہ بھلائی اور پرہیزگاری کے کام میں ایک دوسرے سے تعاون کریں یعنی ایک دوسرے کی مدد کریں۔(تفسیر قرطبی جلد 3)

بھلائی کے کاموں میں تعاون کی بہت سی صورتیں ہیں ان میں سے دس حاضر خدمت ہیں:

(1) اگر کوئی قراٰنِ پاک پڑھنا چاہتا ہے اور آپ قراٰنِ پاک پڑھا سکتے ہیں تو ضرور پڑھائیے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَهٗ یعنی تم میں سے بہترین وہ ہے جو قراٰن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔

(2) کوئی دینی کتاب پڑھنا چاہتا ہو اور آپ کے پاس وہ کتاب ہو تو اسے دے دیجئے ، اِن شاء اللہ وہ جو پڑھے گا اور اس پر عمل کرے گا تو آپ کو بھی ثواب ملے گا۔

(3) کوئی طالبِ علم مدرسے جا رہا ہو، تو اسے اپنی سواری پر لفٹ دے دیں۔

(4)کوئی طالبِ علم کسی درسی بحث میں اُلجھاو ہوا ہے یا اسے سبق سمجھ نہیں آرہا ، اگر آپ کو آتا ہے تو اس کی مدد کردیں اور سبق سمجھا دیں۔

(5) کوئی عالم صاحب کوئی دینی کتاب لکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس وسائل نہیں ہیں تو آپ اس میں مدد کردیں۔

(6) اگر آپ کے پاس دینی کتب ہیں اور آپ انہیں پڑھ چکے ہیں یا ابھی آپ کے استعمال میں نہیں ہیں تو دوسروں کو پڑھنے کے لئے تعاون کردیں ۔

(7) مسجد میں اگر فرش نہ بنا ہو اور نماز پڑھنے میں نمازیوں کو مشکل ہوتی ہو تو مسجد کا فرش بنوادیں تاکہ نماز پڑھنے میں آسانی ہو۔

(8) مسجد میں اعتکاف کرنے، نماز پڑھنے یا تلاوتِ قراٰن کرنے والوں کے لئے پنکھے یا لائٹ یا رال (قرآن مجید رکھنے کا پٹھا) کی ضرورت ہو تو اس میں تعاون کریں۔

(9) مساجد یا مدارس میں سردیوں میں گرم پانی یا قالین اور گرمیوں میں ٹھنڈے پانی کا انتظام کرنے کی ضرورت ہو تو اس بھلائی کے کام میں تعاون کریں۔

(10) اہلِ محلہ اگر گلی محلے کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنا چاہتے ہوں اور انہیں آپ کے تعاون کی ضرورت ہو تو ضرور تعاون کریں ، صفائی کو حدیثِ مبارکہ میں ایمان کا حصہ فرمایا گیا ہے۔

اللہ پاک کی بارگاہِ لم یزل میں دعا ہے کہ ہمیں اپنے علم پر عمل کرنے اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی ﷲ علیہ وسلم