خدائے رحمن  کے کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں ماہِ مضان جیسی عظیم الشان نعمت سے نوازا ہے۔ ماہِ رمضان کے فیضان کے تو کیا کہنے! اس کی تو ہر گھڑی رحمت بھری ہے۔1۔ نزولِ قرآن کریم:رمضان المبارک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ خدائے کریم نے اس مہینے میں قرآنِ کریم نازل فرمایا:( فیضان ِرمضان، صفحہ نمبر 22)

تجھ پہ صدقے جاؤں رمضان تو عظیم الشان ہے تجھ میں نازل حق تعالیٰ نے کیا قرآن ہے (وسائل بخشش صفحہ نمبر 755)

2۔ شبِ قدر:نبیِ کریم، خاتم المرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک اللہ پاک نے میری امت کو لیلۃ القدر عطا کی اور یہ رات تم سے پہلے کسی امت کو عطا نہیں ہوئی۔( فیضانِ رمضان، صفحہ 182،183)

لیلۃ القدر میں مطلع الفجر حق مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام(حدائق بخشش ، ص 299)

3۔ جس کا حساب نہیں:رمضان المبارک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ رمضان کے کھانے پینے یعنی کہ سحری اور افطاری کاحساب نہیں ہوگا۔( فیضانِ رمضان، صفحہ نمبر 29) 4 ۔سب سے بڑھ کر سخی:رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم خصوصاً رمضان میں بہت زیادہ سخاوت فرماتے۔( کتاب : فیضانِ رمضان، ص نمبر39)

ہاتھ اٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم ہیں سخی کے مال میں حق دار ہم(حدائق بخشش ، صفحہ نمبر 83)

5۔ جنت سجائی جاتی ہے:فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:بے شک جنت سال کے شروع سے اگلے سال تک رمضان المبارک کے لیے سجائی جاتی ہے۔


خدائے رحمن  کے کروڑہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں ماہِ رمضان جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرمایا۔ ماہِ رمضان کے فیضان کے کیا کہنے!اس کی تو ہر گھڑی رحمت بھری ہے۔رمضان المبارک میں ہر نیکی کا ثواب70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔( مراٰۃج 3ص 137) نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70گنا کر دیا جاتا ہے۔عرش اٹھانے والے فرشتے روزہ داروں کی دعا پر آمین کہتے ہیں اور فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مطابق رمضان کے روزے دار کے لیے مچھلیاں افطار تک دعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں۔ (التَّرغیب والتَّرھیب ج2ص55حدیث6)اس ماہِ مبارک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اﷲ پاک نے اس میں قرآنِ پاک نازل فرمایا ہے ۔چنانچہ پارہ 2 سُورَۃُالبَقَرَہ آیت 185 میں خُدائے رَحمٰن کا فرمانِ عالی شان ہے:تَرجَمَۂ کَنزالاِیمَان:رمضان کا مہینا، جس میں قرآن اُترا، لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں، تو تم میں جو کوئی یہ مہینا پائے توضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو، تو اتنے روزے اور دنوں میں۔ا ﷲ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اورا ﷲ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔پانچ خصوصی کرم:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رحمتِ عالمیان،سلطانِ دو جہان، شہنشاہِ کون و مکان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ ذی شان ہے: میری اُمّت کو ماہِ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں:(1)جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ پاک ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اﷲ پاک نظرِ رحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا ۔(2)شام کے وقت ان کے منہ کی بُو (جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔ (3)فرشتے ہر رات اور دن ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں ۔ (4)اﷲ پاک جنت کو حکم فرماتا ہے:میرے( نیک)بندوں کے لئے مُزَیَّن (یعنی آراستہ) ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مَشَقَّت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے۔ (5)جب ماہِ رمضان کی آخری رات ہوتی ہے تو اﷲ پاک سب کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم !کیا وہ لیلۃ القَدر ہے؟ ارشاد فرمایا: نہیں! کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارغ ہو جاتے ہیں تو انہیں اُجرت دی جاتی ہے!(شُعَب الایمان ج3ص303حدیث 3203) سرکارِ دوعالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے:اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے تو اُمّت تمنَّا کرتی کہ کاش! پورا سال رمضان ہی ہوتا۔(ابنِ خزیمہ ج3ص190حدیث 1886) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: حضور پر نور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ پُر سُرُور ہے:پانچوں نمازیں اور جمعہ اگلے جمعے تک اور ماہِ رمضان اگلے ماہِ رمضان تک گناہوں کا کفارہ ہے جب تک کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔ (مسلم، ص144حدیث: 233)حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:محبوبِ رحمن،سرورِ ذیشان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ماہِ شعبان کے آخری دن بیان فرمایا :اے لوگوں! تمہارے پاس عظمت والا، برکت والا مہینہ آیا، وہ مہینہ جس میں ایک رات (ایسی بھی ہے جو) ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس(ماہِ مبارک) کے روزے اللہ پاک نے فرض کئے اور اس کی رات میں قیام تَطَوُّع (یعنی سنت) ہے۔ جو اس میں نیکی کا کام کرے تو ایسا ہے جیسے اور کسی مہینے میں فرض ادا کیا اور اس میں جس نے فرض ادا کیا تو ایسا ہے جیسے اور دنوں میں 70 فرض ادا کیے۔یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے اور یہ مہینا مُؤَاسات(یعنی غم خواری اور بھلائی) کا ہے اور اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے۔جو اس میں روزہ دار کو افطار کرائے اس کے گناہوں کے لیے مغفرت ہے اور اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جائے گی اور اس افطار کرانے والے کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا روزے رکھنے والے کو ملے گا،بغیر اس کے کہ اس کے اجر میں کچھ کمی ہو۔ہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! ہم میں سے ہر شخص وہ چیز نہیں پاتا جس سے روزہ افطار کروائے ۔ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اﷲ پاک یہ ثواب اس شخص کو دے گا جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے روزہ افطار کروائے اور جس نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلایا ، اس کو اﷲ پاک میرے حوض سے پلائے گا، کبھی پیاسا نہ ہوگا ، یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے۔یہ وہ مہینہ ہے کہ اس کا اول(یعنی ابتدائی دس دن) رحمت ہے اور اس کا اوسط(یعنی درمیانی دس دن) مغفرت ہے اور آخر( یعنی آخری دس دن)جہنم سے آزادی ہے۔ جو اپنے غلام پر اس مہینے میں تخفیف کرے ( یعنی کام کم لے) اﷲ پاک اسے بخش دے گا اور جہنم سے آزاد فرمائے گا۔اس مہینے میں چار باتوں کی کثرت کرو۔ان میں سے دو ایسی ہیں جن کے ذریعے تم اپنی رب کو راضی کرو گےوہ یہ ہیں: (1) لَآاِلٰهَ اِلّااﷲکی گواہی دینا (2)استغفار کرنا۔جبکہ وہ دو باتیں جن سے تمہیں غَنیٰ (یعنی بے نیازی)نہیں وہ یہ ہیں:(1)اللہ پاک سے جنت طلب کرنا (2)جہنم سے اﷲ پاک کی پناہ طلب کرنا۔(شُعَبُ الایمان ج3ص305حدیث3608، ابنِ خُرَّیمہ ج3ص192خدیث 1887)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سرکارِ دو جہان ،رحمتِ عالمیان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔( بخاری ج 1 ص 543حدیث 1079) اور ایک روایت میں ہے: جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں۔(اَیضاً ص399 حدیث 3277)


اللہ پاک کا کروڑہا کروڑ احسان کہ اُس نے ہمیں ماہِ رمضان جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرمایا ہے۔ ماہِ رمضان کے فیضان کے کیا کہنے!اس کی ہر گھڑی رحمت بھری ہے۔ رمضان المبارک میں ہر نیکی کا ثواب 70 گُنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔عرش اُٹھانے والے فرشتے روزہ داروں کی دُعا پر آمین کہتے ہیں اور فرمانِ مصطفٰے کے مطابق رمضان کے روزہ دار کے لیے مچھلیاں افطار تک دعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں۔(الترغیب الترھیب ج،2 صفحہ 55،حدیث 6) اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے تو میری امّت تمنَّا کرتی کہ کاش! پورا سال رَمَضان ہی ہو۔(ابنِ خزیمہ،ج 3،ص 190،حدیث 1886) ماہِ رمضان المبارک کی بے شمار خصوصیات ہیں جن میں سے پانچ یہاں ذکر کی جاتی ہیں:1۔نزولِ قرآن:ماہِ رمضان کی ایک خصوصِیَّت یہ ہے کہ اللہ پاک نے اس میں قرآنِ پاک نازل فرمایا ہے۔ چنانچہ پارہ 2 سورۃ البقرہ آیت 185 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:شَهْرُ رَمَضَانَ الَّـذِىٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْـهُـدٰى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُـرُوْنَ0ترجمہ ٔکنزالایمان : رمضان المبارک کا مہینہ، جس میں قرآن اُترا، لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں، تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اِس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو، تو اتنے روزے اور دنوں میں۔اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اِس پر کہ اُس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔ 2۔ جمعہ کی ہر ہر گھڑی میں دس لاکھ کی مغفرت: حضرتِ عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:اللہ پاک ماہِ رمضان میں روزانہ افطار کے وقت دس لاکھ ایسے گنہگاروں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے جن پر گناہوں کی وجہ سے جہنم واجب ہو چکا تھا، نیز شبِ جمعہ اور روزِ جمعہ کی ہر ہر گھڑی میں ایسے دس دس لاکھ گنہگاروں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے جو عذاب کے حق دار قرار دئیے جا چکے ہوتے ہیں۔(الفردوس بمأ ثور الخطاب جلد 3،ص 320،حدیث 4960) 3۔ تراویح: الحمدللہ! رمضان المبارک میں جہاں ہمیں بے شمار نعمتیں مُیسَّر آتی ہیں انہیں میں تراویح کی سُنَّت بھی شامل ہے اور سُنَّت کی عظمت کے کیا کہنے!اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:جس نے میری سُنَّت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔ چنانچہ ماہِ رمضان کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں ہمیں تراویح جیسی عظیم سُنَّت پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے۔4۔لیلۃ القدر: بخاری شریف میں ہے، فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :جس نے لیلۃ القدر میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ قیام کیا (یعنی نماز پڑھی) تو اس کے گزشتہ(صغیرہ) گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔5۔اعتکاف:رمضان المبارک میں ہمیں جہاں بے شمار برکتیں حاصل ہوتی ہیں وہیں اعتکاف جیسی عظیم عبادت بھی نصیب ہوتی ہے۔ ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ماہِ رمضان کا پورا مہینا بھی اعتکاف فرمایا ہے اور آخری دس دن کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے۔اللہ پاک ہمیں ماہِ رمضان کی خصوصیت سے برکتوں سے مالا مال فرمائے اور ہمیں خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


رمضان کی خصوصیات بےشمار ہیں۔یہ مہینہ اللہ  پاک کا مہینہ ہے اور جو شے اللہ پاک کے ساتھ منسلک ہو وہ تو رحمتوں اور برکتوں کا سر چشمہ ہے۔رمضان کی فضیلت اور اللہ پاک کی رحمتوں کا ہی نتیجہ ہے کہ جو پورے سال نماز سے دور ہوتے ہیں وہ بھی رمضان میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔اللہ پاک نے حضرت موسی علیہ السلام سے فرمایا:میں نے امتِ محمدیہ کو دو نور عطا کئے ہیں تاکہ وہ دو اندھیروں کے ضرر سے محفوظ رہیں۔موسی علیہ السلام نے عرض کی:یااللہ! وہ کون کون سے دو نور ہیں؟ارشاد ہوا:نورِ رمضان اور نورِ قرآن۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:وہ دو اندھیرے کون کون سے ہیں؟ فرمایا:ایک قبر کا اندھیرا اور دوسرا قیامت کا۔(درۃالناصحین)پانچ خصوصیات: پہلی خصوصیت: رمضان میں قرآنِ کریم کو عظیم الشان اور رحمتوں والی رات شبِ قدر میں اتارا گیا۔شبِ قدر کس قدر اہم رات ہے کہ اس کی شان مبارکہ میں اللہ پاک نے پوری ایک سورت نازل فرمائی ہے۔مفسرینِ کرام سورۂ قدر کے ضمن میں فرماتے ہیں: اس رات میں اللہ پاک نے قرآنِ مجید کو لوحِ محفوظ سے پہلے آسمان پر نازل فرمایا اور پھر تقریبا تئیس برس کی مدت میں اپنے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر اسے بتدریج نازل کیا۔اس رات کی عبادت کو ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی اَفضل قرار دیا گیا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک بار جب ماہِ رمضان تشریف لایا تو تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تمہارے پاس ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا تمام کی تمام بھلائیوں سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہے۔(ابن ماجہ) دوسری خصوصیت: باقی تمام اعمال کا بدلہ ثواب اور جنت سے دیا جائےگا مگر صرف روزہ وہ عبادت ہے جس کا اجر خود اللہ پاک دے گا۔سبحان اللہ!حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :سلطانِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: آدمی کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے۔اللہ پاک نے فرمایا:الصوم لی و انا اجزی بہ یعنی روزہ میرے لے ہے اور اس کی جزا میں خود دوں گا۔(بخاری و مسلم)تیسری خصوصیت:رمضان المبارک میں جنت کے دروازے کھول دے جاتے ہیں اور شیطان کو قید کیا جاتا ہیں۔حضرت ابراہیم نخعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خوش خبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا کرتے تھے:رمضان کا مہینہ آگیا ہے جو کہ بہت ہی بابرکت ہے۔اللہ پاک نے اس کے روزے تم پر فرض کئے ہیں۔اس میں جنت کے دروازے کھول دے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کے جاتے ہیں۔سرکش شیطانوں کو قید کر دیا جاتا ہے۔اس میں ایک رات شبِ قدر ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔(تنبیہ الغافلین)چوتھی خصوصیت: رمضان المبارک میں ہر عمل کا ثواب اللہ پاک کی طرف سے کئی گنا زیادہ ملتا ہے۔سرکارِ مدینہ،سرورِ قلب و سینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو کوئی رمضان المبارک میں کسی مسکین کو صدقہ دے گا تو اس کے بدلے اس قدر ثواب ہوگا کہ گویا اس نے دنیا کی تمام چیزیں صدقہ میں دے دیں اور جو کوئی رمضان المبارک میں ایک رکعت نماز پڑھے گا اس کو اس قدر ثواب ملے گا جو غیرِ رمضان میں دو لاکھ رکعت پڑھنے سے ملتا ہے اور جو کوئی رمضان المبارک میں ایک مرتبہ سبحان اللہ کہے اس کو اس قدر ثواب ملے گا جو غیر رمضان المبارک میں ایک لاکھ مرتبہ پڑھنے سے ملتا ہےاور جو کوئی رمضان المبارک میں کسی ننگے کو کپڑا پہناے گا تو قیامت کے دن تمام مخلوق کے سامنے اللہ پاک اس کو ساٹھ لاکھ جنتی حلے پہنائے گا۔اور جو کوئی رمضان المبارک میں بھوکے کو کھانا کھلاے گا یا روزہ دار کو افطار کرائے گا تو اس کو اس شخص کے برابر ثواب ملے گا جس نے بقدر پوری زمین کے غیر رمضان المبارک میں اللہ پاک کی راہ میں سونا خیرات کیا ہو۔(انیس الواعظین)پانچویں خصوصیت: سحری اور افطار کے اوقات ماہِ مبارک کے انمول تحفے ہیں۔حدیثِ پاک میں ہے:سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھانے میں ہر لقمہ کے بدلے ساٹھ برس کی عبادت کا ثواب ملتا ہیں۔ (انیس الواعظین)حضورِ اکرم،شفیعِ معظم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں۔(طبرانی)حضور تاجدارِ مدینہ،سرورِ قلب و سینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: تین شخصوں کی دعا رد نہیں کی جاتی:ایک روزہ دار کی بوقت افطار،دوسرے بادشاہ عادل کی اور تیسرے مظلوم کی۔ان تینوں کی دعا اللہ پاک بادلوں سے بھی اوپر اٹھا لیتا ہے اور آسمان کے دروازے اس کے لئے کھول دے جاتے ہیں اور اللہ پاک فرماتا ہے:مجھے میری عزت کی قسم!میں تیری ضرور مدد فرماؤں گا اگرچہ تاخیر ہوجائے۔


شعب الایمان جلد3 صفحہ نمبر 303 ،حدیث نمبر 3603 میں حضرت  جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رحمتِ عالمیان، سرورِ دوجہان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ ذی شان ہے : میری امت کو ماہِ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں۔جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ پاک نظرِ رحمت فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ پاک نظرِ ر حمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔2۔ شام کے وقت ان کے منہ کی بو (جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہیں)اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہو۔3۔ فرشتے ہر رات اور دن ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔4۔ اللہ پاک جنت کو حکم فرماتا ہے: میرے نیک بندوں کے لئے مزین ( یعنی آراستہ) ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے۔ جب ماہِ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ پاک سب کی مغفرت فرمادیتا ہے۔( فیضانِ رمضان،1/25،26)خلاصہ: فرمانِ نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مطابق امتِ محمدیہ کو رمضان کے خاص پانچ وہ فضائل جو کسی اور امت کو عطا نہ ہوئے جیسے اللہ پاک کی خصوصی رحمت کہ منہ کی بو مشک سے بڑھ کراور فرشتوں کا دعائے مغفرت کرنا۔وغیرہ


رمضان المبارک ایک بھٹی ہے جیسے کہ بھٹی گندے لوہے کو صاف اور صاف لوہے کی مشین کا پرزہ بنا کر قیمتی کردیتی ہے اور سونے کو زیور بنا کر استعمال کے لائق کردیتی ہے ایسے ہی ماہِ رمضان گنہگاروں کو  پاک کرتا ہے اور نیک لوگوں کے درجے بڑھاتا ہے ۔ 2۔ رمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا ملتا ہے۔3۔بعض علمائے کرام فرماتے ہیں:جو رمضان المبارک میں مرجائے اس سے سوالاتِ قبر بھی نہیں ہوتے۔4۔ رمضان کے کھانے پینے کا حساب نہیں۔5۔قیامت میں رمضان و قرآنِ پاک روزہ دار کی شفاعت کریں گے۔ رمضان تو کہے گا:مولا ! میں نے اسے دن میں کھانے پینے سے روکا تھا اورقرآنِ پاک عرض کرے گا: یارب! میں نے اسے رات میں تلاوت ، تراویح کے ذریعے سونے سے روکا۔ فیضام رمضان،ص27تا29


پاک ہے وہ جس نے زمانوں کو ایک حساب سے رکھا اور موسموں کو مقرر فرمایا:اس نے اپنی معرفت کے سمندر میں عقلوں اور سوچوں کو مستغرق کیا ، اس کی حقیقت میں عقلیں حیر ان ہیں، اس کی بلندی کی معرفت تک پہنچنے والا کوئی نہیں۔ اس نے ماہِ رمضان کو عفو، مغفرت، بشارت، رضا، سرور اور قبولیت کے ساتھ خاص کیا۔ اس نے روزے رکھنے والے کو اس کی مراد تک پہنچانے کا وعدہ کیا، اس کے لیے خوشخبری ہے جس نے اپنے اعضاء کو شک و شبہ سے پاک کیا اور نیک اعمال کے ساتھ ماہِ رمضان کا استقبال کیا۔(حکایتیں اور نصیحتیں،ص77)رمضان کا لغوی معنی جلانے والا رمضان یہ رمض سے بنا ہے جس کے معنی ہیں: گرمی سے جلنا۔ کیونکہ جب مہینوں کے نام قدیم عربوں کی زبان سے نقل کیے گئے تو اس وقت جس قسم کا موسم تھا اس کے مطابق مہینوں کے نام رکھ دیے گئے۔ اتفاق سے اس وقت رمضان سخت گرمیوں میں آیا تھا اسی لیے یہ نام ر کھ دیا گیا۔خاصة الشیء مایوجد فیہ ولا یوجد فی غیرہ کہ کسی چیز کی خصوصیت وہ ہے جو اس میں پائی جائے اور اس کے غیر میں نہ پائی جائے۔کسی چیز کی خصوصیت اسے اس جیسی دوسری چیز سے ممتاز کرتی ہے اسی طرح ماہِ رمضان الکریم کی بھی ایسی بہت سی خصوصیات ہیں جو اسے دوسرے مہینوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ماہِ رمضان کی منفرد خصوصیات ملاحظہ ہوں:1:قرآنِ پاک میں صرف رمضان شریف ہی کا نام لیا گیا اور اسی کے فضائل بیان ہوئے کسی دوسرے مہینے کا نہ صراحتاً نام ہے نہ ایسے فضائل ۔مہینوں میں صرف ماہِ رمضان کا نام قرآن میں آیا ،صحابہ میں صرف حضرت زیدابنِ حارثہ رضی اللہ عنہ کا نام قرآن میں لیا گیااور عورتوں میں صرف حضرت بی بی مر یم رضی اللہ عنہا کا نام قرآن میں آیا جس سے ان تینوں کی عظمت معلوم ہوئی۔(فضائل رمضان شریف،ص30)چنانچہ قرآن میں اللہ پاک کا نزولِ قرآن اور ماہِ رمضان کے بارے میں فرمانِ عالیشان ہے: شہر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدًی للناس و بینت من الھدیٰ والفرقان (پ 2، البقرہ 185) ترجمۂ کنزالایمان:رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں۔ حضرت شعیب حریفیش رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:مہینے کو مشہور ہونے کی وجہ سے شہر کہا جاتا ہے اور ماہِ رمضان کو رمضان اس لیے کہتے ہیں کہ یہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اللہ پاک کے فرمان: انزل فیہ القران سے مراد یہ ہے کہ اس کے فرض روزوں میں قرآنِ کریم اتارا گیا۔(حکایتیں اور نصیحیں ص 80)(2)شام کے وقت ان کے منہ کی بُو (جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے)اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔(فضائل رمضان شریف ص25)ایک نیک شخص مسجد کی طرف جارہا تھا، اس نے مسجد میں دو آدمی دیکھے جن میں سے ایک نماز پڑھ رہا تھا اور دوسرا مسجد کے دروازے پر سویا ہوا تھا جبکہ شیطان باہر حیران وپریشان کھڑا آگ میں جل رہا تھا۔اس مردِ صالح نے شیطان سے پوچھا: میں تجھے حیران کیوں دیکھ رہا ہوں؟ شیطان نے جواب دیا:اس مسجد میں ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے جب بھی میں اس کو نماز سے بہکانے اور غافل کرنے کے لیے داخل ہونے کا ارادہ کرتا ہوں تو مسجد کے دروازے پر سونے والے شخص کے سانس مجھے روک دیتے ہیں۔(حکایتیں اور نصیحتیں ص 85)

ہر گھڑی رحمت بھری ہے ہرطرف ہیں برکتیں ماہِ رمضاں رحمتوں اور برکتوں کی کان ہے

3۔ اس امت کے علاوہ کسی امت کو ایامِ رمضان جیسے افضل دن اور راتیں عطا نہ کی گئیں۔ کیا سابقہ امتیں اس فرمان پر فخر کرسکتی ہیں:الصوم لی و انا اجزی بہ یعنی روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں۔اس کی جزا یہ ہے کہ آنکھیں نورِ باری کے دیدار سے لطف اندوز ہوں گی۔ کیا سابقہ امتوں کے لیے یہ اعلان کیا گیا ؟جسے ہر دور و نزدیک والے نے سنا:للصائم فرحتان، یعنی روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔(حکایتیں اور نصیحتیں صفحہ 93)

وقد صمت عن الذات دھری کلھا ویوم لقاکم ذاک فطر صیامی

ترجمہ: بے شک میں نے اپنی ساری زندگی لذات سے روزہ رکھا ( یعنی انہیں چھوڑے رکھا) اور تیرے دیدار کے دن ہی میر ا روزہ افطار ہوگا۔4: حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں نے آخری نبی علیہ الصلوة والسلام کو فرماتے ہوئے سنا: یہ ر مضان تمہارے پاس آگیا ہے اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔ محروم ہے وہ شخص جس نے رمضان کو پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی کہ جب اس کی رمضان میں مغفرت نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی۔(فضائل رمضان شریف صفحہ 55) 5۔ رمضان کے کھانے پینے کا حساب نہیں(یعنی سحر و افطار کے کھانے پینے کا ) (فضائل رمضان شریف ص29)

عاصیوں کی مغفرت کا لے کر آیا ہے پیام جھوم جاؤ مجرمو! رمضان مہ غفران ہے(غفران یعنی بخشش ، مغفرت)


صوم عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنیٰ ہیں:باز رہنا۔شریعت میں صبح سے شام تک بہ نیت عبادت صحبت سے اور کسی چیز کے پیٹ یا دماغ میں داخل کرنے سے باز رہنے کو صوم اور روزہ کہا جاتا ہے جس کا مقصد نفس کا زور توڑنا، دل میں صفائی پیدا کرنا، فقرا اور مساکین کی موافقت کرنا، مساکین  پر اپنے دل کو نرم بنانا ہے۔( بحوالہ مراة المناجیح جلد 3)1۔ ماہِ رمضان المبارک میں نیکیوں کا اجر بہت بڑھ جاتا ہے:حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ماہِ رمضان کے ایک دن کا روزہ رکھنا ایک ہزار دن کے روزوں سے افضل ہے اور ماہِ رمضان میں ایک مرتبہ تسبیح کرنا اس ماہ کے علاوہ ایک ہزار مرتبہ تسبیح کرنے( یعنی سبحن اللہ) کہنے سے افضل ہے، اور ایک رکعت پڑھنا غیر رمضان کی ایک ہزار رکعتوں سے افضل ہے۔(بحوالہ فیضانِ رمضان)2۔ شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشا دفرمایا: جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔ایک اور روایت میں ہے: جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں،اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔(بحوالہ فیضانِ ر مضان)3۔ سحری و افطاری :اللہ پاک کے کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں روزہ جیسی عظیم الشان نعمت عطا فرمائی اور ساتھ ہی ساتھ قوت کے لیے سحری کی نہ صرف اجازت مرحمت فرمائی بلکہ اس میں ہمارے لیے ڈھیروں ثواب بھی رکھ دیا۔ سحری کے متعلق پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نےارشاد فرمایا:1۔ سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔(بخاری 17، ص ، 22 ، حدیث 1922)2۔سحری برکت کی چیز ہے جو اللہ پاک نے تم کو عطا فرمائی اس کو مت چھوڑنا۔(سنن الکبریٰ للنسائی ، ج 2، ص 79، حدیث ، 2463)ان تمام فرامین سے ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ سحری ہمارے لیے ایک عظیم نعمت ہے اور رمضان شریف کی خصوصیت ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:اللہ پاک نے فرمایا: میرے بندوں میں مجھے زیادہ پیارا وہ ہے جو افطار میں جلدی کرتا ہے۔(ترمذی ج 2، ص 164، حدیث 700)سبحان اللہ! یقیناً افطار اللہ پاک کی عطا کردہ نعمت ہے اور اللہ پاک کا پیارا بننے کا ریعہ بھی ۔اللہ پاک نے رمضان المبارک کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی عطا کی ہے کہ افطار میں جلدی کی جائے۔4۔ تراویح:رمضان المبارک کی خصوصیات میں ایک خصوصی نعمت تراویح کی سنت بھی شامل ہے۔ تراویح سنتِ مؤکدہ ہے اور اس میں کم از کم ایک بار ختمِ قرآن بھی سنتِ مؤکدہ۔ تراویح رمضان المبارک کی خصوصیت ہے کیونکہ یہ عبادت صرف رمضان المبارک میں ادا کی جاتی ہے، تراویح ترک کرنا جائز نہیں۔ تراویح کی بیس (20) رکعتیں ہیں۔(فیضانِ رمضان)5۔ لیلۃ القدر: شبِ قدر اس امتِ محمدیہ کی خصوصیات سے ہے ہم سے پہلے کسی کو نہ ملی،اس رات میں سال بھر کے ہونے والے واقعات فرشتوں کے صحیفوں میں لکھ کر انہیں دے دیئے جاتے ہیں، اس رات میں اتنے فرشتے زمین پر اترتے ہیں کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے۔ اس رات میں عبادت کرنے والا رب کریم کے ہاں عزت والا ہے۔اس میں بہت اختلاف ہے کہ یہ رات کب ہوتی ہے؟ بعض کے خیال میں رمضان کے آخری عشرےمیں ہے۔بعض کہتے ہیں:آخری عشرے کی طاق تاریخوں میں ہے۔ اکیسویں تئیسویں وغیرہ مگر زیادہ قوی قول یہ ہے کہ ا ن شاء اللہ شبِ قدر ہمیشہ ستائیسویں رمضان کی شب ہے۔حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:شبِ قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ڈھونڈو۔( بخاری)اس حدیث سے معلوم ہوا! شبِ قدر ہر سال ماہِ رمضان میں ہوتی ہے اور ہوتی بھی ہے آخری عشرہ میں اور طاقت تاریخوں میں، شبِ قدر کو رب کریم نے ہم سے چھپالیا تاکہ ہم اس کی تلاش میں راتوں میں عبادت کریں۔ اللہ پاک نے حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو شبِ قدر کا علم دیا مگر اس کے اظہار کی اجازت نہ دی، اس کو چھپائے رکھا تاکہ اس کی تلاش رہے اور اچھی چیز کی تلاش بھی عبادت ہے لہٰذا یہ چھپانا ہمارے لیے بہتر ہے۔(مراة المناجیح جلد 3)اللہ کریم ہمیں رمضان المبارک کی برکتیں لوٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


رمضان المبارک کی خصوصیات:حضرت جابر بن عبدالله  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پرنور،شافعِ یوم النشور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:میری امت کو رمضان کے مہینے میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو میرے سے پہلے کسی نبی کو نہ دی گئیں ۔ (1) جب رمضان کی پہلی شب ہوتی ہے تو اللہ ان کی طرف نظرِ رحمت فرماتا ہے اور جس کی جانب اللہ پاک رحمت کی نظر فرماتا ہے اس پر کبھی عذاب نہیں ہوتا۔(2) شام کے وقت ان کے منہ کی بو (جو بوجہ بھوک آتی ہے) اللہ پاک کے نزدیک مشک کی مہک سے بھی افضل ہے۔(3) فرشتے ہر دن اور رات ان کے لیے دعائے بخشش کرتے ہیں۔ (4) الله پاک بہشت (جنت) کو حکم دیتا ہے: میرے نیک بندوں کیلئے آراستہ ہو جا بہت جلد وہ دنیا کی سخت محنت سے میرے گھر اور کرم میں سکون پائیں گے۔(5) جب رمضان کے مہینے کی آخری شب ہوتی ہے تو اللہ پاک تمام لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔ قوم میں سے ایک آدمی کھڑے ہو کر پوچھتا ہے:يا رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ! کیا یہ لیلۃ القدر ہے؟ فرمایا:نہیں! کیا تمھیں معلوم نہیں کہ مزدور جب اپنا کام مکمل کرتا ہے تو اسے اس کی اجرت دی جاتی ہے۔(فیضان سنت،جلد 1 ،صفحہ 21 تا 22) رمضان کے 5 حروف کی نسبت سے 5 مدنی پھول:(1) رمضان المبارک میں نفل کا اجر فرض جتنا اور فرض کا ستر گنا ملتا ہے ۔(2) بعض علما سے روایت ہے:جس شخص کا انتقال رمضان میں ہو اس سے قبر کے سوالات نہیں ہوتے۔(3)اس ماہ میں شبِ قدر ہے۔قرآن رمضان کے مہینے میں نازل ہوا۔انا انزلنه في ليلة القدر ترجمۂ کنزالایمان: بےشک ہم نے اسے شبِ قدر میں اتارا ۔(4) رمضان میں جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور شیطان قید ہو جاتا ہے۔جنت مزین (آراستہ) ہو جاتی ہے اور جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اسی وجہ سے ان دنوں میں نیکیوں کی زیادتی اور گناہوں میں کمی ہوتی ہے۔ان دنوں میں جو لوگ گناہ بھی کرتے ہیں وہ بھی اپنے ساتھی ابلیس کے بہکاوے میں کرتے ہیں۔(5)رمضان المبارک میں سحری اور افطار کے وقت مانگی جانے والی دعا مقبول ہوتی ہے یعنی سحری کر کے اور افطار کے وقت ۔یہ درجہ اور کسی مہینے کو حاصل نہیں۔ (فیضانِ سنت ، جلد 1 ، صفحہ 30،28،29)

جب کہا عصیاں سے سخت لاچاروں میں ہوں جن کے پلے کچھ نہیں ان خریداروں میں ہوں

تیری رحمت کیلیے شامل گنہگاروں میں ہوں بول اٹھی رحمت نہ گھبرا میں مدگاروں میں ہوں

صلوا علی الحبیب صلی اللہ علی محمد


خدائے رحمن  کے کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں ماہِ رمضان جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرمایا: ماہِ رمضان کے فیضان کے کیا کہنے! اس کی تو ہر گھڑی رحمت بھری ہے، رمضان المبارک میں ہر نیکی کا ثواب دس گنا یا اس سے بھی ز یادہ ہے ۔نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے، نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70 گناکردیا جاتا ہے۔عرش اٹھانے والے فرشتے روزہ داروں کی دعا پر آمین کہتے ہیں۔فرمانِ مصطفٰے کے مطابق رمضان کے روزہ دار کے لیے مچھلیاں افطار تک دعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں۔(فیضانِ ر مضان صفحہ نمبر21)1:نزولِ قرآن:اس ماہِ رمضان مبارک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے اس میں قرآنِ پاک نازل فرمایا ہے، جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:شہر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس وبینت من الھدیٰ والفرقانترجمہ: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا، لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں۔2 ۔ صغیرہ گناہوں کا کفارہ :حضرت ابوہریرہ ر ضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور پرنور،شافعِ یوم النشور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان پر اثر ہے: پانچویں نمازیں اور جمعہ اگلے جمعے تک اور ماہِ رمضان اگلے ماہِ رمضان تک گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔3۔رمضان المبارک کے چار نام: حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ تفسیر ِنعیمی میں فرماتے ہیں:اس ماہِ مبارک کے کل چار نام ہیں:1:ماہِ رمضان۔2:ماہِ صبر۔3: ماہِ مواسات ۔اور4:ماہِ وسعتِ رزق۔مزید فرماتے ہیں:روزہ صبر ہے جس کی جزا رب ہے اور وہ اسی مہینے میں رکھا جاتا ہے، اس لیے اسے ماہِ صبر کہتے ہیں۔مواسات کے معنیٰ ہیں: بھلائی کرنا، چونکہ اس مہینے میں سارے مسلمانوں سے خاص کر اہلِ قرابت یعنی رشتے داروں سے بھلائی کر نا زیادہ ثواب ہے۔اس لیے اسے ماہِ مواسات کہتے ہیں۔اس میں رزق کی فراخی( یعنی زیادتی)بھی ہوتی ہے کہ غریب بھی نعمتیں کھالیتے ہیں،اسی لیے اسے ماہِ وسعتِ رزق بھی کہتے ہیں۔(تفسیر نعیمی ج2 ، ص 208)4۔ لیلۃ القدر:اس مہینے میں شبِ قدر ہے، گزشتہ آیت (یعنی پارہ 20 سورة البقرہ آیت نمبر185) سے معلوم ہوا! قرآن رمضان میں آیا اور دوسری جگہ فرمایا:انا انزلنا فی لیلۃ القدرترجمۂ کنزالایمان:بے شک ہم نے اسے شبِ قدر میں اتارا۔دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا! شبِ قدر رمضان میں ہی ہے اور وہ غالباً ستائیسویں شب ہے کیونکہ لیلۃ القدر میں نو حروف ہیں اور یہ لفظ سورة القدر میں تین بار آیا ہے جس سے ستائیس حاصل ہوئے۔ معلوم ہوا! وہ ستائیسویں شب ہے۔(ص 29)5۔ پانچ خصوصی کرم :حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،سرکار ِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ِ ذی شان ہے: میری امت کو ماہِ رمضان میں پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں۔1:جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ پاک ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف نظر ِرحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔2: شام کے وقت ان کے منہ کی بو(جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔3۔فرشتے ہر رات اور دن ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔4۔اللہ پاک جنت کو حکم فرماتا ہے: میرے نیک بندوں کے لیے مزین ہو، یعنی آراستہ ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے۔5: جب ماہِ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ پاک سب کی مغفرت فرمادیتا ہے۔قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کیا وہ لیلۃ القدر ہے؟ارشاد فرمایا: نہیں،کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارغ ہوجاتے ہیں تو انہیں اجرت دے جاتی ہے؟(فیضانِ رمضان ص نمبر26)ہر مہینے میں خاص تاریخیں اور تاریخوں میں خاص وقت میں عبادت ہوتی ہے ۔ مگر ماہِ رمضان میں ہر دن اور ہر وقت عبادت ہوتی ہے، اللہ پاک ہمیں ماہِ رمضان میں خوب خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین۔مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ان شاءاللہ


الحمدللہ  خدائے رحمن کا کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں ماہِ ر مضان جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرمایا۔ر ب کریم نے اس ماہِ مبارک کو بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے جن میں سے چند خصوصیات درجِ ذیل ہیں:نزولِ قرآن: اس ماہِ مبارک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے اس میں قر آن ِپاک کا نزول فرمایا،چنانچہ مقدس قرآن میں خدائے رحمن کا نزولِ قرآن اور ماہِ ر مضان کے بارے میں فرمانِ عالیشان ہے:شہررمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس وبینت من الھدیٰ والفرقان(پ 2، البقرہ: 185)شبِ قدر: نبیِ رحمت،شفیعِ امت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تمہارے پاس ایک مہینا آیا ہے جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو شخص اس ر ات سے محروم رہ گیا، گویا وہ تمام کی تمام خیر سے محروم رہ گیا اور اس کی خیر سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہے۔(ابن ماجہ 2،/298، حدیث: 1644)الحمدللہ اس مہینے کی ایک خصوصیت یہ بھی معلوم ہوئی کہ ہمیں اس میں شبِ قدر جیسی عظیم نعمت عطا ہوئی۔قرآنِ کریم میں رمضان المبار ک کا نام :اس ماہِ مبارک کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ قرآنِ کریم میں صر ف رمضان المبارک ہی کا نام لیا گیا ہے اور اسی کے فضائل بیان ہوئے کسی دوسرے مہینے کا نہ صراحتاً نام ہے نہ ایسے فضائل ، اسی سے اس مبارک ماہ کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ماہِ رمضان میں مر نے کی فضیلت :جو خوش نصیب مسلمان ماہِ رمضان میں انتقال کرتا ہے اس کو سوالات ِ قبر سے امان دی جاتی ہے، وہ عذابِ قبر سے بچ جانا اور جنت کا حق دار قرار پاتا ہے۔ حضرات محدثینِ کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کا قول ہے: جو مومن اس مہینے میں مرتا ہے وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے،گویا اس کے لیے دوزخ کا دروازہ بند ہے۔(انیس الواعظین،ص25)ہروقت عبادات :اس مبارک ماہ کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر مہینے میں خاص تاریخوں اور تاریخوں میں بھی خاص وقت میں عبادات ہوتی ہے جیسا کہ محرم کی دسویں تاریخ اور ذوالحج میں بقرہ عید افضل ہے، مگر ماہِ رمضان میں ہر دن اور ہر وقت عبادت ہوتی ہے، روزہ عبادت، افطار عبادت، تراویح عبادت،سحری کا انتظار عبادت،پھر سحری کھانا بھی عبادت، الغرض ہر آن میں خدا کی شان نظر آتی ہے۔اللہ پاک ہم سب کو بھی رمضان المبارک برکتوں سے مالا مال فرمائے۔امین


اللہ  پاک نےقر آنِ کریم میں اشاد فرمایا:شہر رمضان الذی انزل فیہ القران(ماہ ِ ر مضان جس میں قرآن اتارا گیا)اس مہینہ یعنی رمضان المبارک کو امام الانبیا ،شہنشاہ ِ دو جہاں،حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اللہ پاک کا مہینہ فرمایا ہے،چنانچہ تاریخ ابنِ عساکر میں ہے: اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:شھررمضان شھراللّٰہ ( ماہِ رمضان اللہ پاک کا مہینہ ہے) حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیرِ نعیمی میں ماہِ ر مضان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:رمضان رمضسے بنا ہے، جس کے معنی ہیں: گرمی یا جلنا،چونکہ اس میں مسلمان بھوک پیاس کی تپش برداشت کرتے ہیں یا یہ گناہوں کو جلا ڈالتا ہے، اس لیے اسی رمضان کہا جاتا ہے۔جامع الشمل جلد 2 کے صفحہ نمبر 250 پر علامہ محمد بن یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:انما یسمی رمضان لانہ یرمض الذنوب (بے شک اسے رمضان کا نام دیا گیا ہے کیونکہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔)بعض مفسرین نے فرمایا ہے:جب مہینوں کے نام رکھے گئے تو جس موسم میں جو مہینہ تھا اس سے اس کا نام ہوا، جو مہینہ گرمی میں تھا اسے رمضان کہہ دیا گیا۔یا یہ رمضاء سے مشتق ہے ، رمضاء موسم خریف کی بارش کو کہتے ہیں جس سے زمین دھل جاتی ہے اورر بیع کی فصل خوب ہوتی ہے، چونکہ یہ مہینہ بھی دل کے گردو غبار دھو دیتا ہے اور اس سے اعمال کی کھیتی ہری بھری رہتی ہے اس لیے اسے رمضان کہتے ہیں۔رمضان کی خصوصیات :اس ماہِ مبارک کی بہت سی خصوصیات ہیں :1۔اس ماہِ مبارک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے اس میں قرآنِ پاک نازل فرمایا ہے، چنانچہ پارہ 2 سورة البقرہ کی آیت نمبر 185 میں خدائے رحمن کا فرمانِ عالی شان ہے:شہر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدًی للناس وبینت من الھدیٰ والفرقان رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا، لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں۔2۔ کعبہ معظمہ مسلمانوں کو بلا کر دیتا ہے اور یہ آکر رحمتیں بانٹتا ہے،گویا وہ ( یعنی کعبہ) کنواں ہے اور یہ ( یعنی رمضان شریف) دریایا وہ (کعبہ) دریا ہے اور یہ (رمضان) بارش۔3۔ہر مہینے میں خاص تاریخوں میں بھی خاص وقت میں عبادت ہوتی ہے، مثلاً بقرعید کی چند (مخصوص) تاریخوں میں حج محترم کی دسویں تاریخ افضل مگر ماہِ رمضان میں ہر دن اور ہر قت عبادت ہوتی ہے۔روزہ عبادت،افطار عبادت، افطار کے بعد تراویح کا انتظام عبادت، تراویح پڑھ کر سحری کے انتظار میں سونا،پھر سحری کھانا بھی عبادت ہے۔الغرض ہر آن میں خدا کی شان نظر آتی ہے۔4۔ اس مہینے میں شبِ قدر ہے، کیونکہ پارہ 2 سورة البقرہ کی آیت نمبر 185 میں ہے:شہر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس وبینت من الھدیٰ والفرقان(رمضان کامہینہ جس میں قرآن اترا ، لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں)اور دوسری جگہ پارہ 30 سورة القدر آیت نمبر1میں ار شاد فرمایا:اناانزلنہ فی لیلۃ القدر(بے شک ہم نے اسے شبِ قدر میں اتارا) دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا! شبِ قدر رمضان میں ہی ہے، شبِ قدر کے متعلق نبیِ رحمت،شفیعِ امت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تمہارے پاس ایک مہینہ آیا ہے، جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ تمام کی تمام خیر سے محروم رہ گیا، اور اس کی خیر سے محروم نہیں رہتا، مگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہے۔5۔ رمضان میں دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور جنت آراستہ کی جاتی ہے اس کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں،اس لیے ان دنوں میں نیکیوں کی زیادتی اور گناہوں کی کمی ہوتی ہے۔جو لوگ گناہ کرتے بھی ہیں وہ نفس امارہ یا اپنے ساتھی شیطان (ہمزاد) کے بہکانے سے کرتے ہیں۔

تجھ پہ صدقے جاؤں ر مضان تو عظیم الشان ہے تجھ میں نازل حق تعالیٰ نے کیا قر آن ہے

ابرِ رحمت چھا گیا ہے اور سماں ہے نور نور فضل ِرب سے مغفرت کا ہوگیا سامان ہے

ہر گھڑی رحمت بھری ہے ہر طرف ہیں برکتیں ماہِ رمضان رحمتوں اور برکتوں کی کان ہے

بھائیو بہنو گناہوں سے سبھی توبہ کرو خلد کے در کھل گئے ہیں داخلہ آسان ہے

یا الہٰی تو مدینے میں کبھی رمضان دکھا مدتوں سے دل میں یہ عطار کے ارمان ہے(وسائل بخشش)