میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں ! دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنےاور رعایا کو حکمرانوں کے حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے حاکم کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں حکمرانوں کی بات سننا اور بقدر استطاعت اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے : اللہ تعالی نے حکمرانوں کی اطاعت فرماں برداری کا جو حکم ارشاد فرمایا اُسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت واضح کر کے لوگوں تک پہنچا دیا اللہ عز و جل ہمیں نیک اور اچھے پرہیز گار حکمران نصیب فرمائے اور جائز امور کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

(1) اطاعت کرنا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں ۔

صراط الجنان میں اس کی تفسیر میں لکھا ہے اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے۔ جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو اُن کی اطاعت نہیں کی جائے گی: آیت میں " أولي الأمر" کی اطاعت کا حکم ہے اس میں امام، امیر، بادشاہ حاکم سب داخل ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان، پارہ 5، ص 230)

(2) ناپسند یدہ بات پر صبر کرنا : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جسے اپنے حاکم سے کوئی ناپسندیدہ شے پہنچے تو اُس کو چاہیے کہ صبر کرے کیونکہ جو سلطان سے ایک بالشت بھی دور نکلا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ ( ریاض الصالحین جلد 5 ، ص 657)

(3)اہانت نہ کرنا : حضرت سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : " جس نے سلطان کی اہانت کی، اللہ عزوجل اُسے ذلیل کرے گا" ۔ ( ترمذی شریف، حدیث 2231)

(4) بات سننا :حضرت ام الحصین رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم پر ناقص الاعضاء غلام حاکم بنا دیا جائے جو تم کو اللہ کی کتاب سے چلائے اُس کی سنو اور اطاعت کرو. (مرآۃ المناجح , جلد 5 ص 382)

(5) حکم ماننا: حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر مسلمان پر حاکم کا حکم سننا اور اُس کی اطاعت کرنا لازم ہے چاہے وہ حکم اس کو پسند ہو یا نہ ہو سوائے گناہ کے حکم کے کہ جب گناہ کا حکم دیا جائے تو اُسے نہ سننا لازم ہے اور نہ ہی اُس کی اطاعت کرنا لازم ہے. (مسلم ، کتاب الامارة،حدیث 4763)

اللہ عزوجل ہمیں حاکم کا حکم ماننے اور اس کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


معاشرے کا حکومتی نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے دین اسلام حکمرانوں کو دعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور حکمرانوں کا حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے جیسے حکمرانوں پر دعایا کی دیکھ بال لازم ہے ویسے ہی دعایا پر بھی اپنے حکام کی اطاعت و فرمانبرداری لازم ہے اور حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں کیونکہ حکمرانوں کی مخالفت سے اسلام کی اجتماعیت کو نقصان پہنچتا ہے افتراق و انتشار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جبکہ شریعت اسلامیہ کو مسلمانوں کا متحد رہنا پسند ہے ہاں اگر کوئی امیر یا حاکم شریعت اسلامیہ کے خلاف کوئی حکم دے تو اس معاملے میں اسکی اطاعت واجب نہیں بلکہ ناجائز و گناہ ہے۔ آئیے اب ہم حاکم کے حقوق سنتے ہیں؟

(1) حاکم کی اطاعت کرنا: علامہ ابو عبد الله محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حاکم اگر کسی جائز کام کا حکم دے تو اسکی اطاعت کرنا واجب ہے اور اگر نا جائز کام کا حکم دے تو ہرگز اسکی اطاعت نہ کی جائے پھر اگر وہ ناجائز کام کفر ہو تو مسلمانوں پر اس حاکم کو معزول کرنا واجب ہے۔ (ریاض الصالحین جلد 5 ص634)

(2)ظالم حکمران کے خلاف بغاوت نہ کرنا: حضرت سیدنا علامہ عبد الرحمن ابن جوزی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں حکمران اگرچہ ظالم ہوں مگر پھر بھی ان کے خلاف بغاوت کی ممانعت ہے کیونکہ بغاوت ایک ایسا فتنہ ہے جو جان و مال اور عزت کو ہلاک کر دیتا ہے حاکم کے خلاف بغاوت کرنے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے محل بنوایا اور شہر کو تباہ کر دیا۔ (ریاض الصالحین جلد 5 ص 642)

(3) حاکم سے جھگڑا نہ کرنا : علامہ ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا اگر کوئی حاکم سے جھگڑے تو اسکی گردن اڑا دو۔ (یہ خطاب حکمرانی میں جھگڑنے والے اور اس کی بیعت لینے والے دونوں کو شامل ہے (مرقاة المفاتيح ، كتاب الامارة والقضاء، الفصل الاول 260/7 حدیث3679)

(4)حکمرانوں کے عیب ظاھر نہ کرنا: حضرت سیدنا زید رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں جب اپنے حقوق کے بارے میں دعا کرو تو اپنی آواز پست رکھو کیونکہ بلند آواز سے دعا کرنے میں ظالم حکمرانوں کے عیوب لوگوں پر ظاھر ہوں گے جو ان کے لیے بے عزتی کا سبب بنیں گے اور حکمران اسے اپنے لیے گالی سمجھیں گے اور یہ موجب فتنہ وفساد ہے۔ (ریاض الصالحین جلد 5 ص 653)

(5)سلطان کی توھین نہ کرنا : حضرت سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے سلطان کی اھانت کی اللہ اسے ذلیل کرے گا (ریاض الصالحین جلد 5 ص 659)

پیارے پیارے بھائیو ان تمام اقوال اور احادیث سے معلوم ہوا کہ دعایا کو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے حکمران کی اطاعت کرنی چاہیے ہاں اگر وہ برائ کا حکم دے تو اطاعت واجب نہیں بلکہ نا جائز اور گناہ ہے اسکی اصلاح کے لیے اللہ سے دعا کرنی چاہیے اور اپنی اصلاح کی طرف بھی بھر پور توجہ دینی چاہیے کیونکہ رعایا کے برے اعمال کے سبب ہی برے حکمران مسلط کیے جاتے ہیں لوگ حکمرانوں کو تو برا بھلا کہتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے اگر دعایا سدھر جائے تو حکمران بھی سدھر جائے گے اللہ تعالٰی ہمیں حکمرانوں سے محفوظ فرمائے اور نیک حکمران عطا فرمائے ۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


دین اسلام میں عادل حاکم و پابند شرح حاکم کا بہت مقام و مرتبہ بیان کیا گیا ہے. اچھے حاکم کو رحمت الہی قرار دیا گیا ہے حکمرانوں کی اطاعت کو اللہ عزوجل کی اطاعت اور ان کی نافرمانی کو اللہ عزوبل کی نافرمانی قرار دیا گیا ہے لیکن ان کی اطاعت صرف ان کاموں میں کی جائے گی جو خلاف شرع نہ ہو۔ عدل کرنے والا حاکم قیامت کے دن عرش کے سائے میں ہو گا جس دن اور کوئی سایہ نہ ہوگا ۔ ان کے اوصاف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں آئیے ان میں سے چند کا مطالعہ کرتے ہیں:

(1)جھگڑا نہ کرنا:حاکم کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے لیے جائز احکامات کو مانا جائے اور جھگڑے سے بچا جائے حاکم سے جھگڑا کرنے کی مذمت میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:فَإِنْ جَاءَ اخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنْقَ الْأَخَرِ. اگر کوئی حاکم سے جھگڑے تو اس کی گردن اڑا دو. (مسلم، کتاب الامارة، باب الامر بالوفاء ببيعة الخلفاء الاول فالاول ، ص 790 ، حدیث : 4776)

(2)حکم کی بجا اوری:روایا کو چاہیے کہ حاکم کے حقوق ادا کرے اور اس کے حکم کی اطاعت کرے اگر شریعت کے موافق ہے حاکم چاہے رعایہ کے حقوق ادا کرتا ہو یا نہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے ایسے حاکم کے بارے میں پوچھا گیا جو رعایہ کے حقوق ادا نہ کرتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِلُوا وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ. بے شک ان پر وہ لازم ہے جس کے وہ پابند کیے گئے ہیں اور تم پر وہ لازم ہے جس کے تم پابند کیے گئے ہو۔ (مسلم، كتاب الامارة، باب في طاعة الامراء وان منعوا الحقوق، ص 792 ، حدیث: 4782)

(3)صبر کرنا:رعایہ کو چاہیے کہ اگر حاکم کی طرف سے کوئی بات بری لگے تو اس پر صبر کریں کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا جس سے اپنے حاکم سے کوئی ناپسندیدہ شے پہنچے اسے چاہیے کہ صبر کرے کیونکہ جو سلطان سے ایک بالشت بھی دور نکلا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم : سترون بعدی امورا تنكرونها ، 429/4، حدیث: 7053)

(4)اکرام کرنا:حاکم اسلام کی عزت و احترام کرنا ضروری ہے اس کی توہین نہ کی جائے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حاکم کی عزت نہ کرنے کے حوالے سے فرمایا:مَنْ آهَانَ السُّلْطَانَ أَهَانَهُ اللهُ . جس نے سلطان کی اہانت, کی اللہ عزوجل اسے ذلیل کرے گا. اس حدیث مبارکہ کی شرح میں ہے کہ شریعت و سنت کے پابند حاکم سے کوئی افضل نہیں, ہو سکتا اس کی دعا رد نہیں کی جاتی, بروز قیامت اسے قرب خداوندی نصیب ہوگا۔ (فیضان ریاض الصالحین، جلد 5،باب 80/حکمرانوں کی اطاعت کا بیان،حدیث 673،ص659)

(5)اطاعت کرنا : حاکم اسلام کی اطاعت کرنا ضروری ہے جس طرح کہ قران پاک میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ. ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت کے تحت علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں اس ایت مبارکہ سے ثابت ہوا جب بادشاہ و حکمران قران و سنت کی پیروی کریں تو رعایا پر ان کی تابعداری واجب ہے۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چاہیے کہ حکام اسلامی کی اطاعت اور ان کے بنائے ہوئے قانون جو شریعت کے موافق ہوں ان کی اطاعت کریں تاکہ ہمارا معاشرہ پرامن مثالی اور خوشگوار بن سکے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حاکم اسلام کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ پاک نے اس زمین پر بعض پر بعض کو حا کم اور بعض کو بعض کی رعایا بنایا ہے۔ لیکن دونوں طرح کے لوگوں کے ایک دوسرے پر حقوق بھی مقرر فرمائے ہیں۔اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ، ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني ( صحيح البخاري : 7137 ، الأنعام / صحيح مسلم : 1835 ، الإمارة )

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی ، اور جس نے امیر و حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر و حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ۔

کسی بھی معاشرہ میں زندگی کےمعاملات کو صحیح طور پر چلانے کیلئےایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے ، شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ سکتا ، اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کرسکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے ، اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہیکہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں ۔

سننا اور ماننا : جو شخص کسی بھی طرح سے حاکم بن چکا ہے ، اسکی اطاعت و فرمانبرداری ہر فرد پرواجب ہے ، بشرطیکہ وہ حاکم جائز اور استطاعت کی حدود میں ہے : ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو اور انکی جو امیر و حاکم ہیں ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : مسلمان مرد پر اپنے مسلمان حکمران کی بات سننا اور ماننا فرض ہے (ہر کام میں ) خواہ وہ بات اسے پسند ہو یا نا پسند ، مگر یہ کہ اسے گناہ کرنے کا حکم دیا جائے ، پس جب اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر اس کا سننا اور ماننا فرض نہیں ہے ۔

خیر خواہی اور نصیحت : انکے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے ، اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے ، انہیں صحیح اور سچا مشورہ دیا جائے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دین خیرخواہی کا نام ہے ، پوچھا گیا کس کی خیرخواہی ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی ، اللہ کے رسول کی ، اللہ کے کتاب کی ، مسلمانوں کے حاکموں کی اور عام مسلمانوں کی۔ ( صحیح مسلم ، بروایت تمیم داری )

انکے ساتھ تعاون : اس معنی میں کہ انکے جو حقوق واجبات اپنے اوپر ہیں انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں اور اگر اپنے کچھ حقوق یا مال ہو رہے ہوں تو انکی وجہ سے اپنا دست تعاون نہ کھینچیں ۔ ایک بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر ہم پر کچھ ایسے حاکم مسلط ہوجائیں کہ وہ ہم سے اپنا حق تو مانگیں لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دیں تو ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولا جواب سے خاموش رہے لیکن دوبارہ یا سہ بارہ سوال پر آپ نے فرمایا : تم انکی بات سنو اور مانو ، انکی جو ذمہ داری ہے وہ ان پر ہے اور جو تمہاری ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے ۔ ( صحیح مسلم : 1846 ، بروایت وائل بن حجر )

عدم بغاوت اور انکے لئے دعا : اگر حاکم اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سے بغاوت جائز نہیں ہے ، بلکہ حتی الامکان اسکے اصلاح کی کوشش کی جائے اور انکے اصلاح و حق پر ثبات کیلئے دعا کی جائے ۔

فرمان نبوی : تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تم انکے لئے دعا کرتے ہو ، اور تمہارے حاکموں میں سے میرے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھتے رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں ، آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم ایسے حاکموں کو تلوار لیکر انکے خلاف علم بغاوت نہ بلند کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نہیں ، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں (ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا ) اور جب تم اپنے حاکموں سے کوئی ایسی شے دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو ان کے عمل کو برا سمجھ مگر انکی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا ۔( مسلم : 1855 ، بروایت عوف بن مالک )

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی بھی معاشرہ میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کیلئے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے ۔شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیںرہ سکتا ۔ ا ور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن وامان اس وقت تک قائم نہیں کر سکتا جب تک اسے رعایاکا تعاون حاصل ننہ ہو اس امر کی معرفت ضروری ہے کہ حاکم ومحکوم اپنے فرائض و واجبات اور حقوق کوپہچا نہیں

رعایا پر سختی نہ کرنا : مسلمانوں کا جو حاکم ان پر بلا وجو سختی کرے تو اللہ کے جانب سے اس پر سختی کی جاتی ہے۔ حاکم کو چاہیے کہ اپنی رعایا پر سخت نہ کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے کسی صحابی کو اپنے کچھ کاموں کے لیے ولی و نگران بنا کر بھیجتے تو اس سے فرماتے خوشخبری دو متنفر نہ کرو اور آسانی کرو ۔(مسلم، کتاب الجھا دو اسیر، باب فی الامر با تیسیر و ترک 1 تنفیر ص 739 ، حدیث : 4525)

رعایا کی خبر گیری : جو حکمران اپنے عیش ممیں مگن ہوں. اور رعایا کی حاجات وضورت کی پروانہ کریں تو بروز قیامت ایسے حکمرانوں کی پکڑ ہوگی ۔ حاکم کو چاہیے کہ اپنی رعایا کی خبر گیری ان کی حاجات کوپورا کرے چنانچہ حضرت سیدنا ابو مریم آزدی نےامیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ میں نے رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جسے اللہ مسلمانوں کے کسی معاملہ کا والی و حاکم بنائے پھر وہ ان کی حاجات وضرورت اور محتاجی سے چھپتا پھر ے تو بروز قیامت اللہ کو اس کی ضرورت و حاجت اور محتاجی وفقر سے کچھ سروکار نہ ہوگا۔ (ابوداؤد اور کتاب الخراج --- الخ ، باب فيما يلزم الامام من امر الرعية - - الخ ، 3 / 188 ، حدیث 2948 بتغیر)

رعایا کو دھوکا نہ دینا ، حکمرانی بہت بڑی آزمائش ہے اگر حکمرانی کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے تو یہ وبال جان ہے۔ حاکم کو چاہیے کہ اپنی رعایا کو دھوکا نہ دے چنانچہ سیدنا ابو یعلی معقل بن یسار سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا. جب الله اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو. تو الله اس پرجنت حرام فرما دے گا۔ ( بخاری ، کتاب الاحکام ، باب من استرعى رعية فلم ينصح ، 7150 :456/4، حدیث)

عدم بغاوت اور انکے لیے دعا: اگر اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سےبغاوت جائز نہیں۔ حاکم کو چاہیے کہ اپنی رعایا سے اخلاق سے پیش آئے ان کے لئے سلامتی کی دعا مانگے حضرت سید ناعوف بن مالک فرماتے ہیں میں نے حضور صلی الله عليه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا. ۔ تمہارے اچھے حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں تم ان کے لئے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تمہارے برے حکمران وہ ہیں جن سے تم بعض رکھتے ہو اور وہ تم سے بعض رکھتے ہیں تم ان پر لعنت بھجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھجتے ہیں ۔حضرت سیدنا عوف بن مالک کہتے ہیں ہم نے عرض کی یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کیا ہم ان سے علیحدہ نہ ہوجائیں ؟اپ نے ف رخ مایا ۔ نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کریں ۔نہیں جب تک وہ تم میں نمازقائم کریں۔ ( مسلم ، کتاب الامارة ، باب خيار الائمة وشرارهم ص795 ، حدیث : 4805 )

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں امیر کو چاہیے کہ اپنی رعایا کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرے مسلمان پر اپنے مسلمان حکمران کی بات سننا اور ماننافرض ہے۔ حاکم اپنی رعایاکے ساتھ حسن اخلاق سےپیش آئے ان کے درمیان انصاف قائم کرے ۔ اپنی رعایا کی اصلاح کی کوشش کرے

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


معاشرے میں زندگی کے معاملات کو احسن طریقے سے چلانے کے لئے حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہوتا ہے جو اپنے فہم و فراست اور سمجھ بوجھ سے ایک عادلانہ نظام قائم کر سکے اور معاشرے میں امن و امان سلامت رہے لہذا جس طرح حاکم کی ذمہ داریاں و فرائض ہوتے ہیں اسی طرح رعایا پر حاکم کے حقوق ہوتے ہیں جن کو ادا کرنا واجب ہے ۔ حاکم کے چار حقوق ہیں۔

1 حاکم کی بات ماننا: جو شخص حاکم بن گیا ہو تو اب اسکے ماتحتوں پر لازم ہے کہ اسکی بات سنیں اور اس پر عمل بجا لائیں جب تک کہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشادفرماتاہے: "یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ" ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں ۔ (پارہ 4,سورۃ النساء59)

بخاری شریف میں ہے کہ "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری، کتاب الجہادوالسیر، باب یقاتل من وراءالامام ویتقی بہ،2 /297، الحدیث: 2957)

اس حدیث پاک کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ یہاں امیر کی اطاعت سے مراد جائز احکام میں اسکی اطاعت کرنا ہے. (مراۃ المناجیح,جلد5,کتاب الامارۃ والقضاء,ص359,حدیث3491,حسن پبلیشرز, اردوبازارلاہور)

2 خیر خواہی اورنصیحت: انکےساتھ خیر خواہی کا معاملہ کریں اگر انکے کسی فعل میں کوئی خامی نظر آئے تو ان کو احسن طریقے سے آگاہ کریں اور انکو درست مشورہ دیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پرکچھ حکام ہوں گے جن کے کچھ کام تم پسند کروگے کچھ ناپسند کروگے تو جو انکار کرے تو وہ بری ہوگیا اور جو ناپسند کرے وہ سلامت رہا" (مراۃ المناجیح, جلد5,کتاب الامارۃ والقضاء,ص364,حدیث3501,حسن پبلیشرز, اردوبازارلاہور) یعنی ایسےبادشاہوں کےبرے اعمال کو زبان سےبراکہہ دینےوالاپختہ مسلمان ہےاوران کےاعمال کوصرف دل سے برا سمجھنے والا زبان سے خاموش رہنے والا پہلے کی طرح پختہ تو نہ ہوگا مگر گناہ سے بچ جائےگا۔

3 تعاون کرنا: انکے جو حقوق ہیں انکی ادائیگی کرکے انکے ساتھ تعاون کریں حاکم کے لئے مشکلات پیدا کرنے سے بچیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو اوراطاعت کرو اگرچہ حبشی غلام حاکم بنادیاجائے جس کاسرکشمش کی طرح ہو. (مراۃ المناجیح, جلد5,ص360,حدیث3493,حسن پبلیشرز, اردوبازارلاہور)

مسلمانوں پر لازم ہے کہ انکے حقوق کی ادائیگی کاخیال رکھیں جب تک حاکم اللہ کی نافرمانی کاحکم نہ دےبہت سی احادیث میں حاکم کی اطاعت کرنےکی تاکیدآئی ہےاسی طرح مشکوۃ شریف کی ایک اور روایت پیش خدمت ہےکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہےکہ"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان آدمی پرلازم ہے. (مراۃ المناجیح, جلد5,ص360,حدیث3494,حسن پبلیشرز, اردوبازارلاہور)

یعنی سلطان اسلام کاجائزحکم تمہاری طبیعت کےخلاف ہویاموافق قبول کرولیکن اگروہ خلاف شرع حکم دےتواس کی فرمانبرداری نہ کی جائےاوراس بناپربغاوت بھی نہ کی جائے۔

4 عدمِ بغاوت اور حاکم کے لئے دعا: حاکم اگر اسلام سے باغی نہ ہو تو اسکی بغاوت جائز نہیں اگر کوئی خلافِ شرع بات دیکھے تو حاکم کی اصلاح کریں ناکہ اس کی بغاوت پہ جمع ہوجائیں بلکہ اصلاح کریں اور حق و انصاف پر قائم رہنے کی دعا کریں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے فرماتے ہیں"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے حاکم سے ناپسندیدہ چیز دیکھے تو صبر کرے کیونکہ نہیں ہے کوئی جو جماعت سے بالشت بھرالگ رہے پھر مرجائے مگر وہ جاہلیت کی موت مرے گا.

اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں یعنی اگر حاکم یا سلطان میں کوئی شرعی یا طبعی یا اخلاقی نقص دیکھے تو صرف اس وجہ سے اس پر خروج نہ کرے اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کرے.(مراۃ المناجیح, جلد5,کتاب الامارۃ والقضاء, ص362,حدیث3497,حسن پبلیشرز,اردوبازارلاہور)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہوگا (صحیح بخاری : 2554)

برصغیر کے مشہور عالم، فقہیہ، محدث اور مؤرخ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے سیرت کا مفہوم حسب ذیل لکھا ہے۔وہ احادیث جو آقا کریمؐ کے وجود سے متعلق، ولادت با سعادت سے وصال شریف تک، صحابہ کرام اور اہل بیت اظہار سے متعلق ہوں، ان سب کو اسلامی علوم و فنون کی اصطلاح میں سیرت کہتے ہیں (عجالہ نافعہ، ص 97)۔اسی طرح آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، احوال اور خصائص وشمائل بھی سیرت کا حصہ ہیں۔

بنیادی حقوق انسانی سے مراد وہی حقوق ہیں، جنہیں اسلامی علوم وفنون کی اصطلاح میں حقوق العباد کہا جاتا ہے۔ اسلام میں حقوق العباد کی ادائیگی پر بہت زور دیاگیا ہے اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقوال و سیرت سے اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ حقوق العباد کی ادائیگی سے معاشرے سنورتے ہیں اور اس میں افراط و تفریط سے انسانی معاشروں میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔

حقوق انسانی کی بہت ساری جہتیں ہیں، جن میں اساتذہ اور طلباء کے حقوق، والدین کے حقوق ، اولاد کے حقوق ،رشتہ داروں کے حقوق، زوجین کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، یتیموں کے حقوق، فقراء و مساکین کے حقوق، افسران اور ماتحتوں کے حقوق، غلاموں کے حقوق، حکمرانوں اور رعایا وغیرہ کے حقوق شامل ہیں۔ چونکہ بنیادی انسانی حقوق کا تعلق فردومعاشرہ سے ہے اور معاشرے کے اہم ترین اجزاء دو ہیں،ایک حکمران دوسرے رعایا۔ان دونوں کے حقوق وفرائض کے تعین اور ادائیگی سے ہی معاشروں کا عروج وزوال جڑا ہوتا ہے۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان دونوں کے حقوق وفرائض کو قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جنہیں ہم دو حصوں میں بیان کریں گے۔ اس مضمون میں ہم ’’حکمران کے حقوق وفرائض، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ‘‘ بیان کریں گے۔

علامہ شبلی نعمانی نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدمہ میں سیرت نگاری کے جو اصول ذکر کیے ہیں، ان میں پہلا اصول حسب ذیل ہے۔ سب سے پہلے واقعہ کی تلاش قرآن مجید میں، پھر احادیث صحیحہ میں، پھر عام احادیث میں کرنی چاہیے ، اگر نہ ملے تو روایات سیرت کی طرف توجہ کی جائے۔پھر تیسرا اصول بیان کیا کہ ’’سیرت کی روایتیں بااعتبار پایۂ صحت، احادیث کی روایات سے فروتر ہیں، اس لیے بصورت اختلاف احادیث کی روایات کو ہمیشہ ترجیح دی جائے گی۔(مقدمہ سیرت النبی، ص64) ۔

کسی ملک میں کا نظام چلانے اور اس میں امن وسکون قائم کرنے اور رکھنے کے لیے دوباتیں ضروری ہیں۔(1) حکمران کا عادل ومنصف اور عوام کے دکھ درد کو سمجھنے والا ہونا۔(2) عوام کا اپنے حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنا ۔ حکمرانوں کے بارے میں فرمان رسولؐ ہے کہ ’’ سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اُس دن اللہ اپنے (عرش) کا سایہ دیں گے، جس دن کوئی سایہ نہیں ہوگا،ان میں سے ایک عادل حکمران ہے‘‘۔ (صحیح بخاری:1423)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے سوال ہوگا اس کی رعیت کا (حاکم سے مراد منتظم اور نگران کار اور محافظ ہے)، پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہوگا اس کی رعیت کاکہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے، ان کی جان ومال کی حفاظت کی یا نہیں۔ آدمی حاکم ہے اپنے گھر والوں کا اس سے سوال ہوگا ان کا۔ عورت حاکم ہے اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی۔ اس سے ان کا سوال ہوگااور غلام حاکم ہے اپنے مالک کے مال کا،اس سے اس کا سوال ہوگا‘‘(صحیح بخاری:2554، 5188، 7528)

رعیت کے حقوق میں خیانت کرنے سے مراد ہے کہ حاکم کے لیے اپنی رعیت کے دین اور دنیا دونوں کی اصلاح ضروری ہے، پھر اگر اس نے لوگوں کا دین خراب کیا اور حدود شرعیہ کو ترک کیا، یا ان کی جان و مال پر ناحق زیادتی کی، یا اور قسم کی ناانصافی کی، یا ان کی حق تلفی کی، تو اس نے اپنے فرض منصبی میں خیانت کی، اب وہ جہنمی ہوا۔ اگر اس کام کو حلال جانتا تھا تو ہمیشہ کے لیے جنت سے محروم ہوا۔( حقو ق انسانیت اسلام کی نظر میں، ص 234)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی بھی معاشرہ میں زندگی کےمعاملات کو صحیح طور پر چلانے کیلئے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے ، شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ سکتا ، اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کرسکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو، اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے، اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہی کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔

اس کے پیش نظر اس ماہ میں رعایا پر حاکم کے حقوق و فرائض ذکر کیے جاتے ہیں ملاحظہ ہوں۔

اللہ پاک نے اپنی کتاب میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- النساء: 59) ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والوحکم مانو اللہکا اورحکم مانو رسول کااور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔

(1) اطاعت کرنا: جو شخص کسی بھی طرح سے حاکم بن چکا ہے ، اسکی اطاعت و فرمانبرداری ہر فرد بشر پر واجب ہے، بشرطیکہ وہ شریعت کے مطابق ہو۔ جیسا کہ حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ پاک کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔(بخاری، کتاب الجھاد، باب یقاتل من وراء الامام الخ ،2/ 297، حدیث: 2957)

(2,3) اسکی اچھائی پرشکر اور بُرائی پر صبرکرنا:

حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے مکی مدنی سلطان صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: مجھے ایسے سلطان کے بارے میں بتایئے جس کے آگے گردنین جھکی ہوں اور اس کی اطاعت کی جاتی ہوکہ ایسا سلطان کیسا ہے؟ ارشاد فرمایا: وہ زمین پر اللہ پاک سایہ ہے اور جب وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے اجر ہے اورتم پر شکرلازم ہے اور اگر بُرا سلوک کرے تو اس کا گناہ اُس پر ہے اور تمہارے لئے صبر ہے۔(شعب الایمان،باب فی طاعة اولى الامر،فصل فی فضل الامام العادل،6/15،حدیث:7369)

(4) ان کی عزت کرنا:

حضرت سیِّدُناحسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی سے مروی ہے کہ آپ  نےحجاج سے کہاکہ میں نے حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کوفرماتےسناکہ سلاطین کی عزت و توقیر کروکیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔( ربیع الابرار،الباب الثانی والثمانون،5/163 )

(5) انکے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے ، اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے ، انہیں صحیح اور سچا مشورہ دیا جائے ۔چنانچہ ارشادِ باری ہے : ا ُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ  ترجَمۂ کنزُ الایمان اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے۔ (سورۃ النحل؛125)

اللہ پاک ہمیں جو سیکھا اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


معاشرے کا حکومتی نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے۔ دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور رعایا کو حکمرانوں کا حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے۔ جیسے حکمرانوں پر رعایا کی دیکھ بھال لازم ہے ویسے ہی رعایا پر بھی اپنے حکام کی اطاعت و فرمانبرداری لازم ہے۔حضور نبی رحمت شفیع أُمَّتَ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ” جب اللہ عزوجل کسی قوم کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو حلیم و بردبار لوگوں کو ان کا حاکم ، علما کو ان کے درمیان فیصلہ کرنے والا اور سنجیوں کو مالدار بنا دیتا ہے اور جب کسی قوم کے ساتھ بُرائی کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کے بے وقوفوں کو ان کاحاکم، جاہلوں کو ان کا قاضی اور ان کے بخیلوں کو مالدار بنادیتا ہے۔

الله عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُواالرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِمِنْكُمْ (النساء:5 (59)

ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں۔ کہ رسول کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے۔

بخاری و مسلم کی حدیث ہے : سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی نے اس حدیث میں حضور فرماتے ہیں : جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ، اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلم امراء و حکام کی اطاعت واجب ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں توان کی اطاعت نہیں ۔ (کنزالایمان مع تفسیر خزائن العرفان،ص171تا172)

(1)حاکم کا حکم سننا: ترجمہ : حضرت سیدنا ابن عمر رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”ہر مسلمان پر (حاکم کا حکم ) سننا اور اس کی اطاعت کرنا لازم ہے چاہے اس وہ حکم پسند ہو یا نا پسند،سوائے گناہ کے حکم کے کہ جب گناہ کا حکم دیا جائے تو اسے نہ سننا لازم ہے اور نہ ہی اس کی اطاعت کرنا لازم۔( مسلم،کتابالامارۃ،بابوجوب طاعۃالامراء۔۔الخ 879حدیث4863)

(2)حکام کی اطاعت، رب تعالیٰ کی اطاعت: حضور نبی کریم، رَءُوفٌ رَّحیم صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ” اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو ان کی مخالفت نہ کرو۔ ان کی اطاعت میں اللہ عَزَّ وَجَل کی اطاعت اور ان کی نافرمانی میں اللہ کا دین کی نافرمانی ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے اس لئے مبعوث فرمایا ہے تاکہ میں لوگوں کو حکمت و بصیرت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اس کے راستے کی طرف بلاؤں۔ لہذا جو میرے اس کام میں میرا جانشین ہوا وہ مجھ سے ہے اور میں اسے ہوں اور جس نے اس معاملے میں میری مخالفت کی وہ ہلاک ہونے والوں میں ہے اور اللہ عزو جل اور اس کے رسول صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالله وَسَلَّم کے ذمہ سے بری ہے اور جو تمہاری حکومت کی کوئی ذمہ داری سنبھالے پھر اس میں میری سنت کے خلاف عمل کرے تو اس پر اللہ ملا جلا اسکے ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ ( كنزالعمال، كتاب الامارة من قسم الاقوال ، اطاعة الامير من الأكمال، 3/ 24 ، حدیث : 14734 ، الجزء السادس )

(3)حاکم کی اطاعت کرنا: حضرت سیدنا انس رَضِيَ اللهُ تَعَالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم زاؤف رحیم صلی اللہ تعالی عَلَيْهِ وَالهِ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”سنو اور اطاعت کرو، اگر چہ تم پر حبشی غلام کو حاکم بنادیا جائے جس کاسر کشمش کی طرح ہو۔“ (بخاری، کتاب الاحکام،  باب السمع والطاعة للامام مالم تكن معصية، 454/4، حدیث: 8142)

حضرت سَیِّدُنا أَبُوهُنَيْدَه وائل بن حجر رضي الله تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سلمہ بن یزید يُعفى رَضِ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ نے رسولِ کریم صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسلم سے عرض کی: یارسول الله صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ الہ وسلم! اگر ہم پر ایسے حکمران مقرر ہو جائیں جو ہم سے اپنے حق کا سوال کریں اور ہمارے حق سے ہمیں منع کریں تو آپ صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالهِ وَسَلَّم ہمیں کیا حکم ارشاد فرماتے ہیں؟ یہ سن کر حضور صلی الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَاللهِ وَسَلَّم نے اُن سے اعراض فرمایا۔ انہوں نے پھر سوال کیا تو فرمایا: ”سنو اور اطاعت کرو، بے شک اُن پر وہ لازم ہے جس کے وہ پابند کئے گئے ہیں اور تم پر وہ لازم ہے جس کے تم پابند کئے گئے ہو ۔ “ (مسلم، كتاب الامارة ، باب في طاعة الامراء وان منعوا الحقوق، ص 792، حدیث: 4782۔)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


معاشرہ حکومتی نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے دین اسلام حکمرانوں کو رعایہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور رعایا کو حکمرانوں کا حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے اچھے حق ان کو رحمت الہی قرار دیا گیا ہے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت سزائے مقرر کی ہوئی ہے. ائیے ہاکنگ کے کچھ حقوق پڑھتے ہیں:

(1)حاکم کی اطاعت کا قرانی حکم: اللہ عزوجل قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالی کی اور اطاعت کرو اپنے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی اور حکمرانوں کی جو تم میں سے ہوں.(النساء،آیت 59)

علامہ اسماعیل حقی علیہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں اس ایت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ جب بادشاہ اور حکمران قران و سنت کی پیروی کریں تو رعایہ پر ان کی تابعداری واجب ہے اگر کتاب و سنت کے خلاف کام کریں تو ان کی اطاعت ہرگز لازم نہیں.

(2) اطاعت امیر کی ترغیب حدیث کی روشنی میں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے میری اطاعت کی اس نے اللہ عزوجل کی اطاعت کی اور جس شخص نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی (ایمان کی شاخیں مترجم،ص 456)

(3) امیر کی عزت و رسوائی کے بارے میں حدیث: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے اللہ کے سلطان کی دنیا میں عزت کی اللہ تعالی اس کو قیامت والے دن عزت دے گا اور جس نے اللہ کی سلطان کی دنیا میں توہین کی اللہ اس کو قیامت کے دن رسوا کرے گا. (ایمان کی شاخیں مترجم،ص 457)

(4) امیر کی اطاعت: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کسی مخلوق کی اطاعت اس وقت واجب نہیں رہتی جب وہ خالق کی نافرمانی کا حکم دے.(ایمان کی شاخیں مترجم،ص 458)

(5) حاکم کی اطاعت لازم ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر حبشی غلام کو حاکم بنا دیا جائے جس کا سر کشمش کی طرح ہو. (صحیح بخاری،کتاب الاحکام،454/4،حدیث 7162)

اللہ عزوجل میں حاکم کی اطاعت کرنے اور اس کا حکم ماننے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


دین اسلام کامل و اکمل اور جامع دین ہے دین اسلام جس طرح محبت الہی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا درس دیتا ہے اسی طرح سماجی اور معاشرتی زندگی میں تمام انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی درس دیتا دین اسلام نے جس طرح والدین زوجین اور اساتذہ کے حقوق کو بیان کیا اسی طرح ایک عادل حکمران کے حقوق کی ادائیگی کا بھی حکم دیتا ہے چنانچہ آپ بھی حکمران کے چند حقوق پڑھیے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے۔

(1) تعزیت کرنا: حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کسی غمزدہ شخص سے تعزیت (یعنی اس کی غم خواری) کرے گا اللہ تعالیٰ اسے تقوی کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت کے جوڑوں میں سے دو ایسے جوڑے عطا پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔۔( المعجم الاوسط رقم 9292 جلد 6 ص 429 )

(2) سلام کرنا: حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تم کو ایسی بات نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو تمہارے درمیان محبت بڑھے اور وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو رواج دو ۔ (مسلم، کتاب الایمان ، رقم 54، ص 47)

(3) اطاعت کرنا: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم پر اپنی تنگدستی اور خوشحالی میں پسند اور نا پسند میں اور تم پر کسی دوسرے کو ترجیح دی جانے کی صورت میں سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے۔" (مسلم کتاب المارہ ،ص788 حدیث 4754)

(4)توہین نہ کرنا: : حضرت سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ نے کو یہ فرماتے ہوئے سنا" جس نے سلطان کی اہانت کی، اللہ عزوجل اسے ذلیل کرے گا۔" ( ترمذی کتاب الفتن،جلد 4،ص 96 ،حدیث 2231)

(5)عزت و توقیر کرنا: فرمان مصطفی جو ہمارے چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت وتو تو قیر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ (مسلم شریف)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! روز مرہ کے مختلف معاملات میں جن افراد کے ساتھ بندے کا تعلق ہوتا ہے ان میں سے ایک حاکم بھی ہے. حاکم کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس لیے اسلام میں تفصیل کے ساتھ حاکم کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے حاکم کے ساتھ بھلائی کرے اس کے ناپسندیدہ بات پر صبر کرے اور حاکم کی عزت و ابرو کی حفاظت کرے۔حاکم کے حقوق کے بارے میں پانچ احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے :

(1)حاکم کی اطاعت کرنا: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں سلمہ ابن یزید نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے پوچھا یا نبی اللہ فرمائیے تو اگر ہم پر ایسے حکام قائم ہو جائیں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمارا حق ہم سے روکیں تو حضور ہمیں کیا حکم دیتے ہیں فرمایا سنو اور اطاعت کرو کیونکہ ان پر وہی ہے جو ان پر ڈالا گیا اور تم پر وہ ہے جو تم پر ڈالا گیا۔(مرآۃ المناجیح،جلد 5،صفحہ 388)

(2) حاکم کی بغاوت نہ کرنا: مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں محض اپنا حق لینے کے لیے بغاوت نہ کرنا بلکہ ان سلاطین کی جائز اطاعت کیے جانا اور رب تعالی سے دعا کرنا کہ خدایا ان کو بھی ہمارے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے. (مرآۃ المناجیح، جلد 5،صفحہ 388)

(3) حاکم کی ناپسندیدہ بات پر صبر کرنا: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنے حاکم سے ناپسندیدہ بات سنے تو صبر کرے کیونکہ نہیں ہے کوئی جو جماعت سے بالشت بھر الگ رہے پھر مر جائے مگر وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ (مرآۃ المناجیح، جلد 5،صفحہ 384)

(4)حاکم کی توہین نہ کرنا: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ بولیں چپ رہو میں نے اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو زمین میں اللہ کے بادشاہ کی توہین کرے اللہ اسے ذلیل کرے۔( مرآۃ المناجیح ،جلد 5، صفحہ 401)

(5)حاکم سے غداری نہ کرنا: روایت ہے حضرت ابو سعید سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرمایا ہر بد عہد غدار کا جھنڈا اس کے چوتڑوں کے پاس ہو گا۔ قیامت کے دن اور ایک روایت میں یوں ہے کہ ہر غدار کا جھنڈا قیامت کے دن اس کی غداری کے مطابق اونچا کیا جائے گا ۔۔ ہوشیار رہو کہ عوام کے سلطان کی غداری سے بڑھ کر کوئی غدار (بعہد ) نہیں.( مرآۃ المناجیح ،جلد 5، صفحہ 418)

دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہمیں حاکم کے حقوق ادا کرنے اور اس کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔