حقوق انسان کی بہت ساری جہتیں ہیں جن میں والدین اور اولاد کے حقوق، اساتذہ اور طلبا کے حقوق،فقرا او مساکین کے حقوق۔ حکمران اور رعایا وغیرہ کے حقوق شامل ہیں چونکہ بنیادی طور پر انسانی حقوق کا تعلق فرد اور معاشرہ سے ہے اور معاشرے کے اہم ترین اجزاء دو ہیں ان ان دونوں کے حقوق و فرائض کے تعین اور ادائیگی سے ہی معاشروں کا عروج وزوال جڑا ہوا ہوتا ہے اس مضمون میں ہم حاکم کے حقوق کو قرآن اور احادیث مبارکہ کی روشنی سے بیان کریں گے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ حکمران بھی اطاعت کے مستحق ہیں جب تک وہ حق کے موافق رہیں اگر حق کے مخالف ہوئے تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔

آیت مبارکہ میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے اس میں امیر،امام،بادشاہ،حاکم،قاضی،علماء سب شامل ہیں۔

احادیث کی روشنی میں حاکم کے حقوق:

1۔ حاکم کا حکم ماننا ابن عمر سے روایت ہے کہ آقا ﷺ نے فرمایا، ایک مسلمان پر (حکام کی) سمع و اطاعت فرض ہے چاہے اسے پسند ہو یا ناپسند ہو الّا یہ کہ اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے اگر امیر نافرمانی کا حکم دے تو نہ تو اس پر سننا ہے اور نہ ہی ماننا۔ (بخاری، 4/455، حدیث: 7144)

2۔ ناپسندیدہ بات پر صبر کرنا ابن عباس سے روایت ہے اقا ﷺ نے ارشاد فرمایا جسے اپنے امیر سے ناپسندیدہ کوئی چیز پہنچے تو اس کو چاہیے کہ صبر کرے کیونکہ جو سلطان سے ایک بالشت بھی دور نکلا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (مسلم، ص 793، حدیث: 4790)

3۔ حاکمو ں کے ساتھ خیر خواہی کرنا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یقینا دین خیر خواہی کا نام ہے،یقینا دین خیر خواہی کا نام ہے،یقینا دین خیر خواہی کا نام ہے لوگوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کس کے لیے ؟ فرمایا: اللہ کے لیے اس کی کتابوں کے لیے اس کے رسول کے لیے مومنوں کے حاکموں کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے یا یہ فرمایا: مسلمانوں کے حاکموں کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے۔ (ترمذی، 3/371، حدیث: 1932)

4۔ حاکم کی اطاعت طاقت کے مطابق کرنا۔ ابن عمر سے روایت ہے: جب ہم نے نبی کریم ﷺ کے دست اقدس پر اطاعت اور فرمانبرداری کی بیعت کی تو آپ نے فرمایا: اپنی گنجائش کے مطابق (تم اطاعت اور فرمانبرداری کرو گے)۔

5۔ حاکم کو رسوا کرنے والے کے لیے رسوائی حضرت ابوبکر بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص سلطان کو رسوا کرے گا اللہ اسے رسوا کرے گا۔ (ترمذی، 4/96، حدیث: 2231)

اسلامی نظام میں اصل متاع اللہ تعالی ہے ایک مسلمان سب سے پہلے اللہ کا بندہ ہے اس کے بعد باقی سب کچھ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی دونوں کا مرکز خدا کی فرمانبرداری ہے دوسری اطاعتیں صرف اس صورت میں قبول کی جائیں گی جب وہ خدا کے مد مقابل نہ ہو۔

اللہ ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی، اور جس نے امیر و حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر و حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری، 4/453، حدیث: 7137)

کسی بھی معاشرہ میں زندگی کےمعاملات کو صحیح طور پر چلانے کیلئےایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے، شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ سکتا، اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کرسکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو، اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے، اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہےکہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔

1:سننا اور ماننا: جو شخص کسی بھی طرح سے حاکم بن چکا ہے، اسکی اطاعت و فرمانبرداری ہر فرد بشر پر واجب ہے، بشرطیکہ وہ حاکم جائز اور استطاعت کی حدود میں ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: مسلمان مرد پر اپنے مسلمان حکمران کی بات سننا اور ماننا فرض ہے (ہر کام میں) خواہ وہ بات اسے پسند ہو یا نا پسند مگر یہ کہ اسے گناہ کرنے کا حکم دیا جائے جب اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر اس کا سننا اور ماننا فرض نہیں ہے۔ (بخاری، 4/455، حدیث: 7144)

ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تین چیزوں کو پسند فرماتا ہے: (ان میں سے ایک چیز یہ ہے ) اپنے حاکموں کے ساتھ نصیحت کا معاملہ رکھو۔

2۔ انکے ساتھ تعاون: اس معنی میں کہ انکے جو حقوق واجبات اپنے اوپر ہیں انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں اور اگر اپنے کچھ حقوق یا مال ہو رہے ہوں تو انکی وجہ سے اپنا دست تعاون نہ کھینچیں۔

ایک بار اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا کہ اگر ہم پر کچھ ایسے حاکم مسلط ہوجائیں کہ وہ ہم سے اپنا حق تو مانگیں لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دیں تو ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ اولا جواب سے خاموش رہے لیکن دوبارہ یا سہ بارہ سوال پر آپ نے فرمایا: تم انکی بات سنو اور مانو، انکی جو ذمہ داری ہے وہ ان پر ہے اور جو تمہاری ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے۔ (مسلم، ص 792، حدیث: 4782)

3:عدم بغاوت اور انکے لئے دعا: اگر حاکم اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سے بغاوت جائز نہیں ہے، بلکہ حتی الامکان اسکے اصلاح کی کوشش کی جائے اور انکے اصلاح و حق پر ثبات کیلئے دعا کی جائے۔

فرمان نبوی: تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تم انکے لئے دعا کرتے ہو، اور تمہارے حاکموں میں سے میرے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھتے رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں، آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم ایسے حاکموں کو تلوار لیکر انکے خلاف علم بغاوت نہ بلند کریں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں (ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا ) اور جب تم اپنے حاکموں سے کوئی ایسی شے دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو ان کے عمل کو برا سمجھو مگر انکی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔ (مسلم، ص 795، حدیث: 4804)

4:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے سوال ہوگا اس کی رعیت کا (حاکم سے مراد منتظم اور نگران کار اور محافظ ہے)، پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہوگا اس کی رعیت کاکہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے، ان کی جان ومال کی حفاظت کی یا نہیں۔ آدمی حاکم ہے اپنے گھر والوں کا اس سے سوال ہوگا ان کا۔ عورت حاکم ہے اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی۔ اس سے ان کا سوال ہوگااور غلام حاکم ہے اپنے مالک کے مال کا،اس سے اس کا سوال ہوگا۔ (بخاری، 2/159، حدیث:2554)

5:سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے لیے امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ ان چیزوں میں بھی جنہیں وہ پسند کرے، ان میں بھی جنہیں وہ ناپسند کرے، جب تک معصیت کا حکم نہ دیا جائے، اگر معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اطاعت ضروری نہیں ہے۔ (بخاری، 4/455، حدیث: 7144)

6:رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حاکم اسلام زمین پر اللہ کا سایہ ہے اور جب وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے اجر ہے اور تم پر شکر لازم ہے اور اگر برا سلوک کرے تو اس کا گناہ اُس پر ہے اور تمہارے لئے صبر ہے۔ (شعب الایمان، 6/15، حدیث: 7369)

اللہ پاک ہمیں ان حقوق پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ امِين


اسلام نے ہر ایک کی ذمہ داریاں مقرر فرمائی ہیں اور انہیں پورا کرنا ان پر لازم قرار دیا ہے شریعت مطہرہ نے عادل مسلم امیر کی بہت قدرو منزلت ارشاد فرمائی ہے۔

بات سننااورعمل کرنا جو شخص کس پر امیر ہو اسکی بات سننا اور اسکی اطاعت کرنا ہر ایک پر واجب ہے بشرطیکہ وہ حاکم جائز یا حق بات کہنے والا ہو۔ الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت مبارکہ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ آیت میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے اس میں امام، امیر، بادشاہ، بادشاہ، حاکم، قاضی اور علما سب داخل ہیں۔(صراط الجنان، 2/230)

آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری، 4/453، حدیث: 7137)

ہر حال میں حاکم کی بات سننا ہر حال میں حاکم کی جائز بات سننا لازم ہے۔ جیسا کہ آقاعلیہ السلام نے فرمایا: مرد پر حاکم کی بات سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے اگر چہ وہ چیز اسے پسند ہو یا نہ پسند ہو مگر یہ کہ وہ برائی کا حکم دے اور جب وہ برائی کا حکم دے تو نہ اسکو سنا جائے اور نہ اسکی اطاعت کی جائے۔ (بخاری، 4/455، حدیث: 7144)

انکی اطاعت و فرمانبرداری کرنا حکمر ان کی ہر طرح سے اطاعت و فرمانبرداری کی جائے، آقا علیہ السلام نے فرمایا: جس نے (حکمران کے جائز کاموں میں) اطاعت سے ہاتھ اٹھا لیا تو وہ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے روز اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہیں تھی تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (مسلم، ص 794، حدیث: 4793)

ناپسندیدہ بات پر صبر کرنا؟ اگر کوئی حاکم کا ناپسندیدہ بات کرے تو اس پر صبر کرے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: جو اپنے حاکم سے کوئی ناپسند بات پائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس پر صبر کرے پس بے شک جو ایک بالشت اپنے حاکم کی بات سے نکلا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (مسلم، ص 793، حدیث: 4790)

اس کی توہین سے بچنا حاکم کی اطاعت کرنا ہر ایک پر لازم ہے جیسا کہ آقا علیہ السلام کا فرمان ہے: جس نے حاکم کو رسوا کیا اللہ اسے رسوا کرے گا۔ (ترمذی، 4/96، حدیث: 2231)

ان کے ساتھ خیر خواہی کرتارہے اسکے ساتھ بھلائی و خیر خواہی والا سلوک کیا جائے اگر کوئی ایسا غلط معاملہ نظر آئے تو انکو بھلائی واحسن انداز میں بتایا جائے، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: دین خیر خواہی کا نام ہے، پوچھا گیا کس کی خیر خواہی؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کی اللہ کے رسول ﷺ کی اللہ کی کتاب کی مسلمانوں کے حاکموں کی اور عام مسلمانوں کی۔ (ترمذی، 3/371، حدیث: 1932)


اسلام ایک مکمل ضابطہ ہے یہ بہت پیارادین ہےیہ شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والےہر طرح کے افرادکی راہنمائی کرتاہے یہ عالمگیر معاشرہ رکھتا ہےجیسےیہ سب انسانوں کو حقوق اللہ ادا کرنے کا حکم دیتا ہے ویسے ہی یہ اپنے ماننے والوں کو حقوق العباد ادا کرنے پربھی زور دیتا ہے حقوق العباد میں والدین بہن بھائی دوست احباب کے ساتھ ساتھ حاکم و محکموم کے حقوق پر بھی زور دیتا ہے حاکم کے حقوق کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

احادیث مبارکہ میں بھی حاکم کے حقوق بیان ہوئے ہیں۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: یقینا دین خیر خواہی کا نام ہے،یقینا دین خیر خواہی کا نام ہے، یقینا دین خیر خواہی کا نام ہے لوگوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ کس کے لیے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے لیے،اسکی کتابوں کے لیے،اسکے رسولوں کے لیے،مومنوں کیلئے۔(ترمذی، 3/371، حدیث: 1932)

1۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے سوال ہوگا اس کی رعیت کا (حاکم سے مراد منتظم اور نگران کار اور محافظ ہے)، پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہوگا اس کی رعیت کاکہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے، ان کی جان ومال کی حفاظت کی یا نہیں۔ آدمی حاکم ہے اپنے گھر والوں کا اس سے ان کاسوال ہوگا۔ عورت حاکم ہے اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی۔ اس سے ان کا سوال ہوگااور غلام حاکم ہے اپنے مالک کے مال کا،اس سے اس کا سوال ہوگا۔ (بخاری، 2/159، حدیث:2554)

2۔ حاکم کی فرمانبرداری۔ فرمایا: تجھ پر لازم ہے حاکم کی بات سننا اور اطاعت کرنا۔تکلیف و راحت میں، خوشی و رنج میں اور جس وقت تیرا حق کسی اور کو دے۔ (مسلم، ص 788، حدیث: 4754)

3۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے اپنے حاکم سے کوئی ناپسندیدہ شے پہنچے تو اس کو چاہیے کہ صبر کرے کیونکہ جو سلطان سے ایک بالشت بھی دور نکلا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (مسلم، ص 793، حدیث: 4790)

4۔ حضرت سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تک حاکم وقت اسلام کے مطابق زندگی گزارےاس کی اطاعت ہم پر لازم ہے کیونکہ سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے خلیفہ بنتے ہی اعلان فرمایا: اے لوگو! جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں تو تم بھی میری اطاعت کرنا اگر میں ان کی اطاعت نہ کروں تو تم بھی میری اطاعت نہ کرنا۔ اے اللہ ہمیں جانشین صدیق اکبر رضی اللہ عنہ عطا فرما!

الله پاک سے دعا کہ ہے کہ ہمیں اپنے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


حقوق کی دو اقسام ہیں: حقوق الله اور حقوق العباد۔ حقوق الله کا معاملہ الله تعالیٰ کے ساتھ ہے جبکہ حقوق العباد کا معاملہ بندوں کے ساتھ خاص ہے کہ بندوں کے بندوں پر حقوق۔ جن میں اولاد کے حقوق، والدین کے حقوق، اساتذہ و طلباء کے حقوق، حاکم و رعایا وغیرہ کے حقوق شامل ہیں۔ اسلامی معاشرے کے نظام کو چلانے کے لئے کسی نہ کسی حاکم کی ضرورت ہوتی ہے اور معاشرے میں جو کوئی جس طرح کا بھی حاکم بن چکا ہو اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہر فرد بشر پر واجب ہے، بشرطیکہ وہ حاکم شریعت پر عمل کرنے والا ہو جیسا کہ الله پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اِس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ آیت میں اُولِی الْاَمْرِ کی اطاعت کا حکم ہے، اس میں امام، امیر، بادشاہ، حاکم، قاضی، علماء سب داخل ہیں۔(صراط الجنان، 2/230)

حاکم کے حقوق:

1۔ اطاعتِ رسول اطاعتِ الٰہی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے الله کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے الله کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری، 4/453، حدیث: 7137)

2۔ حکمرانوں کے ظلم پر صبر کرنا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: عنقریب میرے بعد ترجیحی سلوک شروع ہو جائے گا اور ایسے معاملات پیش آئیں گے جن کو تم برا سمجھوگے۔ صحابہ کرام نے عرض کی یارسول الله ﷺ ایسے حالات میں ہمارے لئے کیا حکم ہے آپ نے فرمایا: تم پر جو حق ہے اسے ادا کرو اور اپنے حقوق کا الله تعالیٰ سے سوال کرنا جس شخص کا کسی چیز میں حق ہو اُسے اُس سے الگ کر دینا۔ (بخاری، 2/501، حدیث: 3603)

3۔ حاکم کی فرمانبرداری۔ تجھ پر لازم ہے حاکم کی بات سننا اور اطاعت کرنا۔تکلیف و راحت میں، خوشی و رنج میں اور جس وقت تیرا حق کسی اور کو دے۔ (مسلم، ص 788، حدیث: 4754)

4۔ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت۔ حضرت جریر سے مروی ہے کہ میں نے سرور کونینِ، شہنشاہِ دارین سے اس بات کی گواہی کہ الله کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے، حاکم اسلام کی سننے اور اطاعت کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔ (بخاری، 2/34، حدیث:2157)

چنانچہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ نے ہم پر حکمران مقرر کیے ہیں جن کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا لازم ہے اور اگر وہ ہمارے خلاف کوئی حکم مقرر کر دیں تو ہمیں اس پر صبر، صبر اور صبر کرنا ہے اس کا اجر ہمیں قیامت کے دن ضرور ملے گا۔

الله تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقوق الله کے ساتھ حقوق العباد کا بھی خاص خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

ہماری شریعت نے ہم پر بہت سے احکام لا غو کیے ہیں جن کا پورا کرنا ہم پر لازم ہے۔ کسی بھی معاشرے میں صحیح طریقے سے زندگی کے معاملات کو چلانے کے لیے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے اور حاکم کے بغیر کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ سکتا اور کوئی بھی حاکم معاشرے کا نظام اس وقت تک نہیں ٹھیک کر سکتا جب تک رعایا کا تعاون نہ ملے۔ تو جہاں حاکم پر لازم ہے کہ وہ اپنے ماتحت کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی کمی و بیشی نہ کرے تو وہی لازم ہے کہ ما تحت بھی حاکم کے تمام حقوق کو احسن انداز سے پورا کرے۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

حدیث شریف میں بھی حاکم کے حقوق بیان ہوئے ہیں۔ اب حدیث مبارک کی روشنی میں حاکم کے حقوق ملاحظہ فرمائیے۔

حاکم کی نافرمانی نہ کی جائے: رسول ﷺ نے فرمایا: تجھ پر لازم ہے سننا اور اطاعت کرنا (حاکم کی بات کا)تکلیف اور راحت میں،خوشی اور رنج میں اور جس وقت تیرا حق اور کسی کو دیں۔ (مسلم، ص 788، حدیث: 4754)

حاکموں کے ساتھ خیر خواہی کرنا: رسول ﷺ نے فرمایا یقینا دین خیر خواہی کا نام ہے،یقینا دین خیر خواہی کا نام ہے، یقینا دین خیر خواہی کا نام ہے لوگوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ کس کے لیے؟آپ نے فرمایا اللہ کے لیے،اسکی کتابوں کے لیے،اسکے رسولوں کے لیے،مومنوں کے حاکموں کے لیے اور انکے عام لوگوں کے لیے۔ (ترمذی، 3/371، حدیث: 1932)

حاکموں کی عزت کیجیے: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ کی قوت اور سایہ ہونگے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص،187/1)

حاکم کی جانب سے ناپسندیدہ چیز پہنچنے پر محکوم کیا کرے؟ رسول ﷺ نے فرمایا: جو اپنے حاکم سے ناپسندیدہ چیز دیکھے تو صبر کرے۔ (بخاری، 4/429، حدیث: 7053)

حاکم کے سامنے اچھے اخلاق سے پیش آئے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: اہل ایمان میں زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔

حاکم کو دھوکہ نہ دے: نہ کسی بے قصور کو حاکم کے پاس لے کر جاو تاکہ اسے قتل کردے۔

حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھیں اللہ پاک ہمیں سب کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

معاشرے کے نظام کو چلانے کیلیے حاکم اور اسکے ماتحت کا نظام قائم ہوتا ہے تو جہاں حاکم پر لازم ہے کہ وہ اپنے ماتحت کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نا کرے تو وہی یہ لازم ہے کہ ماتحت بھی حاکم کے تمام حقوق کو احسن انداز میں بجالائے۔ حاکم کی اطاعت کے متعلق قرآنی آیت ملاحظہ کیجیے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اِس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔

آیت میں اُولِی الْاَمْرِ کی اطاعت کا حکم ہے، اس میں امام، امیر، بادشاہ، حاکم، قاضی، علماء سب داخل ہیں۔ (صراط الجنان، 2/230)

حاکم کی فرمانبرداری کی جائے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تجھ پر لازم ہے سننا اور اطاعت کرنا (حاکم کی بات کا) تکلیف اور راحت میں، خوشی اور رنج میں اور جس وقت تیرا حق اور کسی کو دیں۔ (مسلم، ص 788، حدیث: 4754)

حاکم کو دھوکا نا دے نہ کسی بےقصور کو حاکم کے پاس لے جاؤ تاکہ اسے قتل کردے۔

حاکم کی جانب سے ناپسندیدہ چیز پہنچنے پر محکوم کیا کرے؟ روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو اپنے حاکم سے ناپسندیدہ چیز دیکھے تو صبر کرے۔ (بخاری، 4/429، حدیث: 7053)

حاکم کا احترام بجالائے: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں،1/187)

خندہ پیشانی کے ساتھ اسکے سامنے پیش آئے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا: اہل ایمان میں زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔

اے عاشقان رسول (ﷺ) اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھال لیجیے جس چیز کا ہمارا پیارا دین حکم دے اسکو کرنے اور جس سے منع کرے اس سے باز رہنے کا پختہ عزم کرلیجیے۔

اللہ پاک ہمیں جملہ حقوق احسن انداز میں پورا کرنے کی سعادت عطافرمائے۔ آمین یارب العالمین

دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنےاور رعایا کو حکمرانوں کے حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے حاکم کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں حکمرانوں کی بات سننا اور بقدر استطاعت اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے: اللہ تعالی نے حکمرانوں کی اطاعت فرماں برداری کا جو حکم ارشاد فرمایا اُسے نبی کریم ﷺ نے بہت واضح کر کے لوگوں تک پہنچا دیا۔ اسی کے پیش نظر رعایا پر حاکم کے چند حقوق ذکر کئے جارہے ہیں ملاحظہ کیجئے:اللہ پاک نے اپنی کتاب قراٰنِ کریم میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ (صراط الجنان، 2/230)

حاکمِ اسلام کے 5 حقوق:

(1)اطاعت کرنا: حاکمِ اسلام کی اطاعت و فرمانبرداری ہر فردِ بشر پر واجب ہے بشرطیکہ اس کا حکم شریعت کے مطابق ہو۔ جیسا کہ حضور نبیِّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔(بخاری،2/297، حدیث: 2957)

(2، 3)اچھائی پر شکر اور بُرائی پر صبرکرنا: رسولِ اكرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حاکمِ اسلام زمین پر اللہ کا سایہ ہے اور جب وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے اجر ہے اورتم پر شکر لازم ہے اور اگر بُرا سلوک کرے تو اس کا گناہ اُس پر ہے اور تمہارے لئے صبر ہے۔(شعب الایمان،6/15،حدیث:7369)

(4)ان کی عزت کرنا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،1/187)

(5)خیر خواہی:حاکمِ اسلام کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے، اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے، انہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو صحیح، سچے اور اچھے انداز میں مشورہ دیا جائے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- (پ 14، النحل: 125) ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اسی طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہے۔

اللہ پاک ہمیں ان حقوق پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ (صراط الجنان،2/230)

حاکم کے حقوق کی اس قدر اہمیت ہے کہ اللہ کریم نے قرآن پاک میں حاکم کی اطاعت کا حکم دیا ہے مگر وہ حاکم جو شریعت کے مطابق ملک کے اصول و ضوابط چلاتا ہو۔ اگر اس کا ملک کو چلانا شریعت کے مطابق ہو تو پھر حاکم کی اطاعت کی جائے گی، حدیث پاک میں بھی حاکم کی اطاعت کا حکم آیا ہے اور اس میں اس قدر تاکید ہے کہ حضور ﷺ نے امیر کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر و حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر و حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری،2/297،حدیث:2957)

حاکم کی اطاعت کی جائے اس نے اگر کسی کے ساتھ اچھائی کی تو اس پر شکر اور اگر کسی کے ساتھ برائی سے پیش آ گیا تو اس پر صبر کرنے کا حکم ہے کیونکہ حدیث پاک میں حاکم اسلام کو زمین پر اللہ کا سایہ فرمایا گیا ہے ملاحظہ ہو: حاکمِ اسلام زمین پر اللہ کا سایہ ہے اور جب وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے اجر ہے اورتم پر شکر لازم ہے اور اگر بُرا سلوک کرے تو اس کا گناہ اُس پر ہے اور تمہارے لئے صبر ہے۔(شعب الایمان، 6/15،حدیث:7369)

حاکم کی اطاعت یا اس کی عزت کرنے کا حکم نہ صرف حدیث پاک یا قرآن مجید میں ہے بلکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی اس کا حکم دیا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔

حاکم کے حقوق میں ہے اگر تو وہ ملک کا نظام شریعت کے طریقے پر چلاتا ہے تو اب ہم پر لازم ہے کہ ہم حاکم کے لیے دعا کریں اس کے خلاف آواز نہ اٹھائیں۔

حاکم اسلام کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ ہونا چاہیے چونکہ وہ مسلمان ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے لہذا جیسے انسان اپنے بھائی کے ساتھ خیرخواہی کا جذبہ رکھنا پسند کرتا ایسے ہی اسے حاکم اسلام کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرنا چاہیے۔ اگر کوئی مشورہ دینا ہو تو ایسا مشورہ دیں جس میں حاکم اسلام اور رعایا کا فائدہ ہو الغرض مختصر یہ کہ حاکم اسلام کے ساتھ محبت، خیرخواہی والا جذبہ رکھنا چاہیے۔

اللہ پاک ہمیں حاکم کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جس طرح کوئی بھی جگہ ہو گھر ادارہ یا قصبہ اس وقت تک بہترین انداز میں نہیں چل سکتا جب تک اس پر کوئی نگران مقرر نہ ہو جیسے یہاں نگران کی ضرورت ہوتی ہے ایسے ہی ایک قوم کو بہترین انداز میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھانے کے لیے ایک حاکم کی ضرورت ہوتی ہے پھر حاکم کی صرف ضرورت ہی نہیں بلکہ اسکی اطاعت و فرمانبرداری کرنا واجب ہوتا ہے جب تک کوئی حکم خلاف شرع نہ ہو۔ رب کریم فرماتا ہے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اسی طرح احادیث میں بھی حاکم کی اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر کسی حبشی غلام ہی کو حاکم مقرر کر دیا جائے، جس کا سر کشمش کی طرح (چھوٹا سا) ہو۔ (مراۃ المناجیح، 5/360)لیکن یہ بات یاد رہے کہ صرف حلال اور بھلے کاموں میں حاکم وقت کی اطاعت کرنا واجب ہے، رہی بات حرام کاموں کی یا ان کاموں کی جن کے انجام دینے میں اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی ہورہی ہو تو اس میں حاکم وقت کی اطاعت نہیں کی جا ئے گی کیوں کہ وہ حرام اور نا جا ئز ہے۔

حاکم کے حقوق:

1:بات سننا اور ماننا: حاکم کی بات سننا اور حکم پر عمل کرنا واجب ہے اسکا ثبوت مذکورہ حدیث مبارکہ سے ملتا ہے لیکن حرام کاموں میں اسکی اطاعت نہیں کی جائے گی

2:اہانت نہ کرنا: جس نے سلطان کی اہانت کی، اللہ اُسے ذلیل کرے گا۔ (ترمذی، 4/96، حدیث: 2231)

3: عدم بغاوت اور انکے لئے دعا: اگر حاکم اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سے بغاوت جائز نہیں ہے، بلکہ حتی الامکان اسکی اصلاح کی کوشش کی جائے اور انکی اصلاح و حق پر ثبات کیلئے دعا کی جائے۔

فرمان نبوی: تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تم انکے لئے دعا کرتے ہو، اور تمہارے حاکموں میں سے برے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں، آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم ایسے حاکموں کو تلوار لیکر انکے خلاف علم بغاوت نہ بلند کریں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں (ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا) اور جب تم اپنے حاکموں سے کوئی ایسی شے دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو ان کے عمل کو برا سمجھ مگر انکی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔ (مسلم، ص 795، حدیث: 4804)

4: ناپسندیدہ معاملات پر صبر کرنا: اگر حاکم کوئی فیصلہ طبیعت کے خلاف کر دے یا کوئی ناگوار بات کا حکم دے دے تو اس پر صبر کیا جائے اور ممکن حد تک عمل کیا جائے۔

آخر میں رب کریم سے دعا ہے کہ ہمیں نیک حکمران عطا فرما اور ہمیں اپنے حکمرانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین


حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ پاک کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی اور جس نے امیروحاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیروحاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری، 4/453، حدیث: 7137)

کسی بھی معاشرے میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کے لیے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ سکتا اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کر سکتا جب تک اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو۔ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بد امنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبہ حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔ آئیے رعایا پر حاکم کے حقوق کیا کیا ہے چند ملاحظہ کرتے ہیں:

(1) سننا اور ماننا: جو شخص کسی بھی طرح سے حاکم بن چکا ہے اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہر فرد بشر پا واجب ہے بشرطیکہ وہ حاکم جائز اور استطاعت کی حدود میں ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: کہ مسلمان مرد پر اپنے مسلمان حکمران کی بات سننا اور ماننا فرض ہے خواہ وہ بات اسے پسند ہو یا نہ ناپسند، مگر یہ کہ اسے گناہ کرنے کا حکم دیا جائے۔ پس جب اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر اس کا سننا اور ماننا فرض نہیں ہے۔(بخاری، 4/455، حدیث: 7144)

(2) خیر خواہی اور نصیحت: انکے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے، انہیں صحیح اور سچا مشورہ دیا جائے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے۔ پوچھا گیا: کس کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی، اللہ کے رسول کی، اللہ کے کتاب کی، مسلمانوں کے حاکموں کی، اور عام مسلمانوں کی۔ (ترمذی، 3/371، حدیث: 1932)

(3) ان کے ساتھ تعاون: اس معنی میں کہ ان کے جو حقوق واجبات اپنے اوپر ہیں انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ ایک بار اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا: کہ اگر ہم پر کچھ ایسے حاکم مسلط ہو جائیں کہ وہ ہم سے اپنے حق تو مانگے لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دیں تمہارے لیے کیا حکم ہے؟آپ ﷺ اولا جواب سے خاموش رہے لیکن دوبارہ یا سہ بارہ سوال پر آپ نے فرمایا: تم ان کی بات سنو اور مانو ان کی جو ذمہ داری ہے وہ ان پر ہے اور جو تمہاری ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے۔ (مسلم، ص 792، حدیث: 4782)

(4) عدم بغاوت اور ان کے لئے دعا: اگر حاکم اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سے بغاوت جائز نہیں ہے بلکہ حتی الامکان اس کے اصلاح کی کوشش کی جائے اور ان کے اصلاح و حق پر ثبات کے لیے دعا کی جائے۔

فرمان نبوی: تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں اور وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اور تم ان کے لیے دعا کرتے ہو اور تمہارے حاکموں میں سے میرے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا: کہ اے اللہ کے رسول! ہم ایسے حاکموں کو تلوار لے کر ان کے خلاف علم بغاوت نہ بلند کریں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں ان کے خلاف بغاوت نہ کرو اور جب تم اپنے حاکموں سے کوئی ایسی شے دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو ان کے عمل کو برا سمجھو مگر انکی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔ (مسلم، ص 795، حدیث: 4804)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے حاکموں کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما آمین


کسی بھی معاشرے میں امن و سلامتی اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنی زمہ داری کو پہچانتے ہوئے اس کو احسن انداز میں نبھائیں۔ اب سوال یہ ہے کہ حاکم کیسا ہوتا ہے ؟ اسلاف کے کردار میں دیکھیں تو حاکم بردبار، معاملہ فہم، عدل و انصاف کرنے والا، حسن اخلاق کا پیکر، سلیم الطبع، خوش گفتار، پروقار، راتوں کو اٹھ کر رعایا کی خبر گیری کرنے والا، چھوٹی بڑی ضرورتوں کا خیال رکھنے والا، جب تک شریعت کا حکم متوجہ نہ ہو تب تک سزا نہ دینے والا، حکم شرع کی وجہ سے غصہ کرنے والا، ذاتی حق تلفی پر عفو در گزر کرنے والا ہوتا ہے۔ اور اس کے بر عکس آج کے معاشرے میں حاکم دیکھیں تو ظالم جابر من مانی کرنے والا حقوق تلف کرنے والا خود پسند گھمنڈی مارنے والا ضرورتوں خواہشوں کا گلا گھوٹنے والا اور بد قسمتی سے آج کے معاشرے میں حاکم کے اندر اسلاف کی ادنی سی جھلک بھی دکھائی نہیں دیتی۔

جہاں حاکم عدل و انصاف کے ساتھ امن قائم کرنے پر قادر ہے وہیں وہ نا انصافی کے ساتھ بد امنی پھیلانے کی بھی طاقت رکھتا ہے۔ حاکم پر بہت سارے فرائض عائد ہوتے ہیں جو کہ پورا کرنا اس پر واجب ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ حاکم کے کچھ حقوق بھی ہیں۔

1۔ اطاعت کرنا: جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: مسلمان مرد پر اپنے مسلمان حکمران کی بات سننا اور ماننا فرض ہے (ہر کام میں) خواہ وہ بات اسے پسند ہو یا نا پسند، مگر یہ کہ اسے گناہ کرنے کا حکم دیا جائے، پس جب اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر اس کا سننا اور ماننا فرض نہیں ہے۔ (بخاری، 4/455، حدیث: 7144)ایک اور جگہ فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی، اور جس نے امیر و حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر و حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری، 4/453، حدیث: 7137)

2۔ حاکم کے ساتھ تعاون کرنا: اس سے مراد یہ ہے کہ جو کام رعایا پر فرض ہیں حکومت کی جانب سے بحیثیت ایک شہری کہ ان کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کی جائے بلکہ انہیں اچھے سے نبھانے کی کوشش کی جائے۔

ایک بار اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا کہ اگر ہم پر کچھ ایسے حاکم مسلط ہوجائیں کہ وہ ہم سے اپنا حق تو مانگیں لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دیں تو ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ اولا جواب سے خاموش رہے لیکن دوبارہ یا سہ بارہ سوال پر آپ نے فرمایا: تم انکی بات سنو اور مانو، انکی جو ذمہ داری ہے وہ ان پر ہے اور جو تمہاری ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے۔ (مسلم، ص 792، حدیث: 4782)

3۔ نیکی و بھلائی کرنا: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دین خیرخواہی کا نام ہے، پوچھا گیا کس کی خیرخواہی ؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی، اللہ کے رسول کی، اللہ کے کتاب کی، مسلمانوں کے حاکموں کی اور عام مسلمانوں کی۔ (ترمذی، 3/371، حدیث: 1932)

4۔ نصیحت کرنا: یہاں پر نصیحت کرنے سے یہ مراد نہیں کہ ہر خاص و عام حاکم کو نصحیت کرتا رہے۔ یہاں پر نصحیت کرنے کا حکم دانشوروں اور علماء کے لیے ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ اللہ تعالی تین چیزوں کو پسند فرماتا ہے۔ (ان میں سے ایک چیز یہ ہے) اپنے حاکموں کے ساتھ نصیحت کا معاملہ رکھو۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے حقوق و فرائض کو صحیح معنوں میں پہچاننے اور ان کو احسن انداز میں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ رب العزت اس دور پر فتن کو حضرت عمر بن خطاب جیسا حکمران عطا فرمائے۔ اللہ پاک حاکمین وقت کو دولت ایمانی اور غیرت ایمانی سے بطفیل خاک قدمین مصطفیٰ، بطفیل خاک کربلا نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ