محمد صبحان عطّاری
( درجہ سابعہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
اللہ پاک نے انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے
انبیاء کرام علیھم السلام کو مبعوث فرمایا۔ جنہوں نے اپنی قوم میں ان کے احوال اور
زمانے کے تقاضوں کے مطابق تبلیغ فرمائی اور ان کے لیے حق کا راستہ واضح کیا۔ قرآن
مجید میں اللہ پاک نے ان قوموں کا ذکر
فرمایا ہے جو انبیاء کرام کی وعظ و نصیحت کو کو جھٹلا کر اپنی سرکشی و طغیانی میں
مست رہے یہاں تک کہ ان کو اللہ پاک نے عبرت کا نشان بنادیا۔انہیں میں سے قوم
لوط بھی تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں فحاشی و عریانی سے باز رہنے کی نصیحت
کی لیکن انہوں نے سرکشی کرتے ہوئے عذاب کا مطالبہ کردیا، آخر کار اللہ پاک نے انہیں ہلاک کر دیا۔ان نصیحتوں کا ذکر
قرآن مجید میں کچھ یوں ہے:
(1) فحاشی نہ کرنے کی نصیحت: قوم لوط ایسے گناہوں میں مبتلا تھی جو ان سے
پہلے کبھی کسی نے نہیں کیے تھے۔ وہ مردوں سے لواطت کیا کرتے تھے، راہ زنی کرکے
قافلوں کو لوٹتے تھے ۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ
تم ایسے گناہ کرتے ہو جو تم سے پہلے کسی نے نہیں کیے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ
ہے: وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ
الْفَاحِشَةَ٘-مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸) اَىٕنَّكُمْ
لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ ﳔ وَ تَاْتُوْنَ فِیْ
نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَؕ-فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا
ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۲۹) ترجمۂ کنزالایمان: اور لوط کو نجات دی جب اُس
نے اپنی قوم سے فرمایا تم بےشک بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا بھر
میں کسی نے نہ کیا کیا تم مردوں سے بدفعلی
کرتے ہو اور راہ مارتے ہو اور اپنی مجلس
میں بری بات کرتے ہو تو اس کی قوم کا کچھ
جواب نہ ہوا مگر یہ کہ بولے ہم پر اللہ کا عذاب لاؤ اگر تم سچے ہو۔(پ20، العنکبوت:
28)
(2)
لواطت نہ کرنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے قوم لوط سے فرمایا تم
عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ بد فعلی کیوں کرتے ہو جبکہ یہ میری بیٹیاں ہیں جن
سے چاہو نکاح کرکے پاکیزہ طریقے سے استراحت حاصل کرو۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ
ہے: قَالَ یٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْ هُنَّ اَطْهَرُ
لَكُمْ ترجمہ کنزالعرفان: لوط نے
فرمایا: اے میری قوم! یہ میری قوم کی بیٹیاں ہیں یہ تمہارے لیے پاکیزہ ہیں۔(پارہ12،سورہ
ھود،آیت:78)
(3)
پچھلی قوموں کی ہلاکت سے نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا کہ تم فحاشی
کرتے ہو حالانکہ تم دیکھ چکے ہو پچھلی قوموں کا انجام،کہ کیسے اللہ پاک نے انہیں عبرت کا نشان بنا دیا، یا اس کی قباحت تم بھی دیکھ رہےہو پھر بھی یہ کام
کرتے ہو۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ
لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَ اَنْتُمْ
تُبْصِرُوْنَ(54) ترجمہ کنزالعرفان:اور لوط کو یاد کروجب اس نے
اپنی قوم سے فرمایا: کیا تم بے حیائی کا کام کرتے ہوحالانکہ تم دیکھ رہے
ہو۔(پارہ19،سورہ نمل،آیت54)
(4)
ان معاملات میں اللہ پاک سے ڈرنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے فحاشی کے کاموں کے متعلق اللہ پاک سے ڈرنے کی نصیحت کی، کیونکہ اللہ پاک کو فحاشی پسند نہیں اور اللہ پاک نے ان کاموں سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت
لوط علیہ السلام نے فرمایا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:فَاتَّقُوا اللّٰهَ ترجمہ
کنزالعرفان: تو اللہ سے ڈرو۔ (پارہ12، سورہ ھود،آیت78)
(5)
مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرنے کی نصیحت: جب حضرت لوط علیہ السلام کے گھر فرشتے خوبصورت
لڑکوں کی شکل میں آئے تو انکی قوم دوڑ کر خوشی خوشی آئی تاکہ ان سے بد فعلی کرسکیں
تو حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ سے
ڈرو اور مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ یَسْتَبْشِرُوْنَ(67)قَالَ
اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِ(68)وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا
تُخْزُوْنِ(69)ترجمہ
کنزالعرفان:اور شہر والے خوشی خوشی آئے۔ لوط نے فرمایا: یہ میرے مہمان ہیں تو تم
مجھے شرمندہ نہ کرو ۔اور اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔(پارہ14،سورہ حجر،آیت67،68،69)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی نافرمانی والے
کاموں سے بچائے اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ
وسلم۔
عاطف (درجۂ
رابعہ جامعۃ المدينہ فيضان اہل بيت رنگ
پورہ سیالکوٹ ، پاکستان)
نصیحت سے مراد
ترغیب و ترہیب ہے یعنی کسی کام کو کرنے کی ترغیب دینا اور کوئی کام کرنے سے ڈرانا۔
لوگوں کو وعظ
و نصیحت اس لیے کی جاتی ہے تاکہ وہ فلاح پا سکے ہمارا پیارا مذہب دین اسلام ہمیں
اسی بات کا درس دیتا ہے چنانچہ قرآن پاک میں فرمانے باری تعالیٰ ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ
الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ترجمہ
کنزالایمان:اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے۔ (پ 14،النحل،125)
اللہ پاک نے
لوگوں کی رہنمائی کے لیے،ان کو وعظ و نصیحت فرمانے کے لیے اور ان تک اپنے احکامات
پہنچانے کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اللہ پاک نے ہر قوم کی طرف کسی نہ کسی نبی کو مبعوث فرمایا
ان کی رہنمائی کے لیے اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام کو شہر سدوم کی طرف رسول بنا
کر بھیجا گیا تاکہ انہیں دین حق کی دعوت دیں اور برے کاموں سے منع کریں ۔ حضرت لوط
علیہ السلام جس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے وہ اپنے وقت کے بد ترین
گناہوں،بری عادات اور قابلِ نفرت افعال میں مبتلا تھی ان کا بڑا اور قبیح ترین جرم
مردوں کے ساتھ بد فعلی کرنا تھا یہ اپنی عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت سے
جاتے تھے۔ یہ وہ کام تھا جو اس قوم سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا ۔حضرت لوط علیہ
السلام نے اپنی قوم کو مختلف مواقع پر مختلف نصیحتیں فرمائیں جن کا تذکرہ قرآن پاک
میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1)
اللہ پاک سے ڈرنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ عزوجل سے
ڈرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:اِذْ قَالَ
لَهُمْ اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۶۱) اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۶۲)
فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۶۳)ترجمہ کنزالایمان:جب کہ اُن سے ان کے ہم قوم لوط نے فرمایا کیا تم ڈرتے
نہیں بےشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم
مانو۔ (پ19، الشعرآء: 161تا 163)
(2) بد
فعلی سے روکنے کی نصیحت: حضرت لوط
علیہ السلام نے اپنی قوم کو بد فعلی سے روکنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: وَ لُوْطًا
اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ
مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ
النِّسَآءِؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ(۸۱) ترجمۂ کنزالایمان: اور لوط کو بھیجا جب اس
نے اپنی قوم سے کہاکیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی تم
تو مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں
چھوڑ کر بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے ۔ (پ
8،الاعراف:80، 81)
(3)
قوم کی بیٹیوں کے حوالے سے نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کی بیٹیوں کے
حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:وَ جَآءَهٗ
قَوْمُهٗ یُهْرَعُوْنَ اِلَیْهِؕ-وَ مِنْ قَبْلُ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِؕ-قَالَ
یٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ
فِیْ ضَیْفِیْؕ-اَلَیْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ(۷۸) ترجمۂ کنزالایمان: اور اس کے پاس اس کی قوم دوڑتی آئی
اور انہیں آگے ہی سے بُرے کاموں کی عادت پڑی تھی کہا اے قوم یہ میری قوم کی بیٹیاں
ہیں یہ تمہارے لیے ستھری ہیں تو اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ
کرو کیا تم میں ایک آدمی بھی نیک چلن نہیں۔ (پ12،ھود: 78)
(4) مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو مہمانوں
کے سامنے رسوا نہ کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ یَسْتَبْشِرُوْنَ(۶۷) قَالَ اِنَّ
هٰۤؤُلَآءِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِۙ(۶۸) وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا
تُخْزُوْنِ(۶۹) ترجمۂ کنزالایمان:
اور شہر والے خوشیاں مناتے آئے لوط نے کہا یہ میرے مہمان ہیں مجھے
فضیحت نہ کرو اور اللہ سے ڈرو اور مجھے
رسوا نہ کرو۔ (پ 14،الحجر:67، 69)
حضرت لوط علیہ
السلام نے اپنی قوم کو کئی بار وعظ و نصیحت کی مگر انہوں نے اس میں شک کیا اور اس
کو جھٹلا دیا یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے ان پر عذاب نازل فرما دیا۔
عاطف (درجۂ
رابعہ جامعۃ المدينہ فيضان اہل بيت رنگ
پورہ سیالکوٹ ، پاکستان)
نصیحت سے مراد
ترغیب و ترہیب ہے یعنی کسی کام کو کرنے کی ترغیب دینا اور کوئی کام کرنے سے ڈرانا۔
لوگوں کو وعظ
و نصیحت اس لیے کی جاتی ہے تاکہ وہ فلاح پا سکے ہمارا پیارا مذہب دین اسلام ہمیں
اسی بات کا درس دیتا ہے چنانچہ قرآن پاک میں فرمانے باری تعالیٰ ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ
الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ترجمہ
کنزالایمان:اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے۔ (پ 14،النحل،125)
اللہ پاک نے
لوگوں کی رہنمائی کے لیے،ان کو وعظ و نصیحت فرمانے کے لیے اور ان تک اپنے احکامات
پہنچانے کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اللہ پاک نے ہر قوم کی طرف کسی نہ کسی نبی کو مبعوث فرمایا
ان کی رہنمائی کے لیے اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام کو شہر سدوم کی طرف رسول بنا
کر بھیجا گیا تاکہ انہیں دین حق کی دعوت دیں اور برے کاموں سے منع کریں ۔ حضرت لوط
علیہ السلام جس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے وہ اپنے وقت کے بد ترین
گناہوں،بری عادات اور قابلِ نفرت افعال میں مبتلا تھی ان کا بڑا اور قبیح ترین جرم
مردوں کے ساتھ بد فعلی کرنا تھا یہ اپنی عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت سے
جاتے تھے۔ یہ وہ کام تھا جو اس قوم سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا ۔حضرت لوط علیہ
السلام نے اپنی قوم کو مختلف مواقع پر مختلف نصیحتیں فرمائیں جن کا تذکرہ قرآن پاک
میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1)
اللہ پاک سے ڈرنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ عزوجل سے
ڈرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:اِذْ قَالَ
لَهُمْ اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۶۱) اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۶۲)
فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۶۳)ترجمہ کنزالایمان:جب کہ اُن سے ان کے ہم قوم لوط نے فرمایا کیا تم ڈرتے
نہیں بےشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم
مانو۔ (پ19، الشعرآء: 161تا 163)
(2) بد
فعلی سے روکنے کی نصیحت: حضرت لوط
علیہ السلام نے اپنی قوم کو بد فعلی سے روکنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: وَ لُوْطًا
اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ
مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ
النِّسَآءِؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ(۸۱) ترجمۂ کنزالایمان: اور لوط کو بھیجا جب اس
نے اپنی قوم سے کہاکیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی تم
تو مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں
چھوڑ کر بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے ۔ (پ
8،الاعراف:80، 81)
(3)
قوم کی بیٹیوں کے حوالے سے نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کی بیٹیوں کے
حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:وَ جَآءَهٗ
قَوْمُهٗ یُهْرَعُوْنَ اِلَیْهِؕ-وَ مِنْ قَبْلُ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِؕ-قَالَ
یٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ
فِیْ ضَیْفِیْؕ-اَلَیْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ(۷۸) ترجمۂ کنزالایمان: اور اس کے پاس اس کی قوم دوڑتی آئی
اور انہیں آگے ہی سے بُرے کاموں کی عادت پڑی تھی کہا اے قوم یہ میری قوم کی بیٹیاں
ہیں یہ تمہارے لیے ستھری ہیں تو اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ
کرو کیا تم میں ایک آدمی بھی نیک چلن نہیں۔ (پ12،ھود: 78)
(4) مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو مہمانوں
کے سامنے رسوا نہ کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ یَسْتَبْشِرُوْنَ(۶۷) قَالَ اِنَّ
هٰۤؤُلَآءِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِۙ(۶۸) وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا
تُخْزُوْنِ(۶۹) ترجمۂ کنزالایمان:
اور شہر والے خوشیاں مناتے آئے لوط نے کہا یہ میرے مہمان ہیں مجھے
فضیحت نہ کرو اور اللہ سے ڈرو اور مجھے
رسوا نہ کرو۔ (پ 14،الحجر:67، 69)
حضرت لوط علیہ
السلام نے اپنی قوم کو کئی بار وعظ و نصیحت کی مگر انہوں نے اس میں شک کیا اور اس
کو جھٹلا دیا یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے ان پر عذاب نازل فرما دیا۔
احمد رضا شاہد
(درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ اپر مال
روڈ لاہور پاکستان )
اللہ تبارک و
تعالی نے بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے مختلف ادوار میں اپنے خاص بندوں یعنی انبیاء
کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا جن کی بعثت کا مقصد لوگوں کو اخروی سعادتوں سے
بہرہ ور کرنا اور جہنم سے دور کرنا ہے اور ان کو اچھے اخلاق کی تعلیم دے کر برے
اخلاق سے بچانا ہے اور انہیں اللہ تعالی کی بندگی کی طرف بلانا ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنا فریضۂ
تبلیغ بخوبی سرانجام فرمایا ، انہی چنے
ہوئے بندوں میں سے حضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام بھی ہیں ۔
مختصر
تعارف: حضرت لوط علیہ السلام کا
نام مبارک لوط ہے، جس کا ایک معنی قلبی
محبت ہے اس کی وجہ یہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام آپ سے بہت محبت فرماتے ہیں اور
قلبی شفقت کا اظہار فرماتے اس لیے آپ کا نام لوط رکھا گیا ۔ آپ علیہ السلام کا
شجرہ نسب یہ ہے : ”لوط بن ہاران بن تارخ بن ناحور بن ساروع بن ارغو بن فالغ بن
غابر بن شالغ بن بن ارفخشد بن سام بن نوح“
حضرت لوط عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھتیجے ہیں ، جب آپ کے چچا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شام کی طرف
ہجرت کی تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سرزمینِ فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام اردن میں اُترے۔ اللہ تعالیٰ
نے آپ کو اہلِ سُدُوم کی طرف مبعوث کیا، آپ اِن لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے
تھے اور فعلِ بدسے روکتے تھے۔ (سیرت
الانبیاء373،74 بتغیر قلیل)
آپ علیہ
السلام نے اپنی قوم کو خوب نیکی کی دعوت پیش
کی اور انہیں مختلف نصائح کی رہنمائی فرمائی جن میں سے چند قرآنی نصیحتیں بیان کی
جاتی ہیں:
(1)
کفر و شرک سے بچنا:حضرت لوط علیہ السلام نے قوم سے فرمایا کہ میں اللہ پاک کا
رسول ہوں تو تم کسی کو بھی اللہ پاک کے ساتھ شریک نہ کرو اس کے احکامات کا انکار
بھی نہ کرو ۔ اس چیز کو قرآن پاک میں یوں
بیان کیا گیا : كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ-ﹰالْمُرْسَلِیْنَ(160)اِذْ قَالَ لَهُمْ
اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(161)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ترجمہ کنز العرفان : لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔جب ان سے ان
کے ہم قوم لوط نے فرمایا :کیا تم نہیں ڈرتے ؟ بیشک میں تمہارے لیے امانتدار رسول
ہوں ۔(سورہ الشعراء آیت 160,161,162)
(2)
تقوی اختیار کرنا : حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو تقوی اختیار
کرنے کی نصیحت فرمائی ۔ چنانچہ قرآن مجید
نے اس کو یوں حکایت کیا ۔ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ
اَطِیْعُوْنِ(163)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ
اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(164)ترجمہ کنز العرفان : تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا
اجر توصرف ربُّ العٰلمین کے ذمے ہے۔ (سورۃ الشعراء آیت نمبر 163،164)
(3)
گناہوں سے اجتناب:آپ علیہ السلام
کی قوم بہت سارے گناہوں مبتلا تھی فحش معاملات کرنا وغیرہ آپ نے اس حوالے سے بھی
نصیحت فرمائی ، قرآن مجید میں ہے : لُوْطًا اِذْ قَالَ
لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ
الْعٰلَمِیْنَ(80)
ترجمۂ کنز العرفان: اور (ہم نے) لوط کو بھیجا، جب اس نے اپنی قوم سے کہا :کیا تم
وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہیں کی۔(سورہ اعراف آیت
نمبر: 80 )
(4)
بدکاری سے منع فرمایا: آپ علیہ السلام کی قوم جن قبیح و شنیع افعال کی
مرتکب تھی ان میں سے ان کے مردوں کا مردوں کے ساتھ بد فعلی کرنا بھی تھا آپ علیہ
السلام نے اس حوالے سے بھی اپنی قوم کو وقتاً فوقتاً تربیت و نصیحت فرمائی
قرآن مجید میں
ہے: اَىٕنَّكُمْ
لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَ تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ
الْمُنْكَرَؕ-فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا
بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(29)قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ
عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ(30) ترجمۂ کنز العرفان: کیا
تم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور راستہ کاٹتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کو
آتے ہو تو اس کی قوم کا کوئی جواب نہ تھا مگر یہ کہا: اگر تم سچے ہوتوہم پر الله
کا عذاب لے آؤ۔ (لوط نے) عرض کی، اے میرے
رب!ان فسادی لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔(سورہ العنکبوت 28، 29،30)
اللہ پاک ہم
سب کو۔ بھی ان شنیع افعال سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
لفظِ نصیحت
سنتے ہی انسان کا ذہن اچھائی کو اپنانے
اور برائی سے باز رہنے کی طرف جاتاہے ۔کیونکہ اِس کا مقصد ہی بھلائی کی طرف بلانا اور فساد سے روکنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ
تعالی نےاچھی نصیحت کا حکم دیا ہے ارشاد
باری تعالی ہے :اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ
الْحَسَنَةِ ترجَمۂ کنزُ
العرفان: اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ۔ (پ14 ، النحل : 125)
اس آیت سے پتا
چلا کہ اللہ پاک کے راستے کی طرف بلانے کے لیے اچھی نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔اللہ
تعالی نے اسی حکم کے عملی اظہار کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں کا انتخاب فرمایا جو اپنی قوموں
کو نصیحت کے ذریعے سمجھاتے رہے ۔ان پاک ہستیوں میں حضرت لوط علیہ السلام بھی شامل
ہیں جنہوں نے اپنی قوم کو توحید کا اقرار کرنے،شرک سے بچنے ،اپنے رب کا خوف اور
بے حیائی و بری باتوں سے بچنے کی نصیحتیں کیں۔ ان میں چند ایک کا
ذکر درج ذیل ہیں :
(1)بے
حیائی اور بروں کام سے بچنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ
السلام نے اپنی قوم کو ،فعل بد اور بے حیائی سے بچنے کی سختی سے تاکید فرمائی،
قرآن پاک میں ہے: وَ
لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا
مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(80) ترجمۂ کنزالعرفان: اور (ہم نے) لوط کو بھیجا، جب اس نے
اپنی قوم سے کہا :کیا تم وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہیں
کی۔ )سورۃ الاعراف :80(
(2) برے انجام سے ڈرانے کی نصیحت :
جب حکمتِ الہی
اور فطری تقاضوں کو چھوڑ کر قومِ لوط نے اپنی خواہشات نفسانی کو کسی دوسرے ذرائع (یعنی
مردوں کے ذریعے سے) سے پورا کرنے کی کوشش
کی، اس پر حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی
قوم کو نصیحت فرمائی۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے : اسی طرح سورۃ
النمل میں ہے : اَىٕنَّكُمْ
لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ
تَجْهَلُوْنَ(55) ترجمۂ کنزالعرفان: کیا تم عورتوں کو چھوڑ کرمردوں کے
پاس شہوت سے جاتے ہو بلکہ تم جاہل لوگ ہو۔)سورۃ النمل : 55(
(3)اللہ سے ڈرنے اور اس کے رسول کی اطاعت کی نصیحت: جب قوم لوط نے اللہ کے نبی حضرت
لوط علیہ السلام کو جھٹلایا نیز شرک اور گناہ کی زندگی گزارنے لگے تو آپ علیہ
السلام نے اپنی قوم کو اللہ سے ڈرنے اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا۔قرآن پاک
میں ہے: اِذْ قَالَ لَهُمْ
اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(161)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(162)فَاتَّقُوا
اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(163)ترجمۂ
کنزالعرفان: جب ان سے ان کے ہم قوم لوط نے فرمایا :کیا تم نہیں ڈرتے ؟ بیشک میں
تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں تو اللہ سے
ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ )سورۃ الشعراء، آیت 160 تا 164(
(4)
مہمان کی عزت و احترام کرنے کی نصیحت: قوم لوط نے جب لوط علیہ السلام کے مہمانوں کو تکلیف
پہنچانے کا ارادہ کیا تو حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت فرمائی اور
مہمان کے آداب بتائے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: قَالَ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ ضَیْفِیْ فَلَا
تَفْضَحُوْنِ(68)وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ(69) ترجمۂ کنزالعرفان: لوط نے فرمایا: یہ میرے
مہمان ہیں تو تم مجھے شرمندہ نہ کرو اور
اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔ (سورۃ حِجر، 68،69 )
اس آیت سے
معلوم ہوا کہ مہمان کی عزت و احترام اور خاطر تواضع انبیا کی سنت ہے۔ (صراط الجنان )
اللہ پاک ہمیں بے حیائی ،برے کاموں اور اپنی نافرمانیوں سے
بچائے اور ان نصیحتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
محمد عبد المبین عطّاری (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ
فيضان امام غزالی احمد آباد فیصل آباد)
آپ علیہ
السّلام کا نام مبارک ”لوط“ ہے جس کا ایک معنی ”قلبی محبت“ بنتا ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ
سے متعلق منقول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام آپ سے بہت محبت فرماتے اور قلبی
شفقت کا اظہار فرماتے تھے اس لئے آپ علیہ السّلام کا نام ”لوط“ رکھا گیا۔ حضرت
لوط علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بھتیجے تھے اور شجرہ نسب کچھ یوں
ہے: لوط بن ہاران بن تارخ بن ناحور بن ساروع بن ارغو بن فالغ بن غابر بن شالغ بن
ارفخشد بن سام بن نوح علیہ السّلام۔ لیکن ایسے شجر و نسب میں ہمیشہ یہ بات یاد
رکھنی چاہئے کہ یہ قطعی نہیں ہوتے۔ ممکن ہے کہ درمیان میں بہت سے افراد کے نام
رہ گئے ہوں۔(سیرت الانبیاء،ص 374)
نصیحت کے لغوی
معنیٰ ”اچھی صلاح، نیک مشورہ“ کے ہیں۔ اسی کا ایک دوسرا لفظ ہے نصیحت آمیز یعنی
عبرت دلانے والی بات۔(فیروز اللغات، ص 1430)
نصیحت قولی بھی
ہوتی ہے اور فعلی بھی۔ لوگوں کو اللہ پاک اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی پسندیدہ باتوں کی طرف بلانے اور ناپسندیدہ باتوں سے بچانے اور دل میں
نرمی پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ وعظ و نصیحت بھی ہے۔ وعظ و نصیحت دینی، دنیوی،
اخلاقی، روحانی، معاشی اور معاشرتی زندگی کیلئے ایسے ہی ضروری ہے جیسے طبیعت
خراب ہونے کی صورت میں دوا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام
اپنی قوموں کو وعظ و نصیحت فرماتے رہے، حضرت لوط علیہ السّلام نے بھی اپنی قوم کو
مختلف مواقع پر مختلف انداز میں نصیحتیں فرمائیں جن کا ذکر قراٰنِ پاک میں کئی
مقامات پر کیا گیا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1)اللہ
پاک سے ڈرنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ
السّلام اپنی قوم اہلِ سدوم کے پاس رسول بن کر تشریف لائے اور انہیں اللہ پاک سے
ڈرنے کی نصیحت فرمائی قراٰنِ مجید میں آپ علیہ السّلام کی نصیحت کا ذکر کچھ یوں
ہے:﴿اِنِّیْ
لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۶۲) فَاتَّقُوا اللّٰهَ
وَاَطِیْعُوْنِۚ(۱۶۳)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک میں تمہارے لیے اللہ کا
امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔(پ 19، الشعرآء:162،
163)
(2)بد فعلی
پر قوم کو نصیحت:آپ علیہ السّلام نے اُن لوگوں کی سب سے قبیح عادت پر تنبیہ کرتے
ہوئے فرمایا کہ حلال عورتوں (بیویوں) کو چھوڑ کر مَردوں کے ساتھ بد فعلی کرتے ہو
تم لوگ حد سے بڑھ چکے ہو، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿اَتَاْتُوْنَ
الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۵) وَتَذَرُوْنَ مَا
خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ(۱۶۶)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: کیا مخلوق میں مَردوں
سے بدفعلی کرتے ہو اور چھوڑتے ہو وہ جو تمہارے لیے تمہارے رب نے جوروئیں (بیویاں)
بنائیں بلکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو۔(پ 19، الشعرآء:165، 166)
(3)دنیوی
نفع کے بغیر قوم کو تبلیغ و نصیحت:
حضرت لوط علیہ السّلام نے قوم کو تبلیغ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: یاد رکھو کہ میں
اس تبلیغ و تعلیم پر تم سے کوئی اُجرت اور دنیوی منافع کا مطالبہ نہیں کرتا، میرا
اجر و ثواب تو صرف رب العلمین کے ذمۂ کرم پر ہے۔﴿وَمَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ
عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۱۶۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان:
اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا
رب ہے۔ (پ 19، الشعرآء: 164)
اللہ پاک ہمیں
انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی مبارک نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
اور ان کے صدقے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں فیضانِ
انبیا سے مالا مال فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم