وہ خوش نصیب خواتین جنہیں حضور ﷺ نے شرفِ زوجیت سے
نوازا قرآنِ کریم نے انہیں مومنوں کی مائیں
قرار دیا ہے۔خدا پاک نے اپنے پیارے رسول ﷺ کی پاک ازواج کو بہترین اوصاف مثلاً احکامِ شرع کی پاسداری، تقویٰ وپرہیزگاری،زہد و عبادت
سے نوازا ہے۔جو انہیں دنیا جہاں کی سب عورتوں سے نمایاں اور اونچے مقام پر فائز کر
دیتے ہیں۔یہ در حقیقت پیارے آقا ﷺ کی صحبت اور تربیت کا ہی اثر تھا کہ انہیں اس
قدر مقام و رتبہ حاصل ہوا اور ان کی پاکیزہ حیات کے شب و روز قیامت تک کے لوگوں کے
لیے بہترین نمونہ قرار پائے۔
سرکارِ نامدار،مدینے کے تاجدار ﷺ نے متعدد نکاح فرمائے۔اس
سلسلے میں جن پر سب کا اتفاق ہے وہ 11 صحابیات رضی اللہ عنہن ہیں جو آپ ﷺ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر
امہات المومنین کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئیں۔
ان میں سے 6تو قبیلۂ قریش کے اونچے گھرانوں کی چشم وچراغ
تھیں اور 4 کا تعلق قبیلۂ قریش سے نہیں
تھا بلکہ عرب کے دوسرے قبائل سے تعلق رکھتی تھیں اور ایک غیر عربیہ تھیں بنی اسرائیل سے تعلق تھا۔
(المواھب اللدنیہ،1/401)
حضور ﷺ کو اپنی تمام
ازواجِ مطہرات سے بے پناہ محبت تھی،آپ نے
ہر ایک کے لیے باری کے دن مقرر فرمائے اور
ہر ایک میں عدل قائم فرمایا۔
سب سے پہلی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں، ان سے آپ کو
بے حد محبت تھی یہاں تک کہ جب آپ رضی اللہ
عنہا کا وصال ہو گیا تو پیارے آقا ﷺ کثرت سے آپ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرماتے اور
بلند بالاشان کے باوجود آپ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کا اکرام فرماتے۔روایت میں ہے
کہ جب آپ ﷺ کی بارگاہ میں کوئی چیز پیش کی جاتی تو فرماتے:اسے فلاں عورت کے پاس لے
جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ کی سہیلی تھی، اسے فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ
سے محبت کرتی تھی۔
(الادب المفرد،
ص78،حدیث:232)
حضور ﷺ کو سب ازواج میں سے سب سے زیادہ محبوب حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا تھیں۔آپ ﷺ پر وحی انہی کے لحاف (بستر ) میں آتی تھی۔ان کے علاوہ کسی
اور کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا حجرہ مبارک حضور ﷺ کا روضہ شریف بنا جو عرش سے بھی افضل ہے۔ اس فضیلت کی وجہ سے آپ کا حجرہ ٔمبارکہ قیامت تک فرشتوں کے جھرمٹ میں رہے گا۔( فیضان امہات المومنین، ص 89)
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا جو کہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ امیر المومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی
اللہ عنہ کی شہزادی ہیں ان کو بھی ایک خاص مقام حاصل ہے۔
ازواجِ مطہرات میں سے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ایک
نمایاں مقام حاصل تھا، آپ رضی اللہ عنہا حضور نبیِ کریم ﷺ کی محبوب ترین ازواج میں
سے تھیں۔مروی ہے کہ ایک بار حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ام المومنین حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی:خالہ جان! رسولِ کریم ﷺ کو کون سی زوجہ مطہرہ سب سے زیادہ محبوب تھیں؟فرمایا:میں اس بارے میں کچھ نہیں
جانتی۔ہاں!زینب بنتِ جحش اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کو آپ ﷺ کی بارگاہ میں خاص مقام حاصل تھا اورمیرے
خیال ہے کہ میرے بعد یہ دونوں آپ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔(طبقات ابن
سعد،8/91)الغرض آپ ﷺ اپنی تمام ازواجِ مطہرات سے ایک جیسا سلوک فرماتے تھے۔یہ آپ ﷺ
کی کریمانہ شان ہے کہ آپ ﷺ نے ان میں عدل فرمایا۔
وہ نسآءِ نبی طیبات وخلیق جن
کے پاکیزہ تر سارے طور و طریق
جو بہرحال نورِ
خدا کی رفیق اہلِ اسلام کی
مادرانِ شفیق
بانُوانِ طہارت
پہ لاکھوں سلام
اللہ پاک ہمیں ان کے فیضان سے مالا مال فرمائے ۔ آمین
حضور
ﷺ کی اپنی ازواج سے محبت از بنت محمد عدنان ، دار الحبیبیہ دھوراجی کالونی کراچی
لفظِ محبت اپنے معانی اور مفہوم کے اعتبار سے اپنے دامن میں
بڑی وسعت،جامعیت اور معنویت رکھتا ہے۔ اس کے لغوی معنی اُلفت و پیار، چاہت و لگن
اور انس و عشق کے ہیں۔حضور ﷺ اپنی ازواجِ پاک سے محبت فرمایا کرتے تھے۔ذرا سوچئے
کہ وہ شخصیت جو کہ وجہِ کائنات ہیں،جن کی محبت پر ایمان کا مدار ہے،ان کی اپنی11
ازواجِ پاک رضی اللہ عنہن سے محبت فرمانا کیا پاکیزہ محبت ہے!آئیے!چند جھلکیاں
ملاحظہ کیجئے:
حضور ﷺ کی حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا سے محبت:
پیارے آقا ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا:مجھے اِن کی
محبت عطا فرمائی گئی ہے۔(مسلم ، ص 1016 ، حدیث : 6278)
رسولِ پاک ﷺ کی
اپنے ازواجِ پاک سے محبت کے تعلق سے 2 حدیثیں
پڑھئے:
(1)حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضورِ اکرم ﷺ لوگوں میں
سب سے بڑھ کر اپنی اَزواج کے ساتھ خوش طبع تھے۔( فیض القدیر ، 5 / 229 ، تحت الحدیث
: 6865)
ہمارے پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں :تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو
اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں۔( ابن
ماجہ ، 2 / 478 ، حدیث : 1977)سیرتِ مبارکہ کے اس پہلو سے یہ درس ملا کہ ہر ایک کو
خاص کر زوجین کو آپس میں حُسنِ سلوک سے
پیش آنا چاہیے ۔
پیارے آقا ﷺ حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی بہت محبت فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ
حُضورِاکرم ﷺ نے سَیِّدہ فاطِمَہ زَہرا رضی اللہ عنہاسےفرمایا:اے
فاطِمَہ!کیا تم اُس سے مَحَبَّت نہیں کرو گی جس سے میں مَحَبَّت کرتا ہوں؟سَیِّدَہ
فاطِمَہ زہرارضی اللہ عنہا نےعَرْض کی:کیوں نہیں۔اِس پرحُضورِ اکرم ﷺنےفرمایا:عائشہ
سے مَحَبَّت رکھو۔(مسلم،ص1017،حدیث:2442 ملتقطاً)
آپ ﷺ اپنی ازواج کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے، اگرچہ آپ پر ان کے لئے باریاں مقرر کرنا ضروری نہیں تھا لیکن
پھر بھی آپ نے ہر ایک کے لیے باری مقرر فرمائی تھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں ہڈی سے
(دانتوں کے ساتھ ) گوشت اُتارتی تھی حالانکہ میں حائضہ ہوتی اور وہ ہڈی حُضُور ﷺ
کو پیش کر دیتی تو آپ اپنا دہن مبارک اسی جگہ رکھتے جس جگہ میں نے رکھا تھا اور
میں(پیالے میں)پانی پی کر حُضُور ﷺ کو(پیالہ)دیتی تو آپ( پیالے میں)اسی جگہ اپنا
لب مبارک رکھتے(یعنی پانی نوش فرماتے)جہاں سے میں نے پیا ہوتا۔(ابو داود،ص54،حدیث:259)
حضور ﷺ اپنے ازواج کے گھر کے کاموں میں مدد فرمایا کرتے تھے
۔چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ رَسُولِ کریم ﷺ گھر میں کیا کام کرتے تھے؟تو
آپ نے فرمایا :رَسُولِ کریم ﷺ اپنے گھر کے کام کاج میں مشغول رہتے تھے پھر جب نماز
کا وقت آجاتا تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔( بخاری ،1 / 241 ، حدیث : 676)
حضور ﷺ نے جب حجۃ الوداع فرمایا تو آپ کے ساتھ آپ کی تمام
ازواج جو اس وقت حیات تھیں وہ سب ہی ساتھ تھیں۔( اسد الغابہ،7/ 139)
اسی طرح حضور ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو ازواجِ مطہرات کے
درمیان قرعہ ڈالتے اور جس کا نام نکلتا اس کو اپنے ساتھ سفر پر لے کر جاتے۔کیا شان
ہے میرے آقاﷺ کی! کیا شان ہے خاتم النبیین ﷺکی !
مقامِ غور ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنی بیویوں کو نوکرانی
سمجھتے ہیں اور انہیں اپنے پاؤں کی جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں یعنی بہت زیادہ ظلم و
زیادتی کرتے اور ان کی حقارت کرتے ہیں۔ان کو چاہیے کہ اپنے پیارے آقا ﷺ کی سیرتِ طیبہ
کو پڑھیں اور اس پہ غور کریں کہ اتنی بڑی شخصیت جو کہ جانِ کائنات ہے وہ اپنی
ازواجِ پاک رضی اللہ عنہن کے ساتھ کس قدر شفقت و محبت والا سلوک فرماتے تھے!
حضور
ﷺ کی اپنی ازواج سے محبت از بنت شہباز احمد،فیضانِ ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
نبیِ کریم ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو ہمیں ایک مثالی زندگی
گزارنے کا درس دیتا ہے۔آپ ﷺ کا طرزِ حیات ہر مسلمان کے لئے ایک روشن مینار کی حیثیت
رکھتا ہے،جو ہماری زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔خصوصاً آپ کی
ازدواجی زندگی ایک مثالی نمونہ ہے،جس میں آپ کی اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ محبت،حُسنِ
سلوک اور عدل و انصاف کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ازواجِ مطہرات یعنی نبیِ کریم ﷺ کی بیویوں نے نہ صرف آپﷺ کے ساتھ
زندگی گزاری بلکہ آپ کی تبلیغِ دین میں بھرپور حصہ بھی لیا۔آپ ﷺ نے اپنی بیویوں سے
بے پناہ محبت کی اور ان کے ساتھ بہترین سلوک کا مظاہرہ کیا۔آپ ﷺ کی ازدواجی زندگی
ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ محبت،احترام اور انصاف کی بنیاد پر قائم رشتے کس طرح کامیاب
اور خوشگوار ہو سکتے ہیں۔
نبیِ کریم ﷺ اپنی تمام بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کا خاص
خیال رکھتے تھے۔آپ ﷺ کا فرمان ہے: جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان انصاف نہ کرے، تو قیامت کے دن اس
حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہو گا۔(ترمذی،2 /375 ، حدیث : 1144)
آپ ﷺ نے اپنی
ازدواجی زندگی میں ہر بیوی کے حقوق کا خاص خیال رکھا اور کسی کے ساتھ بھی زیادتی
نہ ہونے دی۔آپ ﷺ اپنی اَزواجِ پاک سے محبت فرماتے اور اِس کا اِظہار بھی فرماتے۔چنانچہ
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں
فرمایا : مجھے اِن کی محبت عطا فرمائی گئی ہے۔(مسلم،ص1016 ،حدیث : 6278)
نبیِ کریم ﷺ کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں،جن
سے آپ نے نہایت محبت کی۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم ﷺ کے ابتدائی دور میں
آپ کا ساتھ دیا اور آپ کے مشن کو تقویت بخشی۔آپ ﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے
انتقال کے بعد بھی ان کا ذکرِ خیر فرماتے اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک
کرتے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:مجھے نبیِ کریم ﷺ کی کسی زوجہ پر اتنا
رشک نہیں آیا جتنا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر، حالانکہ میں نے ان کو نہیں دیکھا
تھا۔
(بخاری، 2/ 565،حدیث: 3818)
نبیِ کریم ﷺ اپنی بیویوں کی تعلیم و تربیت کا بھی خاص خیال
رکھتے تھے۔ نبیِ کریم ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی علمی قابلیت اور فہم و فراست
کی بہت قدر کرتے تھے۔ آپ ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو قرآن کی تعلیم دیتے اور ان
کے سوالات کے جوابات دیتے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی علمی قابلیت اور فہم و
فراست کی بنا پر بہت سی احادیث کی روایت کی ہیں، جو ان کی علمیت کو ظاہر کرتی ہیں
اور آج بھی مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے موجود ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبیِ کریم ﷺ کی محبت بھی بے
مثال تھی۔آپ ﷺ نے فرمایا: عائشہ کی فضیلت دیگر عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت
تمام کھانوں پر ہے۔(بخاری،2/445،حدیث: 3411)
اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،بیان کرتی ہیں کہ خدا کی قسم !میں نے یہ
منظر دیکھا ہے کہ(ایک روز )حبشی نابالغ لڑکے مسجد میں نیزہ بازی کر رہے تھے،حضور نبیِ
کریم ﷺ اُن کا کھیل مجھے دکھانے کے لیےمیرے لیےاپنی چادر کا پردہ کرکےمیرے حجرے کے
دروازے پر کھڑے ہوگئے(جو مسجد میں کھلتا تھا)میں آپﷺ کے کاندھے کےدرمیان سے اُن کا
کھیل دیکھتی رہی ، آپ ﷺ میری وجہ سے مسلسل کھڑے رہے،یہاں تک کہ(میرا جی بھر گیا)اور
میں خود ہی لوٹ آئی۔
(مسلم،ص442،حدیث:18(892))(بخاری،1/ 339،حديث:988)
حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (مقام)حَز سے واپس آرہے تھے،
میں ایک اونٹ پر سوار تھی جو دوسرے اونٹوں میں آخر میں تھا، میں نے رسول اللہ ﷺ کی
آواز سنی، آپ ﷺ ارشاد فرما رہے تھے: ہائے میری دلہن۔(مسند احمد،43/216،: 26112 )
حضور نبیِ کریم ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس قدر محبت تھی کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا خوش ہوتیں تو سرکار ﷺ
بھی خوش ہوتے۔آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو عائش کہہ کر بلاتے تھے اور حمیرا بھی۔کیونکہ
آپ رضی اللہ عنہا کے گال سرخ تھے۔
حضرتِ صفیہ رضیَ اللہُ عنہَا کے اسلام
قبول کرنے کے بعدغزوۂ خیبر سے واپسی کے سفر میں جب سواری کے لئے اُونٹ قریب لایا
گیا، تورسولِ خدا ﷺ نے حضرتِ صفیہ رضیَ اللہُ عنہَا کو اپنے کپڑے سے پردہ کرایا اور زانوئے
مُبَارَک (ران) کو قریب کیا تاکہ حضرتِ صفیہ رضیَ اللہُ عنہَا اس پر پاؤں رکھ کر
اُونٹ پر سُوار ہو جائیں۔(مغازی للواقدى، 2/708) لیکن آپ نے
رسولِ پاک ﷺ کی تعظیم کے پیش نظر آپ کے زانوئے مُبَارَک پر پاؤں نہیں رکھا بلکہ
گھٹنا رکھ کر سوار ہوئیں۔(معجم كبير،303/11،حدیث:12068)
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا اُن چاربہنوں
میں سے ہیں جنہیں حضور ﷺ نے اَلْاَخَوَاتُ الْمُؤْمِنَات کے دِل نشین خِطَاب سے
نوازا تھا۔(معرفۃ الصحابۃ ،6/3354،حديث:7676)
نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ پاک اس
شخص پر رحم فرمائے جو رات کو بیدار ہوکر نماز پڑھتا ہے اور اپنی زوجہ کو نماز کے
لئے جگاتاہے اگروہ انکا ر کرتی ہے تو اس کے چہرے پر پانی چھڑکتا ہے،اللہ پاک اس
عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتی ہے اور اپنے شوہر کو نماز کے لئے
جگاتی ہے اگر اس کا شوہر اٹھنے سے انکا ر کرتاہے تو اس کے چہرے پر پانی چھڑکتی
ہے۔(ابن ماجہ،2/128،حدیث:1336)
حضور
ﷺ کی اپنی ازواج سے محبت از بنت سید ابرار حسین، پاکپورہ جیل روڈ سیالکوٹ
اسلام سے قبل عورت کو
نفرت و حقارت سے دیکھا جاتا تھا،اس کی کوئی عزت، مقام و مرتبہ یا حقوق وغیرہ کچھ نہ تھے،یہ اسلام کا ہی احسان ہے کہ اس نے عورت کو حقوق عطا
فرمائے،ماں،بیٹی،بہن،بیوی کی صورت میں عزت بخشی۔
ہمارے آقا ﷺ کی زندگی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔آپ ﷺ کی حیاتِ
طیبہ کا ہر ہر پہلو ہمارے لیے قابلِ تقلید ہے۔زندگی کے دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ
بیوی سے محبت، شفقت، حُسنِ اخلاق میں بھی آپ ﷺ کا کوئی ثانی نہ تھا۔پیارے آقا ﷺ
نے بیویوں سے حُسنِ سلوک سے متعلق رہنمائی
فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:تم میں سے سب سے
بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے ساتھ سب سے زیادہ بھلائی کرنے والا ہو اور میں اپنی
ازواج کے ساتھ تم سب سے زیادہ بھلائی کرنے والا ہوں۔(ترمذی،5/475،حدیث: 3921)
جو لوگ عورتوں کو بالکل ناپسند کرتے یا حقیر سمجھتے ہیں انہیں
ان احادیثِ مبارکہ سے درس حاصل کرنا چاہیے
کہ وہ اپنی بیویوں سے اچھا سلوک کریں،ان
سے صرف غلاموں کی طرح کام نہ لیں بلکہ ان
کے حقوق بھی پورے اداکریں۔پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: مجھے تمہاری دنیا میں سے 3 چیزیں
پسند ہیں:(1)خوشبو(2) عورتیں(3) میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔(نسائی،ص 644،حدیث:
3985)
سرکار ِعالی وقار،محبوبِ ربِّ غفار ﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں کئی نکاح فرمائے،اس سلسلے میں جن پر سب کا
اتفاق ہے وہ 11 صحابیات رضی اللہ عنہن ہیں۔ان میں سے 6 قبیلہ قریش سے تھیں:حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ،حضرت ام حبیبہ،حضرت ام
سلمہ، حضرت سودہ رضی اللہ عنہن) جبکہ 4 عرب کے دیگر قبائل سے تھیں:حضرت زینب بنت
جحش،حضرت میمونہ،حضرت زینب بنت خزیمہ،حضرت جویریہ رضی اللہ عنہن۔نیز1یعنی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا
غیر عربیہ تھیں۔
آپ علیہ السلام سے پہلے بھی انبیائے کرام علیہم السلام کو عام لوگوں سے زیادہ
شادیوں کی اجازت دی گئی تھی۔چنانچہ آپ علیہ السلام کو بھی اس باب میں وسعت عطا
فرمائی گئی۔آپ علیہ السلام کے 1 سے زیادہ نکاح فرمانے میں کثیر حکمتیں تھیں مثلاً احکامِ
شریعت کی تبلیغ و اشاعت ،غلط رسومات کا خاتمہ وغیرہ۔
آپ علیہ السلام امت کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اپنی ازواجِ
مطہرات رضی اللہ عنہن کے حقوق بھی پورے ادا فرماتے اور ان سے محبت بھی فرماتے۔آپ
علیہ السلام کو ازواج میں سے سب سے زیادہ
محبوب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھی۔آقا ﷺ نے ان کے علاوہ کسی کنواری عورت سے نکاح
نہ فرمایا۔چنانچہ
1-حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعلق حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کسی بیوی کے لحاف میں میرے اوپر وحی نازل نہ ہوئی مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب
میرے ساتھ بسترِ نبوت پر سوتی رہتی ہیں تو اس حالت میں بھی مجھ پر وحیِ الٰہی اترتی
رہتی ہے۔(بخاری،2 /552،حدیث: 3775)
2- حضور جانِ رحمت ﷺ کا ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سےمزاح فرمانا:
مروی ہے کہ پیارے آقا ﷺاپنی ازواج کے ساتھ تمام لوگوں سے زیادہ
خوش طبعی فرمانے والے تھے۔
(قوت القلوب،2/418)
آپ ﷺ نے حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا سے دوڑ میں مقابلہ کیا تو 1 دن وہ سبقت لے گئیں اور ایک دن آپ ﷺ
سبقت لے گئے۔حضورﷺ نے فرمایا:یہ اس کا بدلہ ہوگیا۔(ابوداود،3/42،حدیث: 2578)
3-حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کی محبت:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی
اللہ عنہا سے بھی بہت محبت تھی،آپ کے ہوتے ہوئے حضور ﷺ نے کسی اور عورت سے نکاح نہ
فرمایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ازواجِ مطہرات رضی
اللہ عنہن میں سے سب سے زیادہ مجھے حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں غیرت آیا
کرتی تھی حالانکہ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں تھا۔غیرت کی وجہ یہ تھی کہ حضور
اکرم ﷺ بہت زیادہ ان کا ذکرِ خیر فرماتے رہتے تھےاور اکثر ایسا ہوا کرتا تھا کہ آپ
ﷺ جب بکری ذبح فرماتے تھے تو کچھ گوشت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کے
گھروں میں ضرور بھیج دیا کرتے تھے اس سے میں چڑجایا کرتی تھی اور کبھی کبھی یہ کہہ
دیا کرتی تھی کہ نیا میں بس ایک خدیجہ ہی تو آپ کی بیوی تھیں میرا یہ جملہ سن کر
آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ہاں!ہاں!بے شک وہ تھیں وہ تھیں۔انہی کے شکم سے تو اللہ پاک
نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔(بخاری، 2/ 565،حدیث: 3818)
4-یادِ خدیجہ الکبریٰ :
ایک بار حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنتِ خویلد رضی
اللہ عنہا نے سرکار ﷺ سے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی،ان کی آواز
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہت ملتی تھی، اس سے آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا
کا اجازت طلب کرنا یاد آگیا،آپ خوشی سے کھڑے ہوگئے اور فرمایا :یا اللہ ! یہ توہالہ ہیں۔(بخاری،2/565 ، رقم:3821)
5-حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا پر کرم نوازی:
ماہِ رمضان کے آخری عشرہ میں جب تمام نبیوں کے سلطان ﷺ مسجد
میں اعتکاف فرمائے ہوئے تھے،ایک رات حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا،آپ ﷺ کی زیارت کے لیے
حاضر ہوئیں،تھوڑی دیر آپ ﷺ سے گفتگو کی پھر جب واپس جانے کےلیے کھڑی ہوئیں تو آپ ﷺ
بھی اٹھ کر ان کے ساتھ چلے اور مسجد کے دروازے تک صحبتِ بابرکت سے نوازا۔(بخاری،ص531،حدیث:
2035) (فیضانِ امہات المومنین،ص 313)
حضور
ﷺ کی اپنی ازواج سے محبت از بنت سید ذو الفقار علی ، رحمت کالونی رحیم یار خان
ہمارے پیارے آقا ﷺ کی
شانِ کریمانہ تھی کہ آپ اپنی تمام ازواج کے درمیان عدل و انصاف فرمایا کرتے
تھے،آپ کے عمل مبارک سے اُمت کو تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنے لئے راہِ عمل متعین کرنی
چاہئے مگر بد قسمتی سے آج کا مسلمان اس سے یکسر غافل نظر آتا ہے۔حکیم الامت علامہ
مفتی احمد یارخان فرماتے ہیں: جب اتنا
عدل کوئی رکھ سکتا ہے جتنا حضور رکھنے میں تو ہی چند بیویاں رکھے۔آج مسلمانوں نے
چار بیویوں کی اجازت کی آیت کو پڑھ لی، مگر عدل کی آیت سے آنکھیں بند کرلی ہیں آج
جس ،قدرظلم مسلمان اپنی بیویوں پر کر رہے
ہیں اس کی مثال نہیں ملتی ، نبی کی تعلیم
کیا ہے اور امت کا عمل کیا ہے۔(مراۃ المناجیح،5/82)
آئیے!حضور ﷺ کا اپنی ازواج سے محبت کے کچھ پہلو ملاحظہ کرکے
ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔چنانچہ
سرکارِ عالی وقار،محبوبِ ربِ غفار ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ
عنہا سے بہت محبت تھی یہاں تک کہ جب آپ کا وصال ہو گیا تو پیارے آقاﷺ کثرت سے آپ کا ذکر فرماتے۔روایت میں ہے کہ آپ کی بارگاہ
اقدس میں جب کوئی چیز پیش کی جاتی تو فرماتے:اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ کیونکہ
وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔( الادب المفرد،ص78،حديث:232)
ایک بار حضرت خدیجہ
رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت ہالہ بنتِ خُویلد رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ اقدس میں
حاضر ہونے کی اجازت طلب کی،ان کی آواز حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہت ملتی تھی،چنانچہ
اس سے آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت طلب کر نا یاد آگیا اور آپ نے
جھر جھر ی سی لی۔(بخاری، 2/565،حدیث:3821)
حضور ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:اے عائشہ!میں
تمہیں ایک بات بتاؤں؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے عرض کی:حضور !فرمائیے! تو آپ ﷺ
نے فرمایا:اے عائشہ!جب تم ناراض ہوتی ہو تو بھی مجھے پتا ہوتا ہے اور جب تم راضی ہوتی
ہو تو بھی مجھے معلوم ہوتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :یا رسول اللہﷺ!
کس طرح؟حضور ﷺنے فرمایا: جب تم کبھی قسم اٹھاتی ہو تو کہتی ہو:مجھے رب محمد کی قسم!لیکن
جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو:رب ابراہیم کی قسم!۔جب تم میرا نام نہیں لیتی تو مجھے
پتہ چل جاتا ہے کہ آج معاملہ کیا ہے۔تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں:ہاں!یہی
بات ہے میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی ہوں۔(بخاری،3/471،حدیث:5228)
حضرت عَمروْ بن عاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کی:یَارَسُولَ
اللہ ﷺ! لوگوں میں آپ کو سب سے بڑھ کر کون محبوب ہے؟ ارشاد فرمایا:عائشہ۔انہوں نے دوبارہ
عرض کی:مَردوں میں سے کون ہے؟ فرمایا: عائشہ کے والد(یعنی ابوبکر صِدّیق رَضِیَ اللہُ
عَنْہُ۔)(بخاری،3/126، حدیث:4358)
ترمذی شریف کی روایت ہے کہ ایک روز نبیِ کریم ﷺ نےدیکھا کہ
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رو رہی ہیں۔آپ نے رونے کاسبب پوچھا تو انہوں نے کہا:یا
رسول اللهﷺ!حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما نے یہ کہا ہے کہ ہم دونوں
دربارِ رسالت میں تم سے بہت زیادہ عزت دار ہیں، کیونکہ ہمارا خاندان حضور ﷺسے ملتا
ہے ،یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا:اے صفیہ!تم نے ان دونوں سے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ
تم دونوں مجھ سے بہتر کیونکر ہو سکتی ہو؟ حضرت ہارون علیہ اسلام میرے باپ،حضرت موسیٰ علیہ السلام میرے چچا اور حضرت محمد ﷺ میرے
شوہر ہیں۔(ترمذی،5/474 ، حدیث:3918)
ہمارے پیارے آقا ﷺ
اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ گھر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتے تھے۔آپ ﷺکبھی گھر میں
جھاڑو لگا دیتے تھے تو کبھی برتن بھی دھو دیتے۔ہمیں بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے
کہ ہمارے پیارے آقا تمام جہاں والوں کے سردار ہونے کےباوجود بھی ہر کام خود کرتے
تھے،جبکہ آج کل کے مسلمان وہ کام کرنے کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں ،ایسا ہر گز نہیں
ہونا چاہئے۔اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ وہ ازواجِ مطہرات کو اپنا آئیڈیل بنائیں اور
ان کی زندگی کے پہلوؤں پر نظر رکھیں اور ان پر عمل پیرا ہوں۔اگر ہم رسولِ پاک ﷺ
اور آپ کی ازواج کو اپنا آئیڈیل بنا لیں گی تو ان شاء اللہ گھر جنت بن جائے گا،
گھر میں جنت کا مزہ آنے لگ جائے گا، گھر میں روٹی ہویا چٹنی لیکن زندگی پر سکون ہی رہے گی۔اگر گھر میں اطمینان
و سکون نہ ہو تو پھر گھر کا ماحول بگڑ جاتا ہے،پھر عالی شان بنگلوں میں نرم بستروں
پر ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بھی نیند نہیں آتی۔پھرکیا فائدہ ایسے بنگلوں اور نرم و
ملائم بستروں کا!عورت یہ سمجھے کہ الله پاک نے شوہر کو میرے لئے بادشاہ بنایا
ہے۔اگر عورت شوہر کو بادشاہ تسلیم کرے گی تو رانی تو وہ خود بھی بن جائے گی۔الله
پاک سے دعا ہے کہ الله پاک ہمیں آپ ﷺ اور آپ کی ازواجِ مطہرات کے نقشِ قدم پر چلنے
کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے گھروں کو
امن و سکون کا گہوارہ بنا دے۔آمین بجاہ النبی الامینﷺ
حضور
ﷺ کی اپنی ازواج سے محبت از بنت انصر علی،فیضان عائشہ صدیقہ کالیکی منڈی حافظ آباد
نبیِ اکرم ﷺ کی اپنی ازواج کے لیے محبت آپ کی زندگی کا ایک
خوبصورت پہلو ہے،جو آپ کی شفقت، مہربانی اور عقیدت کو ظاہر کرتا ہے۔ متعدد بیویوں
کے ساتھ آپ ﷺنے ہر ایک کے لیے منفرد محبت اور دیکھ بھال کا مظاہرہ کیا،اتحاد اور
ہم آہنگی کے احساس کو فروغ دیا۔آپﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا
نے آپ کے دل میں ایک خاص مقام حاصل کیا۔آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی حمایت اور
صحبت کو پسند کرتے،اکثر آپ کے مشورے کی تلاش میں رہتے اور آپ کے گزر جانے کے بعد
بھی آپ کوپیار سے یاد کرتے تھے۔
اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کی سب سے
چھوٹی اور پسندیدہ بیوی تھیں۔آپ نے ان کی ذہانت اور حکمت کی قدر کرتے ہوئے ان کے
ساتھ بات چیت کرنے میں گھنٹوں گزارے۔
رسول اللہ ﷺحضرت
سودہ رضی اللہ عنہا،حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا،حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اور حضرت
جویریہ رضی اللہ عنہا سے بھی محبت کرتے تھے، ان سب کی انفرادی قوتوں کی قدر کرتے
تھے۔ آپ نے ہر ایک کے ساتھ معیاری وقت گزارا، اُن سب کے تحفظات سنے اور مہربانی کا
مظاہرہ کیا۔
آپ ﷺ کی محبت صرف
رومانوی نہیں تھی بلکہ روحانی بھی تھی، انہیں اپنے مشن میں شراکت دار کے طور پر دیکھ
کر آپ نے اپنی ازواج کی رائے کی قدر کرتے
ہوئے ان سے مشورہ طلب کیا۔بدلے میں آپ کی بیویاں آپ سے محبت اور احترام کرتی تھیں،
چیلنجوں میں آپ کے ساتھ کھڑی تھیں۔کیونکہ آپ ان کا سہارا، سکون اور چٹان تھے۔
نبیِ اکرم ﷺ کی اپنی
ازواج سے محبت ہمیں اپنے رشتوں میں رحمدلی،ہمدردی اور احترام پیدا کرنے کی ترغیب دیتی
ہے۔آپ کی مثال پر عمل کرنے سے،ہم اپنے پیاروں کے ساتھ مضبوط اور زیادہ پیار بھرے رشتے بنا سکتی ہیں۔