ہمارے معاشرے میں بیوی کو بعض گھرانوں میں ایک نوکرانی کی حیثیت دی جاتی ہے ایسا نہیں ہے کہ ہر گھر میں ہی ایسا ہو اچھوں کی کمی نہیں ہے۔ مگر بعض گھرانے ایسے ہیں جہاں بیوی کو بہت نیچا محسوس کروایا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے گھر کے کام کاج، شوہر کی فرمانبرداری، ساس سسر نندوں وغیرہ سے حسن سلوک بیوی کی ذمہ داری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ بیوی کے بھی حقوق قرآن و حدیث میں بیان کیے گئے ہیں۔ جہاں دین اسلام نے نماز روزہ زکوۃ حج اور دیگر عبادات وغیرہ کا درس دیا  وہیں بندوں کے حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھنے کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ جس طرح شریعت مطہرہ نے بیوی پر مرد کے حقوق لازم کیے ہیں بالکل اسی طرح شوہر پر بھی بیوی کے حقوق لاگو فرمائے ہیں۔ جیسا کہ پارہ 2 سورۃ البقرہ آیت نمبر 228 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪-ترجمہ کنز الایمان: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔

اسی آیت کے متعلق تفسیر صراط الجنان میں ہے: اور عورتوں کے لیے بھی شریعت کے مطابق مردوں پر ایسے ہی حق ہے جیسا عورتوں پر ہے یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق پورے کرنا بھی لازم ہے۔

اسی طرح قران کریم میں ایک اور جگہ پارہ 4 سورۃ النساء آیت 19 میں ارشاد فرمایا: وَ  عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجمہ: اور تم عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔ علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: بیویوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے بات کرنا اور تمام امور میں ان کے ساتھ انصاف کرنا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ ہے۔

آج کل کے مردوں کو دیکھا گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ اور چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں بیوی کو گویا انسان سمجھتے ہی نہیں اور مارنے لگتے ہیں۔ گھر گندہ ہے، صفائی نہیں کی اور اپنی ضروریات کا مطالبہ کرنا وغیرہ جیسی باتوں پر،حالانکہ حدیث پاک میں ہے: تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے پھر دن کے آخر میں سے صحبت کرے گا۔ (بخاری، 3/465، حدیث: 5182)

بیوی بھی انسان ہے غلطی کس انسان سے نہیں ہوتی؟ مرد کو چاہیے کہ درگزر کرے، اپنے غصے پر قابو پائے، اور خود پر غور کرے کہ آیا وہ خود کیسا ہے؟ کیا بیوی کے تمام حقوق پورے ادا کر رہا ہے یا نہیں؟

میں نے دیکھا ہے اپنی آنکھوں سے، اور اپنے کانوں سے سنا ہے کہ مرد یہ کہہ کر کہ ”مرد تو کچھ بھی کرتا ہے“ بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ مرد تو کچھ بھی کرتا ہے؟ شریعت نے تو ہر ایک کے احکام بیان کیے ہیں۔اگر بیوی کو حکم ہے کہ: شوہر کی ہر بات مانے، اس کا ادب کرے،تو شوہر کو بھی حکم ہے کہ بیوی کی خواہشات کا، اس کے حقوق کا خاص خیال رکھے، اس پر بے جا ہاتھ مت اٹھائے اور اس کے ساتھ مخلص رہے۔ اس کے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔ حدیث پاک میں ہے: بے شک کامل ایمان والا وہ ہے جس کا خلق اچھا ہو اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔ (ترمذی، 5/475، حدیث: 3921)

مزید یہ کہ دیکھا گیا ہے کہ آج کل کے مرد اپنی بیویوں پر خرچ نہیں کرتے گھر کی ضروریات پر توجہ نہیں دیتے اور باہر کے لوگوں پر سخی بنے پھرتے ہیں۔ بیوی کسی چیز کا مطالبہ کرے یا گھر کی کسی ضرورت کا ذکر کرتی جائے تو رزق میں تنگی کی کہانیاں سنانے لگتے ہیں حالانکہ فضول و حرام کاموں میں خرچ کرتے نظر بھی آتے ہیں۔ ان کی بے جا سختی اور غصّے کی وجہ سے بیوی اور بچے اپنی خواہشات دبا لیتے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: بدترین انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں پر تنگی کرے۔ عرض کی گئی وہ کیسے تنگی کرتا ہے؟ ارشاد فرمایا: جب وہ گھر میں داخل ہوتا ہے تو بیوی ڈر جاتی ہے بچے بھاگ جاتے ہیں اور غلام سہم جاتے ہیں اور جب وہ گھر سے نکل جائے تو بیوی ہنسنے لگے اور دیگر گھر والے سکھ کا سانس لیں۔ (معجم اوسط، 6/287، حدیث: 7898 )

حالانکہ بیوی، بچوں اور گھر والوں پر خرچ کرنے کا احادیث پاک میں حکم ارشاد فرما گیا ہے، بیشمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، چنانچہ حدیث پاک ہے: اللہ کی رضا کے لیے تم جتنا بھی خرچ کرتے ہو اس کا اجر دیا جائے گا حتیٰ کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو (اس کا بھی اجر ملے گا)۔ (بخاری، 1/438، حدیث: 1295)

اسی طرح دیکھا جائے تو ساس کا بھی رویہ جیسا ہونا چاہئے، بدقسمتی سے ویسا ہوتا نہیں ہے۔بعض اوقات تو دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ساس کو بہو کا وجود ہی برداشت نہیں ہر چھوٹی چھوٹی بات پر کوستے رہنا، ڈانٹنا باتیں سنانا حتیٰ کہ بہو پر ہاتھ اٹھانا۔ جی ہاں! اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے ایسی بھی صورت۔

پہلے سارا سارا دن بہو سے الجھی رہتی ہیں اور اس بات کی دھمکیاں دیتی ہیں کہ آنے دو بیٹے کو آج تمہاری فلاں شکایت کروں گی اور پھر نند صاحبہ لگی آگ مزید بڑھکانے چلی آتی ہیں۔ پھر جیسے ہی شوہر گھر تشریف لاتا ہے دونوں ماں بیٹی بہو کے خلاف کان بھرنا شروع کردیتی ہیں اور بیوی جو سارا دن ساس کے طعنے سن سن کر اور کام کاج کر کر کے تھکن سے پہلے ہی نڈھال ہوئی ہوتی ہے، باقی رہتی کسر شوہر نکال دیتا ہے۔

ساس کو چاہیے کہ اپنی بہو کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرے جیسا اپنی بیٹی کے لئے پسند کرتی ہے۔ یقیناً ہر ماں ہی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میری بیٹی کو اچھا سسرال نصیب ہو۔ نندیں اچھی ہوں ساس پیار کرنے والی ملے، اگر اپنی بیٹی کیلئے ایسی خواہش رکھتی ہے تو دوسرے کی بیٹی کیلئے خود بھی ویسی بننے کی کوشش کرے۔ اسی طرح نندوں کو بھی چاہئے کہ یہ دیکھیں کہ وه بھی تو کسی گھر کی بہو ہیں۔ کیا خود کے ساتھ بھی ایسا سلوک پسند کرتی ہیں؟

حدیث پاک کا مفہوم ہے: لوگوں کے لئے بھی وہی پسند کرو، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہو اسے دوسروں کےلیےبھی ناپسند کرو، جب تم بولو تو اچھی بات کرو یا خاموش رہو۔ (مسند امام احمد، 8/ 266، حدیث: 22193)

اسلام تو خیرخواہی کا درس دیتا ہے، ہم مسلمان ہیں اور ہمارا دین ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی کرنے کا درس دیتا ہے۔ بعض احادیث میں تو یہاں تک فرمایا گیا کہ جب تک مسلمان دوسرے مسلمان کیلئے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے تب تک وہ کامل مومن ہی نہیں ہوسکتا جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہے۔ (بخاری، 1/16، حدیث: 13)

اللہ کے نبی ﷺ نے بتایا ہے کہ کسی شخص کو ایمان کامل کی دولت اس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتی، جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی دین اور دنیا کی وہی چیزیں پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہو اور اس کے لیے انہی چیزوں کو ناپسند نہ کرے، جنہیں اپنے لیے ناپسند کرتا ہو۔ اگر اپنے بھائی کے اندر دین کی کوئی کمی دیکھے، تو اس کی اصلاح کی کوشش کرے اور کوئی اچھائی دیکھے تو اسے اور جلا دے اور اس میں مدد کرے۔ دین اور دنیا سے متعلق تمام امور میں اس کی خیرخواہی کرے۔

اگر بہو میں کوئی ایسی بات ہو جو ساس یا نند وغیرہ کو ناگوار گزرتی ہو، تو پیار اور محبّت سے سمجھا دیں۔ اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں، ساس کو چاہیے کہ بہو کے ساتھ بھی بیٹیوں کا سا سلوک کرے۔حسن سلوک سے ہر کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔

ہمارا کوئی تو عمل ایسا ہو جو قیامت کے دن ہماری نجات کا ذریعہ بن جائے۔ بلاشبہ قیامت کے دن نجات الله تبارک و تعالیٰ کی خاص رحمت اور حضورﷺ کی شفاعت سے ہی نصیب ہونی ہے۔

اللہ ہمیں اپنی اطاعت کرنے کی اور ہر ہر احکام پر استقامت سے عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے راضی ہو جائیں۔ آمین


فرمان مصطفیٰ ﷺ: تم میں سے بہتریں وہ ہے جو  اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہترین ہے اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے اچھا ہوں۔ (ترمذی، 5/475، حدیث: 3921)

آج کل دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سی خرابیوں کی طرح خاندانی نظام میں بگاڑ آگیا ہے کسی کی اپنی بہن سے نہیں بن رہی تو کسی کی اپنے بھائی سے کوئی کسی وجہ سے کسی سے نہیں مل رہا تو کوئی کسی وجہ سے تو کسی کے سسرالی معاملات میں بگاڑ ہے، ایک عورت جب شادی ہو کر دوسرے گھر جاتی ہے تو اسکا تعلق مختلف رشتوں سے ہوتا ہے اسے چاہیے ان رشتوں کو وہی عزت و محبت دے جو وہ اپنے گھر میں اپنے گھر والوں کو دیتی ہے اور اسکے سسرال والوں کو بھی چاہیے اسے وہی عزت محبت پیار دیں جو وہ اپنی بیٹی کو دیتے ہیں اسے بھی اپنی بیٹی سمجھیں لیکن معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔

ساس کے جو معاملات اور رویہ اپنی بہو کے ساتھ ہوتا ہے وہ نہایت ہی قابل مذمت ہوتا ہے وہ اپنی بیٹی اور بہو میں واضح فرق کرتے ہیں معاشرے میں موجود ایک بہت بڑی بڑائی ساس کا بہو کے ساتھ نامناسب رویہ ہے بہت سے واقعات ایسے ہیں جن میں ساس کا بہو کے ساتھ نامناسب رویہ دیکھنے کو ملتا ہے عموماً ساسیں محدود ذہنیت اور اناپرستی کا مظاہرہ کرتی ہیں جن کے باعث بہوؤں سے ان کی تکرار ہوتی رہتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بسا بسایا گھراجڑ جاتا ہے ساس کا بہو اور بیٹی میں فرق کرنا قابل مذمت ہے اسی طرح بہو کا اپنی ماں کی عزت کرنا اور شوہر کی ماں کی عزت نہ کرنا بہت بری بات ہے۔

اسلام ایسی نا انصافی کی اجازت نہ ماں کو دیتا ہے نہ بہو کو دیتا ہے ایسی ساسوں کو چاہیے کہ بہو کو گھر کی نوکرانی مت سمجھیں بیٹی کی بڑی سے بڑی غلطی نظرانداز کردی جائے اور اگر بہو نے چھوٹی سے کوئی غلطی کر دی تو اسے اندھی اور نکمی ہونے کا طعنہ دیا جائے طنز کے تیر پھیکے جائیں بہو کے ہاں بچے کی ولادت پر ساس کہتی ہے ہمارے بھی بچے ہوئے ہم نے دو دن سے زیادہ آرام نہیں کیا آج کل کی لڑکیاں کام چور ہوگئی ہیں اس موقع پر ساس کو سوچنا چاہیے کہ جو سلوک میں اپنی بہو کے ساتھ اس کی اس حالت میں کر رہی ہوں اگر یہ سب میری بیٹی کے ساتھ ہو تو کیا میں برداشت کرلوں گی؟

اگر بہو ناراض ہو کر میکے چلی جائے تو اس کا قصور وار بہو کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے اس بات کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی کہ واقعی بہو کا کوئی قصور ہے بھی یا نہیں؟ اسکی کوئی غلطی ہے بھی یا نہیں؟ اس موقع پر ساس یہ کیوں نہیں سوچتی کہ میرا بیٹا بھی اسی طرح بہو کا خیال رکھے جس طرح میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی کا خیال رکھا جائے لمحہ فکریہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں یہ دراصل ہماری زندگی میں لگنے والے زخم ہوتے ہیں جن سے ہمیں ہلکی سی جلن ہوتی ہے اگر ہم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں تو یہ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے لیکن ہم انہیں کریدتے ہیں عورت اپنی ساس کی برائی شوہر سے کرتی ہے ساس بہو کی برائی کرتی رہے تو یہ باتیں دل میں بیٹھ جاتی ہیں۔

ساس کو چاہیے اپنی بہو کے ساتھ اچھا سلوک کرے اسکو گھر کی نوکرانی تصور نہ کرے اس کی غلط باتوں کو جہاں تک ممکن ہو نظرانداز کرے حسن تدبیر سے کام لیں اور بہو کو بھی چاہیے کہ اگر ساس کسی بات پر ڈانٹ دے غصہ کر دیں تو یہ سوچ کر صبر کر لے اور جواب نہ دیں کہ اگر اس جگہ میری ماں ہوتی تو میرا کیا عمل ہوتا؟ دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے حقوق کے معاملے میں اللہ پاک سے ڈرتی رہیں صبر و برداشت اور درگز سے کام لیں۔ بہرحال اگر ہم زندگی کو خوشحال بنانا چاہتی ہیں اور اگر چاہتی ہیں کہ ہماری زندگی دوسروں کے لیے آئیڈیل بن جائے تو آپس میں خوب محبت سے رہیں ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔

اگر ساس بہو آپس میں ایک دوسرے کی محبت کو کم ہوتا دیکھیں تو اس کے لیے خوب دعا کریں اگر ساس بہو ان باتوں کو اپنا لیں گی اور ان اصولوں کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنے کا ارادہ کرلیں تو الله کے کرم سے دنیا ور آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں گی اور اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے والی بن جائیں گی۔

الله سے دعا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو احسن انداز سے سمجھنے والا ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والا بنا دے اور ساس اور بہو کو نرم گفتگو کرنے اور اچھے طریقے سے پیش آنے کی توفیق عطا فرما۔

جب ایک لڑکی شادی کے بعد سسرال جاتی ہے تو اس پر بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں اسے اس نئے ماحول میں ڈھلنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے لیکن بعض جگہ اتنی زیادہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں کہ اسے یہ وقت بہت کم ملتا ہے جس کے باعث وہ تمام ذمہ داریوں کو بخوبی انجام نہیں دے پاتی لیکن اس میں زیادہ بڑا کردار سسرال والوں کو ادا کرنا چاہیے کہ وہ اس کے ہر غلطی کو نظر انداز کریں اور اس کو سمجھانے کی کوشش کریں اور اس سے محبت اور ہمدردی کا رویہ رکھیں تاکہ اس کو اس ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں آسانی ہو اور وہ ہر کام اپنے سسرال والوں کی مرضی کے مطابق کرنے کے قابل ہو سکے۔

نئی آنے والی لڑکی پر جب بلاوجہ اور بے جا تنقید کی جاتی ہے تو اسے اپنی جگہ بنانے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو وہ باسانی کچھ عرصے میں سسرال والوں کی عادتوں کو سمجھ کر ان کے مطابق کام کرنے کے قابل ہو سکتی ہے لیکن یہ بےجا تنقید،طنز یہ رویہ ساری چیزیں اس کو ایڈجسٹ ہونے کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں اس میں زیادہ بڑا کردار ساس اور غیر شادی شدہ نند ہیں اگر ساتھ میں موجود ہیں یا اگر شادی شدہ بھی ہیں تو زیادہ ترکردار انہیں لوگوں کا ہوتا ہے اگر وہ اس کے ساتھ تعاون کریں اور محبت سے پیش آئیں تو شاید نتیجہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔

شادی کے کچھ عرصے بعد ہی تمام ذمہ داریاں بہو پر ڈال دی جاتی ہیں حالانکہ بہو کے آنے سے پہلے بھی تو یہ سارے کام ہو رہے ہوتے ہیں تو اب ایک دم ساری ذمہ داریاں بہو پر ڈال دینا مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے آپ کے گھر کے طریقے سمجھنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے آپ اس کو آہستہ آہستہ اگر ذمہ داری دیں تو شاید وہ یہ سارے کام بخوبی کر سکے اور اسے یہ کام بوجھ بھی محسوس نہیں ہوں گے لیکن ایک دم ساری ذمہ داریاں ڈال دینا اور پھر اس پر طنز کرنا، اس کا مذاق اڑانا یہ غیر مناسب رویہ ہے اور پھر اس کے آنے سے پہلے جب نندیں اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہوتی ہیں جو جو کام وہ کر رہی ہوتی ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ بہو کے ساتھ یہ سارے کام کروائیں اور وہ ایک دم سارے کام چھوڑ کر نہ بیٹھیں تاکہ بہو کے دل میں بھی نندوں کے لیے جگہ پیدا ہو اور اس کو کام سمجھنے میں بھی آسانی ہو۔

لیکن ساس، بہو کو لا کر یہ سمجھتی ہیں کہ اب پورے گھر کے کام کی ذمہ داری صرف بہو پر ہے اور اس سے اگر کوئی غلطی ہو گئی تو یہ برداشت نہیں ہوتاغلطی کی گنجائش تو کوئی ہوتی ہی نہیں ہے لہذا وہ کوئی غلطی کر ہی نہیں سکتی ہے اور اگر کر دی تو پھر اس کی شکایتیں اس کے شوہر سے کرنا اس کا مذاق اڑانا اس پر طنز کرنا کہ تم اپنے گھر سے کچھ سیکھ کر نہیں آئیں یہ ساری باتیں بہو کے دل میں ساس کی برائی پیدا کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے گھر کا ماحول بھی خراب ہوتا ہے اس کے بجائے ساس بہو کے ساتھ مل کر کام کروائے اور جو شادی شدہ نندیں ہیں اگر مہمان آتی ہیں ان سے بھی کہے کہ تم بہو کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹاؤ مہمان بن کر نہ بیٹھو اور جو گھر میں غیر شادی شدہ نندیں ہیں اگر موجود ہیں تو وہ بھی اس کا ساتھ دیں اور ہر کام میں اس کی رہنمائی کریں کیونکہ ہر گھر کا ماحول، کام کرنے کا وقت، کام کرنے کا طریقہ الگ الگ ہوتا ہے۔

لڑکی جب دوسرے گھر جاتی ہے تو وہاں کے طریقے سے کھانا پکانا، وہاں کے وقت پہ کھانا پکانا اور دوسرے کام کا جو وقت ہے ان کو اسی وقت پر ادا کرنا ان سب چیزوں کے لیے اسے وقت درکار ہوتا ہے ان سب کاموں کو سمجھنے کے لیے اسے جو وقت درکار ہوتا ہے ساس کو چاہیے کہ وہ اس کو وہ وقت دیں وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس گھر میں آتی ہے تو ان لوگوں کی یادیں بھی اس کے ذہن میں ہوتی ہیں وہ اگر آپ کے ساتھ کام کر رہی ہے تو اس کے دل میں اپنے گھر کی یادیں بھی موجود ہیں اس کے ان جذبات کا بھی خیال رکھا جائے کیونکہ اس کو ابھی اپنا گھر چھوڑے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کے دل میں ابھی اپنے گھر کی یادیں موجود ہیں جو کہ ہر وقت اس کے ذہن میں رہتی ہیں اگر یہاں اس کو محبت بھرا رویہ نہیں ملے گا تو وہ اپنے میکے کو ہی ترجیح دے گی اور وہاں جانے کے لیے اس کا دل چاہے گا۔

سسرال والوں کو چاہیے کہ اس کے میکے جانے کا بھی خیال رکھیں اور ایسے وقت میں کہ جب اسے اپنے میکے جانا ہو کوئی کام یا کوئی ذمہ داری اس کو نہ دیں کیونکہ گھر کے کام کرنا یا ذمہ داری اٹھانا گھر والوں کی سسرال والوں کی ذمہ داری اٹھانا بہو کی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے کیونکہ ہمارا مذہب بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ عورت گھر کے سارے کام کرنے کے ساتھ ساتھ سسرال والوں کی ذمہ داری بھی اٹھائے عورت کو پکا پکایا کھانا فراہم کرنا اس کے شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس پر یہ ذمہ داری نہیں ہوتی اور وہ اس چیز کی پابند نہیں ہے کہ وہ اپنے ساس یا نندوں یا سسر کو یا دیور جیٹھ جو بھی گھر میں موجود ہیں ان کے آرام کا خیال رکھے اور ہر طرح کے ان کے کام کرے اور ان کو کھانا پکا کر فراہم کرے یہ عورت کی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے یہ ایک بہو کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ تو اس گھر میں رہنے والے لوگوں کی ہی ذمہ داری ہے اگر وہ آپ کے ساتھ کام کروا لیتی ہے اپنی ساس کے ساتھ یا اپنی نند کے ساتھ کچن کے کاموں میں یا گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی ہے تو یہ اس کی خوش اخلاقی ہے ذمہ داری نہیں ہے۔

لیکن ہمارے ہاں بہو کو شادی کے بعد گھر کی نوکرانی سمجھا جاتا ہے اور اس پر گھر کے تمام کام اس کے ذمے لگا دیئے جاتے ہیں اور پھر اس میں نقص نکالے جاتے ہیں کسی کا مذاق اڑانا اس کے کام میں نقص نکالنا تو ہمارے مذہب میں ویسے بھی منع ہے اور پھر بہو آپ کے گھر کا فرد ہے آپ کے گھر کی عزت ہے جب آپ اس کے ساتھ یہ رویہ رکھیں گی اس کے کاموں میں نقص نکالیں گی اور اس سے محبت کا رویہ نہیں رکھیں گی تو اس کے دل میں کس طرح ساس یا نند کے لیے جگہ پیدا ہوگی۔

کچھ عرصے بعد جب وہ اولاد کی نعمت حاصل کر لیتی ہے تو اس کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں سسرال والوں کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا اور وہ اس کو اسی طرح نوکرانی سمجھتے ہیں جبکہ اس وقت میں اس کے بچے کو اس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جبکہ سسرال والے اس سے اسی طرح کام کی اور اسی طرح تمام باتوں کی توقع کرتے ہیں جس طرح وہ بچے کی پیدائش سے پہلے کرتی تھی حالانکہ اب اسے اپنے بچے کو بھی وقت دینا ہوتا ہے لہذا ذمہ داریوں میں گھر کے کاموں میں وہ اس طرح سے ہاتھ نہیں بٹا سکتی اس طرح سے ادا نہیں کر سکتی جس طرح وہ پہلے کرتی تھی۔

لہذا اس موقع پر بھی سسرال والوں کو اس کے ساتھ مناسب رویہ رکھتے ہوئے اس کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ اب خود اسے بھی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے مناسب غذا کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اسے ایک بچے کی پرورش کرنی ہوتی ہے اگر سسرال والے اس کے ساتھ بہتر رویہ رکھیں گے تو وہ اپنے بچے کی بہتر پرورش کر سکے گی کیونکہ بچے کی پیدائش کے بعد راتوں کو جاگنا پڑتا ہے کیونکہ اکثر بچے رات میں تنگ کرتے ہیں تو وہ وقت پر گھر کے کام ادا نہیں کر سکتی لیکن سسرال والے اس سے اسی وقت پر اور اسی انداز میں کام کی جو توقع کرتے ہیں وہ انہیں نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس وقت اس کا خیال رکھنا چاہیے۔

ہر لڑکی کے کاندھوں پر نہ صرف سسرال والوں کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں بلکہ اس کے لیے اس کے والدین اس کے بہن بھائی وہ سب بھی اس کے ذہن میں رہتے ہیں اور ان کی پریشانیاں ان کے مسئلے مسائل ان سب کی بھی اس کو فکر ہوتی ہے ہر لڑکی کے ذہن میں اپنے میکے والوں کی بھی فکر ہوتی ہے اپنے سسرال والوں کی بھی فکر ہوتی ہے کہ ان کو کوئی بات بری نہ لگ جائے ان کو ہر وقت ہر کام وقت پر چاہیے اپنے شوہر کی بھی فکر ہوتی ہے کہ کہیں ان سب کی ذمہ داریوں میں وہ اپنے شوہر کو نظر انداز نہ کر دے اسے اس کے بھی ہر کام کا خیال رکھنا پڑتا ہے اس کی ہر طرح کی مرضی اور خوشی کا خیال رکھنا پڑتا ہے ناراضگی کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور پھر اولاد کی بھی ہر خوشی اور ناراضگی اور تمام ذمہ داریوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔

لہذا ہر لڑکی کے کاندھوں پر شادی کے بعد یہ ساری ذمہ داریاں اور ان سب کی فکر لاحق ہوتی ہیں اور وہ ہر لمحہ ان سب کو خوش کرنے میں لگی رہتی ہے اگر اولاد کو کوئی تکلیف ہے طبیعت خراب ہے تو وہ ذہنی اذیت سے گزر رہی ہوتی ہے ساتھ میں لوگوں کے طعنےبھی سن رہی ہوتی ہے کہ اولاد کا خیال نہیں رکھا جاتا کس طرح لاپرواہی ہو گئی،اگر شوہر کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے تو اسے اس کی بھی ساری ذمہ داریاں اٹھانی ہوتی ہیں اور اس بارے میں بھی اس کو ہر طرح سے فکر لاحق ہوتی ہے اگر اس کے والدین میں سے کسی کو کوئی پریشانی ہے تو ان سب کا بھی اس کو خیال رکھنا پڑتا ہے اپنے بہن بھائیوں کی بھی ہر تکلیف کا،ہر خوشی کا اس کو خیال رکھنا پڑتا ہے۔

اور ساتھ ساتھ سسرال والوں کی بھی ہر خوشی اور تکلیف کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ساس سسر کو یا نندوں کو اس کی جب جب ضرورت ہے وہ ہر وقت ان کے کام کر سکے حالانکہ جب ان کی اپنی بیٹی سسرال میں یہی سارے کام انجام دے رہی ہوتی ہے تو وہ اس کے سسرال والوں کو بہت برا سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہماری بیٹی کے ساتھ یہ ظلم ہو رہا ہے اور ہماری بیٹی کو نوکر بنا کر رکھا گیا ہے جب کہ وہ اپنے بہو کے ساتھ بھی یہی سارے کام کر رہے ہوتے ہیں تو انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ہم کسی دوسرے کے ساتھ بھی یہی سب کچھ کر رہے ہیں تو ہماری بیٹی کو بھی یہی سب برداشت کرنا پڑے گا ان سب باتوں سے آنکھیں بند کیے اپنی بہو کو نوکروں کی طرح سے ہر طرح کی ذمہ داری دینا مناسب نہیں ہے۔ ہمیں اپنے پیارے نبی ﷺ کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے کہ تم دوسرے کے لیے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔

تو جب ہم اپنی بیٹی کے لیے اس طرح کی ذمہ داریاں اور یہ سارے کام پسند نہیں کرتے تو پھر ہم دوسرے کی بیٹی پر یہ سارے کام اور یہ ذمہ داریاں کیوں ڈالتے ہیں اور پھر اس پر بلاوجہ تنقید بھی کرتے ہیں اور نہ صرف اس پر بلکہ اس کے میکے والوں پر بھی تنقید کی جاتی ہے اور ان کو اس طرح سے باتیں سنائی جاتی ہیں جیسے وہ بہت ہی گئے گزرے لوگ ہیں اور انہوں نے اپنی بیٹی کی پرورش صحیح نہیں کی ہے ان سب باتوں کا اثر جب لڑکی کے دل پر ہوتا ہے اور وہ سنتی ہے تو اس کے دل میں یہ ساری باتیں سننے کے بعد کیا گزرتی ہوگی یہ کبھی کوئی نہیں سوچتا یہ حضور ﷺ اس فرمان کی بھی نافرمانی ہے کہ آپ کسی کا دل نہ دکھائیں اسی طرح اللہ تعالیٰ سورہ حجرات میں فرماتا ہے کہ آپ کسی پر طعنہ زنی نہ کریں کسی کو برے القاب سے نہ پکاریں جبکہ سسرال والےبہو کو ہر طرح کے طعنے اور برے القابات سے نوازتے ہیں۔

ان ساری باتوں کے بعد جب گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار بھی بہو ہی ٹھہرائی جاتی ہے کہ اس کے آنے کی وجہ سے ہمارے گھر کا ماحول خراب ہوا ہے اپنی غلطیوں پر نظر نہیں رکھی جاتی کہ ہم بہو کے ساتھ کیا رویہ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ سب ماحول خراب ہوا ہے لہذا اپنی تمام عادتوں پر اپنے تمام باتوں پر اپنے ہر رویے پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے جب ہی گھر کا ماحول بہتر ہو سکتا ہے بہو کو نوکرانی بنا کر گھر کا ماحول بہتر نہیں ہو سکتا بہو کی بھی خوشی کا،اس کے ہر تکلیف کا خیال رکھا جانا ضروری ہے جب تک سسرال والے اس کی خوشی کا اس کی ہر تکلیف کا خیال نہیں رکھیں گے گھر کا ماحول صحیح نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ ان تمام چیزوں کی حقدار ہے وہ اپنا گھر چھوڑ کر جب اس گھر میں آئی ہے تو اس گھر پر اور اس گھر کی خوشیوں پر اور یہاں سکون سے رہنے پر اس کا پورا حق ہے اور یہ حق اس کو فراہم کرنا سسرال والوں کی ذمہ داری ہے اگر سسرال والے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے ہیں تو وہ کس طرح بہو سے اچھے رویے اور اچھائی کی توقع کر سکتے ہیں۔


مبارک ہو! مبارک ہو! کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، یہ کونسی خوشی ہے؟ باپ سے کہا جاتا ہے: مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے، گھر میں عید کا سماں خوشیاں ہی خوشیاں۔ سعادت مند باپ پوری زندگی اپنا پیٹ کاٹنا پڑے اسکے باوجود اپنی بیٹی کے ناز اٹھاتا ہے، اس کو آنکھوں پر بٹھاتا ہے، اسکی خواہشات پوری کرتا ہے، ایک وہ دن آتا ہے کہ بچی جوان ہوجاتی ہے باپ کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ بیٹی کا رشتہ کیسا ملے گا، سسرال والے کیسے ہوں گے، آخر کار باپ سوچھ سمجھ کر جانچ پڑتال کرکے بیٹی کو بیاہ دیتا ہے۔

لیکن افسوس! بعض اوقات اسی بیٹی کے ساتھ سسرال میں انتہائی برا برتاؤ کیا جاتا ہے۔

وہی بیٹی جس کو ناز و محبت سے پالا گیا آج وہ محبتوں کے ملنے کی منتظر رہتی ہے۔ بعض اوقات ساس بہو کے ساتھ برا رویہ اختیار کرتی ہے، اس سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی، اسکے اتنے کام کرنے کے باوجود کاموں میں تنقیدیں کرتی ہے، اس بہو کے دل کو طعنوں کے تیر سے چھلنی کرتی ہے، وہ نہیں سوچتی کہ اگر اسکی جگہ میری بیٹی ہوتی اور اسکے ساتھ سسرال میں ایسا رویہ اختیار کیا جاتا تو بیٹی کی حالت دیکھ کر میرا کیا حال ہوتا، بلکہ بعض اوقات سسرال والے بہو کو منحوس سمجھتے ہیں اگر بالفرض بہو کے گھر آنے کے بعد گھر مین میت ہو جائے یا کوئی نقصان ہو جائے تو بہو کو منحوس سمجھتے ہیں۔ حالانکہ بدشگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مستحب ہے۔ مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اسلام میں نیک فال لینا جائز ہے، بدفالی بدشگونی لینا حرام ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 286)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے بدشگونی لی اور جس کے لیے بدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 285، 286)

ساس سسر کو چاہیے کہ بہو کو بہو نہیں بلکہ بیٹی سمجھیں۔جس طرح وہ اپنی بیٹیوں کی غلطیوں سے درگزر کرتے ہیں اپنی بہو کی چھوٹی بڑی غلطیوں سے بھی درگزر کریں۔ بہو کو نوکرانی نہ سمجھیں یہ بات نہ بھولیں کہ آپ اپنے گھر میں ایک فرد کو بیاہ کر لائیں ہیں نہ کہ اپنے گھر نوکرانی لائے ہیں۔ بہو بھی ایک انسان ہے اس کو بھی آرام کرنے دیں، اسکے ساتھ کام کاج میں ہاتھ بٹائیں۔

بہو بیمار ہوتو اس سے کام نہ کروائیں۔ سارے گھر کا کام بہو پر نہ ڈال دیں بلکہ اس کی ہمت، طاقت، صحت کا بھی خیال رکھیں۔ اس کے ساتھ جھڑکنے والا، گھورنے والا انداز، نیز اسکو حقیر سمجھنے والا انداز نہ اپنائیں جس طرح عموما نوکروں کے ساتھ اپنایا جاتا ہے۔ بلکہ محبت و شفقت بھرا لہجہ ہو، انداز بھی پیار والا ہو۔ اگر تمام سسرال والے بہو کا ساتھ دینا شروع کردیں تو پھر کیوں بہو ساس کے آگے زبان چلائے گی؟ پھر کیوں بہو کسی کام کا منع کرے گی؟ بلکہ وہ خود آگے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ کام کرے گی۔

ہاں ضروری نہیں ہر جگہ ساس ظالم ہو یہ ضروری نہیں بلکہ بعض اوقات بہو اپنی ساس پر ظلم کرتی ہے۔ بہو بھی اگر اپنی ساس کو سانس بنالے تو گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ اللہ کرے دل میں اتر جائے میری بات!

اللہ تعالیٰ ہمیں مسلمانوں کا خیر خواہ بنائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


گھر کا سکون جن چیزوں سے وابستہ ہے ان میں سے ایک جھگڑے سے بچنا بھی ہے چنانچہ جس گھر میں ساس بہو سے لڑتی ہے اس گھر میں امن و سکون کی فضا قائم ہونے کی وجہ ٹینشن کی کیفیت دکھائی دیتی ہے نہ جانے کون سا پردہ پڑ جاتا ہے کہ انہیں اپنے عزت و وقار کا احساس رہتا ہے نہ سامنے والے کی عزت کا لہذا انہیں چاہیے کہ اتفاق اور محبت کے ساتھ گھر کو چلائیں تاکہ گھر میں امن سکون برپا ہو، ہر شخص کا مزاج الگ ہوتا ہے مثلا کسی کو سالن میں تیز مرچ اچھی لگتی ہے تو کسی کو ہلکی دوسروں کو اپنے مزاج کا پابند نہ بنائیں درمیانہ راستہ نکالنا ہی دانشمندی ہے۔

غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں بہو اگر سالن بنائے تو اس میں بھی نقص نکالے جاتے ہیں کہ آج مرچ زیادہ ہے یا کم ہے یا نمک زیادہ ہے یا کم ہے تو لہذا یہ نقص نہیں نکالنے چاہیے ظاہر ہے غلطی کس سے نہیں ہوتی خود ہی پر غورکر لیجئے اپنی بڑی غلطی پر ہلکی سی معذرت کر لینا اور دوسروں کی چھوٹی غلطی پر پاؤں پکڑ کر زمین پر ناک رگڑ کر معافی مانگنے کا تقاضا کرنا جھگڑے کا راستہ کھولتا ہے ہر معاملے میں اپنی من مانی کرنا دوسروں کو تنگی میں مبتلا کرنے والی بات ہے دوسروں کی بھی سنیں پھر اس کے فائدے دیکھیں ہر بات میں حکم چلانا آج یہ پکا لو یہاں نہیں جانا آج وہاں نہیں جانا ہر چیز میں نقص نکالنا اچھی عادت نہیں ہوتی۔

محترم اسلامی بہنو! آپس میں صلح اور پیار محبت کے ساتھ رہنے میں فائدہ ہے جب کہ جھگڑے میں نقصان تو ہمیں ایسا کچھ کرنا چاہیے کہ جھگڑے کی نوبت ہی نہ آئے۔ جھگڑا چھوڑنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے اس کے لیے جنت کے بیچ میں گھر بنایا جائے گا۔ (ترمذی، 3/400، حدیث: 2000)

ساری زندگی ساس سسر اپنی بیٹی کے وکیل رہتے ہیں اور اپنی بہو کے جج بنے رہتے ہیں اس کے لیے فیصلے سناتے ہیں اور اپنی بیٹی کے وکیل بن کے رہتے ہیں اس کی وکالت کرتے ہیں کہ ابھی بچی ہے سیکھتے سیکھتے سیکھ جائے گی مسلمانوں کا یہ اخلاقی رویہ نہیں ہونا چاہیے نبی پاک ﷺ نے ہمیں سبق دیا ہے کہ جو قریب رہنے والے ہیں انہیں ہی تو معاف کرنا ہے دوسروں کو تو معاف کرنا ہی نہیں پڑتا معافی تو اپنوں کو دی جاتی ہے بعضوں کی تو عادت ہوتی ہے یہ بات بات پر بہو کو جاہل قرار دیتے ہیں کہ تمہیں تو کچھ پتہ ہی نہیں اگر کوئی سادہ بن کر رہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ وہ جاہل ہے ہر بات پر ساس اپنی بہو کی دل آزاری طنز طعنے تہمت لگانا ہر چیز میں عیب نکالنا گالی گلوچ کرنا ہاتھا پائی خدا کی پناہ کیا کچھ نہیں ہوتا لہذا انہیں چاہیے کہ امن سکون سے گھر چلائیں۔

اور اگر مرد اپنی بیوی کا ساتھ دے تو گھر والے کہتے ہیں کہ اس نے ہمارے بیٹے پر جادو ٹونا کر دیا ہے یاد رہے کہ بلا ثبوت شرعی کسی کے بارے میں بدگمانی کرنا جائز نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (پ26،الحجرات: 12) ترجمہ: اے ایمان والو! بہت گمانوں سے بچو بے شک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے۔ جھگڑالو شخص کی مذمت کرتے ہوئے مدنی تاجدار ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ کو لوگوں میں سب سے ناپسندیدہ وہ لوگ ہیں جو شدید جھگڑالو ہیں۔ (بخاری، 2/130، حدیث: 2457)

لہذا ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے بلکہ بہو کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے کیونکہ وہ اپنا گھر بار ماں باپ بہن بھائی سب کو چھوڑ کر ان کی خدمت کے لیے آتی ہے انہیں چاہیے کہ بہو کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں اور اس کے احسانات کو تسلیم کریں اور اس کے دل جوئی کے لیے اس سے دعاؤں سے نوازے کہ تم گھر کو سنبھالتی ہو میرے کھانے پینے پہننے کا خیال رکھتی ہو گھر کی صفائی بھی کرتی ہو اللہ تمہیں اس کا عظیم ثواب عطا فرمائے ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھیے ان شاء اللہ گھر خوشیوں کا گلشن بن جائے گا۔

اللہ تعالیٰ ہمارے گھروں کو امن کا گہوارہ بنائے۔ آمین


آج کل بہوؤں پر اس قدر ظلم کیا جارہا ہے کہ انہیں خودکشی جیسے سنگین اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ موجودہ بہوؤں کے لیے سسرال نہ صرف غیر محفوظ بلکہ وبال جان بنتا جارہا ہے۔اس طرح کے انسانیت سوز واقعات نے ہم سب کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ آخر یہ معاشرہ عورتوں کے لیے کیوں خطرہ بنتا جارہا ہے؟ بہوؤں کے تئیں سسرال والوں کا منفی رویہ کیوں بڑھتا جا رہا ہے؟ آجکل کا معاشرہ بیٹی اور بہو کو یکساں مقام کیوں دینے میں ناکام کیوں ہوتا جا رہا ہے۔؟ اس دوغلے پن اور دہرے معیار کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں، جو ہر ذی شعور انسان کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

عورت اس دنیا میں کتنے کردار نبھاتی ہے۔ کبھی بہن کا کردار ادا کر کے اپنے بھائی کا فخر ہوتی ہے۔ قدم قدم پر اپنے بھائی کا ساتھ دیتی ہے۔ یہی عورت جب بیٹی کا کردار نبھاتی ہے تو اپنے باپ کا سہارا بنتی ہے جب سب لوگ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں وربیٹے باپ کی دولت کو لیکر لڑ رہے ہوتے ہیں تو بیٹی اس وقت بھی باپ کے شانہ بشانہ کھڑی رہتی ہے۔ جب ماں بنتی ہے تو اپنے بچوں کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ اپنا چین سکون سب کچھ اپنے بچوں پر قربان کر دیتی ہے۔

یہی عورت جب بیوی کا کردار نبھاتی ہے تو اپنے شوہر کے لیے اپنے بھائی بہن ماں باپ اپنا گھر سب کچھ چھوڑ دیتی ہے۔ اپنے شوہر کا دکھ سکھ بانٹتی ہے۔ دن بھر گھر کا کام کرتی ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے لیکن افسوس یہ شوہر اس سب کے بدلے میں بیوی سے مسکراتے ہوئے بات بھی نہیں کرتا۔ اس سب کے بدلے میں بیوی کے لیے شاباشی کا ایک لفظ بھی کسی بڑے تحفے سے کم نہیں تھا۔ عورت کے بھی جذبات ہیں۔ اس کی بھی اپنی خواہشیں ہیں، تمنائیں ہیں، ہمیں ان کے جذبات خواہشوں اور تمناؤں کی قدر کرنی چاہئے۔

شوہر کو چاہیے کہ مناسب رویہ اختیار کرے جہاں اسے لگے کہ اسکی بیوی اس کے ماں باپ سے زیادتی کرتی ہے وہاں ماں باپ کا ساتھ دینا چاہئے اور جہاں لگے کہ اس کے والدین یا بھائی بہنیں اس کی بیوی سے زیادتی کر رہے ہیں۔ وہاں اپنی بیوی کا ساتھ دینا چاہیے۔ بیوی کی ہر بات اطمینان سے سننی چاہئے کیونکہ شوہر کے سوا بیوی کا کوئی نہیں ہوتا ہے جس سے وہ راز کی باتیں کہہ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرے تاکہ معاشرے میں ایک طرح کا توازن بنا رہے کیونکہ میاں بیوی معاشرے کی گاڑی کے دو پہئے ہیں۔

سسرال والے بہو لاتے وقت بلند بانگ دعوے کرتے ہیں کہ وہ بہو کو بیٹی کا درجہ دیں گے لیکن بہو کو گھر پہنچا کر ہی ان کے تیور بدل جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بہو نہیں بلکہ ایک نوکرانی کو گھر لایا ہے۔ اس سے ہر قسم کی خدمت کرنے کی امید لگائی جا رہی ہے۔ شوہر بھی یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے ماں باپ کے لیے نوکرانی لائی ہے۔ جب کہ وہ یہ نہیں سمجھتا ہے کہ ماں باپ کی خدمت کرنا اس کا حق ہے نہ کہ اس کی بیوی کا۔ بہو جب تک صحت یاب ہوگی سسرال میں رہ سکتی ہے لیکن تھوڑی سی صحت کیا بگڑ گئی اسے میکے والوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔اگر بیٹی کوئی غلطی کر دے تو معاشرہ اسے معاف کر دیتا ہے لیکن اگر بہو سے غلطی ہو جائے تو اس پر بوال کھڑا کر دیا جاتا ہے

ہمیں اس دوغلے پن سے باہر آنا ہو گا۔ اتناہی نہیں عورتوں کو گھریلو تشدد اور جنسی زیادتی کا شکار بھی بنایا جا رہا ہے جو نہایت ہی افسوسناک امر ہے۔ ہم سب کو سمجھنا چاہئے کہ عورت محض کام کرنے والی یا بچہ جننے والی مشین نہیں ہے کہ مرد اس سے اپنی خدمت کروائے اور اس سے جنسی لذت حاصل کرے۔ بلکہ عورت سے یہ دنیا آگے بڑھتی ہے۔ بہو کو بہو کا مقام دیا جائے کچھ عورتیں شادی کے نام پر ڈر جاتی ہیں اسکی وجہ ہی سسرال والوں کا بےجا رویہ اور بہو کو نوکرانی سمجھنا ہے۔

سسرال والوں کی طرف سے وہ محبت اور شفقت کا نہ ملنا جو اسکو اپنے والدین کے پاس ملتی ہے عورت بہو بننا پسند نہیں کرتی کہ جو آزادی اسکو اپنے والدین کے گھر ملتی کہ وہ جہاں چاہے اس کو روک ٹوک نہیں ہوتی لیکن بہو بنتے ہی اسکی تمناؤں اور خواہشات کا جنازہ نکل جاتا ہے، نکاح سنت مبارکہ ہے تو معاشرے کے ہر فرد کو یہ چاہیے کہ وہ خود کو درست کرے تاکہ عورت جو سسرال کے نام پر ڈر کر اسکے نام سن کر شادی سے ڈر جاتی ہے اس جاہلانہ رسم بہو کو نوکرانی سمجھنا ختم کیجیے تا کہ اس سنت مبارکہ نکاح کر کے اپنے میکے میں جیسے زندگی گزارتی ویسے ہی سسرال میں گزار سکے۔

بہو کو نوکرانی مت سمجھئے ایک اہم نصیحت ہےجو معاشرے کا ایک اہم ترین قصہ ہے اور معاشرے میں ہر گھر کی کہانی بن چکا ہے بہو کو نوکرانی مت سمجھیئے موضوع  جو قرآن، حدیث، اور اخلاقی تعلیمات سے واضح ہوتی ہے۔ یہ نصیحت اس بات پر زور دیتی ہے کہ شادی کے بعد بہو کو خاندان کا حصہ سمجھا جائےاور گھر میں بھی اسکے عزت و احترام کا خیال رکھا جائے اور عزت نفس کو مجروح کرنے کی بجائے اسکی عزت و آبرو کی حفاظت اور محافظ بنا جائے اور اس کے ساتھ نرمی و احترام سے پیش آیا جائے، نہ کہ اسے صرف خدمت گزار یا نوکرانی کے طور پر دیکھا جائےجہاں تک گھر کی بہو کی بات ہے تو اسے گھر کا فرد اور سمجھنا اور اچھا سلوک کرنے کا حکم شریعت نے دیا ہے اور بد سلوکی سے منع نہیں کیا گیا ہے کیونکہ بہو ایک بیٹی بن کر آتی ہے اپنا پچھلا گھر چھوڑ کر اپنے نئے گھر میں جب آتی ہے تو اسے بیٹی جیسا سلوک کرنا اسکا حق ہے نہ کہ بد سلوکی۔ گھر کے فرد میں شامل نہ کیا جائے۔

اس حوالے سے قرآن و حدیث میں رہنمائی موجود ہے، جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ (پ 15، الاسراء: 70) ترجمہ: اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ ہر انسان، خواہ مرد ہو یا عورت، عزت کا حقدار ہے بہو کو اپنی بیٹی کی جگہ رکھ کر اگر گھر کا فرد سمجھا جائے تو کبھی بھی بہو کے حق میں تلافی نہیں ہو گی۔ بہو کو نوکرانی سمجھنا اس عزت کے خلاف ہے اور معاشرے میں بہت بڑے فساد کا باعث اور گھر ٹوٹنے کا سبب ہے۔

اسلام میں نکاح ایک معاہدہ ہے،معاہدہ کا معنی ایک عہد کرنا ایک وعدے میں بندھنا ہے جس میں دونوں فریقین کے حقوق اور فرائض متعین کیے گئے ہیں۔ بہو کو شوہر اور اس کے خاندان کا احترام کرنا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنی عزت، آزادی، یا آرام سے اپنے حق سے محروم ہو۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق، ہر عورت کو عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ بہو کو نوکرانی سمجھنا اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے، کیونکہ اسلام مساوات، عدل نرمی عزت حفاظت اور حسن سلوک کا درس دیتا ہے۔

قرآن مجید کی تعلیمات:

1۔ حسن سلوک کا حکم: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ وَ  عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء: 19) ترجمہ: اور تم عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔یہ آیت میاں بیوی کے تعلقات کے حوالے سے ہے، لیکن اس کا اطلاق خاندان کے دیگر افراد پر بھی ہوتا ہے۔ بہو کو بھی عزت اور احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔

2۔ عورت کا مقام: قرآن مجید میں واضح کیا گیا: وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ (پ 8، الانعام: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور تم میں ایک کو دوسرے پر درجوں بلندی دی کہ تمہیں آزمائے۔ یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور کسی کو کسی دوسرے پر ظلم یا زیادتی کا حق نہیں۔

عورت کا مقام دینِ اسلام میں بہت زیادہ وسیع ہے پہلے وہ ایک بیٹی ہوتی ہے کبھی بہن پھر بہو بنتی ہے پھر ماں بنتی ہے ہر درجہ ماں کا الگ اور ہر مقام الگ جیسے جیسے مقام بدلتا رہتا ہے ویسے اس کے درجات برھتے چلے جاتے ہیں۔ حدیث کے مطابق، خاندان کے ہر فرد، بشمول بہو، کے ساتھ حسن سلوک کرنا اسلام کا تقاضا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ اچھا ہے، اور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ تم سب سے بہتر ہوں۔ (ترمذی، 5/475، حدیث:3921)

آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں بہو کو بیٹی سمجھنے کے توفیق عطا فرمائے اور ہمیں بہو کے حقوق سمجھنے ان پر عمل کرنے اور بہو کی عزت آبرو کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اللہ کریم ہمیں ایک مثالی معاشرہ بنانے اور مثالی فرد بننے کے توفیق عطا فرمائے۔ آمین

خاندانی نظام کی بنیاد محبت، احترام اور باہمی تعاون پر ہوتی ہے۔ ایک معاشرتی روایت ہے کہ بہو کو اکثر نوکرانی یا خادمہ کے طور پر سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ تصور نہ صرف غلط ہے بلکہ اس سے خاندانی تعلقات میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔ ایک بہو کو گھر کے معاملات میں فعال شریک بننے کی بجائے ایک محض خدمت گار کے طور پر دیکھنا نہ صرف اس کی ذاتی حیثیت کو مجروح کرتا ہے بلکہ خاندان کے اندر ایک سنگین مسئلہ بھی پیدا کرتا ہے۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ہمیں مختلف اسلامی تعلیمات، ثقافتی روایات اور اخلاقی نظریات پر غور کرنا ہوگا تاکہ اس غلط فہمی کو دور کیا جا سکے۔

اسلامی نقطہ نظر: اسلام میں انسانوں کو ان کے حقوق دینے کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں خواتین کا مقام بہت بلند ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے حقوق کا تحفظ فرمایا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ  عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء: 19) ترجمہ: اور تم عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔

یہ آیت بہو کو بھی اس بات کا حق دیتی ہے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور اسے گھر کے معاملات میں ایک برابر کی شریک سمجھا جائے۔ بہو کو گھر کی نوکرانی سمجھنا اس اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

ثقافتی تناظر: پاکستان اور دیگر مشرقی ممالک میں روایتی طور پر یہ رواج رہا ہے کہ بہو کو کم تر حیثیت دی جاتی ہے۔ بعض خاندانوں میں بہو کے لیے یہ سوچ عام ہے کہ وہ محض شوہر کے والدین کی خدمت کرنے کے لیے آئی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف معاشرتی بلکہ نفسیاتی طور پر بھی نقصان دہ ہے۔ بہو کو گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ مساوی حقوق دینے سے گھر میں محبت اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہوتی ہے۔

ایک مشہور پاکستانی ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ جب بہو کو گھر کے فرد کے طور پر قبول کیا جاتا ہے اور اسے محبت اور احترام ملتا ہے تو گھر میں خوشحالی اور سکون آتا ہے۔ ان کے مطابق، ایک بہو کو نوکرانی سمجھنے سے نہ صرف اس کا دل ٹوٹتا ہے بلکہ وہ اپنے نئے گھر میں اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتی ہے، جو کہ طویل عرصے میں مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔

خاندان میں محبت اور احترام: ایک خاندان میں ہر فرد کا اپنا مقام ہوتا ہے اور یہ ضروری ہے کہ ہر کسی کی عزت کی جائے۔ اگر بہو کو نوکرانی سمجھا جائے گا تو اس کا اثر نہ صرف اس کی شخصیت پر پڑے گا بلکہ پورے خاندان پر بھی اثر انداز ہوگا۔ اس کے برعکس، اگر بہو کو گھر کے ایک اہم رکن کے طور پر دیکھا جائے گا اور اس کے خیالات اور احساسات کو اہمیت دی جائے گی، تو یہ بات پورے خاندان کی ہم آہنگی کو بڑھا دے گی۔

خاندانی نظام میں محبت اور احترام کا تبادلہ سب سے ضروری چیز ہے اور جب یہ اصول کمزور ہو جاتے ہیں تو خاندان کے اندر انتشار پیدا ہوتا ہے۔

حکمت عملی: بہو کو نوکرانی نہ سمجھنے کی حکمت عملی یہ ہے کہ اسے گھر کے ایک اہم رکن کے طور پر عزت دی جائے۔ اسے اپنی رائے دینے کا موقع ملے اور اس کی محنت کو سراہا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ شوہر کو یہ ذمہ داری بھی ادا کرنی چاہیے کہ وہ اپنے والدین کو بہو کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرے تاکہ دونوں طرف سے بات چیت کی فضا قائم ہو۔

بہو کو نوکرانی سمجھنے کی روایات نہ صرف غیر اسلامی ہیں بلکہ یہ خاندان کے اندر محبت اور احترام کی فضا کو متاثر کرتی ہیں۔ ایک خاندان میں سکون اور ہم آہنگی قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بہو کو گھر کا ایک اہم رکن سمجھا جائے اور اسے عزت دی جائے۔ اسلام اور اخلاقی اصولوں کے مطابق، ہر فرد کو اس کے حقوق دینے کی ضرورت ہے، اور اس کے بغیر خاندان کا نظام ٹوٹ کر رہ سکتا ہے۔

گھر کے سکون اور آرام کے لیے  اخلاقیات بہت ضروری ہیں کہ محبت اور اخلاق سے ہی ایک گھر کا سکون اور آرام برقرا رہ سکتا ہے کہ دنیا چلتی ہے اصول سے اور گھر چلتاہے اخلاق سے، مگر آج کل جوائنٹ فیملی سسٹم بن چکا ہے۔ وہ بہو کو نوکرانی سمجھتے ہیں جو اخلاقی طور پر درست نہیں ہے اور بعض گھروں کا تو اسی طرح کا ماحول ہوتا ہے۔ اور وہ اسی سوچ سے کسی کی بیٹی کو اپنے گھر بہو بنا کر لاتے ہیں کہ نوکرانی لارہے ہیں اور گھر کی تمام ذمہ داریاں اس پر ڈال دی جاتی ہیں۔

یہ نوکرانی کا تصور اور یہ احمقانہ سوچ اس بنیاد پر ہوتی ہے کہ ساس اور سسر کی خدمت کرنا عورت پر فرض ہے اور پھر دیور جیٹھ اور نند وغیرہ کے بھی حقوق ہیں۔ اگر ان کے مطالبے کے مطابق کام نہ کرے گی تو گنہگار ہوگی۔ لہذا سب سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ عورت پر سسرال میں کس کس کا حق ہے؟ اس پر علماء کرام فرماتے ہیں عورت پر براہ راست صرف اور صرف اس کے شوہر کا حق ہوتا ہے۔اور اس کے علاوہ گھر کے کسی بھی فرد کا اس پر کوئی حق نہیں ہوتا کہ وہ عورت سے اپنا حکم منوائے۔ یہ جو اپنے پاس سے دیور جیٹھ کے حقوق بنالیے ہیں یہ غلط ہے۔ عورت خدمت اپنے شوہر کی کرے گی عزت سب کی کرے گی اور شوہر کے والدین بھی عورت کی ذمہ داری نہیں ہیں اور ان کی خدمت کرنا عورت پر فرض ہے نہ واجب۔ لیکن اگر اس نیت سے ان کی خدمت کرے گی۔ کہ یہ میرےشوہر کے والدین ہیں اور انکی خدمت کرنے سے شوہر کے دل میں خوشی داخل ہوگی اور اللہ پاک کی رضا مجھے حاصل ہوگی تو یہ ثواب کا کام ہے اور سعادت کی بات ہے۔

اور سسر کو باپ اور ساس کو ماں کا درجہ دینا اور ان کی عزت اور خدمت کرنا یہ واجب نہیں ہے بلکہ یہ سب تو اخلاقی طور گھر گھرستی کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن اگر شوہر بیوی سے یہ امید کرتا ہے اور اسے یہ سمجھاتا ہے کہ میرے گھر والوں کی عزت اور خدمت کرنی ہے تو پھر اسے چاہیے کہ وہی نصیحت اپنے گھر والوں کو بھی کرے کہ وہ بہو کا احترام کریں اور محبت سے قبول کریں، نہ کہ کسی کی بیٹی کو گھر لاکر ذلیل کریں کہ اسے نوکر تو کیا انسان بھی نہ سمجھیں۔ یہ بھی کسی کے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اپنی بیٹی کو اس لیے آپ کے سپرد نہیں کیا تھا اور نہ ہی وہ اپنا گھر اور رشتے اس لیے چھوڑ کر آئی تھی کہ اپنا سب سکون آرام ختم کر کے وہ آپ کے گھر کے کام کاج کرتی رہے۔آپ اسے شادی کر کے لائیں ہیں۔ خرید کر نہیں لائے کہ جیسا مرضی سلوک کریں کوئی جواب داری نہیں ہوگی۔ تو پھر یاد رکھیں کہ تنہائ میں اس کے بہائے آنسو رب تعالیٰ کو نظر آرہے ہیں کہ اس سے تو کچھ نہیں چھپ سکتا اور آپ بے شک ظلم کر کے بھول جائیں مگر رب تعالی نہیں بھولتا۔لہذا وہ بھی آپکے اچھے سلوک اور عزت کی حقدار ہوتی ہے کہ عورت کا حق صرف روٹی کپڑا اور مکان نہیں ہے۔ بلکہ اسکی عزت کرنا بھی ہے۔ جو کہ احترام مسلم اور اخلاقی تقاضہ بھی ہے۔ اور عورت کی سیلف ریسپیکٹ کو مینٹین کرنا یہ شوہر کی ذمہ داری بنتی ہے۔

اور عورت کو سیلف پروٹیکٹ کرنا بھی کہ جب تک میں زندہ ہو گھر کے اندر اور باہر کوئی بھی آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ لہذا آپ بیوی کو نہ نوکرانی سمجھیں نہ نوکرانی بنائیں۔ ساس اور گھر کےافراد بہو سے ہمیشہ قربانی اور خدمت کی توقع نہ کریں اور یہ توقع رکھنی بھی کیوں چاہیے؟ کہ رشتے تو برابر کے حقوق پر مبنی ہوتے ہیں۔ لہذا ساس اور دیگر افراد کو چاہیے کہ وہ بہو کو نوکرانی نہ سمجھیں اور نہ اس پر اپنا حکم مسلط کریں۔اور بالخصوص ساس کو چاہیے کہ بہو کی غلیوں کو نظر انداز کرے اور اسے طعنے وغیرہ نہ دے اور نہ اسے ناحق ستائے یہ ظلم ہے کہ پھر بہت ساری عورتوں کے بڑھاپے میں بیماریوں کی وجہ وہ ظلم ہوتا ہے جو اس نے بہو پر کیے ہوتے ہیں۔لہذا اسے بھی اپنی بیٹی سمجھے کہ جس طرح آپکی بیٹی آپکی شہزادی ہے یہ بھی اپنے ماں باپ کی شہزادی تھی اور جس طرح اپنی بیٹی سے سلوک کرتی کہ اس کی تکلیف اور پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کرتی اور اسکی خوشی اور سکون کا خیال کرتی لہذا اس کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاٶ رکھے کہ یہ بھی کسی کی بیٹی ہے۔ اور گھر کے دیگر افراد بھی اسے گھر کا فرد سمجھیں اور اسکی عزت کریں۔اور اس سے حسن سلوک سے پیش آئیں۔ اس پر غور کرنا چاہیے اور اس بات کو سوچنا چاہیے کہ انصاف اور محبت کا دائرہ صرف بہو تک محدود نہ رہے۔ بلکہ پورے خاندان میں پھلایا جائے ورنہ دل دور ہو جائیں گے اور محبتیں ختم ہوجائیں گی۔