الحمدللہ قرآن کریم اللہ پاک کی لاریب کتاب ہے جس میں اللہ پاک نے زندگی کے ہر پہلو میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے ہمیں دنیا میں پیدا فرمایا اور دنیا میں زندگی گزارنے کے سامان مہیا فرمائے وہیں دنیا کی حقیقت بھی بیان فرمائی ہے کہ کہیں  ہم دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر آخرت کو نہ بھول جائیں۔

آئیے دنیا کی حقیقت کے بارے خدا رحمن کے فرمان ملاحظہ فرمائیں۔

دنیا کی زندگی کی مثال: وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ ‏السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ ‏الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) ترجمہ کنزالعرفان : اور ان کے سامنے بیان کرو کہ دنیا کی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پانی ہو جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا پھروہ سوکھی گھاس بن گیا جسے ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔(سورہ کہف پارہ 15 آیت 45)

اس آیت میں فرمایا کہ اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے سامنے دنیا کی حقیقت بیان کرو اور اس کے سمجھانے کیلئے اس مثال کا سہارا لو کہ دنیوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے زمین کی ہریالی اور سر سبزی و شادابی جو ہمارے نازل کئے ہوئے پانی کے سبب زمین سے نکلی لیکن کچھ عرصے بعد وہ سبزہ فنا کے گھاٹ اتر جاتا اور سوکھی ہوئی گھاس میں تبدیل ہو جاتا ہے جسے ہوائیں ادھر سے اُدھر اڑائے پھرتی ہیں اور اس کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی یہی حالت دنیا کی بے اعتبار حیات کی ہے اس پر مغرور و شیدا ہونا عقل مند کا کام نہیں اور یہ سب فنا و بقا اللہ پاک کی قدرت سے ہے(تفسیر تعلیم القرآن جلد1 صفحہ 779)

دنیوی زندگی دھوکہ کا سامان: اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ ‏بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ ‏الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ ‏فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا ‏الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۲۰)‏ ترجمہ کنزالعرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل ‏کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مالوں اور اولاد ‏میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ‏ہے)جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا لگا پھر وہ ‏سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا ‏‏(بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ ‏کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا(بھی ہے) اور دنیاکی ‏زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔ (پ27، الحدید: 20) ‏

ا س آیت میں اللہ پاک نے دنیا کی حقیقت بیان فرمائی اور اس آیت میں اللہ پاک نے دنیا کے بارے میں پانچ چیزیں اور ایک مثال بیان فرمائی ہے۔وہ پانچ چیزیں یہ ہیں:

(1، 2)دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود ہے جو کہ بچوں کا کام ہے اور صرف اس کے حصول میں محنت و مشقت کرتے رہنا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں۔

(3)دنیا کی زندگی زینت و آرائش کا نام ہے جو کہ عورتوں کا شیوہ ہے۔

(4، 5)دنیا کی زندگی آپس میں فخر و غرور کرنے اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنے کا نام ہے۔ اس کے بعد اللہ پاک نے دنیوی زندگی کی ایک مثال ارشاد فرمائی کہ دنیا کی زندگی ایسی ہے جیسے وہ بارش جس کا اُگایا ہوا سبزہ کسانوں کو اچھا لگتا ہے پھر وہ سبزہ کسی زمینی یا آسمانی آفت کی وجہ سے سوکھ جاتا ہے تو تم اس جاتے رہنے کے بعد اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا بے کار ہو جاتا ہے۔ یہی حال دنیا کی زندگی کا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔(تفسیر تعلیم القرآن جلد2 صفحہ 694)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں دنیا کی حقیقت کو سمجھنے اور آخرت کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔


بےشک دنیا کی زندگی فانی (مٹ جانے والی) ہے ۔ دنیا کی تمام چیزیں دنیا میں ہی رہ جانی ہیں اور صرف اعمال نے ہی آگے جانا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں دنیا کی زندگی کی کئی مثالیں بیان کی گئی ہے تاکہ انسان دنیا کی زندگی کی رونقوں کے سبب اللہ عزوجل اور اس کی عبادت سے غافل نہ ہوجائے کیونکہ ہماری زندگی کا مقصد اللہ عزوجل کی عبادت اور اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ دنیاوی زندگی کے بارے میں قرآن میں دی گئی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں :

دنیا کی زندگی کی مثال ایسے ہے جیسے پانی: اللہ پاک قرآن مجید فرقان حمید میں دنیا کی زندگی کے بارے میں فرماتا ہے :

‏ وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ ‏السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ ‏الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) ترجمہ کنزالعرفان: اور ان کے سامنے بیان کرو کہ دنیا کی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پانی ہو جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا پھروہ سوکھی گھاس بن گیا جسے ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (سورہ کہف، پارہ18 آیت 45)

اس آیت میں دُنْیَوی زندگی کے قابلِ فنا ہونے اور قیامت کے حساب کتاب کے بارے میں سمجھایا گیا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں کے سامنے دنیا کی حقیقت بیان کرو اور اس کے سمجھانے کیلئے اس مثال کا سہارا لو کہ دنیوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے زمین کی ہریالی اور سرسبزی و شادابی، جو ہمارے نازل کئے ہوئے پانی کے سبب زمین سے نکلی ہو اور اس پانی کی وجہ سے زمین پر وہ شادابی اور تازگی پھیل جائے لیکن پھر کچھ ہی عرصے کے بعد وہ سبزہ فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے اور سوکھی ہوئی گھاس میں تبدیل ہوجاتا ہے جسے ہوائیں اِدھر سے اُدھر اڑائے پھرتی ہیں اور اس کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی ۔ فرمایا کہ دنیاوی زندگی کی مثال بھی ایسے ہی ہے کہ جس طرح سبزہ خوشنما ہونے کے بعد فنا ہوجاتا ہے اور اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا، یہی حالت دنیا کی بے اعتبار حیات کی ہے اس پر مغرور و شیدا ہونا عقل مند کا کام نہیں اور یہ سب فنا و بقا اللّٰہ کی قدرت سے ہے۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۲۴۹-۲۵۰، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۶۵۳، ملتقطاً)

دنیا کی زندگی جیسے کھیل کود: اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ ‏بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ ‏الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ ‏فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا ‏الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۲۰)‏ ترجمہ کنزالعرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل ‏کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مالوں اور اولاد ‏میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ‏ہے)جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا لگا پھر وہ ‏سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا ‏‏(بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ ‏کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا(بھی ہے) اور دنیاکی ‏زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔ (پ27، الحدید: 20) ‏

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ایک حدیث مذکور ہے جو مندرجہ ذیل ہے : حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ دنیا ملعون ہے اور اس کی ہر چیز بھی ملعون ہے البتہ دنیا میں سے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے وہ ملعون نہیں ۔( کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، حرف الزای الزہد، ۲ / ۷۷، الجزء الثالث، الحدیث: ۶۰۸۰)

دنیا کی زندگی کی کہاوت : اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ ‏فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُؕ-حَتّٰۤى ‏اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ ‏قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤۙ-اَتٰىهَاۤ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا حَصِیْدًا ‏كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ ‏یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۴)‏ ترجمہ کنزالعرفان:

دنیا کی زندگی کی کہاوت تو ایسی ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں گھنی (زیادہ )ہوکر نکلیں جو کچھ آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا سنگار لے لیا اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس میں آگئی ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن میں تو ہم نے اسے کردیا کاٹی ہوئی گویا کل تھی ہی نہیں ہم یونہی آیتیں مُفَصَّل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لیے۔ (سورہ یونس پارہ ١١ آیت ٢٤)

اس آیت میں بہت بہترین طریقے سے دل میں یہ بات بٹھائی گئی ہے کہ دنیوی زندگانی امیدوں کا سبز باغ ہے، اس میں عمر کھو کر جب آدمی اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں اس کو مراد حاصل ہونے کا اطمینان ہوتا ہے اور وہ کامیابی کے نشے میں مست ہو جاتا ہے تو اچانک اس کو موت آ پہنچتی ہے اور وہ تمام نعمتوں اور لذتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دنیا کا طلب گار جب بالکل بے فکر ہوتا ہے اس وقت اس پر عذابِ الٰہی آتا ہے اور اس کا تمام سازو سامان جس سے اس کی امیدیں وابستہ تھیں غارت ہوجاتا ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۳۱۰، ملخصاً)

ہمیں ان آیات سے معلوم ہوا کہ دنیا کی زندگی فانی ہے اور ابدی زندگی صرف آخرت کی زندگی ہے۔ ہمیں ایسے اعمال کرنے چاہیے جس سے ہماری آخرت بہتر ہو ۔ اللہ تعالی ہمیں آخرت کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


دعوت اسلامی کے مکتبۃ المدینہ کی کتاب "اصلاح اعمال" جلد اول صفحہ نمبر 128 تا 129 پر ہے: دنیا کا لغوی معنی ہے: "قریب" اور دنیا کو دنیا اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ آخرت کی نسبت انسان کے زیادہ قریب ہے یااس وجہ سے کہ یہ اپنی خواہشات ولذات کے سبب دل کے زیادہ قریب ہے۔

علامہ بدرالدین عینی بخاری شریف کی شرح "عمدۃالقاری" جلد 1 صفحہ نمبر 52 پر لکھتے ہیں : دار آخرت سے پہلے تمام مخلوق دنیا ہے۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی صرف آسائشوں سے بھری ہوئی ہے اور دنیا کی محبت آخرت کی بربادی کا سبب ہے اللّٰہ پاک نے جہاں قرآن مجید میں بےشمار چیزوں کی مذمّت بیان فرمائی ہے وہیں دنیا کی زندگی کی مذمّت بیان فرما کر مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ دنیا کی اس دھوکہ اور فریب والی زندگی کے قریب بھی نہ جائیں جو ان کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔اب ہم آپ کے سامنے قرآن مجید کی روشنی سے دنیا کی مذمّت بیان کرتے ہیں۔ غور کرو اور عبرت حاصل کرو۔

(1) سوکھی ہوئی گھاس: وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ ‏السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ ‏الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) ترجمہ کنز العرفان:اور ان کے سامنے بیان کرو کہ دنیا کی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پانی ہو جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا پھروہ سوکھی گھاس بن گیا جسے ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔(پ15 ،الکھف، آیت نمبر 45)

(2) آسمان سے اترا ہوا پانی: اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ ‏فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُؕ-حَتّٰۤى ‏اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ ‏قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤۙ-اَتٰىهَاۤ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا حَصِیْدًا ‏كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ ‏یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۴)‏

ترجمہ کنز العرفان:دنیا کی زندگی کی مثال تو اس پانی جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں گھنی ہو کر نکلیں جن سے انسان اور جانور کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی خوبصورتی پکڑلی اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک سمجھے کہ (اب) وہ اس فصل پر قادر ہیں تو رات یا دن کے وقت ہمارا حکم آیا تو ہم نے اسے ایسی کٹی ہوئی کھیتی کردیا گویا وہ کل وہاں پر موجود ہی نہ تھی۔ ہم غور کرنے والوں کیلئے اسی طرح تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں۔(پ 11 ، یونس ،آیت نمبر :24)

(3) آرائش والی زندگی: اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ ‏بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ ‏الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ ‏فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا ‏الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۲۰)‏ ترجمہ کنزالعرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل ‏کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مالوں اور اولاد ‏میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ‏ہے)جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا لگا پھر وہ ‏سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا ‏‏(بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ ‏کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا(بھی ہے) اور دنیاکی ‏زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔ (پ27، الحدید: 20) ‏

مذکورہ تمام آیات سے معلوم ہوا کہ دنیا کی زندگی کھیل کود٬آسائشوں٬دھوکے بازیوں اور عارضی و فانی ہے۔ اس کی محبت آخرت کی بربادی کا سبب ہے۔ اس کے فریب میں آنے والا گناہوں کے دلدل میں پھنس جاتا ہے۔

اللّٰہ پاک اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے سے ہمیں دنیا کے فریب سے بچنے اور اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


دنیا کا لغوی معنی ہے قریب اور دنیا کو دنیا اس لیے کہتے ہیں کہ یہ آخرت کی نسبت انسان سے زیادہ قریب ہے یا اس وجہ سے کہ یہ اپنی خواہشات و لذات کے سبب دل سے زیادہ قریب ہے ۔( اصلاح اعمال جلد 1، ص 128تا129)

دنیا ایک عارضی ، فانی اور آزمائش کا مقام ہے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں آخرت میں ہونے والے امتحان کی تیاری کے لیے پیدا فرمایا ہے ۔ دنیا کی خواہشات اور محنت و مشقت سے عزت و دولت کمانا جلد ختم ہونے والی چیزیں ہیں دنیا کی آخرت کے معاملے میں کوئی اہمیت نہیں کیونکہ دنیا کی زندگی مختصر اور آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لیے ہیں اس لئے اصل زندگی آخرت کی ہے قرآن مجید فرقان حمید میں بھی آخرت کی زندگی کو دنیاوی زندگی سے بہتر قرار دیا گیا ہے تاکہ مسلمان دنیا کی طرف راغب نہ ہو ۔

آئیے اب ہم دنیا کی حقیقت کے متعلق چند آیات مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں :

(1) سوکھی ہوئی گھاس : وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ ‏السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ ‏الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) ترجمۂ ‏کنزالایمان:اور ان کے سامنے زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو ‏جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتاراتو اس کے سبب زمین کا ‏سبزہ گھنا ہوکر نکلا کہ سوکھی گھاس ہوگیا جسے ہوائیں اڑائیں اور ‏اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے۔ ‏ ‏(پ15، الکہف: 45) ‏

(2) آسمان سے اترا ہوا پانی : اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ ‏فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُؕ-حَتّٰۤى ‏اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ ‏قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤۙ-اَتٰىهَاۤ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا حَصِیْدًا ‏كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ ‏یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۴)‏ ترجمۂ کنزالایمان: دنیا کی زندگی کی کہاوت تو ایسی ہی ہے ‏جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے ‏اگنے والی چیزیں گھنی (زیادہ )ہوکر نکلیں جو کچھ آدمی اور ‏چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا سنگار لے لیا ‏اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس ‏میں آگئی ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن میں تو ہم نے اسے ‏کردیا کاٹی ہوئی گویا کل تھی ہی نہیں ہم یونہی آیتیں مُفَصَّل ‏بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لیے۔ ‏(پ11، یونس:24)‏

(3) دھوکے کا سامان ہے : اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ ‏بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ ‏الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ ‏فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا ‏الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۲۰)‏ ترجمہ کنزالعرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل ‏کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مالوں اور اولاد ‏میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ‏ہے)جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا لگا پھر وہ ‏سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا ‏‏(بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ ‏کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا(بھی ہے) اور دنیاکی ‏زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔ (پ27، الحدید: 20) ‏

مذکورہ بالا تمام آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے ایسے ہی دنیا سے نفرت تمام نیکیوں کی اصل ہے ۔

ہمارے دل سے نکل جائے الفت دنیا

دے دل میں عشق محمد مرے رچا یا رب

( وسائل بخشش ، ص82)

دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہمیں دنیا میں رہ کر آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم


دنیا کا مطلب ہے قریب کی چیز، دنیا کا متضاد آخرت ہے اور آخرت کا مطلب ہے بعد میں آنے والی چیز ، آخرت کا ‏مقصد دنیاوی ‏اعمال کی جزا اور سزا ہے دنیا کی زندگی عارضی ہے جبکہ آخرت کی زندگی دائمی ہے لیکن دنیا کی حرص ‏رکھنے والوں نے دنیا کی عارضی ‏زندگی کو دائمی سمجھ لیا ہے وہ آخرت کی ابدی زندگی کو بھول گئے ہیں عارضی چیز کے ‏حصول کے لیے دائمی چیز کے حصول کو ترک کر ‏دینا کتنی بڑی نادانی ہے ۔

اللہ پاک نے قراٰنِ مجید کی متعدد آیات میں دنیا کی حقیقت کو مثالوں سے واضح فرمایا ہے۔‏ 3 آیات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں:‏

‏(1) دنیا کی مثال سوکھی گھاس کی طرح ہے: ﴿ وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ ‏نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵)﴾ترجَمۂ کنزالایمان:اور ان کے سامنے ‏زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا کہ سوکھی گھاس ہوگیا ‏جسے ہوائیں اڑائیں اور اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے۔ (پ15، الکہف: 45) ‏

‏ اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فرما رہا ہے کہ اے حبیب (علیہ السّلام ) ‏لوگوں کے سامنے دنیا کی ‏حقیقت کو بیان کر دیں اور اس کے سمجھانے کے لیے اس مثال کو سہارا بنائیں کہ جس طرح ‏سبزہ خوشنما ہونے کے بعد فنا ہو جاتا ہے ‏اور اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا یہی حالت دنیا کی بے اعتبار حیات کی ہے ‏اس پر مغرور اور شیدا ہونا عقلمند کا کام نہیں اور یہ سب فنا ‏اور بقا اللہ کی قدرت سے ہے‏۔ ‏(دیکھیے: روح البیان، 5/249، 250، الکہف، تحت الآیۃ:45)‏

‏(2)دنیا کی تر و تازگی کا ہلاک ہونے والے سبزے کی مثل ہونا: ﴿ اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ ‏بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَفِی ‏الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۲۰)﴾ ترجَمۂ کنزالعرفان: جان لو کہ دنیا ‏کی زندگی توصرف کھیل کود اور زینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مالوں اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے۔(دنیا کی ‏زندگی ایسے ہے)جیسے وہ بارش جس کا اُگایا ہوا سبزہ کسانوں کواچھا لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا ‏‏(بے کار) ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا (بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو ‏صرف دھوکے کاسامان ہے۔ (پ27، الحدید: 20) ‏

اللہ پاک نے دُنْیَوی زندگی کی ایک مثال ارشاد فرمائی کہ دنیا کی زندگی ایسی ہے جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا ‏لگتا ہے ، پھر وہ سبزہ کسی زمینی یا آسمانی آفت کی وجہ سے سوکھ جاتا ہے تو تم اس کی سبزی(سبز رنگ) جاتے رہنے کے بعد اسے زرد ‏دیکھتے ہو ،پھر وہ پامال کیا ہوا بے کارہوجاتا ہے۔یہی حال دنیا کی اس زندگی کا ہے جس پر دنیا کا طلبگار بہت خوش ہوتا ہے اور اس کے ‏ساتھ بہت سی امیدیں رکھتا ہے لیکن وہ انتہائی جلد گزر جاتی ہے ۔ (صراط الجنان، 9/741) ‏

‏(3)دنیا کی زندگی امیدوں کے سبز باغ کی مثل‏: ﴿ اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ ‏الْاَرْضِ مِمَّا یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤۙ-اَتٰىهَاۤ ‏اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِؕكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۴)﴾ترجَمۂ کنزالایمان: ‏دنیا کی زندگی کی کہاوت تو ایسی ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں گھنی (زیادہ) ‏ہوکر نکلیں جو کچھ آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا سنگار لے لیا اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک ‏سمجھے کہ یہ ہمارے بس میں آگئی ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن میں تو ہم نے اسے کردیا کاٹی ہوئی گویا کل تھی ہی نہیں ہم یونہی ‏آیتیں مُفَصَّل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لیے۔(پ11، یونس:24) ‏

اس آیت میں بہترین مثال دے کر دل میں یہ بات بٹھائی گئی کہ دنیاوی زندگی امیدوں کا سبز باغ ہے اس میں عمر کھو کر ‏جب ‏آدمی اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں اس کو مراد حاصل ہونے کا اطمینان ہو اور وہ کامیابی کی نشے میں مست ہو جاتا ‏ہے تو اچانک اس کو ‏موت آ پہنچتی ہے اور وہ تمام لذتوں اور نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔

‏ آخرت کو فراموش کر کے دنیا کے دھوکے میں آنے والوں کے لیے شدید عذاب کی وعید سنائی گئی ہے جبکہ دنیا کو ‏فراموش کر ‏کے آخرت کی فکر کرنے والوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی بخشش کی خوشخبری دی گئی ہے۔

‏ اللہ پاک ہمیں دنیا ‏سے بے رغبتی عطا فرمائے۔ اٰمِیْن