کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ
ہے۔ کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان کو ناحق قتل کرنا حرام ہے اور اللہ پاک کی ناراضگی
کا سبب ہے افسوس کہ آج قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر
جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تعصب والی لڑائی
عام ہے۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور عسکری ونگ بنے ہے
قتل و غارت گری کرتا ہے۔ اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو
یہ خود کفر ہے۔ اور ایسا شخص ہے ہمیشہ جہنم میں رہے اس کا ارتکاب کیا تب یہ جہنم
میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور لیکن پھر بھی اس
کا ٹھکانہ جہنم ہے ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔ اللہ پاک قرآن پاک میں
ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا
مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ
وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
کثیر احادیث میں اس کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، چند ایک
ملاحظہ فرمائیں:
ناحق قتل پر احادیث مبارکہ:
1۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔ (بخاری،
4/358، حدیث: 6871)
2۔کسی مسلمان کو
ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ
سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)
3۔ جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول
دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے میں: میں نے عرض کی مقتول جہنم میں کیوں
جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا۔ (بخاری،
1/23، حدیث: 31)
4۔ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ
قیامت کے دن الله تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں
کے درمیان لکھا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث:
2620)
(5) اللہ تعالیٰ کے
نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید اور تباہ ہو جانا واقع ہے۔ (ترمذی،
3/98، حدیث: 1400)
( 6) قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مال و دولت بہنے لگے
فتنے ظاہر ہوں گے لوگوں نے عرض کی یارسول الله! ہرج کیا چیز ہے؟ تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا: قتل، قتل، قتل۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار ﷺ نے
ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے حقیر جانے
تقویٰ یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا۔ انسان کے لیے یہ برائی
کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے، اس
کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو۔ (مسلم، ص 1386، حدیث: 2564)
کسی جان کو ناحق قَتَل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ
ہے۔ اسلام کی نظر میں انسانی جان کی بہت اہمیَّت ہے۔ ہم اِس کا اندازہ اِس بات سے
لگا سکتے ہیں کہ قرآن کے پارہ 5 سورۃ النساء کی آیت نمبر 93 میں الله تعالیٰ فرماتا
ہے: ترجمہ کنز الایمان: اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ
جہنم ہے۔ اِس سے اُن لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ جو مال و جائیداد (property )کے لئے لالچ
میں آکر نا حق قتل کر دیتے ہیں۔
ناحق قتل کرنے کی مذمت پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ آدمی اپنے دین میں کشادگی و وسعت میں رہتا ہے جب تک وہ
خونِ حرام سے آلودہ نہ ہو۔ (بخاری، 4/356، حدیث: 6862)
2۔ ایک مومن کا قتل کیا جانا الله تعالیٰ کے نزدیک دُنیا کے
تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (نسائی، ص 652، حدیث: 3992)
3۔ بڑے گناہوں میں سے الله کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، ناحق
قتل کرنا، اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے۔ (بخاری، 4/295، حدیث:6675)
4۔ بے شک الله نے منع فرمادیا (اس کی توبہ قبول کرنے سے) جس
نے کسی مسلمان کو قتل کیا ہو۔ (مسند امام احمد، 6/51، حدیث:17005)
5۔ کسی مسلمان کو قتل کرنے میں اگر زمین و آسمان والے شریک
ہو جائیں۔ تو الله اُن سب کو جہنم میں دھکیل دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث:1403)
قیامت کے دن جس طرح عبادت کے معاملے میں سب سے پہلے نماز کا
حساب و کتاب ہوگا۔ اِسی طرح قیامت کے دن معاملات میں سے سب سے پہلے خونِ ناحق کا
فیصلہ ہوگا۔(مسلم، ص711، حدیث: 4381) اور ناحق قتل کرنے والے کی پیشانی پہ لکھا ہو
گا کہ یہ شخص الله کی رحمت سے مایوس ہے۔ اور دنیا میں بھی اہل و عیال، رشتہ داروں
کے سامنے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہر مسلمان کو چاہئےکہ آیت مبارکہ اور احادیث پر غور کرے
تاکہ الله کا خوف پیدا ہو اور گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی سوچ نصیب ہو۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو ہدایت نصیب
فرمائے، جہنم کے درد ناک عذاب سے محفوظ فرمائے۔ آمین یارب العالمین
کسی مسلمان کی ظلماً جان لینا قتل ناحق کہلاتا ہے قتل کرنا
بہت ہی برا فعل اور کبیرہ گناہ ہے افسوس ہے کہ آج کل قتل کرنا ایک بہت ہی معمولی
کام ہو چکا چھوٹی چھوٹی باتوں پر مار دینا چوری ڈکیتی غنڈہ گردی دہشت گردی وغیرہ
کے ذریعے مسلمان کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا اس سے متعلق قرآن پاک اور احادیث
مبارکہ میں جگہ جگہ مذمت بیان کی گئی ہے چند ملاحظہ فرمائیں، چنانچہ
احادیث مبارکہ:
1۔ ایک حدیث پاک میں پیارے آقا ﷺ کا ارشاد ہوتا ہے: اللہ
تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ ) ہو جانا
ہلکا(واقع) ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)
2۔ اگر تمام آسمان اور زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں
شریک ہو جائیں تب بھی یقینا اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں جھونک دے گا۔ (ترمذی، 3/100،
حدیث: 1403)
3۔ جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول
دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی کہ مقتول جہنم میں کیوں
جائے گا؟ ارشاد فرمایا اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا۔ (بخاری، 1/23،
حدیث: 31 )
4۔ جس نے کسی مومن کے قتل میں ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو
قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں لکھا ہوگا
کہ یہ اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
5۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا
ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
ایک جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
ایک اور جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ
فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6،
المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے
بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔
اللہ تعالی ہمیں اس برے فعل سے بچ کر آپنی اخرت کی تیاری
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
قتل ناحق کی مذمت از ہمشیرہ علی حسنین، فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا حرام
ہے اس کی وعید قرآن وحدیث سے ثابت ہے جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ
خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا
عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
درج ذیل احادیث مبارکہ میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے:
چنانچہ
1۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ناحق حرام خون
بہانا ہلاک کرنے والے ان امور میں ہے جن سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔ (بخاری، 4/357، حدیث:6863)
2۔ کسی مسلمان کو قتل کرنے میں اگر زمین وآسمان والے شریک
ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب جہنم میں دھکیل دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)
3۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان کے
ظلما قتل سے زیادہ سہل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/261، حدیث: 2619)
4۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتلِ کرنا
ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی
چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی ڈکیتی خاندانی لڑائی تعصب
والی لڑائیاں عام ہیں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے گروپ اور جتھے
اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل وغار تگری کرنا ہے
مسلمان کو ناحق قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانوں کے قتل کو
حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے
گا اور قتلِ کو حرام سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور
ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ناحق قتل کرنے سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین
قتل ناحق کی مذمت از ہمشیرہ علی حسن، فیضان ام عطار
شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
اسلام میں کسی انسانی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا
جا سکتا ہے کہ ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت قتل کے برابر قرار دیا گیا ہے ارشاد
باری تعالی ہے جو کوئی کسی کو قتل کرے جبکہ یہ خطرناک کسی اور جان کا بدلہ لینے کے
لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو تو یہ ایسا ہے جیسے اس
نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی کی جان بچائے تو یہ ایسا ہے جیسے اس
نے تمام انسانوں کے کی جان بچائی
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: مَنْ
قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ
النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ
کنز الایمان: جس
نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں
کو قتل کیا۔
مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بھی ہولناک ہے کسی
مسلمان کا جان بوجھ کر قتل کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کی مذمت کی
گئی ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ
رہیں۔ (بخاری، 1/15، حديث: 10)
2۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ مسلمان کو ناحق قتل
کرنا ہے۔(بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
3۔ کسی مسلمان کو
ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہوگا۔
4۔ اگر زمین اور آسمان والے کسی مسلمان کو قتل کرنے پر جمع
ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)
5۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بے شک
ایک مسلمان کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔
(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 78)
6۔ جس نے کسی مسلمان کے قتل پر ایک حرف جتنی مدد کی تو وہ
قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس طرح آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان
لکھا ہوگا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
قتل ناحق کی مذمت از ہمشیرہ عبد القدوس، فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا گناہِ کبیرہ میں سے ایک بڑا
گناہ ہے۔قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت اور سخت سزائیں بیان کی گئی ہیں۔کسی
مسلمان کو ناحق قتل کرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے۔اور اس کے حکم کی
پامالی اور نافرمانی کا ذریعہ ہے
اپنے ظالمانہ اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے عام شہریوں
اور پُر اَمن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والوں کا دین اِسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
وہ دین جو انسانوں جانوروں تک کے حقوق کا خیال رکھتا ہے وہ اَولادِ آدم کے قتل عام
کی اِجازت کیسے دے سکتا ہے!
فرامینِ مصطفیٰ:
(1) بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل
کرنا ہے۔ (بخاری، 4/ 358، حدیث: 6871)
انتقام کی آگ،حسد،تکبر کی بناء پر اپنے مومن مسلمان بھائی
کو ناحق قتل کر دینا اور خود کو آگ کے عذاب کا حق دار ٹھہرا دینا بہت ہی بڑی حماقت
اور بے وقوفی ہے۔
افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی
چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی،
تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اور
ایک پورا خاندان تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے۔کسی کا باپ، کسی کا بھائی،کسی کا
شوہر صرف عناد کی بنا پر ناحق قتل کر دیئے جاتے ہیں۔
2۔ مومن کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کے
برباد ہونے سے بڑا ہے۔ (نسائی، 7/82، 83، حدیث: 3988)
3۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کا خون بہانے، اُنہیں قتل
کرنے اور فتنہ و فساد برپا کرنے کو نہ صرف کفر قرار دیا ہے بلکہ اِسلام سے واپس
کفر کی طرف پلٹ جانا قرار دیا ہے۔ اسے شریعت کی اصطلاح میں ارتداد کہتے ہیں۔ امام
بخاری حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ
نے فرمایا: تم میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے سبب کفر کی طرف نہ لوٹ جانا۔ (
صحیح بخاری، 4/435، حدیث: 7080 )
مسلمانوں کو تکلیف دینے والے کے لیے عذابِ جہنم: مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا کرنا اور انہیں جبر و تشدد اور
وحشت و بربریت کا شکار کرنا سخت منع ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو
جہنم اور آگ کی درد ناک سزا دینے کا اعلان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ
لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَ لَهُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِؕ(۱۰) (پ 30، البروج: 10) ترجمہ: بے
شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان
کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا
خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری جان مال عزو و آبرو کی حفاظت فرمائے۔ آمین
قتل ناحق کی مذمت از بنت محمد نواز بھنڈر، فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
ناحق قتل کے مقابلے میں پوری دنیا کا مٹنا آسان:
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی
کریم ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان کے ناحق قتل ہونے سے پوری دنیا کا تباہ ہوجانا اللہ تعالیٰ
کے ہاں معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)
حقوق العباد میں پہلا سوال: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
کریم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کےمابین سب سے پہلے خون خرابے قتل و قتال کا
فیصلہ سنایا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)
ناحق قتل کے سب شرکاء جہنمی: رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: اگر بالفرض تمام آسمان اور زمین
والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال
دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)
قاتلوں کے سہولت کار: جو شخص کسی مسلمان کے ناحق قتل میں سہولت کار بنا اگرچہ وہ معاونت بالکل
معمولی درجے کی(ایک بات کی حد تک) بھی ہو تو وہ شخص (قیامت والے دن ) اللہ تعالیٰ
سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر ) لکھا ہوا ہوگا کہ یہ
شخص اللہ کی رحمت سے مایوس رہے گا۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
ناحق قتل کرنا شریعت میں حرام ہے اگر کوئی شخص شرعا ً ناحق
قتل کو حلال سمجھتا ہے تو فقہاء کرام رحمہم اللہ کی تصریحات کے مطابق کافر ہو جاتا
ہے۔
ناحق قتل کی چار سزائیں دائمی جہنم، اللہ کا غضب، اللہ کی
لعنت اور سخت ترین عذاب کی صورت میں قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ ایک ناحق قتل پوری
انسانیت کو قتل کرنے کے برابر گناہ ہے۔ اللہ کےنیک بندوں کی صفت یہ ہے کہ وہ ناحق
قتل نہیں کرتے، اربابِ اقتدار کےلیےقتل کی تین صورتیں جائز ہیں: رجم، قصاص،
ارتداد۔
کسی بھی انسان کو قتل کرنا تو درکنار، ہم کسی بھی حال میں
کسی بھی انسان کے قتل میں کسی بھی نوعیت سے معاون ثابت نہ ہوں تاکہ ہم آخرت میں
دردناک عذاب سے محفوظ رہیں۔ اگر کسی نے کوئی قتل کیا ہے تو حکومت وقت ہی کو اسے
قصاصاً قتل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام گناہوں سے محفوظ رہ کر یہ
دنیاوی فانی زندگی گزارنے والا بنائے اور ہمیں دونوں جہاں میں کامیابی عطا
فرمائے۔۔اللہ تعالیٰ ہمارے پورےمعاشرے کوبالخصوص وطن عزیز پاکستان کو دہشت گردی،
قتل وقتال اور فتنہ و فساد جیسی لعنت سے محفوظ فرمائے۔ آمین
اللہ تعالی نے انسان کو اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا اور
انسان کو اپنے حقوق اور فرائض کی تعلیمات دیں۔ اللہ پاک نے بندوں کو اپنے حقوق
پورے کرنے کے ساتھ ساتھ ہی اپنے بندوں کے حقوق کو پورا کرنے اور انکی حق تلفی کرنے
سے بچنے کی بھی ترغیب ارشاد فرمائی ہے۔انسان چونکہ اشرف المخلوقات میں سے ہے تو
ہمیں انکا ادب انکی عزت کرنے کی ترغیب دی۔ انسان کی حق تلفی کرنے کا ایک ذریعہ
ناحق قتل کرنا بھی ہے۔نیز کسی جان کو ناحق قتل کرنا گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے
جانے والا کام ہے۔اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ
خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا
عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: وَ
لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ- (پ 15، الاسراء: 33) ترجمہ: اور جس جان کو اللہ نے حرمت
عطا کی ہے، اسے قتل نہ کرو، الا یہ کہ تمہیں (شرعاً) اس کا حق پہنچتا ہو۔
احادیث مبارکہ میں بھی اس کی بہت وعیدیں آئی ہیں جن میں سے
چند ملاحظہ ہوں:
احادیث مبارکہ:
1۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا
ہے۔ (بخاری، 4/ 358، حدیث: 6871)
2۔ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے
کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب
کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، 1/ 205)
3۔ جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول
دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں
جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔ (بخاری،
1/ 23، حدیث: 31)
4۔ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں
کے درمیان لکھا ہو گا یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/ 262،
حدیث: 2620)
5۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑے گناہ یہ ہوں
گے: (1) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا۔ (2) مسلمان کو ناحق قتل کرنا۔ (3) جنگ کے
دن راہِ خدا تعالیٰ میں جہاد سے فرار ہونا۔ (4) والدین کی نافرمانی کرنا۔ (5)
پاکدامن عورتوں پر تہمت لگا نا۔ (6) جادو سیکھنا۔ (7) سود کھانا اور (8) یتیم کا
مال کھانا۔ (سنن کبری، 4/ 149، حدیث: 7255)
افسوس کے قرآن و حدیث میں اتنی وعیدیں وارد ہیں لیکن اس کے
باوجود مسلمان معمولی سے لڑائی جھگڑے کی وجہ سے قتل و غارت گری کرنے لگتے ہیں یا
کسی دنیاوی مفاد کے لیے اپنی آخرت برباد کر لیتے ہیں اللہ پاک ہمیں اس کبیرہ گناہ
سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
قتل ناحق کے معنی بغیر کسی غلطی کے کسی شخص کو قتل کر دینا
ہے یعنی اس شخص کی غلطی بھی نہ ہو تو اس کو قتل کر دینا قتل ناحق کہلاتا ہے۔
کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ
گناہ ہے شریعت میں قتل عمد کی سزا دنیا میں فقط قصاص ہے یعنی یہ متعین ہے۔ ہاں !
اگر اولیاء مقتول معاف کر دیں ورنہ قاتل سے مال لے کر مصالحت کر لے تو یہ بھی ہو
سکتا ہے۔ ( ظاہری گناہوں کی معلومات: ص78 )
قتل ناحق کی مذمت کرتے ہوئے رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ
خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا
عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
احادیث مبارکہ:
1۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے
بڑھ کر ہے۔(ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)
2۔ اس ذات کی قسم کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! بے شک ایک
مومن کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (ظاہری
گناہوں کی معلومات، ص 78)
پہلا ناحق قتل: قابیل و ہابیل دونوں حضرت آدم علیہ اسلام کے فرزند تھے حضرت حواء کے ہر حمل
میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے قابیل کے ساتھ اقلیمااور ہابیل کے ساتھ لےوذا
پیدا ہوئی اس وقت یہ دستور تھا ایک حمل کے لڑکے کا دوسرے حمل کی لڑکی کے ساتھ نکاح
کیا جاتا تھا چنانچہ حضرت آدم نے ہابیل کا نکاح اقلیما سے کرنا چاہا مگر قابیل اس
پر راضی نہ ہوا کیونکہ اقلیما زیادہ خوبصورت تھی اس لیے وہ اس کا طلب گار ہوا حضرت
آدم علیہ السلام نے اسے سمجھایا کہ اقلیما تیرے ساتھ پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے وہ تیری
بہن ہے تیرا اس سے نکاح نہیں ہوسکتا مگر قابیل اپنی ضد پر اڑا رہا بلآخر حضرت آدم علیہ
اسلام نے حکم دیا کہ تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں اپنی اپنی قربانیاں پیش کرو جس
کی قربانی مقبول ہو گی وہی اقلیما کا حق دار ہو گا اس زمانے میں قربانی کی مقبولیت
کی نشانی تھی کہ آسمان سے ایک آگ اترتی اور اسے جلاڈالتی چنانچہ قابیل نے گیہوں کی
کچھ بالے اور ہابیل نے ایک بکری قربانی کے لئے پیش کی آسمانی آگ نے ہابیل کی
قربانی کو کھا لیا اور قابیل کے گہیوں کو چھوڑ دیا اس پر قابیل کے دل میں بعض وحسد
پیدا ہو گیا اور اس نے ہابیل کو قتل کر لینے کی ٹھان لی اور ہابیل سے کہا کہ میں
تجھے قتل کر دوں گا ہابیل نے کہا کہ قربانی قبول کرنا اللہ کا کام ہے اور وہ اپنے
بندوں ہی قربانی قبول کرتا ہے اگر تو متقی ہوتا تو ضرور تیری قربانی قبول ہوتی
ساتھ ہی حضرت ہابیل نے کہا کہ اگر تو میرے قتل کے لیے ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھ
پر اپنا ہاتھ نہیں اٹھاوں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میرا
اور تیرا گناہ تجھ پر ہی پرے اور تو ہی جہنمی ہو کیونکہ بے انصافوں کی یہی سزا ہے
آخر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا بوقت قتل ان کی عمر 20 برس تھی اور
قتل کا حادثہ مکہ مکرمہ میں جبل ثور کے پاس، جبل حرا کی گھاٹی میں ہوا بعض کا قول
ہے کہ شہر بعرہ میں جس جگہ مسجد اعظم بنی ہوئی ہے وہاں بروز منگل سانحہ رونما ہوا۔
(روح البیان، 2/379)
مسلمان کی جان بہت قیمتی ہے، اس لئے کہ اس کی زندگی اللہ
رَب العزت کی اطاعت، دین اسلام کی خدمت، مخلوق کی خیرخواہی اور الأمرُ بالمعروفِ و
النهىُ عن المنكر کا پیکر ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو کم از کم اس کی امید
ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ ظلم مطلقاً حرام ہے۔ مسلمان تو مسلمان اسلام نے
کسی کافر کو بھی بلا وجہ تکلیف دینے سے منع فرمایا ہے تو یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے
کہ مسلمان ہی دوسرے مسلمان کو تکلیف دے ؟
اللہ پاک کے آخری
نبی، رسول عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے بلا وجہ شرعی کسی مسلمان کو ایذا دی اس
نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی۔ (فیضان
ریاض الصالحین، 3/234)
اس روایت سے اندازہ لگائیے کہ جب مسلمان کو کوئی معمولی سی
تکلیف دینے کی یہ وعید ہے تو پھر اس کو ناحق قتل کرنے کی وعید کتنی سخت ہوگی۔
کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ
گناہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! بے
شک ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔
(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 78)
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ
لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ- (پ 15، الاسراء: 33) ترجمہ: اور جس جان کو اللہ نے حرمت
عطا کی ہے، اسے قتل نہ کرو، الا یہ کہ تمہیں (شرعاً) اس کا حق پہنچتا ہو۔
ناحق قتل کرنے والے یا قتل کا حکم دینے والے کے بارے میں
احادیث میں بھی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، ان میں سے چند روایات ملاحظہ ہوں
چنانچہ
احادیث مبارکہ:
(1) قیامت کے دن
مقتول قاتل کو لے کراس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی اور سر اس کے ہاتھ میں ہوں
گے اور گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ عرض کرے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے
قتل کیا تھا، حتیٰ کہ قاتل کو عرش کے قریب کھڑا کردے گا۔ (ترمذی، 5/23، حدیث: 3040)
(2) آگ کو ستر حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے 69 حصے قتل کا حکم
دینے والے کیلئے اور ایک حصہ قاتل کیلئے ہے۔ (شعب الایمان، 4/ 349، حدیث: 5360)
(3) ہر گناہ کے بارے میں اُمید ہے کہ اللہ بخش دے گا۔ لیکن
جو شرک کی حالت میں مر گیا اور جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر د یا اُن
دونوں کو نہیں بخشے گا۔ (مشکوۃ المصابیح، 2/289، حدیث: 3468)
(4) جو شخص ایک مسلمان کے قتل میں مدد کرے اگرچہ وہ ایک لفظ
بول کر بھی مدد کرے تو وہ اِس حال میں (قیامت کے دن) اللہ کے دربار میں حاضر ہو گا
کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان یہ لکھا ہو گا کہ یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو
جانے والا ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی مسلمان کو قتل کرنا بہت ہی سخت
گناہ کبیرہ ہے۔ پھر اگر مسلمان کا قتل اس کے ایمان کی عداوت سے ہو یا قاتل مسلمان
کے قتل کو حلال جانتا ہو تو یہ کفر ہو گا اور قاتل کافر ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے
جہنم میں جلتا رہے گا۔ اور اگر صرف دُنیوی عداوت کی بِنا پر مسلمان کو قتل کر دے
اور اِس قتل کو حلال نہ جانے جب بھی آخرت میں اس کی یہ سزا ہے کہ وہ مدتِ دراز تک
جہنم میں رہے گا۔ (جہنم کے خطرات، ص 30،31)
اللہ پاک ہمیں حقوق العباد کو صحیح معنوں میں ادا کرنے اور
ایک مسلمان کی حرمت کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں قتل ناحق جیسے
گناہ کبیرہ سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاه الخاتم النبيين ﷺ
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا
مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ
وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
احاديث طیبہ:
1۔ اللہ ایسے دو آدمیوں کو دیکھ کر ضحک فرمائے گا جن میں سے
ایک نے دوسرے کو قتل کیا ہو گا ( پھر بھی) وہ دونوں جنت میں داخل ہو نگے۔ اُن میں
سے ایک تو الله کی راہ میں لڑ کر شہید ہوا تھا پھر اللہ پاک نے اس کے قاتل کو توبہ
کی توفیق بخشی اور وہ مسلمان ہو گیا اور جہاد کرتا ہوا شہید ہوگیا۔ (فيضان رياض
الصالحین، 1/286)
2۔ جسے بھی ظلماً قتل کیا جاتا ہے تو حضرت آدم کے پہلے بیٹے
کے حصے میں بھی اُس کا خون ہوتا ہے کیونکہ اُس نے سب سے پہلے قتل کو ایجاد کیا۔(بخاری،
2/413، حدیث:3335)
3۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا،
والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔ ( مسلم،
ص 60، حدیث:260)
افسوس! بعض مسلمان بھی اس جرم کا ارتکاب دینی خدمت سمجھتے
ہیں، حالاں کہ قرآن و حدیث میں کسی انسان کو ناحق قتل کرنے پر ایسی سخت وعیدیں
بیان کی گئی ہیں جو کسی اور جرم پر بیان نہیں ہوئیں۔
قتل ناحق وہ قتل ہے جو بغیر کسی
غلطی کے کسی شخص کو قتل کر دینا ہے یعنی اس شخص کی غلطی بھی نہ ہو تو پھر بھی اس
کو قتل کر دینا یہ قتل ناحق کہلاتا ہے یعنی کسی کو ناجائز قتل کرنا ہے۔
کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ
گناہ ہے شریعت میں قتل عمد یعنی (اسلحہ کے ساتھ جان بوجھ کر قتل کرنے) کی سزا دنیا
میں فقط قصاص( یعنی قتل کا بدلہ قتل) ہے یعنی یہی متعین (مقرر) ہے ہاں اگر اولیائے
مقتول معاف کر دیں یا قاتل سے مال لے کر مصالحت ( صلح)کر لیں تو یہ بھی ہو سکتا
ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 78)
رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
احادیث مبارکہ:
1۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے
بڑھ کر ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)
2۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! بے شک
ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (ظاہری
گناہوں کی معلومات، ص 78)
پہلا ناحق قتل: قابیل اور ہابیل دونوں حضرت آدم علیہ السّلام کے فرزند تھے حضرت حوا کے حمل
میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے قابیل کے ساتھ اقلیما اور ہابیل کے ساتھ
لیوزا پیدا ہوئی اس وقت یہ دستور تھا ایک حمل کے لڑکے کا دوسرے حمل کی لڑکی سے
نکاح کیا جاتا تھا چنانچہ حضرت آدم نے ہابیل کا نکاح اقلیما سے کرنا چاہا مگر
قابیل اس پر راضی نہ ہوا کیونکہ اقلیما زیادہ خوبصورت تھی اس لیے وہ اس کا طلبگار
ہوا حضرت آدم نے اسے سمجھایا کہ اقلیما تیرے ساتھ پیدا ہوئی ہے اس لیے وہ تیری بہن
ہے تیرا اس سے نکاح نہیں ہو سکتا مگر قابیل اپنی ضد پر اڑا رہا بالاخر حضرت آدم علیہ
السلام نے یہ حکم دیا کہ تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں اپنی اپنی قربانیاں پیش کرو
جس کی قربانی قبول ہوگی وہی اقلیما کا حق دار ہوگا اس زمانے میں قربانی کی قبولیت
کی یہ نشانی تھی کہ اسمان سے ایک اگ اترتی اور اسے جلا ڈالتی چنانچہ قابیل کے
گیہوں کی کچھ بالیں اور ہابیل نے ایک بکری قربانی کے لیے پیش کی اسمانی اگ نے
ہابیل کی قربانی کو کھا لیا اور قابیل کے گیہوں کو چھوڑ دیا اس پر قابیل کے دل میں
بغض و حسد پیدا ہو گیا اور اس نے ہابیل کو قتل کر دینے کی ٹھان لی اور ہابیل سے
کہا کہ میں تجھے قتل کروں گا ہابیل نے کہا کہ قربانی قبول کرنا اللہ کا کام ہے اور
وہ اپنے متقی بندوں ہی کی قربانی قبول کرتا ہے اگر متقی ہوتا تو ضرور تیری قربانی
قبول ہوتی ساتھ ہی حضرت ہابیل نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر تو میرے قتل کے لیے ہاتھ
بڑھائے گا تو میں تجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالوں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں میں
چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ تجھ پر ہی پڑے اور تو ہی جہنمی ہو کیونکہ بے
انصافوں کی یہی سزا ہے آخر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا بوقت قتل ان
کی عمر 20 برس تھی اور قتل کا یہ حادثہ مکہ مکرمہ میں جبل سور کے پاس یا جبل حرا
کی گھاٹی میں ہوا بعض کا قول ہے کہ شہر بصرہ میں جس جگہ مسجد اعظم بنی ہوئی ہے
وہاں بروز منگل یہ سانحہ رونما ہوا۔ (روح البیان، 2/379)