اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 275) تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبرئیل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

معاملات کی درستی عبادات کی درستی سے زیادہ اہم ہے یہاں پر پڑوسی کے کچھ حقوق پیش خدمت ہیں:

1۔ عزت کی حفاظت کرنا: پڑوسی کے گھر میں تانک جھانک نہ کی جائے اور نہ ہی اپنی چھت پر ایسے چڑھے کہ اس کی بے پردگی ہو۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں سے زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرنے سے ہلکا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/226، حدیث: 23915)

2۔ حاجت روائی کرنا: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن وہ نہیں جو خود سیر ہو جاوے اور اس کے برابر میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔(شعب الایمان، 3/225، حدیث: 3389) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اپنے عزیزوں، قرابت داروں، پڑوسیوں، محلہ داروں کے حالات کی خبر رکھے اور اگر کسی کی حاجت مندی کا پتا چلے تو ان کی حاجت روائی کو غنیمت جانے۔ (مراۃ المناجیح، 6/821)

3۔ ہدیہ بھیجنا: روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے کسے ہدیہ دیا کروں؟ فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری، 2/173، حدیث: 2595) اس کی شرح میں ہے کہ پڑوسی کو ہدیہ دینا سنت ہے کہ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 3/162)

4۔ غم و مصیبت میں ہمدردی کرنا: اگر پڑوسی بیمار ہو جائے تو اس کی مزاج پرسی بلکہ ضرورت ہو تو تیمارداری کرنی چاہیئے اور اگر وفات پا جائے تو جنازے کے ساتھ شرکت کرے۔ حدیث پاک میں ہے: پڑوسیوں میں اللہ کے نزدیک بہتر وہ ہے جو اپنے پڑوسی کا خیر خواہ ہو۔ (ترمذی، 3/ 379، حدیث: 1951)

5۔ اپنے شر سے بچانا: حدیث پاک میں ہے: اور مومن نہیں ہوتا حتیٰ کہ اس کا پڑوسی اس کے شر سے امن میں ہو۔ (مراۃ المناجیح، 6/824)

گھر میں شور کرنا، بلند آواز سے ٹی وی گانے چلانا، پڑوسیوں کے عیبوں کو تلاش کرنا، اپنے گھر کے دھوئیں سے اسے تکلیف دینا وغیرہ وغیرہ پڑوسیوں کو شر پہنچانے میں شامل ہے۔


فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں۔ (معجم کبیر، 12/119، حدیث: 12741)

پڑوسیوں کے حقوق: پڑوسیوں کے چند حقوق یہ ہیں: اس کے ساتھ ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آنا۔ سلام کرنا اور جب بھی ملاقات ہو خیر و عافیت پوچھنا۔ بیمار ہونے پر عیادت کرنا۔ ضرورت اور مشکل وقت میں کام آنا۔ پڑوسی کی عزت آبرو اور مال و اولاد کا دفاع کرنا۔ پڑوسی کی پردہ پوشی کرنا اپنی نگاہوں کو اس کی عورتوں کو دیکھنے سے خاص طور پر بچانا۔

اللہ و رسول ﷺ کی محبت پانے کا ذریعہ: ایک دن حضور ﷺ وضو فرما رہے تھے تو صحابہ کرام آپ کے وضو کے دھوون کو لوٹ لوٹ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے یہ منظر دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو؟ صحابہ کرام نے عرض کی کہ ہم لوگ اللہ کے رسول ﷺ کی محبت کے جذبے میں یہ کر رہے ہیں یہ سن کر آپ نے ارشاد فرمایا کہ جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ و رسول سے محبت کرے یا اللہ و رسول اس سے محبت کریں اس پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ ہر بات میں سچ بولے اور اس کو جب کسی چیز کا امین بنایا جائے تو وہ امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (شعب الایمان، 2/201، حدیث: 1533)

فرمانِ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہے: اپنے پڑوسی کے ساتھ جھگڑا مت کرو کیونکہ یہ تو یہیں رہے گا لیکن جو لوگ تمہاری لڑائی کو دیکھیں گے وہ یہاں سے چلے جائیں گے اور مختلف قسم کی باتیں بنائیں گے۔ (کنز العمال، 5/49، حدیث:5599)

بسا اوقات پڑوسی سے کتنا ہی اچھا سلوک کیا جائے وہ احسان ماننے کے بجائے پریشان کرتا رہتا ہے ایسے میں اسلام برے کے ساتھ برا بننے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ صبر اور حسنِ تدبیر کے ساتھ اس برے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا ہے۔ معاشرے کو پرسکون اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کا حق ادا کرنے والا بنائے۔ آمین


اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے پڑوسیوں کے حقوق مقرر کیے ہیں جن کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت کے لیے ضروری ہے۔ اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔ یعنی قریب والے اور دور والے پڑوسیوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور اچھا برتاؤ کرو۔ اور حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام مجھ کو ہمیشہ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ پڑوسی کو پڑوسی کا وارث بنا ئیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014) ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ ایک بار رسول ﷺ وضو فرما رہے تھے اور صحابہ کرام آ پ کے وضو کے دھوون کو لوٹ لوٹ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے یہ منظر دیکھ کر آپ نے فرمایا: تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو؟ صحابہ کرام نے عرض کی: ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کے جذبے سے ایسا کرتے ہیں تو آ پ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا: جس کو یہ بات پسند ہو کی وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے یا اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کریں تو اس پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ ہر بات میں سچ بولے اور اس کو جب کسی چیز کا امین بنایا جائے تو امانت کو ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (شعب الایمان، 2/201، حدیث: 1533) اور رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ شخص کامل درجے کا مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔ (شعب الایمان، 3/225، حدیث: 3389) ہر حال میں اپنے پڑوسیوں کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔

(1) اپنے پڑوسیوں کے دکھ سکھ میں شریک رہے اور بوقتِ ضرورت ان کی ہر قسم کی امداد بھی کرتا رہے۔ (2) اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور خیر خواہی و بھلائی میں لگا رہے۔

(3) کچھ ہدیوں اور تحفوں کا بھی لین دین رکھے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ جب تم لوگ شوربا پکاؤ اس میں کچھ زیادہ پانی ڈال کر شوربے کو بڑھاؤ تاکہ تم اس کے ذریعے پڑوسیوں کی خیر خواہی اور ان کی مدد کر سکو۔ (مسلم، ص 1413، حدیث: 2625)

(4) اس کو اپنے شر سے محفوظ رکھے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک کی قسم مومن نہیں! اللہ پاک کی قسم مومن نہیں! سوال کیا گیا کہ کون لوگ مومن نہیں فرمایا وہ شخص جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)اسی طرح مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں ہیں۔(مسلم، ص43، حدیث: 46)

(5) پڑوسی کے گھر سے کسی چیز کو حقیر نہ جانے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے مسلمان عورتو! اپنی پڑوسن کے لیے کوئی چیز حقیر نہ سمجھو اگر چہ بکری کا ایک کھر ہی ہدیہ بھیجے۔ (بخاری، 2/165، حدیث: 2566)

(6) حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار پر لکڑی گاڑنے سے نہ روکے۔ (بخاری، 2/132، حدیث: 2463)


اللہ پاک نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت اچھا پڑوسی بھی ہے۔ پڑوسی سے مراد وہ شخص ہے جو دوسروں کی بنسبت قریب رہتا ہو۔

پڑوسیوں کے حقوق:

حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ پڑوسیوں کے چند حقوق بیان کرتے ہوئے ایک حدیث پاک نقل فرماتے ہیں: کیا تم جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اگر وہ تم سے مانگےتو اس کی مدد کرو،قرض مانگے تو قرض دو، اگر وہ محتاج ہو تو اسے کچھ دو، بیمار ہو تو عیادت کرو، مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ، اسے کوئی خوشی حاصل ہو تو مبارکباد دو، مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، بلااجازت اس کے مکان سے اونچا مکان بنا کر اس کی ہوا نہ روک دو، اگر تم پھل خریدو تو تحفۃً اسے بھی دو اور اگر ایسا نہ کرو تو پوشیدہ طور پر لاؤ اور تمہارے بچے انہیں لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج پہنچے گا۔ اپنی ہانڈی کے دھویں سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ مگر یہ کہ اسے بھی کچھ نہ کچھ بھجوا دو۔ کیا تم جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! پڑوسی کا حق وہی شخص ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث: 4243)

پڑوسی سے خیر خواہی: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! جب شوربا پکاؤ تو اسکا پانی زیادہ کرو! اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو۔ (مسلم، ص 1413، حدیث: 2625) مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ معمولی سالن بھی پڑوسیوں کو بھیجتے رہنا چاہيے، کیونکہ سرکار ﷺ نے یہاں شوربا فرمایا گوشت کا ہو یاکسی اور چیز کا، دوسرے یہ کہ ہر پڑوسی کو ہدیہ دینا چاہیے، قریب ہو یا دور، اگرچہ قریب کا حق زیادہ ہے، تیسرے یہ کہ لذت پر الفت اور محبت کو ترجيح دینا چاہیے، کیونکہ جب شوربے میں فقط پانی پڑے گا تو مزہ کم ہو جائے گا، لیکن اس کے ذریعے پڑوسیوں سے تعلقات زیادہ ہو جائیں گے۔اسی لیے فرمایا کہ صرف پانی ہی بڑھا دو! اگرچہ گھی اور مصالحہ نہ بڑھا سکو۔ ( مراةالمناجیح،3/ 121)

مزید کچھ حقوق یہ ہیں: پڑوسیوں کو تکلیف نہ دیجیے، گھر کے سامنے کچرا نہ ڈالیں، اس کے دروازے پر شور نہ کریں، اس کے گھر نہ جھانکیں، اونچی آواز سے ٹیپ ریکارڈر یا ڈیک وغیرہ نہ بجائیں چاہے نعت ہی کیوں نہ ہو، اپنے گھر کا پانی پڑوسیوں کے گھر کے سامنے نہ چھوڑیں، ان کے بچوں کو نہ جھاڑیں اور نہ ہی ماریں۔

رسول اکرم ﷺ نے ایک غزوہ پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا: آج وہ شخص ہمارے ساتھ نہ بیٹھے جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا دی ہو۔ ایک شخص نے عرض کی: میں نے پڑوسی کی دیوار کے نیچے پیشاب کیا تھا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آج تم ہمارے ساتھ نہ بیٹھو۔ (معجم اوسط، 6/ 481، حدیث: 9479)

اللہ کریم ہم سب پر رحم فرمائے اور ہم سب کو جُملہ حقوق العباد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


دینِ اسلام کا حسن یہ ہے کہ اس نے حقوق الله کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی طرف بھی مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ اگر ان پر عمل کیا جائے تو اچھا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ حقوق العباد میں سے ایک اہم حق حقِ پڑوسی ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔ (کے ساتھ بھلائی کرو)

پڑوسی کون؟ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 275)

پڑوسیوں کے چند حقوق زینتِ قِرطاس کیے جا رہے ہیں:

1) پڑوسیوں سے حسنِ سلوک کرنا: پڑوسی کا حق یہ ہے کہ اس سے اچھا سلوک کیا جائے کہ یہ تکمیلِ ایمان کا ذریعہ ہے۔ تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبرئیل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6014)

2) تحفوں کا لین دین: پڑوسیوں کو وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ تحفۃً دیتے رہنا چاہیے اس سے محبت بھی بڑھتی ہے اور ان کی خبرگیری اور مدد بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے کسے ہدیہ دیا کروں فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری، 2/173، حدیث: 2595)

3)قولی و فعلی تکلیف سے پڑوسی کو بچانا: پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے کوئی بھی تکلیف نہ پہنچائی جائے نہ قول سے اور نہ فعل سے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو الله تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

4) پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی مصیبت پر صبر کرنا: حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یادرکھئے! حقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیاجائے، بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حقِ پڑوس میں شامل ہے۔ (احیاء العلوم، 2/ 267)

آقا کریم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: جن لوگوں سے اللہ محبت فرماتا ہے ان میں وہ شخص بھی شامل ہے جس کا بُرا پڑوسی اسے ايذا دے تو وہ اس کی ايذا رسانی پر صبر کرے یہاں تک کہ اللہ اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔ (معجم کبیر، 2/152،حدیث:1637)

ہمیں ان احادیث پر عمل کرنا ہے تاکہ خوشگوار اور پُرسکون معاشرہ تشکیل پائے ورنہ

لطف تو جب ہے کہ کردار بھی کروٹ بدلے

ورنہ جذبے تو لیا کرتے ہیں انگڑائی بہت

الله پاک ہمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


قریب کے ہمسائے سے وہ مراد ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو۔ اور دور کے ہمسائے سے وہ مراد ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو۔ یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔(تفسیرات احمدیہ، ص 275)

دین اسلام ہی خوبصورت کامل دین ہے جس میں انسانوں کے بنیادی حقوق کو احسن آنداز سے پورا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ الحمدللہ دین اسلام پُڑ امن دین ہے جو پڑوسیوں کو بھی ان کے حقوق دیتا ہے مسلمان کو چاہیے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے ساتھ اچھا سلوک کرے خیرخواہی اور ان سے اچھا برتاؤ کرے۔ عبادت کی درستگی سے زیادہ اہم معاملات کی درستگی ہے۔ پڑوسی سے ہر وقت معاملہ رہتا ہے اس لیے ان سے اچھا برتاؤ کرنا بہت ضروری ہے۔ پڑوسی اگر کافر ہو پھر بھی اس کے حقوق ادا کریں۔ خیال رہے کہ پڑوسی کے حقوق اس قدر زیادہ ہیں کہ اس کا انداز اس حدیث مبارکہ سے لگائیے۔!

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت سے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جناب جبرئیل علیہ السلام ہمیشہ مجھے پڑوسی کے متعلق حکم الہی پہنچاتے رہے یہاں تک کے میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6105)

ایک اور حدیث پاک ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔ (مسلم، ص43، حدیث: 46)

افسوس کہ یہ سبق آج مسلمانوں کی ایک تعداد بھول چُکی ہے بلکہ آب تو ان کے تیر کا پہلا شکار ان کا پڑوسی ہی ہوتا ہے۔ اگرچہ ہر مسلمان اپنی شر سے بچانا ضروری ہے مگر پڑوسی کو بچانا نہایت ہی ضروری ہے کہ وہ ہمارے اچھے اخلاق کا زیادہ مستحق ہے۔ رب تعالی فرماتا: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔

پڑوسی کا حق یہ ہے کہ اسے تکلیف نہ دی جائے بلکہ اس کے ساتھ بھلائی کی جائے۔ کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ درویش اور غریب ہمسایہ اپنے امیر و دولت مند ہمسایہ کے گلے پڑے گا اور عرض کرے گا اے اللہ اس کو پوچھ کہ اس نے میرے ساتھ نیک سلوک کیوں نہ کیا اور اپنے گھر کا دروازہ مجھ پر کیوں بند رکھا۔ (مکاشفۃ القوب، ص 579)

ایک بزرگ کو گھر کے چوہے بہت ستاتے تھے۔ لوگوں نے کہا! حضرت آپ بلی کیوں نہیں رکھتے ؟ بزرگ نے فرمایا اس خطرے سے کہیں چوہے بلی کی آواز سے ڈر کر پڑوسی کے گھر نہ چلے جائیں اور جو بات میں اپنے لیے پسند نہیں کرتا تو کسی دوسرے کے لیے بھی پسند نہیں کرتا۔ (احیاء العلوم، 2/771)

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جانتے ہو ہمسائے کا حق کیا ہے؟ ہمسائے کا حق یہ ہے کہ اگر وہ تجھ سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرے اسے قرض کی ضرورت پیش آئے تو قرض دے غریب ہو تو اس کی مدد کرے بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے فوت ہوجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے اور اگر اُسے خوشی ملے تو مبارکباد دے مصیبت میں گرفتار ہو تو اس کی ہمدردی کرے اور اپنے گھر کی دیوار بلند نہ کرے تاکہ اسے ہوا اور روشنی پہنچانے میں رکاوٹ نہ ہو۔ اور جب تُو میوہ کھائے تو اسے دے اور اگر تم ایسا نہ کرو تو پوشیدہ کرکے کھاؤ۔ اور ایسا نہ کر کے تیرے بچے ہاتھ میں میوہ لیے باہر نکلیں اور ہمسایہ کے بچے دیکھ کر غصہ کریں۔ جو کچھ پکایا جائے اس میں سے اسے بھی دے تاکہ وہ بُرا نہ منائے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا جانتے ہو ہمسائے کا حق کیا ہے! اس خدائے واحد کی قسم جس کے قبضے قدرت میں میری جان ہے ہمسائے کا حق ادا نہیں کرسکتا مگر وہی جس پر اللہ کی رحمت ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث:4243)

ہمیں جاننا چاہیے کہ حقوق میں پہلے حساب پڑسیوں کا ہوگا۔ پڑوسی کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ چھت اور کھڑکی وغیرہ سے اس کے گھر جھانک کر نہ دیکھا جآئے اور آگر وہ تیری دیوار پر لکڑیاں رکھے تو منع نہ کرو اور اس کے مکان کا پرنالہ بند نہ کرو اور آگر تیرے گھر کے آگے کوڑا ڈالے تو جھگڑا نہ کرو اور پڑوسی کے جو عیب تجھے معلوم ہوں انہیں پوشیدہ رکھو۔ ( کیمیائے سعادت، ص 317 )

مومن کو چاہیے کہ اپنے عزیزوں قُرابت داروں پڑسیوں محلہ والوں کے حالات کی خبر رکھے۔ پڑوسی کے محتاج ہونے بھوکا ہونے کا پتا چلے تو ان کی حاجت روائی کو غنیمت جان کر کرے۔

آخر میں اللہ سے دعا ہے اے اللہ ہمیں تمام لوگوں کے حقوق اور عزت نفس کا خیال رکھنے کی توفیق دے دین اسلام پر استقامت عطا فرما اور حق تلفی سے ہمیں بچا۔ آمین یا رب العالمین 


اسلام نے جہاں والدین عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک، اخوت و ہمدردی اور پیار و محبت کی تعلیم دی ہے وہیں قرب و جوار میں بسنے والوں کو بھی محروم نہیں رکھا۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے خوشگوار اور مطمئن معاشرہ پیدا کرنے کے لئے انسانی زندگی کا انفرادی اور اجتماعی کوئی پہلو ایسا نہ چھوڑا جس سے ہمیں واسطہ نہ پڑتا ہو چنانچہ رہائش اور سکونت کے لحاظ سے سب سے زیادہ واسطہ اپنے ہمسائے یعنی پڑوسی سے پڑتا ہے اس لئے الله پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ نے ہمسایوں کے ساتھ حسن معاشرت خوشگوار رہن سہن کے لئے صرف ترغیب نہیں دی بلکہ اس کے حدود مقرر کر کے ایک معاشرتی نظام بنا کر باہمی خوشگوار تعلقات پر زور دیا پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ایسا بہترين عمل ہے کے جس کی تعلیم خود ہمارا رب ہمیں ارشاد فرما رہا ہے، چنانچہ پارہ 5 سورۂ نساء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔

دیکھا آپ نے اسلام کتنا پیارا مذہب ہے جو نہ صرف ہمیں والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے قریبی اور دور کے ہمسایوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے، قرآن کریم کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کی اہمیت ان کے ساتھ حسن سلوک بجا لانے اور ان کے حقوق کی بجا آوری کا ذہن دیا گیا ہے، چنانچہ

1۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا حق کیا ہے ؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا: جب وہ تم سے مدد مانگے مدد کرو اور جب قرض مانگے قرض دو اور محتاج ہو تو اسے دو اور جب بیمار ہو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو اور مر جائے تو جنازے کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو اور اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو، مگر اس میں سے کچھ اس کو بھی دو اور میوے خریدو تو اس کے پاس بھی ہدیہ کرو اور اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچے اسے باہر لے کر نہ نکليں کہ اس سے پڑوسی کو رنج ہو گا۔ تمہیں معلوم ہے پڑوسی کا حق کیا ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں اور وہ وہی ہیں جن پر الله پاک کی مہربانی ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث:4243) حضور ﷺ مسلسل پڑوسیوں کے متعلق وصیت فرماتے رہے یہاں تک کے لوگوں نے گمان کیا پڑوسی کو وارث کر دیں گے۔(بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

2۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا دی بیشک اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے الله پاک کو ایذا دی جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کیا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بیشک اس نے الله پاک سے لڑائی کی۔ ( کنزالعمال، 5/25، حدیث:24922)

2۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بہت سے پڑوسی قیامت کے دن اپنے پڑوسیوں کا دامن پکڑ لیں گے، مظلوم پڑوسی عرض کرے گا:یا رب! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھ پر اپنا دروازہ کیوں بند کر رکھا تھا اور اپنی ضرورت سے زائد چیزيں مجھ سے کیوں روکی تھیں۔ (مکاشفۃ القوب، ص 579)

پڑوسیوں کے عام حقوق: حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے۔ ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے۔ ان کی عورتوں کے سامنے نگاہيں نیچی رکھے۔ ان کی اولاد کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے۔ دین و دنیا کے معاملے میں انہيں رہنمائی کی ضرورت ہو تو ان کی رہنمائی کرے۔ (احیاء العلوم، 2 /772)

الله کریم ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہمسائیگی کو عربی میں جوار کہا جاتاہے اور پڑوسی کو جار کہتے ہیں۔ اسلام سب سے پہلا اور آخری مذہب ہے جس نے خوشگوار اور مطمئن معاشرہ پیدا کرنے کے لئے انسانی زندگی کوکوئی انفرادی اور اجتماعی پہلو ایسانہ چھوڑا جس سے ہمیں واسطہ نہ پڑتا ہو چنانچہ ر ہائش اور سکونت کے لحاظ سے سب سے زیادہ واسطہ ہر ایک کو اپنے ہمسایہ یعنی پڑوسی سے پڑتا ہے اس لئے اللہ تعالی اور اس کے نبی ﷺ نے ہمسایوں کے ساتھ حسن معاشرت خوشگوار رہن سہن اور بودو باش کے لئے بھی صرف ترغیب نہیں دی بلکہ اس کے حدود مقرر کر کے تقریبا ایک معاشرتی نظام بنا کر باہمی خوشگوار تعلقات پر زور دیا۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ قرآن حکیم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حقوق جوار میں دوسرے لوگوں کو بھی شامل فرمایا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہمسائے تین قسم کے ہوتے ہیں: ایسے لوگ جو ہمسایہ ہونے کے ساتھ رشتہ دار بھی ہوں۔ ایسے لوگ جو قرب و جوار میں رہتے ہوں لیکن رشتہ دار نہ ہوں۔ وہ لوگ جو ہم نشین اور دوست ہوں۔ انسان کا انسان کے ساتھ حق تلفی کا معاملہ حقوق العباد میں سرفہرست بڑا جرم اور بڑا گناہ ہے۔ ہمارے ہاں عموماً ہمسایوں کی اس طرح کی شکایات آج کل عام ہیں: بسنت کا غیر اسلامی تہوار کئی کبیر گناہوں کا ایک ساتھ منانا اور اس دوران گانے، باجے، میوزک، آتش بازی، لڑکوں لڑکیوں کا اجتماعی شور شرابہ اور فائرنگ کرنا وغیرہ عام ہے۔ دوسری بات روزانہ ہمسایوں کو تنگ کرنے کیلئے اونچے اسپیکر پر گانے لگا کر سننا جو عموماً انتہائی غلیظ اور واہیات، عشقیہ فتنے کا سبب ہوتے ہیں۔ تیسری بات ہمسایوں کو اونچی آوازوں میں اپنے گھر کے اندر شور شرابہ کر کے تنگ کرنا، بیماروں بوڑھوں، کم نیند کے مریضوں وغیره کو تنگ کرنا بھی بڑا گناہ ہے یہ تمام سال جاری رہنے والے غیر اخلاقی رویے ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کی حرکتیں ہیں جس کا گناہ ہوگا۔ نیز اس سے ایک دوسرے سے ناراضگی، بول چال کے خاتمے یا کشیدہ تعلقات لڑائی جھگڑے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، کسی نیند کرتے ہوئے کو تنگ کرنا شریعت میں سخت منع ہے، بڑے بے مثال اخلاق ان بزرگوں کے تھے کہ بیوی سارے دن کے کام کاج سے تھکی ہوئی سوئی ہے تو اس کی نیند اپنی رات کی عبادات کیلئے خراب کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔

ایک اہم معاشرتی کمزوری ہمسائیوں کا رات سونے کے وقت دیر سے گھر واپس لوٹنا ہے۔ اللہ پاک نے رات آرام سکون اور اگلے دن جسم کو کام کاج و عبادات کیلئے تندرست وتوانا رکھنے کیلئے بنائی ہے۔ ہمارے ہاں مرد خواتین راتوں کو دیر سے گھر آنے کے مرض مبتلا ہو گئے ہیں اس سے گھر میں اپنی محرم خواتین انتہائی تھکاوٹ بیماری کے باوجود انتظار میں جاگنے یا خاوند یا بیٹے کیلئے رات گئے دروازہ کھولنے کے تکلیف دہ عمل کا شکار ہوتی ہیں اس عادت بد کی وجہ سے محلے دار جو گہری نیند سور ہے ہوتے ہیں وہ ہمسائے کے بار بار اپنے اہل خانہ کو جگانے کیلئے گھنٹی بجانے، دروازہ زور زور سے پیٹنے یا گاڑی موٹر سائیکل کے لگاتار ہارن بجانے سے جاگ جاتے ہیں اور ان کی نیند ہمسایوں کی وجہ سے خراب ہو جاتی ہے۔ بعض مریض ایسے ہوتے ہیں جن کو دوبارہ فطری طور پر جلدی نیند نہیں آتی بعض لوگ قدرتی طور پر ایسی نیند کے عادی ہوتے ہیں کہ ایک دفعہ آنکھ کھلنے سے دوبارہ نہیں آتی یا ایسے بوڑھے لوگ جو کم سوتے ہیں وہ بہت اذیت سے گزرتے ہیں مسلمان کو تکلیف پہنچانا حرام ہے، گناہ کبیرہ ہے اس کا بھی آخرت میں گناہ ہوگا۔ محلہ داروں ہمسایوں میں ایک دوسرے کے گھر کے سامنے کوڑے کچرے کے تھیلے یا گندگی پھینکنا بھی بڑا برا عمل ہے۔ ہمیں تو حضور ﷺ نے حکم دیا ہے کہ کوئی مسلمان اگر راستے میں پتھر، کانٹا، شیشہ یا نقصان دہ چیز دیکھے تو ہٹا دے یہ نیکی ہے ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کے گھروں کے آگے اپنے گھر کو صاف کر کے گندگی بکھیرنے کی عادات بھی معاشرے کے ماحول میں صفائی نہ ہونے کی بڑی وجہ ہے ہمیں اپنے ہمسایوں میں اپنے اعمال سے شرافت، ہمدردی، قربانی، اعلی اخلاق، دوستی، غمگساری، اللہ کے نام پر خرچ کرنا، برے وقت کام آنا، روٹی، دوائی، دعاؤں جیسے تحفے دینے اور معاشرتی حقوق کی ادائیگی کیلئے ہر گھڑی تیار اور اسلامی طرز معاشرت کے اصول اپنانے چاہئیں تا کہ ہم اپنے نیک مقبول اعمال حقوق العباد ( انسانوں مسلمانوں) میں کوتاہی کر کے برباد نہ کر دیں ہم یہی سمجھتے رہیں کہ ہم نے نماز روزہ و ز کو ۃ یا حج کے فرائض ادا کئے ہیں اور دوسری طرف وہ تمام غلط کام کرتے رہیں جس سے مسلمانوں کے حقوق ادا نہ ہوتے ہوں۔

اس لئے معلوم ہوا کہ اسلام نے صرف مسلمان ہمسایہ کے ساتھ ہی نیک سلوک کا حکم نہیں دیا بلکہ غیر مسلم ہمسایہ کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اس سلسلے میں حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: غیر مسلم ہمسایہ کا ایک حق ہے، مسلمان ہمسایہ کے دوحق اور مسلمان رشتہ دار اور ہمسایہ کے تین حق ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ایسے ہمسایوں پر ناراضگی کا اظہار فرمایا جو ہمسایہ کی ضرورت کے وقت معمولی ضرورت کی چیز اپنے ہمسایہ کونہ دیں۔


پڑوسی وہ ہے جو ہمارے گھر کے قریب ہو ان کا ہم پر بہت بڑا حق ہے اگر وہ نسب میں ہم سے قریب ہوں اور مسلمان بھی ہوں تو ان کے تین حق ہیں: پڑوسی کا حق، قرابت داری کا حق اور اسلام کا حق۔ اسی طرح اگر وہ قریبی ہے لیکن مسلمان نہیں تو اس کے دو حق ہیں: پڑوسی ہونے کا اور قرابت داری کا۔ اور رشتہ میں دور ہے اور مسلمان بھی نہیں تو اس کا ایک حق ہے یعنی پڑوسی کا حق۔

اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ نے امت کو جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور ان کے حقوق پہچانے اور ادا کئے جائیں، چنانچہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔

1۔ حدیث مبارکہ میں آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اگر قرض مانگےتو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ پوشی کرو۔ ( معجم کبیر، 19/419، حدیث: 1014)

2۔ رسولُ کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک تین طرح کے لوگوں سے مَحبّت فرماتا ہے(ان میں سے ایک وہ ہے) جس کا بُرا ”پڑوسی“ اسے تکلیف دے تو وہ اُس کے تکلیف دینے پر صبر کرے یہاں تک کہ اللہ اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔ (معجم کبیر، 2/152، حدیث: 1637)

3۔ ارشاد فرمایا: جس کے شر سے اس کا پڑوسی بے خوف نہ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم شریف، ص 43، حدیث:73 )

4۔ ارشاد فرمایا: جو خود شکم سیر ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں۔ (معجم کبیر، 12/ 119، حدیث:12741)

اس سے معلوم ہوا کہ پڑوسیوں کے حق ادا کرنے کی کس قدر اہمیت ہے۔ معاشرے کو پر سکون اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لئے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ایک پر امن معاشرہ بن سکتا ہے۔ اللہ کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


ماں باپ بہن بھائی اور رشتے داروں کے بعد پڑوسیوں کے بے شمار حقوق بیان کیے گئے ہیں اور ہم پر یہ حقوق لازم ہیں۔ سرکار مدینہ، راحت قلب و سینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا پڑوسی تین قسم کے ہیں۔ (1) وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہوتا ہے۔ (2) وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوتے ہیں۔ (3) وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوتے ہیں۔ مسلمان رشتہ دار کے تین حق ہیں، حق اسلام اور رشتہ داری کا حق،مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں، حق پڑوس اور حق اسلام۔ مشرک، پڑوسی کا صرف ایک حق ہے حق پڑوس۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560 ) اس حدیث پاک میں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے مشرک کا بھی صرف پڑوس کے باعث حق ثابت فرمایا۔

پڑوسی کو وارث نہ بنا دیا جائے: حضرت امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا ان کا غلام بکری کی کھال اتار رہا تھا تو آپ نے فرمایا: اے غلام! جب تو کھال اُتارے تو سب سے پہلے ہمارے پڑوسی کو دینا حتی کہ آپ نے یہ جملہ کئی بار فرمایا۔ غلام نے کہا: آپ کتنی بار یہ کہیں گے؟ فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمیں مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے حتی کہ ہمیں

خدشہ ہوا کہ کہیں پڑوسی کو وارث نہ بنا دیں۔ (ترمذی، 3/379، حدیث: 1949)

پڑوسیوں کے حقوق:

1۔ پڑوسیوں کے ہم پر جو حقوق ہیں ان میں سے پہلا یہ ہے کہ ان کی عزت کی جائے عزت کی حفاظت کی جائے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6019)

2۔ پڑوسیوں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ سلام میں پہل کرے سلام میں پہل تو ہر مسلمان کے ساتھ کرنی چاہیے لیکن یہاں خاص بیان کیا گیا کہ پڑوسیوں سے سلام میں پہل کی جائے تاکہ ان کے دل میں محبت پیدا ہو سکے۔

3۔ پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کی جائے۔ یعنی اپنے پڑوسی کی ہر حالت پر نظر ہو اور اگر وہ بیمار ہو، پریشان ہو تو اس کی عیادت کی جائے۔

4۔ پڑوسی سے جھگڑا نہ کرنا بھی ایک حق ہے کہ خلیفہ اول امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ اپنے پڑوسی سے جھگڑا کر رہے ہیں تو آپ نے ان سے فرمایا: اپنے پڑوسی سے مت جھگڑو کیونکہ لوگ چلے جاتے ہیں جبکہ یہ بات باقی رہ جاتی ہے۔(کنز العمال، 5/79، حدیث:25599)

5۔ پڑوسیوں کا ہم پر ایک یہ بھی حق ہے کہ مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا جائے یعنی اگر اس کو مالی کوئی پریشانی ہو یا اگر ان پر قرض ہو تو اُس معاملے میں بھی ان کی مدد کی جائے۔ اور ان حقوق کو کون ادا کر سکتا ہے اس بارےمیں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! پڑوسی کا حق صرف وہی ادا کر سکتا جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (شعب الایمان، 7/73، حدیث: 9560) اس حدیث مبارکہ سے ہمیں یہ پتا چلا کہ پڑوسیوں کے حقوق صرف وہی ادا کرسکتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور یہ بات بھی کہ جو اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے اس پر ہی رحم کیا جاتا ہے اس لیے ہمیں چاہیئے کہ ہم پڑوسیوں کے حق ادا کریں کیونکہ یہ حقوق العباد میں سے ہے اور یہ تب تک معاف نہیں ہوں گے جب تک یہ لوگ خود معاف نہیں کریں گے اس لیے ہمیں اس دنیا میں ہی ان سے معافی مانگنی چاہیے بلکہ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ان کو کوئی بھی تکلیف نہ دیں۔ اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک، ہمدردی و اخوت، پیار و محبت، امن و سلامتی اور ایک دوسرے کے دکھ میں شریک ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں مسلمان کے قرب و جوار (پڑوسی) کو محروم نہیں رکھا بلکہ انکی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا ایسا درس دیا ہے کہ اگر ان تعلیمات پر عمل کیا جائے تو ایک مدنی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر کوئی دوسرے کی جان و مال اور عزت کا محافظ ہو دوسروں کے حقوق کو اپنا فرضِ عین سمجھے۔

قرآنِ کریم میں بھی پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے کی تلقین ارشاد فرمائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی(کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔

آئیے احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں پڑوسی کے حقوق جاننے سے پہلے یہ جان لیتی ہیں کہ حقوق کہتے کسے ہیں؟

چنانچہ حقوق جمع ہے حق کی جس کے معنیٰ ہیں فرد یا جماعت کا ضروری حصہ۔ (معجم وسیط، ص 188)

پڑوسیوں کے حقوق:

1۔ نبی کریم ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا: الله کی قسم! وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول الله! وہ کون ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کی برائیوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)

2۔ اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسول الله ﷺ نے کسی شخص کے کامل مومن ہونے اور نیک و بد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرما دیا۔

اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار نہیں دیتیں جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے مگر اس کا پڑوسی بھوکا پیاسا رہے۔ چنانچہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو خود شکم سیر ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں۔ (معجم کبیر، 12/119، حدیث: 12741)

3۔ پڑوسی سے حسنِ سلوک تکمیل ایمان کا ذریعہ جبکہ ان کو ایذا دینا اور انکی حق تلفی کر دینا ان سے بدسلوکی کرنا دنیا و آخرت کے نقصان کا حقدار بنا سکتی ہے، جیسا کہ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: جس کے شر سے اس کا پڑوسی بے خوف نہ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص43، حدیث:73)

4۔ پڑوسی کو تکلیف دینا پیارے آقا ﷺ کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی بے شک اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے الله پاک کو ایذا دی نیز جس نے پڑوسی سے جھگڑا کیا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے الله سے لڑائی کی۔ (ترغیب و ترہیب، 3/286، حدیث: 3907)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبرائیل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

5۔ فرمانِ صدیقِ اکبر رضی الله عنہ: اپنے پڑوسی کے ساتھ جھگڑا مت کرو کیونکہ یہ تو یہیں رہے گا لیکن جو لوگ تمہاری لڑائی کو دیکھیں گے وہ یہاں سے چلے جائیں گے اور مختلف قسم کی باتیں بنائیں گے۔ (کنز العمال، 5/79، حدیث:25599)

6۔ مزید پڑوسی کے حقوق میں یہ بھی ہے کہ جب وہ بیمار ہو اسکی عیادت کی جائے، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کی جائے اگر عیب دار ہو جائے تو اس کی پردہ پوشی کی جائے، مدد طلب کرے تو اسکی مدد کی جائے، اسکی خوشی میں مبارک باد دی جائے اور مصیبت میں اسکی تعزیت کی جائے۔

7۔ ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے: سالن کی خوشبو سے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ، ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو صحیح ہے، اگر پھل خرید کر لاؤ تو اسے بھی اس میں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ایسا نہ کر سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ اور پڑوسی کے بچوں کو تکلیف دینے کے لیے تمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560)

الله پاک ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کو ہر طرح کی اذیت پہنچانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق کو بڑی اہمیت دی ہے ہمارے معاشرے میں جو تعلقات باہم رابطے کا ذریعہ بنتے ہیں ان میں رشتہ داروں کے بعد ہمسائیگی کا تعلق ہے، ہم سب کا مشاہدہ ہے ہمسائے نہایت ہی قریب ہونے کی وجہ سے رشتہ داروں سے بھی پہلے مدد کو پہنچتے ہیں خالصتاً انسانی مسئلہ اور ہمدردی کی بنا پر لوگوں کو ہمسایہ کی ضرورت پڑتی رہتی ہے لہٰذا ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنے ہمسائیوں کے حقوق کے معاملے میں بےتوجہی نہ برتے ان کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کرے۔ اللہ کریم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔

ہمسائیوں سے کون لوگ مراد ہیں؟ اس حوالے سے مفسرین کے تین اقوال ہیں:

1۔ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ جو محلہ دور تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو۔

2۔ جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی ہو وہ قریب کا ہمسایہ اور جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ

٣ ٭جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی ہو وہ قریب کا ہمسایہ اور جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 275)

پڑوسی کے حقوق عام مسلمانوں کے حقوق سے بھی زیادہ ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پڑوسی تین قسم کے ہیں: ایک وہ پڑوسی جسکا ایک ہی حق ہے دوسرا وہ جس کے دو حق ہیں اور تیسرا وہ جس کے تین حقوق ہیں اور وہ جس کے تین حقوق ہیں وہ مسلمان اور قریبی رشتہ دار ہے اور جس کے دو حق ہیں وہ مسلمان ہے اور جس کا ایک حق ہے وہ مشرک ہے۔ (حلیۃ الاولیاء، 5/235، حدیث: 6948)

آپ ﷺ کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے مشرک کے حق کو ثابت کرنا پڑوسی کے حق کی تاکید پر دلالت کرتا ہے۔

پڑوسی کے حقوق:

حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اگر وہ تم سے مدد مانگے تو اسکی مدد کرو، قرض مانگے تو قرض دو، اگر وہ محتاج ہو تو اسے کچھ دو، بیمار ہو تو عیادت کرو، مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ، اسے کوئی خوشی حاصل ہو تو مبارکباد دو، مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، بلا اجازت اسکے مکان سے اونچا مکان بنا کر اسکی ہوا نہ روک دو، اگر تم پھل خریدو تو تحفۃً اسے بھی دو اور اگر ایسا نہ کرو تو پھر پوشیدہ طور پر لاؤ اور تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج پہنچے گا، اپنی ہانڈی کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ مگر یہ کہ اسے بھی کچھ نہ کچھ بھجوا دو، کیا تم جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے! پڑوسی کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ کریم رحم فرمائے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث:4243)

پڑوسیوں کی خاطر شوربا زیادہ پکالو: حدیث پاک میں پڑوسیوں سے خیر خواہی کرنے کی ترغیب آئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! جب شوربا پکاؤ تو اسکا پانی زیادہ کرو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو۔ (مسلم، ص 1413، حدیث: 2625) مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ معمولی سالن بھی پڑوسیوں کو بھیجتے رہنا چاہیے، کیونکہ آقا ﷺ نے یہاں شوربا فرمایا گوشت کا ہو یا کسی اور چیز کا۔ دوسرا یہ کہ ہر پڑوسی کو ہدیہ دینا چاہیے قریب ہو یا دور، اگرچہ قریب کا حق زیادہ ہے۔ تیسرا یہ کہ ہمیشہ لذت پر الفت اور محبت کو ترجیح دینا چاہیے کیونکہ جب شوربے میں فقط پانی پڑے گا تو مزہ کم ہو جائے گا لیکن اس کے ذریعے پڑوسیوں سے تعلقات زیادہ ہو جائیں گے اسی لیے فرمایا صرف پانی ہی بڑھادو اگرچہ گھی اور مصالحہ نہ بڑھا سکو۔ (مراۃ المناجیح،3/121)

پڑوسی کو تکلیف نہ دیجیے: کوئی تکلیف دے تو اس کے شر سے بچنے کے لیے اٹھا جا سکتا ہے، آئندہ اس سے ملنے سے بچا جا سکتا ہے اس سے تعلقات ختم کیے جاسکتے ہیں لیکن اگر پڑوسی ہی تکلیف دینے پر تل جائے تو انسان کہاں پناہ ڈھونڈے؟ کیونکہ اس کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا یا مکان بدلنا پڑے گا جو کہ بہت دشوار ہے، آقا ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جو اللہ کریم اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو ہرگز تکلیف نہ دے۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 47) حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: پڑوسی کی حاجت پوری کرنے کے لیے اس کی مدد کرے، اس سے برائی دور کرے اور اس پر خصوصی عطائیں کرے تاکہ وعید کا مستحق نہ ہو۔ مزید فرماتے ہیں: حضرت قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے: جو شریعت اسلامیہ کا التزام کرنا چاہے اس کے لیے پڑوسی اور مہمان کا اکرام اور ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا بھی لازم ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث:4243)

وہ ایمان والا نہیں ہو سکتا: آقا ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: اللہ کی قسم! وہ مؤمن نہیں، اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں، اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں ہوسکتا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ! وہ کون ہے؟ فرمایا: جس کی برائیوں سے اسکا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ ( بخاری، 4/4، حدیث:6016) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: تین بار فرمانا تاکید کے لیے ہے۔ لا یؤمن میں کمال ایمان کی نفی ہے یعنی مؤمن کامل نہیں ہو سکتا، نہیں ہو سکتا، نہیں ہو سکتا۔ حضور ﷺ نے اسکی وضاحت پہلے ہی نہ فرمادی، بلکہ سائل کے پوچھنے پر بتایا تاکہ سننے والوں کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے، جو بات بعد میں معلوم ہو وہ بہت دلنشین ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6/555)

جتنا خود کو دوسروں کے شر سے بچانا ضروری ہے اتنا ہی اپنے شر سے دوسروں کو بچانا۔ اللہ کریم ہمیں دوسروں کو تکلیف دینے سے بچائے اور دوسروں کو راحتیں پہنچانے والا بنائے۔ آمین یارب العالمین