قریب کے ہمسائے سے وہ مراد ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو۔ اور دور کے ہمسائے سے وہ مراد ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو۔ یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔(تفسیرات احمدیہ، ص 275)

دین اسلام ہی خوبصورت کامل دین ہے جس میں انسانوں کے بنیادی حقوق کو احسن آنداز سے پورا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ الحمدللہ دین اسلام پُڑ امن دین ہے جو پڑوسیوں کو بھی ان کے حقوق دیتا ہے مسلمان کو چاہیے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے ساتھ اچھا سلوک کرے خیرخواہی اور ان سے اچھا برتاؤ کرے۔ عبادت کی درستگی سے زیادہ اہم معاملات کی درستگی ہے۔ پڑوسی سے ہر وقت معاملہ رہتا ہے اس لیے ان سے اچھا برتاؤ کرنا بہت ضروری ہے۔ پڑوسی اگر کافر ہو پھر بھی اس کے حقوق ادا کریں۔ خیال رہے کہ پڑوسی کے حقوق اس قدر زیادہ ہیں کہ اس کا انداز اس حدیث مبارکہ سے لگائیے۔!

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت سے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جناب جبرئیل علیہ السلام ہمیشہ مجھے پڑوسی کے متعلق حکم الہی پہنچاتے رہے یہاں تک کے میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6105)

ایک اور حدیث پاک ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔ (مسلم، ص43، حدیث: 46)

افسوس کہ یہ سبق آج مسلمانوں کی ایک تعداد بھول چُکی ہے بلکہ آب تو ان کے تیر کا پہلا شکار ان کا پڑوسی ہی ہوتا ہے۔ اگرچہ ہر مسلمان اپنی شر سے بچانا ضروری ہے مگر پڑوسی کو بچانا نہایت ہی ضروری ہے کہ وہ ہمارے اچھے اخلاق کا زیادہ مستحق ہے۔ رب تعالی فرماتا: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔

پڑوسی کا حق یہ ہے کہ اسے تکلیف نہ دی جائے بلکہ اس کے ساتھ بھلائی کی جائے۔ کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ درویش اور غریب ہمسایہ اپنے امیر و دولت مند ہمسایہ کے گلے پڑے گا اور عرض کرے گا اے اللہ اس کو پوچھ کہ اس نے میرے ساتھ نیک سلوک کیوں نہ کیا اور اپنے گھر کا دروازہ مجھ پر کیوں بند رکھا۔ (مکاشفۃ القوب، ص 579)

ایک بزرگ کو گھر کے چوہے بہت ستاتے تھے۔ لوگوں نے کہا! حضرت آپ بلی کیوں نہیں رکھتے ؟ بزرگ نے فرمایا اس خطرے سے کہیں چوہے بلی کی آواز سے ڈر کر پڑوسی کے گھر نہ چلے جائیں اور جو بات میں اپنے لیے پسند نہیں کرتا تو کسی دوسرے کے لیے بھی پسند نہیں کرتا۔ (احیاء العلوم، 2/771)

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جانتے ہو ہمسائے کا حق کیا ہے؟ ہمسائے کا حق یہ ہے کہ اگر وہ تجھ سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرے اسے قرض کی ضرورت پیش آئے تو قرض دے غریب ہو تو اس کی مدد کرے بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے فوت ہوجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے اور اگر اُسے خوشی ملے تو مبارکباد دے مصیبت میں گرفتار ہو تو اس کی ہمدردی کرے اور اپنے گھر کی دیوار بلند نہ کرے تاکہ اسے ہوا اور روشنی پہنچانے میں رکاوٹ نہ ہو۔ اور جب تُو میوہ کھائے تو اسے دے اور اگر تم ایسا نہ کرو تو پوشیدہ کرکے کھاؤ۔ اور ایسا نہ کر کے تیرے بچے ہاتھ میں میوہ لیے باہر نکلیں اور ہمسایہ کے بچے دیکھ کر غصہ کریں۔ جو کچھ پکایا جائے اس میں سے اسے بھی دے تاکہ وہ بُرا نہ منائے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا جانتے ہو ہمسائے کا حق کیا ہے! اس خدائے واحد کی قسم جس کے قبضے قدرت میں میری جان ہے ہمسائے کا حق ادا نہیں کرسکتا مگر وہی جس پر اللہ کی رحمت ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث:4243)

ہمیں جاننا چاہیے کہ حقوق میں پہلے حساب پڑسیوں کا ہوگا۔ پڑوسی کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ چھت اور کھڑکی وغیرہ سے اس کے گھر جھانک کر نہ دیکھا جآئے اور آگر وہ تیری دیوار پر لکڑیاں رکھے تو منع نہ کرو اور اس کے مکان کا پرنالہ بند نہ کرو اور آگر تیرے گھر کے آگے کوڑا ڈالے تو جھگڑا نہ کرو اور پڑوسی کے جو عیب تجھے معلوم ہوں انہیں پوشیدہ رکھو۔ ( کیمیائے سعادت، ص 317 )

مومن کو چاہیے کہ اپنے عزیزوں قُرابت داروں پڑسیوں محلہ والوں کے حالات کی خبر رکھے۔ پڑوسی کے محتاج ہونے بھوکا ہونے کا پتا چلے تو ان کی حاجت روائی کو غنیمت جان کر کرے۔

آخر میں اللہ سے دعا ہے اے اللہ ہمیں تمام لوگوں کے حقوق اور عزت نفس کا خیال رکھنے کی توفیق دے دین اسلام پر استقامت عطا فرما اور حق تلفی سے ہمیں بچا۔ آمین یا رب العالمین