1- شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامْ کی قوم کی نافرمانیاں

2- حضرت شعیب علیہ السلامکو دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ عَنْہ کا قول ہے کہ اللہ پاک نے حضرت شعیب علیہ السلامکو اصحاب ایکہ کی طرف بھی مبعوث فرمایا تھا اور اہلِ مدین کی طرف بھی ۔ اصحاب ایکہ توابر سے ہلاک کئے گئے اور اہلِ مدین زلزلہ میں گرفتار ہوئے اور ایک ہولناک آواز سے ہلاک ہوگئے۔

3- آپ علیہ السلامکی قوم میں شرک کے علاوہ بھی جو گناہ عام تھے ان میں سے ایک ناپ تول میں کمی کرنا اور دوسرا لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا اور تیسرا لوگوں کو شعیب علیہ السلامسے دور کرنے کی کوششیں کرنا تھا۔ آپ علیہ السلامنے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے اور لوگوں کو ان کی اشیاء گھٹا کر دینے سے منع کیا اور زمین میں فساد کرنے سے روکا ۔

4- آپ علیہ السلامکی مدین کو تبلیغ :

5- مدین حضرت شعیب علیہ السلامکے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا۔

6- اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا : انہوں نے فرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی تو ناپ اور تول پورا پورا کرو اور لوگوں کوان کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان لاؤ۔

7- شعیب علیہ السلاماوراصحاب ایکہ:

8- ''ایکہ'' جھاڑی کو کہتے ہیں ان لوگوں کا شہر سرسبز جنگلوں اور ہرے بہرے درختوں کے درمیان تھا۔ اللہ پاک نے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے حضرت شعیب علیہ السلامکو بھیجا۔انہوں نے آپ کو جھٹلا دیا اورکہا اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا کر ہم کو ہلاک کردو۔ا س کے بعداس قوم پر خداوند قہار و جبار کا قاہرانہ عذاب آگیا وہ عذاب کیا تھا؟ سنئے اور عبرت حاصل کیجئے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ پاک نے ان لوگوں پر جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جس سے پوری آبادی میں شدید گرمی اور لو کی حرارت و تپش پھیل گئی اور بستی والوں کا دم گھٹنے لگا تو وہ لوگ اپنے گھروں میں گھسنے لگے اور اپنے اوپر پانی کا چھڑکاؤ کرنے لگے مگر پانی اور سایہ سے انہیں کوئی چین اور سکون نہیں ملتا تھا۔ اور گرمی کی تپش سے ان کے بدن جھلسے جارہے تھے۔ پھر اللہ پاک نے ایک بدلی بھیجی جو شامیانے کی طرح پوری بستی پر چھا گئی اور اس کے اندر ٹھنڈک اور فرحت بخش ہواتھی۔ یہ دیکھ کر سب گھروں سے نکل کر اس بدلی کے شامیانے میں آگئے جب تمام آدمی بدلی کے نیچے آگئے تو زلزلہ آیا اور آسمان سے آگ برسی۔ جس میں سب کے سب ٹڈیوں کی طرح تڑپ تڑپ کر جل گئے۔ ان لوگوں نے اپنی سرکشی سے یہ کہا تھا کہ اے شعیب! ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا کر ہم کو ہلاک کردو۔ چنانچہ وہی عذاب اس صورت میں اس سرکش قوم پر آگیا اور سب کے سب جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔(تفسیر صاوی،ج4، ص 1474،پ19، الشعرآء:189) (عجائب القرآن مع غرائب القرآن ص(348:


حضرت شعیب علیہ السلام اللہ پاک کے نبی ہیں، آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے،  دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح آپ نے بھی اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی اور اللہ پاک کی وحدانیت کی گواہی دی اور اُسی کو عبادت کے لائق تسلیم کرنے کا حکم دیا، آپ کے قبیلے کا نام مدین تھا، ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، مدین ان کی بستی کا نام اس لئے تھا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ایک بیٹے کی اولاد میں سے تھے، حضرت شعیب علیہ السلام ان کی قوم میں سے تھے۔

حضرت شعیب علیہ السلام کو بھی باکمال معجزات سے نوازا گیا، آپ کا ایک معجزہ یہ تھا کہ آپ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو بکریاں تحفے میں دیں اور فرمایا کہ یہ بکریاں سفید اور سیاہ بچے جنیں گی، چنانچہ جیسے آپ علیہ السلام نے فرمایا، ویسے ہی ہوا۔

جیسے دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی قوموں نے سرکشی کی اور عذابِ الہی کے حقدار بنے، ایسے ہی یہ قوم بھی اللہ پاک کے نبی کی نافرمانی سے اللہ پاک کے عذاب میں مبتلا ہوئی، یہ قوم ناپ تول میں کمی کیا کرتی اور لوگوں میں اشیاء کو کم کرکے فروخت کرتی، جس پر حضرت شعیب علیہ السلام نےان کو منع فرمایا اور اللہ پاک سے ڈرنے کا حکم دیا، جب انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کے حکم کو جھٹلایا اور اللہ پاک کی وحدانیت پر انکار کرتے ہوئے جواب دیا، جس کا قرآن پاک میں ذکر ہے:

"یعنی کیا ہم ان خداؤں کی عبادت کرنا چھوڑدیں، جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں۔"(ثمود:87)

اس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے بت پرستی کو چھوڑنے کا انکار کیا اوراور حقیقی معبود کو جھٹلایا، دوسری بات ایسے کہی:

یعنی کیا ہم مال میں اپنی مرضی کے مطابق عمل نہ کریں۔"

اس بات سے معلوم ہوا کہ وہ اپنے مال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنا چاہتے تھے اور چاہے وہ اُس کو حلال طریقے سے خرچ کریں یا حرام، بھلے اس کو بڑھا کر اشیاء کو فروخت کریں۔

جب انہوں نے اللہ پاک کے حکم کو جھٹلایا تو اللہ پاک نے انہیں عذاب میں مبتلا کر دیا، جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے :

"تو انہیں شدید زلزلے نے اپنی گرفت میں لے لیا تو صبح کے وقت وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔"

اس آیت میں یوں بیان کیا گیا کہ ظالموں کو خوفناک چیخ نے پکڑ لیا تو وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے، شاید یوں ہو کہ جب زلزلہ آ رہا ہو تو پہلے چیخ کی آواز آئی ہو، حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم جو ایمان لا چکے تھے، اللہ پاک نے انہیں عذاب سے محفوظ رکھا اور بے ایمانوں کو زلزلے کی گرفت کر دیا، جس کی وجہ سے صبح ان کا شہر ویران ہوگیا اور زلزلے نے ان کی بستی کو تہس نہس کر دیا تو اللہ پاک کی نافرمانی اور رسول کے احکام کو جھٹلانے سے کیسے عذاب نازل ہوا۔

اللہ پاک ہمیں اپنی نافرمانی سے بچائے اور اللہ پاک کے تمام احکام کو پورا کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔آمین 


حضرت شعیب علیہ السلامکی قوم کی نافرمانیاں

آپ کا نام شعیب اور احسن انداز سے بیان کرنے کی وجہ سے آپ کا لقب خطیب الانبیاء ہے اللہ پاک نے آپ کو دو قوموں کی طرف مبعوث فرمایا ایک بار اہل مدین اور دوسری بار اصحاب ایکہ کی طرف بھیجا۔

آپ کی قوموں کا تعارف

اہل مدین سے وہ شہر مراد ہے جس میں آپ کی قوم رہتی تھی

اصحاب ایکہ سے مراد سر سبز جنگل اور جھاڑیوں والے اور ان کو قرآن پاک میں اصحاب ایکہ فرمایا گیا

اہل مدین کی نافرمانیاں

حضرت شعیب علیہ السلامنے اہلِ مدین کو جب دعوتِ حق کی تبلیغ فرمائی تو انہوں نے آپ کو جھٹلایا اور کفر و شرک پر اڑے رہے اہل مدین بہت سی نافرمانیاں کرتے تھے جن میں سے چند درج ذیل ہے ۔

اللہ کی وحدانیت کا انکار کرنا،شرک کرنا،بتوں کی پوجا کرنا،اہل مدین کو اللہ پاک نے بے شمار نعمتوں سے نوازا لیکن وہ شکر ادا نہ کرتے تھے،

ناپ تول میں کمی کرنا،قتل و غارت کرنا،ڈاکہ ڈالنا، لوگوں کو اذیت دینا ،حرام کام کرنا ، ظلم کرنا ان کا مشغلہ تھا ،مسلمانوں اور اہل علم پر طنز اور مذاق کرنا ان کو بیماری اور غربت کی وجہ سے عار دلانا۔

اہل ِمدین پر عذابِ الہی

حضرت شعیب علیہ السلامکی مسلسل تبلیغ کے باوجود کچھ لوگ ایمان لائے اور باقی اپنے کفر و شرک پر اڑے رہے تو ان پر اللہ کا عذاب زلزلہ اور ہولناک چیخ کے ذریعے نازل ہوا اور وہ ہلاک ہوگئے۔

اصحاب ایکہ کی نافرمانیاں

اصحاب ایکہ بھی اہلِ مدین کی طرح نافرمانیاں کرتے تھے ان کو حضرت شعیب علیہ السلامنے روکا لیکن وہ بھی اپنے کفر و شرک پر اڑے رہے ان پر بھی ایک بادل کے شامیانے کی صورت میں عذابِ الہی نازل ہوگیا۔اللہ پاک ہم سب کو گناہوں سے نفرت عطا فرمادے آمین (از سیرت الانبیاء ، باب حضرت شعیب علیہ السلام )


اللہ پاک نے قومِ لوط کے واقعہ کے بعد سورۂ اعراف میں فرمایا:حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا:"اے قوم!دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل روشن پر ہوں اور اس نے وہاں سے مجھے نیک روزی دی ہو(تو کیا میں اس کے خلاف کروں گا) اور میں نہیں چاہتا کہ جس اَمر سے  میں تمہیں منع کروںاور خود اس کو کرنے لگون، میں تو جہاں تک مجھ سے ہوسکے (تمہاری معاملات کی اصلاح چاہتا ہوں اور اس بارے میں)مجھے توفیق کا ملنا خداہی کے فضل سے ہے، میں اسی پر بھر وسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اے میری قوم میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرا دے کہ جیسی نوح علیہ السلام کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر واقع ہوئی تھی، ویسی مصیبت تم پر واقع ہو پھر(انہوں نے کہا اے شعیب علیہ السلام تمہاری بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہم میں کمزور بھی ہو اور اگر تمہارے بھائی بہن نہ ہوتے تو ہم تم کو سنگسار کر دیتے اور تم ہم پر(کسی طرح) غالب نہیں ہو، حضرت شعیب نے فرمایا:(اے قوم! کیا میرے بھائی بندوں کا دباؤ تم پر خدا سے زیادہ اور اس کو ہم نے پیٹھ پیچھے ڈال رکھا، میرا ربّ تو تمہارے سب اعمال پر احاطہ کئے ہوئے ہے اور اے میری قوم اپنی جگہ کام کئے جاؤ، اپنی جگہ کام کئے جاتا ہوں، تم کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ رُسوا کرنے والا عذاب کس پر آتا ہے اور جھوٹا کون ہے اور تم بھی انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں اور جب میرا حکم آ پہنچا تو ہم نے شعیب کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے، ان کو تواپنی رحمت سے بچا لیا اور جو ظالم تھے ان کو پچھاڑنے آدبوچا تو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے، گویا ان میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔


قوم شعیب علیہ السلامکی نافرمانیاں

حضرت شعیب علیہ السلامکا تعارف: آپ علیہ السلامکا اسم گرامی شعیب ہے، آپ اللہ پاک کے برگزیدہ رسول حضرت موسیٰ علیہ السلامجیسے جلیل القدر پیغمبر کے صہری والد اور حضرت ابراہیم علیہ السلامکی نسل میں سے تھے آپ مدین شہر میں رہتے تھے۔

حسن بیان کی وجہ سے آپ کو خطیب الانبیاء کہا جاتا ہے امام ترمذی لکھتے ہیں حضور پر نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب حضرت شعیب علیہ السلامکا تذکرہ فرماتے تو فرماتے وہ خطیب الانبیاء تھے کیوں کہ انہوں نے اپنی قوم کو انتہائی احسن طریقہ سے دعوت دی اور دعوت دینے میں لطف و مہربانی اور نرمی کو بطور خاص پیش نظر رکھا اللہ پاک نے آپ کو دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا (1) اہل مدین (2) اصحاب الایکہ

اہل مدین کا تعارف: مدین حضرت شعیب علیہ السلامکے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلامکی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے اس بستی کی طرف حضرت شعیب علیہ السلامکو رسول بنا کر بھیجا گیا تھا۔

اصحاب ایکہ کا تعارف: جنگل اور جھاڑی کو ایکہ کہتے ہیں ان لوگوں کا شہر چونکہ سر سبز جنگلوں اور مرغزاروں کے درمیان تھا اس لیے انہیں قرآن پاک میں اصحب الایکہ یعنی جھاڑی والے فرمایا گیا یہ شہر مدین کے قریب واقع تھا اور اس کے لوگ حضرت شعیب علیہ السلامکی قوم سے تعلق نہ رکھتے تھے۔

اہلِ مدین اور اصحابِ ایکہ کی نا فرمانیاں: اہل مدین اور اصحاب ایکہ دونوں قومیں چونکہ بین الاقوامی شاہراہ کے قرب و جوار میں آباد اور تجارت پیشہ تھیں اس لئے دونوں ایک ہی طرح کی نافرمانیوں میں مبتلاتھی ان قوموں کی نافرمانیوں کی طویل فہرست ہے جن میں 18یہ ہیں:

1اللہ پاک کی وحدانیت کا انکار کرنا2بتوں کی پوجا کرنا 3نعمتوں کی ناشکری کرنا4ناپ تول میں کمی کرنا5لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا

6قتل و غارت گری اور دیگر گناہوں کے ذریعے زمین میں فساد کرنا7ڈاکے ڈال کر لوگوں کا مال لوٹ لینا 8، 9لوگوں کو اذیت دینے کے لئے راستوں میں بیٹھنا اور جس چیز کو دیکھنا ان کے لئے حلال نہیں اسے دیکھنا10 غریبوں پر ظلم کرنا11 درہم و دینار بنا کر انہیں کسی غرض صحیح کے بغیر توڑ دینا12 تا 16 مسلمانوں کا مذاق اڑانا،نماز پڑھنے والوں اور اہل علم پر طنز کرنا، انہیں جبری احکام دینا، ان پر اپنی بڑائی جتانا اور انہیں حقیر جاننا17 بیماری اور غربت کی وجہ سے عار دلانا18 لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلامسے دور کرنے کی کوششیں کرنا۔

محترم قارئین اہلِ مدین اور اصحابِ ایکہ کفر و شرک کے علاوہ جس بنیادی گناہ کے سبب رسوائے زمانہ ہوئے وہ ناپ تول میں کمی کرنا تھا اور انتہائی افسوس کے یہی گناہ فی زمانہ ہمارے معاشرے کا بھی ایک ناسور بن چکا ہے جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔اللہ پاک ہمیں ناپ تول میں کمی کرنے سے محفوظ فرمائے۔ 


حضرت شعیب علیہ السلامکا نام و لقب

آپ علیہ السلامکا مبارک نام شعیب ہے اور حُسنِ بیان کی وجہ سے آپ کو خطیب الانبیاء کہا جاتا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضور پُر نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب حضرت شعیب علیہ السلامکا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ خطیب الانبیاء تھے کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کو انتہائی احسن طریقے سے دعوت دی اور دعوت دینے میں لطف اور مہربانی اور نرمی کو بطور خاص پیشِ نظر رکھا۔

انعامات الہی:

نبوت و رسالت وہ انعام ِالہی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اللہ پاک نے حضرتِ شعیب علیہ السلامکو اس عظیم انعام سےمشرف فرمایا، معجزات سے نوازا اور اپنی رحمت سے آپ علیہ السلاماور اہل ایمان کو دنیوی عذاب سے محفوظ رکھا۔ اللہ پاک نے آپ علیہ السلامکو دو قوموں کی طرف مبعوث فرمایا، (1) اہلِ مدین (2) اصحابُ الایکہ۔

آپ علیہ السلامکے معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السلامنے حضرت موسیٰ علیہ السلامکو بکریاں تحفے میں دے کر فرمایا کہ یہ بکریاں سفید اور سیاہ بچے جنیں گی چنانچہ جیسے آپ نے فرمایا تھا ویسے ہی ہوا۔ قرآن کریم میں آپ علیہ السلامکی دو شہزادیوں کا ذکر کیا گیا ہے جس میں سے ایک کا نکاح حضرت موسیٰ علیہ السلامکے ساتھ ہوا۔ (کتاب سیرت الانبیاء ص 505)

اہلِ مدین کا تعارف

مدین حضرت شعیب علیہ السلامکی بستی کا نام تھا اور بستی کا نام مدین اس لیے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابرہیم علیہ السلامکی اولاد سے ایک بیٹے کی اولاد سے تھے۔ اہل مدین بہت سے گناہوں اور جرائم میں مبتلا تھے جس میں سے چند یہ ہیں :

(1) بتوں کی پوجا کرنا (2) ناپ تول میں کمی کرنا (3) نا شکری کرنا (4) لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا (5) مسلمانوں کا مذاق اڑانا۔ (کتاب سیرت الانبیاء ص 507)۔

قوم کو عذاب الٰہی سے ڈرا کر نصیحت:

وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ(۸۹) وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ(۹۰)

ترجمہ کنزالایمان: اور اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کموادے(برا کام کروا دے) کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بےشک میرا رب مہربان محبت والا ہے۔ (پ12،سورہ ہود، آیت 89، 90)

قوم کی ہٹ دھرمی اور دھمکی:

قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًاۚ-وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ٘-وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ(۹۱)

ترجمہ کنزالایمان: بولے اے شعیب ہماری سمجھ میں نہیں آتیں تمہاری بہت سی باتیں اور بےشک ہم تمہیں اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں اور اگر تمہارا کنبہ نہ ہوتا تو ہم نے تمہیں پتھراؤ کردیا ہوتا اور کچھ ہماری نگاہ میں تمہیں عزت نہیں ( پ12،سورہ ہود: 91)

حضرت شعیب علیہ السلامکی دعا:

جب حضرت شعیب علیہ السلامکو قوم کے ایمان لانے کی امید نہ رہی تو آپ علیہ السلامنے یوں دعا فرمائی

رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ(۸۹)

ترجمہ کنزالایمان: اے رب ہمارے ہم میں اور ہماری قوم میں حق فیصلہ کر اور تیرا فیصلہ سب سے بہتر۔ (پ9، اعراف آیت 89)

اللہ پاک نے حضرت شعیب علیہ السلامکی دعا قبول فرمائی۔

سورۃ العنکبوت کی آیت 36,37 کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ان لوگوں نے حضرت شعیب علیہ السلامکو جھٹلایا اور اپنے فساد سے باز نہ آئے توانہیں زلزلے کی صورت میں اللہ پاک کے عذاب نے آ لیا یہاں تک کہ ان کے گھر ا ن کے اوپر گر گئے اور صبح تک انکا حال یہ ہو گیا کہ وہ اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بَل مردے بے جان پڑے رہ گئے۔

تفسیر صراط الجنان

اصحابِ الایکہ کو تبلیغ اور نزولِ عذاب:

مدین کے قریب ہی سرسبز جنگلوں اور مَرغزاروں کے درمیان ایک دوسرا شہر موجود تھا، یہاں رہنے والوں کا تذکرہ قرآن مجید میں اصحابِ اَیکہ یعنی جنگل والوں کے نام سے کیا گیا ہے۔

حضرت شعیب علیہ السلام اپنی اس قوم کو بھی نرمی کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتے اورفرماتے کہ ناپ تول کو گھٹانے والوں میں سے نہ ہو جاؤ، اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اس پر آپ کی قوم نے کہا کہ ہم آپ کو جھوٹوں میں سے سمجھتے ہیں۔ تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گِرا دو اگر تم سچے ہو اور آپ علیہ السلامکو جھٹلا دیا۔

پھر ان پر عذاب الہٰی نازل ہو گیا اور ان لوگوں پر جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جس سے پوری آبادی میں شدید گرمی اور لو کی حرارت و تپش پھیل گئی اور شہر والوں کا دَم گھٹنے لگا۔ پھر اللہ پاک نے بادل کا ایک ٹکڑا بھیجا جو شامیانے کی طرح پوری بستی پر چھا گیا اور اس کے اندر ٹھنڈک اور فرحت بخش ہواتھی۔ یہ دیکھ کر سب گھروں سے نکل کر اس بادل کے شامیانے میں آ گئے تو اچانک زلزلہ آیا اور اس بادل سے آگ برسنے لگی جس میں سب ٹڈیوں کی طرح تڑپ تڑپ کر جل گئے۔

ان لوگوں میں اپنی سرکشی سے کہا تھا کہ "اے شعیب! ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گِرا دو" اس لئے وہی عذاب اس صورت میں اُس سرکش قوم ہر آگیا اور سب کے سب جَل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔(کتاب سیرت الانبیاء، ص 523)


قوم شعیب کی نافرمانیاں

بحیرہ احمر کے کنارے ملک اردن کے قریب مدین کے رہنے والوں کو اللہ پاک نے بڑی نعمتیں عطافرمائی تھیں ۔ اللہ پاک نے انہیں گھنے باغات اور جنگلات عطا فرمائےتھے اسی لئے یہ قوم "أصحاب الایکہ "( جنگل والے ) بھی کہلاتی ہے ۔ اللہ پاک نے ان کی تجارت میں بھی برکت رکھی تھی۔ لیکن اس قوم نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے بہت زیادہ ناشکری کی۔ نفع ملنے کے باوجود ناپ تول میں بے ایمانی کرنے لگے ۔ سامان تول کر دیتے ہوئے کمی کرتے اور لیتے ہوئے حق سے زیادہ لینے کی کو شش کر تے ۔ اس کے علاوہ یہ لوگ تجارتی قافلوں کو لوٹ کر ان کامال بھی چھین لیتے تھے ۔اللہ نے ان لوگوں کو سید ھاراستہ دکھانے کے لئے انہی میں سے حضرت شعیب علیہ السلامکو رسول بنایا۔ حضرت شعیب علیہ السلامکو اپنی قوم کی ان نافرمانیوں پر شدید غم تھا۔ لیکن قوم نے ان کا مذاق اڑایا اور کہا ہم تو سمجھتے تھے کہ تم بڑے سمجھ دار ہو۔ کیا تمہاری نماز تم کو یہی سکھاتی ہے کہ ہم ان بتوں کی پوجا چھوڑ دیں جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ؟ کیا ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی بھی نہ چلائیں؟ حضرت شعیب نے قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا ۔ آپ علیہ السلامنے ان سے فرمایا کہیں ایسانہ ہو کہ تمہارے برے اعمال کی وجہ سے تم پر بھی ہولناک عذاب آجائے۔ یاد رکھو تم سے پہلے قوم نوح قوم ثمود اور قوم لوط پر آیا تھا۔ قوم نے کہا کہ اگر ہمیں تمہارے قبیلہ کا خیال نہ ہو تا تو تم کو ہلاک کر دیتے ۔ حضرت شعیب علیہ السلامنے فرمایا کہ تمہیں میرے قبیلہ کا اللہ سے زیادہ لحاظ ہے اور تم اللہ کو بالکل بھلا چکے ہو۔یہ بگڑی ہوئی قوم جب باز نہ آئی تو اللہ نے عذاب کو ( بادل کے سایہ کی شکل میں ان کی طرف بھیجا۔ لوگ اسے اپنی طرف آتاہوادیکھ کر خوشیاں منانے لگے ۔ وہ خوش تھے کہ اب بارش ہو گی ، گرمی دور ہو جائے گی باغات ہرے بھرے ہو جائیں گے ۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ ( بادل کا سایہ اللہ کی رحمت نہیں بلکہ اس کا عذاب لارہا ہے ۔ چنانچہ ایک زور دار چیخ اور زلزلہ نے ان نافرمانوں کو ہلاک کر دیا۔ ان کی بستیاں ایسے ہو گئیں جیسے کبھی یہ لوگ یہاں ہی نہ تھے۔ اللہ نے حضرت شعیب اور ایمان لانے والوں کو اس عذاب سے بچالیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ

ا۔ حضرت شعیب علیہ السلامنے اپنی قوم کو صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔( پ12، ہود 93 تا95، پ19، الشعراء: 189) ہمیں گناہوں پر اللہ سے معافی مانگنی چاہیئے اور اس کی نافرمانی چھوڑ کر فرماں برداری اختیار کرنی چاہیے۔ (پ12، ہود:90 ) ناپ تول میں کمی کر نا اور لوگوں کو نقصان پہنچانا اللہ کو پسند نہیں ہے ۔ (پ8، الاعراف:85، پ12، ہود:85،84 ) ناپ تول میں کمی کرنے اور لوگوں کو ان کی چیز میں کم کر کے دینے سے زمین میں فساد اور بگاڑ پید اہو تا ہے۔ (پ8، الاعراف: 85، پ12،ہود :85، پ19، الشعراء:181 تا 183 ) 4۔ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنا اور دین میں ٹیڑھ تلاش کرنا گناہ کے کام ہیں۔ (پ8،الاعراف:82 ) 5- رسولوں کی بات نہیں ماننے والے نقصان اٹھاتے ہیں۔ (پ8-9،الاعراف:90،82 )اہل ایمان کو مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ اللہ فرماں بر داروں اور نافرمانوں کے در میان فیصلہ فرمادیتا ہے۔ (پ8-9،الاعراف:89،87 ، پ12،ہود:92، 93) برے لوگ چاہتے ہیں کہ اچھے لوگ بھی برائی اختیار کر لیں۔ ہمیں برے لوگوں کی بات نہیں ماننی چاہئے (پ9،الاعراف:89،88 ) مال ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے ۔ اسے اللہ کی مرضی کے مطابق کمانا اور خرچ کرنا چاہیے۔ (پ12،ہود:88،87 ) ۔ ہمیں نافرمان قوموں کے برے انجام سے سبق سیکھ کر نافرمانی سے بچناچاہئے۔ (پ9،الاعراف: 92،91،پ12، ہود:95،89،پ19، الشعراء:189،190)


درود شریف کی فضیلت:

مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد حمد و ثناء و درود شریف پڑھنے والے سے فرمایا:"دعا مانگ قبول کی جائے گی، سوال کر دیا جائے گا۔"

خاصیت:

اللہ پاک نے مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب علیہ السلام کو بھیجا، مدین حضرت شعیب کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے۔

مدین اور مصر کے درمیان اَسّی دن کے سفر کی مقدار برابر فاصلہ تھا، حضرت شعیب بھی حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے تھے، آپ علیہ السلام کی دادی حضرت لوط کی بیٹی تھیں، حضرت شعیب اہلِ مدین کے ہم قوم تھے اور آپ علیہ السلام انبیاء بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔

پیشہ:

آپ علیہ السلام کی قوم ناپ تول کا پیشہ کرتی تھی۔

نافرمانیاں:

1۔حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں شرک کے علاوہ بھی جو گناہ عام تھے، ان میں سے ایک ناپ تول میں کمی کرنا ہے۔

2۔دوسرا یہ کہ یہ قوم لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے دیتی تھی۔

3۔یہ قوم لوگوں کو حضرت شعیب سے دور کرنے کی کوششیں کرتی۔

4۔یہ قوم زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد پھیلانے والے تھے۔

5۔یہ لوگ مدین کے راستہ پر بیٹھ جاتے تھے اور ہر راہ گیر سے کہتے تھے کہ مدین شہر میں ایک جادوگر ہے، یہ بھی کہا گیا کہ ان کےبعض لوگ مسافروں پر ڈکیتیاں ڈالتے تھے۔حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے اور لوگوں کو ان کی اشیاء گھٹا دینے سے منع کیا اور زمین میں فساد کرنے سے روکا، کیونکہ اس بستی میں اللہ پاک کے نبی تشریف لے آئے اور انہوں نے نبوت کے احکام بیان فرما دیئے تو یہ بستی کی اصلاح کا سب سے قوی ذریعہ ہے، لہذا اب تم کو کفروگناہ کر کے فساد برپا نہ کرو۔اس سے پتہ چلا کہ بعض احکام کے کفار بھی مکلف ہیں، کیونکہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی کافر قوم کے لوگوں کو ناپ تول درست کرنے کا حکم دیا اور نہ ماننے پر عذابِ الہی آ گیا، قیامت میں کافروں کو نماز چھوڑنے پر بھی عذاب ہوگا۔اللہ پاک ہمیں نمازوں کی پابندی کرنے اور اپنی نافرمانی کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


اہلِ مدین کی نافرمانیاں:

مدین سے مراد وہ شہر ہے، جس میں رہنے والوں کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا۔

اہلِ مدین کے گناہوں اور جرائم و نافرمانیوں کی ایک طویل فہرست ہے، ان میں سے15 گنا ہ یہ ہیں:

1۔اللہ پاک کی وحدانیت کا انکار کرنا۔

2۔بتوں کی پوجا کرنا۔

3۔نعمتوں کی ناشکری کرنا۔

4۔ناپ تول میں کمی کرنا۔

5۔لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے دینا۔

6۔قتل و غارت گری اور دیگر گناہوں کے ذریعے زمین میں فساد کرنا۔

7۔ڈاکے ڈال کر لوگوں کا مال لوٹ لینا۔

8۔لوگوں کو اذیت دینے کے لئے راستوں میں بیٹھنا اور (9)جس چیز کو دیکھنا ان کے لئے حلال نہیں، اسے دیکھنا۔

10۔غریبوں پر ظلم کرنا۔

11۔درہم ودینار بنا کر انہیں کسی صحیح غرض کے بغیر توڑ پھوڑ دینا۔

12۔مسلمانوں کا مذاق اڑانا۔

13۔نماز پڑھنے والوں اور اہلِ علم پر طنز کرنا، انہیں جبری احکام دینا، ان پر اپنی بڑائی جتانا اور انہیں حقیر جاننا۔

14۔بیماری اور غربت کی وجہ سے عار دلانا۔

15۔لوگوں کو حضرت شعیب سے دور کرنے کی کوشش کرنا۔

محفوظ سدا رکھنا شہا! بے اَدَبوں سے

اور مجھ سے بھی سرزَد نہ کبھی بے اَدَ بی ہو


عرب شریف کے مشہور شہر مدین کے قریب ایک گاؤں/جنگل تھا،  جس میں درخت اور جھاڑیاں بکثرت تھیں، اس جنگل میں رہنے والوں کوا صحابِ ایکہ یعنی جنگل والے کہا جاتا تھا۔ اصحابِ ایکہ کی برائیاں:

ناپ تول میں کمی کرنا، لوگوں کو ان کی چیزیں پوری پوری واپس کرنے کے بجائے کم کر کے دیتے، ڈاکہ ڈالتے اور لوٹ مار کرتے، کھیتیاں وغیرہ تباہ کر دیتے، وغیرہ وغیرہ۔

ایمان کی دعوت کے لئے اللہ پاک نے حضرت شعیب علیہ السلام کو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، چونکہ ان میں سے اکثر لوگ مسلمان نہیں تھے، اس لئےآپ علیہ السلام نے ان لوگوں کو ایمان لانے کی دعوت دی، اللہ پاک کے عذاب سے ڈرایا، اپنے نبی ہونے کا یقین دلایا، اور اپنی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیتے ہوئے اوپر بیان کردہ نصیحتوں سے بچنے کی۔تفتیش

ماننے سے انکار:

جنگل والوں نے آپ علیہ السلام کی نصیحت سن کر کہا: اے شعیب! تم پر جادو ہوا ہے، تم کوئی فرشتے نہیں، بلکہ ہمارے جیسے ہی آدمی ہو اور تم نے جو نبی ہونے کا دعوی کیا ہے، ہم اس میں تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں، اگر تم اپنے نبی ہونے کے دعوے میں سچے ہو تو اللہ پاک سے دعا کرو کہ وہ عذاب کی صورت میں ہم پر آسمان سے کوئی ٹکڑا گرا دے۔

حضرت شعیب علیہ السلام کا جواب:

جنگل والوں کا یہ جواب سن کر آپ علیہ السلام نے فرما یا:اللہ پاک تمہارے اعمال بھی جانتا ہے اور جس عذاب کے تم مستحق ہو، اسے بھی جانتا ہے، اگر وہ چاہے گا تو تم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرادے گا اور اگر چاہے گا تو کوئی اور عذاب نازل فرمادے گا۔

جل کر راکھ ہوگئے:

اللہ پاک کا کرنا یہ ہوا کہ جنگل والوں پر جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا گیا، جس کی وجہ سے شدید گرمی ہوگئی اور لُو چلنے لگی، جس کی وجہ سے جنگل والوں کا دم گھٹنے لگا، وہ اپنے گھروں میں قید رہنے اور پانی کا چھڑکاؤ کرتے، مگر انہیں سکون نہ ملتا، اسی حالت میں سات دن گزر گئے، اس کے بعد اللہ پاک نے ایک بادل بھیجا، جو جنگل والوں پر چھا گیا، اس بادل کی وجہ سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں، وہ گھروں سے نکل آئے اور بادل کے نیچے جمع ہونے لگے، جیسے ہی سب جمع ہوئے، زلزلہ آگیا اور بادل سے آگ برسنے لگی، جنگل والے ٹڈیوں کی طرح تڑپ تڑپ کر جلنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے راکھ کا ڈھیر بن گئے۔(صراط الجنان، جلد 7، پارہ 19، سورہ الشعراء، آیت:135، عجائب القران مع غرائب القران، صفحہ 353، جلد 4)


مدین حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 85، 2 / 118، تفسیر صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: 85، 2 / 691،ملتقطاً)قرآن پاک میں سیدنا شعیب علیہ السلامکی قوم کی جن نافرمانیوں کا تذکرہ ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں۔۔

• شرک ، وہ بتوں کی پوجا کرتے ، ان کے پاس بت پرستی کرنے کی دلیل اپنے آباء و اَجداد کی اندھی تقلیدتھی۔

• ناپ تول میں کمی کرنا

جب ان کو سیدنا شعیب علیہ السلامنے روکا تو قوم کے لوگ کہنے لگےکیا ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق عمل نہ کریں؟

ہم اپنے مال میں پورا اختیار رکھتے ہیں ، چاہے کم ناپیں چاہے کم تولیں۔

• لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا

مدین والوں کی سب سے بری عادت یہ تھی کہ وہ خریدو فروخت کے دوران ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جب کوئی شخص ان کے پاس اپنی چیز بیچنے آتا توان کی کوشش یہ ہوتی کہ وہ تول میں اس چیزکو جتنا زیادہ لے سکتے ہوں اتنا لے لیں اور جب وہ کسی کو اپنی چیز فروخت کرتے تو ناپ اور تول میں کمی کر جاتے۔

•لوگوں کو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دور کرنے کی کوششیں کرنا اور ایمان لانے سے روکنا

حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے سرداروں ایمان لانے والوں کی دین میں مضبوطی دیکھی تو انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں اور لوگ بھی ان پر ایمان نہ لے آئیں چنانچہ جو لوگ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے انہیں معاشی بدحالی سے ڈراتے ہوئے کہنے لگے کہ’’ اگر تم نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لاتے ہوئے ان کے دین کی پیروی کی اور اپناآبائی دین و مذہب اور کم تولنا ،کم ناپنا وغیرہ جو کام تم کرتے ہو اسے چھوڑ دیا تو سن لو! تم ضرور نقصان میں رہو گے کیونکہ اس طرح تمہیں تجارتی لین دین میں پورا تولنا پڑے گا۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: 90، 2 / 276)

حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ اس خوف کی وجہ سے آپ پر ایمان نہیں لاتے تھے کہ اگر انہوں نے ان پر ایمان لا کر ان کی شریعت پر عمل شروع کر دیا تو وہ معاشی بد حالی کی دلدل میں پھنس جائیں گے ، نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا کہ جنہوں نے اللہ پاک کے نبی پر ایمان لا کر ان کی شریعت کی پیروی کی وہ تو دین و دنیا دونوں میں کامیاب ہو گئے اور جنہوں نے اللہ پاک کے نبی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اورآپ کی نافرمانی کی ،ان کی دنیا تو برباد ہوئی، اس کے ساتھ آخرت بھی برباد ہو گئی۔ لہٰذاا نقصان تو ان لوگوں نے اٹھایا ہے جو سر کش اور نافرمان تھے نہ کہ انہوں نے جو تابع اور فرماں بردار تھے۔

حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے سرداروں کی یہ روش ان کی بیمار ذہنیت کا پتا دیتی ہے کہ احکامِ الٰہیہ کی پابندی میں اپنی ناکامی جبکہ راہِ راست پر چلنے میں اپنی ہلاکت اور دینِ حق پر ایمان لانے میں انہیں مُہِیب خطرات نظر آنے لگے اور انہوں نے دوسروں کو بھی دینِ حق سے دور کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس طرح کی بیمار ذہنیت کے حامل افراد کی ہمارے معاشرے میں بھی کوئی کمی نہیں ، اسلام کے اصول و قوانین کو اہمیت نہ دینے والوں ، شریعت کے قوانین میں تبدیلی کی رٹ لگانے والوں ، زکوٰۃ کو ٹیکس تصور کرنے والوں ، رشوت کو اپنا حق سمجھنے والوں ، ناپ تول میں کمی کرنے والوں ، پردے کو عورت کی آزادی کے خلاف قرار دینے والوں ، اسلامی سزاؤں کو ظلم و بربریت شمار کرنے والوں کو چاہئے کہ اہلِ مدین کے حالات اور ان کے انجام پر غور کریں۔(مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: 92، ص375، ملخصاً)

•زمین میں فساد کرنا اور قوم کے سردار وں کاحضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بے ادبی کرنا

قوم کے سردار قوم کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں اگر یہ درست ہو جائیں تو قوم کواعلیٰ درجے پر پہنچا دیتے ہیں اور بگڑ جائیں تو ذلت کی گہری کھائیوں میں گرا دیتے ہیں۔ ہم میں سے جس کو بھی دوسروں پر نگران بنایا گیا ہے یا جس کی بھی پیروی کی جاتی ہے اس کو نہایت محتاط رہنا چاہیے۔

• اللہ پاک کی نعمتوں کی ناشکری کرنا

سیدنا شعیب علیہ السلامنے اپنی قوم سے فرمایا ’’بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور ایسے حال میں تو آدمی کو چاہیے کہ وہ نعمت کی شکر گزاری کرے اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچائے نہ کہ ان کے حقوق میں کمی کرے، ایسی حالت میں اس عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں اس خوشحالی سے محروم نہ کردیئے جاؤ.اللہ پاک ہمیں گزشتہ قوموں کے واقعات سے عبرت لیتے ہوئے اپنا حال درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمين


اللہ ربُّ العزت نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے کسی نہ کسی نبی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا،  اور انبیاء کرام علیہم السلام کی یہ ذمّہ داری ہوا کرتی تھی کہ ان بندوں کو خالص اللہ پاک کی راہ کی طرف بلائے، مزید یہ کہ ان کی درست اعمال، صحیح عقائد، مشرقی اور ہر معاملے میں ان کی رہنمائی کریں۔

چنانچہ انبیائے کرام علیہم السلام میں سے قومِ مدین کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، تو حضرت شعیب علیہ السّلام نے بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھی راہ کی طرف بلانا شروع کیا اور نیکی کا حکم دیتے، اس کے متعلق قرآن پاک میں ربِّ کائنات نے کچھ اس طرح ارشاد فرمایا:

ترجمہ کنزالایمان:"اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا اور کہا اے میری قوم! اللہ پاک کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بے شک تمہارے پاس ربّ کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں کہ نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ، یہ تمہارا بھلا ہے، اگر ایمان لاؤ۔"

جب حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں نیکی کی دعوت دینا شروع کی تو ان لوگوں نے بھی پچھلی گزری ہوئی قوموں (یعنی عاد، ثمود) کی طرح اپنے نبی علیہ السلام کو جھٹلایا اور ان کی تکذیب کی اور انہوں نے درج ذیل نافرمانیاں کیں، جن میں سے چند قابلِ ذکر ہیں:

1۔ناپ تول میں کمی کرنا، یعنی لوگوں کو چیزیں گھٹا کر دینا۔(سورۃ اعراف، ھود، آیت85)

2۔زمین انتظام کے بعد فساد و فتنہ پھیلانا۔( سورہ اعراف، آیت85)

3۔رہزنی کرنا، یعنی تجارتی قافلوں کو لوٹنا اور

4۔ان سے جبراً(10) دسواں حصّہ وصول کرنا۔(سورہ اعراف، آیت 85، حاشیہ161)

دین کی اتباع کرنے میں لوگوں کے لئے سدِّراہ( رکاوٹ) بنتے۔

5۔کھیتیاں تباہ کرتے۔(حاشیہ)

6۔چیزوں میں ملاوٹ کرتے۔(حاشیہ)

7۔خیانت کرتے۔(حاشیہ)

منقول ہے:"حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ پاک نے اس قوم پر جہنم کا دروازہ کھولا اور ان پر دوزخ کی شدید گرمی بھیجی، جس سے سانس بند ہو گئے، اب نہ انہیں سایہ کام دینا تھا نہ پانی، اس حالت میں وہ تہہ خانے میں داخل ہو، تاکہ وہاں انہیں کچھ اَمن ہو، لیکن وہاں باہر سے زیادہ گرمی تھی اور وہاں سے نکل کر جنگل کی طرف بھاگے تو اللہ پاک نے ایک اَبر( بادل) بھیجا، جس میں نہایت سَرد اور خوشگوار ہوا تھی، اس کے سائے میں آئے اور ایک دوسرے کو پُکار پُکار کر جمع کر لیا، جب مرد، عورتیں، بچے سب جمع ہو گئے، تو وہ بحکمِ الہی آگ بن کر بھڑک اُٹھا اور وہ اس میں جَل گئے، جیسے پھاڑ (یعنی بھٹی) میں کوئی چیز بھُن جاتی ہے۔

ترجمہ کنزالایمان:"ان تو انہیں زلزلے نے آ لیا تو صبح کے وقت گھروں میں اُوندھے پڑے رہ گئے۔"( سورہ اعراف،آیت91، حاشیہ 173)

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اللہ پاک نے حضرت شعیب علیہ السلام کو اصحابِ ایکہ کی طرف مبعوث فرمایا تھا اور اہلِ مدین کی طرف بھی، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

ترجمہ:"ایکہ والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا۔"(سورۃ الشعراء، پارہ 19، آیت 176)

بے شک ایکہ والے بھی بڑے ظالم تھے۔(سورۃ الحجر، پارہ 15، آیت78)

بہرحال اہلِ اصحابِ ایکہ کو تو اَبر( بادل) نے ہلاک کیا اور اہلِ مدین زلزلہ سے گرفتار ہوئے، اور خوفناک، ہولناک آواز سے ہلاک ہوگئے۔(حاشیہ 173)

اللہ کریم سے دعا ہے، قومِ مدین میں پائی جانے والی تمام برائیاں ہمارے معاشرے میں رائج ہیں، اللہ پاک ہمیں ان سے بچتے ہوئے، سیدھے راستے پر چلنے اور نیکی کا حکم دینے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا ربّ العالمین۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

رضا نفسِ دشمن ہے دم میں نہ آنا

کہاں تم نے دیکھے ہیں چندرانے والے