دعا بہت اہم عبادت ہے۔ بندے کی عاجزی کا اظہار ہے اور دعا نہ کرنا غرور و تکبر کی علامت ہے۔ دعا مانگنا بہت بڑی سعادت ہے۔دعا آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت بھی ہے۔قرآنِ مجید میں اللہ پاک کا فرمان ہے : ترجمۂ كنزالایمان: مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔(پ24، المؤمن60)آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:دعا مومن کا ہتھیار،دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے۔ (مستدرک حاکم،کتاب الدعاء ،الدعا سلاح المؤمن . . . . الخ، ج 2/ص162،حدیث1855) (آدابِ دُعا* ص 2)بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں دعا قبول ہوتی ہے،یہاں صرف 15 مقامات کا ذکر کیا جاتا ہے۔قبولیتِ دُعا کے 15 مقامات: ذیل میں ان مقامات کا ذکر کیا جاتا ہے جہاں دُعا قبول ہوتی ہے۔یہ سب مقامات بہت اہمیت و فضیلت کے حامِل ہیں۔1:مَطَاف:مسجد الحَرام شریف میں کعبہ شریف کے گرد جگہ جہاں طواف کیا جاتا ہے، یہاں جو دعا مانگی جائے قبول ہوتی ہے۔2: ملتَزَم: یہ حجرِ اَسود اور بابِ کعبہ کے درمیان ہے۔ اس مقام کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں لوگ لپٹ کر دعائیں کرتے ہیں،اس مقام پر بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ 3- داخلِ بیتُ اللہ شریف: بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ 4- زیرِ میزابِ رحمت: کعبہ شریف کی چھت پر نصب سونے کے پرنالے کے نیچے بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ 5- حَطِیم: کعبہ شریف کے پاس نصف دائرے کی صورت میں فصیل کا اندرونی حصہ،اِس میں داخل ہونا کعبہ شریف میں داخل ہونا ہے۔ یہاں بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ 6- حَجرِ اَسود:یہ جنتی پتھر کَعبہ شریف کے جنوب مشرقی کونے میں رکنِ اَسود میں نصب ہے۔ مسلمان اس کو چومتے ہیں۔ اس مقام پر بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ 7- کوہِ صَفا: یہاں سے سَعی شروع ہوتی ہے۔ یہ بھی قبولیت دُعا کا مقام ہے۔ 8- کوہِ مَروَہ:یہ کوہِ صفا کے سامنے ہے۔اس مقام پر بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ 9- مِنٰی:مِنی میں دعا قبول ہوتی ہے۔ 10- مَسجد نَبوی شریف: مَسجد نَبوی شریف میں بھی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ 11- مَواجَہہ شریف: سنہری جالیوں کے سامنے دُعا قبول ہوتی ہے۔ 12- قُربِ منبر شریف: منبر شریف کے پاس بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ 13- مَزَارَاتِ بَقِیع و اُحُد: جنت البقیع اور اُحُد شریف کے مَزَارَات کے قُرب میں بھی دُعا قبول ہوتی ہے۔14- مَجَالسِ اَولیاء و عُلَماء: اولیائے کرام اور علمائے کرام کی مجلسوں میں بھی دُعا قبول ہوتی ہے۔15- مَزارَاتِ اَولیاء و صُلحَاء:تمام اولیائے کرام، صالحِین،اللہ پاک کے محبوب، مقرب بندوں کی بارگاہ میں اور ان کے مَزارَات پر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ (فضائلِ دعا* ص 130-141) امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت ارشاد فرماتے ہیں: ایک دن حضرت احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر حاضری کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا کہ مزار شریف کے چاروں طرف لہو و لعب کی مجالس ہو رہی تھیں۔ اتنا شور تھا کہ کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اس شوروغل سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو پریشانی ہو رہی تھی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پریشانی صاحب مزار کی بارگاہ میں عرض کی۔ (تو آپ رحمۃ اللہ علیہ پر کرم ہو گیا۔) آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بسم الله شریف پڑھ کر دایاں پاؤں مزار شریف کے دروازے میں رکھا تو اچانک سب آوازیں بند ہو گئیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ظنِّ غالب ہوا کہ شاید سب چپ ہو گئے ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مڑ کر دیکھا تو شوروغل جوں کا توں جاری تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا مبارک پاؤں اٹھا کر باہر رکھا تو پھر آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دوبارہ اپنا مبارک پاؤں بسم الله شریف پڑھ کر اندر رکھا،اب کوئی شور نہ تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم ہوا کہ یہ اللہ پاک کا کرم اور حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ پاک کا شکر ادا کیا اور اطمینان سے حاضری دی۔ (فضائل دعا ،ص 141-140) اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ان مقدس مقامات کی زیارت و حاضری نصیب فرمائے اور ہمیں علما و مشائخ کی برکتوں سے دنیا و آخرت میں مالا مال فرمائے ۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔ فضائلِ دعا ، مکتبۃ المدینہ کراچی۔ آدابِ دُعا ، مکتبۃالمدینہ کراچی


دعا کا معنیٰ ہے:اپنی حاجت پیش کرنا۔دعا ایک عظیم عبادت،عمدہ وظیفہ اور اللہ پاک کی بارگاہ میں پسندیدہ عمل ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے ،اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ پاک کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی چیز بزرگ نہیں۔(سنن الترمذی حدیث 3292 باب الدعوات) دعا در حقیقت بندے اور اس کے خالق کے درمیان کلام، راز و نیاز اور بندگی کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ بندہ دعا کے ذریعے اللہ پاک سے کلام کرتا ہے اور بندے کا دعا مانگنا اللہ پاک کو اس قدر محبوب ہے کہ وہ خود اپنے پاکیزہ کلام قرآن ِکریم میں ارشاد فرماتا ہے:ادعونی استجب لکمترجمۂ کنزالایمان: مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔ (سورۂ مؤمن آیت 60)جس طرح اللہ پاک دعا مانگنے والوں سے خوش ہوتا ہے اسی طرح دعا نہ مانگنے والوں پر غضب بھی فرماتا ہے۔جیسا کہ حدیثِ قدسی میں ہے:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے:نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ پاک فرماتا ہے: جو مجھ سے دعا نہ مانگے میں اس پر غضب فرماؤں گا۔(فیض القدیر شرح جامع الصغیر حدیث 6069)اب قبولیتِ دعا کے کثیر مقامات میں سے 15 مقامات بیان کئے جاتے ہیں۔1۔ مواجہہ شریف (مزارِ سید المرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم )امام ابن الجزری فرماتے ہیں:دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی!(فضائلِ دعا)2۔منبرِ اطہر کے پاس۔3۔مسجدِ اقدس کے ستونوں کے پاس ۔4۔مسجدِ قباء شریف میں۔5۔ مسجدِ فتح میں خصوصاً بدھ کے روز۔حدیثِ پاک میں ہے: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے: اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تین دن مسجدِ فتح میں دعا کی پیر منگل اور بدھ کے روز دو نمازوں (ظہر اور عصر کے درمیان) دعا قبول ہوئی اور چہرۂ مبارک پر خوشی ظاہر ہوئی۔حضرت جابر رضی اللہ عنہفرماتے ہیں:مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آئی میں نے اس ساعت میں بدھ کے روز (ظہر اور عصر کے درمیان) دعا کی اور وہ قبول ہوئی۔(مسندِ احمد حدیث 14562)6۔خانۂ کعبہ پر نظر پڑنے کی جگہ خواہ وہ کہیں سے بھی ہو۔7۔مقامِ ملتزم۔8۔خانۂ کعبہ کے اندر ۔9۔جہاں ایک بار دعا قبول ہو خواہ وہ کسی دوسرے کی ہو وہاں پھر دعا کرے۔10۔مزاراتِ احد و بقیع۔11۔ عرفات خصوصاً نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قیام کرنے کی جگہ۔12۔ان کنوؤں کے پاس جنھیں نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے۔13۔ جبلِ احد ۔14۔ ہر اس مسجد میں جو نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف منسوب ہے۔15۔امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کے پاس۔حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مجھے جب بھی کوئی حاجت پیش آتی ہے دو رکعت نماز پڑھتا اور قبرِامام ابو حنیفہ یہ کے پاس جا کر دعا مانگتا ہوں اللہ پاک روا (قبول) فرماتا ہے۔ (فضائلِ دعا)مزید تفصیلات کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب فضائلِ دعا کا مطالعہ مفید رہے گا ۔اللہ پاک ہمیں کثرت سے دعائیں مانگتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


درود شریف کی فضیلت :سرورِ ذیشان ،مکی مدنی سلطان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: الدعاء محجوب عن اللہ حتی یصلی علی محمد و علی ال محمد یعنی دعا اللہ پاک سے حجاب میں ہے جب تک محمد اور ان کی آل پر درود نہ بھیجا جائے۔صلو ا علی الحبیب !صلی اللہ علی محمد ۔دعا کی اہمیت و فضیلت:دعا کی فضیلت ہر مسلمان جانتا ہے ہمیں اللہ پاک سے کیا کن الفاظ سے کس طرح مانگنا چاہئے اس کی اہمیت کا اندازہ حدیثِ پاک سے لگایا جا سکتا ہے ،ہمارا خالق و مالک کیسا کریم ہے کہ مانگنے والوں سے خوش ہوتا اورنہ مانگنے والوں پر غضب فرماتا ہے ،لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اللہ کریم سے اپنی حاجات اور خیر طلب کرتی رہیں۔اللہ پاک سے خیر طلب کرنے کو دعاکہتے ہیں اور دعانہ صرف عبادت ہے بلکہ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : الدعا ء مخ العبادۃ یعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔الدعاء سلاح المومن و عماد الدین و نور السموت و الارض یعنی دعا مومن کا ہتھیار ،دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے ۔دعا ایسی عبادت ہے جو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ گویا بندہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنی حاجات و ضروریات پیش کرتا ہے۔ دعا بندے کو اپنے رب کریم کی جناب میں پہنچاتی ،اس کے حضور عاجزی کرواتی اور اس کی عظمتوں کا کلمہ پڑھواتی ہے جسے دعا کی توفیق دی گئی اسے بہت بڑی خیر کی توفیق دی گئی اور اس کیلئے بھلائی کے دروازے کھول دیے گئے اور جس کیلئے دعا کا دروازہ بند ہوگیا اس کیلئے خیرو عافیت کا دروازہ بند ہوگیا ۔حدیثِ مبارکہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے ،حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کے یہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں۔(ترمذی سنن ابن ماجہ ) پھر بطورِ دلیل آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے قرآنِ پاک کی سورۃ المومن کی آیت نمبر 60 کی تلاوت فرمائی :وقال ربکم ادعونی استجب لکمترجمہ:اور تمہارے پروردگار نے فرما دیا ہے کہ مجھ سے دعا مانگا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ۔ایک اور مقام پر آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں میں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے دشمنوں سے تمہارا بچاؤکرے اور تمہیں بھر پور روزی دلائے ،وہ یہ ہے کہ اپنے اللہ پاک سے دعا کیا کرو رات میں اور دن میں ،کیونکہ دعا مومن کا خاص ہتھیار ہے۔دعا قبول ہونے کے بہت سارے مقامات ہیں جن میں سے 15 مقامات درج ذیل ہیں :1- مسجد نبوی شریف میں دعا قبول ہوتی ہے ۔2- میزابِ رحمت کے نیچے دعا قبول ہوتی ہے ،3- معشر حرام مزدلفہ میں 4- صفاومروہ پر 5- منبر اطہر کے پاس 6- مسجد قبا شریف 7- حجر اسود 8- رکنِ یمانی خصوصا جب دورانِ طواف وہاں سے گزر ہو 9- مسعی حصوصا سبز میلوں کے درمیان 10- مقام ِابراہیم کے پیچھے 11- زم زم کے کنویں کے قریب 12- عرفات خصوصا موقف نبی کے نزدیک 13- مواجھہ شریف ،امام ابن الجزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں قبول ہوگی!14- مسجد نبوی شریف کے ستونوں کے قریب 15- جمرۂ صغری ٰاور جمرہ ٔوسطی ٰکے پاس کنکریاں مارنے کے بعد ۔ جس جس مقام پر پیارے آقا ، مدینے والے مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے گئے وہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں اور خصوصاً مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بے شمار مقامات پر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف فرما ہوئے مثلا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہکا مقدس باغ وغیرہ ۔دعوت اسلامی کے ہر ہفتہ وار ہونے والی مدنی مذاکرہ جس میں ولی اللہ کی زیارت کا شرف بھی نصیب ہوتا ہے مدنی مذاکرہ کے اختتام پر مانگی جانی والی دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔اللہ پاک ہم سب کی جائز دعاؤں پر نظر ِرحمت فرمائے۔ دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ رکھے۔ بانِی دعوت ِاسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہمُ العالیہ کی دعاؤں کی حصہ دار فرمائے۔ اللھم آمین


دعا مانگنا بہت بڑی سعادت ہے۔دعا ایک نعمت اور عمدہ دولت ہے جو اللہ پاک سے مناجات کرنے، اس کی قربت حاصل کرنے اور بخشش و مغفرت حاصل کرنے کا نہایت آسان اور مجرب طریقہ ہے۔ دعا مانگنا سنت بھی ہے کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اکثر اوقات دعا مانگتے۔ اسی طرح دعا مانگنے میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اطاعت بھی ہے کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے غلاموں کو دعا کی تاکید فرماتے رہتے۔قرآنِ پاک اور احادیثِ مبارکہ میں جگہ جگہ دعا مانگنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔قرآنِ پاک میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:ادعو نی استجب لکمترجمہ ٔکنزالایمان:مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔(پارہ 24، المومن، آیت 60)پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: الدعاء مخ العبادةترجمہ: دعاء عبادت کا مغز ہے۔( سنن الترمذی ج5، ص243، حدیث 3382)ایک اور حدیثِ پاک میں ہے: بلا اترتی ہے پھر دعا اس سے جا ملتی ہے۔ پھر دونوں قیامت تک جھگڑا کرتے رہتے ہیں۔( المستدرک ج2، ص162، حدیث 1856)بعض لوگ دعا کی قبولیت کے لئے بہت جلدی مچاتے بلکہ معاذاللہ! باتیں بناتے ہیں کہ ہم تو اتنے عرصے سے دعائیں مانگ رہے ہیں مگر اللہ پاک ہماری حاجت پوری نہیں کرتا۔ بسا اوقات دعا کی قبولیت میں کافی مصلحتیں بھی ہوتی ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں لہٰذا ہمیں ایسی باتوں سے بچنا چاہیے اور اللہ پاک کی رضا میں راضی رہنا چاہیے۔ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ اور قطعِ رحمی کی کوئی بات شامل نہ ہو تو اللہ پاک اسے تین چیزوں میں سے کوئی ایک ضرور عطا فرماتا ہے:1- یا اس کی دعا کا نتیجہ جلد ہی اس کی زندگی میں ظاہر ہو جاتا ہے۔2- اللہ پاک کوئی مصیبت اس بندے سے دور فرما دیتا ہے یا3- اس کے لئے آخرت میں بھلائی جمع کی جاتی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے: بندہ جب آخرت میں اپنی دعاؤں کا ثواب دیکھے گا جو دنیا میں مستجاب(یعنی قبول) نہ ہوئی تھیں تو تمنا کرے گاکہ کاش!دنیا میں میری کوئی دعا قبول نہ ہوتی۔( المستدرک للحاکم ج2، ص163، 165 حدیث 1859، 1862) اس حدیثِ پاک سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ دعا کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتی۔اگر دنیا میں دعا قبول نہ بھی ہو تو آخرت میں اس کا اجر و ثواب مل جائے گا لہٰذا دعا کی قبولیت میں جلدی مچانے سے بچنا چاہیے۔اللہ پاک اپنے بندوں کی دعائیں اپنی رحمت سے قبول فرماتا ہے لیکن یاد رہے! دعا کی قبولیت کے لئے چند شرطیں ہیں اور وہ یہ ہیں:دعا میں اخلاص کا ہونا ضروری ہے، دل کسی غیر کی طرف مشغول نہ ہو، دعا کسی امر ممنوع پر مشتمل نہ ہو، اللہ پاک کی رحمت پر یقین رکھتا ہو، شکایت نہ کرے کہ میں نے دعا مانگی قبول نہ ہوئی جب ان شرطوں سے دعا کی جائے، قبول ہوتی ہے۔دعا کی قبولیت کے بہت سے مقامات ہیں جن میں سے چند بیان کئے جاتے ہیں۔1۔ صفا۔2۔ مروہ۔3۔ مسجد نبی۔4۔ مسعی:مقامِ سعی یعنی صفا و مروہ کے درمیان کا راستہ، خصوصا جب دونوں سبز نشانوں کے درمیان پہنچے کہ وہ بھی دعا کی قبولیت کا مقام ہے۔5۔ نظر گاہِ کعبہ یعنی جہاں کہیں سے کعبہ شریف نظر آئے وہ جگہ بھی مقام قبولیت ہے۔6۔ داخل بیت (بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر)۔7۔ مسجد قباء شریف میں۔8۔ مسجد الفتح میں خصوصا بدھ کے دن ظہر و عصر کے درمیان۔امام احمد بسندِ جید اور بزار وغیرہما جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے راوی: حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسجد فتح میں تین دن دعا فرمائی، دو شنبہ، سہ شنبہ، چہار شنبہ (یعنی پیر، منگل اور بدھ کے دن)۔ چہار شنبہ کے دن دونوں نمازوں کے بیچ میں اجابت فرمائی گئی کہ خوشی کے آثار چہرہ انور پر نمودار ہوئے۔ جابر رضی اللہ عنہفرماتے ہیں: جب مجھے کوئی امر مہم (اہم کام) بشدت پیش آتا ہے، میں اس ساعت میں دعا کرتا ہوں اجابت ظاہر ہوتی ہے۔(المسند، للامام احمد بن حنبل، الحدیث: 14569، ج5، ص 87)9۔ مواجہہ شریفہ حضور سیدالشافعین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دعا یہاں قبول نہ ہو گی تو کہاں ہو گی! (الحصن الحصین، اماکن الاجابة، ص31)10۔ وہ کنویں جنہیں حضور پرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف نسبت ہے۔11۔ جبلِ احد شریف (یعنی احد پہاڑ)۔12 ۔مزاراتِ بقیع و احد۔13۔ منبر اطہر کے پاس۔14۔ مسجد اقدس کے ستونوں کے نزدیک۔15۔ اولیا و علما کی مجالس۔اللہ پاک ہمیں دعا کی اہمیت و فضیلت کو سمجھتے ہوئے ایسے مقامات پر ادب کے ساتھ دعا مانگنے کا سلیقہ عطا فرمائے اور دعا کے ذریعے سے اپنا قرب نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


دعا ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آ یاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ وارد ہیں۔دعا کی نہایت عظمت میں ایک حکمت یہ ہے کہ دعا اللہ پاک سے ہماری محبت کے اظہار، اس کی شان الوہیت کے حضور ہماری عبدیت کی علامت، اس کے علم و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اور اس کی ذات پر ہمارے ایمان کا اقرار و ثبوت ہے۔دعا کے لغوی معنی : لفظ دعا دعویا دعوۃسے بنا ہے جس کے معنی بلانا یا پکارنا ہے ۔دعا کی فضیلت و اہمیت قرآن ِکریم کی روشنی میں:اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے : وقال ربكم أدعوني أستجب لكمترجمۂ کنزالایمان:اور تمہارے ربّ نے فرمایا :مجھ سے دعا کرو میں قبول کرو گا ۔(پ24 سورۃ المؤمن :60)دعا کی فضیلت و اہمیت حدیث کی روشنی میں :اللہ پاک دعا کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ (مسلم،ص،1442،حدیث نمبر، 2675)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ آ پ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ پاک کے یہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں۔ (ترمذی) قبولیتِ دعا کے مقامات : 1۔بیت اللہ کا طواف کرتے وقت 2۔مسجد نبوی میں 3 ۔ملتزم وہ جگہ جو حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان ہے اس سے چمٹ کر دعا کرنا 4️۔رکن و مقامِ ابراہیم کے درمیان 5️۔میزابِ رحمت کے نیچے ۔صفا و مروہ پر6️۔مقامِ ابراہیم کے پیچھے 7️۔مشعرِ حرام مزدلفہ میں ۔8️۔رکنِ ایمانی اور حجرِ اسود کے درمیان ۔9️۔زم زم کا پانی پیتے وقت ۔10عرفات میں اس جگہ جہاں سعی کی جاتی ہے ۔11بیت المقدس میں ۔12 مزاراتِ اولیاء کرام پر13 جمرۂ صغریٰ اور 14 جمرۂ وسطیٰ کے پاس کنکریاں مرنے کے بعد ۔ قبولیتِ دعا کے مقامات پر واقعہ :کہتے ہیں: ایک بار اورنگ زیب عالمگیر سلطان الہند خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انور پر حاضر ہوئے ۔احاطہ میں ایک اندھا فقیر بیٹھا صدا لگارہا تھا: یا خواجہ غریب رحمۃ اللہ علیہ! آ نکھیں دے۔آ پ نے اس فقیر سے دریافت کیا :بابا! کتنا عرصہ ہوا آ نکھیں مانگتے ہوئے ؟ بولا :برسوں گزر گئے ہیں مگر مراد ہی پوری نہیں ہوئی۔آ پ نے فرمایا :میں مزارپاک پر حاضری دے کر تھوڑی دیر میں واپس آ تا ہو اگر آ نکھیں روشن ہوگئی تو ٹھیک ورنہ قتل کروا دو گا !یہ کہہ کر فقیر پر پہرا لگا کر بادشاہ حاضری کیلئے اندر چلے گئے ۔ادھر فقیر پر گریہ طاری تھا اور رورو کر فریاد کر رہا تھا :یا خواجہ رحمۃ اللہ علیہ !پہلے صرف آ نکھوں کا مسئلہ تھا اب تو جان پر بن گئی ہے ! اگرآپ رحمۃ اللہ علیہ نے کرم نہ فرمایا تو مارا جاؤں گا ۔جب بادشاہ حاضری دے کر لوٹا تو اس کی آ نکھیں روشن ہوچکی تھیں۔بادشاہ نے مسکرا کر فرمایا: تم اب تک بےدلی اور بے توجہی سے مانگ رہے تھے اور اب تم نے جان جانے کے خوف اور دل کی تڑپ کے ساتھ سوال کیا تو تمہاری مراد پوری ہوگی (قبولیت دعا کے مقامات، ص، 15) اس واقعہ سے معلوم ہوا ! اللہ والوں کے مزارات پر اگر سچے دل سے یقین کے ساتھ دعا مانگی جائے تو وہ قبول ہوتی ہے ۔آ خر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہماری نیک اور جائز دعائیں قبول فرمائے اور ہمیں ان اولیا ئے کرام کے مزارات سے مستفید ہو نے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ثم آمین یارب العالمین


قرآن ِکریم میں ہے:وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ (پارہ 24 المومن 60)ترجمۂ کنز العرفان:اور تمہارے رب نے فرمایا: مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔حضور خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: بندہ اپنے رب سے جو بھی دعا مانگتا ہے اس کی دعا قبول ہوتی ہے، (اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ) یا تو اس کی مانگی ہوئی مراد دنیا ہی میں اس کو جلد دیدی جاتی ہے ،یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے یا دعا کے مطابق اس کے گناہوں کا کفارہ کردیا جاتا ہے اور اس میں شرط یہ ہے کہ وہ دعا گناہ یا رشتہ داری توڑنے کے بارے میں نہ ہو اور (اس کی قبولیت میں) جلدی نہ مچائے ۔صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:وہ جلدی کیسے مچائے گا؟ ارشاد فرمایا:اس کا یہ کہنا کہ میں نے دعا مانگی لیکن قبول ہی نہ ہوئی (یہ کہنا ہی جلدی مچانا ہے)۔ (ترمذی، احادیث شتّی، 135- باب، 5/347، الحدیث: 3618)معلوم ہوا ! اللہ پاک کی رحمت سے ہر دعا ہی مقبول ہے تاہم وہ 15 مقامات جہاں کی جانے والی دعا بطورِ خاص قبولیت سے مشرف ہوتی ہے، درج ذیل ہیں:1:مطاف :یعنی جس جگہ میں طواف کیا جاتا ہے۔ (رفیق الحرمین ص 34)2:میزابِ رحمت کے نیچے۔ میزابِ رحمت سونے کا پر نالہ ہے جو رکنِ عراقی و شامی کی بیچ کی شمالی دیوار پر چھت میں نصب ہے۔(بہار شریعت، حصہ6، ص 1094) اس سے بارش کا پانی حطیم میں نچھاور ہوتا ہے۔ (رفیق الحرمین ص 38)3:حطیم:حطیم بھی اسی شمالی دیوارکی طرف ہے۔ یہ زمین کعبۂ معظمہ ہی کی تھی۔ زمانہ جاہلیت میں جب قریش نے کعبہ ازسر نو تعمیر کیا تو اخراجات کی کمی کے باعث اتنی زمین کعبۂ معظمہ سے باہرچھوڑ دی اور اس کے ارد گرد ایک قوسی انداز کی چھوٹی سی دیوار کھینچ دی۔ دونوں طرف آمدورفت کا دروازہ ہے اور یہ مسلمانوں کی خوش نصیبی ہے اس میں داخل ہونا کعبہ معظمہ ہی میں داخل ہونا ہے جو بحمد ﷲ بآسانی نصیب ہوتا ہے۔ (بہار شریعت، حصہ 6، ص 1094، ملخصا)4:حجرِ اسود5:مقامِ ابراہیم کے پیچھے6:صفا7:مروہ8:مسجدِنبوی9: مواجہہ شریف۔ امام ابن الجزری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی! اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ مواجہہ شریف کی تعیین کرتے ہوئے فرماتے ہیں: زیرِ قندیل اس چاندی کی کیل کے جو حجرۂ مطہرہ کی جنوبی دیوار میں چہرہ ٔانور کے مقابل لگی ہے۔ (فتاوی رضویہ ج 10 ص 765)10:مسجد نبوی کے ستونوں کے قریب11:ایسی مسجدیں جن کو حضور خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے شرفِ نسبت حاصل ہے جیسے مسجد غمامہ، مسجد قبلتین وغیرہ۔12:وہ تمام مقامات جہاں ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمظاہری حیات ِمبارکہ میں تشریف لے گئے جیسے سلمان فارسی رضی اللہ عنہکا باغ وغیرہ۔13:تمام اولیاء و صلحاء و محبوبانِ باری کی بارگاہیں، خانقاہی آرام گاہیں۔14:اولیاء و علماء کی مجالس15:مکانِ استجابتِ دعا یعنی وہ جگہ جہاں ایک بار دعا قبول ہوئی، خواہ اپنی یا دوسرے مسلمان بھائی کی۔(ماخوذ از فضائلِ دعا)


اے عاشقانِ رسول ! دعا اللہ پاک کی قربت حاصل کرنے، مغفرت کے پروانے اور رب العزت کے انعام و اکرام کے مستحق ہونے کا آسان ذریعہ ہے۔لفظ دعا ”دعوۃ“ سے مشتق ہے۔دعا سے مراد چھوٹے کا بڑے سے اظہارِ عجز کے ساتھ مانگنا۔دعا مانگنا بھی رب  کریم کی عبادت ہے۔اے عاشقانِ رسول !دعا کی اہمیت و فضیلت میں بہت سی آیات ِمبارکہ اور احادیثِ مبارکہ وارد ہوئی ہیں جیسا کہ اللہ پاک قرآن ِمجید میں ارشاد فرماتا ہے: مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا۔(پارہ 23 سورہ المؤمن آیت نمبر60)اسی طرح ایک اور مقام پر رب کریم نے فرمایا :میں دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارے ۔(پارہ 2سورہ البقرہ آیت نمبر186) پیارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: الدعاء مخ العبادۃ یعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔(مراۃ المناجیح دعاؤں کا باب صفحہ نمبر 314) اے عاشقان ِصحابہ و اہلِ بیت!یقینا اللہ پاک ہر جگہ و ہر وقت دعا قبول فرماتا لیکن جس طرح بعض مخصوص اوقات قبولیت ِدعا کے حوالے سے مشہور ہیں اسی طرح بعض مقامات بھی ایسے جس میں اللہ پاک دعا قبول فرماتا ہے۔یہاں قبولیِت دعا کے پندرہ مقامات ذکر کیے جارہے ہیں:مقام نمبر 1:مواجہہ شریف حضور سید المرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماس پر یہی دلیل کافی ہے ۔اللہ کریم نے قرآن ِکریم میں ارشاد فرمایا: پارہ 5 سورۃ النساء آیت نمبر 64:اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں پھر تیرے حضور حاضر ہوں اور اللہ سے معافی مانگیں اور رسول ان کی بخشش چاہے تو ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔2.ملتزم:یہ حجر ِاسود اور بابِ کعبہ کی درمیانی جگہ ہے۔3:مزارِ مبارک ابو حنیفہ۔امام شافعیرحمۃُ اللہِ علیہکا معمول تھا کہ جب آپ کو کوئی حاجت پیش آتی تو آپ دو رکعت نفل پڑھتے اور امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ کی قبرِ انور کے پاس دعا فرمایا کرتے اور اللہ پاک ان کی دعا قبول فرماتا۔4:جبلِ احد یعنی احد پہاڑ5:مقامِ ابراھیم کے پیچھے۔6۔حطیم:کعبہ معظمہ کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں باؤنڈری کے اندر کا حصہ حطیم ہے۔حطیم میں داخل ہونا عین کعبہ المعظمہ میں داخل ہونا ہے۔7..وہ کنویں جن کی نسبت پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف ہے۔8:منبر اطہر کے پاس9:مسجد نبوی 10:محراب مریم جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:ترجمۂ کنز الایمان:یہاں پکارا زکریا نے اپنے رب کو۔(پارہ 3 سورہ آل عمران آیت نمبر38) حضرت زکریا علیہ السلام نے محرابِ مریم میں جب اللہ پاک کی کرم نوازیاں دیکھی تو وہاں پر آپ علیہ السلام نے رب العزت سے نیک اولاد کی دعا فرمائی تو اللہ پاک نے ان کی دعا قبول فرما کر ان کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بشارت عطا فرمائی۔11: صفاو مروہ:12:کعبہ شریف کی عمارت کے اندر13:مستجاب:14:عرفات:خصوصا جہاں نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے قیام فرمایا اس کے نزدیک۔15: نظر گاہِ کعبہ یعنی جہاں سے کعبہ شریف نظر آئے وہ جگہ بھی مقام قبولیت ہے۔اللہ کریم اپنی رحمت ِکاملہ کے صدقے ہماری نیک و جائز دعاؤں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


دعا اللہ پاک سے مناجات کرنے ، اس کی قربت حاصل کرنے ، اس کے فضل وانعام کے مستحق ہونے اور بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت آسان اورمجرب ذریعہ ہے ۔ دُعا ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیاتِ کریمہ اور احادیثِ طیبہ وارِد ہیں۔ دعا کی نہایت عظمت میں ایک حکمت یہ ہے کہ دُعا اللہ پاک سے ہماری محبت کے اِظہار، اُس کی شانِ اُلوہیت کے حضور ہماری عبدیت کی علامت، اُس کے علم و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اور اُس کی ذاتِ پاک پر ہمارے ایمان کا اقرار و ثبوت ہے۔اسی طرح دعا پیارے مصطفی کریم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی متوارث سنت،اللہ پاک کے پیارے بندوں کی متواتر عادت، درحقیقت عبادت بلکہ مغزِ عبادت، اورگنہگار بندوں کے حق میں اللہ پاک کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت و سعادت ہے ۔دُعا کی اہمیت ا ور وقعت کا اندازہ خود قرآنِ پاک میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے ۔ ترجمۂ کنزالایمان: مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہو کر۔(پ24، المؤمن:60یہاں عبادت سے مُراد دُعا ہے ۔ (فضائل دعا، ص48)ایک اور مقام پر فرمایا :ترجمۂ کنزالایمان:میں دعا مانگنے والے کی دعا قبو ل کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارے ۔(پ2، البقرۃ :186)دُعا کے فضائل کے متعلّق چند احادیثِ کریمہ ملاحظہ فرمائیں:٭دُعا مصیبت و بلا کو اُترنے نہیں دیتی۔ (مستدرک،ج2،ص162، حدیث:18856)٭دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ (ترمذی،ج5،ص318، حدیث: 3551)٭دعا رحمت کی چابی ہے۔(الفردوس،ج 2،ص224، حدیث:3086)اب یہاں قبولیتِ دعا کے کچھ اوقات ذکر کیے جاتے ہیں:قال الرضا: اوّل(1): مَطاف:قال الرضا:یہ وسط ِمسجد الحرام شریف میں ایک گول قِطْعَہ ہے ، سنگ ِمرمر سے مَفْرُوش(یعنی زمین کا وہ ٹکڑا جس پر سنگِ مرمر بچھا ہوا ہے )اس کے بیچ میں کعبۂ معظمہ ہے یہاں طواف کرتے ہیں،زمانۂ اقدس حضور سید عالم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  میں مسجد اسی قدر تھی،أَفَادَہُ الْمُصَنِّفُ قُدِّسَ سِرُّہٗ فِيالْجَوَاہِرِ۔دُوُم(2):مُلتزَم۔قال الرضا:یہ کعبۂ معظمہ کی دیوارِ شرقی کے پارۂ جنوبی کا نام ہے،جو درمیان درِ کعبہ وسنگِ اَسود واقع ہے ، یہاں لپٹ کر دعا کرتے ہیں۔حدیث شریف میں  ہے:حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں :میں جب چاہوں جبرائیل کو دیکھ لوں کہ ملتزم سے لپٹا ہوا کہہ رہا ہے : ((یَا وَاجِدُ یَا مَاجِدُ لَا تُزِلْ عَنِّيْ نِعْمَۃً أَنْعَمْتَھَا عَلَيَّ))۔ ترجمۂ کنزالایمان:الحمد للہ کہ حضور پُرنور  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے کرم سے اللہ پاک نے اس گدائے بے نوا کو بھی یہ دعا کرامت فرمائی بارہا ملتزم سے لپٹ کر عرض کیا ہے : ((یَا وَاجِدُ یَا مَاجِدُ لَا تُزِلْ عَنِّيْ نِعْمَۃً أَنْعَمْتَھَا عَلَيَّ))۔أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ عَمَّ نَوَالُہٗ سے اُمید ِ قبول ہے ۔وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ أَجْمَعِیْنَ۔)سِوُم(3):مُسْتَجار:رکنِ شامی و یمانی کے درمیان مُحاذیٔ مُلتَزَم(ملتزم کے سامنے والی دیوار میں )واقع ہے۔قال الرضا:یا برقیاس سابق یوں کہئے کہ یہ کعبۂ معظمہ کی دیوارِ غربی کے پارۂ جنوبی کا نام ہے ، جو درمیان درِ مَسْدُود ورکنِ یمانی واقع ہے ۔)چَہَارُم(4):داخلِ بیت(بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر)۔ پَنْجُم(5):زیرِ میزاب۔شَشُم(6):حطیم۔(5):سورج ڈھلتے۔ حدیث میں ہے:اس وقت آسمان کے دروازے کھلتے ہیں۔( ابن ماجہ ابواب اقامۃالصلوات والسنہ وبہا،باب فی الاربع الرکعات قبل الظہر ، حدیث :1157،ج2،ص40 ) نیز حدیثحَسَن بِطُرُقِہٖ میں فرمایا:جب سائے پلٹیں اور ہوائیں چلیں تو اپنی حاجات عرض کرو کہ وہ ساعت اَوَّابِین کی ہے(یعنی وہ وقت اللہ  پاک کی طرف رجوع کرنے والوں کا ہے )۔ رواہ الدیلمي وأبو نعیم عن ابن أبي أوفی رضي اللہ عنہ۔(6):رات کو سونے سے جاگ کر۔قال الرضا:حضور سید عالم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:جو رات کو سوتے سے جاگے پھر کہے:لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسُبْحَانَ اللہِ وَلَا إِلٰـہَ إِلاَّ اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہ۔اس کے بعد اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِيْ(اے اللہ  پاک! میری مغفرت فرما) کہے۔یا فرمایا:دعا مانگے ، قبول ہو اور اگر وضو کر کے دو رکعت پڑھے نماز مقبول ہو۔رواہ البخاري، وأبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجہ عن عبادۃ بن الصامت رضي اللّٰہ تعالٰی عن(7):بعد قرأت سورۂ اِخلاص وغیر ذلک۔(8):رجب کی چاند رات۔ (9): شبِ برأت(10):شبِ عیدالفطر۔(11):شبِ عید الاضحی۔ابنِ عساکر عن أبي أمامۃ رضي اللہ تعالٰی عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم : خمس لیال لا تردّ فیھن الدعوۃ أوّل لیلۃ من رجب ولیلۃ النصف من شعبان ولیلۃ الجمعۃ ولیلۃ الفطر ولیلۃ النحر)۔ (12):رات کی پہلی تِہائی۔(13):رات کا پچھلا ثُلُث(یعنی آخری تہائی)۔ (14): اذان سننے میں  بعدحَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ (15): تلاوتِ سورہ ٔاَنعام میں دو اسم جلالت کے ما بین یعنی آیۂ کریمہ:(مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰهِ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗؕ)ترجمۂ کنزالایمان : جیسا اللہ کے رسولوں کو ملااللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے۔میں دونوں لفظ اللہ کے درمیان دعا کرے ۔ایسا نہیں کہ قبولیت کے تمام مواقع بیان کردیئے گئے ہوں بلکہ مذکورہ اوقات کے علاوہ اور بھی ہوسکتے ہیں۔دعا مانگ کر نتیجہ اللہ پاک کے ذمہ کرم پر چھوڑ دینا چاہیے کہ رحمٰن و رحیم خدا ہمارے ساتھ وہی معاملہ فرمائے جو ہمارے حق میں بہتر ہے۔ قضائے الٰہی پر راضی رہنا بہت اعلیٰ مرتبہ ہے اور حقیقت میں ہمارے لئے یہی مفید تر ہے کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے جبکہ خدا کا علم لامتناہی و محیط ہے۔رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِرشاد فرماتے ہیں: اے عزیز!دعا ایک عجیب نعمت اور عمدہ دولت ہے کہ پروردگار نے اپنے بندوں کو کرامت فرمائی اور اُن کو تعلیم کی،حلِ مشکلات میں اس سے زیادہ کوئی چیز مؤثر نہیں ، اور دفعِ بلا وآفت میں کوئی بات اس سے بہتر نہیں۔


دعا کے لغوی معنی :  دُعا دَعی ٰیَدعو سے نکلاہے ۔اس سے مرادطلب کرنا، بلانا، پکارنا، مدد چاہنا، درخواست کرنا ہے۔ مثال: دَعَوتُ اللہ میں نے اللہ پاک سے دعا یعنی درخواست کی۔ دعا کے اصطلاحی معنیٰ :خیر و برکت کے حصول اور شر سے پناہ کے لیے اللہ پاک کے حضور گڑگڑانا اور پکارنا دعا کہلاتا ہے ۔فضائلِ دُعا: دعا ایک عبادت ہے ۔تمام زمانے کے علما کا اتفاق ہے کہ دعا مانگنا مستحب ہے ۔اس میں اللہ پاک کے سامنے اپنی عاجزی و انکساری کا اظہار اور اللہ پاک کی عظمت و قدرت کا اعتراف کرتےہوئےاپنی حاجت پوری ہونے کی درخواست کرناہے۔ دعا نہ کرنا عبادت سے اعراض ہے۔ اس لیے اللہ پاک کی ناراضی کا باعث ہے۔( ابن ماجہ کتاب) قرآنِ پاک سے دلیل: اللہ پاک فرماتا ہے :œÑ’'ë¨o"K*`6 تمہارے رب نے فرمایا :مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا ۔ (پ24، سورۃ المومن: آیۃ 60)حدیثِ پاک سے دلیل: حضرت انس رضی اللہ عنہ سےروایت ہے ، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں :کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جو تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دے اور تمہارے رزق وسیع کر دے!رات دن اللہ پاک سے دعا مانگتے رہو کہ یہ سلاح ِمومن (یعنی مومن کا ہتھیار) ہے۔ دعا مانگنا بہت بڑی سعادت ہے۔دعا کے بہت سے فوائد بھی ہیں اور دعا مانگنا سنت بھی ہے ۔ہر روز کم از کم20 بار دعا کرنا واجب ہے ۔الحمدللہ نمازیوں کا یہ واجب نماز میں سورۃ الفاتحہ سے ادا ہو جاتا ہے۔دعا قبول ہونے کے ایسے طریقے ہیں کہ جن پر عمل کیا جائے تو دعا قبول ہوتی ہے یا ایسے الفاظ ہیں جن کو ادا کرنے سے دعا قبول ہوتی ہے جیسےدعا سے پہلے اول و آخر درود ِپاک پڑھنا تو ایسی دعا اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول ہے یا ایسے الفاظ مثلا ارحم الراحمین۔اللہ پاک کے ناموں سے پکارنے پر دعا مقبول ہوتی ہے ۔اسی طرح اولیائے کرام کے وسیلے سے دعا کرنے سے دعا قبول ہوتی ہے۔اسی طرح وہ اوقات اور حالات بھی ہیں جن میں دعا مانگنے سے دعا قبولیت کا درجہ پاتی ہے مثلا شبِ جمعہ، روز ِجمعہ، شبِ قدر، ماہِ رمضان مطلقاً ۔ان اوقات میں دعا قبول ہوتی ہے۔اسی طرح وہ مقامات بھی ہیں جہاں جا کر دعا کریں تو دعا قبول ہوتی ہے۔والدِ گرامی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں :وہ23 ہیں اور بعد میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے 21 اور ملحق کئے یعنی وہ مقامات 44ہیں جن میں سے چند یہ ہیں ۔قبولیت دعا کے پندرہ مقامات : 1) مطاف : یہ مسجدِ حرام شریف کے درمیان میں ایک گول قطعہ ہے اس کے بیچ میں کعبہ معظمہ ہے یہاں طواف کرتے ہیں ۔زمانۂ اقدس حضور پاک سید عالم میں مسجد اسی قدر تھی۔(فضائلِ دُعا فصل چہارم صفحہ 128)2) ملتزم: یہ وہ مقام ہے جو کعبۃ اللہ شریف کی مشرقی دیوار کے جنوبی حصہ میں حجرِ اسود اور بابِ کعبہ کے درمیان واقع ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں لوگ لپٹ لپٹ کر دعائیں مانگتے ہیں۔

ملتزم سے تو گلے لگ کے نکالے ارماں ادب وشوق کا یاں باہم الجھنا دیکھو(حدائق بخشش،ص95)

3) زیرِ میزاب: امیرِ اہلسنّت مدظلہ العالی ارشاد فرماتے ہیں: میزابِ رحمت:سونے کا پرنالہ یہ رکنِ عراقی و شامی کی شمالی دیوار پر چھت پر نصب ہے،اس سے بارش کا پانی حطیم میں نچھاور ہوتا ہے۔(رفیق الحرمین، ص37-38)

زیر ِمیزاب ملے خوب کرم کے چھینٹے ابرِرحمت کا یہاں زورِ برسنا دیکھو(حدائق بخشش، ص94)

4)حجرِ اسود:یہ وہ جنتی پتھر ہے جوکعبۃ اللہ شریف کے جنوب مشرقی کونے میں واقع رکنِ اسود میں نصب ہے۔مسلمان اسے چومتے اور استلام کر کے اپنے گناہ دھلواتے ہیں۔

دھوچکا ظلمتِ دل بوسہ سنگ اسود خاک بوسی مدینہ کا بھی رتبہ دیکھو (حدائق بخشش، ص95)

5) رکن یمانی :اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:خصوصاً جب کہ طواف کرتے وہاں گزر ہو۔حدیث شریف میں ہے:یہاںاَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِي الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہے، ہزار فرشتے آمین کہیں گے۔

ایمنِ طور کا تھا رکنِ یمانی میں فروغ شعلہ طور یہاں انجمن آرا دیکھو (حدائق بخشش، ص95)

6)صفا :اس مقام پر بھی دعا مانگی جائے تو قبول ہوتی ہے ۔7) مروہ: اس مقام پر بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ 8) نظر گاہ ِکعبہ : جہاں کہیں سے کعبہ نظر آئے وہ جگہ مقام قبولیت ہے۔9) اولیاء و علماء کی مجالس:نَفَعَنَا اللّٰہُ تَعَالٰی بِبَرَکَاتِھِمْ أَجْمَعِیْنَ (اللہ پاک ہمیں تمام ہی اولیاء وعلماء کی برکتوں سے نفع پہنچائے)۔10)مزارِ شاہِ عالم کے تخت کے نیچے کھڑے ہو کر دعا مانگنے سے دعا قبول ہوتی ہے: گجرات احمد آباد ہندوستان میں شاہ ِعالم رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے ۔آپ علماء کو سبق پڑھاتے تھے۔بیمار ہوگئے۔طلباء کا آٹھ دس دن کا نقصان ہوگیا ۔جب صحت یاب ہوئے تو فرمایا:آپ کا حرج ہو گیا !تو علماء نے کہا: نہیں تو ! آپ تو روز ہمیں سبق پڑھاتے تھے ! یہ معمہ بن گیا ۔آقا علیہ السلام خواب میں آئے اورفرمایا :شاہ ِعالم! آپ کے طلباء کا نقصان ہو رہا تھا اس لیے ہم نے روز سبق پڑھایا ۔ اس تخت پر جس پر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بیٹھ کر روزانہ سبق پڑھایالوگوں نے وہ درخت سے باندھ کر لٹکا دیا ہے ۔اب اس کے نیچے کوئی اگر جائے تو پیارے مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی جلوہ گری کی برکت سے اس جگہ مانگی گئی دعا قبول ہوتی ہے ۔( شیخ محدث شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی کتاب اخبار الاخیار) 11)مزارِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہکے پاس: حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مجھے جب کوئی حاجت پیش آتی دو رکعت نماز پڑھتا اور قبر ِامام ابو حنیفہ کے پاس جا کر دعا مانگتا ہوں اللہ پاک پوری فرماتا ہے۔یہ مضمون امام ابن ِحجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے الخیرات الحسان فی منا قب الامام الاعظم ابی حنیفہ نعمان میں نقل فرمایا ہے۔12) تربتِ سراپا برکت غوث ِاعظم رحمۃ اللہ علیہ 13) مرقدِ مبارک حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ 14) مزار ِمبارک حضرت امام موسی کاظم رحمۃ اللہ علیہ : امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دعا کے قبول ہونے میں نہایت تجربہ شدہ عمل ہے۔15) وہ کنویں جنہیں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف نسبت ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں دعا کوقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ ہمیں بھی جب کبھی ان مقامات میں سے کسی مقام پر جانے کا موقع ملے تو ہمیں بھی دین و دنیا کی بھلائی کی دعا کرنی چاہیے اور دوزخ کے عذابات سے پناہ مانگنی چاہیے۔اللہ پاک ہمیں بھی ان زیاراتِ مقدسہ کی زیارات سے مشرف فرمائے ۔آمین (فضائلِ دُعا رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ )


اے عزیز!دعا ایک عجیب نعمت اور عمدہ دولت ہے کہ پروردگارِ عالم نے اپنے بندوں کی کرامت فرمائی اور ان کو تعلیم کی۔حلِّ مشکلات میں اس سے زیادہ کوئی چیز اثر نہیں رکھتی اور رَفعِ بلا وآفت میں اس سے زیادہ کوئی چیز اثر نہیں رکھتی اور رَفعِ بلا وآفت میں کوئی بات اس سے بہتر نہیں۔(فضائلِ دُعا، صفحہ 34)دُعادَعْویا دعوتٌ سے بنا ہے، جس کے معنی بلانا یا پکارنا ہے۔قرآن شریف میں لفظ دعا پانچ معنوں میں استعمال ہوا ہے: 1۔ پکارنا، 2۔بلانا، 3۔مانگنا یا دعا کرنا، 4۔معبود سمجھ کر پکارنا، 5۔تمنا آرزو کرنا۔ اللہ پاک بندوں کی دعائیں اپنی رحمت سے قبول فرماتا ہے یا تو اس کی دعا دنیا میں ہی قبول ہو جاتی ہے یا آخرت کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے یا اس سے اس کے گناہوں کا کفارہ کردیا جاتا ہے۔دعا کی اہمیت اور وُقعت کااندازہ خود قرآن ِپاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ ۔ترجمہ:مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا،جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہو کر۔ (پارہ 24، المؤمن:60) یہاں عبادت سے مراد دعا ہے۔(فضائلِ دُعا:48)قبولیتِ دعا کے بہت سے مقامات ہیں، جن میں سے 15 مقامات درج ذیل ہیں۔ 1۔داخلِ بیت(بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر) 2۔حطیم(یہ کعبہ شریف کا حصّہ ہے، اس میں داخل ہونا عینِ کعبہ شریف میں داخل ہونا ہے)3۔حجرِاسود(جنتی پتھر)۔(فضائلِ دُعا، صفحہ 133)4۔رکن یمانی۔ (فضائلِ دُعا، صفحہ 133)5۔صفا 6۔مروہ7۔مسعٰی خصوصاً دونوں میل سبز کے درمیان(دونوں سبز نشانوں کے درمیان پہنچے کہ وہ بھی قبولیتِ دعا کا مقام ہے) 8۔عرفات،خصوصا نزدِ موقف نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مزدلفہ خصوصاً مشعر الحرام(یعنی جبلِ قزح)10۔منٰی 11۔نظر گاہِ کعبہ(جہاں کہیں سے کعبہ شریف نظر آئے وہ جگہ بھی مقامِ قبولیت ہے)۔(فضائلِ دُعا، صفحہ 355) 12۔مسجد ِنبوی 13۔مکانِ استجابت دعا،جہاں ایک مرتبہ دعا قبول ہو وہاں پھر دعا کریں۔ 14۔اولیاء علماء کی مجالس(اللہ پاک ہمیں تمام ہی اولیاء علماء کی برکتوں سے نفع پہنچائے)(فضائلِ دُعا، صفحہ 136) 15۔خلفِ مقامِ ابراہیم علیہ السلام(مقامِ ابراہیم کے پیچھے)۔ (فضائلِ دُعا، صفحہ 134)


اللہ پاک سے دعا کرنا عبادت ہے۔ اس میں اپنی بندگی کا اقرار و اظہار ہے۔ دعا عبادت  کارُکنِ اعلٰی ہے، جیسے مغز کے بغیر ہڈی، گودے کے بغیر چھلکے کی کوئی قدر نہیں، ایسے ہی دعا سے خالی عبادت کی کوئی قدر نہیں۔ یوں ہی دعا مانگنے پر ثواب ملتا ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ ربّ کریم دعا مانگنے کو پسند فرماتا ہے،خود اللہ پاک قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْمجھ سے دعا مانگو میں قبول کرنے والا ہوں۔(پارہ 24، المؤمن:60)وہیں نہ مانگنے والوں کے بارے میں فرمایا:ترجمہ: تمہاری کچھ قدر نہیں، میرے رب کے یہاں، اگر تم اسے نہ پوچھو۔ (پ25 :77)اسی طرح احادیث میں جا بجا دعا کی ترغیب دلائی، فرمایا:الدعاء مخ العبادۃ دعا عبادت کا مغز ہے۔ الدعاء صلاح المؤمن دعا مؤمن کا ہتھیار ہے۔مزیدفرمایا:قال رسول اللّٰہ من لم یسال اللّٰہ یغضب علیہ جو اللہ پاک سے نہ مانگے، اللہ پاک اس پر ناراض ہوتا ہے۔(رواہ ترمذی حوالہ مراۃالمناجیح، جلد 3، صفحہ 317، حدیث 2133)

آئیے !ان مقامات کا ذکر پڑھئےجن میں دعا قبول ہوتی ہے۔1۔مطاف میں 2۔ملتزم وہ مقام ہے جو خانہ کعبہ شریف کی مشرقی دیوار کے جنوبی حصہ میں حجرِ اسود(کالا پتھر) اور کعبہ کے دروازے کے درمیان میں موجود ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں لوگ لپٹ کر خوب دعائیں مانگتے ہیں۔ 3۔بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر۔ 4۔زیرِ میزاب: سونے کا وہ پرنالہ جس سے بارش کا پانی حطیم میں نچھاور ہوتا ہے۔ 5۔حطیم کعبہ معظمہ کے پاس گول دائرے کی شکل کا ہوتا ہے، یعنی اس باؤنڈری کے اندر کا حصّہ حطیم کہلاتا ہے، اس مقام پر بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ 6۔حجرِ اسود، یہ جنتی پتھر ہے۔ 7۔نزد زم زم۔ 8۔مقامِ ابراہیم کے پیچھے۔ 9۔جمراتِ ثلاثہ، تینوں جمروں کے پاس۔ 10۔صفا۔11۔مروہ۔ 12۔مسجدِ نبوی۔ 13۔مواجہہ شریف حضور سید الشافعین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم 14۔اولیاء علماء کی مجالس میں 15۔حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مشاہدِ متبرکہ، یعنی وہ تمام جگہ جہاں آخری نبی ہمارے آقا و مولا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیات ِطیبہ میں تشریف لے گئے، جیسے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہکا باغ۔( فضائلِ دُعا، ص128 تا136)خاص مقام: علماء کرام نے اس جگہ کو مقبولیت کا مقامات سے شمار کیا ہے، جہاں کسی کی دعا قبول ہوئی ہو،یوں ہی جہاں اولیاء کا وجود ہو یا جہاں وہ رہے ہوں،خانہ کعبہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے روضہ اقدس اور مزاراتِ اولیاء خاص مقامات ہیں، جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ایک ایسا واقعہ جس کا ذکر خود اللہ پاک نے بھی قرآن میں فرمایا اور سورۂ الِ عمران آیت نمبر38 میں اس کا ذکر ہے:ترجمۂ کنزالایمان:یہاں پُکارا ز کریا نے اپنے رب کو بولا اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد، بے شک تو ہی دعا سننے والا ہے۔حضرت مریم رضی اللہ عنہا کی پیدائش کے بعد ان کی کفالت حضرت زکریا علیہ السلام نے کی۔حضرت ذکریا علیہ السلام جب بھی حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے پاس جاتے تو وہ بے موسم پھل پاتے۔ ایک مرتبہ آپ نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے پوچھا:یہ پھل تمہارے پاس کہاں سے آتے ہیں؟ تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے بچپن کی عمر میں جواب دیا:اللہ پاک کی طرف سے۔حضرت ذکریا علیہ السلام نے سوچا جو پاک ذات حضرت مریم رضی اللہ عنہا کو بے موسم اور بغیر ظاہری سبب کے میوہ دینے پر قادر ہے، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ میری بانجھ بیوی کو نئی تندرستی دے اور مجھے بڑھاپے کی عمر میں اولاد کی امید ختم ہو جانے کے بعد فرزند عطا فرما دے، اس خیال سے آپ نے اس جگہ دعا مانگی، آپ کی دعا قبول ہوئی اور آپ کو بشارت ملی کہ آپ کو ایسا بیٹا عطا کیا جائے گا جس کا نام یحیٰ ہوگا۔اس واقعہ کا تفصیلی ذکر سورہ ٔمریم آیت 2 تا15 میں مذکور ہے۔آج ہماری اکثریت دعا سے یکسر غافل نظر آتی ہے۔ جب کوئی مصیبت آ پڑی فورا ًدعا مانگنا شروع کر دی، دعا ہمیشہ کرتی رہیں۔ یاد رکھئے! دعا کے دو فائدے ہوتے ہیں:ایک یہ کہ اس کی برکت سے آئی بلا ٹل جاتی ہےاوردوسرا یہ کہ آنے والی بلا رُک جاتی ہے۔نیت فرمالیجئےکہ دعا کو اپنا معمول بنائیں گی اور خوب دعائیں مانگیں گی۔ ان شاءاللہ 


دعا اللہ پاک کے فضل و کرم کا مستحق ہونے کا نہایت ہی آسان اور مجرب ذریعہ ہے۔گنہگار بندوں کے لئے دعا اللہ پاک کی طرف سے بہت بڑی سعادت ہے۔دعا کی اہمیت کا اندازہ اللہ پاک کے اس فرمان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، اللہ پاک قرآن ِپاک میں ارشاد فرماتا ہے:ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۔ترجمہ:مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا۔(پارہ 24، المؤمن:60)

ہےتیرا فرمان اُدعونی ہے یہ دعا ہو قبر نہ سونی (وسائل بخشش)

اس آیت کی تفسیر میں تفسیر صراط الجنان میں ہے:امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یہ بات ضروری طور پر معلوم ہے کہ قیامت کے دن انسان کو اللہ پاک کی عبادت میں مشغول ہونا نہایت اہم ہے۔ چونکہ عبادات کی اقسام میں دعاایک بہترین قسم ہے،اس لئے یہاں بندوں کو دعا مانگنے کا حکم ہے۔نبی آخر الزماں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبہ والاستففار الخ، حدیث:3551)جن مقامات پر دعا قبول ہوتی ہے، ان میں سے 15 مقامات کا ان شاء اللہ ذکر کیا جائے گا۔1۔مطاف2۔ملتزم3۔مستجار4۔بیت ُاللہ کے اندر5۔حطیم 6۔صفا۔7۔مروہ۔8۔زم زم کے کنویں کے قریب۔یہ جو مقامات ذکئے گئے ہیں، یہ مکہ مکرمہ میں واقع ہیں، اب ان شاءاللہ ان مقامات کا ذکر کیا جائے گا، جو مدینہ منورہ میں واقع ہیں:9۔مسجد ِنبوی شریف10۔منبر ِاطہر کے پاس11۔مسجد ِقبا شریف12۔جبلِ احد شریف۔13۔مسجدِ نبوی کے ستونوں کے نزدیک۔14۔مزاراتِ بقیع15۔وہ مبارک کنویں جنہیں آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے۔(رفیق الحرمین، صفحہ 67،68)جس جگہ کوئی ولی رہتے ہوں یا وہی ہوں اس جگہ زیادہ دعا قبول ہوتی ہے،فرمان ِ باری ہے:ترجمۂ کنزالعرفان:وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا مانگی عرض کیا اے میرے رب مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما بے شک تو ہی دعا سننے والا ہے۔(پ3، عمران 38)اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے پاس کھڑے ہوکر اولاد کی دعا مانگی، تاکہ قربِ ولی کی وجہ سے دعا جلد قبول ہو۔(علم القرآن، صفحہ 219)مواجہہ شریف کے بارے میں امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہا کہ قبول ہوگی۔فضائلِ دُعا کتاب کا مطالعہ کرنے سے ان شاءاللہ دعا کرنے کا ذہن بنے گا۔اللہ پاک اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صدقے اپنی بارگاہ میں دعا کرنے کی سعادت سے نوازے ۔آمین