دعا کی اہمیت و فضیلت: اللہ پاک فرماتا ہے:مجھ سے مانگو میں قبول
فرماؤں گا ۔سرکار ِمدینہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :اللہ پاک کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بزرگ ترنہیں۔آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :دعا مسلمانوں کا ہتھیار ،
دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے۔ دعا کے بے شمار فضائل ہیں ۔اللہ پاک بندے
کی دعا سے بہت خوش ہوتا ہے اور اسے یہ پسند ہے کہ اس سے سوال کیا جائے۔ دعا سے مصیبتیں
اور بلائیں ٹل جاتی ہیں ،اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے رب سے دعا مانگیں۔ بے شک اللہ
پاک دعا مانگنے والے کی دعا قبول فرماتا
ہے۔ دعا کی قبولیت کے کئی مقامات بھی ہیں جن میں سے 15یہ ہیں: قبولیتِ دعا کے
پندرہ مقامات:1۔مطاف۔2۔ملتزم3۔مستجار4۔داخلِ بیت5۔زیر ِمیزاب6۔حطیم7۔حجرِ اسود۔8۔رکنِ
یمانی 9۔ مقامِ ابراہیم کے پیچھے۔ 10۔ چاہ ِزم زم کے پاس۔ 11۔صفا۔ 12۔ مروہ ۔ 13۔
عرفات۔ 14۔مزدلفہ۔ 15۔ منیٰ۔ ان پندرہ مقامات کے علاوہ اور بھی مقامات ہیں جہاں
دعا قبول ہوتی ہے جیسے حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ِمبارک کہ وہاں دعا
قبول ہوتی ہے۔علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ شرح مواہب میں فرماتے ہیں: وہاں اجابت مجرب ہے ۔کہتے
ہیں: سو بار سورۂ اخلاص وہاں پڑھ کر جو چاہے اللہ پاک سے مانگے حاجت پوری ہو۔ آب ِزم
زم پی کر دعا مانگنا ،یوں ہی آب ِزم زم پی کر اگر دعا مانگی جائے تو قبول ہوتی ہے۔
صحیح حدیث میں ہے: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہنے
قبلِ ظہورِ اسلام مہینہ بھر صرف آب ِزم زم پیا ،مکہ میں پوشیدہ تھے، کچھ کھانے کو
نہ ملتا ،تنہا اس مبارک پانی نے کھانے پانی دونوں کا کام دیا اور بدن نہایت ترو
تازہ اور فربہ ہو گیا ۔مجمع ِمسلمانان میں قبولیت ِدعا: اسی طرح جہاں چالیس مسلمان
جمع ہوں وہاں دعا مانگی جائے یہ تو قبول ہوتی ہے کہ جہاں چالیس مسلمان جمع ہوں ان میں
ایک ولی اللہ ضرور ہوگا ۔ ذکر ِخدا اور رسول کی مجلس میں دعا مانگنا : ذکر ِخدا
اور رسول کی مجلس میں بھی دعا مانگنے سے قبول ہوتی ہے ۔صحیح حدیث شریف میں ہے :فرشتے
ان کی دعا پر آمین کہتے ہیں۔ دعا اللہ پاک
سے دعا ہے۔ وہ ہمیں خوب خشوع و خضوع کے ساتھ دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائے اور
ہمیں اپنے پسندیدہ بندیوں میں شامل فرما لے۔آمین یا رب العالمین
چھوٹے کا اپنے بڑے سے اظہار عجز کے ساتھ مانگنا دعا کہلاتا ہے۔مشکلات
کو حل کرنے اور آفات و بلیات ٹالنے میں دعا سے زیادہ مؤثر اور بہترین کوئی چیز نہیں۔
خود اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا مفتی احمدیار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مراٰۃ المناجیح جلد 3صفحہ
314 پر حدیث ِمبارکہ دعا عبادت کا مغز ہے کےتحت فرماتے ہیں کہ دعا عبادت کا رکن ہے
جیسے مغز کے بغیر ہڈی ، گودے کے بغیر چھلکے کی کوئی قدر نہیں ایسے ہی دعا سے خالی
عبادت کی کوئی قدر نہیں ۔مزید فرماتے ہیں :عبادت نام ہے اپنی انتہائی عاجزی اور
اللہ پاک کی انتہائی عظمت کا دعا میں یہ دونوں چیزیں اعلیٰ طریقے سے موجود ہیں کہ
اس میں بندہ اقرار کرتا ہے کہ میں کچھ نہیں تو کریم ہے تو غنی ہے ۔اللہ پاک کو کچھ
مقامات زیادہ محبوب ہیں، اگر ان مقامات پر دعا مانگی جائے اور ساتھ ہی اللہ پاک پر
پختہ یقین بھی ہو تو وہ دعا ضرور مقبول ہوتی ہے جیسے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام صحابہ و اہلِ بیت علیہم
الرضوان اولیائے عظام اور سلفِ صالحین رحمۃ اللہ علیہ کے
مزارات یا وہ مکان جہاں وہ مقیم ہوں یا کوئی بھی ان سے نسبت رکھنے والی جگہ یہ سب
دعا کی مقبولیت کے مقامات ہیں۔مقبولیت ِدعا کے چند مقامات 1۔ پیارے آقا مکی مدنی
مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم کی قبرِ انور:اس مقام پر دن رات رحمتوں ،برکتوں اور تجلیات کا نزول
ہوتا ہے اور غلاموں کی مرادیں بھر لائی جاتی ہیں۔2۔ حجر ِاسود :خانہ کعبہ کی دیوار
میں جو پتھر نصب ہے نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے اسے بوسہ دیا۔3۔کعبہ معظمہ۔ 4۔حدودِ حرم ِکعبہ:خانہ کعبہ کے چاروں
اطراف میں چند کلو میٹر علاقہ 5۔مقام ِابراہیم:پتھر جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم
علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی
6۔حطیم : جو کعبہ شریف کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل ہے اس باؤنڈری کے
اندر داخل ہونا عین کعبۃ اللہ میں داخل ہونا ہے۔ 7۔میزابِ رحمت کے نیچے۔ 8۔مسجد ِنبوی
شریف کے ستونوں کے نزدیک۔ 9۔ملتزم: رکنِ اسود اور بابِ کعبہ کی درمیانی دیوار۔ 10۔کوہِ
صفا ،کوہِ مروہ اور ان کے درمیان والی جگہ۔ 11۔بیرِ زم زم: مکہ معظمہ کا وہ مقدس کنواں جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بچپن شریف میں آپ کے ننھے ننھے مبارک قدموں کی
رگڑ سے جاری ہوا۔(رفیق الحرمین صفحہ 62) 12۔مستجاب: رکنِ یمانی
اور رکن ِاسود کے بیچ جنوبی دیوار یہاں ستر ہزار فرشتے دعا پر آمین کہنے کے لیے
مقرر ہیں۔(رفیق الحرمین، صفحہ 61) 13۔غار حرا :وہ غار جہاں
پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نبوت سے پہلے
کئی دن اور ہفتے قیام فرمایا ۔14۔ اولیاء و علماء کی مجالس: حدیثِ قدسی ہے: یہ وہ
لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا۔ 15۔محراب ِمریم :مکان ِاستجابت
ِدعا یعنی جہاں ایک مرتبہ دعا قبول ہو
وہاں پھر دعا کریں اس کے متعلق ایک خاص واقعہ یہ ہے کہ جس طرح حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہُ عنہا پر فضلِ اعظم ربِّ اکرم
اور بے فصل کے میوے انہیں ملنا دیکھ کر وہی اپنے لیے فرزند عطا ہونے کی دعا فرمائی
اس کو اللہ کریم نے اپنے مبارک کلام قرآنِ مجید میں خوبصورت الفاظ میں بیان فرمایا:
ترجمۂ کنزالایمان :یہاں پکارا زکریا نے اپنے رب کو یعنی دعا مانگی(ال عمران آیت 38)ان کی دعا ایسی مقبول ہوئی
کہ ایسا عظیم بیٹا یحی عطا ہوا جو صالحین میں سے ہوا اور اس بیٹے کی تعریف قرآنِ
مجید میں اس طرح فرمائی: ترجمۂ کنزالایمان: بے شک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا
ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمے کی تصدیق کرے گا اور وہ سردار ہوگا اور ہمیشہ
عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے نبی ہوگا۔(
سورۃ آیت 39) (تفسیر صراط الجنان جلد 1
صفحہ 469 تا 472 پر بیان کی گئی تفسیرکا خلاصہ ) ان
کے علاوہ مسجد ِقباء شریف،مواجہہ شریف،مزارِ مبارک حضرت امام موسیٰ کاظم ،تربتِ
غوثِ اعظم قبولیت ِدعا کے مقامات ہیں اور کئی مقامات جن کا علمائے کرام نے تعین
فرمایاہے۔
سرکار
ِدو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
فرمانِ عالیشان ہے :الدُّعَاءُ
مُخُّ الْعِبَادَیعنی
دعا عبادت کا مغز ہے۔(مشکوٰۃ شریف حدیث نمبر 2230)
اس حدیث کی شرح میں حکیم الامت حضرتِ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دعا عبادت کا رکنِ
اعلیٰ ہے جیسے مغز کے بغیر ہڈی کی،گودے کے بغیر چھلکے کی کوئی قدر نہیں ایسے ہی
دعا سے خالی عبادت کی کوئی قدر نہیں۔ رب کریم مانگنے کو پسند فرماتا ہے جیسا کہ مشکوۃ شریف،حدیث نمبر 2232 میں
ہے:مَنْ فُتِحَ
لَهُ مِنْكُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ وَمَا سُئِلَ
اللَّهُ شَيْئًا يَعْنِی أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ الْعَافِيَةَیعنی تم
میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھولا
جائے تو اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔عافیت سے بڑھ کر کوئی کیسی
چیز اﷲ پاک سے نہ مانگی گئی ہو جو اسے زیادہ
پیاری ہو۔ اس حدیثِ پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے
ہیں:جسے ہر وقت ہر حال میں دعائیں مانگنے کی توفیق ملے تو یہ اس کی علامت ہے کہ اس
کے لیے رب کریم نے رحمت کے دروازے کھول دیئے ہیں۔اس میں اشارۃً فرمایا گیا کہ دعا
کی طرف دل کا راغب ہونا پھر دعا کے لیے اچھے الفاظ مل جانا رب کریم ہی کے کرم سے
ہے۔ جب وہ کچھ دینا چاہتا ہے تو ہمیں مانگنے کی توفیق بخشتا ہے۔
مری
طلب بھی تمہارےکرم کاصدقہ ہے قدم
یہ اٹھتےنہیں ہیں اٹھائےجاتےہیں
امام
ِاہل ِسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ
اللہ علیہ کے نزدیک چوالیس (44) مقاماتِ
مقدسہ ایسے ہیں جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ ان میں سے15
مقامات درج ذیل ہیں: (1)مَطاف:یہ
وسط ِمسجد الحرام شریف میں ایک گول قطعہ ہے،سنگ ِمرمر سے مَفْرُوش(یعنی
زمین کا وہ ٹکڑا جس پر سنگِ مرمر بچھا ہوا ہے)اس کے بیچ میں کعبہ معظمہ ہے یہاں
طواف کرتے ہیں۔(2)مُلتزَم:یہ
کعبہ معظمہ کی دیوارِ شرقی کے پارہ جنوبی کا نام ہے، جو درمیان درِ کعبہ وسنگِ
اَسود واقع ہے، یہاں لپٹ کر دعا کرتے ہیں۔(3) صفا (4)مروہ(5)عرفات،
خصوصاً نزدِموقفِ نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم(6)مکانِ
استجابتِ دعا،جہاں ایک مرتبہ دعا قبول ہو وہاں پھر دعا کرے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے: (ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا
رَبَّہ)
کہ جس طرح زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی
اللہُ عنہا
پر فضلِ اعظم ربِّ اکرم اور بے فصل کے میوے اُنہیں ملنا دیکھ کر وہیں اپنے لیے
فرزند عطا ہونے کی دعا کی۔(7)اولیاء
وعلماء کی مجالس: رب کریم صحیح حدیثِ قدسی
میں فرماتا ہے:ھُمُ
الْقَوْمُ لَا یَشْقٰی بِھِمْ جَلِیْسُھُمْ یعنی یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے پا س بیٹھنے والا
بدبخت نہیں رہتا۔ اللہ پاک ہمیں تمام ہی اولیاء وعلماء کی برکتوں سے نفع پہنچائے۔(8)مواجہہ
شریفہ حضورسَیِّدُ الشَّافِعِین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کہ امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی!(9) مسجد
اقدس کے ستونوں کے نزدیک(10)مسجد
قبا شریف(11)جبل
اُحُد شریف (یعنی
اُحُد پہاڑ)(12) مزاراتِ
بقیع و اُحُد(13)مزارِ
مُطَہَّر ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس۔ حضرت امام شافعی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے
ہیں:مجھے جب کوئی حاجت پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھتا ہوں اور قبرِ امام ابو حنیفہ کے پاس جا کر دعا
مانگتا ہوں، اللہ پاک رَوا(پوری)فرماتاہے۔(14)تربتِ
سراپا برکت حضور غوثِ اعظم (15) تمام
اولیاء وصلحاء ومحبوبانِ خدا کی بارگاہیں، خانقاہی آرامگاہیں۔(ماخوذ
از: احسن الوعاء لآداب الدعا،لامام احمد
رضا خان۔ ص 128-142)اللہ
پا ک ہمیں کثرت سے دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔ جب بندہ دعا کرتا ہے
تو اللہ پاکلَبَّیْکَ
عَبْدِیْ
فرماتا ہے۔(مسند
الفردوس، باب الالف، 1/286،
الحدیث: 1122)الٰہی!
صدقہ اپنے محبوبوں کا ہمیں دنیا وآخرت وقبر وحشر میں اپنے محبوبوں کے برکاتِ بے پایاں
سے بہر ہ مند فرما۔ آمین۔
لاج
رکھ میرے دستِ دعا کی مرے
مولا تو خیرات دے دے
اپنی
رحمت کی اپنی عطا کی مرے
مولا تو خیرات دے دے
دعا کا لغوی معنی ندا کرنے اور
پکارنے کے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں اللہ
پاک سے خیر یا بھلائی طلب کرنے کو دعاکہتے ہیں ۔دعا مسلمان کی زندگی کا ایک
بہت ہی خوبصورت اور تسکین آمیز پہلو ہونے کے ساتھ ساتھ شرعی اعتبار سے بہت ہی
اہمیت کا حامل بھی ہے۔ رب العزت اپنے پیارے کلام قرآن ِمجید میں خود دعا کرنے کا
حکم ارشاد فرماتا ہے۔چنانچہ پارہ 24 سورۃالمؤمن
کی آیت نمبر 60 میں ہے:ادعونی استجب لکمترجمہ: مجھ سے دعا مانگومیں قبول فرماؤں گا۔
جبکہ حدیثِ مبارکہ میں فرمایا :الدعاء
صلاح المؤمنیعنی دعا مومن کا ہتھیار ہے۔( المستدرک ج2 حدیث 1255)اکثر ہم یہ سوال سنتی ہیں کہ دعا کیسے ،کہاں اور کب
قبول ہو؟ ہمارے ذہن میں بھی کئی بار یہ سوال آتے ہیں۔دعا ہماری شریعت کا بہت اہم
پہلو ہے جس کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ۔علمائے
کرام نے اس بارے میں کئی ابواب اور موضوعات باندھے ہیں انہی میں ایک موضوع قبولیتِ دعا کے مقامات بھی ہے ۔کئی مقامات اس دنیا میں ایسے ہیں جو ربِّ
کائنات کی بارگاہ میں محبوبیت و مقبولیت کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ ان میں اکثر
مقامات کسی نہ کسی محبوبِ بارگاہ ِالٰہی سے منسوب ہوتے ہیں پھر یہ مقامات بھی وہ
درجہ پاتے ہیں کہ قیامت تک کے لیے ان جگہوں پر مانگی جانے والی دعاؤں کو قبولیت کا
شرف مل جاتا ہے ۔آج ایسے ہی عشق و محبت اور کیف و مستی سے بھر پور یادِ خدا و
مصطفیٰ سے لبریز دعا کی قبولیت کے کچھ مقامات
کے بارے میں جانتی ہیں ۔سب سےپہلے اپنے تصور کو سوئے حرم پرواز کرنے دیجئے اور
چلیے حرمِ کعبہ میں جس کا چپہ چپہ قبولیتِ دعا کا مرکز ہےجن میں سےچند کا مختصر ذکر درج ذیل ہے :1-مطاف:وہ
گولائی میں بنا ہوا احاطہ جس میں کعبہ معظمہ کا طواف کیا جاتا ہے۔2۔ ملتزم: باب ِکعبہ و حجرِ اسود کا درمیانی حصہ
جس سے لپٹ کر دعا مانگتے ہیں۔حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :میں جب چاہوں دیکھ لوں جبریل علیہ السلام ملتزم سے لپٹا ہوا کہہ رہا ہے: یَا
وَاجِدُ یَا مَاجِدُ لَا تُزِلْ عَنِّيْ نِعْمَۃً أَنْعَمْتَھَا عَلَيَّ جب جبریلِ امین علیہ السلام اس مبارک مقام پر دعا فرما رہے ہیں تو ہمارے لیے کیوں
نہ مقامِ قبولیت ہو گا کہ وہ پروردگار رجوع لانے والے گناہ گاروں پر زیادہ مہربان
ہے ۔3۔مستجار:رکنِ یمانی اوردرمسدود کا درمیانی حصہ۔
مُستجار و مُستجاب و بیرِ زم زم اور مَطاف اور حَطیمِ ِپاک کے دونوں
کَناروں کو سلام
4۔کعبہ معظمہ کا اندرونی حصہ۔5۔کعبہ
شریف کے پرنالے کی نیچے زیرِ میزاب۔
مانگی ہیں میں نے جتنی دعائیں منظور ہوں گی مقبول ہوں گی
میزابِ رحمت ہےمیرے سر پر اللہ ُاکبر اللہُ اکبر
6-حطیم:کعبہ کے گرد مشرقی دیوار
کے ساتھ بنی ہوئی نصف دائروی شکل کی باؤنڈری یہ کعبہ کا ہی حصہ ہے اس میں داخل
ہونا عین کعبہ میں داخل ہو نا ہی ہے۔7-حجرِ اسود:
حجرِ اسود، باب و میزاب و مقام و مُلتَزم اور غلافِ کعبہ کے رنگیں نظاروں
کو سلام
8-رکن ِیمانی: حدیثِ پاک میں ہے:یہاںاَللّٰھُمَّ
إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِي الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ
رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا
عَذَابَ النَّارِکہے،ہزار فرشتے آمین کہیں گے۔
( ابن ماجہ)8۔مقامِ ابراہیم کے پیچھے۔9۔ زم
زم کے قریب۔10۔صفا و مروہ کی سعی کی جگہ مسعی خصوصا میلین اخضر ین کے درمیان۔11۔عرفات خصوصاً وہ جگہ جہاں حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے وقوف فرمایا۔12۔مزدلفہ خصوصاً مشعر الحرام جبلِ قزح
کے اوپر۔ 13-تینوں جمرات کے قریب۔14-جہاں کہیں سے کعبہ نظر آئے وہ سب جگہیں قبولیت
کے مقامات ہیں۔اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ کا یہی موقف ہے۔15-عشاق کے دلوں کی دھڑکن مطلوب
و مقصودِ عاشقاں وسببِ راحت و تسکینِ دل و جاں مواجہ اقدس حضور سید المرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کہ سب سے بڑا مقامِ قبولیت ہے جس پر آیت ِ قرآنی شاہد
ہے: وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ
فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ
تَوَّابًا رَّحِیْمًا وہ مالکِ کائنات جیسے چاہے،جس کی
چاہے دعا قبول فرما سکتا ہے معاف کر سکتا ہے مگر ارشاد ہوتا ہے : اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں ،تیرے حضور حاضر ہوں
اور اللہ سے معافی مانگیں اور رسول ان کی بخشش چاہے تو ضرور اللہ کو توبہ قبول
کرنے والا مہربان پائیں ۔ (پ5، النساء : 64)
واں مطیعوں کا جگر خوف سے پانی پایا یاں سِیہ کاروں کا دامن
پہ مچلنا دیکھو
مہرِ مادر کا مزہ دیتی ہے آغوشِ حطیم جن پہ ماں باپ فدا یاں
کرم ان کا دیکھو
بے نیازی سے وہاں کانپتی پائی طاعت جوشِ رحمت پہ یہاں ناز
گنہ کا دیکھو
ربِّ کریم سے دعا ہے بار بار ان مقامات کے جلوے ہمارے سوئے نصیبوں
کو بیدار کرتے رہیں اورہماری خاک جنت البقیع کی خاک میں مل کر ہمیشہ کے لیے امر ہو
جائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
چلو
چوکھٹ پہ ان کی رکھ کے سرقربان ہو جائیں حیاتِ
جاوِدانی پائیں گی مر کر مدینے میں
ارشادِ
ربَّانی ہے:ترجمۂ
کنزالعرفان:اور اے حبیب !تم سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو
بیشک میں نزدیک ہوں، میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔( پارہ 2، سورہ بقرہ، آیت 186)اسی طرح
دعا کی قبولیت کے لئے کسی وقت اور مکان کی قید نہیں، البتہ جس طرح کچھ ماہ، کچھ دن،
اور کچھ راتیں افضل ہیں، اسی طرح کچھ مقام افضل ہیں، جن میں سے 15 مقامات درج ذیل
ہیں۔ 1۔بیت اللہ شریف کہ یہاں کی ایک نیکی ایک لاکھ نیکی کے برابر ہے۔(ترمذی)2۔بیت المقدس کہ ایک نیکی پچاس
ہزار نیکیوں کے برابر ہے۔(ابوداؤد)3۔ مسجدِ
نبوی۔ 4۔ریاض الجنۃ،جہاں ایک دعا پچاس ہزار دعاؤں کے برابر شمار ہوتی ہے۔5۔غارِ
حرا اور جبلِ حرا کہ ظہر کے وقت دعا کرنے والے کی دعا قبول ہوتی ہے اور آواز دی
جاتی ہے کہ جو ہم سے دعا کرتا ہے، ہم اس کی دعا قبول کرتے ہیں۔(مواہب اللدنیہ، جلد 1، صفحہ 108 ملتقضا)6۔مطاف۔7۔ملتزم۔8۔بیت اللہ کے اندر۔ 9۔ صفا و مروہ۔10۔زم زم کے کنویں کے قریب کہ یہ معجزہ
حضرت ہاجرہ رضی
اللہُ عنہا کی دعا کی قبولیت میں تاقیامت کے لئے اللہ پاک کی نشانیوں میں سے ہے۔11۔میزاب ِرحمت کے نیچے۔12۔عرفات،
خصوصاً موقف ِنبی ِپاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔13۔مواجہہ شریف: امام ابن الجزری
رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہا ں قبول ہوگی!(حصن حصین، صفحہ31)14۔جبلِ احد شریف۔15۔مقامِ
ابراہیم کے پاس کہ اس مقام پر وہ جنتی پتھر ہے، جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر فرمائی اور آپ کے ذریعے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم مبعوث فرمائے۔ مکی و مدنی آقا،محمد عربی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ ذی وقار ہے:میں جدّ
الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کی دُعا ہوں۔ (المستدرک الحاکم،ج2،ص453) اس سے
ثابت ہوا کہ جس چیز کو اللہ پاک کے پیاروں سے نسبت نصیب ہو جائے،
وہ عظمت و بزرگی والی ہو جاتی ہے۔ اس دورِ
پر فتن میں اولیاءاللہ کے دَر وہ مقام ہیں جہاں پر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ قرآنِ پاک میں حضرت ذکریا علیہ السلام نے ایک ولیہ حضرت
مریم رضی
اللہُ عنہا کی نماز پڑھنے کی جگہ پر بے موسم پھل دیکھ کر دعا مانگی، وہیں
حضرت ذکریا علیہ السلام نے اپنے ربّ سے دعا مانگی، عرض کی:اے میرے ربّ! مجھے اپنی
بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے۔(کنزالعرفان، آل عمران، آیت 38)اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارے آقا و مولا، احمدِ مجتبیٰ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مقامِ محمود عطا فرما اور ہم
گنہگارِ اُمت کو شفاعت کُبریٰ سے فیض یاب فرما۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
دعا اللہ رب
العزت سے مناجات
کرنے، اس کی قربت حاصل کرنے، ا س کے فضل و انعام کی مستحق ہونے اور
بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت ہی آسان اور مجرب نسخہ ہے۔ اسی طرح دعا
ہمارے پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی متواتر سنت،اللہ پاک کے پیارے
بندوں کی عادت، درحقیقت عبادت بلکہ مغزِ عبادت اورگنہگار بندوں کے حق میں اللہ پاک کی طرف
سے بہت بڑی سعادت ہے۔دعا کی اہمیت:دعا کی اہمیت کے بارے میں مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ فضائلِ
دُعا میں ارشاد فرماتے ہیں: اے عزیز!دعا ایک عجیب نعمت اور عمدہ دولت ہے کہ
پروردگار نے اپنے بندوں کو کرامت فرمائی اور ان کو تعلیم کی، حل مشکلات میں اس سے
زیادہ کوئی چیز اثر نہیں رکھتی اور دفعِ بلا وآفت میں کوئی بات اس سے بہتر نہیں۔دعا کی اہمیت کا
اندازہ خود قرآنِ پاک میں اللہ پاک کے اس ارشاد
سے لگایا جا سکتا ہے:اللہ پاک قرآنِ
پاک میں ارشاد فرماتا ہے:مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا، جو لوگ میری عبادت سے
تکبر کرتے ہیں، عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہو کر۔میں دعا مانگنے والے کی دعا
قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارے۔میں اس کام کے لئے ہوں، یعنی تمہاری شفاعت میرے
ذمہ ہے۔دعاایک ایسی عبادت ہے، جو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ گویا بندہ اللہ پاک سے ہم کلام ہے۔ دعا کے ذریعے ہی بندہ اللہ پاک کی بارگاہ
میں اپنی حاجات و ضروریات پیش کرتا ہے۔یہ بندے کو اپنے رب کریم کے حضور عاجز ی کرواتی
اور اس کی عظمتوں کا کلمہ پڑھواتی ہے۔دعا کی نیتیں:دعا اتنی اہم عبادت ہے تو اس سے
پہلے نیتیں بھی کر لینی چاہئیں کہ بغیر کسی نیت کے کسی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا،
جتنی اچھی نیتیں زیادہ ہوں گی، اتنا ثواب بھی زیادہ ملے گا، دعا مانگنے کی چند نیتیں
ملاحظہ کیجئے۔1۔اللہ پاک کی رضا اور ثواب کمانے کے لئے دعا کریں گی۔2۔احادیث ِمبارکہ
میں بیان کردہ دعا کے فضائل پائیں گی۔3۔دکھلاوے کے رونے سے پرہیز کریں گی۔4۔دعا میں
خشوع و خضوع پیدا کرنے کی کوشش کریں گی۔5۔عبادت سمجھ کر اتباعِ سنت میں دعا مانگیں
گی۔دعا کے آداب:دعا کی اہمیت و فضیلت کے پیشِ نظر اس کے آداب کا جاننا اور دورانِ
دعا انہیں بجالانا ضروری ہے، ہم دیکھتی ہیں کہ انسان کو جب کسی عہدہ داریا بادشاہ
سے کوئی غرض یا حاجت ہو تو انتہائی ادب و احترام کے ساتھ اس کو اپنی درخواست پیش کرتا ہے تو جب دنیاوی بادشاہوں اور عہدہ داروں کے پاس جانے کے آداب
بجالانے کا یہ عالم ہے تو اللہ پاک جو
بادشاہوں کا بادشاہ ہے، اس کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرنے میں کس قدر اہتمام
ہونا چاہئے۔علمائے کرام دعا کے کچھ آداب بیان فرماتے ہیں:باطہارت ہو کر، قبلہ رو
ہوکر، مکمل توجہ کے ساتھ دعا کرے، ہاتھوں کوآسمان کی طرف اٹھائے اور اپنی دعاؤں میں
مسلمانوں کو شامل کرے، دعا کے اوّل و آخر درود پڑھے۔دعا میں ہاتھ اٹھانے کا طریقہ:حضرت اسماعیل حقی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:افضل یہ ہے کہ دعا میں
دونوں ہاتھوں کو پھیلائے اور ان کے درمیان فاصلہ رکھے،اگرچہ قلیل ہو،ایک ہاتھ کو
دوسرے پر نہ چڑھائے،۔امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہمُ العالیہ دعا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ اٹھانے کے آداب بیان فرماتے ہیں:دعا
کے آداب میں سے ہے کہ جب بھی دعا مانگیں،نگاہیں نیچی رکھیے، ورنہ نظر کمزور ہونے
کا اندیشہ ہے،۔ دعا کے لئے دونوں ہاتھ اس طرح اٹھائیے کہ سینے کی سیدھ میں یا کندھوں
کی سیدھ میں یا چہرے کی سیدھ میں یا اتنے بلند ہوجائیں کہ بغلوں کی سفیدی نظر
آئے، ان صورتوں میں ہتھیلیاں آسمان کی طرف
پھیلی ہوں کہ دعا کا قبلہ آسمان ہے۔قبولیت دعا کے مقامات:1۔قبولیت دعا کے بے شمار
مقامات ہیں۔حضرت علامہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:جس مبارک مقام پر حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم کی ولادت ہوئی،اس مقام پر دعا قبول ہوتی ہے۔2۔جس جگہ
رحمتِ الٰہی کا نزول ہو، وہاں دعا مانگنی چاہئے۔3۔علمائےکرام نے اس جگہ کو مقبولیت
کے مقامات میں شمار کیا، جہاں کسی کی دعا قبول ہوئی ہو،جہاں علمائےکرام، اولیائے
کرام کا وجود ہو یا وہ رہے ہوں، وہاں دعا
کرنی چاہئے۔4۔حرمین شریفین میں ہر جگہ انوار و تجلیات کی برسات ہوتی ہے، وہاں پر
بعض مقامات ایسے ہیں جہاں دعا قبول ہوتی ہے، وہ یہ ہیں:1۔مطاف ۔2۔ملتزم۔3۔بیت
اللہ کے اندر 4۔عرفات۔5۔مسجد قباء۔6۔مواجہہ شریف۔7۔ مسجدِ نبوی
کے ستونوں کے نزدیک۔8۔جبل احد۔9۔منبر اطہر کے پاس۔10۔مسجد قباء شریف۔11۔جنت البقیع۔12۔زم
زم کے کنویں کے قریب۔13۔مقامِ ابراہیم کے پیچھے۔14۔حطیم۔15۔میزابِ رحمت۔دعا کے
فائدے:دعا کے بے شمار فائدے ہیں۔ مولانا نقی علی خان رحمۃ
اللہ علیہ فضائلِ دُعا میں دعا کے فائدے بیان
کرتے ہوئے فرماتے ہیں:1۔دعا کرنے سے بندہ عابدوں کے گروہ میں داخل ہوجاتا ہے، کیونکہ
دعا عبادت کا مغز ہے۔2۔دعا سے آفات و بلائیں دور ہوتی ہیں اور مقصود حاصل ہوتا ہے۔3۔جو شخص
دعا کرتا ہے وہ اپنے عجز و اختیار کا اقرار اور اپنے پروردگار کے کرم و قدرت کا
اعتراف کرتا ہے۔4۔مشکلات کو حل کرنے میں دعا سے زیادہ اثر کرنے والی اور آفات و بلیات
کوٹالنے میں دعا سے بہترین کوئی چیز نہیں۔ پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:دعا بندے کی تین
باتوں سے خالی نہیں ہوتی، اس کا گناہ بخش
دیا جاتا ہے یا اسے دنیا میں فائدہ حاصل ہوتا ہے یا اس کے لئے آخرت میں بھلائی جمع
کی جاتی ہے۔ جب بندہ اپنی ان دعاؤں کا ثواب دیکھے گا، جو دنیا میں قبول نہ ہوئی تھیں
تو دعا کرے گا کہ کاش! میری دنیا میں کوئی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی اورسب یہیں کے
واسطے جمع رہتیں۔اللہ
پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں
بھی دعا کے آداب بجالاتے ہوئے دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورجو ہمارے حق میں
بہتر ہے وہ عطا کرے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
اللہ پاک اپنے بندوں پر
لا احصی نوازشات کی۔ ان ہی نوازشات میں سے ایک یہ ہے کہ بندہ جب صعوبتیں
برداشت کر رہا ہو، جب اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے، تو فرمایا غمگین نہ ہو، نہ
آنسوؤں کا دریا بہا، بلکہ تو مجھ سے دعا کر ! میں تیری دعا پر اجابت کا سہرا سجاؤنگا۔ جیسا کہ
اللہ پاک پارہ 24 سورۃ المؤمن آیت نمبر 60 میں فرماتا ہے : وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ
اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-، ترجمہ کنزالعرفان : اور تمہارے
رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ۔(پ 24، المؤمن:60)اور
حضور ارشاد فرماتے ہیں : (1) عن
أنس بن مالك أكثِرْ من الدعاءِ، فإنَّ الدعاءَ يَردُّ القضاءَ المبْرَمَ. ترجمہ : کثرت سے دعا کروں بیشک دعا فضاء مبرم ٹالتی ہےاور
اگر دعا ان امکنہ (جگہوں) میں کی جائے جہاں پر اللہ کے محبوب کے قدم رنجا ہوئے ہو تو وہاں دعا کرنا اجابت کو اور قریب کر دیتا
ہے انہی جگہوں میں سے بعض کے نام رقم طراز ہیں تاکہ اگر وہی جانے کا شرف حاصل ہو
تو دعا کر کے اس مقام کے برکت سے اپنی دعا کو اجابت کے قبول کریں۔
(1) مطاف: اعلی حضرت فرماتے ہیں :
وسط مسجد الحرام شریف میں ایک گول قطعہ(ٹکرا) ہے ، سنگ مرمر سے مفروش (بچھا ہوا
ہے) اس کے بیچ میں کعبہ معظمہ ہے جہاں طواف کرتے ہیں ، زمانہ اقدس حضور سید عالم
صلی اللہ تعالی علی وسلم میں مسجد اسی قدر تھی ۔(فضائل دعا ،ص 128)
(2)ملتزم: اعلی حضرت کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ: ملتزم وہ مقام ہے جو کعبۃ اللہ شریف کی مشرقی دیوار کے جنوبی حصہ میں حجر
اسود اور باب کعبہ کے درمیان واقع ہے یہی وہ مقام ہے جہاں لوگ لپٹ لپٹ کر دعائیں
مانگتے ہیں ۔ (فضائل دعا ص 128)
(3)داخل بیت اللہ (بیت اللہ کے اندر) (4)زیر میزاب رحمت (میزاب رحمت کے نیچے)۔عاشق اعلی حضرت امیر اہلسنت
مدظلہ العالی اپنی مایہ ناز تالیف رفیق الحرمین میں ارشاد فر ماتے ہیں : میزاب
رحمت سونے کا پرنالہ یہ رکن عراقی و شامی کی شمالی دیوار کی چھت پر نصب ہے ، اس سے
بارش کا پانی حطیم میں نچھاور ہوتا ہے ۔(رفیق الحرمین ص 37)
(5)حطیم :کعبہ معظمہ کی شمالی
دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں فصیل ( یعنی بائونڈری ) کے اندر کا حصہ۔ حطیم
کعبہ شریف ہی کا حصہ ہے اور اس میں داخل ہونا عین کعبۃ اللہ شریف میں داخل ہونا ہے
۔ ( رفیق الحرمین ص 37 )
(6)حجر اسود:یہ وہ جنتی پتھر ہے
جو کعبۃ اللہ شریف کے جنوب مشرقی کونے میں واقع رکن اسود میں نصب ہے ، مسلمان اسے
چومتے اور استلام کر کے اپنے گناہ دھلواتے ہیں ۔
(7)خلف مقام ابراہیم(فضائل دعا ص
131) (8)چاہ زمزم کے پاس(فضائل دعا ص 131) (9)صفا و مروہ نیز مسعی: مقام سعی یعنی صفا و مروہ کے درمیان کا راستہ ،
خصوصاً جب دونوں سبز نشانوں کے درمیان پہنچے کہ وہ بھی قبولیت دعا کا مقام ہے
۔(فضائل دعا ص 132)
(10)عرفات،منی،مزدلفہ،جمرات ثلاثہ:منی
اور مکہ کے بیچ میں تین ستون بنے ہیں ان کو جمرہ کہتے ہیں پہلامنی سے قریب جمرہ
اولی کہلاتا ہے اور بیچ کا جمرہ وسطی اور اخیر کا مکہ معظمہ سے قریب ہے جمرة
العقبہ کہلاتا ہے (فضائل دعا ص 132)(11) مسجد نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(فضائل دعا ص 133)
(12) اولیاء و علماء کی مجالس بھی
مکان اجابت ہے ۔اعلی حضرت فضائل دعا میں فرماتے ہیں کہ : رب عز وجل صحیح حدیث قدسی
میں فرماتا ہے : (هم القوم لا يشقى بهم جليسهم )یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بد بخت نہیں رہتا ۔(فضائل دعا ص
134)
(13) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مواجہ شریف بھی قبول
دعا کی جگہ ہے۔امام ابن الجزری مواجہ شریف کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: دعا یہاں
قبول نہیں ہوگی تو کہا ہوگی۔(فضائل دعا ص 134)
(14)مزارِ امام اعظم و مزارِ امام
کاظم و مزارِ معروف کرخی کے پاس ۔حضرت امام شافعی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں : مجھے
جب کوئی حاجت پیش آتی ہے دو رکعت نماز پڑھتا اور قبر امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ
کے پاس جا کر دعا مانگتا ہوں ، اللہ پاک روا ( پوری )فرماتا ہے۔(فضائل دعا ص 136)امام
شافعی قدس سرہ فرماتے ہیں : وہ یعنی مزار
امام موسیٰ کاظم)استجابت دعا کے لئے تریاق مجرب ہے ۔ ( یعنی دعا کے قبول ہونے میں
نہایت تجربہ شدہ عمل ہے )۔(فضائل دعا ص 138(علامہ زرقالی شرح مواہب میں فرماتے ہیں : وہاں یعنی مزار
معروف کرخی) اجابت مجرب ہے ۔ کہتے ہیں سو بار سورہ اخلاص وہاں پڑھ کر جو چاہے اللہ
پاک سے مانگے ، حاجت پوری ہو ۔ (فضائل دعا ص 138) (15) تربت سراپا رحمت غوث اعظم
دستگیر و خواجہ خواجگان خواجہ ہند خواجہ غریب نواز (فضائل دعا ص 138)
اگر کوئی مصیبت آ جائے یا کوئی مسائل پیش ہو تو دڑیے نہیں
بلکہ میرا مشورہ ہے کہ حضور اور محبوبان خدا کے وسیلہ سے ان مقامات میں سے جو بھی
میسر ہو وہی جا کر گڑگڑا کر اللہ کے بارگاہ میں اپنے دست فقیرانہ اور اپنی خالی
جھولی کو پھیلا کر رب سے مانگیے ان شاء اللہ ضرور رب ہمارے دست کی لاچ رکھےگا اور
ہماری خالی جھولی کو اللہ بھر دے گا۔
کئی ایسی جگہ ہے جہاں پر دعا کی جائے تو اس مقام کی برکت سے
اللہ پاک دعا قبول فرماتا ہے۔اعلی حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے والد محترم مفتی نقی
علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے احسن
الوعاء لآداب الدعاء میں 23 اور اعلی حضرت رحمۃُ
اللہِ علیہ نے اسی کے حاشیہ بنام ذیل المدعاء لأحسن الوعاء میں 21 کا اضافہ
کیا اور کل چوالیس مقامات کا ذکر ہے جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ تحفۃ الذاكرين بعدة
الحصن الحصين میں 13 سے زائد ایسے مقامات کا تذکرہ ہے جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔
15 مقامات درج ذیل ہیں : (1) مطاف ۔ یہ مسجد حرام کے بیچ ایک گول قطعہ ہے جہاں سنگِ
مرمر بچھا ہوا ہے اس کے بیچ میں کعبہ معظمہ ہے یہاں لوگ طواف کرتے ہیں ، زمانۂ
اقدس حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں مسجد اتنی ہی تھی۔
(2) ملتزم ۔ یہ کعبہ شریف کی دیوارِ شرقی کے پارۂ جنوبی کا
نام ہے جو کعبے کے دروازے اور سنگ اسود کے درمیان واقع ہے، یہاں لپٹ کر دعا کرتے
ہیں۔
(3) کعبہ شریف کے
اندر ۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کعبے کے اندر دعا مانگی ہے۔ (4) حجر اسود کے
پاس ۔ یہ وہ جنتی پتھر ہے جو کعبہ شریف کے جنوبی مشرقی کونے میں واقع رکن اسود میں
نصب ہے ، لوگ اسے چومتے اور استلام کرکے اپنے گناہ دھلواتے ہیں۔
(5) صفا (6) مروہ ۔ وہ
دو مقامات جہاں پر سعی کی جاتی ہے۔ یہ دونوں حضرات ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی طرف
منسوب ہیں وہ پانی کی تلاش میں یہاں دوڑی تھیں اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے اس کی سعی کی اس لئے یہ جگہ
مبارک ہوگئی۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا: اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِۚ ترجَمۂ
کنزُالایمان: بےشک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں سے ہیں (پ2،البقرۃ:158)
(7) منیٰ (8) مزدلفہ (9) عرفات ۔ ان تینوں
مبارک مقامات پر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا مانگی ہے۔(10) مسجد نبوی ۔ پیارے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مسجد میں اور
خصوصاً مواجہۂ شریفہ حضور سید الشافعین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر دعائیں مقبول ہی مقبول ہیں۔امام ابن جزری
علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی !
(11) اولیاء اور
علما کی مجالس۔ (12) امام اعظم رضی اللہ عنہ کی مزار پاک کے پاس۔ حضرت امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مجھے جب کوئی
حاجت پیش آتی ہے دو رکعت نماز پڑھتا اور قبرِ امام ابو حنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ کے پاس جاکر دعا مانگتا
ہوں، اللہ پاک پوری فرماتا ہے۔ (مقدمہ
فتاوی رضویہ ،1/93)
(13) جبلِ اُحد ۔
یہ وہ مبارک پہاڑ ہے جس کے بارے میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :هَذا جَبَلٌ
يُحِبُّنا ونُحِبُّهُ یعنی : یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے
محبت کرتے ہیں (بخاری شریف، کتاب المغازی،
ص1117، حدیث : 4083، مؤسسۃالرسالۃ)
(14) حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تمام مشاہد
متبرکہ ۔ یعنی وہ تمام مقامات جہاں ہمارے آقا و مولی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم ظاہری حیات مبارکہ میں تشریف لے
گئے جیسے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا باغ وغیرہ (15) غوث اعظم اور خواجہ
غریب نواز رحمھما اللہ کے مزار کے پاس۔ (فضائلِ دعا ص 128 تا 136، مکتبۃالمدینہ)
رمضان عطّاری(درجہ ثانیہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ فاروقِ اعظم، مالیگاؤں، مہاراشٹرا)
قراٰن و حدیث میں دعا کی بہت فضیلت
بیان ہوئی ہے اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں جگہ جگہ اپنے بندوں کو دعا کی تلقین
فرمائی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے:﴿ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ ﴾ترجَمۂ کنزُالعرفان: میں دعا کرنے والے کی دعا
قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرو۔(پ2،البقرۃ: 186)اورفرماتا ہے:﴿ ادْعُوْنِیْۤ
اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔ (پ 24، المؤمن:60)
پیارے آقا
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: دعا مسلمانوں کا ہتھیار ہے، اور دین کا ستون اور
آسمان و زمین کا نور ہے۔ (مستدرک،2/669، حدیث:1812) رسولِ اعظم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک فرماتا ہے: اے فرزند آدم! تو جب تک مجھ سے دعا
کرتا اور میرا امید وار رہے گا، میں تیرے گناہ کیسے ہی ہوں معاف فرماتا رہوں گا
اور مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ (ترمذی، 5/318، حدیث: 3551)
محترم قارئین! اب آئیے ہم قبولیتِ دعا کے مقامات
(یعنی ایسی جگہیں جہاں دعا رد نہیں کی جاتی بلکہ قبول کی جاتی ہے) پر بھی نظر
ڈالتے ہیں:
(1)جہاں کہیں
سے کعبہ شریف نظر آئے وہ جگہ بھی مقامِ قبولیت ہے۔(فضائل دعا،
ص 132)(2)مسجدِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (3)مکانِ استجابتِ دعا،
جہاں ایک مرتبہ دعا قبول ہو وہاں پھر دعا کرے(4)اولیا و علما کی مجالس میں بھی دعا
قبول ہوتی ہے (5)مزارِ مطہر امامِ اعظم ابو
حنیفہ رضی اللہُ عنہ کے پاس۔ حضرت امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مجھے جب کوئی حاجت پیش آتی
ہے دو رکعت نماز پڑھتا اور قبرِ امامِ ابو حنیفہ کے پاس جاکر دعا مانگتا ہوں، اللہ
پاک رَوا (پوری) فرماتا ہے۔(الخیرات الحسان، ص157) (6)مسجدِ قُبا شریف میں(7)جبلِ اُحُد شریف (یعنی اُحُد پہاڑ) (8)مزارِ مبارک
امام موسیٰ کاظم رضی اللہُ عنہ۔ امام شافعی رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں: وہ(مزار موسیٰ کاظم) استجابتِ دعا کے لئے تِریاقِ مُجرَّب
ہے۔(یعنی دعا کے قبول ہونے میں نہایت تجربہ شدہ عمل ہے)۔(لمعات التنقیح، 4/215) (9)تربتِ(قبر،
مزار) حضور سیّدُنا غوثِ اعظم رضی اللہُ عنہ (10)مزارِ فائض الانوار سیّدُنا معروف
کرخی رضی اللہُ عنہ۔ آپ رضی اللہُ عنہ کی قبرِ اطہر کے توسل سے لوگ شفا یاب ہوتے
تھے، اہلِ بغداد کہا کرتے تھے: آپ کا مزارِ اقدس (حصول شفا اور اجابت دعا کیلئے)
تریاق مجرب ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ، ص26) (11)مرقدِ
مبارک (مزارِ مبارک) حضرت خواجہ غریب نواز معین الدّین چشتی اجمیری رحمۃُ
اللہِ علیہ (12)مزارات بقیع و اُحُد (13)صفا (14)مروہ (15)اسی طرح تمام اولیا،
صلحا و محبوبانِ خدا کی بارگاہیں، خانقاہی آرام گاہیں۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں ان تمام مقامات پر دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ:اس مضمون میں کتاب فضائلِ دعا سے بھی کافی استفادہ کیا
گیا ہے۔
محمد وقار عطّاری(درجہ رابعہ،جامعۃ المدینہ فیضان
عثمان غنی ،کراچی، پاکستان)
وہ مقامات جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے اللہ
پاک ہمیں وہ مقام عطا کرے کہ جو دعا کے قبول ہونے کا سبب ہے۔ ان میں سے سب سے پہلے
مطاف کو ذکر کرتا ہوں: (1) مطاف : قال الرضاء: یہ وسط ِمسجد الحرام شریف میں
ایک گول قِطْعَہ ہے، سنگ ِمرمر سے مَفْرُوش(یعنی زمین کا وہ ٹکڑا جس پر سنگِ مرمر
بچھا ہوا ہے)اس کے بیچ میں کعبہ معظمہ ہے یہاں طواف کرتے ہیں، زمانہ اقدس حضور سید
عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں
مسجد اسی قدر تھی۔
(2) مُلتزَم: قال
الرضاء: یہ کعبہ معظمہ کی دیوارِ شرقی کے
پارہ جنوبی کا نام ہے، جو درمیان درِ کعبہ وسنگِ اَسود واقع ہے، یہاں لپٹ کر دعا
کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے:حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:میں جب چاہوں جبرائیل کو
دیکھ لوں کہ ملتزم سے لپٹا ہوا کہہ رہا ہے: (یَا وَاجِدُ یَا مَاجِدُ لَا تُزِلْ عَنِّيْ نِعْمَۃً
أَنْعَمْتَھَا عَلَيَّ)۔
ملتزم سے تو گلے لگ کے نکالے
ارماں
ادب وشوق کا یاں باہم الجھنا دیکھو
(حدائق بخشش،ص95)
(3) مستجار: وہ مقام ہے جو کعبۃ اللہ شریف کی مغربی دیوار کے
جنوبی حصہ میں رکنِ یمانی اور درِ مسدودکے درمیان واقع ہے۔ درِ مَسْدُود کی وضاحت کرتے ہوئے رئیس
المتکلمین مولانا نقی علی خان علیہ الرحمہ اپنی کتاب ''جواہر البیان'' میں ارشاد
فرماتے ہیں: ''یہاں دروازہ تھا حجاج (یعنی حجاج بن یوسف)نے بند کردیا۔(4)داخل ِبیت
:بیتُ اللہ شریف کی عمارت کے اندر(5) زیر میزاب(6)حطیم: یہ کعبہ شریف ہی کا حصہ ہے
اور اس میں داخل ہونا عین کعبۃ اللہ شریف میں داخل ہونا ہے۔
(7) حجرِ اسود : :یہ وہ جنتی پتھر ہے جوکعبۃ
اللہ شریف کے جنوب مشرقی کونے میں واقع رکن اسود میں نصب ہے، مسلمان اسے چومتے اور
استلام کر کے اپنے گناہ دھلواتے ہیں۔
(8) رکنِ یمانی :
یہ یمن کی جانب مغربی کونہ ہے۔ قال
الرضاء: خصوصاً جب کہ طواف کرتے وہاں گزر
ہو۔ حدیث شریف میں ہے: یہاں ''اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ
الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِي الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ رَبَّنَا اٰتِنَا فِي
الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ''کہے، ہزار فرشتے آمین کہیں گے۔(9)مقام ابراہیم کے پیچھے (10)چاہِ
زم زم کے پاس(11) صفا و مروہ (12) مَسْعٰی خصوصا ًدونوں میل سبز کے درمیان۔ مقامِ سعی یعنی
صفا و مروہ کے درمیان کاراستہ ، خصوصاً جب دونوں سبز نشانوں کے درمیان پہنچے کہ وہ
بھی قبولیتِ دعا کا مقام ہے۔
(13)نظر گاہِ کعبہ : جہاں کہیں سے کعبہ شریف نظر
آئے وہ جگہ بھی مقامِ قبولیت ہے۔(14) مکانِ استجابتِ دعا، جہاں ایک مرتبہ دعا قبول
ہو وہاں پھر دعا کرے۔(15) مسجد نبوی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مبشر رضا عطّاری (درجہ
ثانیہ ،جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم ،لاہور،
پاکستان)
دعا اللہ رب العزت سے مناجات کرنے، اس کی قربت حاصل کرنے،
اس کے فضل و انعام کے مستحق ہونے اور بخشش و مغفرت حاصل کرنے کا نہایت آسان اور
مجرب ذریعہ ہے۔ اسی طرح دعا پیارے مصطفی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت، اللہ رب العزت کے پیارے بندوں کے متواتر
عادات درحقیقت عبادت، بلکہ مغز ِ عبادت اور ایسی عبادت کہ جس پر طاقت بالکل خرچ
نہیں ہوتی اور گناہ گار بندوں کے حق میں اللہ پاک کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت
وسعادت ہے۔ دعا کی اہمیت اور فضیلت پر قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے: ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕترجَمۂ کنزُالایمان: مجھ
سے دعا کرو میں قبول کروں گا ۔ (پ 24، مؤمن:60)
دعا ایک عجیب نعمت اور عمدہ دولت ہے کہ پروردگار نے اپنے
بندوں کو عطا فرمائی اور ان کو تعلیم کی کہ حلِّ مشکلات میں اس سے زیادہ کوئی چیز
موثر نہیں اور دفع بلا و آفت میں کوئی بات اس سے بہتر نہیں۔ چنانچہ دعا اس قدر نفع
بخش اور مفید ہے۔ تو اس کے اجابت (یعنی قبولیت) کے اوقات اور مقامات بھی ہوں گے۔
چنانچہ اجابتِ دعا کے 15 مقامات ملاحظہ ہوں:
(1) مَطاف: یہ وسط ِمسجد الحرام شریف میں ایک گول قِطْعَہ
ہے، سنگ ِمرمر سے مَفْرُوش(یعنی زمین کا وہ ٹکڑا جس پر سنگِ مرمر بچھا ہوا ہے)اس
کے بیچ میں کعبہ معظمہ ہے یہاں طواف کرتے ہیں۔(2) ملتزم : یہ کعبہ معظمہ کی دیوارِ
شرقی کے پارہ جنوبی کا نام ہے، جو درمیان درِ کعبہ وسنگِ اَسود واقع ہے، یہاں لپٹ
کر دعا کرتے ہیں۔
(3) مُسْتَجار: یہ کعبہ معظمہ کی دیوارِ غربی کے پارہ جنوبی
کا نام ہے، جو درمیان درِ مَسْدُود ورکنِ یمانی واقع ہے۔(4) داخلِ بیت (بیت اللہ
شریف کی عمارت کے اندر)۔(5) زیرِ میزاب: یہ کعبۃ اللہ شریف کی چھت پر نصب ہے۔ (6) حطیم: کعبہ
معظمہ کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں فصیل (یعنی باؤنڈری)کے اندر کا
حصہ۔ (7) حجر اسود: یہ وہ جنتی پتھر ہے جوکعبۃ اللہ شریف کے جنوب مشرقی کونے میں
واقع رکن اسود میں نصب ہے۔
(8) خلف ِمقام ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلَاۃُ وَالتَّسْلِیْمِ۔ (مقام ابراہیم کے پیچھے)(9) نزد زَمزم۔ (چاہِ
زمزم کے پاس)(10) مسجد نبوی شریف(11) مسجد
نبوی کے منبر اطہر کے پاس (12) مسجد اقدس کے ستونوں کے نزدیک (13)مسجد قبا شریف میں(14)
باقی مساجد طیبہ کہ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف منسوب
ہیں۔ یعنی ایسے مسجدیں جن کو سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے شرف نسبت
حاصل ہے۔ جیسے مسجد غمامہ ، مسجد قبلتین۔ (15) اولیا اور علما کی مجالس۔(فضائل دعا،ص133)
اویس افضل (درجہ رابعہ،جامعۃ المدینہ فیضان امام غزالی فیصل آباد، پاکستان)
دعا ہم کرتے تو رہتے ہیں اور کرنی بھی چاہیے مگر اس مضمون
میں ہم جانیں گے کہ کیا کوئی ایسے مقامات بھی ہیں کہ جن پر جا کر اگر کوئی دعا کی
جائے تو وہ دعا قبول ہوتی ہے۔ تو اے اسلامی بھائیوں ! بے شک ضرور ایسے مقامات علماء کرام نے بیان
فرمائے ہیں۔ آئیے ہم اس مضون میں 15 ایسے
مقامات پڑھتے ہیں جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔
(1) ملتزم : وہ مقام ہے جو کعبۂ معظمہ
کی دیوارِ شرقی کے پارۂ جنوبی کا نام ہے ، جو درمیان درِ کعبہ وسنگِ اَسود واقع
ہے ، یہاں لپٹ کر دعا کرتے ہیں (فضائل دعا ،ص 128)
ملتزم سے تو گلے لگ کے نکالے
ارماں
ادب و شوق کا یاں باہم اُلجھنا دیکھو
(2) داخل بیت: یعنی بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر، اللہ کی رحمت
سے دعا قبول ہوتی ہے۔ (3)زیر میزاب: امیر
اہل سنت ارشاد فرماتے ہیں: میزاب رحمت سونے کا پرنالہ یہ رکن عراقی و شامی کے
شمالی دیوار پر نصب ہے، اس سے بارش کا پانی حطیم میں نچھاور ہوتا ہے۔
اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں:
زیر میزاب ملے خوب کرم کے چھینٹے
ابر رحمت کا یہاں زور برسنا
دیکھو
(4) حطیم: کعبہ
معظمہ کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں فصیل (یعنی باؤنڈری)کے اندر کا
حصہ۔ حطیم کعبہ شریف ہی کا حصہ ہے ۔ امیراہل سنت اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں:
حطیمِ حرم میں نمازوں کو پڑھ
کر
تیرے درپے دکھڑے سناتا رہوں
میں
(5) حجر اسود: یہ وہ جنتی پتھر ہے جو کعبۃ اللہ شریف کے
جنوبی مشرقی کونے میں واقع رکن اسود میں نصب ہے۔ مسلمان اسے چومتے اور اور استلام
کر کے اپنے گناہ دھلواتے ہیں۔(7،6) صفا و مروہ: عاشق مکہ و مدینہ امیر اہلسنت کیا خوب
دعائیہ اشعار مرتب فرماتے ہیں۔ عرض کرتے ہیں:
صفا اور مروہ کے مابین دوڑوں
سعی کر کے تجھ کو مناتا رہوں
میں
(8) خلف مقام ابراہیم: مقام ابراہیم کے پیچھے دعا قبول ہوتی
ہے۔(9) رکن یمانی: یہ یمن کی جانب مغربی
کونہ ہے۔ قال الرضاء: خصوصاً جب کہ طواف کرتے وہاں گزر ہو۔ حدیث شریف
میں ہے: یہاں ''اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ
فِي الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِي
الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ''کہے، ہزار فرشتے آمین کہیں گے۔(10) مُزدلِفہ، خصوصاً مَشْعَرُ
الْحَرَام(یعنی جبل قزح )۔
امیر اہلسنت کیا خوب لکھتے ہیں:
مزدلفہ میں وقتِ سحر مسکرا کر
یوں سنت نبی کی بتاتا رہوں میں
(11) مسجد نبوی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: یہاں دعا
قبول ہونے کا بہت یقین ہوتا ہے۔(12) اولیاء وعلماء کی مجالس نَفَعَنَا
اللہُ تَعَالٰی بِبَرَکَاتِھِمْ أَجْمَعِیْنَ (اللہ پاک ہمیں تمام ہی اولیاء
وعلماء کی برکتوں سے نفع پہنچائے)۔ قال
الرضاء: رب عزوجل صحیح حدیث قدسی میں
فرماتا ہے: ( ھُمُ
الْقَوْمُ لَا یَشْقٰی بِھِمْ جَلِیْسُھُمْ) یہ وہ
لوگ ہیں کہ ان کے پا س بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا۔(13)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تمام مشاہد
متبرکہ: وہ مقامات جن کو حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ظاہری حیات میں شرف بخشا۔
(14) مزارِ مُطَہَّر ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
پاس۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: مجھے جب کوئی حاجت پیش آتی ہے دو رکعت نماز پڑھتا اور قبرِ امام ابو
حنیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر دعا مانگتا ہوں، اللہ پاک رَوا(پوری)فرماتاہے۔(15)منبر
اطہر کے پاس : ہمارے مضمون کا آخری مقام
جس کے پاس دعا قبول ہوتی ہے وہ منبر اطہر
ہے۔ اس پر کسی نے کیا خوب شعر لکھا ہے:
کبھی روضے سے منبر تک کبھی منبر
سے روضے تک
اِدھر جاؤں اُدھر جاؤں اِسی حالت میں مر جاؤں
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان تمام مقامات پر مرشد کے ساتھ
خیر کی حاضری نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم