محمد رضوان عطاری ( درجہ سادسہ
مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ، پاکستان)
اللہ تعالیٰ
نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلمِ انسانیت بنا کر بھیجا۔
آپ ﷺ کی دعوت، تبلیغ اور تربیت کے طریقے بےمثال اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے
لیے راہ ہدایت ہیں۔ آپ ﷺ نے نہ صرف وحی الٰہی کو پہنچایا بلکہ دین کو سمجھانے کے لیے
ایسے مؤثر انداز اپنائے جن سے سننے والے کے دل پر نہ صرف وہ بات اثر انداز ہوتی ہے بلکہ وہ اس کو ذہن نشین ہو جاتی ہے،
انہی مؤثر اندازوں میں سے ایک انداز مثالوں کے ذریعے تربیت فرمانا بھی ہے ، جو حضور علیہ السلام کی دانائی اور حکمتِ عملی کا اعلیٰ مظہر ہے۔ قرآن مجید میں
بھی اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر امثال کو بیان فرمایا ہے، جیسا کہ رشادہوتا ہے:
اِنَّ اللہ َ لَا یَسْتَحْیٖۤ اَنْ
یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَاؕ ترجمہ کنزالایمان: بےشک اللہ
اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا
اس سے بڑھ کر۔ (پ1، البقرۃ: 26)
اور طریقہ ہمیں حضور سید عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم
کے مبارک کلام میں بھی نظر آ تا ہے چنانچہ
(1) حضرت
ابوموسیٰ اشعری سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ میری اورجو کچھ مجھےاللہ نے دے کر بھیجا اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے کسی
قوم کے پاس آکر کہا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک لشکر دیکھا ہے ۔ میں کھلا ڈرانے
والاہوں ۔ بچو بچو کہ اس کی قوم سے ایک ٹولہ نے اس کی بات مان لی اور اندھیرے منہ
اٹھے اور بروقت نکل گئے تو بچ گئے ۔ اور ان کے ایک ٹولہ نے
جھٹلا دیا وہ اسی جگہ رہے پھر سویرے ہی لشکر ان پرٹوٹ پڑا انہیں ہلاک کرکے تہس نہس
کر دیا ۔ یہ ہی اس کی مثال ہے جس نے میری اطاعت کی تو میرے لائے ہوئے کی اتباع کی
اور اس کی جس نے میری نافرمانی کی اورمیرے لائے ہوئے حق کو جھٹلادیا۔ (مرآۃ المناجیح
شرح مشکوٰۃ المصابیح/جلد1/ حدیث نمبر 150)
اس
تشبیہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورگویا رحمت کا
بادل ہیں حضور کا ظاہری اور باطنی فیض اور نورانی کلام بارش۔ انسانوں کے دل مختلف
قسم کی زمین۔چنانچہ مؤمن کا دل قابلِ کاشت زمین ہے،جہاں عمل اورتقویٰ کے پودے
اُگتے ہیں،علماء اور مشائخ کے سینے گویا تالاب ہیں اور اس خزینہ کے گنجینے ہیں جس
سے تاقیامت مسلمانوں کے ایمان کی کھیتیاں سیراب ہوتی رہیں گی۔منافقین اور کفار کے
سینے کھاری زمین ہیں نہ فائدہ اٹھائیں نہ پہنچائے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح/جلد1/ حدیث نمبر 150)
(2) روایت ہے کہ عبداللہ ابن مسعود سے فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے ایک خط کھینچا
پھر فرمایا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے پھر اس کے دائیں بائیں
اور لکیریں کھینچیں اور فرمایا یہ مختلف راستے ہیں جن میں سے ہر راستہ پر شیطان ہے
جو ادھر بلا رہا ہے:
اس حدیث پاک
کےتحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں کہ دین حق کو قرآن شریف میں صراط مستقیم فرمایا گیا یعنی سیدھا راستہ جو نہایت
آسانی سے رب تک پہنچادے،حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے خط کھینچ کر اس کی مثال دکھادی۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح / جلد/1 /حدیث
نمبر/166)
(3) حضرت سَیِّدُنا
ابو ہریرہ رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ُاﷲ صَلَّی اﷲ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو فرماتے ہوئے سنا:تمہاری کیا رائے ہے کہ
اگر تم میں سے کسی کے گھر کے دروازے پر نہر ہو اور وہ روزانہ اُس نہر سے پانچ بار
نہائے تو کیا اُس پر کچھ میل رہ جائے گا؟ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے
عرض کی: اُس پر کچھ میل باقی نہ بچے گا۔حضور صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے فرمایا:”پانچ نمازیں اسی طرح ہیں،اﷲتعالیٰ اِن کے ذریعے خطاؤں کو مٹا
دیتا ہے:
اس حدیث پاک
کے تحت مُفَسِّرِشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ
الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:یہاں خطاؤں
سے مراد صغیرہ گناہ ہیں،کبیرہ گناہ اور حقوق العباد اس سے علیحدہ ہیں کہ وہ نماز
سے معاف نہیں ہوتے۔ (فیضان ریاض الصالحین جلد:7 , حدیث نمبر:1043 )
(4) حضرت
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے،
آپ ﷺ نے مؤذن کو اذان دینے کا حکم دیا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ ﷺ نے دو
درختوں کو دیکھا، ایک درخت کے پاس گئے، اس کی ایک شاخ پکڑی اور اسے جھٹکا دیا تو
اس سے پتے جھڑ گئے۔ پھر دوسرے درخت پر بھی یہی عمل فرمایا۔ اس کے بعد فرمایا: بے
شک جب مسلمان بندہ اچھی طرح وضو کرتا ہے اور پانچوں وقت کی نماز پڑھتا ہے تو اس کے
گناہ اس کے جسم سے ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے ان درختوں سے پتے جھڑ گئے۔(مسند احمد بن
حنبل/ حدیث نمبر /21316)
رسول اللہ ﷺ
نے دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے جس اعلیٰ حکمت اور مثالوں والے انداز کو
اپنایا، وہ رہتی دنیا تک اساتذہ، علما اور والدین کے لیے راہ ہدایت ہے۔ ہر دعوت دینے والا اگر حضور
ﷺ کا
یہ مبارک اور
حکمت بھرا انداز اپنائے تو دین کی دعوت کو زیادہ مؤثر انداز میں دوسروں
تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس طریقہ کار سے بات بات کو اچھے طریقے سے سمجھائی
جا سکتی ہے ۔
Dawateislami