مسجد کے امام کو امامتِ صغریٰ  کا درجہ حاصل ہے اور اس امامت (یعنی مسجد کے امام ) کا مطلب یہ ہے کہ ”دوسرے کی نماز کا اس کے ساتھ وابستہ ہونا“ (بہارِ شریعت ج۱ ص 560 ) بے شک امامت ایک بڑی سعادت ہے کہ خود مدنی سرکار ہم بے کسوں کے مددگار، حضورِ اکرم سرورِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس امامت کو سر انجام دیا ۔ اس کی چھ شرائط ہیں :اسلام ،بلوغ ،عاقل ہونا ،مرد ہونا ، قرائت،معذورِ (شرعی) نہ ہونا (بہارِ شریعت ج۱،ص561 ) اگر کسی مسجد میں امام معین (مقرر)ہے تو امامِ معین امامت کا حق دا رہے اگرچہ حاضرین میں کوئی اس سے زیادہ علم والا اور زیادہ تجوید والا ہو(بہارِشریعت ج۱،ص567) جہاں امامِ معین (مسجد کے امام )کے اتنے مسائل اور اہمیت ہے وہیں اس کے کچھ حقوق بھی ہیں جو کہ مقتدیوں پر لازم ہیں ۔آئیے ! اِن میں سے دس (10)حقوق کو ہم سنتے ہیں :

پہلا حق : امام کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کو امام تسلیم کیا جائے اگر کسی میں امامت کی جامع شرائط پائی جا رہی ہیں اور مسجد انتظامیہ متفقہ فیصلے سے اس کو امام منتخب کرچکی ہے تو اس کو امام تسلیم کر لینا چاہیے خواہ مخواہ اس کی ذات پر کیچڑ نہ اُچھالا جائے جب تک شریعت اس کی اجازت نہ دے۔

دوسرا حق : امام کا دوسر احق یہ ہے کہ امام کی غیبت،چغلی وغیرہ سے بچا جائے کیونکہ غیبت کرنا ویسے ہی بُرا کام ہے کہ غیبت کرنے والا گویا اپنے مردار بھائی گوشت کھاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اپنے پیش امام کی غیبت کرنا کس قدر بُرا ہوگا لہذا اپنے مسجد کے امام کی غیبت وغیرہ کرنے سے بچنا چاہیے۔

تیسرا حق :امام کا حق ہے کہ اس کی عزّت کی جائے اور ہونی بھی چاہئے کیونکہ ہماری نمازیں اس امام کے ساتھ وابستہ ہیں جب تک امام نماز شروع نہ کرے ہم نماز شروع نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے پیش امام کی عزّت کریں اور طعنہ زنی کا نشانہ نہ بنیں ۔

چوتھا حق: جہاں امام کا یہ حق ہے کہ اس کی عزت کی جائے وہیں امام کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی بھی کی جائے امام کو پریشان دیکھ کر اسکی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی جائے اور ہمت بڑھائی جائے حوصلہ دیا جائے۔

پانچواں حق: مسجد کمیٹی پر یہ لازم ہے کہ امام کی معقول تنحواہ مقرر کی جائے اور اس کی ضروریات کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے ۔جس طرح ہمارے دیگر طبقے کے ملازمین کی تنخوائیں( Salary) ہوتی ہیں اسی طرح مسجد کے امام کی بھی معقول تنخواہ ہونی چاہئے کیونکہ یہ امام مسجد کا حق ہے ۔

چھٹا حق : مقتدیوں کو چاہئے کہ جہاں امام مسجد کی تنخواہ مقرر ہوتی ہے اسی کے ساتھ اس کی ذاتی طور پر بھی مالی خدمت (خیر خواہی ) کرتے رہنا چاہئے۔ امیرِ اہلِسنت دامت برکاتہم العالیہ (اپنے تصنیف کردہ) نیک اعمال نامی رسالے میں فرماتے ہیں :کیا آپ نے اس ماہ مسجد کے امام کو 112 روپے یا کم از کم 12 روپے بطورِ نزرانہ پیش کیے؟

ساتواں حق: امام مسجد کا حق ہے کہ اہلِ محلّہ اس کو اپنی خو شی غمی کے معاملات میں یاد رکھیں ہمارے ہاں غمی کے مواقع پر تو امام صاحب کو فاتحہ وغیرہ کے لئے بلایا جاتا ہے لیکن خوشی( مثلاً شادی بیاہ ) کے مواقع میں امام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

آٹھواں حق : جس طرح کئی یا تقریباً تمام ہی نوکری کرنے والے افراد کے لئے ہفتے میں ایک دن چھٹی مقرر ہوتی ہے اسی طرح مسجد کا امام جب چھٹی پر جائے تو ا س کا یہ حق ہے کہ اسکی غیر موجودگی میں مسجد کمیٹی خوش الحان قاری صاحب کو بطورِ نائب مقرر کرے ۔

نواں حق : امام صاحب اگر کسی نماز میں لیٹ ہوجائیں تو اس کا یہ حق ہے کہ اس کو سُست ،کاہل ،کام چور وغیرہ کہہ کر اس کی دل آزاری نہ کی جائے کہیں یہ دل آزاری کرنے والے کو آخرت میں رسواء نہ کر دے ۔

دسواں حق: جن مساجد میں امام صاحب اپنی فیملی کو ساتھ رہائش پزیر ہیں اُس علاقے کے اہلِ محلہ کو چاہئے کہ وہ امام صاحب کے اہلِ خانہ کا بطورِ خاص خیال رکھیں ، ان کو احساسِ محرومی کا شکار نہ ہونے دیا جائے ۔

ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہمیں امام مسجد کے جملہ حقوق جاننے اور ان کو اچھے طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہِ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


امام مسجد کا مقام مرتبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ امام مسجد اپنے علاقے کا وہ معزز شخص ہوتا ہے جس کی اقتدا میں ہر بڑے سے بڑا ‏عہدے والا بھی  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا ہے اور امام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا ضامن تسلیم کرتا ہے ۔ امامت کا منصب کوئی عام منصب نہیں یہ وہ خاص و اعلیٰ منصب ہے جس پر انبیا علیہم ‏السلام اور اصحابِ رسول و اہلِ بیتِ اطہار علیہم الرضوان فائز رہے۔ اور شبِ معراج محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تمام انبیا علیہم السّلام ‏کے درمیان امامت کروائی ۔ اس منصب کا حق ادا کرنا بہت ضروری ہے اور امام مسجد کو سنتوں کا ایسا عامل ہونا چاہیے کہ عوام امام کو ‏دیکھ کر سنتوں کے عامل بن جائیں ۔

امامِ مسجد کا کردار ، رہن سہن ، بول چال اور عادات ایسی ہونی چاہیے کہ لوگ اس سے متاثر ہو کر دینِ اسلام کی طرف آئیں ۔ ‏ہمارے معاشرے میں امام مسجد کو بہت عزت و احترام دیا جاتا ہے۔ اور امام مسجد کو علم فقہ پر اور خصوصاً نماز روزہ زکوٰۃ وغیرہ کے مسائل بھرپور مہارت ہونی چاہیے کہ یہ روز مرہ کے معاملات میں پیش ‏آنے والے مسائل ہیں۔امام مسجد کے بہت حقوق ہیں اگر سب کو زینت قرطاس بنایا جائے تو وقت کے قلیل ہونے کے سبب سب کو یکجا جمع کرنا مشکل ہو ‏جائے گا۔ اس لیے چند حقوق کو تحریر کئے جا رہے ہیں:

‏(1) امام مسجد کو متقی و پرہیز گار ہونا چاہیے۔ تاکہ امام صاحب کو دیکھ کر لوگوں کو خوف خدا یاد آئے ‏۔

‏(2) شریعت کا پابند ہونا چاہیے ۔ تاکہ لوگ امام مسجد کو دیکھ کر شریعت پر عمل کرنا شروع کردیں۔

‏(3) امام مسجد کو اپنے منصب کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یعنی ایسی دکان پر جانا جہاں لوگ امام کو اس کے منصب کی وجہ سے سامان ‏فری مل جائے تو یہ غلط فعل ہے۔

‏ (4) عوام کو چاہیے کے امام صاحبان کی انفرادی طور پر لازمی مدد کریں۔ کیوں کہ عموماً امام صاحبان کی تنخواہیں بہت کم ہوتی جس سے ‏انکا گزر بسر بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے اہلِ علاقہ پر لازم ہے کہ وہ امام صاحبان کی انفرادی طور پر لازمی مدد کریں۔ ‏

‏(5) امام صاحب پر طعن و تشنیع نہیں کرنی چاہیے ، اگر کبھی نماز میں تاخیر ہو جائے تو امام صاحب کی ذلت کرنے کے بجائے اس کے ‏عذر کو سنا جائے۔ اور بلاوجہ امام صاحب کے خلاف باتیں کرنے سے بچا جائے کہ یہ اخلاقی طور اور شرعی طور دونوں طرح سے ‏درست نہیں ۔

‏(6) امام صاحب اصلاح معاشرہ اور اصلاح امت کے لیے مسجد میں شارٹ کورسز کا سلسلہ جاری رکھے۔

‏(7) امام مسجد کی قراءت کا خوبصورت ہونا چاہیے ۔ اگر امام مسجد عالم دین اور حافظ قراٰن ہو تو زیادہ حسن پیدا ہو جائے گا۔

‏(8) نمازیوں کو بلاوجہ امام مسجد کی تنقید نہیں کرنی چاہیے۔

‏(9) امام مسجد معاشرے کا عظیم شخص ہوتا ہے اسلیے اس کو ایسے کاموں سے بچنا چاہیے جو اس کی تذلیل کا باعث بنیں ، اور ایسی جگہ ‏جانے سے بھی بچیں جو محل تہمت ہو۔

‏(10) امام مسجد اپنے اہل علاقہ کے عقائد کو درست کرے اور علاقے کی ابھرتی نسل کے عقائد درست کرے تاکہ وہ دین اسلام کی ‏خدمت کر سکیں۔

امام صاحب کے ساتھ تعاون کرنے کی وجہ یہی ہے کہ ہم امام صاحب سے یہ نہ پوچھیں کہ "حالات کیسے ہیں ، کسی چیز کی حاجت" ، امام ‏صاحب کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ مجھے فلاں فلاں شے کی حاجت ہے بالکل وہ سکوت اختیار کرکے نفی کا اشارہ کریں گے۔ ہمیں چاہیے ‏کہ ہم بغیر پوچھے امام صاحب کی خدمت میں رقم راشن پیش کردیں ، ایسا کرنے کے بعد اس کو جتایا نہ جائے بلکہ ہونا تو یوں چاہیے ‏کہ دائیں ہاتھ سے دیں اور بائیں کو معلوم نہ ہو۔ تبھی آپ کو دیے ہوئے مال راشن کا فائدہ ہوگا۔ ‏

امام صاحبان کی تنخواہوں میں بغیر امام صاحب کے کہے ہی اضافہ کرنا چاہیے۔ اتنی تنخواہ ضرور ہونی چاہیے کہ وہ اپنا پورا ماہ سکون سے ‏گزار سکیں۔

کاش ہم منصبِ امامت کی اہمیت کو جان لیں اور فضیلت امام کو پہنچان لیں تو یقیناً ہمارا معاشرہ بہترین معاشرہ بن جائے گا۔‏

یہ منبر و محراب کے وارث سنتِ رسول کو عام کرنے میں کوشاں ہوتے ہیں ہمیں ان مبارک لوگوں کا ساتھ دے کر دینِ اسلام کی ‏خدمت میں حصہ ملانا چاہیے۔ یہی ہمارے لیے ذریعۂ نجات بن سکتا ہے۔

رب العالمین ہمیں امام الانبیا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے برکتیں عطا فرمائے۔ اٰمین ثم اٰمین ۔


مسجد کو آباد کرنا بڑا عظیم کام ہے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ‏: اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ(۱۸) ‏ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور نما ز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو عنقریب یہ لوگ ہدایت والوں میں سے ہوں گے۔(پ ‏‏10،التوبۃ:18)‏ اور ایسے لوگوں کو ہدایت یافتہ قرار دیا ‏۔

مسجد کی آباد کاری میں سب سے بڑا کردار امام مسجد کا ہے اور امامت ایسا عظیم منصب ہے کہ ‏ خود حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،صحابۂ کرام،اولیائے کرام ،علمائے کرام،بزگانِ دین نے امامت فرمائی ۔حدیث مبارکہ میں فرمایا: ثلاثةٌ على كُثبانٍ من المسك يوم القيامة ، و ذُكر أنّ منهم رجلا أم قومًا و هم به راضون ترجمہ : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: روزِقیامت تین قسم کے آدمی کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جس ‏نے قوم کی امامت کی اور وہ اس (امام )سے خوش تھے۔ (جامع الترمذی البروالصلۃ باب ماجاء فی فضل المملوک الصلح، حدیث :1986)

‏ اور خود حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امام کے لیے دعا فرمائی (الإمام ضامن ، والمؤذِّنُ مؤتَمنٌ، اللہمَّ أرشِدِ الأئمَّةَ واغفِر للمؤذِّنينَ) ‏رسولُ اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: امام ضامن ہے اور مؤذن امین ہے، اے اللہ! تو اماموں کو راہِ راست پر رکھ اور مؤذنوں کی ‏مغفرت فرما۔(مسند احمد بن حنبل، حدیث : 6996)‏

‏ اس سے امامِ مسجد کی اہمیت و مقام و مرتبہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن فی زمانہ ائمہ و علما کی تعظیم و توقیر کے بجائے ایک ملازم کی ‏حیثیت سے دیکھا جاتا ہے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اسی کے پیشِ نظر امام کے چند حقوق پیشِ خدمت ہیں تاکہ ہم ان پر عمل کرکے ‏بہتری لا سکیں ‏۔

‏(1) امام کی عزت کرنا:‏ عن ابن عمر : أكرموا حملة القراٰن ، فمن أكرمهم فقد أكرم اللّٰہ ‏ ترجمہ حاملین قراٰن (حفاظ و علمائے کرام) کا اکرام کرو، جس نے ان کا اکرام کیا، اس نے اللہ کا اکرام کیا۔(كنز العمال، 1/523 ،حديث:2343)‏

عن أبي أمامة : حامل القراٰن حامل راية الإسلام ، من أكرمه فقد أكرم الله ، ومن أهانه فعليه لعنة الله ترجمہ: حاملین قراٰن اسلام کا جھنڈا اٹھانے والے ہیں، جس نے ان کی تعظیم کی، اس نے اللہ کی تعظیم کی اور جس نے ان کی تذلیل کی،اس ‏پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ (كنز العمال، 1/523،حديث:2344)‏

آج کے اس پرفتن دور میں کچھ لوگ امام کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کی توہین کرتے ہیں ، بلا وجہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوکتے رہتے ہیں ‏اور کبھی کبھی نازیبا کلمات کہہ کر دل شکنی کرتے ہیں ایسے لوگوں کو چاہیے کہ امام کو اپنا پیشوا ، دین کا رہبر ، نائبِ انبیا سمجھے اور ادب و ‏احترام کے دائرے میں رہ کر ان سے کلام کرے۔‏

‏ (2) امام کی ٹوہ میں پڑنا :‏ بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کے پیچھے پڑنا ، اس کی خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگا رہنا اور برا بھلا کہنا گناہ ہے ۔ حدیث شریف میں ‏ہے قَالَ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ، وَلَا اللَّعَّانِ، وَلَا الْفَاحِشِ، وَلَا الْبَذِيءِ یعنی مسلمان لعن طعن کرنے والا ، ‏فحش گو اور بے ہودہ گو نہیں ہوتا۔ ‏ (ترمذی شریف: باب ما جاء فی اللعنۃ،حدیث : 1977)‏

‏(3) امام کی تنخواہ ‏: امام کی تنخواہ مقرر کرتے وقت امام کے منصب اور معاشرے میں موجود مہنگائی کا لحاظ کرتے ہوئے مقرر کرنی چاہیے جائزہ لیجیے کہ ‏ایک شخص 15/20 ہزار میں کیا کر سکے گا فیملی کے خرچے،دودھ،راشن،شادی بیاہ میں جانا ،عید کی شاپنگ،بیماری میں دوائیاں لینا ‏اور کئی ضروریات ہیں جنکو پورا کیے بغیر انسان بڑی مشکل سے زندگی گذارے گا کم از کم اتنی تنخواہ رکھیں جو آپ اپنی اولاد کے لیے ‏چاہتے ہیں ایک واقعہ ہے ایک شخص امام صاحب کے پاس آیا اور دعا کے لیے کہا کہ میرے بیٹے کے لیے دعا کریں کہ جاب اچھی لگے ‏امام صاحب نے کہا کیا یہ دعا کروں کہ اتنی تنخواہ والی جاب ملے جتنی میری تنخواہ ہے وہ کہنے لگے امام صاحب یہ کیسی دعا ہے۔ لہٰذا ‏ مساجد سے منسلک افراد کے مشاہرہ و تنخواہ مقرر کرتے ہوئے ان وظائف کو محض ایک ملازم و نوکر کی حیثیت سے نہ دیکھا جائے بلکہ ‏یہ بنیاد سامنے رکھی جائے کہ یہ افراد معاشرے کی ایک اہم دینی ضرورت کو پوراکررہےہیں ،گرمی ،سردی،طوفان و آندھی اس ‏طرح موسم کی تبدیلی کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں ، لہذا ان امام و مؤذن و خادم کا معقول ‏وظائف مقرر کرنا اور ان میں اضافہ کرنا یہ اشاعت دین میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے ‏۔

‏(5،4)امام کو تحفہ ،تحائف دینا اور اچھے کاموں کی تعریف: تحفہ دینے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور حدیث مبارکہ میں بھی تحفہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔

روایت ہے حضرت عائشہ سے وہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی کہ فرمایا: ہدیہ کا لین دین کرو ہدیہ عداوتوں کو مٹا دیتا ہے۔‏(مرآۃ المناجیح، 4، حدیث : 2327)‏

اسی طرح اگر امام صاحب کی قرأت یا بیان اچھا لگے یا کوئی خوبی نظر آئے تو اس کو انکے سامنے بیان کیا جائے اس سے بھی آپس میں ‏محبت بڑھے گی دوریاں ختم ہونگی۔

‏ (6) امام کی ذمہ داری کا احساس ہونا ‏۔ ‏ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ امام صاحب کا کام صرف نماز پڑھانا ہے پھر تو 24 گھنٹہ فارغ ہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ سخت ‏ڈیوٹی امام مسجد کی ہے کیونکہ امام صاحب کسی بھی جگہ کام سے جائیں تو ٹینشن یہی انکو رہتی ہے کہ واپس جاکر اسی مسجد میں نماز ‏پڑھانے جانا ہے یوں وہ دور دراز سفر کرنے سے پرہیز کرتا ہے اور بھی اپنے کئی پرسنل کام ایسے وقت میں کرتا ہے کہ واپس آکر اسی ‏مسجد میں نماز پڑھانے جانا ہے یہ بہت بڑی قربانی ہے ورنہ کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ امام صاحب کو صرف نماز ہی تو پڑھانی ‏ہے جو اس پر فرض ہے پھر تنخواہ کیوں لیتا ہے تو ایسے شخص کو یہی جواب دیا جائے کہ ٹھیک ہے نماز پڑھنا فرض ہے لیکن اسی مسجد ‏میں تو پڑھنا فرض نہیں پھر تو امام صاحب کسی بھی مسجد ،کہیں بھی پڑھ سکتا ہے پھر ایک ہی مسجد میں نماز پڑھانے کا پابند کیوں ؟

‏ (7) امام کی بات بری لگے تو درگذر کرنا اور مناسب حل نکالنا :‏ ‏ اگر امام صاحب کا کوئی رویہ نامناسب ہے تو یا کوئی غلطی ہوگئی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپس میں گروپ بندی کرکے ہجوم بناکر امام ‏کی غیبتیں کی جائیں بلکہ الگ سے اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے امام صاحب کو غلطیوں کی نشاندھی کروائی جائے کیونکہ شور مچانے ‏سے ،غیبتیں کرنے سے مسئلہ کا حل نہیں نکلے گا بلکہ ہم کئی گناہوں میں ملوث ہوجائیں گے ‏۔

‏ (9،8) امام کی ضروریات کا خیال کرنا اور اچھی رہائش کا انتظام کرنا ۔ ‏ ‏ عام معاشرے میں ایک انسان کے لیے جو ضروری سہولیات ہوتی ہیں وہ سب اچھے انداز میں امام صاحب کو بھی سہولیات دی جائیں ‏عموماً مساجد کی تعمیرات و رنگ و روغن وغیرہ میں تو کثیر خرچ کیا جاتا ہے حالانکہ بسا اوقات اس کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن امام ‏صاحب کا ہجرہ خستہ حالت میں ہوتا ہے کہیں کہیں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کمرے میں مسجد کی دریاں،پنکھے، اسپیکر وغیرہ سامان ہوتا وہیں امام صاحب کی رہائش ہوتی ہے۔ یہ بھی بالکل نامناسب کام ہے اسی طرح عرف کے مطابق کھانا وغیرہ کا ‏اہتمام کرنا اور اگر امام صاحب بیمار ہو جائیں تو حسب حیثیت مالی تعاون کرنا اور تعزیت کے لیے انکے پاس جانا ۔

(10) امام کو مقرر کرنے میں خیال کرنا :‏ امام کو مقرر کرنے سے پہلے مستقبل کے اعتبار سے خوب سوچ کر پلاننگ کی جائے ، یہ مناسب نہیں کہ ابھی اگر مسجد زیرِ تعمیر ‏ہے یا مسجد کی آمدن کم ہے تو گزارہ کرنے کے لئے کسی غریب ،مالی اعتبار سے حاجت مند کو رکھ کر گزارہ کرلیا جائے اور جب مسجد ‏عالیشان تعمیر ہوجائے تو اس بےچارے کو نکال دیں ، اگر مسجد تعمیر ہونے کے بعد کسی بڑے عالمِ دین ہی کو لانا ہے تو شروع ہی سے ‏طے کرلیں اور ابتداءً رکھے جانے والے امام صاحب کو بتادیں کہ ہم مسجد کی تعمیر تک آپ کی خدمات حاصل کریں گے اس طرح ‏ایک مسلمان کی دل آزاری سے ہم بچ جائیں گے۔

‏ اللہ پاک ہمیں ائمہ کرام کی عزت و خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم