(1)راستے کا حق دیتے رہو: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم لوگ راستوں پر بیٹھنے سے بچو،تو صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم نے کہا کہ یارسول اللہ ! عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم راستوں میں بیٹھنے سے تو ہم لوگوں کو چارہ ہی نہیں ہے کیونکہ ان ہی جگہوں میں تو ہم لوگ بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں ،تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اگر تم لوگ راستوں میں بیٹھنے سے باز نہیں رہ سکتے تو بیٹھو لیکن راستے کا حق دیتے رہو۔صحابہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم راستہ کا کیا حق ہے؟ تو ارشاد فرمایا : (1)نیچی نگاہ رکھنا، (2)کسی کو ایذا نہ دینا ،(3) لوگوں کے سلام کا جواب دینا ،(4)اچھی باتوں کا حکم دینا ،(5) بُری باتوں سے منع کرنا۔

شرح حدیث :

علامہ قَسْطَلانی نے فرمایا کہ حضور ﷺ کا یہ حکم کہ’’تم لوگ راستو ں پر بیٹھنے سے بچو‘‘یہ حکم وُجوبی نہیں تھابلکہ اِسْتِحْبَابی تھاکیونکہ اگر یہ حکم وُجوبی ہوتا تو صحابہ اس کے جواب میں ہرگز ہرگز کبھی یہ نہ کہتے کہ ہمارے لیے تو راستوں پر بیٹھنے سے چارہ ہی نہیں ہے نہ حضور ﷺیہ فرماتے کہ اچھاتم لوگ بیٹھوتوراستوں کا حق دیتے رہو۔ (حاشیہ بخاری،ص۹۲۰،ج ۲)

مذکورہ بالا پانچوں باتوں کو حضور ﷺ نے راستہ کا حق قرار دیا ہے اور مومن پر ازروئے شریعت ہر حق والے کا حق ادا کرنالازم ہے لہٰذا جو لوگ راستوں پر بیٹھیں ان پر لازم ہے کہ ان پانچوں باتوں پر عمل کریں ۔ بلا ضرورت راستوں پر بیٹھنا اگرچہ راستہ کے حقوق ادا کرنے کی صورت میں حرام اور گناہ تو نہیں مگر چونکہ یہ کوئی اچھی خصلت بھی نہیں ہے لہٰذا حتی الوسع مسلمانوں کو اس سے پرہیز ہی کرنا چاہئے۔خصوصاً اس زمانے میں جبکہ بے پردگی بلکہ عریانی و برہنگی فیشن بن چکی ہے سڑکوں اور راستوں پر لوگوں کا بیٹھنا بہت سے مفاسد کا پیش خیمہ ہے لہٰذا اس سے خاص طور پر پرہیز کرنا چاہئے۔ (منتخب حدیثیں , حدیث نمبر:26 )

(2)راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا : حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسُوْلُ اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: ہر وہ دن جس میں سورج طلوع ہو(یعنی روزانہ) انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے،دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے، آدمی کو اس کی سواری پر سوار کرانے یا اس کا سامان رکھوانے پر مدد کرنا صدقہ ہے، اچھی گفتگو صدقہ ہے، نماز کی طرف اٹھنےوالا ہر قدم صدقہ ہے اور راستے سے تکلیف دہ چیز دور کرنا صدقہ ہے۔ (مسلم، كتاب الزکاة، باب بیان ان اسم الصدقۃ یقع...الخ، ص۳۹۱، حدیث:۲۳۳۵۔ بخاری، کتاب الجھاد، باب فضل من حمل متاع صاحبہ فی السفر، ۲/ ۲۷۹، حدیث:۲۸۹۱، بتغیر قلیل)

شرح حدیث :

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ حدیث شریف کے جز ’’راستے سے تکلیف دہ چیز دور کرنا بھی صدقہ ہے‘‘ کی شرح میں فرماتے ہیں: راستہ سے کانٹا، ہڈی، اینٹ، پتھر، گندگی غرض جس سے کسی مسلمان راہ گیر کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو اس کو ہٹا دینا بھی نیکی ہے جس پر صدقہ کا ثواب اور جوڑ کا شکریہ ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،3/97)

(3)ایمان کا ادنٰی شعبہ راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے : حضرت سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ایمان کےساٹھ یا ستر سے زائد شعبے ہیں۔ ا ن میں سے افضل لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنا اورسب سے ادنیٰ درجہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے اورحَیا(بھی)ایمان کا ایک شعبہ ہے۔

شرح حدیث :

حضرت سَیِّدُنَا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ُسے روایت ہے کہ رسولُ اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:ایک آدمی کہیں جا رہا تھا ، راستے میں اسے ایک کانٹےدار شاخ ملی تو اس نے اس شاخ کو راستے سے ہٹا دیا، پس اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےاسے اس کا اجر عطا فرمایا اوراس کی مغفرت فرما دی۔حضرت سَیِّدُنَا ابنِ رُسلان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:میں نے بعض مشائخ کرام ر َحِمَہُمُ اللہ السَّلَام سے سنا کہ جو راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹائے تو اسے چاہیے کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ بھی پڑھ لے تاکہ ایمان کا ادنیٰ اور اعلیٰ شعبہ اورقول وفعل جمع ہوجائیں۔ (فیضان ریاض الصالحین جلد:5 , حدیث نمبر:683 )

(4)جنت میں داخل کر دیا گیا :حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ ر َضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ مکہ مکرمہ، سردارِ مدینہ منورہ ﷺ نے ارشادفرمایا: بے شک!میں نےایک ایسے آدمی کوجنت میں سیرکرتے دیکھا جس نے اس درخت کو کاٹا تھا جو کہ راستے میں تھا اور مسلمانوں کی تکلیف کاباعث تھا ۔ اورایک روایت میں یوں ہے: ایک آدمی ایسے راستے سے گزراجس پر ایک خار دار شاخ تھی۔ وہ کہنے لگا:اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم میں اسے مسلمانوں کے راستے سے ہٹا دوں گا تاکہ مسلمانوں کو تکلیف نہ دے۔پس (اسی وجہ سے) اسے جنت میں داخل کر دیا گیا۔ بخاری ومسلم کی ایک روایت میں یوں ہے: ایک آدمی کہیں جا رہا تھا ، راستے میں اسے ایک کانٹےدار شاخ ملی تو اس نے اس شاخ کو راستے سے ہٹا دیا، پس اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےاسے اس کا اجر عطا فرمایا اوراس کی مغفرت فرما دی۔

شرح حدیث :

اِمَام شَرَفُ الدِّیْن حسین بن محمد بن عبداللہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وہ درخت بیچ راستے میں تھاکنارے پر نہیں تھا۔ ممکن ہے کہ اس شخص کو اچھی نیت کی وجہ سے ہی جنت میں داخل کر دیا گیا ہواور اس نے درخت کاٹا نہ ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ کاٹ دیا ہو ۔ اس درخت کو تکلیف دہ ہونے کی وجہ سے کاٹا گیا ۔ (فیضان ریاض الصالحین جلد:2 ، حدیث نمبر:127)

اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسانوں کے باہمی تعلقات اور سماجی معاملات کو بہترین انداز میں منظم کرتا ہے۔ راستے کے حقوق کا خیال رکھنا انہی اہم امور میں سے ہے۔ راستے کی صفائی، دوسروں کو اذیت سے بچانا، اور راستے میں قضائے حاجت سے اجتناب ان حقوق میں شامل ہیں۔ ان اصولوں پر عمل ایک پرامن اور مہذب معاشرے کی بنیاد ہے۔ راستے کے حقوق کے متعلق احادیث نبویہ میں بھی اِس کی تربیت فرمائی گئی ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :

(1)راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ایمان ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ:الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ایمان کے ستر یا ساٹھ سے زیادہ شعبے ہیں، سب سے افضل ”لا الہ الا اللہ“ کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے، اور حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب شعب الایمان، ج1، ص63، حدیث: 35)

(2)راستے میں بیٹھنے سے اجتناب اور حقوق: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ فِي الطُّرُقَاتِ.

فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَنَا بُدٌّ مِنْ مَجَالِسِنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا فَقَالَ: إِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ، فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: غَضُّ الْبَصَرِ، وَكَفُّ الْأَذَى، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم مجبور ہیں، یہ ہماری مجلسیں ہیں جہاں ہم گفتگو کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں بیٹھنا ہی ہے تو راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! راستے کا حق کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نگاہ نیچی رکھنا، تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔(صحیح بخاری، کتاب المظالم، باب الجلوس فی الطریق، ج2، ص882، حدیث: 2465)

(3)راستے یا سایے میں قضائے حاجت سے اجتناب: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: اتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ قَالُوا: وَمَا اللَّعَّانَانِ قَالَ: الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ فِي ظِلِّهِمْ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان دو لعنت والے کاموں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: وہ کون سے کام ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے راستے یا ان کے سائے میں قضائے حاجت کرنا۔ (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب النہی عن التخلی فی الطرق، ج1، ص223، حدیث: 269)

(4)راستے کی صفائی کا حکم: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنے صحن اور راستے کو صاف رکھو اور یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، باب فی افنیۃ البیوت، ج1، ص330، حدیث: 728)

راستے کے حقوق اسلام کی جامع اور عملی تعلیمات کا حصہ ہیں جو فرد اور معاشرے کی بھلائی کے لیے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے راستے کی صفائی، تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانے، اور نیکی کے فروغ پر زور دے کر ان حقوق کی اہمیت واضح کی۔ ان اصولوں پر عمل سے نہ صرف سماجی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے بلکہ اللہ کی رضا اور اجر بھی حاصل ہوتا ہے۔ یہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ ان حقوق کو اپنائے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں راستے کے حقوق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اسلام نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے اور راستے کے حقوق کو ایک خاص اہمیت دی ہے۔ ان حقوق کی وضاحت نبی کریم ﷺ کی مبارک احادیث میں موجود ہے۔ ذیل میں راستے کے حقوق پر چند اہم احادیث کو عربی متن، اردو ترجمہ اور حوالہ کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے:

(1) راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ایمان کا حصہ ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان کے ستر یا ساٹھ سے زیادہ شعبے ہیں، سب سے افضل 'لا الہ الا اللہ' کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے، اور حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب شعب الإیمان، ج1، ص63، حدیث: 35)

(2) راستے کے حقوق کی وضاحت: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ فِي الطُّرُقَاتِ. فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَنَا بُدٌّ مِنْ مَجَالِسِنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا، فَقَالَ: إِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ، فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ. قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: غَضُّ الْبَصَرِ، وَكَفُّ الْأَذَى، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم مجبور ہیں، یہ ہماری مجلسیں ہیں جہاں ہم گفتگو کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر بیٹھنا ہی ہے تو راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہ نے عرض کیا: راستے کا حق کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نگاہ نیچی رکھنا، تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ (صحیح بخاری، کتاب المظالم، باب الجلوس فی الطریق، ج2، ص882، حدیث: 2465)

(3) راستے میں قضائے حاجت سے اجتناب: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: اتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ قَالُوا: وَمَا اللَّعَّانَانِ قَالَ: الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ فِي ظِلِّهِمْ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان دو لعنت والے کاموں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: وہ کون سے کام ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے راستے یا ان کے سائے میں قضائے حاجت کرنا۔ (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب النہی عن التخلی فی الطرق، ج1، ص223، حدیث: 269)

(4) راستے کی صفائی کا حکم: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنے صحن اور راستے کو صاف رکھو اور یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، باب فی افنیۃ البیوت، ج1، ص330، حدیث: 728)

ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ راستے کے حقوق ادا کرنا ایمان کا حصہ ہے اور یہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ راستے کو صاف رکھنا، دوسروں کو تکلیف سے بچانا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، یہ سب وہ اعمال ہیں جن سے ایک پرامن اور مہذب معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔اسلام نے بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ لوگوں کے حقوق بیان کیے ہیں یہاں تک کہ راستے کے بھی حقوق بیان کیے ہیں کہ راستے میں کون سے کام کرنے چاہئیں اور کن کاموں سے بچنا چاہیے تاکہ مسلمان ان کاموں کو کر کے پریشانی سے بچ سکیں۔

ذیل میں راستے کے چند حقوق بیان کیے جاتے ہیں ۔

(1) راستے کے حقوق: راستے سے تکلیف دہ چیزیں ہٹانے، اس پر بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے اور بد نظری سے بچنے کے لیے نگاہیں نیچی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے۔ وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ بِالطُّرُقَاتِ» . فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ مَا لَنَا مِنْ مَجَالِسِنَا بُدٌّ نَتَحَدَّثُ فِيهَا. قَالَ: «فَإِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهٗ» . قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللّٰهِ قَالَ: «غَضُّ الْبَصَرِ وَكَفُّ الْأَذٰى وَرَدُّ السَّلَامِ، والأَمرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ

روایت ہے حضرت ابوسعید خدری سے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے راوی فرمایا: راستوں پر بیٹھنے سے بچو ۔لوگوں نے عرض کیا یارسول الله ہم کو وہاں بیٹھنے کے سوا چارہ نہیں ہم وہاں بات چیت کرتے ہیں۔ فرمایا: اگر بغیر بیٹھے نہ مانو تو راستہ کو اس کا حق دو، انہوں نے عرض کیا کہ راستہ کا کیا حق ہے یارسول الله ، فرمایا نگاہ نیچے رکھنا،تکلیف دہ چیز ہٹانا اور سلام کا جواب دینا اور اچھائیوں کا حکم دینا،برائیوں سے روکنا (بخاری۔كتاب المظالم.بَاب: أَفْنِيَةِ الدُّورِ وَالْجُلُوسِ فِيهَا وَالْجُلُوسِ عَلَى الصُّعُدَاتِ.ج2.ص870.حديث2333.(دار ابن كثير،دار اليمامۃدمشق)

(2) قضائے حاجت نہ کرنا : راستے میں گندگی سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اس لیے راستے میں قضائے حاجت کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ وَعَنْ مُعَاذٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اتَّقُوْا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَةَ: الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَالظِّلِّ روایت ہے حضرت معاذ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین لعنتی چیزوں سے بچو،گھاٹوں،درمیانی راستہ اور سایہ میں پاخانہ کرنے سے۔ (ابو داؤد ۔کتاب الطہارت۔باب المواضع التی نهى النبی صلى الله علیہ وسلم عن البول فيها۔جلد1۔ص7۔حدیث 26۔المکتبۃ العسریۃ صيدا بيروت)

(3) راستے سے موذی چیزیں ہٹانا: لوگوں کو راحت پہنچانا ثواب کا باعث ہے راستے سے تکلیف دہ چیزیں ہٹانا بھی اسی میں داخل ہے ۔ وَعَنْ أَبِي بَرْزَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللّٰهِ! عَلِّمْنِي شَيْئًا أَنْتَفِعْ بِهِ، قَالَ: اعْزِلِ الأَذَى عَنْ طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ روایت ہے حضرت ابو برزہ سے فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یا نبی ﷲ مجھے وہ بات سکھائیے جس سے نفع اٹھاؤں فرمایا مسلمانوں کے راستہ سے موذی چیز ہٹا دو ۔ (مسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل ازالۃ الاذى عن الطريق، ج4، ص2021، حديث2618 مطبعۃ عيسی البابی الحبلی و شركاه.القاهره)

(4) راستے سے پتھر اور کانٹے ہٹانا: راستے سے پتھر اور کانٹے ہٹانا باعثِ ثواب ہے ۔ وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خُلِقَ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْ بَنِي آدَمَ عَلَى سِتِّينَ وَثَلَاثِ مِئَةِ مَفْصِلٍ، فَمَنْ كَبَّرَ اللَّه، وَحَمِدَ اللّٰهَ، وَهَلَّلَ اللّٰهَ، وَسَبَّحَ اللّٰهَ ، وَاسْتَغْفَرَ اللّٰهَ ، وَعَزَلَ حَجَرًا عَنْ طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ شَوْكَةً، أَوْ عَظْمًا،أَوْ أَمَرَ بِمَعْرُوفٍ، أَوْ نَهٰى عَنْ مُنْكَرٍ عَدَدَ تِلْكَ السِّتِّينَ وَالثَّلَاثِ مِئَةِ، فَإِنَّهُ يَمْشِي يَوْمَئِذٍ وَقَدْ زَحْزَحَ نَفْسَهُ عَنِ النَّارِ روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اولاد آدم میں ہر انسان تین سو ساٹھ جوڑوں پر پیدا کیا گیا تو جو اللّٰہ کی تکبیر کہے،اس کی حمد کرے، تہلیل کرے،تسبیح پڑھے، اللہ سے معافی چاہے،لوگوں کے راستہ سے پتھریا کانٹا یا ہڈی ہٹا دے یا اچھی بات کا حکم دے یا برائی سے منع کرے ان تین سو ساٹھ کی گنتی کے برابر تو وہ اس دن چلے گا اس حال میں کہ اپنی جان کو آگ سے دور کیا ہوگا۔ (مسلم، كتاب الزكوة.باب بيان ان اسم الصدقۃ يقع على كل نوع من المعروف .ج2.ص298.حديث1007.مطبعۃ عيسی البابی الحبلی و شركاه القاهره)

اللہ تعالیٰ ہمیں راستے صاف رکھنے،ان پر نگاہیں جھکا کر چلنےاور راستے کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبینﷺ

دینِ اسلام نے جہاں زندگی کے دیگر شعبہ جات میں ہماری راہنمائی فرمائی ہے وہاں راستوں کے حقوق کے متعلق بھی ‏ہمیں کافی ‏درس دیاہے۔ یہاں راستے سے مسلمانوں کا راستہ مراد ہے یعنی جس راستے سے مسلمان گزرتے ہوں وہاں سے ‏تکلیف دہ چیز دُور کر دینا ‏ثواب ہے۔

آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچو! صحابہ نے عرض کی: (بسااوقات) ہمیں وہاں بات ‏چیت کرنے کے لئے بیٹھنا پڑ جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا: اگر بیٹھنا ہی ہے تو پھر ‏راستے کا حق ادا کرو۔ عرض کی: یارسولَ اللہ! راستے کا ‏حق کیا ہے؟ فرمایا: نگاہیں نیچی رکھنا، تکلیف دہ چیز کو ہٹانا، سلام کا ‏جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے منع کرنا۔(بخاری، ‏‏4/165، حدیث: 6229)‏

آئیے!راستے کے بعض حقوق کا مطالعہ کر کے عمل کیجئے اور دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کیجئے۔

‏(1)تکلیف دہ چیز کو ہٹانا‏: اگر راستے میں کوئی ایسی چیز ہو جو گزرنے والوں کو تکلیف دے تو اس کو ہٹا دینا چاہئے جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ہے:راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا صدقہ ہے۔(بخاری، 2/306،حدیث:2989)‏

‏(2)راستے تنگ نہ کرنا: گھر کے آگے چبوترہ یا گٹر بنا کر گلی تنگ کر دینا،گاڑی غلط پارکنگ کر کے لوگوں کو پریشان کرنا یہ مسلمان کی شایانِ شان ‏نہیں ہے۔ ‏جیسا کہ حدیث میں ہے: حضرت سہل بن معاذ رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے، میرے والدِ گرامی فرماتے ہیں کہ ہم آخری ‏نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ‏ساتھ جہاد میں گئے تو لوگوں نے منزلیں تنگ کر دیں اور راستہ روک لیا۔ اس پر حضور علیہ السّلام نے ایک ‏آدمی کو ‏بھیجا کہ وہ یہ اعلان کرے: بے شک جو منزلیں تنگ کرے یا راستہ روکے تو اس کا کچھ جہاد نہیں۔(ابوداؤد، 3/58، ‏حدیث:2629)‏

‏(3)راستے میں قضائے حاجت سے پرہیز کرنا: ایسا راستہ جہاں سے عموماً مسلمان گزرتے ہوں یا سایہ جہاں آرام کے لئے بیٹھتے ہوں وہاں پر قضائے حاجت سے پرہیز کرنا ‏چاہئے کیونکہ اس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔جیسا کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہماری تربیت کرتے ہوئے فرمایا: ‏تین چیزیں جو سببِ لعنت ہیں،ان سے بچو: گھاٹ پر، بیچ راستہ پر اور درخت کے سایہ میں پیشاب کرنا۔(ابو داؤد، ‏‏1/43،حدیث:26)‏

‏(4)عام راستے کی طرف بیتُ الخلاء یا پرنالہ نکالنا: عام راستے کی طرف بیتُ الخلاء یا پرنالہ یا برج یا شہتیر یا دکان وغیرہ نکالنا جائز ہے بشرطیکہ اس سے عوام کو کوئی ضرر نہ ہو ‏اور گزرنے ‏والوں میں سے کوئی مانع نہ ہو اور اگر کسی کو کوئی تکلیف ہو یا کوئی معترض ہو تو ناجائز ہے۔(بہار شریعت، 3/871)‏

‏(5)راستے پر خریدوفروخت کرنا: جو شخص راستے پر خرید و فروخت کرتا ہے اگر راستہ کشادہ ہے کہ اس کے بیٹھنے پر لوگوں کو تنگی نہیں ہوتی تو حرج نہیں اور ‏اگر گزرنے والوں کو اس کی وجہ سے تکلیف ہو جائے تو اس سے سودا نہیں خریدنا چاہئے کہ گناہ پر مدد دینا ہے کیونکہ جب کوئی ‏خریدے گا نہیں تو ‏وہ بیٹھے گا کیوں۔(دیکھئے:فتاویٰ ہندیہ،3/210)‏

اللہ پاک ہمیں دینِ اسلام کی پیروی کرتے ہوئے راستے کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم