جُمہورمحدثین کے نزدیک نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول، فعل اورتقریرکوحدیث کہاجاتاہے، تقریر یہ ہےکہ نبی ِّکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےسامنے کوئی کام کیا گیا نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےدیکھا اوراس سےمنع نہ فرمایا بلکہ سکوت فرمایا، عہدِ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان سے لےکرآج تک نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث کوجمع کرنے کے لئے بڑی محنتیں اور مشقتیں کی گئی ہیں جیساکہ امام بخاری، امام حَفْص بن غِیاث، امام ہَیّاج بن بِسطام، امام ابوحاتم رازی رحمۃُ اللہِ علیہم کی کوششیں ہیں، ان یگانۂ روزگارہستیوں کی ہی برکات ومحنتیں ہیں کہ آج ہمارےپاس کثیرکتبِ احادیث موجود ہیں۔ آئیے اب ہم چند مشہور ائمہ احادیث کی حدیثوں کوجمع کرنے کے حوالے سے کوششوں اورمحنتوں کاذکر کرتے ہیں:

امام بخاری رحمۃُ اللہِ علیہ نے طلبِ حديث کے لئے خراسان، عراق، مصر، شام اور دیگر دور دراز علاقوں کے سفر کئے۔)[1](

امام عبداللہ بن مبارک رحمۃُ اللہِ علیہ چار مہینےطلبِ حدیث میں گزارتے، چار مہینےمیدانِ جہاد میں اور چار ماہ تجارت کرتے۔)[2](

امام یحییٰ بن معین کے بارے میں خطیب بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہما لکھتے ہیں:”ساڑھےدس لاکھ دِرہم آپ نے علم ِحدیث کے حصول میں خرچ کردیئے، آخرمیں چپل تک باقی نہ رہی۔ “)[3](

امام ابوحاتم رازی رحمۃُ اللہِ علیہ کے صاحبزادے فرماتے ہیں: میرے والد فرماتے تھے:”پہلی مرتبہ جب میں علمِ حدیث کے حصول کےلئے نکلا تو چند سال سفر میں رہا،پیدل تین ہزار میل چلا، جب مسافت زیادہ ہوگئی تو میں نےشمار کرنا چھوڑ دیا۔)[4]( علمِ حدیث کی طلب میں ہَیْثَمْ بن جمیل دو مرتبہ افلاس کےشکار ہوئے، سارا مال و متاع خرچ کر ڈالا۔)[5](

امام ربیعہ بن ابی عبدالرّحمٰن رحمۃُ اللہِ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ ”اسی علمِ حدیث کی تلاش و جستجو میں ان کا حال یہ ہوگیا تھا کہ آخر میں گھر کی چھت کی کڑیاں تک بیچ ڈالیں۔)[6](

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان محدثینِ کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کی محنتوں اور مشقتوں کواپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں بھی علمِ حدیث سے محبت کی دولت سے سرفراز فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



([1])اعلام للزرکلی،6/33

([2])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں،ص115

([3])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں، ص117

([4])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں،ص121

([5])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں، ص122

([6])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں،ص123


اللہ پاک نے انسان کو جو شرف و فضیلت ومقام و مرتبہ  عطا فرمایا ہے وہ نعمتِ علم ہی کے سبب ہے اور یہ اتنی عظیم نعمت ہے کہ جو بھی اسے خلوصِ نیت کے ساتھ حاصل کرتا ہے وہ کبھی بھی محروم نہیں رہتا ۔ہمارے اسلاف نے حصولِ احادیث کے لئے اونٹ اور گھوڑوں کے ذریعے دور دراز شہروں کا سفر اختیار فرمایا اور طرح طرح کی مشقتیں برداشت کیں۔ گویا کہ ہمارے اسلاف کے زیر نظر یہ آیت قرآنی اور حدیث مبارکہ ہوگی جو حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے۔( شعب الایمان للبیھقی ،باب فی طلب العلم، الحدیث 1663،ج2 ص 253 دار الکتب العلمیہ 1421ھ)/(عاشقانِ حدیث کی حکایات ص 14 )

قرآن مجید میں اللہ پاک نے طلب علم (علمِ حدیث) کی خاطر سفر اختیار کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ ارشادِ باری ہے:

فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ ترجمہ کنز الایمان: تو کیوں نہ ہو ا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں ۔(پ 11 التوبہ:122)

تفسیر کبیر میں مذکورہ آیت کے تحت ہے کہ اگر اپنے وطن ہی میں علم حاصل کرنا ممکن ہو تو اس کے لئےسفر کرنا واجب نہیں ۔ہاں! آیت مبارکہ کے الفاظ طلب علم کیلئے سفر کرنے پر دلالت کرتے ہیں( کیونکہ) یقینی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ مبارک اور نفع مند علم سفر کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔( تفسیر کبیر، ابی حاتم ، سورہ توبہ، تحت الآیۃ 122 ج 6 ص المکتبۃ الحنفیۃ پاکستان181،عاشقانِ حدیث کی حکایات ص8)

تفسیر روح البیان میں ہے کہ یہ آیت مؤمنین کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وطن چھوڑ کر نفع مند علم کے حصول کیلئے سفر کریں۔ ( تفسیرروح البیان، سورہ توبہ، تحت الآیۃ 122 ج3 ص537 دار احیاء التراث 1420ھ)/ (عاشقانِ حدیث کی حکایات ص8)

حضرت موسٰی علیہ السلام نے حصول علم کی خاطر حضرت سیدنا خضر علیہ السلام کی جانب سفر اختیار فرمایا۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی طلب علم (علمِ حدیث)کے لئے سفر اختیار فرمایا ۔حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے صرف ایک حدیث کے حصول کے لئے مدینہ منورہ سے حضرت سید نا عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کی جانب مصر کا سفر اختیار فرمایا۔ (عاشقانِ حدیث کی حکایات ص7)حضرت سید نا عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے طلبِ علم کی خاطر یمن، مصر، شام، بصرہ اور کوفہ کی طرف سفرفرمایا ۔ (عاشقانِ حدیث کی حکایات19)امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے کہ حضرت سید نا معمر بن راشد رضی اللہ عنہ نے طلب حدیث کیلئے یمن کا سفر فرمایا اور آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس کام کیلئے سفر فرمایا۔ (تاریخ مدینۃ دمشق، الرقم 8584 معمر بن راشد ج59 ص409 دار الفکر بیروت 1415ھ،عاشقانِ حدیث کی حکایات ص19 )

آج کے اس پُر فتن دور میں لوگ دنیاوی تعلیم کے حصول کیلئے تو دور دراز ملکوں کا سفر اور مشقتیں برداشت کرنے کے لئے با آسانی آمادہ ہو جاتے ہیں مگر علم دین کے حصول کے لئے سفر تو دور کی بات ہے اپنے ہی محلے کی مسجد میں حصولِ علمِ دین کے لئے آمادہ نہیں ہوتے،حتٰی کہ لوگ علم دین سے اس قدر دور ہو گئے ہیں کہ فرائض و واجبات اور ضروریاتِ دین کے علم سے بھی نا واقف ہوتے جا رہے ہیں۔لہذا ہمیں چاہئے کہ اپنے اسلافِ کرام کی طرح علم دین کے حصول کیلئے خوب جدو جہد اور کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہو اس کے حصول کیلئے سفر اختیار کریں۔


دین اسلام کے ستارے جنہوں نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ پاک اور روزمرّہ کے معاملات کو اپنی آنکھوں میں بسایا تو ان عظیم ہستیوں کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول ، فعل اور تقریر(یعنی وہ کام جو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روبرو ہوا ہو لیکن اسے منع نہ فرمایا ہو)کو سننے اور دیکھنے کے بعد ان سب معاملات کو نقل وروایت کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن بعد میں آنے والی امتِ مسلمہ کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال و افعال سے آگاہ کرنے کے لیے نقل و روایت کا سلسلہ شروع کیا ۔ان عظیم ہستیوں نے نہایت دیانت داری، وفا داری،خلوص و محبت اور بے انتہا احتیاط کو ملحوضِ خاطر رکھتے ہوئے احادیثِ نبوی کو نقل و روایت کرتے ہوئے تابعین تک پہنچایا۔ تابعین کی مقدس جماعت نے پوری امانت داری کے ساتھ تبع تابعین کو یہ مقدّس ذخیرہ حوالے کیا اور یوں سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آج چودہ سو سال بعد بھی ہمیں احادیثِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علم بھر پور حاصل ہے۔ یہ سب علمائے محدثین کی بے پناہ کوشش ،دیانتداری و لگن کا ثمرہ ہے جنہوں نے ضخیم ضخیم کتب میں انہیں محفوظ کر کے علمِ حدیث کو زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ صحابہ کرام سے لے کر آج تک جس کسی نے علم حدیث پر کام کیا ان کی مثال آپ ہے کہ ایک ایک حدیث کا علم حاصل کرنے کے لیے ملکوں کا سفر طے کیا کرتے تھے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے صرف ایک حدیثِ پاک کے دوسرے راوی حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ پاک سے مصر تک کا سفر طے کیا تاکہ وہ اس بات کو پختہ و مضبوط کر سکیں کہ اس حدیث کے دو راوی ہیں۔

(معرفة علوم الحدیث ،ص٨)۔

احادیثِ کریمہ کے اصول مزیّن کرنے میں جو اعلٰی پیمانے قائم کئے گئے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک مسئلہ درپیش ہوا اور اسکا حل قرآنِ مجید سے نہ ملا تو صحابہ کرام کی ایک جماعت سے دریافت کیا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیثِ پاک بیان کر کے مسئلہ حل کیا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان صحابہ میں ہے جن کی دیانت اور تقوٰی اور امانت و راستی کی قسم کھائی جاسکتی ہے ۔ اسکے باوجود حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حدیث مبارکہ کی تفتیش کے لیے پوچھا کہ اسکا کوئی اور راوی بھی ہے ؟ جب ایک اور صحابی رسول نے گواہی دی تو حکم جاری کیا (معرفة علوم الحدیث ، ص ١٤)۔

گویا یہ بات واضح کی کہ حدیثِ پاک کی تحقیق و تفتیش کے لیے ضروری ہے کہ اس سے بھی شریعت کے احکام بیان ہوتے ہیں ۔

احادیثِ مبارکہ کی خدمت کرنے میں ایک اہم عمل حدیث کو حفظ کرنا ہے اور کئی جیّد علمائے حدیث نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں احادیث کو حفظ کیا ۔ان میں نمایاں اسم حضرت ابو عبد اللّٰه محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرہ البخاری کا ہے جنہوں نے چھ لاکھ احادیثِ مبارکہ کو اپنے سینے میں محفوظ فرمایا اور جمع احادیث کا مجموعہ بنام الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول اللّٰه و سننہ وأیامہ تحریر فرما کر امتِ مسلمہ پر عظیم احسان کیا ۔ اسی طرح دیگرمحدّثین نے بھی لاکھوں احادیث حفظ کر کے قلم بند کیں اور فنِ حدیث میں بھی بے حساب خدمت سر انجام دی ۔ اللہ پاک ان سب کے صدقے میں ہماری بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن مجید فرقان حمید شریعت مطہرہ کا بنیادی ماخذ ہے  جس میں ہر خشک و تر کا بیان ہے۔ سنن نبویہ اس جامع کتاب کی تشریح ہیں جن کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن نہیں ، یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے جمع حدیث کیلئے بہت مصائب و آلام برداشت کیے۔

ذیل میں علمائے اسلام کی جمع حدیث میں اٹھائی جانے والی مشقتوں کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کی جاتی ہے جس سے بزرگان دین کی خدمت حدیث کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا۔

1: حبر الامۃ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں : جس (صحابی) کے بارے میں مجھے علم ہوتا کہ اِن کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث ہے تو میں ان کے در دولت پر پہنچتا اور حدیث سن کر یاد کرلیتا ۔بعض حضرات کے پاس پہنچتا اور معلوم ہوتا کہ وہ آرام کر رہے ہیں تو ان کی چوکھٹ پر سر رکھ کر لیٹ جاتا، ہواؤں کے تھپیڑے چلتے، گرد و غبار اڑ کر میرے چہرے اور کپڑوں پر لگ جاتا لیکن میں اسی طرح منتظر رہتا، یہاں تک کہ وہ خود باہر تشریف لاتے تو اس وقت اپنا مُدّعا بیان کرتا۔(جامع الاحادیث ص 129 ملخصاً و ملتقطاً)

2:امام ابو حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ طلبِ حدیث کیلئے مدتوں سفر میں رہتے ۔ آپ کے صاحبزادے کا بیان ہے،میرے والد فرماتے تھے:سب سے پہلے علم حدیث کے حصول میں نکلا تو چند سال سفر میں رہا،پیدل تین ہزار میل چلا۔مزید خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں:میں بحرین سے مصر پیدل گیا، پھر رملہ سے طرطوس کا سفر پیدل ہی کیا، اس وقت میری عمر بیس (20) سال تھی۔ (تدوین حدیث صفحہ 116 ملخصا و ملتقطا )

3:امام ہیثم بن جمیل بغدادی رحمۃ اللہ علیہ عظیم محدث تھے۔ علم حدیث کی طلب میں شب و روز سرگرداں رہے۔ مالی پریشانیوں سے بھی دوچار ہوئے۔لکھا ہے : افلس الهیثم بن جمیل فی طلب الحدیث مرتین یعنی علم حدیث کی طلب میں ہیثم بن جمیل دومرتبہ افلاس (تنگدستی) کے شکار ہوئے۔(یہاں تک کہ) سارا مال و متاع خرچ کر ڈالا ۔( ایضا ًصفحہ 117)

4:امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اپنے اُستاد امام ربیعہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں: علم حدیث کی تلاش و جستجو میں ان کا حال یہ ہوگیا تھا کہ آخر میں گھر کی چھت کی کڑیاں تک بیچ ڈالیں اور اس حال سے بھی گزرنا پڑا کہ مذبلہ( کچرا کنڈی) جہاں آبادی کی خس وخاشاک ڈالی جاتی ہے وہاں سے منقّی یا کھجوروں کے ٹکڑے چن کر بھی کھاتے۔( ایضا ًصفحہ 118 )

5:بصرہ میں امام بُخاری حدیث کی سماعت میں شریک تھے۔ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کئی دنوں تک درس میں شریک نہ ہوئے ۔ تلاش کرنے پر پتہ چلا کہ آپ ایک اندھیری کوٹھڑی میں پڑے ہیں اور جسم پر ایسا لباس نہیں جیسے پہن کر باہر نکل سکیں۔دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ جو کچھ اثاثہ تھا ختم ہوگیا ہے ۔آخر چند ساتھی طلباء نے مل کر رقم جمع کی اور کپڑا خرید لائے،تب کہیں جا کر امام بُخاری رحمۃ اللہ علیہ پڑھنے کیلئے نکلے۔(ایضاً 118)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن وسنت شریعتِ اسلامیہ کی اساس وبنیاد ہیں،البتہ قرآن کو اولیت حاصل  ہے،لیکن علومِ قرآن بغیر سنت نبوی حاصل نہیں ہوسکتے۔ قران کو سمجھنا ہے تو ارشادات رسول اور سنن نبویہ کا سہارا لینا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام وتابعین عظام و علماء کرام( رضوان اللہ علیہم اجمعین ) نے جس طرح قرآن کریم کی حفاظت کے لئے شب و روز جدوجہد فرمائی ،اسی طرح حفاظت حدیث کے لئے سعی بلیغ فرمائی۔

بےشک اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کائنات عالم میں معلم کتاب وحکمت بنا کر معبوث فرمایا اور بےشمار مناصب علیاو مراتب قصوی سے عزت و کرامت بخشی ۔

*آپ علیہ الصلوۃ والسلام ہادی اعظم اور مبلغ کائنات ہیں، جیسا کہ فرمان الہی ہے :

یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۶۷)ترجمہ كنزالايمان:اے رسول پہنچادو جو کچھ اُترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ایسا نہ ہو تو تم نے اس کا کوئی پیام نہ پہنچایااور اللہ تمہاری نگہبانی کرے گا لوگوں سے بے شک اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔(پ6،المائدہ:67)

حفاظت حدیث :

علم حدیث کو دلیلِ شرعی ہونے کی سند قرآن کریم سے ملی ہے ۔خداوندقدوس نے اپنی اطاعت کے ساتھ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا اور مسلمان کو اس پر عمل پیرا ہونے کی بدولت سعادت دارین اور فلاح ونجات اخروی کا مثردہ سنایا۔

اہل اسلام کی اولین جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ فرمانِ واجب الاذعان براہ راست حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا تھالہٰذا شب وروز اپنے محسن اعظم اور ھادی برحق کے اشاروں کے منظر رہتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال میں اپنے لئے نمونۂ عمل تلاش کرتے، زیادہ وقت دربار رسالت کی حاضری میں گزارتے اور آپ کی سیرت و کردار کو اپنانا ہر فرض سے اہم سمجھتے تھے۔انکی نشت و برخاست، خلوت و جلوت، سفر وحضر،عبادت و معاملات اور موت و حیات کے مراحل سب سنت رسول کی روشنی ہی میں گزرتے اور انجام پاتے۔احادیث کی حفاظت کا انتظام اسی طرح انہوں نے روز اول ہی سے شروع کر دیا تھا۔ صحابہ کرام نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے یہ تعلیم بھی پائی تھی کہ میری سنت اور اسوہ حسنہ میں اپنے لئے نمونہ عمل تلاش کرو۔

لہذا اس جماعت کےسربراہ حضرت ابو ہریرہر رضی اللہ عنہ ہیں جو ذخیرہ حدیث کے سب سے بڑے راوی شمار ہوتے ہیں۔لوگوں کو ان کی کثرت روایت پر کبھی تعجب ہوتا تو فرماتے:

تم لوگ کہتے ہو کہ ابو ہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہو کہ مہاجرین وانصار اتنی حدیثیں کیوں نہیں بیان کرتے، تو سنو !مہاجرین تو اپنی تجارت میں مصروف رہتے اور انصار کا مشغلہ کھیتی باڑی تھا،جبکہ میرا حال یہ تھا کہ میں صرف حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتا، جب انصار و مہاجرین غائب رہتے تو میں اس وقت بھی موجودہوتا ، اصحاب صفہ میں ایک مسکین میں بھی تھا۔جب لوگ بھولتے تو میں احادیث یاد رکھتا تھا۔

صحابہ کرام نے حصول حدیث کے لئے مصائب برداشت کئے :

اس معیار پر جب ان کی زندگیاں دیکھی جاتی ہیں تو ہر مسلمان بےساختہ یہ کہنے پر مجبور نظر آتا ہے کہ ان کی تبلیغ و ہدایت محض اللہ و رسول کی رضا کے لئے تھی ۔سنت رسول کی اشاعت اور اس کی تعلیم وتعلم میں انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا، کسی کو حکم رسول سنانے میں نہ کوئی خوف محسوس ہوتا اور نہ کسی سے حدیث رسول سیکھنے میں کوئی عار محسوس کرتے تھے۔

فاروق اعظم نے اشاعت حدیث کے لئے صحابہ کرام کو مامور فرمایا :

دورہ حدیث کے علاوہ انفرادی طور پر بھی حدیثیں یاد کرنے کا بڑا اہتمام تھا۔حفاظت حدیث کا یہ شغل صرف عہد نبوی تک محدود نہیں رہا بلکہ عہد صحابہ میں حصول حدیث اور اشاعت حدیث کا شوق اپنے جو بن پر تھا۔

حضرت فاروق اعظم نے خلافت اسلامی کے گوشے گوشے میں حدیث پاک کی تعلیم کے لئے ایسے صحابہ کرام کو روانا فرمایا جن کی پختگی سیرت اور بلندی کردار کے علاوہ ان کی جلالت علمی تمام صحابہ کرام میں مسلم تھی ۔ اور پھر آپ مزید اس وقت تک کے امیر/گورنر کو سخت تاکیدی حکم لکھتےکہ یہ حضرات جو احادیث بیان کریں ان سے ہرگز تجاوز نہ کیا جائے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت تو امت پر قیامت تک فرض ہے اور اس میں ان کی ترقی، عزت اور ہیبت کا راز پنہا ں ہے۔اس لیے تو آپ نے ملک کے گوشے میں جلیل القدر صحابہ کرام کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو ان کے رسول کی سنت کی تعلیم دیں اور حکام کو بار بار اتباع سنت کے لئے مکتوب روانہ فرمائے۔

صحابہ کرام نے اپنے عمل وکردار سے سنت رسول کی حفاظت فرمائی:

صحابہ کرام اس منزل پر آکر خاموش نہیں ہو گئے کہ ان کو محفوظ کر کے آرام کی نیند سو جاتے، ان کے لئے حدیث کے جملوں کی حفاظت محض تبرک کے لئے نہیں تھی جن کو یاد کر کے بطور تبرک قلوب و اذہان میں محفوظ کر لیا جاتا، بلکہ قرآنی تعلیمات کی طرح ان کو بھی وہ وحی الہی سمجھتے تھے جن پر عمل ان کا شعار دائمی تھا۔

بہر حال صحابہ کرام میں ذوق اتباع عام تھا، اور ان کا دستور عام یہ ہی تھاکہ زندگی کے ہر شعبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے رہنمائی حاصل کرتے، وہ صرف خود اپنی ہی زندگیوں کو حضور کے اسوہ حسنہ کے سانچے میں ڈھالنے کے مشتاق نہ تھے بلکہ وہ ایک دوسرے کو حضور ہی کو نمونہ عمل کے طور پر اپنانے کی تلقین بھی کرتے تھے ۔۔

کتابت حدیث کی اجازت خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائی:

تدوین حدیث کو کتابت حدیث کی صورت ہی میں تسلیم کر نے والے اس بات پر بھی مصر ہیں کہ دوسری اور تیسری صدی میں حدیث کی جمع و تدوین کا اہتمام ہوا ،اس سے پہلے محض زبانی حافظوں پر تکیہ تھا۔ جب اسلام لوگوں کے قلوب واذہان میں راسخ ہو گیا اور قرآن کریم کا کافی حصہ نازل ہوچکا اور اس چیز کا اب خطرہ ہی جاتا رہا کہ قرآن و حدیث میں کسی طرح کا اختلاط روبعمل آئے گا تو کتابت حدیث کی اجازت خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائی۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

علم کو تحریر کے ذریعے مقید کر لو۔

تدوین حدیث کے لئے محدثین نے جانکاہ مصائب برداشت کئے:

تابعین عظام نے بھی ان طریقوں پر عمل کرتے ہوئے حفظ و کتابت کا فریضہ انجام دیا۔دوسری طرف ایسی شخصیات کی بھی کمی نہ تھی جنہوں نے فقروفاقہ کی زندگی بسر کی، جانفشانیاں کیں ،مصائب وآلام برداشت کئے لیکن اس انمول دولت کے حصول کے لئے ہر موقع پر خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا۔۔

امام حاتم رازی:

آپ علل حدیث کے امام تھے ،امام بخاری، امام ابو داؤد ،امام نسائی اور امام ابن ماجہ کے شیوخ سے ہیں۔ آپ مدتوں سفر میں رہتے اور جب گھر آتے تو سفر شروع کر دیتے۔آپ کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں: میرے والد فرماتے تھے: سب سے پہلی مرتبہ علم حدیث کے حصول میں نکلا تو چند سال سفر میں رہا۔پیدل تین ہزار میل چلا، جب زیادہ مسافت ہوئی تو میں نے شمار کرنا چھوڑ دیا ۔

امام ہیثم بن جمیل بغدادی:

آپ عظیم محدث ہیں، امام مالک کے شاگرد اور امام احمد بن حنبل کے شیخ ہیں، علم حدیث میں شب وروز سرگرداں رہے۔مالی پریشانیوں سے بھی دو چار ہوئے ۔

علم حدیث کی طلب میں ہیثم بن جمیل دو مرتبہ افلاس کا شکار ہو ئے۔سارا مال و متاع خرچ کر ڈالا۔

امام ربیعہ:

آپ بھی ایک عظیم محدث اور تابعی مدنی ہیں، حضرت انس بن مالک اور سائب بن یزید کے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں ،امام مالک،امام شعبہ، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ کے اساتذہ میں سے ہیں، ربیعہ الرائے کے نام سے مشہور ہیں، جب سے ربیعہ کا وصال ہوا فقہ کی حلاوت جاتی رہی۔

اس علم حدیث کی تلاش و جستجو میں ان کا حال یہ ہو گیا تھا کہ آخر میں گھر کی چھت کی کڑیاں تک بیچ ڈالیں اور اس سے بھی گزرنا پڑا کہ جہاں آبادی کی خس وخاشاک ڈالی جاتی ہے وہاں سے منقّٰی یا کھجوروں کے ٹکڑے چن کر بھی کھاتے۔۔۔اللہ اللہ!

آئمہ اربعہ کی علمی خدمات :

امام اعظم:

امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الآثار لکھی جبکہ آپ کے تلامذہ میں امام ابو یوسف ،امام محمد، امام حسن بن زیاد وغیرہ کی شاندار حدیثی خدمات سے اہل علم واقف ہیں۔ان حضرات کی جدوجہد نے روز اول ہی اس سیلاب پر بند باندھ دیا تھا کہ موضوع احادیث شرعی امور میں دخیل نہ ہونے پائیں۔صحیح کو غلط بلکہ ضعیف تک سے جدا کر کے اس بات کی صراحت کر دی گئی تھی کہ جملہ احادیث نہ استدلال میں مساوی ہیں نہ عمل میں۔۔

امام مالک:

علم حدیث کی عظمت اور کمال احتیاط دونوں ہی آپ کو ملحوظ تھیں۔ موطا امام مالک اولاً نو ہزار احادیث پر مشتمل تھی لیکن آپ اس کو بار بار قرآن کریم پر پیش کرتے رہےاور اب تعداد چھ سو سے کچھ اوپر ہے پھر یہ کیوں متصور کہ اس میں جعلی حدیثیں ہوں۔

امام شافعی :

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے اصحاب تو علم روایت ہی کے خوگر رہے ،پوری زندگی نشر ِحدیث و فقہ میں گزری۔

امام احمد بن حنبل: ۔

آخر میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جنکی علم حدیث میں رفعت مسلم چیز ہے۔کہتے ہیں کہ آپ ساڑھے سات لاکھ احادیث کے حافظ تھے،ان میں سے آپ کی مسند میں ستائیس ہزار ایک سو احادیث موجود ہیں۔ یہ آئمہ اربعہ کی حدیث میں منصف مزاجی اور ان کا محتاط رویہ ہے۔

ہم نے تدوین حدیث، جمع حدیث، حفاظت حدیث، اشاعت حدیث کو یہاں مختصر بیان کرنے کی کوشش کی ہےکہ اہل اسلام ہرگز دھوکے میں نہ آئیں اور اپنے اسلاف کی ان کوششوں کی قدر کرتے ہوئے اپنے دینی سرمایہ کو دل و جان سے زیادہ عزیز رکھیں۔اس علم کی حفاظت کیلئے ہمارے اسلاف نے پوری زندگی اطراف ِعالم کے خاک چھانی ہےتب کہیں جاکر ہمیں یہ مستند ذخیرہ فراہم ہوسکا ہے

رب العالمین قبول فرمائے۔

ٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!


اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) ترجَمۂ کنزُالایمان:بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب ۔

(المائدہ : 15 )

بلاشبہ قرآن پاک میں ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، لیکن اس مکمل ضابطہ حیات کو سمجھنے کے لیے بھی ایک مکمل انسان کی ضرورت ہے، بے شک وہ مکمل ذات ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے ، مفسرین کہتے ہیں مذکورہ آیت میں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور روشن کتاب قرآن پاک ہے، سبحان اللہ! قرآن پاک نور ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نور، تو نورانی قرآن کو سمجھنے کے لئے بھی اس نو رانی بشر کی ضرورت ہے۔

قرآن پاک خود ا تباعِ رسول کا حکم دیتا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ہے : وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں، باز ر ہو۔( الحشر : 07 )

ربّ تعالی فرماتا ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ،ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔ ( الاحزاب : 21 )

نیز قرآن پاک میں ا رکا نِ اسلام مثلاً نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ کا ذکر نہایت اجمال کے ساتھ ہے، جس کی مکمل تفسیر و ضاحت آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قولاً اور فعلاً تعلیم فرمائی ہے اور اِنہی اقوال و افعال کو حدیث کہتے ہیں۔

سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان اتباع رسول کے لیے احادیث کریمہ کا بے حد ادب فرماتے اور اسی کوشش میں رہتے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلمکا کلام زیادہ سے زیادہ سن سکیں، وہ حضرات حدیث کے سماع کے لیے دور دراز علاقوں اور شہروں کا سفر اختیار فرماتے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہ کا انداز:

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہخاندانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اہم فرد تھے، کاشانہ نبوت میں ان کی حقیقی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا رہتی تھیں، ان کوشب روز وہاں گزارنے کا موقع ملتا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے "تفقہ فی الدین" کی دعا بھی فرمائی، آپ خود فرماتے ہیں:" میں نے ایک انصاری صحابی سے کہا، کیا ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے تو اب محروم ہو گئے، لیکن اکابر صحابہ کرام ابھی موجود ہیں، چلو ان سے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنیں اور اکتساب علم کریں، وہ بولے:"اے ابنِ عباس! تم کیا سوچتے ہوکہ اکابر صحابہ کرام کے ہوتے ہوئے لوگ آپ سے مسائل پوچھیں گے؟فرماتے ہیں:'میں نے ان کی نصیحت پر کان نہ دھرا اور مسلسل کوشش جاری رکھی، جس کے بارے میں مجھے علم ہوتا کہ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث ہے، تو میں ان کے درِ دولت پر پہنچ جاتا اور حدیث سن کر یاد کر لیتا، بعض حضرات کے پاس پہنچتا اور معلوم ہوتا کہ وہ آرام میں ہیں، تو میں ان کی چوکھٹ پر سر رکھ کر لیٹ جاتا، ہواؤں کے تھپیڑے چلتے، گردو غبار اُڑ کر میرے چہرے اور کپڑوں پر اَٹ جاتا، لیکن میں اسی حال میں منتظر رہتا، وہ خود باہر تشریف لاتے، تو اس وقت میں اپنا مدعا بیان کرتا، وہ حضرات مُجھ سے فرماتے، آپ تو خاندانِ نبوت کے فرد ہیں، آپ نے یہاں آنے کی زحمت کیوں اٹھائی، ہمیں ہی یاد فرما لیا ہوتا، ہم خود آپ کے پاس حاضر ہوتے، میں عرض کرتا:" کہ میں طالبِ علم ہوں، لہذا میں ہی اس بات کا مستحق ہوں کہ آپ کی خدمت میں حاضری دوں۔(جامع الااحادیث، ج1، ص 128)

پھر انہیں کی طرز پر ہمارے اسلاف رحھم اللہ بھی جمع حدیث میں سرگرم رہے، یہاں تک کہ بہت سی صعوبتیں، مشقتیں اور آزمائشیں برداشت کیں۔

تمام رقم طلب حدیث میں خرچ کردی:

ایک عظیم تاجر حضرت عبد اللہ بن مبارک کے طلبِ حدیث و فقہ میں ذوقِ علمی کا یہ واقعہ بڑا مشہور ہے کہ ایک مرتبہ والد ماجد نے آپ کو پچاس ہزار درہم تجارت کے لئے دئیے، تو تمام رقم طلبِ حدیث میں خرچ کرکے واپس آئے، والد صاحب نے دراہم کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے جس قدر حدیث کےدفتر لکھے تھے، سب ان کے سامنے پیش کردیئے اور عرض کیا:" میں نے ایسی تجارت کی ہے، جس سے ہم دونوں کو جہان میں نفع حاصل ہوگا، ان کے والد محترم بہت خوش ہوئے، اور تیس ہزار درہم مزید عنایت کر کے فرمایا:" جائیے! علمِ حدیث و فقہ کے طالبین پر خرچ کر کے اپنی تجارت کا مل کر لیجئے۔(انوارِ امام اعظم ، ص430)

جو کچھ اثاثہ تھا ختم ہوگیا:

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری علیہ الرحمہ کو طلبِ حدیث میں کن حالات سے گزرنا پڑا؟ ایک واقعہ سنئے، ان کے ایک ساتھی عمر بن حفص بیان کرتے ہیں، بصرہ میں ہم امام بخاری کے ساتھ حدیث کی سماعت میں شریک تھے، چند دنوں کے بعد محسوس ہوا کہ بخاری کئیں دن سے درس میں شریک نہیں ہوئے، تلاش کرتے ہوئے ان کے قیام گاہ پر پہنچے تو دیکھا کہ اندھیری کوٹھری میں پڑے ہیں اور ایسا لباس جسم پر نہیں جس کو پہن کر باہر نکلیں، دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ جو کچھ اثاثہ تھا سب ختم ہو گیا، اب لباس تیار کرنے کے لئے بھی کچھ نہیں، آخر ہم لوگوں نے مل کر رقم جمع کی اور کپڑا خرید کر لائے، تب کہیں جاکر امام بخاری پڑھنے کے لئے نکلے ۔

( جامع الحدیث مرکز اہلسنت برکاتِ رضا، جلد اول، صفحہ نمبر205)


تدوین حدیث کے لیے علماء کرام نے جانکاہ مصائب برداشت کئے،فقروفاقہ کی زندگی بسر کی ، جانفشانیاں کیں،  مصائب وآلام برداشت کئے لیکن اس انمول دولت کے حصول کے لیے ہر موقع پر خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا۔

1۔ امام ابو حاتم رازی کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں :

میرے والد فرماتے تھے،سب سے پہلی مرتبہ علم حدیث کے حصول میں نکلا تو چند سال سفر میں رہا، پیدل تین ہزار میل سے زائد چلا، جب زیادہ مسافت ہوئی تو میں نے شمار کرنا چھوڑ دیا۔

(جامع الاحادیث ص 294)

اللہ اللہ علماء کرام نے حدیث کی تدوین کے لیے اتنے اتنے طویل سفر پیدل فرمائے۔

2۔ امام محمود بن اسماعیل بخاری:

امیر المومنین فی الحدیث کو طلب حدیث میں کن حالات سے گزرنا پڑا، ایک واقعہ سنتے چلیں۔

انکے ساتھی عمر بن حفض بیان کرتے ہیں :بصرہ میں ہم امام بخاری کے ساتھ حدیث کی سماعت میں شریک تھے، چند دنوں کے بعد محسوس ہوا کہ بخاری کئی دنوں سے درس میں شریک نہیں ہوئے تلاش کرتے ہوئے ان کی قیام گاہ پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک اندھیری کوٹھری میں پڑے ہیں۔ اور ایسا لباس جسم پر نہیں کہ جسکو پہن کر باہر نکلیں۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ جو کچھ اثاثہ تھا ختم ہو گیا اب لباس تیار کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں۔ آخر ہم لوگوں نے مل کر رقم جمع کی خرید کر کپڑا لائے تب کہیں جا کر امام بخاری پڑنے کے لیے نکلے۔(جامع الاحادیث 205,206)

3۔ امام محمود شیبانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :

مجھے اپنے والد کی میراث میں سے تیسں ہزار درہم ملے تھے ان میں سے پندرہ ہزار میں نے علم نحو،شعر وادب اور نعت وغیرہ کی تعلیم وتحصیل میں خرچ کیا اور پندرہ ہزار حدیث وفقہ کی تکمیل پر۔(تذکرہ امیراہلسنت شوق علم دین ص20)

4۔ حافظ الحدیث "حجاج بغدادی" علیہ الرحمہ حضرت شبابہ محدث کے یہاں علم حدیث پڑھنے کے لیے جانے لگے تو ان کی کل پونچی اتنی ہی تھی کہ ان کو غریب ماں نے ایک سو "کلچے" پکا دئیے تھے جن کو وہ ایک مٹحا کے گھڑے میں بھر کر اپنے ساتھ لے گئے روٹیاں تو ماں نے پکا دی تھیں۔ہو نہار طالب العلم نے سالن کا خود انتظام کر لیا اور سالن بھی اتنا کْثیرولطیف کہ سینکڑوں برس گزر جانے کے باوجود کم نہیں ہوا اور ہمیشہ تازہ ہی رہا اور وہ کیا !

دریائے دجلہ کا پانی، روزانہ یہ ایک کلچہ،دریا کے پانی میں تر کرکے کھالیتے اور شبانہ روز انتہائی محنت کے ساتھ سبق پڑھتے یہاں تک کہ جب کلچے ختم ہو گئے تو مجبوراً استاذ کی درس گاہ کو خیر باد کہنا پڑا۔(تذکرہ اہلسنت شوق علم دین ص 19)

5۔ امام محمد بے حد عبادت گزار تھے:

تصنیف و تالیف اور مطالعہ کتب میں اکثر اوقات مشغول رہا کرتے تھے۔ رات کے تین حصے کرتے ،ایک حصہ عبادت، ایک حصہ مطالعہ، ایک حصہ آرام۔ امام شافعی بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں امام محمد کے پاس ٹھرا میں ساری رات نفل پڑھتا رہا اور امام محمود چارپائی پر لیٹے رہے صبح امام محمد نے بغیر وضو کے نماز پڑھی میں نے پوچھا حضرت آپ نے وضو نہیں کیا ؟فرمایا: تم نے ساری رات اپنے نفس کے لیے عمل کیا اور نوافل پڑھے میں نے تمام رات حضور کی امت کے لیے عمل کیا اور کتاب اللہ سے مسائل کا استنباط کرتا رہا اس رات میں نے ہزار سے زیادہ مسائل کا استخراج کیا۔(تذکرہ المحدثین ص143)

6۔ علم حدیث کے لیے امام مسلم نے متعدد شہروں کا سفر اختیار کیا۔ نیشاپور کے اساتذہ سے اکتساب فیض کے بعد وہ حجاز ،شام،عراق اور مصر گئے ان گنت بار بغداد کا سفر کیا ۔

7۔ امام ترمذی نے حصول علم کی خاطر خراسان ،عراق اور حجاز کے متعدد شہروں کا سفر کیا۔

8۔ امام نسائی نے دوردراز شہروں کا سفر کیا احادیث کی طلب اور روایت کی خاطر متعدد سفر کئے جن میں حجاز،عراق، شام اور فراساں اور مصر قابل ذکر ہیں ۔

9۔ امام ابن ماجہ نے بھی متعدد شہروں کا سفر کیا جن میں خراساں،عراق، حجاز، مصر، مدینہ منورہ، کوفہ،بصرہ، بغداد، طیران قابل ذکر ہیں(تذکرہ المحدثین )

حضرت ابو ایوب انصاری نے مدینہ منورہ سے مصر کا سفر محض اس لیے اختیار کیا کہ حضرت عقبہ بن عامرسے ایک حدیث سنیں چنانچہ وہاں پہنچے اور حضرت عقبہ بن عامر نے استقبال کیا تو فرمانے لگے ۔ میں ایک حدیث کے لیے آیا ہوں جس کو سننے میں اب تمہارے سوا کوئی باقی نہیں۔ حضرت عقبہ نے حدیث سنائی کہ "رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کسی نے مومن کی ایک برائی چھپائی قیامت کے دن اللہ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔

حضرت ابو ایوب انصاری یہ حدیث سنتے ہی اپنے اونٹ کی طرف بڑھے اور ایک لمحہ ٹھرے بغیر مدینے واپس چلے گئے۔(تذکرہ امیراہلسنت شوق علم دین ص 16)

حضرت غوث اعظم فرماتے ہیں " میں نے( رہ خدا ) میں بڑی بڑی سختیاں اور مشقتیں برداشت کہیں اگر وہ کسی پہاڑ پر گزرتیں تو وہ بھی پھٹ جاتا۔(قلائدالجواہر ص19)


کسی بھی علم کی اہمیت کا اندازہ اس علم کے موضوع سے لگایا جاسکتا ہے، جس طرح قرآن احکامِ شرع میں حُجّت ہے، اسی طرح حدیث بھی اور اس سے بہت سے احکام شریعت ثابت ہوتے ہیں۔

( نصاب اصول حدیث: صفحہ نمبر 12 )

جمع حدیث :

جمع حدیث کا سلسلہ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے لیکر تبع تابعین تک مسلسل جاری رہا، یہاں تک کہ سینہ درسینہ ،سفینہ در سفینہ،نسل در نسل نقل و روایات کا یہ مقدس سلسلہ آگے بڑھتا رہا، تاکہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال ،احوال وکوائف اور ارشادات و تقریرات کا وہ مقدس ذخیرہ احادیث کی ضخیم کتابوں میں محفوظ ہوکر ہم چودہ سو سال بعد میں پیدا ہونے والے افرادِ امت تک پہنچایا۔ (انوار الحدیث: صفحہ نمبر 55 )

اکابر علماء ملت اور اسانید شریعت نے علم حدیث کی تحصیل کیلئے اپنی زندگیاں وقف کردی تھیں، انہوں نے بارہا صرف ایک حدیث کی خاطر سینکڑوں میل کا سفر کیا، طلبِ حدیث میں کوئی چیز انکی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی تھی، انہوں نے احادیث کو اپنے سینوں میں اور پھر نوشتوں میں محفوظ کیا۔ تذکرہ محدثین: (صفحہ نمبر 23 )

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیش رواٰئمہ کی آرزو ،اساتذہ کا فخر اور معاصرین کیلئے سراپا رشک تھے، جب آسمانِ علم حدیث پر امام بخاری کا سورج طلوع ہوا، تو تمام محدثین ستاروں کی طرح چھپتے چلے گئے، صحیح مجرد میں سب سے پہلے انہوں نے مجموعہ حدیث پیش کیا اور کتبِ صحاح کی تصنیف کا سلسلہ شروع ہوگیا۔( تذکرہ محدثین: صفحہ نمبر 165 )

امام بخاری نے روایت حدیث کے سلسلہ میں بار بار دوردراز شہروں کا سفر کیا اور برسہا برس وطن سے دور بیٹھے اکتساب ِعلم کرتے رہے، انہوں نے خود بیان کیا ہے کہ" میں طلبِ حدیث کیلئے مصر اور شام دو مرتبہ گیا، چار مرتبہ بصرہ گیا، چھ سال حجازِ مقدس میں رہا اور ان گنت مرتبہ محدثین کے ہمراہ کوفہ اور بغداد گیا۔( تذکرہ محدثین: صفحہ نمبر 168 )

امام بخاری اور مسلم کے بعد جو امام حدیث سب سے زیادہ مرتبہ اور مقام کے مالک ہیں، وہ امام ابو داؤد سجستانی ہیں، انہوں نے سب سے پہلے کتاب السنن لکھ کر علم حدیث میں ایک نئی راہ دکھلائی اور اسکے بعد متعدد آئمہ حدیث نے انکے چراغ سے چراغ جلانے شروع کر دیئے اور فنِ حدیث میں کتب سنن کا ایک قابل قدر ذخیرہ جمع ہوگیا۔( تذکرہ محدثین: صفحہ نمبر 271 )

علم حدیث کی خاطر انہوں نے متعدد اسلامی شہروں کا سفر کیا، خاص طور پر مصر،شام، حجاز،عراق اور خراسان وغیرہ میں کثرت کیساتھ قیام کرکے علم حدیث حاصل کیا۔

( تذکرہ محدثین: صفحہ نمبر 272 )

حضرت سیدنا عبد القدوس بن محمد العَبْعَابی کہتے ہیں، کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا :"میں نے حضرت سیدنا شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کو انکے انتقال کے 7 دن بعد خواب میں دیکھا، کہ وہ حضرت سیدنا مِسعَر بن کدام رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں اور ان دونوں پر نور کی قمیضیں ہیں ، میں نے پوچھا: "اے ابو بسطام!اللہ عزوجل نے آپکے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ "ارشاد فرمایا " اللہ عزوجل نے مجھے بخش دیا"میں نے پوچھا:" کس سبب سے ؟

ارشاد فرمایا:" روایتِ حدیث میں سچائی سے کام لینے، اسکی نشر و اشاعت اور اس معاملے میں امانت کا حق ادا کرنے کے سبب۔(152 رحمت بھری حکایات، صفحہ نمبر 95 )

علمائے کرام رحمھم اللہ اجمعین نے جمع حدیث میں بہت مشقتیں اٹھائیں، اللہ تبارک وتعالی ہمیں اس علم کی قدر نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم



جمع حدیث:

احادیث کو لکھنے اور محفوظ کرنے کا کام عہد رسالت میں شروع ہو چکا تھا اور صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کے افعال اور احوال لکھ کر قلم بند کیا کرتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کے تابعین نے صحابہ کی مرویات کولکھ کر محفوظ کرنا شروع کیا، اس طرح یہ سلسلہ روایت آگے بڑھتا رہا ، اس طرح بہت سے علماءِ کرام نے جمع حدیث میں بہت سی مشکلیں اٹھائیں، جن میں چند کا تذکرہ مندرجہ ذیل ہے۔( تذکرۃ المحدثین، ص31)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایتِ حدیث میں بار بار دُور دراز شہروں کا سفر کیا اور برسہا برس وطن سے دور بیٹھے اکتسابِ علم کرتے رہے، انہوں نے خود بیان کیا ہے کہ میں طلب حدیث کے لیے مصر اور شام دو مرتبہ گیا، چار مرتبہ بصرہ گیا، چھ سا ل حجازِ مقدس میں رہا اور اَن گنت مرتبہ محد ثین کے ہمراہ کو فہ اور بغداد گیا۔( تذکرۃ المحدثین، ص128)

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ:

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ فن حدیث کے اکابر آئمہ میں شمار کیے جاتے ہیں، علمِ حدیث کی طلب میں امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد شہروں کا سفر اختیار کیا، "نیشا پور" کےاساتذہ سے اکتسابِ فیض کے بعد وہ حجاز، شام، عراق اور مصر گئے اور ان گنت بار بغداد کا سفر کیا۔ (تذکرۃ المحدثین، ص220)

امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ:

ابتدائی تعلیم کے بعد حدیث کی طرف رجوع کیا، وطن اور بیرونِ وطن ہر جگہ روایتِ حدیث کو تلاش کیا، اس سلسلہ میں انہوں نےخراسان، عراق، حجاز، مصر ، شام اور متعدد شہروں کا سفر کیا۔

(تذکرۃ المحدثین، ص316)

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ:

علمِ حدیث نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نہایت اونچا مقام ہے، انہوں نے افاضل صحابہ اور اقابر تابعین سے احادیث کا سماع کیا، امامِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ علم حدیث میں مجتہدانہ بصیرت کے حامل تھے، اس لئے محض نقل و روایات پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے، بلکہ قرآن کریم کی نصوص صریحہ اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں روایات کی جانچ پڑتال کرتے تھے، آپنے زیادہ احادیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سماع کیں، حضرت انس رضی اللہ عنہ کی زندگی میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بارہا بصره گئے تھے، علم حدیث کے لیے۔

( تہذیب التہذیب، ج 1، ص378)


سب سے پہلے حدیث کے جمع کرنے میں صحابہ کرام علیھم الرضوان نے جو مشقتیں اٹھائی ۔اس میعار پر جب ان کی زندگیاں دیکھی جاتی ہیں تو ہر مسلمان بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور نظر آتا ہے کہ انکی تبلیغ و ہدایت محض اللہ عزوجل اور رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا کے لئے تھی اپنے نفس کو دخل دینے کے وہ بالکل روادار نہ تھے کسی کو حکم رسول سنانے میں نہ انہیں کوئی خوف محسوس ہوتا اور نہ کسی سے حدیث رسول سیکھنے میں کوئی عار محسوس ہوتی تھی ان معزز حضرات کے بعد یہ ذمہ داری تابعین اور تبع تابعین علیھم الرضوان نے بخوبی انجام دی اور انہی کے نقش قدم پر چلیں۔

دوسری طرف ایسی شخصیات کی بھی کمی نہ تھی جنہوں نے فقر و فاقہ کی زندگی بسر کی جانفشانیاں کیں، مصائب و آلام برداشت کئے لیکن اس انمول دولت کے حصول کے لئے ہر موقع پر خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا۔

امام ابو حاتم رازی:

آپ علل حدیث کے امام ہیں امام بخاری امام داؤد ، امام نسائی اور امام ابن ماجہ کے شیوخ سے ہیں ۔ طلب حدیث میں اس وقت سفر شروع کیا۔جب ابھی سبزہ کا آغاز نہیں ہوا تھا،مدتوں سفر میں رہتے اور جب گھر آتے تو پھر سفر شروع کر دیتے آپکے صاحبزادے بیان کرتے ہیں میرے والد فرماتے تھے سب سے پہلی مرتبہ علم حدیث کے حصول میں نکلا تو چند سال سفر میں رہا۔ پیدل تین ہزار میل چلا جب زیادہ مسافت ہوئی تو میں نے شمار کرنا چھوڑ دیا۔

امام ہیثم بن جمیل بغدادی:

آپ عظیم محدث ہیں علم حدیث کی طلب میں شب و روز سر گردان رہے مالی پریشانیوں سے بھی دو چار ہوئے ۔ افلس الھیشم بن جمیل فی طلب الحدیث مرتین علم حدیث کی طلب میں ھیثم بن جمیل دو مرتبہ افلاس کے شکار ہوئے سارا مال و متاع خرچ کر ڈالا۔

امام ربیعہ بن،ابی عبد الرحمٰن:

آپ عظیم محدث ہیں تابعی مدنی ہیں۔ اسی علم حدیث کی تلاش و جستجو میں ان کا حال یہ ہو گیا تھا کہ آخر میں گھر کی چھت کی کڑیاں تک بیچ ڈالیں اور اس حال سے بھی گزرنا پڑا کہ ”مزیلہ“ جہاں آبادی کی خس و خاشاک ڈالی جاتی ہے وہاں سے منقی یا کھجوروں کے ٹکرے چن کر بھی کھاتے۔

امام محمد بن اسمعیل بخاری :

عمر بن حفص بیان کرتے ہیں :بصرہ میں ہم امام بخاری کے ساتھ حدیث کی سماعت میں شریک تھے۔ چند دنوں کے بعد محسوس ہوا کہ بخاری کئی دن سے درس میں شریک نہیں ہوئے ، تلاش کرتے ہوئے انکی قیام گاہ پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک حدیث کی تحقیق کیلئے باقاعدہ سفر کیا۔

اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور انکے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال و افعال آپ کے شب و روز کے معاملات ہی مسلمانوں کے لے سر چشمہ ہدایت ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے ایک ایک ورق کو حفظ کیا صحابہ کرام نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے احادیث کو سینوں سے لیکر صحیفوں تک محفوظ کیا ۔ان کے بعد تابعین اور تابع تابعین نے حفظ کیا کتابت کے اس عمل کو جاری رکھا۔

علماء کرام نے احادیث کی تحصیل کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں ۔انہوں نے بار ہا صرف ایک حدیث کی خاطر سینکڑوں میل کا سفر کیا۔طلب حدیث میں کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی تھی یہاں تک کہ اگر وہ اپنے شاگرد سے بھی کوئی حدیث پاتے تو لے لیتے۔ ناقلین کو پرکھنے کے لئے "علم رجال" ایجاد کیا احادیث رسول کی حفاظت وکتابت کا سلسلہ عہد رسالت سے لے کراتباع تبع تابعین تک پورے تسلسل اور تواتر سے ہوتا رہااور ڈھائی سو سال کے اس طویل عرصے کے کسی وقفہ میں بھی اس کام کا انقطاع نہیں ہوا۔

حضور سید عالم کے مبارک زمانے میں متعدد صحابہ کرام علیہم الرضوان نے احادیث کو قلمبند کرنا شروع کر دیا تھا، اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص کو احادیث لکھنے کی عام اجازت تھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے بھی حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی الله عنہ کے احادیث لکھنے کا تذکرہ کیا ہے ۔فرماتے ہیں۔

" صحابہ میں مجھ سے کسی کے پاس حضور صلی الله علیہ وسلم کی احادیث محفوظ نہ تھی سوائے عبداللہ بن عمروبن عاص کے کیونکہ وہ احادیث لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا"

(صحیح بخاری، جلد 1 صفحہ نمبر 22)

ہمارے علمائے کرام نے احادیث کے لئے"اصول" وضع کیے جس سے جھوٹی احادیث کا فرق واضع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا ، ترجَمۂ کنزُالایمان:اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو ۔ (سورۃ الحجرات آیت 6)

اس آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہےکہ حدیث کو نقل کرنے میں دقت نظر اور دور اندیشی کے متعلق خبردار کیا گیا ہے چنانچہ ہمارے علماء کرام نے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کو بجا لاتے ہوئے احادیث کو قبول کرنے اور نقل کرنے میں تحقیق سے کام لیا۔خاص طور پر اس وقت جب ان کو نقل کرنے کی صداقت میں شک ہو۔

اللہ عزوجل سے دعا ہے ہمیں پکا سچا عاشق رسول بنا دے اور ہمارے علمائے کرام کے صدقے ہمیں سنتوں کا پیکر بنا دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ارشاد باری تعالیٰ ہے : لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجَمۂ کنزُالایمان:بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔ (سورة الاحزاب:۲۱)

1۔جمع حدیث میں صحابہ کا کردار :

مسلمانوں کے دین کا سرمایہ اور ان کی شریعت کی متاع کل حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نمونہ حیات ہے۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال و احوال اور آپ کے شب و روز کے معمولات ہی ان کے لے سرچشمہ ہدایت ہیں۔صحابہ کرام نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کتاب زندگی کے ایک ایک ورق کو حفظ کیا۔خلوت و جلوت ،سفر و حضر اور نجی حالات سے لے کرعام سیاسی معاملات تک حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی کا کوئی واقعہ نہیں ہےمگر اس کو انہوں نے محفوظ کر لیا۔وہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث کا تذکرہ کرتے۔

2۔جمع حدیث میں تابعین کا کردار:

صحابہ کرام کے بعد تابعین اور ان کے بعد اتباع کرنے والوں نے حفظ کیا اور کتابت کے اس عمل کو جاری رکھا۔یہاں تک کے دوسری صدی ہجری کے بعد حدیث کی باقاعدہ تدوین شروع ہوئی ۔ اور ابواب و کتب کی ترتیب سے حدیث کی کتابیں مدون ہوئیں ۔یوں ہمارے پاس حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جامع سیرت اوردین کی مکمل تصویر پہچنے کا اہتمام ہوا۔

(تذکرہ المحدثین،صفحہ ۲۳)

4جمع حدیث میں اکابر علماء کا کردار:

اکابر علماء ملت اور اسانید نے علم حدیث کی تحصیل کے لئے اپنی زندگیاں واقف کر دی تھیں ۔ انھوں نے بار ہا صرف ایک حدیث کی خاطر سینکڑوں میل کا سفر کیا۔طلب حدیث میں کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی تھی ۔وہ اپنے شاگردوں سے بھی احادیث روایت کر لیتے تھے ۔انہوں نے احادیث کو اپنے سینوں میں اور پھر نوشتوں میں محفوظ کیا،ناقلین حدیث کو پرکھنے کے لئے علم رجال ایجاد کیااور اس میدان میں حیرت انگز کارنامے انجام دیئے ۔(تذکرۃ ُ المحدثین صفحہ۲۳)

4۔فرمان مصطفی صلی الله عليه وسلم:

علم کی طلب جاری رکھو، اگرچہ چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔

اگرچہ اس حدیث کو محدثین نے انتہائی ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن اس حدیث کو ضعیف قرار دینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ سرے سے حدیث ہی نہیں ہے۔

بعض محدثین نے اس حدیث کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ یہاں چین سے مراد ملک چین نہیں ہے بلکہ اس سے مراد دوردراز کاخطہ ہے یعنی علم کے حصول کے لئے اگر تمہیں دور بھی جانا پڑے تو جاؤ۔ ( مسند امام اعظم ،سصفحہ 6)

ایک حدیث کی خاطر ایک ماہ کا سفر:

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں مجھے پتا چلا کہ نبی اکرم کی ایک حدیث فلاں صحابی سے پتہ چل سکتی ہے میں نے ایک اونٹ خریدا اس پر زاد راہ رکھا اور ایک ماہ تک سفر کرنے کے بعد شام پہنچا وہاں حضرت عبداللہ بن انیس انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے دروازے پر آیا اور اندر پیغام بھجوایا کہ انہیں بتا دیا جائے جابر آپ کے دروازے پر موجود ہے انہوں نے دروازے پر آکر پوچھا جابر بن عبد الله ؟

میں نے جواب دیا جی ہاں۔ انہوں نے باہر آ کر مجھے گلے لگایا میں نے انہیں بتایا کہ مجھے یہ پتہ چلا ہے ایک حدیث آپ نے نبی اکرم سے سنی ہے( اس کے بعد خاصی طویل روایت ہے)

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام علم حدیث کے حصول کے لیے کس قدر محنت اور مشقت برداشت کرتے تھے آج ہمارے زمانے میں جب کہ علم حدیث اور سیرت کے بارے میں شائع شدہ کتابیں موجود ہیں ہمیں اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ ہم ان کا مطالعہ کرنے کی زحمت کرلیں۔ (مسند امام اعظم صفحہ 60)

روایت حدیث کی تعداد:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد دور صحابہ کے تابعین میں صحابہ کی ضروریات کو دیکھ کر محفوظ کرنا شروع کیا۔ حضرت ابو ہریرہ(5374) احادیث مروی ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس سے( 1660) احادیث مروی ہیں۔

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے( 2286) احادیث مروی ہیں.

ام المومنین حضرت سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے( 2210) احادیث مروی ہیں.

حضرت عبداللہ عصر سے (1630) احادیث مروی ہیں.

حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے (1540) احادیث مروی ہیں۔

( تذکرۃ المحدثین، صفحہ نمبر 31تا 32)