اللہ پاک نے انسان کو جو شرف و فضیلت ومقام و مرتبہ  عطا فرمایا ہے وہ نعمتِ علم ہی کے سبب ہے اور یہ اتنی عظیم نعمت ہے کہ جو بھی اسے خلوصِ نیت کے ساتھ حاصل کرتا ہے وہ کبھی بھی محروم نہیں رہتا ۔ہمارے اسلاف نے حصولِ احادیث کے لئے اونٹ اور گھوڑوں کے ذریعے دور دراز شہروں کا سفر اختیار فرمایا اور طرح طرح کی مشقتیں برداشت کیں۔ گویا کہ ہمارے اسلاف کے زیر نظر یہ آیت قرآنی اور حدیث مبارکہ ہوگی جو حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے۔( شعب الایمان للبیھقی ،باب فی طلب العلم، الحدیث 1663،ج2 ص 253 دار الکتب العلمیہ 1421ھ)/(عاشقانِ حدیث کی حکایات ص 14 )

قرآن مجید میں اللہ پاک نے طلب علم (علمِ حدیث) کی خاطر سفر اختیار کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ ارشادِ باری ہے:

فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ ترجمہ کنز الایمان: تو کیوں نہ ہو ا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں ۔(پ 11 التوبہ:122)

تفسیر کبیر میں مذکورہ آیت کے تحت ہے کہ اگر اپنے وطن ہی میں علم حاصل کرنا ممکن ہو تو اس کے لئےسفر کرنا واجب نہیں ۔ہاں! آیت مبارکہ کے الفاظ طلب علم کیلئے سفر کرنے پر دلالت کرتے ہیں( کیونکہ) یقینی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ مبارک اور نفع مند علم سفر کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔( تفسیر کبیر، ابی حاتم ، سورہ توبہ، تحت الآیۃ 122 ج 6 ص المکتبۃ الحنفیۃ پاکستان181،عاشقانِ حدیث کی حکایات ص8)

تفسیر روح البیان میں ہے کہ یہ آیت مؤمنین کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وطن چھوڑ کر نفع مند علم کے حصول کیلئے سفر کریں۔ ( تفسیرروح البیان، سورہ توبہ، تحت الآیۃ 122 ج3 ص537 دار احیاء التراث 1420ھ)/ (عاشقانِ حدیث کی حکایات ص8)

حضرت موسٰی علیہ السلام نے حصول علم کی خاطر حضرت سیدنا خضر علیہ السلام کی جانب سفر اختیار فرمایا۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی طلب علم (علمِ حدیث)کے لئے سفر اختیار فرمایا ۔حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے صرف ایک حدیث کے حصول کے لئے مدینہ منورہ سے حضرت سید نا عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کی جانب مصر کا سفر اختیار فرمایا۔ (عاشقانِ حدیث کی حکایات ص7)حضرت سید نا عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے طلبِ علم کی خاطر یمن، مصر، شام، بصرہ اور کوفہ کی طرف سفرفرمایا ۔ (عاشقانِ حدیث کی حکایات19)امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے کہ حضرت سید نا معمر بن راشد رضی اللہ عنہ نے طلب حدیث کیلئے یمن کا سفر فرمایا اور آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس کام کیلئے سفر فرمایا۔ (تاریخ مدینۃ دمشق، الرقم 8584 معمر بن راشد ج59 ص409 دار الفکر بیروت 1415ھ،عاشقانِ حدیث کی حکایات ص19 )

آج کے اس پُر فتن دور میں لوگ دنیاوی تعلیم کے حصول کیلئے تو دور دراز ملکوں کا سفر اور مشقتیں برداشت کرنے کے لئے با آسانی آمادہ ہو جاتے ہیں مگر علم دین کے حصول کے لئے سفر تو دور کی بات ہے اپنے ہی محلے کی مسجد میں حصولِ علمِ دین کے لئے آمادہ نہیں ہوتے،حتٰی کہ لوگ علم دین سے اس قدر دور ہو گئے ہیں کہ فرائض و واجبات اور ضروریاتِ دین کے علم سے بھی نا واقف ہوتے جا رہے ہیں۔لہذا ہمیں چاہئے کہ اپنے اسلافِ کرام کی طرح علم دین کے حصول کیلئے خوب جدو جہد اور کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہو اس کے حصول کیلئے سفر اختیار کریں۔