ہمارے معاشرے
میں جو برائیاں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک بڑی برائی وعدہ خلافی بھی ہے، ہمارے
معاشرے میں وعدہ خلافی کا اظہار زندگی کے بہت سے شعبوں میں ہوتا ہے، خواہ وہ کاروباری
معاملات ہوں یا کوئی ادھار چیز لینی ہو، شادی وغیرہ کا معاملہ ہو یا پھر سیاسی
معاملات ہوں گویا کہ طرح طرح کے معاملات میں جھوٹا وعدہ کیا جاتا ہے اور پھر مقصد
پورا ہو جانے کے بعد اپنے اس کیے ہوئے جھوٹے وعدے کو بھول جاتے ہیں اور یوں لوگوں
کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وعدہ خلافی کی تعریف: وعدہ کرتے وقت ہی نیت یہ ہو کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ نہیں کروں گا یہ
وعدہ خلافی ہے۔
مثالیں: کسی
شخص سے مقررہ وقت پر آنے کا وعدہ کیا لیکن دل میں یہ نیت ہے کہ نہیں آؤں گا۔
وعدہ کیا کہ فلاں تاریخ کو
تمہیں رقم ادا کردوں گا لیکن دل میں ہے کہ نہیں کروں گا۔
وعدہ خلافی کے متعلق احکام: وعدہ خلافی یعنی پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا
ہے جو کہ حرام کام ہے، اس نیت سے وعدہ کیا کہ اس کو پورا کروں گا ایسا وعدہ کرنا
جائز ہے اور اس کو پورا کرنا مستحب ہے، جب وعدے کو کسی چیز کے حاصل ہونے یا حاصل
نہ ہونے کے ساتھ معلق کیا گیا ہو تو جب وہ شرط پائی جائے گی وعدہ پورا کرنا لازم ہوگا،
مثلا کسی سے کہا کہ یہ چیز فلاں شخص کو بیچ دو اگر اس نے قیمت ادا نہیں کی تو میں
ادا کروں گا پھر خریدار نے قیمت ادا نہیں کی تو اب اس پر قیمت ادا کرنا لازم
ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34)
آیت
مبارکہ:
اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: وَ اَوْفُوْا
بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔منافق کی 3
نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس
امانت رکھی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)
2۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے
اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا اور نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
وعدہ
خلافی کے اسباب و علاج: وعدہ خلافی کا سبب قلت خشیت ہے کہ جب اللہ کا خوف
ہی نہ ہو تو بندہ کوئی بھی گناہ کرنے سے باز نہیں آتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ
فکر آخرت کا ذہن بنائے، اپنے آپ کو رب کی بے نیازی سے ڈرائے اپنی موت کو یاد کرے،
یہ مدنی ذہن بنائے کہ کل بروز قیامت خدانخواستہ اس عذر یعنی بد عہدی کے سبب رب
ناراض ہو گیا تو میرا کیا بنے گا؟
وعدہ خلافی کا دوسرا سبب حبِّ دنیا ہے کہ بندہ کسی نہ کسی دنیوی غرض سے
بدعہدی جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ حب دنیا کی مذمت پر غور کرے کہ دنیا کی محبت کئی
برائیوں کی جڑ ہے جو شخص حب دنیا جیسے موذی مرض کا شکار ہو جاتا ہے اس کے لیے دیگر
کئی گناہوں کے دروازے کھل جاتے ہیں، یقینا سمجھدار وہی ہے جو جتنا دنیا میں رہنا
ہے اتنا ہی دنیا میں مشغولیت رکھے فقط اپنی اخروی زندگی کی تیاری کرتا رہے۔
وعدہ خلافی کا
تیسرا سبب دھوکا بھی ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دھوکے جیسے قبیح فعل کی مذمت پر
غور کرے کہ جو لوگ دھوکا دیتے ہیں ان کے بارے میں احادیث مبارکہ میں یہ وارد ہے کہ
وہ ہم میں سے نہیں، یقینا دھوکا دینا کسی مسلمان کی شان نہیں، جب لوگوں پر اس کی
دھوکا دہی کا پردہ چاک ہو جاتا ہے وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا، دھوکا
دہی سے کام لینے والا بالآخر ذلت و رسوائی سے دوچار ہوتا ہے، دھوکا دینے والا رب
کی بارگاہ میں بھی ندامت و شرمندگی سے دوچار ہوگا۔
وعدہ خلافی کی مذمت از بنت بشیر احمد، جامعۃ المدینہ صابری
کالونی اوکاڑہ پنچاب
وہ بات جسے
پورا کرنا انسان خود پر لازم کرے وعدہ کہلاتی ہے، وعدے کے لیے لفظ وعدہ کہنا ضروری
نہیں بلکہ ویسے ہی الفاظ سے اپنی بات کا پختہ ہونا ظاہر کیا یہ بھی وعدہ ہے۔
وعدہ
خلافی کی تعریف:
وعدہ کرتے وقت ہی یہ نیت ہو جو میں کہہ رہا ہوں نہیں کروں گا یہ وعدہ خلافی
ہے۔(شیطان کے بعض ہتھیار، ص 42) مثلا وعدہ کیا کہ فلاں تاریخ کو تمہیں رقم ادا
کردوں گا لیکن دل میں ہے کہ نہیں کروں گا تو یہ وعدہ خلافی ہے، اگرچہ اس تاریخ کو
رقم ادا ہی کیوں نہ کر دے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا
بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ
6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔
وعدہ
خلافی کا حکم:
پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا حرام کام ہے۔(ظاہری
گناہوں کے بارے میں معلومات، ص 34)
وعدہ خلافی کی
مذمت پر درج ذیل احادیث پیش خدمت ہیں:
1۔ اس شخص کا
کوئی دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔(معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)
2۔ وعدہ قرض کی
مثل ہے بلکہ اس سے بھی سخت ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 457)
3۔ وعدہ کرنا عطیہ ہے۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 456) یعنی جس
طرح عطیہ دے کر واپس لینا مناسب نہیں اس طرح وعدہ کر کے بھی اس کا خلاف نہیں کرنا
چاہیے۔ (احیاء العلوم، 3/403) بے شک زبان وعدہ کرنے میں بہت سبقت کرتی ہے پھر نفس
اس کو پورا نہیں کرتا یوں وعدہ خلافی ہو جاتی ہے۔
4۔ منافق کی 3
نشانیاں ہیں: جب بات کرے جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے خلاف کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی
جائے خلاف کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)
5۔ جب کوئی
شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت پورا کرنے کی ہو پھر پورا نہ کر سکے
وعدے پر نہ آ سکے تو اس پر گناہ نہیں۔ (ابو داود، 4/388، حدیث: 4995) مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں
فرماتے ہیں: جائز وعدہ پورا کرنا عام علما کے نزدیک مستحب ہے، وعدہ خلافی مکروہ،
بعض علما کے نزدیک ایفائے عہد واجب ہے اور وعدہ خلافی حرام ہے، اگر وعدہ کرنے والا
پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو
وہ گنہگار نہیں، یوں ہی اگر کسی کی نیت وعدہ خلافی کی ہو مگر اتفاقا پورا کر دے تو
گنہگار ہے اس بدنیتی کی وجہ سے ہر وعدہ میں نیت کو بڑا دخل ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،
6/ 492)
حضرت ابراہیم
رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص کسی سے مقررہ مدت پر آنے کا وعدہ کرے پھر
نہ آئے تو اس کا کتنی دیر انتظار کرنا چاہیے ارشاد فرمایا: وہ آئندہ نماز کا وقت
داخل ہونے تک انتظار کرے۔
22
دن تک انتظار: اللہ
پاک نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے سورۂ مریم میں ارشاد فرمایا:
اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ
الْوَعْدِ (مریم:
54) ترجمہ کنز العرفان: بے شک وہ وعدے کا سچا تھا۔ منقول ہے کہ حضرت اسماعیل نے
کسی شخص سے ایک جگہ آنے کا وعدہ فرمایا تو وہ نہیں آیا، آپ 22 دن تک اسی جگہ اس
کے انتظار میں کھڑے رہے۔ (احیاء العلوم، 3/403)
نبی کریم ﷺ کی وعدہ وفائی: حضرت عبد اللہ بن ابو الحمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعثت سے پہلے
میں نے نبی کریم ﷺ سے کوئی چیز خریدی تھی اس کی کچھ قیمت میری طرف باقی رہ گئی،
میں نے وعدہ کیا اسی جگہ لاکر دیتا ہوں، میں بھول گیا اور 3 دن کے بعد یاد آیا
میں گیا تو آپ اسی جگہ موجود تھے، ارشاد فرمایا: اے نوجوان تونے مجھے تکلیف دی
ہے، میں 3 دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (ابو داود، 4/388، حدیث: 4996)
فخر الدین
رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عہد شکنی اور وعدہ خلافی سے نفاق پیدا ہو جاتا ہے
تو مسلمان پر لازم ہے کہ ان باتوں سے احتراز کرے اور عہد پورا کرنے اور وعدہ وفا
کرنے میں پوری کوشش کرے۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، 6/108-109) وعدے کو معمولی مت
سمجھیے، وعدہ پورا کرنے سے بندے کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوتا ہے، لوگ اس کی بات
پر اعتماد کرتے ہیں، وعدے کی خلاف ورزی بندے کو دوسروں کی نظروں میں گرا دیتی ہے۔
معاہدہ کرنے
کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بد عہدی کہلاتا ہے، کسی سے وعدہ کر کے اس کی
خلاف ورزی کرنا وعدہ خلافی کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 170)
وعدہ
خلافی کے متعلق آیات و احادیث مبارکہ:
1۔ حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: منافق کی تین علامتیں
ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس
امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)
2۔ وَ بِعَهْدِ اللّٰهِ
اَوْفُوْاؕ-ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَۙ(۱۵۲) (الانعام:
152) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ ہی کا عہد پورا کرو یہ تمہیں تاکید فرمائی کہ
کہیں تم نصیحت مانو۔
3۔ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا
تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ
عَلَیْكُمْ كَفِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(۹۱)
(النحل: 91) ترجمہ: اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد
باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جب کہ تم اللہ کو اپنے
اوپر گواہ بنا چکے ہو اللہ تمہارے سب اعمال سے با خبر ہے۔
4۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز
العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔
وعدہ
پورا کرنے کی اہمیت: ایفائے عہد بندے کی عزت و وقار میں اضافے کا سبب
ہے جبکہ قول و اقرار سے روگردانی اور عہد کی خلاف ورزی بندے کو دوسروں کی نظروں
میں گرا دیتی ہے، نبی صادق و امین ﷺ کا ارشاد ہے: اس شخص کا کچھ دین نہیں جو وعدہ
پورا نہیں کرتا۔(معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)
غوث
پاک اور ایفائے عہد: غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: ایک سفر میں کوئی شخص میرا رفیق بنا، ایک بار اس نے مجھے ایک جگہ
بٹھایا اور اپنے انتظار کا وعدہ لے کر چلا گیا، میں ایک سال تک وہاں بیٹھا رہا پھر
وہ لوٹا اور یہی وعدہ لے کر چلا گیا، ایسا تین بار ہوا آخری بار وہ آیا اور کہا:
میں خضر ہوں۔ (اخبار الاخیار، ص 12)
وعدہ
خلافی حرام ہے:
بد عہدی یعنی وعدہ پورا نہ کرنے کی نیت سے فقط ٹالنے کے لیے جھوٹا وعدہ کرنا نا
جائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ حدیث شریف میں ہے: جو کسی مسلمان
سے عہد شکنی کرے اس پر اللہ فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی
فرض قبول نہ ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 2/370،
حدیث: 3179)
بد
عہدی کے اسباب:
بدعہدی کے چار اسباب ہیں: قلتِ خشیت، حب دنیا، دھوکا اور جہالت۔
بد
عہدی کے نقصانات: بدعہدی
یعنی وعدہ خلافی کرنے والے شخص پر بھروسا نہیں کیا جاتا، بد عہدی کرنے والے کو ذلت
و رسوائی سہنی پڑتی ہے، بد عہدی کرنے والے شخص سے لوگ بات کرنا بھی پسند نہیں
کرتے، بد عہدی کرنے والے کے لیے دنیا و آخرت میں سخت عذاب ہے۔
ایک دوسرے کی
مدد کے بغیر دنیا میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے اس معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کے
لیے قدم قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے، اس یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ ہے،
مستحکم تعلقات، لین دین میں آسانی معاشرے میں امن اور باہمی اعتماد کی فضا قائم
ہونا وعدہ پورا کرنے سے ممکن ہے اسی لیے اسلام نے ایفائے عہد پر زور دیا ہے۔ اللہ
پاک کا فرمان ہے: وَ
اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔ یہاں
وعدے کی پاسداری کا حکم ہے اور پورا نہ کرنے پر باز پرس کی خبر دے کر وعدے کی
اہمیت کو مزید بڑھایا گیا ہے۔
وعدہ
کی تعریف:
ایفاء کے معنی ہیں پورا کرنا، مکمل کرنا، عہد ایسے قول اور معاملے کو کہا جاتا ہے
جو کہ طے ہو یعنی ایفائے عہد وعدہ پورا کرنا اپنے قول کو نبھانا اس پر قائم رہنا
ہے۔
وعدہ
خلافی:
معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا بدعہدی کہلاتا ہے، وعدہ خلافی اور عہد
شکنی حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے، اپنے عہد اور وعدہ کو پورا کرنا مسلمان پر شرعا
واجب و لازم ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے
اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
2۔ جب اولین و
آخرین کو اللہ قیامت کے دن جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا
بلند کیا جائے کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔(مسلم، ص 739، حدیث: 1735)
3۔ چار خصلتیں جس میں ہوں گی وہ پکا منافق ہے: بات کرے تو جھوٹ بولے، امانت
رکھوائی جائے تو خیانت کرے، جب وعدہ کرے تو دھوکا دہی سے کام لے، جب جھگڑے تو گالی
بکے۔(بخاری، 1/25، حدیث: 34)
4۔ اس شخص کا
کوئی دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔ (معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)
وعدہ
خلافی کے نقصانات:
بد عہدی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، وعدہ کو پورا کرنا بندے کی عزت و
وقار میں اضافہ کرتا ہے جبکہ قول و قرار سے روگردانی اور عہد کی خلاف ورزی بندے کو
لوگوں کی نظروں سے گرا دیتی ہے، وعدہ خلافی کرنے والا بہت نقصان اٹھاتا ہے، لوگوں
کی نظروں میں وعدہ خلافی کرنے والے کی کوئی اہمیت نہیں رہتی، بد عہدی ذلت و رسوائی
کا سبب بنتی ہے، بدعہدی کرنے والا دوسروں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے اور
لوگ آئندہ اس پر اعتماد کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
وعدہ خلافی کی مذمت از بنت اصغر علی باجوہ، جامعۃ المدینہ یزمان ضلع
بہاولپور
ہمارے معاشرے
میں جو قباحتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک بڑی قباحت وعدہ خلافی یا کسی سے کیے
ہوئے معاہدے کو جانتے بوجھتے پورا نہ کرنا بھی ہے جو کہ وعدہ خلافی کرنا کہلاتا
ہے۔ ہمارے معاشرے میں وعدہ خلافی کا اظہار زندگی کے بہت سے شعبوں میں ہوتا ہے،
قرآن و سنت میں وعدے کے حوالے سے بہت سی خوبصورت باتیں بیان کی گئی ہیں، سورۂ
بنی اسرائیل کی آیت نمبر 34 میں ارشاد ہوا: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ
مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) ترجمہ کنز
الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔ ایک مسلمان جب کلمہ طیبہ
پڑھ لیتا ہے تو وہ اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ عہد کرتا ہے کہ وہ اپنی
زندگی اللہ پاک کے احکامات کی روشنی میں سنت نبوی کی پیروی میں گزارے گا، قرآن
مجید میں وعدے کی پابندی پر بہت زور دیا گیا ہے، عہد پورا کرنا ایمان والوں کی اہم
صفت ہے اور وعدہ خلافی کو منافق کی نشانی قرار دیاگیا ہے اور جو شخص اپنے وعدوں کا
خیال نہیں رکھتا نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق وہ دین سے محروم ہو جاتا ہے۔
فرامین
مصطفیٰ:
1۔ جو شخص
وعدے کی پابندی نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔(معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)
اللہ پاک نے
اہلِ ایمان کو عہد توڑنے سے منع فرمایا ہے، اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو
پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور عہد شکنی کی مذمت کی گئی ہے۔
قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے وعدے
کو پورا کرتے ہیں اور اپنے وعدے کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، خود اللہ کریم نے اپنی
اس صفت کا بار بار ذکر فرمایا ہے، ترجمہ: اللہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات کے ذریعے بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ
خلافی کی برائی بیان فرمائی ہے۔
2۔ جس میں 3
باتیں پائی جاتی ہوں وہ منافق ہے: جو بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ
خلافی کرے، اگر اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)
نفاق کفر کی ایک قسم ہے اور وعدہ خلافی کو آپ نے
نفاق قرار دیا ہے، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وعدہ خلافی کس قدر مذموم ہے۔
3۔ حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی: آپ قرض سے بہت زیادہ پناہ مانگتے ہیں؟ اس
پر آپ نے فرمایا: جب کوئی مقروض ہو تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ خلاف ہو جاتا
ہے۔(بخاری، 2/108، حدیث: 2397)
4۔ نبی اکرم ﷺ
نے فرمایا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے: 3 قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا قیامت کو میں
خود مدعی بنوں گا: ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور پھر وعدہ خلافی
کی، دوسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ شخص
جس نے کسی کو مزدور رکھا پھر کام تو اس سے پورا لیا لیکن اس کی مزدوری نہ
دی۔(بخاری)
وعدہ خلافی کی مذمت از بنت حاجی منظور حسین، جامعۃ المدینہ یزمان ضلع
بہاولپور
وعدہ خلافی
نہایت ہی برا فعل ہے اور اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے، وعدہ خلافی کرنے والے انسان
سے اعتبار اٹھ جاتا ہے، وعدہ خلافی ایک ایسا فعل ہے جس سے انسان کو معاشرے میں
شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔
آیت
مبارکہ: وَ اَوْفُوْا
بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ منافق کی 3
نشانیاں ہیں: جب بات کرے جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت
رکھی جائے خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)
2۔ جب کوئی
شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت پورا کرنے کی ہو پھر پورا نہ کر سکے،
وعدہ پر نہ آ سکے تو اس پر گناہ نہیں۔ (ابو داود، 4/388، حدیث: 4995)
3۔ اس شخص کا
کوئی دین نہیں جو وعدہ پورا نہ کرے۔ (معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)
وعدہ
خلافی کے اسباب:
مال کی محبت کہ بعض اوقات کسی کے پیسے دینے ہوتے ہیں اور پیچھا چھڑانے کے لیے وعدہ
کر لیا جاتا ہے کہ فلاں دن کو دوں گا مگر دل میں اسے نہ دینے کا ارادہ ہوتا ہے،
سستی اور آرام طلبی کہ ایسا شخص کسی سے پیچھا چھڑانے کے لیے محض زبان سے وعدہ کر
تو لیتا ہے لیکن دل میں ہوتا ہے کہ وعدہ پورا نہیں کروں گا، خود غرضی، کسی سے اپنا
مطلب نکالنے کے لیے کہہ دیا کہ پہلے تم میرا کام کر دو پھر میں تمہارا کام کروں گا
اور دل میں یہ نیت ہو کہ نہیں کروں گا۔
وعدہ
خلافی کے احکام:
وعدہ خلافی یعنی پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا اور
حرام کام ہے، اس نیت سے وعدہ کیا کہ اس کو پورا کروں گا تو ایسا وعدہ کرنا جائز ہے
اور اس کو پورا کرنا مستحب ہے، جب وعدے کو کسی چیز کے حاصل ہونے یا حاصل نہ ہونے
کے ساتھ معلق کیا گیا ہو تو جب وہ شرط پائی جائے گی وعدہ پورا کرنا لازم ہوگا،
مثلا کسی سے کہا کہ یہ چیز فلاں کو بیچ دو اگر اس نے قیمت ادا نہ کی تو میں ادا
کروں گا پھر خریدار نے قیمت ادا نہیں کی تو اب اس پر قیمت ادا کرنا لازم ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34)
وہ بات جسے
کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کرے وعدہ کہلاتا ہے۔ (معجم وسیط، 2/1007) حکیم
الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے،
مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے، عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد
6)
وعدہ خلافی: معاہدہ کرنے کے
بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بد عہدی کہلاتا ہے اسے ہی وعدہ خلافی کہتے ہیں۔
(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 170) وعدہ خلافی عملی جھوٹ میں شمار ہوتا ہے، اسلام
نے بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا اور عہد شکنی کی مذمت کی ہے، چنانچہ
قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ
مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
ایک اور مقام پر فرمانِ باری ہے: ترجمہ کنز الایمان: بے شک سب جانوروں میں
بد تر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور ایمان نہیں لاتے وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا پھر ہر بار اپنا عہد توڑ
دیتے ہیں اور ڈرتے نہیں۔
حکم: عہد کی
پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور بد عہدی حرام اور جہنم میں لے جانے والا
کام ہے۔ حدیث مبارکہ میں بھی وعدہ خلافی کی مذمت بیان کی گئی ہے:
احادیث
مبارکہ:
1۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت اور
اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
2۔ منافق کی
نشانیوں میں سے ایک نشانی وعدہ خلافی بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا: منافق کی تین
علامتیں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے
پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)لہٰذا ہمیں ہر
صورت میں اپنے وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے بشرطیکہ یہ وعدے کتاب و سنت
کے خلاف نہ ہوں، رسول اللہ ﷺ بھی جب کسی سے وعدہ فرماتے تو اسے پورا فرماتے تھے
اور خود اللہ پاک نے اپنی اس صفت کا بارہا ذکر فرمایا ہے کہ اللہ وعدہ خلافی نہیں
کرتا اور قرآن کریم میں کامیاب مؤمنین کی فہرست میں اپنے وعدہ کا پاس و لحاظ رکھنے
والوں کو بھی شمار کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ
رٰعُوْنَۙ(۸)
(پ 18، المؤمنون: 8) ترجمہ: اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری
کرنے والے ہیں۔ ایفائے وعدہ اہل ایمان کی شناخت ہے، مؤمنین صادقین اور اللہ کے
مخلص بندوں کی امتیازی خصوصیات میں ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے وعدے کو پورا کرنے
والے ہیں، پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا
کرتے ہیں۔ (مسند ابی یعلی، 1/451، حدیث: 1047) احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی
ہے کہ ہمیں ہر صورت میں اپنے وعدے پورے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اس حوالے سے کی
جانے والی جد و جہد ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی کا سبب بن سکتی ہے اور اس سلسلے
میں کی جانے والی کوتاہی کے نتیجے میں ہمیں دنیا و آخرت میں نقصانات کا سامنا
کرنا پڑ سکتا ہے۔ اللہ پاک اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے ہمیں وعدہ پورا کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وہ بات جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے وعدہ کہلاتا ہے۔ وعدہ
خلافی اور عہد شکنی حرام اور گناہ کبیرہ ہے، کیونکہ اپنے وعدے کو پورا کرنا مسلمان
پر شرعا واجب و لازم ہے، وعدے کا پورا کرنا ضروری ہے، مسلمان سے وعدہ کیا ہو یا
کافر سے، عزیز سے یا غیر سے، استاد شیخ یا نبی سے وعدہ پورا کرنا چاہیے، وعدہ پورا
کرنا عزت و وقار میں اضافے کا سبب ہے جبکہ قول و قرار کی خلاف ورزی بندے کو دوسرے
کی نظر میں گرا دیتی ہے۔
حضور ﷺ نے
حالتِ جنگ میں بھی وعدہ پورا فرمایا، چنانچہ غزوۂ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی
افرادی قوت کم اور کفار کا لشکر تین گنا سے بھی زیادہ تھا، حضرت حذیفہ اور حضرت
سہیل رضی اللہ عنہما دونوں صحابہ کہیں سے آ رہے تھے کہ راستے میں کفار نے دھر لیا
اور کہا: تم محمد ﷺ کے پاس جا رہے ہو؟ جب ان دونوں حضرات نے شریکِ جنگ نہ ہونے کا
عہد کیا تب کفار نے انہیں چھوڑا، آپ ﷺ نے سارا ماجرا سن کر دونوں کو الگ کر دیا
اور فرمایا: ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے ہمیں صرف اللہ کی مدد درکار ہے۔
قرآن مجید
اور احادیث مبارکہ میں وعدہ خلافی کی بہت مذمت کی گئی ہے، آئیے احادیث مبارکہ سے
وعدہ خلافی کے متعلق وعیدیں ملاحظہ کرتے ہیں:
1۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسان کی لعنت ہے اور
اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
2۔ چار باتیں
جس شخص میں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو
وعدہ خلافی کرے، جب کوئی معاہدہ کرے تو عہد شکنی کرے اور جب جھگڑے تو گالی
بکے۔(بخاری، حدیث: 3178)
3۔ لوگ اس وقت
تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔ (ابو داود،
4/166، حدیث: 4347)
4۔ جب اولین و
آخرین کو اللہ پاک جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا
جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ (مسلم، ص 739، حدیث: 1735)
5۔ ہر عہد
شکنی کرنے والے کی سرین کے پاس قیامت میں اس کی عہد شکنی کا ایک جھنڈا ہوگا۔ (مسلم،
ص 740، حدیث: 1738)
6۔ جو قوم بد
عہدی کرتی ہے اللہ پاک ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کر دیتا ہے۔ (قرۃ العیون، ص
392)
اللہ پاک ہمیں
اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنے آقا ﷺ کی مبارک سنت
پر عمل کرتے ہوئے اپنے جائز وعدے پورے کرنے والے بن جائیں۔
ایک دوسرے کی مدد کے بغیر دنیا میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے اس معاونت میں
مضبوطی پیدا کرنے کے لیے قدم قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے، اس یقین دہانی
کا ایک ذریعہ وعدہ ہے، مستحکم تعلقات، لین دین میں آسانی معاشرے میں امن اور
باہمی اعتماد کی فضا قائم ہونا وعدہ پورا کرنے سے ممکن ہے اسی لیے اسلام نے ایفائے
عہد پر زور دیا ہے۔ قرآن و احادیث میں بکثرت یہ حکم ملتا ہے کہ وعدہ کرو تو پورا
کرو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ
مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
تعریف:
معاہدہ
کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بدعہدی کہلاتا ہے، مطلقا وعدہ وہ بات
ہے جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے وعدہ کہلاتا ہے۔ وعدہ کے لیے لفظ
وعدہ کہنا ضروری نہیں بلکہ انداز و الفاظ سے اپنی بات کی تاکید ظاہر کی مثلا وعدے
کے طور پر طے کیا کہ فلاں کام کروں گا یا فلاں کام نہیں کروں گا وعدہ ہو جائے گا
یقینا دھوکا دینا کسی مسلمان کی شان نہیں، دھوکا دہی کا پردہ چاک ہو جاتا ہے، بد
عہدی نہایت ہی ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔
حکم: عہد کی پاسداری
کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور غدر یعنی بد عہدی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے
والا کام ہے، ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے کیونکہ مسلمان کی شان نہیں ہے بد
عہدی یعنی کسی کو دھوکا دینا وغیرہ۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے
اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
2۔ حضرت
میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے ایک دن غمگین سویرا کیا اور
فرمایا کہ جبرائیل نے مجھ سے آج رات ملنے کا وعدہ کیا مگر مجھے ملے نہیں واللہ
انہوں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی پھر آپ کے خیال میں ایک کتے کا بچہ آیا جو آپ
کے تخت کے نیچے تھا، حکم دیا وہ نکال دیا گیا پھر اپنے ہاتھ شریف میں پانی لیا اسے
اس جگہ چھڑک دیا جب شام ہوئی تو حضرت جبرائیل آپ کو ملے تو فرمایا کہ تم نے مجھ
سے آج رات ملنے کا وعدہ کیا تھا وہ بولے ہاں لیکن ہم اس گھر میں نہیں جاتے جہاں
کتا ہو، نہ وہاں جہاں تصویر ہو اس دن رسول اللہ ﷺ نے صبح اٹھ کر کتو ں کے قتل کا
حکم دیا، حتی کہ حضور چھوٹے باغ کے کتے کے قتل کا حکم دیتے تھے بڑے باغ کے کتے کو
چھوڑ دیتے تھے۔ (مسلم)
معاشرتی
نقصانات: وعدہ
خلافی کرنے والے پر سے بھروسا اٹھ جاتا ہے، وہ معاشرے میں یقین اور اعتماد کے قابل
نہیں رہتا، بد عہدی نہایت ہی ذلت و رسوائی کا سبب ہے، بد عہدی کرنے والے شخص کے
لیے کل بروز قیامت اس کی بد عہدی کے مطابق جھنڈا گاڑا جائے گا، وعدہ خلافی کرنا
ایک طرح سے اپنے مسلمان بھائی سے دھوکا کرنا ہے اور جو دھوکا دیتا ہے اس کے بارے
میں احادیث مبارکہ میں یہ وارد ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں یقینا دھوکا دینا مسلمان
کی شان نہیں، دھوکا دہی کرنے والے یا اس سے کام لینے والے بالآخر ذلت سے دوچار
ہوتا ہے جب لوگوں پر اس کی دھوکا دہی کا پردہ چاک ہو جاتا ہے تو وہ کسی کو منہ
دکھانے کے لائق نہیں رہتا۔
معاہدہ کرنے
کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بدعہدی کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی
معلومات، ص 170) بے شک زبان وعدہ کرنے میں بہت زیادہ سبقت کرتی ہے پھر بعض اوقات
نفس اس کو پورا نہیں کرتا تو یوں وعدہ خلافی ہو جاتی ہے اور یہ نفاق کی علامات میں
سے ہے۔ (احیاء العلوم، 3/487) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا
بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ
6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔
احادیث
مبارکہ:
1۔جس طرح عطیہ
دے کر واپس لینا مناسب نہیں ہے اسی طرح وعدہ کر کے بھی اس کا خلاف نہیں کرنا
چاہیے۔ (احیاء العلوم، 3/403)
2۔ وعدہ قرض
کی مثل ہے بلکہ اس سے بھی سخت تر ہے۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 457)
منقول ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کسی
شخص سے ایک جگہ کا وعدہ فرمایا تو وہ شخص وہاں نہیں آیا بلکہ بھول گیا تو آپ 22
دن تک اس جگہ پر اس کے انتظار میں ٹھہرے رہے۔(احیاء
العلوم، 3/403)
قرآن کریم
میں ایک اور جگہ وعدے کے متعلق ارشاد فرمایا گیا: اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ
الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ(۵۵) اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ
مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا
یَتَّقُوْنَ(۵۶) (پ
10، الانفال: 55-56) ترجمہ کنز الایمان: بے شک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک
وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور ایمان نہیں لاتے وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر
ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے ہیں اور ڈرتے نہیں۔
3۔ تین عادتیں
ایسی ہیں کہ جس شخص میں ہوں وہ منافق ہے اگرچہ روزہ رکھے نماز پڑھے اور یہ گمان
کرے کہ وہ مسلمان ہے: بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، امانت
رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔ (احیاء العلوم، 3/489)حدیث مبارک میں وعدہ خلافی کا
مصداق وہ شخص ہے جس کا عزم یہ ہو کہ وہ وعدہ پورا نہیں کرے گا یا وہ جو بغیر کسی
عذر کے وعدہ پورا نہ کرے، رہا وہ شخص جس کا وعدہ پورا کرنے کا عزم ہو پھر اسے کوئی
ایسا عذر پیش آ جائے جو اسے وعدہ پورا کرنے سے روک دے تو وہ منافق نہیں ہوگا
اگرچہ یہ بھی صورتا نفاق ہے جس سے ایسے ہی بچنا چاہیے جیسے حقیقی نفاق سے بچا جاتا
ہے اور معقول عذر کے بغیر خود کو معذور نہیں سمجھنا چاہیے۔
وعدہ
خلافی کا حکم:
وعدہ خلافی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
بے شک زبان
وعدہ کرنے میں بہت زیادہ سبقت کرتی ہے پھر بعض اوقات نفس اس کو پورا نہیں کرتا تو
یوں وعدہ خلافی ہو جاتی ہے، وعدے کو معمولی مت جانیے، اسلام اور معاشرے میں اس کی
اہمیت کو سمجھیے کہ وعدہ پورا کرنا اسلام میں بھی پسندیدہ عمل ہے مسلمان دنیا کی
محبت کی خاطر وعدہ خلافی کر دیتے ہیں حالانکہ حقیقی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی تو
آخرت ہے، آخرت کو کثرت سے یاد کریں تاکہ دنیا اور اس کے ساز و سامان کی محبت دل
سے نکلے۔
وعدہ
خلافی کی تعریف:
وعدہ کرتے وقت ہی نیت یہ ہو کہ جو کہہ رہا ہوں وہ نہیں کروں گا تو یہ وعدہ خلافی
ہے، معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا بد عہدی کہلاتا ہے۔
آیات
مبارکہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا
بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ
6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔
حضرت ابن عباس
رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ بالعقود سے مراد اللہ کی حرام، حلال اور فرض
کردہ اشیاء اور ان میں کی گئی حد بندیاں ہیں۔ اسی وجہ سے امام ضحاک نے فرمایا: یہ
وہ چیزیں ہیں جنہیں نبھانے کا اللہ نے وعدہ لیا ہے کہ وہ اس کے حلال، حرام اور فرض
امور جیسے نماز وغیرہ ادا کریں گے۔
وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ
مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ
الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ(۵۵) اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ
عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ(۵۶) (پ 10، الانفال: 55-56) ترجمہ کنز
الایمان: بے شک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور
ایمان نہیں لاتے وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے ہیں
اور ڈرتے نہیں۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت اور
اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
2۔ وعدہ قرض کی مثل ہے بلکہ اس سے بھی سخت تر ہے، (موسوعۃ ابن
ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 457) اللہ پاک نے
اپنی کتاب عزیز میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ
الْوَعْدِ
(مریم: 54) ترجمہ کنز العرفان: بے شک وہ وعدے کا سچا تھا۔
3۔ تین عادتیں
ایسی ہیں کہ جس شخص میں ہوں وہ منافق ہے اگرچہ روزہ رکھے، نماز پڑھے اور یہ گمان
کرے کہ وہ مسلمان ہے: بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، امانت
رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، 1/237، حدیث: 257)
حدیث
کا مصداق:
حدیث میں وعدہ خلافی کا مصداق وہ شخص ہے جس کا عزم یہ ہو کہ وہ وعدہ پورا نہیں کرے
گا یا وہ جو بغیر کسی عذر کے وعدہ پورا نہ کرے، رہا وہ شخص جس کا وعدہ پورا کرنے
کا عزم ہو پر اسے ایسا کوئی عذر آجائے جو اسے وعدہ پورا کرنے سے روک دے تو وہ
منافق نہیں ہوگا۔
بد
عہدی کا حکم:
عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور غدر یعنی بد عہدی کرنا حرام اور
جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
وعدہ
خلافی کے نقصانات:
وعدہ خلافی کی بہت سی وعیدیں اوپر احادیث اور آیات مبارکہ میں بیان کی گئی ہیں،
جیسا کہ آیت مبارکہ میں بھی بیان کیا گیا کہ جو شخص وعدہ خلافی کرتا ہے یعنی وعدہ
کرنے کے بعد اسے توڑ دیتا ہے تو وہ شخص سب جانوروں سے بد تر ہے اور یہ ظاہر و باطن
مرض (وعدہ خلافی) ہمارے معاشرے میں بھی بہت پھیلا ہوا ہے اور اخروی نقصانات کے
ساتھ ساتھ اس کے دنیوی بھی بہت نقصانات ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں: لوگ وعدہ خلافی
کرنے والے شخص کی بات پر اعتماد نہیں کرتے، جو شخص وعدہ خلافی کرتا ہے لوگوں میں
اپنی عزت و وقار کھو بیٹھتا ہے، وعدہ خلافی کرنے والے شخص کے مال میں برکت زائل
ہوتی چلی جاتی ہے۔
وعدہ خلافی کے
گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب ہیں جس وجہ سے انسان وعدہ خلافی کرتا ہے: مال سے
محبت کی وجہ سے انسان وعدہ خلافی کرتا ہے اور یہ دنیوی نفع ہے جو کہ محض بیوقوفی
ہے، حب دنیا یعنی دنیا سے محبت کی وجہ سے بھی انسان بد عہدی کرتا ہے یعنی بندہ کسی
نہ کسی دنیوی غرض کی خاطر بد عہدی جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، وعدہ
خلافی کا ایک سبب جہالت بھی ہے کہ جب بندہ غدر جیسی موذی بیماری کے وبال سے ہی
واقف نہ ہوگا تو اس سے بچے گا کیسے؟
درس: ہر
انسان کو چاہیے کہ آخرت کو کثرت سے یاد کرے تاکہ دنیا اور اس کے ساز و سامان کی
محبت دل سے نکلے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا ذہن بنے، نیک اور متقی پرہیزگار
لوگوں کی صحبت اختیار کیجیے جن کے پاس بیٹھنے سے اخلاق اچھے ہوں اور آخرت کی
تیاری کرنے کا ذہن بنے، کیونکہ دنیا کی محبت کئی برائیوں کی جڑ ہے جو شخص دنیا کی
محبت جیسے موذی مرض کا شکار ہو جاتا ہے اس کے لیے دیگر کئی گناہوں کے دروازے کھل
جاتے ہیں، یقینا سمجھدار وہی ہے جو جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنا ہی دنیا میں
مشغولیت رکھے اور فقط اپنی اخروی زندگی کی تیاری کرتا رہے۔
ارشاد باری
تعالیٰ ہے: وَ اَوْفُوْا
بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔ یہاں
وعدے کی پاسداری کا حکم ہے اور پورا نہ کرنے پر باز پرس کی خبر دے کر وعدے کی
اہمیت کو مزید بڑھایا گیا ہے۔
فرمان مصطفیٰ:
تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں۔ (مسند ابی یعلی، 1/451، حدیث:
1047) عہد جو اللہ اور اس کے بندے کے
درمیان ہے اور وہ بھی جو انسان آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں دونوں قسم کے عہد
کا پورا کرنا ضروری ہے۔
وعدے
کی تعریف اور اس کا حکم: وہ بات جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے
وعدہ کہلاتا ہے۔ (معجم وسیط، 2/1007) حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے عزیز سے
وعدہ کرو یا غیر سے استاد شیخ نبی اللہ پاک سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو اگر
وعدے کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا
نہ کر سکے تو وہ گنہگار نہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، 6/483،492 ملتقطا)
حضور ﷺ نے
حالتِ جنگ میں بھی وعدہ پورا فرمایا، چنانچہ غزوۂ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی
افرادی قوت کم اور کفار کا لشکر تین گنا سے بھی زیادہ تھا، حضرت حذیفہ اور حضرت
سہیل رضی اللہ عنہما دونوں صحابہ کہیں سے آ رہے تھے کہ راستے میں کفار نے دھر لیا
اور کہا: تم محمد ﷺ کے پاس جا رہے ہو؟ جب ان دونوں حضرات نے شریکِ جنگ نہ ہونے کا
عہد کیا تب کفار نے انہیں چھوڑا، آپ نے سارا ماجرا سن کر دونوں کو الگ کر دیا اور
فرمایا: ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے ہمیں صرف اللہ کی مدد درکار
ہے۔(مسلم، ص 763، حدیث: 4639)
رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا کہ وعدہ بھی ایک طرح کا قرض ہے لہٰذا اس کو ادا کرنا چاہیے۔
قرآن کریم
میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا
لَا تَفْعَلُوْنَ(۲) كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا
تَفْعَلُوْنَ(۳)
(پ 28، الحشر: 2-3) ترجمہ: اے ایمان والو! ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں
ہو اللہ کے نزدیک بہت ناراضگی کی بات ہے کہ وہ بات کہو جو کرو نہیں۔
حضرت انس رضی
اللہ عنہ کی ایک روایت ہے جس سے وعدہ پورا کرنے کی مزید تاکید معلوم ہوتی ہے آپﷺ
نے ارشاد فرمایا: جس میں امانت داری نہیں اس کا ایمان نہیں اور جس میں عہد کی
پاسداری نہیں اس کا دین (کامل) نہیں۔ (مسند امام احمد)
غوث
پاک اور ایفائے عہد: غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: ایک سفر میں کوئی شخص میرا رفیق بنا، ایک بار اس نے مجھے ایک جگہ
بٹھایا اور اپنے انتظار کا وعدہ لے کر چلا گیا، میں ایک سال تک وہاں بیٹھا رہا پھر
وہ لوٹا اور یہی وعدہ لے کر چلا گیا، ایسا تین بار ہوا آخری بار وہ آیا اور کہا:
میں خضر ہوں۔ (اخبار الاخیار، ص 12)