وعدہ خلافی کرنا بہت بری عادت ہے، ہمارے پیارے اور آخری نبی ﷺ وعدہ پورا
نہ کرنے والے سے سخت ناراض ہوتے تھے، پیارے آقا نے وعدہ خلافی کرنے والے کے متعلق
فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں! ذرا غور کیجیے اگر ہم وعدہ وفا نہیں کرتے تو پھر اس
پیاری ہستی سے تعلق قائم رکھنے سے بھی قاصر ہیں، ہمارے پیارے آقا ﷺ سے منکر لوگ
وعدہ کرتے تھے آپ فلاں کام ہمیں کر کے دکھائیں تو ہم آپ پر یقین کریں گے اور دین
اسلام کو مانیں گے، جب ان کافروں کا کہا ہوا کام ہو جاتا تھا تو وہ اپنے وعدے سے
مکر جاتے اور آج بھی اگر ہم غور کریں تو جو اپنے وعدے سے مکر جاتے ہیں ان کا شمار
آخرت میں انہیں منکرین کے ساتھ ہوگا۔
ہمیں سوچ سمجھ
کر وعدہ کرنا چاہیے وعدہ خلافی کی مذمت میں بہت سی آیات مبارکہ بھی نازل ہوئی ہیں
اور بہت سی احادیث مبارکہ بھی ہیں جیسا کہ قرآن پاک کی سورۃ الاحزاب میں اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: وَ
لَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ لَا یُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَؕ-وَ
كَانَ عَهْدُ اللّٰهِ مَّسْــٴُـوْلًا (۱۵) (پ 21،
الاحزاب: 15) ترجمہ: اور بے شک اس سے پہلے وہ اللہ سے عہد کر چکے تھے کہ پیٹھ نہ
پھیریں گے اور اللہ کا عہد پوچھا جائے گا۔
یاد رکھیں! قیامت
کے دن اللہ سے کئے ہوئے وعدے کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اسے پورا نہ کرنے پر
سزا دی جائے گی اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ سے کسی چیز کا عہد کرنا گویا اللہ سے
عہد کرنا ہے کیونکہ حضور رب کے نائب اعظم ہیں، لہٰذا آپ سے کئے ہوئے عہد کو پورا
کرنا لازم ہے۔
وعدہ
کی تعریف:
ہر وہ بات جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے وعدہ کہلاتا ہے۔ (معجم وسیط،
2/1007)
عہد
کا حکم:
حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وعدہ کا پورا کرنا ضروری
ہے مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے استاد شیخ نبی اللہ
پاک سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو اگر وعدے کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا
ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گنہگار نہیں۔ (مراٰۃ
المناجیح، 6/483،492 ملتقطا)
حدیث
پاک: اس
شخص کا کچھ دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔ (معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)
غوث
پاک اور ایفائے عہد: غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: ایک سفر میں کوئی شخص میرا رفیق بنا، ایک بار اس نے مجھے ایک جگہ
بٹھایا اور اپنے انتظار کا وعدہ لے کر چلا گیا، میں ایک سال تک وہاں بیٹھا رہا پھر
وہ لوٹا اور یہی وعدہ لے کر چلا گیا، ایسا تین بار ہوا آخری بار وہ آیا اور کہا:
میں خضر ہوں۔(اخبار الاخیار، ص 12)
اللہ پاک غوث
پاک کے صدقے ہمیں بھی وعدہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وہ بات جسے
کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے وعدہ کہلاتا ہے۔ (معجم وسیط، 2/1007) حکیم
الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے
مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے استاد شیخ نبی اللہ پاک
سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو اگر وعدے کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو
مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گنہگار نہیں۔ (مراٰۃ
المناجیح، 6/483،492 ملتقطا)
غوث
پاک اور ایفائے عہد: غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: ایک سفر میں کوئی شخص میرا رفیق بنا، ایک بار اس نے مجھے ایک جگہ
بٹھایا اور اپنے انتظار کا وعدہ لے کر چلا گیا، میں ایک سال تک وہاں بیٹھا رہا پھر
وہ لوٹا اور یہی وعدہ لے کر چلا گیا، ایسا تین بار ہوا آخری بار وہ آیا اور کہا:
میں خضر ہوں۔(اخبار الاخیار، ص 12)
آیات
مبارکہ:
ارشاد ربانی ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ
مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
وَ لَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ
لَا یُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَؕ-وَ كَانَ عَهْدُ اللّٰهِ مَّسْــٴُـوْلًا (۱۵) (پ 21، الاحزاب: 15) ترجمہ: اور بے شک
اس سے پہلے وہ اللہ سے عہد کر چکے تھے کہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ کا عہد پوچھا
جائے گا۔
وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ
وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ
عَلَیْكُمْ كَفِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(۹۱) (النحل: 91)
ترجمہ: اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو اور
اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جب کہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے
ہو اللہ تمہارے سب اعمال سے با خبر ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ تمہارے
بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں۔ (مسند ابی یعلی، 1/451، حدیث: 1047)
2۔ اس شخص کا
کوئی دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔ (معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)
3۔ حضرت عبد
اللہ بن ابو الحمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعثت سے پہلے میں نے نبی کریم ﷺ
سے کوئی چیز خریدی تھی اس کی کچھ قیمت میری طرف باقی رہ گئی، میں نے وعدہ کیا اسی
جگہ لاکر دیتا ہوں، میں بھول گیا اور 3 دن کے بعد یاد آیا میں گیا تو آپ اسی جگہ
موجود تھے، ارشاد فرمایا: اے نوجوان تو نے مجھے زحمت میں ڈال دیا، میں 3 دن سے
یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (ابو داود، 4/388، حدیث: 4996)
تمام تعریفیں
اللہ کے لیے ہیں جس نے انسان کی تخلیق میں حسن و اعتدال رکھا اس کے دل میں نور
ایمان ڈالا اور اس کے ذریعے اس کو زینت و جمال سے نوازا اسے بیان سکھایا اور اس کے
سبب تمام مخلوق پر مقدم فرمایا۔ بے شک زبان اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس کی
صفت عجیبہ کے لطائف میں سے ایک لطیفہ ہے اس کا جسم چھوٹا لیکن اطاعت و جرم بڑا ہے
کیونکہ کفر اور ایمان میں تفریق زبان کی شہادت کے بغیر نہیں ہوتی اور یہ دونوں
اطاعت و نافرمانی کا انتہائی درجہ ہے۔
وعدہ خلافی
ایک برا فعل ہے جس کو کرنے سے انسان گنہگار ہو جاتا ہے زبان وعدہ کی طرف پیش قدمی
کرتی ہے لیکن نفس اسے پورا نہیں کرتا تو اس طرح وعدہ خلافی ہو جاتی ہے یہ منافقت
کی علامت ہے۔
وعدہ کرتے وقت ہی نیت یہ ہو کہ جو کہہ رہا ہوں وہ نہیں کروں گا تو یہ وعدہ
خلافی ہے جیسے کسی شخص سے مقررہ وقت پر آنے کا وعدہ کیا لیکن دل میں نیت ہے کہ
نہیں آؤں گا، وعدہ کیا کہ فلاں تاریخ کو تمہیں رقم ادا کروں گا لیکن دل میں ہے کہ
نہیں کروں گا، اگر وعدہ کریں تو اسے پورا بھی کرنا چاہیے اللہ پاک قرآن کریم میں
ارشاد فرماتا ہے: وَ
اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔منافق کی
تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، جب
امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)
2۔ وعدہ پورا
کرنا عطیہ دینا ہے۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا،
7/267، حدیث: 456)
3۔ حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت آیا تو انہوں نے فرمایا: قریش کے ایک
آدمی نے مجھ سے میری لڑکی کا رشتہ مانگا ہے اور میں نے کچھ ڈھیلا ڈھالا سا وعدہ
کیا ہے اللہ کی قسم میں نفاق کے تہائی حصے کے ساتھ اللہ سے ملاقات نہیں کروں گا،
میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی بیٹی کا رشتہ اس شخص کو دے دیا۔
(احیاء العلوم، 3/293)
4۔ حضرت عبد
اللہ بن ابو الخنساء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی بعثت سے
پہلے آپ سے کوئی سودا کیا اور آپ کا کچھ بقایا رہ گیا میں نے کسی جگہ حاضر ہونے
کا وعدہ کیا لیکن میں اس سے اگلے دن بھی بھول گیا اور تیسرے دن حاضر ہوا تو آپ
اسی مقام پر تھے آپ نے فرمایا: اے نو جوان! تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا میں تین
دن سے یہاں تمہارا منتظر ہوں۔ (ابو داود، 4/326)
5۔ وعدہ قرض
کی طرح بلکہ اس سے بھی سخت تر ہے۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 457)
وہ بات جسے
کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے وعدہ کہلاتا ہے۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا نہ
کرنے کی نیت سے کرے گا تو وہ جھوٹ جان بوجھ کر بولنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا اور
ایسا وعدہ جس کو پورا کرنے کی نیت ہو تو ایسا وعدہ کرنا جائز ہے اور اس کو پورا
کرنا مستحب ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ تمہارے
بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں۔ (مسند ابی یعلی، 1/451، حدیث: 1047)
2۔ اس شخص کا
کچھ دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔ (معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)
3۔ عہد توڑنے
والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ یہ فلاں بن
فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے۔ (بخاری، حدیث: 6178)
4۔ منافق کی
تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف کرے، جب اس کے پاس
امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)
ارشاد باری
تعالیٰ ہے: وَ اَوْفُوْا
بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
5۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے
اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
جب
قول کہو اس کو نبھاؤ بھی تم جب
عہد کرو اس کو بچاؤ بھی تم
ایک دوسرے کی
مدد کے بغیر دنیا میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے اس معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کے
لیے ہر قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے، اس یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ ہے،
مستحکم تعلقات، لین دین میں آسانی معاشرے میں امن اور باہمی اعتماد کی فضا قائم
ہونا وعدہ پورا کرنے سے ممکن ہے اسی لیے اسلام نے ایفائے عہد پر بہت زور دیا ہے،
قرآن و حدیث میں بکثرت یہ حکم ملتا ہے کہ وعدہ کرو تو پورا کرو۔ اللہ رب العزت کا
فرمان ہے: وَ اَوْفُوْا
بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
وعدے
کی تعریف اور اس کا حکم: وہ بات جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے
وعدہ کہلاتا ہے۔ (معجم وسیط، 2/1007) حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: وعدہ پورا کرنا ضروری ہے مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے عزیز سے وعدہ
کرو یا غیر سے استاذ سے کرو یا شیخ سے، نبی اور اللہ پاک سے کئے ہوئے تمام وعدے
پورے کرو اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری
کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گنہگار نہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، 6/483،492 ملتقطا)
وعدہ کے لیے
لفظ وعدہ کی ضرورت نہیں اور یہ کہنا بھی ضروری نہیں بلکہ انداز و الفاظ سے اپنی
بات کی تاکید ظاہر کی وعدے کے طور پر طے کیا کہ فلاں کام کروں گا یا فلاں کام نہیں
کروں گا وعدہ ہو جائے گا۔(غیبت کی تباہ کاریاں، ص 461)
احادیث
مبارکہ:
1۔ جو کسی
مسلمان سے عہد شکنی کرے اس پر اللہ فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا
کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 1/616، حدیث: 1870)
2۔ حضرت عبد
اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہاری
اس وقت کیفیت کیا ہوگی یا فرمایا قریب ہے کہ ایسا دور آئے گا اس میں لوگ الگ الگ
کر دیئے جائیں گے ان کے عہد و پیمان امانتیں ختم ہو جائیں گی اور آپس میں اختلاف
ہو جائے گا اور اس طرح ہو جائیں گے آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈالا
پس صحابہ کرام نے عرض کی: اے اللہ کے رسول اس حالت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟
فرمایا: جو احکام تمہیں معلوم ہیں انہیں اختیار کرو اور جو تمہیں معلوم نہیں انہیں
چھوڑ دو اور جو تمہارے خاص لوگ ہیں ان کے امر کی فکر کرو اور تمہارے جو عام لوگ
ہیں ان کے امر کو چھوڑ دو۔ (ابو داود، جلد 3، حدیث: 4342)
3۔ ہر عہد شکن
کے لیے قیامت کے دن ایک نیزہ گاڑا جائے گا۔ (ترمذی، جلد 1، حدیث: 1518)
ایک دوسرے کی
مدد کے بغیر دنیا میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے اس معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کے
لیے ہر قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے، اس یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ ہے،
مستحکم تعلقات، لین دین میں آسانی معاشرے میں امن اور باہمی اعتماد کی فضا قائم
ہونا وعدہ پورا کرنے سے ممکن ہے اسی لیے اسلام نے ایفائے عہد پر بہت زور دیا ہے،
قرآن و حدیث میں بکثرت یہ حکم ملتا ہے کہ وعدہ کرو تو پورا کرو۔ اللہ رب العزت کا
فرمان ہے: وَ اَوْفُوْا
بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
وعدے
کی تعریف اور اس کا حکم: وہ بات جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے
وعدہ کہلاتا ہے، جبکہ معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بد عہدی
کہلاتا ہے۔ بد عہدی کرنا بہت مذموم ہے احادیث میں بکثرت اس کی مذمت آئی ہے،
چنانچہ
احادیث
مبارکہ:
1۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت اور
اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور غدر یعنی بد عہدی کرنا حرام
اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
2۔ حضرت انس
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہ بہت کم تھا کہ حضور ہمیں اس کے بغیر وعظ فرماتے کہ جو
امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔(مراٰۃ المناجیح،
جلد 1، حدیث: 35)
3۔ جس میں چار
عیوب ہوں وہ نرا منافق ہے اور جس میں ایک عیب ہو اس میں منافقت کا عیب ہوگا جب تک
کہ اسے چھوڑ نہ دے: جب امانت دی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب
وعدہ کرے تو خلاف کرے اور جب لڑے تو گالیاں بکے۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 1، حدیث:
56)
وعدے کو پورا کرنا وعدہ نبھانا اسلام میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے اسے ایفائے
عہد کہا جاتا ہے اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز
العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔جس
کا حکم رب تبارک و تعالیٰ نے دیا ہے اس کی خلاف ورزی کرنا عہد شکنی کرنا حرام اور
گناہ کبیرہ ہے اور اپنے عہد، وعدہ کو پورا کرنا مسلمان پر شرعا واجب و لازم ہے۔
احادیث مبارکہ میں وعدہ خلافی کی شدید ترین مذمت آئی ہے، چنانچہ
احادیث
مبارکہ:
1۔ جو کسی
مسلمان سے عہد شکنی (وعدہ خلافی) کرے اس پر اللہ پاک، فرشتوں اور تمام انسانوں کی
لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
2۔ جب اولین و
آخرین کو اللہ پاک قیامت کے دن جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک
جھنڈا بلند کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔(مسلم، ص 739، حدیث:
1735) روز حشر جھنڈا گاڑ کر پکارا جائے گا یہ جھنڈا فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا
نشان ہے وعدہ خلاف کس قدر رسوا ہوگا کہ اس کی دغا کو سب پر ظاہر کیا جائے گا اور
سب کے سامنے ذلیل و رسوا ہوگا اور ایسے شخص کے نفل تو دور فرائض بھی رب کی بارگاہ
میں قبول نہ ہوں گے۔
3۔ منافق کی
تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے،وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، امانت رکھیں
تو خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)وعدہ خلاف منافق ہے یعنی جو وعدہ کا خیال
نہیں کرتا اس کے دین کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ وعدہ خلافی مسلمان کو ایذاء دینے کی
ایک صورت ہے جس شخص سے عہد توڑا جائے گا یقینا اس شخص کو اس عمل سے بہت تکلیف
پہنچے گی اور مسلمان کو ایذاء دینا تو حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
فرمانِ مصطفیٰ ہے: جس نے بلاوجہ کسی مسلمان کو ایذاء دی اس نے مجھے ایذاء دی اور
جس نے مجھے ایذاء دی اس نے اللہ کو ایذاء دی۔(فتاویٰ رضویہ، 24/342) سورۃ الاحزاب
آیت 57 میں ارشاد فرمایا: بے شک جو ایذاء دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو تو ان
پر اللہ کی لعنت ہے دنیا و آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار رکھا
ہے۔ (تکلیف نہ دیجیے، ص 4)وعدہ خلافی ایذائے مسلم کا سبب ہے اور بے شک اسلام ہمیں
معاشرے میں رہنے کا ڈھنگ سکھاتا ہے، اگر کوئی شخص وعدہ کر کے اسے پورا نہیں کرتا
تو آخرت میں تو اس کی پکڑ ہے ہی دنیا میں بھی وہ شخص عزت و وقار نہیں پاتا،
کیونکہ ایسے شخص پر کوئی اعتبار نہیں کرتا، اس کی زبان پر بھروسا نہیں کیا جاتا،
دین اسلام اخلاقیات کا درس دیتا ہے اور وعدہ کی پاسداری اخلاقیات کا اہم ترین جز
ہے، مومن کی زبان سچی اور ثابت قدم ہوتی ہے، اگر کوئی شخص اپنی زبان سے پھرتا ہے
تو احادیث میں منافق کہلاتا ہے اور ملعون کہلاتا ہے، وعدہ خلاف دھوکا باز بھی ہوتا
ہے کہ اپنے بھائی سے وہ جھوٹا وعدہ کر کے دھوکا دیتا ہے۔
فرمانِ
مصطفیٰ: جس نے مسلمان کو تکلیف یا دھوکا دیا ملعون ہے۔ (تکلیف نہ دیجیے، ص 4) مزید
ارشاد فرمایا: جو شخص دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔(مسلم، حدیث: 191)
وعدہ کرتے وقت
اگر دل میں نیت ہے کہ جو کہہ رہی ہوں نہیں کروں گی تو یہ وعدہ خلافی ہے۔ اسی طرح
کسی سے مقررہ وقت پر آنے کا وعدہ کیا یا کسی کو رقم دینے کا وعدہ کیا لیکن دل میں
نیت ہے کہ نہیں دوں گی یہ وعدہ خلافی ہے۔
1۔ حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے
اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہے نہ نفل۔ عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے
اور غدر یعنی بد عہدی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ (بخاری، 2/370،
حدیث: 3179)
بد عہدی کے
چار اسباب ہیں: قلت خشیت یعنی خدا کا خوف نہ ہونا، دنیاوی غرض، دھوکا، جہالت۔ وعدہ
خلافی نہایت ہی ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔
2۔ رسول اللہ
ﷺ کا فرمان ہے: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے
خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33) بے
شک زبان وعدہ کرنے میں بہت زیادہ سبقت کرتی ہے پھر بعض اوقات نفس اس کو پورا نہیں
کرتا تو یوں وعدہ خلافی ہو جاتی ہے اور یہ نفاق کی علامت میں سے ہے۔ اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6،
المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔
3۔ سرکار
مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وعدہ کرنا عطیہ ہے۔ (موسوعۃ
ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 456) یعنی
جس طرح عطیہ واپس لینا مناسب نہیں ہے اسی طرح وعدہ کر کے بھی اس کا خلاف نہیں کرنا
چاہیے۔ (احیاء العلوم، 3/403)
ہمیں چاہیے کہ
زندگی کو شریعت کے احکامات کے مطابق گزاریں آخرت کو کثرت سے یاد کریں تاکہ دنیا
اور اس کے مال اور ساز و سامان کی محبت دل سے نکلے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا
ذہن بنے۔ وعدے کو معمولی جاننا غفلت ہے، اسلام اور معاشرے میں اس کی اہمیت کو
سمجھنا چاہیے کہ وعدہ پورا کرنا اسلام میں بھی پسندیدہ عمل ہے اور لوگوں کے درمیان
بھی عزت ملتی ہے، اعتماد بڑھتا ہے۔
اسلام میں
ایفائے عہد یعنی وعدہ پورا کرنے پر بہت زور دیا جاتا ہے عموما وعدہ اس لیے کیا
جاتا ہے کہ بات میں پختگی آئے اپنی بات کو مضبوط بنانے کے لیے انسان وعدہ کرتا
ہے۔ آئیے سب سے پہلے وعدے کی تعریف سنتے ہیں: وہ بات جسے کوئی شخص پورا کرنا خود
پر لازم کر لے وعدہ کہلاتا ہے۔ (معجم وسیط)
وعدہ پورا
کرنے کا حکم تو رب تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی فرمایا ہے: وَ اَوْفُوْا
بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
آئیے اب ہم
احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں کہ ہمیں وعدہ کے بارے میں پیارے آقا ﷺ نے کیا
تعلیم فرمائی ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے
اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
2۔ منافق کی
تین نشانیاں ہیں: جب بات کہے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب
اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)
3۔ جس میں چار خصلتیں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک خصلت
ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے حتیٰ کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب اس کے پاس امانت
رکھوائی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے،
جب جھگڑے تو گالی دے۔(بخاری، 1/25، حدیث: 34)
وعدہ
خلافی کا حکم:
عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم اور غدر یعنی بد عہدی کرنا حرام اور جہنم
میں لے جانے والا کام ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 172)
قارئین ذرا
غور کیجیے کہ عہد کو پورا نہ کرنے کو منافق کی علامت کہا گیا ہمیں چاہیے کہ ہم اس
سے درس عبرت لیں، ہمیں چاہیے کہ ہم بات بات پر وعدہ نہ کریں بعض کی عادت تو یہ
ہوتی ہے کہ بات بات پر وعدہ کرتے ہیں اور اس وعدے کو پورا کرنا تو درکنار وعدہ ہی
بھول جاتے ہیں۔ جو شخص وعدہ کر کے پورا نہ کرے لوگ اس کو کیسا سمجھیں گے یہ آپ
خود سمجھ سکتے ہیں وعدوں کو پورا نہ کرنے والا شخص آہستہ آہستہ لوگوں کے دل سے
اتر جاتا ہے اور پھر اس شخص پر سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور لوگ اس شخص
سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اولا تو بات بات پر وعدہ نہ کریں اور
وعدہ کریں تو اسی بات پر کریں جس کو پورا کرنے کی نیت ہو ورنہ عافیت اسی میں ہے کہ
ہم بات بات پر وعدے نہ کریں۔
ترغیب کے لیے
ہمارے غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کے ایفائے عہد کے بارے میں ایک واقعہ سنتے ہیں،
چنانچہ حضور غوث پاک فرماتے ہیں: ایک سفر میں کوئی شخص میرا رفیق بنا ایک بار اس
نے مجھے ایک جگہ بٹھایا اور اپنے انتظار کا وعدہ لے کر چلا گیا، میں ایک سال تک
وہیں بیٹھا رہا پھر وہ لوٹا اور یہی وعدہ لے کر چلا گیا ایسا تین بار ہوا ا ٓخری
بار وہ آیا اور کہا میں خضر ہوں۔ (اخبار الاخیار، ص 12)
اللہ کریم
ہمیں وعدہ خلافی سے بچتے ہوئے ایفائے عہد کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وہ بات جسے
کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے وعدہ کہلاتا ہے۔ (معجم وسیط، 2/1007) وعدہ
پورا کرنے کا حکم قرآن و حدیث سے ملتا ہے لیکن آج بھی ہمارے معاشرے میں وعدہ
خلافی عام ہوتی جا رہی ہے، آئیے وعدہ خلافی کی مذمت پر چند احادیث مبارکہ سنتی
ہیں۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ قیامت کے
دن عہد شکنی کرنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ
فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ (بخاری، 4/149، حدیث: 4177)
2۔ ہر عہد شکن
کے لیے قیامت کے دن ایک نیزہ گاڑا جائے گا۔ (ترمذی: جلد 1، حدیث: 1518)
3۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے
اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
4۔ لوگ اس وقت
ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔ (ابو داود، 4/144،
حدیث: 4347)
5۔ رسول اللہ
ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل
ہوں گا: ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے، دوسرا وہ شخص جو
آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے، تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس
کی مزدوری نہ دے۔ (بخاری، 2/52، حدیث: 2227)
معاشرتی
اثرات:
ہم نے احادیث مبارکہ میں تو وعدہ خلافی کی مذمت سنی لیکن اس کے بہت سے معاشرتی
اثرات بھی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں: وعدہ خلافی کرنے والے پر لوگ بھروسا نہیں
کرتے، وعدہ خلافی کرنے سے امن و امان قائم نہیں رہتا، وعدہ خلافی کرنے سے آپس میں
نفرتیں پیدا ہوتی ہیں، اس کے اور بھی بہت سے معاشرتی اثرات ہیں۔ اللہ پاک ہمیں عہد
پورا کرنے والا بنائے کہ ہم جو عہد کریں تو اسے پورا بھی کریں، اگر کبھی وعدہ
خلافی کرنے کا خیال بھی ذہن میں آئے تو احادیث مبارکہ میں اس کی مذمت کو ذہن میں رکھتے
ہوئے اس سے بچنا چاہیے اللہ پاک ہمیں کسی سے وعدہ خلافی کرنے سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین
ایک دوسرے کی
مدد کے بغیر دنیا میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے اس معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کے
لیے قدم قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے اس یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ ہے،
مستحکم تعلقات، لین دین میں آسانی، معاشرے میں امن اور باہمی اعتماد پرسکون فضا
کا قائم ہونا وعدہ پورا کرنے سے ممکن ہے، اسی لیے اسلام نے ایفائے عہد پر بہت زور
دیا ہے، قرآن و احادیث میں بکثرت یہ حکم ملتا ہے کہ وعدہ کرو تو پورا کرو۔ اللہ
رب العزت کا فرمان ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ
مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔ نبی
پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں۔ (مسند
ابو یعلی، 1/451، حدیث: 1047) احادیث میں وعدہ خلافی کی مذمت پر زور دیا گیا
ہے،جیسا کہ
فرامینِ
مصطفیٰ:
1۔ حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چار صفات جس
شخص میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک صفت ہو اس میں نفاق کا ایک
حصہ ہے حتیٰ کہ اس عادت کو چھوڑ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف
ورزی کرے، جب عہد و پیمان باندھے تو اسے توڑ دے اور جب کوئی جھگڑا وغیرہ ہو تو
گالی گلوچ پر اتر آئے۔ (ابو داود، حدیث: 4088) نفاق کفر کی ایک قسم ہے اور وعدہ
خلافی کو آقا ﷺ نے نفاق قرار دیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وعدہ خلافی کس
قدر مذموم ہے۔
2۔ ہر عہد شکن
کے لیے قیامت کے دن ایک نیزہ گاڑا جائے گا۔(ترمذی، حدیث: 1518)
3۔ اس شخص کا
کچھ دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔(معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)
4۔اللہ پاک
فرماتا ہے: قیامت کے دن میں تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا: ایک وہ شخص جو میرے نام
پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے، دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت
کھائے، تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ (بخاری،
2/52، حدیث: 2227)
5۔ حضرت انس
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہ بہت کم تھا کہ حضور ﷺ ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں کہ
جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابندِ وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔ (مراٰۃ
المناجیح، جلد1، حدیث: 35)
افسوس اخلاقی
انحطاط اور پستی کی وجہ سے آج سماج میں وعدہ خلافی کی نوع بہ نوع صورتیں مروج ہو
گئی ہیں اور لوگوں کے ذہن میں اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔
ہم قرآن پاک
اور احادیث مبارکہ میں مختلف مقامات پر وعدہ کرنے اور اس کو پورا کرنے پر ملنے والے
فضائل و برکات کے متعلق سنتے ہیں لیکن اگر وعدہ کو پورا نہ کریں تو وعدہ خلافی
کرنے کی بھی مذمت بیان کی گئی ہے، قرآن و احادیث میں وعدہ خلافی کے بارے میں کیا
احکام ہیں؟ وعدہ خلافی کیا ہے؟ کس کی علامت ہے؟ اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟ کسی
بھی انسان کو اس کی موجودہ حالت کے مطابق علم حاصل کرنا ضروری ہے یہاں پر وہ چیز
بیان ہوگی جس سے بچنا چاہیے گناہ کا علم حاصل کرو اس لیے نہیں کہ تم اس میں جا پڑو
بلکہ اس لیے کہ گناہوں سے بچ سکو۔ قرآن کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ
عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ(۵۵) اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ
یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ(۵۶) (پ 10، الانفال: 55-56) ترجمہ کنز
الایمان: بے شک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور
ایمان نہیں لاتے وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے ہیں
اور ڈرتے نہیں۔
تفسیر: صدر
الافاضل حضرت علامہ مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن
العرفان میں آیت مبارکہ "ڈرتے نہیں" کے تحت فرماتے ہیں: خدا سے نہ عہد
شکنی کے خراب نتیجے سے اور نہ اس سے شرماتے ہیں باوجود یہ کہ عہد شکنی ہر عاقل کے
نزدیک شرمناک جرم ہے اور عہد شکنی کرنے والا سب کے نزدیک بے اعتبار ہو جاتا ہے جب
اس کی بے غیرتی اس درجہ تک پہنچ گئی تو یقینا وہ جانوروں سے بد تر ہیں۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 171)
وعدہ خلافی
بری خصلت ہے جس میں انسان بسا اوقات مبتلا ہو ہی جاتا ہے جیسا کہ کسی نے کوئی کام
کرنے کا وعدہ کیا اور وعدہ کرتے وقت نیت میں فریب ہو تو وعدہ خلافی ہوگی اور وہ
گنہگار ہوگا، ہر وعدے میں نیت کا بڑا دخل ہے اور اگر کسی نے کوئی کام کرنے کا وعدہ
کیا اور وعدہ پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا
نہ کر سکے تو وہ گناہگار نہیں ہوگا وعدے کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے
وعدہ خلافی نہایت ہی ذلت و رسوائی کا سبب ہے، آئیے وعدہ خلافی کی مذمت پر 5
فرامین مصطفیٰ ملاحظہ کریں:
1۔ اللہ کے
محبوب ﷺ نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے
خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)
2۔ جو مسلمان
عہد شکنی کرے اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت
ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
3۔ ہر عہد
شکنی کرنے والے کی سرین (یعنی بدن کا وہ حصہ جس کے بل انسان بیٹھتا ہے اس) کے پاس
قیامت میں اس کی عہد شکنی کا ایک جھنڈا ہوگا۔ (مسلم، ص 956، حدیث: 1738)
4۔ لوگ اس وقت
تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔ (ابو داود،
4/166، حدیث: 4347)
5۔ اللہ پاک
فرماتا ہے: میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا: ایک وہ شخص جو میرے نام
پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے، دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت
کھائے، تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ (بخاری،
2/52، حدیث: 2227)
وعدہ
خلافی کا حکم:
میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ
جلد 25 صفحہ 69 پر فرماتے ہیں: الاشباہ و النظائر میں ہے وعدہ جھوٹا کرنا حرام
ہے۔وعدہ خلافی کرنا مؤمنوں کی شان نہیں ہے، حضور اکرم ﷺ، صحابہ کرام اور دیگر
بزرگان دین نے کبھی کسی کے ساتھ بد عہدی نہیں فرمائی۔ آئیے وعدے کو پورا کرنے کی
اہمیت پر نبی کریم ﷺ کا واقعہ ملاحظہ کرتے ہیں، چنانچہ
حضرت عبد اللہ بن ابو الحمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اعلانِ نبوت سے
پہلے میں نے حضور ﷺ سے کچھ سامان خریدا اسی سلسلے میں آپ کی کچھ رقم میرے ذمے
باقی رہ گئی، میں نے آپ سے کہا کہ آپ یہیں ٹھہریں میں ابھی گھر سے رقم لاکر دیتا
ہوں آپ نے اسی جگہ رہنے کا وعدہ فرما لیا، گھر آکر میں وعدہ بھول گیا پھر تین دن
بعد مجھے یاد آیا تو میں رقم لے کر اسی جگہ پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں آپ اسی جگہ
ٹھہرے ہوئے تھے میرا انتظار کر رہے تھے، مجھے دیکھ کر آپ کی پیشانی مبارکہ پر بل
نہیں آیا اس کے سوا آپ نے اور کچھ نہیں فرمایا کہ اے نو جوان تم نے مجھے مشقت
میں ڈال دیا کیونکہ میں اپنے وعدے کے مطابق تین دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا
ہوں۔
نبی کریمﷺ کی
حیات مبارکہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور وعدہ پورا کرنا رسول اللہ ﷺ کی سیرت مبارکہ
کا درخشاں پہلو ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ہر حالت میں اپنا وعدہ پورا کرنا
چاہیے، حضور فرماتے ہیں کہ وعدہ خلافی یہ نہیں کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت
اسے پورا کرنے کی بھی ہو، بلکہ وعدہ خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت
اسے پورا کرنے کی نہ ہو۔ (الجامع الاخلاق، 2/60)
وعدہ
خلافی سے بچنے کا طریقہ: جب بھی کوئی وعدہ کریں تو ساتھ میں ان شاء اللہ
ضرور کہا جائے تو اگر دل میں ارادہ نہ بھی ہو تو گناہ سے بچ جائیں گے اس کے علاوہ
بندہ فکرِ آخرت کا ذہن بنائے اپنے آپ کو رب کی بے نیازی سے ڈرائے اپنی موت کو
یاد کرے یہ مدنی ذہن بنائے کہ کل قیامت کے دن خدا نخواستہ اس وعدہ خلافی کے سبب رب
ناراض ہو گیا تو میرا کیا بنے گا؟ اس خوف سے بندہ وعدہ خلافی کرنے سے بچے گا۔