تمام تعریفیں
اللہ کے لیے ہیں جس نے انسان کی تخلیق میں حسن و اعتدال رکھا اس کے دل میں نور
ایمان ڈالا اور اس کے ذریعے اس کو زینت و جمال سے نوازا اسے بیان سکھایا اور اس کے
سبب تمام مخلوق پر مقدم فرمایا۔ بے شک زبان اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس کی
صفت عجیبہ کے لطائف میں سے ایک لطیفہ ہے اس کا جسم چھوٹا لیکن اطاعت و جرم بڑا ہے
کیونکہ کفر اور ایمان میں تفریق زبان کی شہادت کے بغیر نہیں ہوتی اور یہ دونوں
اطاعت و نافرمانی کا انتہائی درجہ ہے۔
وعدہ خلافی
ایک برا فعل ہے جس کو کرنے سے انسان گنہگار ہو جاتا ہے زبان وعدہ کی طرف پیش قدمی
کرتی ہے لیکن نفس اسے پورا نہیں کرتا تو اس طرح وعدہ خلافی ہو جاتی ہے یہ منافقت
کی علامت ہے۔
وعدہ کرتے وقت ہی نیت یہ ہو کہ جو کہہ رہا ہوں وہ نہیں کروں گا تو یہ وعدہ
خلافی ہے جیسے کسی شخص سے مقررہ وقت پر آنے کا وعدہ کیا لیکن دل میں نیت ہے کہ
نہیں آؤں گا، وعدہ کیا کہ فلاں تاریخ کو تمہیں رقم ادا کروں گا لیکن دل میں ہے کہ
نہیں کروں گا، اگر وعدہ کریں تو اسے پورا بھی کرنا چاہیے اللہ پاک قرآن کریم میں
ارشاد فرماتا ہے: وَ
اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔منافق کی
تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، جب
امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)
2۔ وعدہ پورا
کرنا عطیہ دینا ہے۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا،
7/267، حدیث: 456)
3۔ حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت آیا تو انہوں نے فرمایا: قریش کے ایک
آدمی نے مجھ سے میری لڑکی کا رشتہ مانگا ہے اور میں نے کچھ ڈھیلا ڈھالا سا وعدہ
کیا ہے اللہ کی قسم میں نفاق کے تہائی حصے کے ساتھ اللہ سے ملاقات نہیں کروں گا،
میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی بیٹی کا رشتہ اس شخص کو دے دیا۔
(احیاء العلوم، 3/293)
4۔ حضرت عبد
اللہ بن ابو الخنساء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی بعثت سے
پہلے آپ سے کوئی سودا کیا اور آپ کا کچھ بقایا رہ گیا میں نے کسی جگہ حاضر ہونے
کا وعدہ کیا لیکن میں اس سے اگلے دن بھی بھول گیا اور تیسرے دن حاضر ہوا تو آپ
اسی مقام پر تھے آپ نے فرمایا: اے نو جوان! تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا میں تین
دن سے یہاں تمہارا منتظر ہوں۔ (ابو داود، 4/326)
5۔ وعدہ قرض
کی طرح بلکہ اس سے بھی سخت تر ہے۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 457)