جب مرد و عورت شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو
شریعت اسلامیہ کی جانب سے میاں بیوی پر ایک دوسرے کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ شادی شدہ
اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ شوہر کے حقوق میں کمی نہ آنے دیں کیونکہ شوہر کی رضا و
ناراضی میں رب کی رضا و نافرمانی پوشیدہ ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیثِ نبوی
سے لگائیے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے
شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح و
شام کا کھانا لیکر کھڑی رہے۔ (کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 44809)
آئیے! عورت پر شوہر کے چند حقوق ملاحظہ کریں۔
1۔ شوہر کو خوش رکھنا: عورت
پر لازم ہے کہ وہ اپنے جسم،لباس اور گھر کی صفائی کا خیال رکھے اور شوہر کیلیے
بناؤ سنگھار کرے تاکہ شوہر کا دل خوش رہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے نیک بیوی کی ایک
خوبی یہ بیان فرمائی: کہ اگر اسکا شوہر اسے دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے۔ (ابن ماجہ،
2/414، حدیث:2857)
2۔ شوہر کی شکر گزاری: عورت
ہرگز اپنے شوہر کی ناشکری نہ کرے کیونکہ شوہر اس کا مضبوط سہارا ہے۔ آج کل خواتین
اپنے شوہروں کی ناشکری کرتے ہوئے زیادہ نظر آتی ہیں۔ انہیں اس حدیث پاک سے عبرت
حاصل کرنی چاہیے۔ چنانچہ جب آپ ﷺ سے جہنم میں عورتوں کی کثرت کی وجہ کے متعلق
استفسار کیا گیا تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان سے مکر جاتی
ہیں۔(بخاری،3/463، حدیث:5197)
3۔ شوہر کی رضا: شادی
کے بعد عورت کو شوہر کو راضی رکھنا چاہیے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے جنتی عورتیں کی
پہچان کے حوالے سے ارشاد فرمایا: ہر محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت،
جب وہ شوہر کو ناراض کر دے یا اسے تکلیف دی جائے یا اسکا شوہر اس پر غصہ کرے تو وہ
(عورت) کہے کہ میرا یہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، میں اس وقت تک سوؤں گی نہیں جب تک
آپ راضی نہ ہو جائیں۔ (معجم صغیر، 1/64، حديث: 118)
4۔ حکم کی فرمانبرداری: نبی
کریم ﷺ نے عورتوں کو حکم فرمایا: اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ پیلے رنگ کے
پہاڑ کو کالے رنگ کا بنا دے اور کالے رنگ کے پہاڑ کو سفید بنا دے تو عورت کو اپنے
شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (ابن ماجہ، 2/411، حدیث: 1852)
5۔ امانت کی حفاظت: شوہر
کا مکان اور مال و سامان یہ سب شوہر کی امانتیں ہیں اور بیوی ان کی امین ہے۔ اگر
عورت نے جان بوجھ کر نقصان کر دیا تو عورت پر خیانت کا گناہ لازم آئے گا اور خدا
کا عذاب ہو گا۔ (جنتی زیور، ص51)
پیاری پیاری اسلامی بہنو! ان احادیث سے یہ بھی سبق
ملتا ہے کہ شوہر کا حق بہت بڑا ہے اور عورت پر انکی ادائیگی فرض ہے۔ اللّہ ہمیں
صحیح معنوں میں ان حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مرد اور عورت دونوں نکاح کے ذریعے رشتہ ازدواج میں
منسلک ہوتے ہیں، میاں بیوی کو چاہیے کہ آپس میں رواداری و محبت سے رہیں، دونوں ایک
دوسرے کے حقوق پر نظر رکہیں اور ان کو ادا بھی کرتے رہیں بیوی کو چاہیےکہ وہ بھی
اپنے شوہر کی فرمانبرداری کر کے اسکی نافرمانی سے بچتی رہے اسکے حقوق کا خیال رکھے
اسکی جائز خواہشات کو پورا کرتی رہے اللہ پاک نے شوہر کے بہت سے حقوق بیان فرمائے جس
کا ذکر قرآن و احادیث دونوں میں موجود ہے: رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ
بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ
اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ
اللّٰهُؕ- (پ
5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان: مرد عورتوں پر نگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے
ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ
کرتے ہیں تو نیک عورتیں اطاعت کرنے والی اور انکی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و
توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ کثیر احادیث مبارکہ میں بھی شوہر کے
حقوق بیان کیے گئے ہیں، ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں:
1) حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کسی بھی عورت کیلئے
یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں نفلی روزہ رکھے البتہ اپنے
شوہر کی اجازت سے روزہ رکھ سکتی ہے اور نہ ہی اسکی اجازت کے بغیر کسی شخص کو اسکے
گھر میں آنے دے۔ (فیضان ریاض الصالحین، 3/496، حدیث: 282)
2) فرمایا:
تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور ہر شخص سے اسکی نگرانی کے بارے میں پوچھا جائے گا حاکم
نگران ہے آدمی گھر والوں کے بارے میں نگران ہے عورت اپنے شوہر کے گھر اور اسکی
اولاد کی نگران ہے تم میں ہر شخص نگران ہے اور اس سے اسکی نگرانی کا حساب لیا جائے
گا۔ (مسلم، ص 116، حديث: 1829)
3) اگر
کوئی شخص اپنی حاجت کیلئے اپنی بیوی کو بلائے تو وہ آجائے اگرچہ وہ تنّور پر
روٹیاں کیوں نہ پکا رہی ہو۔
(ترمذی، 2/386، حدیث: 1163)
4) اگر
شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر
لے جائے اورسیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو عورت کو اپنے شوہر
کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (مسند امام احمد، 9/353، حدیث: 22525)
5) جو عورت
اپنے گھر سے باہر جائے اور اسکے شوہر کو ناگوار ہو جب تک پلٹ کر نہ آئے آسمان میں
ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے اور جن و آدمی کے سوا جس جس چیز پر گزرے سب اس پر لعنت
کریں۔ (معجم اوسط، 6/408، حدیث: 9231)
جس گھر میں بھی دیکھو میاں بیوی آپس میں جھگڑا کر
رہے ہوتے ہیں۔ پورے گھر کا امن برباد کیا ہوتا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے
کہ شوہر کو بیوی اور بیوی کو شوہر کے حقوق معلوم نہیں ہوتے۔ لہٰذا بیوی پر شوہر کے
چند حقوق ملاحظہ کیجیے:
1۔ نفلی روزہ نہ رکھے: فرمان
مصطفیٰ ﷺ: کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی
اجازت کے بغیر (نفلی روزہ) رکھےاور کسی کو اس کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر نہ
آنے دے۔ (فیضان ریاض الصالحین، 3/496، حدیث: 282)اس حدیث پاک سے ہمیں معلوم ہوا کہ
عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر روزے نہ رکھے کہ اس کی خدمت میں روزہ رکھنے سے
کوئی حلل نہ آئے اور اس کی اجازت کے بغیر کسی شخص کو گھر میں نہ آنے دے۔
2۔ فورا حکم بجا لائے: فرمانِ
آخری نبی ﷺ: جب آدمی بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اسے چاہیے کہ فوراً چلی
جائے اگرچہ وہ تنور پر ہی کیوں نہ بیٹھی ہو۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1163)اس حدیث
پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کی اطاعت ہر حالت میں فوراً ضروری ہے (جبکہ شریعت کے
خلاف نہ ہو)۔
اگر سجدہ تعظیمی جائز ہوتا تو عورت اپنے شوہر کو
کرتی، فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: اگر میں کسی شخص کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو
میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)اس
سے معلوم ہو جاتا ہے کہ عورت پر اس کے تمام احباب میں سے سب سے زیادہ حق اس کے
شوہر کا ہے۔
اللہ پاک تمام بیویوں کو اس امت کی نیک بیویوں جیسا
صبر و استقامت عطا فرمائے۔ آمین
زو جین (میاں بیوی) ہمارے معاشرے کا ایک اہم جز ہیں
اور زوجین کے ایک دوسرے پر بے شمار حقوق ہیں۔ زوجین کے دن اور رات حقوق و فرائض کا
منبع ہوتے ہیں۔ شوہر کے حقوق آیات و احادیث کی روشنی میں ملا حظہ فرمائیے۔ قرآنِ
پاک میں فرمایا گیا: مرد عورتوں پر حکمران ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ان میں
ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک
بخت عورتیں ادب والی ہیں۔ خاوند کے پیچھے حفاظت رکھنے والی ہیں جس طرح اللہ نے
حفاظت کا حکم دیا: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى
النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا
مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ
اللّٰهُؕ- (پ
5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان: مرد عورتوں پر نگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے
ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ
کرتے ہیں تو نیک عورتیں اطاعت کرنے والی اور انکی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و
توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔
اس آیت میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ مرد (شوہر)
عورتوں پر حاکم ہیں۔ نیک خواتین اپنے شوہر کا ادب بجا لا تی ہیں۔ جب شوہر گھر پر
نہ ہو تو ان کے پیچہے ان کی عزت کی حفاظت کرتی ہیں۔
شوہر کا حق ہے کہ بیوی اس کا ہر حکم ما نے جو خلاف
شر عی نہ ہو۔ اس کی غیر موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرے۔ اس کا محنت سے کمایا ہوا
ما ل اسراف نہ کرے۔ فضول خرچی سے بچے۔ شوہر کے لیے لذیذ اور پسندیدہ کھانے بنائے۔
احادیث کی روشنی میں: بے
شمار احادیث میں شوہر کے حقوق کی ادئیگی کا حکم دیا گیا، احادیث سے شوہر کے حقوق
کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ شوہر کے حقوق کی ادائیگی کی ایک فضیلت ملاحظہ فرمائیں،
چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میں
کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی،
2/386، حدیث: 1162)
ایک اور حدیث ملا حظہ فرمائیے: چنانچہ سیدہ ام سلمہ
رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو عورت اس حال میں فوت ہو
جائے اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1164)
ہم بستری سے متعلق ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں، ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: جب شوہر اپنی بیوی کو بچھو
نے پر بلائے اور وہ نہ آئے شوہر نا راضگی کی حالت میں رات بسر کرے تو اس عورت پر
فرشتے صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (بخاری،2/377، حدیث:3237)
نفلی عبادت سے متعلق شوہر کے حقوق ملاحظہ فرمائیں،
رسول کریم ﷺ نے فرمایا: کسی عورت کا شوہر گھر میں حاضر ہو تو اس کے لیے اس کی
اجازت کی بغیر نفل روزہ رکھنا جائز نہیں اور نہ ہی وہ کسی کو شوہر کی اجازت کے
بغیر گھر میں آنے دے۔ (فیضان ریاض الصالحین، 3/496، حدیث: 282)
ان تمام احادیث کی روشنی میں شوہر کے حقوق صاف صاف
واضح ہو چکے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہاں تک فرما دیا کہ میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ
اپنے شوہر کو سجدہ کر لے۔(ترمذی، 2/386، حدیث: 1162) ان تمام احادیث سے یہ ثابت
ہوتا ہےکہ شوہر کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ ان کے حقوق کی ادائیگی کس قدر لازم
ہے۔ شوہر کے حقوق میں شامل ہے کہ جب شوہر اپنی بیوی کو نفل روزہ رکھنے سے منع کر ے
تو وہ ہر گز نہ رکھے اور اگر رکھےگی تو اس کا روزہ رکھنا قبول نہ ہوگا۔
اللہ پاک مسلم معاشرے کی تمام خواتین کو شوہر کے
حقوق احسن انداز میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ
وہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ
کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)
وضاحت: مشہور مفسر
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: خاوند کے
حقوق بہت زیادہ ہیں اور عورت اس کے احساسات کے شکریہ سے عاجز ہے اسی لیے خاوند ہی
اس کے سجدے کا مستحق ہوتا۔ خاوند کی اطاعت و تعظیم اشد ضروری ہے اس کی جائز تعظیم
کی جائے۔ (مراۃ المناجیح، 5/97)
حدیث: اگر شوہر اپنی
عورت کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے
اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ
حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (مسند امام احمد، 9/353، حدیث 24565)
وضاحت: مفتی احمد
یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: یہ فرمان مبارکہ مبالغے کے
طور پر ہے سیاہ اور سفید پہاڑ قریب قریب نہیں ہوتے بلکہ دور دور ہوتے ہیں مقصد یہ
ہے کہ اگر خاوند شریعت کے دائرے میں رہ کر مشکل سے مشکل کام بھی دے تب بھی بیوی
اسے کر لے کالے پہاڑ کا پتھر سفید پہاڑ پر پہنچانا سخت مشکل ہے کہ بھاری بوجھ لے
کر سفر کرنا ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5/106)
حدیث: شوہر نے عورت
کو بلایا اس نے انکار کر دیا اور غصے میں اس نے رات گزاری تو صبح تک اس عورت پر
فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (بخاری،2/377، حدیث:3237)اور دوسری روایت میں ہے کہ
جب تک شوہر اس سے راضی نہ ہو، اللہ اس سے ناراض رہتا ہے۔ (مسلم، ص 853، حدیث: 1436)
حدیث: جب عورت اپنے
شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورعین کہتی ہیں خدا تجھے قتل کرے، اسے ایذا نہ دے
یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔(ترمذی، 2/ 392، حدیث: 1177)
حدیث: ایک عورت
ہمارے پیارے نبی ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ میں فلاں
بنت فلاں ہوں۔ فرمایا: میں نے تمہیں پہچان لیا اپنا کام بتاؤ۔ عرض کی: مجھے اپنے
چچا کے بیٹے فلاں عابد سے متعلق کام ہے۔ فرمایا: میں نے اسے بھی پہچان لیا۔عرض کی
اس نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے آپ ﷺ مجھے بتائیں کہ عورت پر شوہر کا حق کیا
ہے؟ اگر مجھ میں اس کا حق ادا کرنے کی طاقت ہوئی تو میں شادی کروں گی ورنہ نہیں
کروں گی۔ فرمایا:مرد کے حق کا ایک ٹکڑا یہ ہے کہ اگر اس کے دونوں نتھنے خون اور
پیپ سے بہتے ہوں اور عورت اسے اپنی زبان سے چاٹے تب بھی شوہر کے حق سے بری نہ ہوئی
اگر آدمی کا آدمی کو سجدہ روا ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ جب شوہر اس کے پاس
آیا کرے تو وہ اسے سجدہ کیا کرے کیونکہ خدا نے مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے۔ یہ سن
کر اس عورت نے عرض کی: اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں کبھی
شادی نہیں کروں گی۔ (مستدرک للحاکم، 2/547، حدیث: 2822)
ذرا سوچئے کہ آپ ﷺ نے شوہر کے حقوق کو کتنی اہمیت کے
ساتھ بیان فرمایا ہے، اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ اس سے درس حاصل کر یں اور شوہر کے
حقوق میں کوئی کمی نہ آنے دیں کیونکہ شوہر کی رضا میں رب کی رضا اور شوہر کی
ناراضی میں رب کی ناراضی پوشیدہ ہے۔
اسلام نے نکاح کو اللہ کی ایک نعمت اور پاکیزہ ترین
رشتہ قرار دیا ہے۔ دوسرے مذاہب کی طرح نکاح سے دوری کو کسی قسم کی نیکی اور فضیلت
کا سبب نہیں گردانا بلکہ اسے اللہ کے محبوب بندوں انبیاء اور رسولوں کی صفت بتایا،
چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ
ذُرِّیَّةًؕ- (پ
13، الرعد: 38) ترجمہ: ہم آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو
بیوی بچوں والا بنایا تھا۔ جس طرح شوہر کے اوپر بیوی کے حقوق ہیں اسی طرح بیوی کے
او پر شوہر کے بھی کچھ حقوق ہیں تا کہ ازدواجی زندگی خیر و سعادت کے ساتھ گذرے۔ ان
حقوق میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیے:
1۔ اطاعت و فرماں برداری: بیوی
کے اوپر شوہر کا اہم ترین حق یہ ہے کہ بیوی اس کی اطاعت و فرماں برداری کرے۔ اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ
لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ
5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان: تو نیک عورتیں اطاعت کرنے والی اور انکی عدم
موجودگی میں اللہ کی حفاظت و توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: سب سے بہترین عورت کون
ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ عورت کہ شوہر جب اسے دیکھے تو عورت اسے خوش کر دے اور شوہر
جب حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنی جان و مال میں شوہر کا نا پسندیدہ کام
نہ کرے، اس کی مخالفت نہ کرے۔ (ابن ماجہ، 2/414، حدیث:2857)
2۔ بیوی کو اپنے ساتھ لے جانا: جس
طرح بیوی کا یہ حق ہے کہ شوہر اس کے لئے گھر مہیا کرے،اسی طرح شوہر کا یہ حق ہے کہ
وہ بیوی کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جائے۔ بیوی اس کی مخالفت کر کے کسی خاص جگہ مثلا
اپنے باپ کے گھر رہنے کے لئے اصرار نہیں کر سکتی۔ قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام
کے قصہ میں اللہ تعالی نے یہ بات ذکر کی ہے کہ مدین کے نیک آدمی کی بیٹی سے جب ان
کا نکاح ہو گیا اور انھوں نے ملازمت کی شرط اور مدت مکمل کر لی تو اپنے اہل خانہ
کو اپنے آبائی وطن کی طرف لے کر چلے۔
3۔ شوہر کے مال کی حفاظت:
عورت کے پاس شوہر کا جو بھی مال ہے امانت ہے۔ اس مال میں شوہر کی مرضی کے بغیر
عورت کے لئے کسی قسم کا تصرف کرنا جائز نہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: تم میں سے
ہر شخص حاکم ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں پر حاکم
ہے، عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد پر حاکم ہے، پس ہر شخص حاکم ہے اور
اپنی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ (مسلم، ص 116، حديث: 1829)
4۔ کفایت شعاری: بیوی
پر شوہر کا ایک حق یہ ہے کہ وہ کفایت شعاری اور قناعت پسندی اختیار کرے اور اپنے
شوہر سے اس کی طاقت اور اپنی ضرورت سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے۔ اصل امیری دل کی
امیری ہے اور قناعت باعث سعادت ہے۔ عورت اگر حقیقت پسندی سے دور ہو کر زیب وزینت
کی عاشق ہو جائے تو دنیا وآخرت کی ہلاکت یقینی ہو جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک بار
طویل خطبہ دیا جس میں بیوی اور شوہر کے حقوق اور دنیا و آخرت کے بہت سے امور ذکر
فرمائے، آپ ﷺ نے یہ بھی ذکر فرمایا: بنو اسرائیل کی ہلاکت کا ایک سبب یہ ہوا کہ
فقیر کی بیوی بھی انہی کپڑوں اور زیورات کا تکلف کرتی تھی جن کا امیر کی بیوی کیا
کرتی تھی۔
نبی رحمت ﷺ نے اگر چہ عورتوں کو سونا اور ریشم
پہننے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے مگر آپ اپنی ازواج مطہرات کو ریشم اور زیورات سے
منع فرمایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ: اگر تم جنت کے زیورات اور ریشم چاہتی ہو تو
اسے دنیا میں مت پہنو۔
5۔ اولاد کی تربیت عورت پر ایک حق یہ بھی ہے
کہ وہ صبر و شفقت کے ساتھ اولاد کی تربیت کرے۔ اولاد پر غصہ نہ ہو۔ انہیں چیخ کر
ڈانٹے نہیں۔ ان کو گالی نہ دے۔ ان کو مارے نہیں اور نہ ان پر بد دعا کرے۔ رسول
اللہ ﷺ نےفرمایا ہے:اپنے اوپر بددعا نہ کرو۔ اپنی اولاد پر بددعا نہ کرو۔ اپنے
خادموں پر بددعا نہ کرو۔ اپنے مالوں پر بد دعا نہ کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ
تعالیٰ کی جانب سے دعا کی قبولیت کا وقت ہو اور وہ تمہاری بددعا قبول کرلے(پھر
تاحیات پچھتانا اور حسرت و افسوس کرنا پڑے)۔
فرمان مصطفیٰ: کسی کو جائز نہیں کہ وہ اللہ کے سوا
کسی اور کو سجدہ کرے اور اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم
دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)
ایک اور حدیث میں ہے: اگر شوہر کے نتھنوں سے خون
اور پیپ بہہ کر اس کی ایڑیوں تک جسم بھر گیا ہو اور عورت اپنی زبان سے چاٹ کر اسے
صاف کرے تو بھی اس کاحق ادا نہ ہوگا۔ (فتاوی رضویہ، 24/380)
اللہ پاک ہمیں حقوق العباد پر عمل کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین
اسلام شادی شدہ زندگی چاہتا ہے اور اس میں بیوی
اور شوہر کے حقوق متعین کرتا ہے۔ ازدواجی تعلق خدائی منصوبہ اور فطری
عمل ہے۔ ازدواجی تعلقات میں اصل پیار اور محبت ہے جو میاں بیوی کے مابین خوشگوار
ذہنی حالت اور کیفیت کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان ناچاقی، نفرت
اور ناخوشگوار کیفیت ہو جائے تو اس کا حل بھی پیش کرتا ہے۔
بیوی پر خاوند کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے
ہیں، بلکہ خاوند کے حقوق تو بیوی کے حقوق سے بھی زیادہ عظیم ہیں، اس لیے کہ اللہ
سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ
الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪-وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌؕ-وَ
اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠(۲۲۸) (پ 2، البقرة: 228) ترجمہ: اور ان
عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں، قاعدہ(شرعی)کے موافق اور
مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور الله زبردست ہے تدبیر والا۔
وضاحت: امام جصاص رحمۃ
اللہ علیہ نے لکھا ہے: اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ خاوند اور
بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر حق ہیں اورخاوند کے بیوی پر ایسے حق بھی ہیں جو بیوی
کے خاوند پر نہیں۔
شوہر حاکم ہوتا ہے اور بیوی محکوم، اس کے
اُلٹ کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہٰذا جائز کاموں میں شوہر کی اطاعت کرنا
بیوی کو شوہر کی نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار
ہوگی۔
شوہر کے حقوق کے متعلق چند احادیث مبارکہ درج ذیل
ہیں: چنانچہ
(1) فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: عورت جب پانچوں
نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی
اطاعت کرے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنّت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہوجاؤ۔ (مسند امام
احمد، 1/406، حدیث: 1661)
(2) بیوی کو چاہئے کہ وہ شوہر کے حقوق ادا
کرنے میں کوئی کمی نہ آنے دے کہ معلّمِ انسانیت ﷺ نے حکم فرمایا کہ جب
شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آجائے
اگرچہ تنّور پر ہو۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1163)
(3) بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کے احسانات
کی ناشکری سے بچے کہ یہ بُری عادت نہ صرف اس کی دنیوی زندگی میں زہر گھول دے
گی بلکہ آخرت بھی تباہ کرے گی، جیسا کہ نبیِّ برحق ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے
جہنّم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔ وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی
ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔(بخاری،3/463، حدیث:5197)
(4) بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر
فرمائش نہ کرے، اس کی خوشیوں میں شریک ہو، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندھائے،اس کی
طرف سے تکلیف پہنچنے کی صورت میں صبر کرےاور خاموش رہے، بات بات پر منہ نہ
پُھلائے، برتن نہ پچھاڑے،شوہر کا غصّہ بچوں پر نہ اتارے کہ اس سے حالات مزید بگڑیں
گے، اسے دوسروں سے حقیر ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے، اس پر اپنے اِحسانات نہ
جتائے،کھانے پینے، صفائی ستھرائی اور لِباس وغیرہ میں اس کی پسند کو اہمیت دے، الغرض
اُسے راضی رکھنے کی کوشش کرے۔ جيسا کہ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: جو عورت اس حال
میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/386، حدیث:
1164)
(5) شوہر ناراض ہوجائے تو اُس حدیثِ پاک کو اپنے
لئے مشعلِ راہ بنائے جس میں جنتی عورت کی یہ خوبی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اس کا
شوہر اس سے ناراض ہو تو وہ کہتی ہے: میرا یہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جب تک آپ راضی
نہ ہوں گے میں سوؤں گی نہیں۔ (معجم صغیر، 1/64، حديث: 118)
(6)رسولُ اللہ ﷺ سے بہترین عورت کے بارے
میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: (بہترین عورت وہ ہے) جسے شوہر حکم دے تو وہ اُس کی
بات مانتی ہو، جب شوہر اُسے دیکھے تو وہ اُسے خوش کر دیتی ہو، وہ عورت اپنی اور
شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہو۔ (سنن کبریٰ للنسائی، 5 / 310، حدیث: 8961)
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے اِس حدیثِ پاک میں ایک ذمّہ دار بیوی کی بہت اہم خصوصیات بیان
فرمائی ہیں: (1) حکم ماننے والی (2) شوہر کو خوش رکھنے والی (3) مال و عزّت کی
حفاظت کرنے والی۔
ذاتی حقوق:
(1) حتی الوسع شوہر کی جائز خوشی کے کاموں میں
لگنا۔
(2)شوہر کا احترام کرنا اور اس سے بات چیت کرتے
ہوئے الفاظ، آواز اور لب و لہجے میں ادب کو ملحوظ رکھنا اور اگر اسے بیوی کی طرف
سے شوہر کا نام لے کر پکارنا پسند نہ ہو تو اس کا لحاظ رکھنا۔
(3)شادی ہو جانے کے بعد بیوی کے لیے شوہر کا نام
اپنے نام کے ساتھ لکھنے یا استعمال کرنے کے بارے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔
(4)قلبی خوشی سے اس کی خدمت میں لگنا اور اس کے
لباس، کھانے وغیرہ کی تیاری میں اس کی مرضی کا خیال رکھنا۔ اور بروقت اس کی
ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا، مثلا: دفتر وغیرہ جانے کے وقت اس کے کپڑے تیار
ہوں، جوتے تیار ہوں، اس کی ضروری اشیاء جو اس نے اپنے ساتھ لے جانی ہیں وہ تیار
ہوں، اور سب اشیاء ایک متعین جگہ یا نظروں کے سامنے والی جگہ میں موجود ہوں،
ایمرجنسی کے احوال میں کام آنی والی چیزیں بالخصوص اضافی سوٹ وغیرہ استری شدہ تیار
رکھنا، اس کے واپس آنے کے وقت، گھر کی صفائی ستھرائی مکمل کیے ہوئے رکھنا اور شوہر
کے کھانا کھانے کے وقت میں کھانا تیار رکھنا، وغیرہ وغیرہ امور شوہر کو خوش کر
دینے والے ہیں۔
مرد گھر کے باہر کی ذمہ داری رکھتا ہے اور عورت کی
ذمہ داری گھر کے اندر کی ہے، جیسے گھر کی نگرانی، صفائی اور کھانے پینے کا انتظام
وغیرہ یہی طریقہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں رائج رہا ہے۔
اللہ ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت کے مطابق
چلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول ﷺ کے بعد عورت پر جس
ذات کی اطاعت اور فرمانبرداری لازم ہے وہ اس کا شوہر ہے چنانچہ پیارے آقا ﷺ کا
فرمان عالیشان ہے: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ پاک کے سوا کسی کو سجدہ کرے
تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث:
1162)
مشہور مفسر قرآن حکیم الامت مفتی احمد یار خان
نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں کہ خاوند کے حقوق بہت زیادہ
ہیں اور عورت اس کے احسانات کے شکریہ سے عاجز ہے اسی لیے خاوند ہی اس کے سجدے کا
مستحق ہوتا۔ خاوند کی اطاعت و تعظیم اشد ضروری ہے اس کی ہر جائز تعظیم کی جائے۔ (مرآۃ
المناجیح،5/ 97)
پیاری اسلامی بہنو! اس سے معلوم ہوا کہ عورت کیلئے
شوہر کی فرمانبرداری میں ہی دنیا و آخرت کی کامیابی ہے عورت کی جنت کا راستہ اللہ
پاک اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی اطاعت کے بعد شوہر کی اطاعت سے شروع ہوتا ہے۔
شوہر کے حقوق سے متعلق دو فرامین مصطفیٰ:
1) جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اس
پر لازم ہے کہ شوہر کے پاس جائے اگر چہ چولہے کے پاس بیٹھی ہو۔ (ترمذی، 2/386،
حدیث: 1163)
2) اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی
رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح اور شام کا
کھانا لے کر کھڑی رہے۔ (کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 4489)
نیک سیرت اور مثالی بیوی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ
وہ ہمیشہ اپنے شوہر کے احسانات کی شکر گزار رہتی ہے اور اس کے احسانات کا انکار کر
کے ناشکری نہیں کرتی۔ رحمت عالم نور مجسم ﷺ نے عورتوں کو اپنے شوہر کی ناشکری سے
بچنے کی بہت تاکید کی ہے۔ حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ایک
مرتبہ سرکارِ دو عالم ﷺ ہم عورتوں کے پاس سے گزرے تو ہمیں سلام کیا اور فرمایا:
احسان کرنے والوں کی ناشکری سے بچنا، ہم نے عرض کی احسان کرنے والوں کی ناشکری سے
کیا مراد ہے؟ فرمایا: ممکن تھا کہ تم میں سے کوئی عورت طویل عرصے تک بغیر شوہر کے
اپنے والدین کے پاس بیٹھی رہتی اور بوڑھی ہو جاتی لیکن اللہ پاک نے اسے شوہر عطا
فرمایا اور اس کے ذریعے سے مال اور اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمایا اس کے باوجود
جب وہ غصے میں آتی ہے تو کہتی ہے: میں نے اس سے بھلائی کبھی دیکھی ہی نہیں۔ (مسند
امام احمد، 10/433، حدیث:27632)
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اکثر عورتیں ناشکری کی
مصیبت میں گرفتار ہیں یادرہے کہ ناشکری کے یہ الفاظ نہ صرف عورت کی ازدواجی زندگی
کو اجاڑ دینگے بلکہ ساتھ ہی اس کی آخرت بھی داؤ پر لگ جائے گی۔ چنانچہ فکر آخرت
دلانے والے ہمارے آقا مدنی مصطفی ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: میں نے دیکھا کہ جہنم
میں اکثریت عورتوں کی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یارسول اللہ ﷺ! اس
کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: وہ ناشکری کرتی ہیں پوچھا گیا کہ کیا وہ اللہ پاک کی
ناشکری کرتی ہیں؟ ارشاد فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان سے مکر جاتی
ہیں اگر تم کسی عورت کے ساتھ عمر بھر اچھا سلوک کرو پھر بھی تم سے کوئی تکلیف پہنچ
جائے تو کہے گی: میں نے تم سے بھلائی کبھی دیکھی ہی نہیں۔ (بخاری، 3/463، حدیث:
5197) اس حدیث پاک سے ان اسلامی بہنوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو اپنے شوہر کے
ساتھ اس طرح کا رویہ رکھتی ہیں۔
مثالی بیوی
بننے کے لیے عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے جسم، لباس اور گھر کی صفائی ستھرائی کا
خیال رکھے۔ حدیث پاک میں شوہر کو خوش کرنے والی عورت کو بہترین قرار دیا گیا ہے
چنانچہ پیارے آقا ﷺ نے نیک بیوی کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی بیان فرمائی کہ
اگر اس کا شوہر اسے دیکھے تو وہ (اپنے ظاہری اور باطنی حسن و جمال سے) اسے خوش کر
دے۔ (ابن ماجہ، 2/414، حدیث:2857)
ان احادیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ عورت کو اپنے
شوہر کے لیے کیسا ہونا چاہیے۔
اللہ پاک ہمیں اپنے حقوق و فرائض کو صحیح طور پر
ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین
انسان کے قریبی ترین تعلقات میں سے میاں بیوی کا
تعلق ہے، حتی کہ ازدواجی تعلق انسانی تمدّن کی بنیاد ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد
فرماتا ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا
لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ- (پ
21، الروم: 21) ترجمہ کنز الایمان: اور اُس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری
ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ ان سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبت اور رحمت رکھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت
میں عرض کی: عورت پر جن لوگوں کے حقوق ہیں، اُن میں سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ تو آپ
ﷺ نے ارشاد فرمایا: اُس کے شوہر کا۔
شوہر کے حقوق:
(1) شوہر حاکم ہوتا ہے اوربیوی محکوم، اس کے اُلٹ
کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہٰذا جائز کاموں میں شوہرکی اطاعت کرنا بیوی
کو شوہر کی نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار ہوگی،
چنانچہ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی
شرمگاہ کی حفاظت کرے اوراپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہاجائے گاکہ جنّت کے جس
دروازے سے چاہو داخل ہوجاؤ۔ (مسند امام احمد، 1/406، حدیث: 1661)
(2) بیوی کو چاہئے کہ وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے میں
کوئی کمی نہ آنے دے، چنانچہ معلّمِ انسانیت ﷺ نے حکم فرمایاکہ جب شوہر بیوی کو
اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آجائے اگرچہ تنّور پر ہو۔ (ترمذی، 2/386،
حدیث: 1163)
(3) بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر
فرمائش نہ کرے، اس کی خوشیوں میں شریک ہو، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندھائے،اس کی
طرف سے تکلیف پہنچنے کی صورت میں صبر کرےاور خاموش رہے، بات بات پر منہ نہ
پُھلائے، برتن نہ پچھاڑے،شوہر کا غصّہ بچوں پر نہ اتارے کہ اس سے حالات مزید بگڑیں
گے، اسے دوسروں سے حقیر ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے، اس پر اپنے اِحسانات نہ
جتائے،کھانے پینے، صفائی ستھرائی اور لِباس وغیرہ میں اس کی پسند کو اہمیت دے، الغرض
اُسے راضی رکھنے کی کوشش کرے، فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا
شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1164)
(4) شوہر ناراض ہوجائے تو اُس حدیثِ پاک کو اپنے
لئے مشعلِ راہ بنائے جس میں جنتی عورت کی یہ خوبی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اس کا
شوہر اس سے ناراض ہوتو وہ کہتی ہے: میرایہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جب تک آپ راضی
نہ ہوں گے میں سوؤں گی نہیں۔ (معجم صغیر، 1/64، حديث: 118)
(5) بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کے احسانات
کی ناشکری سے بچے کہ یہ بُری عادت نہ صرف اس کی دنیوی زندگی میں زہر گھول دے گی
بلکہ آخرت بھی تباہ کرے گی، جیساکہ نبیِّ برحقﷺ نے فرمایا: میں نے جہنّم میں
اکثریت عورتوں کی دیکھی۔ وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری اور احسان
فراموشی کرتی ہیں۔ (بخاری، 3/463، حدیث:5197، ملتقطاً)
(6) شوہر کام کاج سے گھر واپس آئے توگندے کپڑے، الجھے
بال اور میلے چہرے کے ساتھ اس کا استقبال اچھا تأثر نہیں چھوڑتا بلکہ شوہر کیلئے
بناؤ سنگار بھی اچھی اور نیک بیوی کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے اوراپنے شوہر کے
لئےبناؤ سنگار کرنا اس کے حق میں نفل نماز سے افضل ہے۔ چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں
ہے: عورت کا اپنے شوہر کےلئے گہنا (زیور)پہننا، بناؤ سنگارکرنا باعثِ اجر ِعظیم
اور اس کے حق میں نمازِ نفل سے افضل ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 22/126)
اللہ پاک ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت کے
مطابق چلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
آج کل عام شکایت ہے کہ زن و شو میں نااتفاقی ہے مرد
کو عورت کی شکایت ہے تو عورت کو مرد کی شکایت ہے۔ ہر ایک دوسرے کے لیے بلائے جان
(مصیبت) ہے اور جب اتفاق نہ ہو تو زندگی تلخ یعنی مشکل اور نتائج نہایت خراب ہو
جاتے ہیں۔ شوہر کے حقوق تمام حقوق حتیٰ کہ والدین کے حقوق سے بھی بڑھ کر ہیں۔ قرآن
پاک میں الله پاک ارشاد فرماتا ہے جس سے مردوں کی بڑائی ظاہر ہوتی ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 5، النساء:
34) ترجمہ کنز العرفان: مرد عورتوں پر نگہبان ہیں۔
1۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: اگر میں کسی شخص کو کسی
مخلوق کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ
کرے۔ سجدہ کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ الله تعالیٰ نے مردوں کا حق عورتوں کے ذمہ کر
دیا۔ (مستدرک للحاکم، 5/240، حدیث:7410)
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول
الله ﷺ نے فرمایا: شوہر نے عورت کو بلایا اس نے انکار کر دیا اور غصے میں اس نے
رات گزاری تو صبح تک اس عورت پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں۔ (بخاری،2/377، حدیث:3237)
3۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ کہ شوہر کا حق عورت پر یہ ہے کہ
اپنے نفس کو اس سے نہ روکے اور سواء فرض کے کسی دن بغیر اس کی اجازت کے روزہ نہ رکھے
اگر ایسا کیا یعنی بغیر اجازت روزہ رکھ لیا تو گنہگار ہوگی اور بدون اجازت اس کا
کوئی عمل قبول نہ ہوگا اگر عورت نے کر لیا تو شوہر کو ثواب ہے اور عورت کو گناہ۔ (کنز
العمال، جزء 16، 2/144، حدیث:44801)
4۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے کہ عورت پر شوہر کا حق یہ ہے
کہ اس کے بچھونے کو نہ چھوڑے اور اس کی قسم کو سچا کرے اور بغیر اس کی اجازت کے
باہر نہ جائے اور ایسے شخص کو مکان میں آنے نہ دے جس کا آنا شوہر کو پسند نہ ہو۔ (معجم
کبیر، 2/52، حدیث:1258)
5۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے کہ اے عورتوں! خدا سے ڈرو
اور شوہر کی رضامندی کی تلاش میں رہو اس لیے کہ عورت کو اگر معلوم ہوتا کہ شوہر کا
کیا حق ہے تو جب تک اس کے پاس کھانا حاضر رہتا یہ کھڑی رہتی۔ (کنز العمال، جز 16،
2/145، حدیث: 44809)
لہذا عورت کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ اپنے شوہر کے
حقوق کا خیال رکھتی ہے اور بروقت اسکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔
چاہیے کہ شوہر کے حقوق ادا کر کے الله پاک کی رضا کی حقدار بنے۔ رب کریم عمل کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حقوق دو طرح کے ہوتے ہیں: (1) حقوق الله (2) حقوق
العباد
حقوق الله: حقوق اللہ سے
مراد اللہ پاک کے حقوق ہیں جو اللہ کی مخلوق ہوتے ہوئے ہم پر لازم ہیں۔
حقوق العباد: حقوق العباد
سے مراد بندوں کے حقوق ہیں جیسے کہ پڑوسیوں کے حقوق، والدین کے حقوق، استاد کے
حقوق وغیرہ انہیں میں سے ایک شوہر کے حقوق ہیں جن کا ادا کرنا بہت ضروری ہے۔ قرآن
پاک میں ارشاد باری تعالی ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ
الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪-وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌؕ-وَ
اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠(۲۲۸)
(پ 2، البقرة: 228) ترجمہ: اور ان عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان مردوں
کے ہیں، قاعدہ(شرعی)کے موافق اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور الله زبردست ہے
تدبیر والا۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: مرد و عورت دونوں کے ایک
دوسرے پر حقوق ہیں لیکن مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے اور اس کے حقوق عورت سے
زیادہ ہیں۔
بیوی پر شوہر کے چند حقوق:
بیوی پر شوہر کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سے چند یہ
ہیں:
شوہر کی اطاعت کرنا: اس
کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا اس کے مال کی حفاظت کرنا ہر بات میں اس کی خیر خواہی
کرنا ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا، شوہر کو نام لے کر نہ پکارنا، کسی سے
بلاوجہ اس کی شکایت نہ کرنا، اس کے عیبوں پر پردہ ڈالنا، وہ ناراض ہو تو اس کی بہت
خوشامد کرکے منانا وغیرہ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ شوہر
کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عورت اگر شوہر کا حکم نہ مانے گی تو وہ اللہ
کے غضب میں گرفتار ہوگی۔ جب تک شوہر ناراض رہے گا عورت کی کوئی نماز قبول نہ ہوگی،
اللہ کے فرشتے عورت پر لعنت کرینگے۔ (فتاویٰ رضویہ، 2/217)
شوہر کے حقوق کے متعلق احادیث:
1۔ جو عوت بلا حاجت شرعی اپنے گھر سے باہر جائے اور
اس کے شوہر کو ناگوار ہو۔ جب تک پلٹ کر نہ آئے آسمان میں ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے
اور جن و آدمی کے سوا جس جس چیز پر گزرے سب اُس پر لعنت کریں۔ (معجم اوسط، 6/408، حدیث:
9231)
2۔ جو عورت بے ضرورت شرعی (یعنی بغیر سخت تکلیف کے)
خاوند سے طلاق مانگے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (سنن ترمذی، 2/302، حدیث: 1191)
3۔ جب شوہر عورت کو اپنے بستر کی طرف بلائے اور وہ
(بغیر عذر کے) انکار کر دے اور خاوند ناراض ہو کر رات گزارے تو فرشتے صبح تک اس
عورت پر لعنت بھیجتے ہیں۔(بخاری،2/377، حدیث:3237)
4۔ اگر شوہر کے نتھنوں سے خون اور پیپ بہہ کر اس کی
ایڑیوں تک جسم بھر گیا ہو اور عورت اپنی زبان سے چاٹ کر اسے صاف کرے تو بھی اس کا
حق ادا نہ ہوگا۔ (فتاویٰ رضویہ، 23/380)
5۔ اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ
کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید
پہاڑ پر لے جائے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہیئے۔ (مسند امام
احمد، 9/353، حدیث: 22525) مفسر شہر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ
علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: یہ فرمان مبارک مبالغے کے طور پر ہے، سیاه و
سفید پہاڑ قریب قریب نہیں ہوتے بلکہ دور دور ہوتے ہیں مقصد یہ ہے کہ اگر خاوند
(شریعت کے دائرے میں رہ کر مشکل سے مشکل کام کا بھی حکم دے تب بھی بیوی اُسے کرے
کالے پہاڑ کا پتھر سفید پہاڑ پر پہنچانا سخت مشکل ہے کہ بھاری بوجھ لے کر سفر کرتا
ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5/106) بات
بات پر شوہر کی نافرمانی کرنے والیاں خوفِ خدا سے لرزیں اور اپنے شوہر سے معافی
تلافی کر کے اپنی آخرت کی بہتری کی خاطر اس کی اطاعت و خدمت میں مشغول رہیں۔
اُم المومئین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے سرتاج صاحب معراج ﷺ کو کبھی بھی میلی کچیلی حالت میں
نہیں دیکھا، آپ ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن سر میں تیل لگانا پسند فرماتے تہے نیز
فرماتے کہ اللہ میلے کچیلے بکھرے ہوئے بال والے شخص کو نا پسند فرماتا ہے۔ (شعب الايمان،
5/168، حدیث: 6226) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ شوہر کو طہارت اور صفائی
ستھرائی کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے اور حتی الامکان اپنی بیوی کی توقعات پر
پورا اُترنے اور اس سے حسن سلوک روا رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ زندگی کی گاڑی
شاہراہ حیات پر کامیابی سے گامزن رہے۔
1۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: رمضان کے مہینے میں
مجبوری کی وجہ سے جو روزے مجھ سے قضا ہو جاتے میں عام طور پر ان روزوں کو آنے والے
شعبان کے مہینے میں رکھا کرتی تھی کہ شعبان میں حضور اکرم بھی کثرت سے روزے رکھا
کرتے تھے۔ لہذا اگر اس زمانے میں، میں بھی روزے سے ہوں گی اور آپ بھی روزے سے ہوں
تو یہ صورت زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ میں روزہ سے ہوں اور آپ کا روزہ نہ ہو۔
2۔ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں: شوہر کا اپنی بیوی پر
یہ حق ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے باہر نہ جائے شوہر کا دوسرا حق
اور اس کی بیوی کا دوسرا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ وہ شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے
تمام گھر اور مال و متاع کی حفاظت کرے۔ اس کے ساتھ اپنی اور اپنے شوہر کی عزت و
آبرو اور نسب کی بھی مکمل حفاظت کرے۔
3۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا
لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-
(پ 21، الروم: 21) ترجمہ کنز الایمان: اور اُس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے
تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ ان سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبت اور رحمت
رکھی۔
4۔ حضورﷺ کاارشاد مقدس ہے: اگر اللہ تعالیٰ کے
علاوہ کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو
سجدہ کریں۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ شوہر کی برتری
کو جانے اور اس کی فضیلت و عظمت کو جانے، اس کی تعظیم و توقیر کر کے دل و جان سے
ان کے تمام کاموں کو خوش دلی سے کرے شوہر کا کے حق میں فرض ہے اس کے حکم کو مانے
اور ہرگز اس حکم کے خلاف کوئی کام نہ کرے۔
5۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس عورت
کی موت ایسی حالت میں ہو کہ مرتے وقت اس کا شوہر اس سے خوش ہو تو وہ عورت جنت میں
جائے گی۔ اور آپ کا یہ بھی ارشاد گرامی ہے کہ اگر شوہر عورت کو یہ حکم دے کہ اس
پہاڑ کے پتھر کو اٹھا کر اس پہار پر لے جائے اور اس پہاڑ کے پتھر کو اس پہار پر
لائے تو اس کو یہی کرنا چاہیے۔ اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ مشکل سے مشکل دشوار سے
دشوار کام کا بھی اگر شوہر حکم دے تو جب بھی عورت کو انجام دینا چاہیے تا کہ شوہر
کے فرمان کی تکمیل ہو جائے بشرطیکہ اس کا کام حکم شریعت کے خلاف نہ ہو۔