انسان کے قریبی ترین تعلقات میں سے میاں بیوی کا
تعلق ہے، حتی کہ ازدواجی تعلق انسانی تمدّن کی بنیاد ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد
فرماتا ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا
لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ- (پ
21، الروم: 21) ترجمہ کنز الایمان: اور اُس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری
ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ ان سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبت اور رحمت رکھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت
میں عرض کی: عورت پر جن لوگوں کے حقوق ہیں، اُن میں سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ تو آپ
ﷺ نے ارشاد فرمایا: اُس کے شوہر کا۔
شوہر کے حقوق:
(1) شوہر حاکم ہوتا ہے اوربیوی محکوم، اس کے اُلٹ
کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہٰذا جائز کاموں میں شوہرکی اطاعت کرنا بیوی
کو شوہر کی نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار ہوگی،
چنانچہ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی
شرمگاہ کی حفاظت کرے اوراپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہاجائے گاکہ جنّت کے جس
دروازے سے چاہو داخل ہوجاؤ۔ (مسند امام احمد، 1/406، حدیث: 1661)
(2) بیوی کو چاہئے کہ وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے میں
کوئی کمی نہ آنے دے، چنانچہ معلّمِ انسانیت ﷺ نے حکم فرمایاکہ جب شوہر بیوی کو
اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آجائے اگرچہ تنّور پر ہو۔ (ترمذی، 2/386،
حدیث: 1163)
(3) بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر
فرمائش نہ کرے، اس کی خوشیوں میں شریک ہو، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندھائے،اس کی
طرف سے تکلیف پہنچنے کی صورت میں صبر کرےاور خاموش رہے، بات بات پر منہ نہ
پُھلائے، برتن نہ پچھاڑے،شوہر کا غصّہ بچوں پر نہ اتارے کہ اس سے حالات مزید بگڑیں
گے، اسے دوسروں سے حقیر ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے، اس پر اپنے اِحسانات نہ
جتائے،کھانے پینے، صفائی ستھرائی اور لِباس وغیرہ میں اس کی پسند کو اہمیت دے، الغرض
اُسے راضی رکھنے کی کوشش کرے، فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا
شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1164)
(4) شوہر ناراض ہوجائے تو اُس حدیثِ پاک کو اپنے
لئے مشعلِ راہ بنائے جس میں جنتی عورت کی یہ خوبی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اس کا
شوہر اس سے ناراض ہوتو وہ کہتی ہے: میرایہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جب تک آپ راضی
نہ ہوں گے میں سوؤں گی نہیں۔ (معجم صغیر، 1/64، حديث: 118)
(5) بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کے احسانات
کی ناشکری سے بچے کہ یہ بُری عادت نہ صرف اس کی دنیوی زندگی میں زہر گھول دے گی
بلکہ آخرت بھی تباہ کرے گی، جیساکہ نبیِّ برحقﷺ نے فرمایا: میں نے جہنّم میں
اکثریت عورتوں کی دیکھی۔ وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری اور احسان
فراموشی کرتی ہیں۔ (بخاری، 3/463، حدیث:5197، ملتقطاً)
(6) شوہر کام کاج سے گھر واپس آئے توگندے کپڑے، الجھے
بال اور میلے چہرے کے ساتھ اس کا استقبال اچھا تأثر نہیں چھوڑتا بلکہ شوہر کیلئے
بناؤ سنگار بھی اچھی اور نیک بیوی کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے اوراپنے شوہر کے
لئےبناؤ سنگار کرنا اس کے حق میں نفل نماز سے افضل ہے۔ چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں
ہے: عورت کا اپنے شوہر کےلئے گہنا (زیور)پہننا، بناؤ سنگارکرنا باعثِ اجر ِعظیم
اور اس کے حق میں نمازِ نفل سے افضل ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 22/126)
اللہ پاک ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت کے
مطابق چلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین