کفر کے بعد سب سے بڑا گناہ دل آزاری ہے خواہ مومن کی ہو یا کافر کی، گھور کر دیکھنا، بے موقع مسکرانا،طنز کرنا، مذاق اڑانا، دل آزاری کا باعث ہیں۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًىؕ-وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ(۲۶۳) (پ 3، البقرۃ: 263) ترجمہ: سائل کے ساتھ نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد اس کی دل آزاری ہو اور اللہ بےنیاز بڑے حلم والا ہے۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا(۵۳) (پ 15، بنی اسرائیل:53) ترجمہ: اور میرے بندوں سے کہہ دیں کہ وہ ایسی باتیں کہا کریں جو بہت اچھی ہو کیونکہ شیطان (بری باتوں سے )ان میں فساد ڈلوا دیتا ہے کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور اس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری، 1/15، حدیث: 10)

2۔ بے شک کسی مسلمان کی نا حق بے عزتی کرنا سب سے بڑا گناہ ہے۔ (ابو داود،4/353، حدیث: 4877)

3۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6573)

ہمارے مدینے والے آقا ﷺ کسی کا دل توڑنا پسند نہیں کرتے تھے دلوں کو جوڑو، جہاں تک تمہارا بس چلے انہیں توڑو مت! دل جوئی کرنا ایسی نیکی ہے جو انس و محبت کا باعث ہے اور دل آزاری کرنا ایسا گناہ ہے جو وحشت و نفرت کا سبب ہے۔

دل آزاری مطلب کسی کا دل دکھانا۔    یہ حرام اور بہت بڑا گناہ ہے۔

دل آزاری کی مذمّت پر احادیث:

1۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف (یا اس کے بارے میں) اس قسم کے اشارے کنائے سے کام لے جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہراساں یا خوفزدہ کرے۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 7 /177 ) اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کی دل آزاری جائز نہیں۔

2۔ جس نے (بلا وجہ شرعی) کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ پاک کو ایذا دی۔ (معجم اوسط، 2/386، حدیث: 360) اس حدیث پاک سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی مسلمان کی دل آزاری کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔

3۔ جب تم تین آدمی موجود ہو تو دو آدمی اپنے (تیسرے) ساتھی کو چھوڑ کر آپس میں سرگوشی نہ کریں یہاں تک کہ تم اور لوگوں سے مل جاؤ، اس لیے کہ ایسا کرنا اسے غمگین کر دے گا۔ (بخاری، 4/185، حدیث: 6290)

ان احادیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم کسی بھی مسلمان کی دل آزاری نہ کرے۔ لہذا ہر کسی کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی وجہ سے کبھی بھی کسی مسلمان کی دل آزاری نہ ہو کیونکہ یہ معاملہ حقوق العباد کا ہے اور حقوق العباد اس وقت تک اللہ معاف نہیں کرے گا جب تک بندہ نہ کر دے۔ اللہ پاک ہمیں اس گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

دل آزاری کی صورتیں: دل آزاری کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں جیسے کسی فقیر کو اس طرح پکارنا او کنگلے۔ کسی کو کالا کہہ کر پکارنا یا کسی کو موٹا کسی کو پتلا کہہ کر پکارنا کسی کا نام بگاڑنا یہ سب دل آزاری کی صورتیں ہیں اور بھی دل آزاری کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں اور کوئی ایسا فعل جو کسی کی پریشانی کا باعث بنے اس سے بچیے۔

اگر ہم سے کسی کی دل آزاری ہو جائے تو ہمیں چاہیے کہ ہم فوراً اس گناہ سے توبہ کر لیں اور جس کی دل آزاری کی اس سے بھی معافی مانگ لیں کہ نا جانے موت کب آ جائے اور پھر ہمیں اس کا موقع نہ مل سکے۔

اللہ پاک ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین


آج کل یہ بلا بھی معاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے، آدمی کا اصل نام بہت اچھا ہوتا ہے، پھر لوگ نہ جانے کیوں دوسروں کو برے ناموں سے پکارتے ہیں۔ جس کا جو نام ہو، اس کو اسی نام سے پکارنا چاہئے، اپنی طرف سے کسی کا الٹا نام مثلاً لمبو، ٹھنگو وغیرہ نہ رکھا جائے، عموماً اس طرح کے ناموں سے سامنے والی کی دل آزاری ہوتی ہے اور وہ اس سے چڑتا بھی ہے، اس کے باوجود پکارنے والا جان بوجھ کر بار بار مزہ لینے کے لئے اسی الٹے نام سے پکارتا ہے۔ میرے آقا، اعلیٰ حضرت، شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: کسی مسلمان بلکہ غیر مسلم ذمّی کو بھی شرعی حاجت کے بغیر ایسے الفاظ سے پکارنا جس سے اس کی دل شکنی ہو، اسے ایذاء پہنچے، شرعاً ناجائز و حرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 23/204)

وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ 22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ ڈال دیا ہے۔

یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی، جو حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم کو ایذا دیتے اور ان کی بے ادبی کرتے تھے۔ جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے تہمت لگا کرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف پہنچائی۔ لیکن یہاں تفسیر کا ایک اصول یاد رکھیں کہ آیات کا شان نزول اگرچہ خاص ہو لیکن اس کاحکم عام ہوتا ہے۔ اس اصول سے آیت کا عام معنیٰ یہ ہواکہ جولوگ کسی مسلمان کوبلا وجہ شرعی تکلیف پہنچاتے ہیں، وہ بہتان اورکھلے گناہ کابوجھ اٹھاتے اور اس کی سزاکے حق داربنتے ہیں۔

1۔ حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا: تم لوگوں کو (اپنے) شر سے محفوظ رکھو، یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گے۔ (بخاری، 2/150، حدیث:2518)

2۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے صحابہ کرام سے سوال کیا: کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ انہوں نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے(دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشاد فرمایا: تم جانتے ہو کہ مومن کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانیں اور اموال محفوظ سمجھیں۔ (مسند امام احمد، 2/654، حدیث: 6942)

3۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف (یا اس کے بارے میں ) اس قسم کے اشارے، کنائے سے کام لے جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہراساں یا خوفزدہ کر دے۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 7/177)

4۔ حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کتے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مؤمنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے۔ (تفسیر مدارک، ص 950)

5۔ وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو دھوکا دے یا تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر کرے۔ (کنز العمال، 2/ 218، حدیث: 7822)

6۔ جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔ (معجم اوسط، 2/386، حدیث: 3607)

مسلمانوں کو کسی شرعی وجہ کے بغیر ایذا دینے کا شرعی حکم:اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے تکلیف دینا قطعی حرام ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں آپس میں اتفاق و محبت سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور مسلمانوں کی دل آزاری کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

ہم میں سے ہر ایک اس دنیا میں تنہا آتا ہے اور اکیلا ہی رخصت ہوتا ہے لیکن یہاں رہتا تنہا نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے، ہماری ذات سے کبھی کسی کو راحت پہنچتی ہے تو کبھی تکلیف اگر دیگر مسلمانوں کو ہم سے راحت پہنچے گی تو نیت خیر ہونے کی صورت میں ہمیں اس کا ثواب ملے گا بلاوجہ شرعی تکلیف پہنچائیں گے تو عذاب کی حقداری ہے۔

1۔ بلا اجازتِ شرعی مسلمان کو تکلیف دینا کتنی بڑی جرأت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔ (معجم اوسط، 2/386، حدیث:3607)

اللہ و رسول کو ایذا دینے والوں کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۵۷) (پ22، الاحزاب: 57) ترجمہ: بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا و آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

ذرا سوچئے کہ کون سا مسلمان اس بات کو گوارہ کرے گا کہ وہ اللہ و رسول اللہ کو ایذا دے اور جہنم کے عذاب کا مستحق قرار پائے۔

2۔ حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کتے اور سؤر کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مؤمنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے۔ (تفسیر مدارک، ص 950)

3۔ صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: جو شخص مسلمان کو کسی فعل یا قول سے ایذا پہنچائے اگرچہ آنکھ یا ہاتھ کے اشارے سے وہ مستحق تعزیر ہے ( تعزیر کسی گناہ پر بغرض تادیب یعنی ادب سکھانے کے لیے جو سزا دی جاتی ہے اسکو تعزیر کہتے ہیں)۔ (در مختار، 6/106)

4۔ منقول ہے: دو خصلتیں ایسی ہیں کہ ان سے افضل کوئی خصلت نہیں: اللہ پاک پر ایمان لانا اور مسلمانوں کو نفع پہنچانا، جبکہ دو خصلتیں ایسی ہیں کہ ان سے زیادہ بری کوئی خصلت نہیں: اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور مسلمانوں کو تکلیف دینا۔ (المنبہات، ص3)

5۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور تاجدار عالم ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے مسلمان کو تکلیف یا دھوکا دیا وہ ملعون ہے۔ (ترمذی، 3/378، حدیث: 1984)

پیاری بہنو! اللہ پاک کی بارگاہ میں رجوع کر لیجئے سچی توبہ کر لیجئے ٹھہریئے بندوں کی حق تلفی کے معاملے میں بارگاہ الٰہی میں صرف توبہ کرنا کافی نہیں بندوں کے جو جو حقوق پامال کیے ہوں وہ بھی ادا کرنے ہوں گے مثلاً مالی حق ہے تو اس کا حق لوٹانا ہوگا، دل دکھایا ہے تو معاف کروانا ہوگا، آج تک جس جس کا مذاق اڑایا، برے القابات سے پکارا، طنعہ زنی اور طنز بازی کی، دل آزار نقلیں اتاریں، دل دکھانے والے انداز میں آنکھیں دکھائیں غرض کسی طرح بھی بے اجازت شرعی ایذا کا باعث بنے ان سب سے فرداً فرداً معاف کروا لیجئے اگر کسی فرد کے بارے میں یہ سوچ کر معافی نہ مانگی کہ اس کے سامنے میری پوزیشن ڈاؤن ہوجائے گی تو خدارا غور فرما لیجئے قیامت کے روز یہی فرد آپ کی نیکیاں حاصل کرکے اپنے گناہ آپ کے سر ڈال دے گا تو اس وقت کیا ہوگا آج موقع ہے گڑ گڑا کر معافی مانگ کر آخرت کی عزت کی سعی فرما لیجئے۔ اللہ کرے دل میں اتر جائے میری بات!

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) (پ 26، الحجرات: 12) ترجمہ: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

فرمانِ مصطفٰی ﷺ: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف یا اس کے بارے میں اس قسم کے اشارے کنائے سے کام لے جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہراساں یا خوفزدہ کر دے۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 7/177)

فرمانِ مصطفی: بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (ابو داود، 4/ 353، حدیث: 4877)

جس نے ( بلاوجہ شرعی) کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔(معجم اوسط، 2/386، حدیث: 3607)

اگر کسی مسلمان کی ناحق دل آزاری کی ہے تو توبہ کے ساتھ ساتھ اس سے معافی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ جس کی دل آزاری کی تھی وہ تلاش کرنے کے باوجود نہیں ملتا تو ایسی صورت میں وہ اپنے لئے اور اس کے لئے ندامت کے ساتھ مغفرت کی دعا کرتا رہے اور اللہ عزوجل کی رحمت سے یہ امید رکھے کہ اللہ تعالیٰ صلح کی کوئی صورت پیدا فرما کر اسے آپ سے راضی کردے گا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے صلح فرمائے گا۔

اللہ ہمیں دوسروں کے حقوق ادا کرنے اور اپنی کثرت سے عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


دل آزاری سے مراد دل دکھانے کا عمل، ظلم و ستم، ایذا رسانی۔ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ 22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ ڈال دیا ہے۔

شان نزول: یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی، جو حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم کو ایذا دیتے اور ان کی بے ادبی کرتے تھے۔ جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے تہمت لگا کرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف پہنچائی۔ لیکن یہاں تفسیر کا ایک اصول یاد رکھیں کہ آیات کا شان نزول اگرچہ خاص ہو لیکن اس کاحکم عام ہوتا ہے۔ اس اصول سے آیت کا عام معنیٰ یہ ہواکہ جولوگ کسی مسلمان کوبلا وجہ شرعی تکلیف پہنچاتے ہیں، وہ بہتان اورکھلے گناہ کابوجھ اٹھاتے اور اس کی سزاکے حق داربنتے ہیں۔

اسلامی معاشرہ ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم دوسروں کے آرام و سکون کا ذریعہ بنیں نا کہ دوسروں کا دل دکھائیں اور انہیں تکلیف دیں۔ کیونکہ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا اسلام ہمیں اسی بات کا درس دیتا ہے کہ ہم معاشرے میں پیار، محبت وغیرہ کا ذریعہ بنیں اور دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے منع کیا گیا ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے: تم لوگوں کو (اپنے)شر سے محفوظ رکھو، یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گے۔ (بخاری،2/150، حدیث:2518)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ سرکاردو عالم ﷺ نے صحابہ کرام سے سوال کیا: کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ انہوں نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے(دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشاد فرمایا: تم جانتے ہو کہ مومن کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانیں اور اموال محفوظ سمجھیں۔ (مسند امام احمد،2/654، حدیث:6942)

اوپربیان کردہ احادیث کی مزید تفصیل نبی کریم ﷺ کے ایک اور فرمان میں موجود ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: ایک دوسرے سے حسدنہ کرو، گاہک کو دھوکا دینے اور قیمت بڑھانے کیلئے دکان دار کے ساتھ مل کر جھوٹی بولی نہ لگاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، کسی کے سودے پر سودا نہ کرو، اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے، نہ اسے ذلیل ورسوا کرے اورنہ ہی حقیر جانے۔ (پھر) آپ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا: تقویٰ یہاں ہے، اور(مزید یہ کہ) کسی شخص کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو برا جانے۔ ایک مسلمان، دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے، اس کا خون، اس کا مال اور ا س کی عزت۔ (مسلم، ص 1064، حدیث:6541)

دوسروں کو تکلیف دینا، ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ مشہور تابعی مفسرحضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جہنمیوں پرخارش مسلط کر دی جائے گی۔ تو وہ اپنے جسم کو کھجلائیں گے حتّی کہ ان میں سے ایک کی (کھال اور گوشت اترنے سے) ہڈی ظاہر ہو جائے گی۔ اسے پکار کر کہا جائے گا: اے فلاں! کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا: تو مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔ (احیاء العلوم،2/242)

اے اللہ! ہمیں ایسا بنا دے کہ ہم کبھی بھی کسی کو تکلیف نہ دیں اے اللہ ہمارے دل میں رحم ڈال کہ ہم کسی کو تکلیف نہ دیں۔ اے اللہ! ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد اچھے طریقے سے پورے کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین


قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًىؕ-وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ(۲۶۳) (پ 3، البقرۃ: 263) ترجمہ: سائل کے ساتھ نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد اس کی دل آزاری ہو اور اللہ بےنیاز بڑے حلم والا ہے۔

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: کسی مسلمان کی طرف یا اس کے بارے میں اس قسم کے اشارے کنائے سے کام لے جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہراساں اور خوفزدہ کر دے۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 7/177)

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: بیشک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (ابو داود، 4/ 353، حدیث: 4877)

دوسروں کو تکلیف دینا، ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

اگر کسی مسلمان کی ناحق دل آزاری کی ہے تو توبہ کے ساتھ ساتھ اس سے معافی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ جس کی دل آزاری کی تھی وہ تلاش کرنے کے باوجود نہیں ملتا تو ایسی صورت میں وہ اپنے لئے اور اس کے لئے ندامت کے ساتھ مغفرت کی دعا کرتا رہے اور اللہ کی رحمت سے یہ امید رکھے کہ اللہ پاک صلح کی کوئی صورت پیدا فرما کر اسے آپ سے راضی کردے گا۔ اللہ پاک قیامت کے دن اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے صلح فرمائے گا۔ کسی کے مال میں حق تلفی کی ہے مثلاً کسی کا قرض آتا ہے وہ چکا دے اور اگر ادائیگی میں تاخیر کی ہے تو معافی بھی مانگے۔ جس سے رشوت لی، جس کی جیب کاٹی، جس کے یہاں چوری کی، جس کا مال لوٹا ان سب کو ان کے مال لوٹانے ضروری ہیں یا ان سے مہلت لے یا معاف کروا لے اور جو تکلیف پہنچی اس کی بھی معافی مانگے۔ اگر وہ شخص فوت ہوگیا ہے تو وارثوں کو دے۔ اگر کوئی وارث نہ ہو تو اتنی رقم صدقہ کرے یعنی مساکین کو دے دے۔ صدقہ کر دینے کے بعد بھی اگر صاحبِ حق نے مطالبہ کر دیا تو دینا پڑے گا۔ (ظلم کا انجام، ص 54)


اللہ کریم نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسے اس بات کا درس دیا کہ وہ حسن سلوک کا مظاہرہ کرے، کسی کی دل آزاری کرنے سے خود کو محفوظ رکھے۔ دل آزاری کا معنی یہ ہے کہ کسی انسان کو اذیت پہچانا وغیرہ، آسان الفاظ میں سمجھئے تو مختصر یہ ہے کہ وہ واقعات جو کسی کے سکون، خوشی یا توقعات کے مخالف ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ 22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ ڈال دیا ہے۔

مسلمانوں کو کسی شرعی وجہ کے بغیر ایذا دینے کا شرعی حکم: اعلى حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے تکلیف دینا قطعی حرام ہے۔

مسلمان مرد و عورت کو دین اسلام میں یہ حق دیا گیا ہے کہ انہیں کوئی شخص اپنے قول اور فعل کے ذریعے نا حق ایذا نہ دے یہاں اس سے متعلق تین احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں، چنانچہ

(1)تم لوگوں کو (اپنے) شر سے محفوظ رکھو، یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گے۔ (بخاری، 2/150، حدیث:2518)

(2) کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشاد فرمایا: تم جانتے ہو کہ مومن کون ہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کی: الله اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ سمجھیں اور مہاجر وہ ہے جو گناہ کو چھوڑ دے اور اس سے بچے۔ (مسند امام احمد، 2/654، حدیث: 6942)

(3) جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔ (معجم اوسط، 2/386، حدیث: 3607) یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر الله تعالىٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائے گا۔

دل آزاری کی عموما دو اقسام ہیں: 1۔ لسانی ( یعنی زبان کے ذریعے ایسے الفاظ استعمال کرنا جس سے دوسرے انسان کو اذیت پہنچے) 2۔ فعلی ( یعنی ایسا کام کرنا جس سے دوسرا انسان اذیت میں مبتلا ہوجائے)۔

اگر غور و فکر کیا جائے تو حقیقی اسلامی معاشرہ وہی ہے، جس میں لوگ ایک دوسرے کی راحت و آرام کا خیال رکھیں، مشکل وقت میں دوسروں کے کام آئیں، کسی کو تکلیف نہ دیں اور اپنے باہمی تعلقات ملنساری، حسن اخلاق اور خیر خواہی پر استوار کریں۔ اسلام انہی چیزوں کا درس دیتا ہے اور معاشرے میں نرمی، محبت، شفقت اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھاتا اور معاشرے کو نقصان پہنچانے والے امور مثلاً بے جا شدت اور ایذا رسانی سے منع کرتا ہے۔ آپس میں اچھے تعلقات اور صلح صفائی سے زندگی گزارنا اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ لوگوں کے حقوق ضائع کرکے اور انہیں تکلیف پہنچا کر کبھی اچھے تعلقات قائم نہیں کئے جاسکتے۔

اللہ کریم ہمیں حقیقی معنوں میں اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور دل آزاری کرنے سے ہمیشہ ہمیں محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبيين ﷺ


اَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) (پ 26، الحجرات: 12) ترجمہ: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

فرمان مصطفیٰ ﷺ: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف یا اس کے بارے میں اس قسم کے اشارے کنائے سے کام لے جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہراساں یا خوفزدہ کر دے۔ (اتحاف السادة المتقين، 7/177)

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (ابو داود، 4/ 353، حدیث: 4877)

جس نے ( بلاوجہ شرعی ) کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔(معجم اوسط، 2/386، حدیث: 3607)

اگر کسی مسلمان کی ناحق دل آزاری کی ہے تو توبہ کے ساتھ ساتھ اس سے معافی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ جس کی دل آزاری کی تھی وہ تلاش کرنے کے باوجود نہیں ملتا تو ایسی صورت میں وہ اپنے لئے اور اس کے لئے ندامت کے ساتھ مغفرت کی دعا کرتا رہے اور اللہ کی رحمت سے یہ امید رکھے کہ اللہ تعالیٰ صلح کی کوئی صورت پیدا فرما کر اسے آپ سے راضی کردے گا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے صلح فرمائے گا۔

پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: آدمی اپنے اخلاق کی وجہ سے ان لوگوں کا مرتبہ پالیتا ہے جو راتوں کو عبادت کرتے ہیں دن کو روزہ رکھتے ہیں۔

دوسروں کو تکلیف دینا نا جائز وحرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ مشہور تابعی مفسر حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جہنمیوں پر خارش مسلط کر دی جائے گی۔ تو وہ اپنے جسم کو کھجلائیں گے حتی کہ ان میں سے ایک کی کھال اور گوشت اترنے سے ہڈی ظاہر ہو جائے گی۔ اسے پکار کر کہا جائے گا۔ اے فلاں! کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا: تو مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔ (احیاء العلوم، 2/242)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دوسروں کی دل آزاری کرنے سے بچائے۔ آ مین یارب العالمین 

دل آزاری یہ ایک انتہائی بری صفت ہے، فرمان الٰہی ہے: وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ 22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ ڈال دیا ہے۔

حضرت مجاہد کا قول ہے کہ جہنمیوں پر خارش مسلط کر دی جائیگی جو تیزی سے ان کا گوشت ختم کر کے ان کی ہڈیاں نمایاں کر دے گی تب ندا آئے گی اے فلاں کیا خارش تجھے تکلیف دیتی ہے وہ کہے گا ہاں آواز آئے گی یہ مسلمان کو تکاليف دینے کا تیرے لیے بدلہ ہے۔ (احیاء علوم الدین، 2/ 242)

مسلمانوں کوناحق ایذا اور تکلیف نہ دی جائے یاد رہے کہ مسلمان مردو عورت کو دین اسلام میں یہ حق دیا گیا ہے کہ انہیں کوئی شخص اپنے قول اور فعل کے ذریعے نا حق ایذا نہ دے یہاں اس سے متعلق احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہیں ان کو پڑھ کر اپنے لیے عبرت کا سامان کیجیے۔

1۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوفزدہ کرے۔ (معجم اوسط، 1/400، حدیث: 1673)

2۔ اللہ پاک مومن کی تکلیف کو نا پسند فرماتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص488)

3۔ بیشک کسی مسلمان کی بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (ابو داود، 4/ 353، حدیث: 4877)

4۔ جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ پاک کو ایذا دی۔ (معجم اوسط، 2/386، حدیث: 3607)

5۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کی طرف ( يا اس کے بارے میں ) اس قسم کے اشارے کناے سے کام لے جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کے کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہراساں یا خوف زدہ کرے۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 7 /177)

6۔ مومن وہ ہے جس سے دوسرے مسلمان اپنی جان اور اموال سے بے خوف ہوں اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (مستدرک، 1/185، حدیث: 24)

7۔ مسلمان کی سب چیزیں مسلمان پر حرام ہیں اس کا مال اس کی آبرو اور اس کا خون آدمی کو برائی سے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ (غیبت کی تباہ کاریاں، ص102)

اللہ کریم ہمیں دل آزاری جیسے گناہ سے محفوظ فرمائے اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ 22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ ڈال دیا ہے۔

صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر میں ہے: ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم کو ایذا دیتے تھے اور ان کی شان میں بدگوئی کرتے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں نازل ہوئی۔ یاد رہے کہ اس کا شان نزول اگر چہ خاص ہے لیکن اس کا حکم تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو عام ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جولوگ ایمان والے مردوں اور عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جس سے انہیں اذیّت پہنچے حالانکہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہوتا جس کی وجہ سے انہیں اذیت دی جائے توان لوگوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھالیا اور خود کو بہتان کی سزا اور کھلے گناہ کے عذاب کا حق دار ٹھہرا لیا ہے۔ (تفسیر مدارک، ص 950)

مسلمانوں کو ناحق ایذا اور تکلیف نہ دی جائے، یاد رہے کہ مسلمان مردو عورت کو دین اسلام میں یہ حق دیا گیا ہے کہ انہیں کوئی شخص اپنے قول اور فعل کے ذریعے نا حق ایذا نہ دے یہاں اس سے متعلق تین احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہیں ان کو پڑھ کر اپنے لیے عبرت کا سامان کیجیے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔ (معجم اوسط، 2/ 386، حدیث: 3607) یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائے گا۔

2۔ بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (ابو داود،4/353، حدیث: 4877)

3۔ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف یا اس کے بارے میں اس قسم کے اشارے کنائے سے کام لے جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہراساں یا خوفزدہ کر دے۔ (اتحاف السادۃ المتقین،7/177)

آیت و احادیث کی روشنی میں یہ حکم روز روشن کی طرح واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ دوسروں کو تکلیف دینا، قبیح جرم اور کبیرہ گناہ ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اسلام کا یہ خوب صورت حکم جس طرح پس پشت ڈالا گیا ہے وہ شرمناک حد تک قابل افسوس ہے۔

حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کتے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مؤمنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے۔ (تفسیر مدارک، ص 950)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل آزاری ایسے برے امور میں شامل ہے جو دوسروں کو ہم سے دور کرنے کا باعث بن سکتی ہے، یہ آپس میں نفرت پھیلانے والا کام ہے،لوگ ایسے شخص کے پاس بیٹھنا،بات چیت کرنا پسند نہیں کرتے جو دل آزاری جیسی بری عادت کا شکار ہوتے ہیں، کاش!ہم ہر ایک سے اللہ پاک کی رضا کے لیے خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنے والے بن جائیں، محبتیں بانٹیں اور نفرتیں مٹانے والے بن جائیں۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

ہمیں کسی بھی مسلمان کی دل آزاری نہیں کرنی چاہیئے ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے، مسلمان کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کو ایذا دینے سے بچا جائے یاد رہے ! کسی مسلمان کی دل آزاری گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے تکلیف دینا قطعی حرام ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ 22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔ (فتاویٰ رضویہ، 24 /425 ، 426)

احترام مسلم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر حال میں مسلمان کے حقوق کا خیال رکھا جائے بلا اجازت شرعی کسی بھی مسلمان کی دل شکنی نہ کی جائے کیونکہ پیارے اقا ﷺ نے کبھی بھی کسی مسلمان کا دل نہ دکھایا نہ کسی پر طنز کیا اور نہ کسی کا مذاق اڑایا۔ یاد رکھیے! دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے، حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا: لوگوں میں سب سے زیادہ غم زدہ شخص کون ہے؟ فرمایا: جو سب سے زیادہ بد اخلاق ہے۔ (رسالہ قشیریہ، ص 276)

لہٰذا ہمیں اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہیئے کیونکہ اکثر دل آزاری زبان سے ہی ہوتی ہیں۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ: انسان کی اکثر خطائیں اس کی زبان سے ہوتی ہیں۔ احادیث میں بھی دل آزاری کے حوالے سے منع کیاگیا ہے چنانچہ ایک حدیث شریف پیش خدمت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشاد فرمایا: تم جانتے ہو مومن کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا: مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ سمجھیں اور مہاجر وہ ہے جو گنا کو چھوڑ دے اور اس سے بچے۔ (مسند امام احمد، 2/654، حدیث:6942)

بزرگان دین کے اقوال:

1۔ حضرت فضیل فرماتے ہیں: کتے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مومنین اور مومنات کو ایذا دینا کس قدر بد ترین جرم ہے۔ (تفسیر مدارک، ص 950)

2۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں: جہنمیوں پر خارش مسلط کر دی جائے گی تو وہ اپنے جسم کو کھجلائیں گے حتی کہ ان میں سے ایک کے چمڑے سے ہڈی ظاہر ہو جائے گی تو اسے پکارا جائے گا: اے فلاں! کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا: تو مسلمان کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اسی کی سزا ہے۔ (احیاء علوم الدین، 2/242)

ہمیں چاہیے کہ اگر ہم سے کسی کی دل آزاری ہو جائے تو فوری طور پر معافی مانگ لیں ورنہ اس کا حساب دینا روز محشر مشکل ہو جائے گا اور جس کی دل آزاری ہو گئی ہے وہ بھی دل بڑا کر کے معاف کر دے کہ اللہ معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔