قوم عاد کون
ہیں؟ قوم عاد دوہیں یعنی یہ دو قوموں کا نام ہے۔ (1)۔عاد اولی، اور (2)۔عاد ثانیہ۔
ان دونوں قوموں میں سو سال کا فاصلہ تھا۔ عاد ثانیہ کو "قوم ثمود" بھی
کہتے ہیں۔ مضمون ہذا میں "قوم عاد اولٰی" مراد ہے۔ جوکہ اللہ کے نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السّلام کی قوم
ہے۔تفسیر صراط الجنان میں ہے: "قوم عاد دو ہیں:عادِ اُوْلیٰ یہ حضرت
ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے
اور عادِثانیہ،یہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں ان دونوں کے درمیان سو برس
کا فاصلہ ہے۔ یہاں عادِ اُولیٰ مراد ہے۔" (جمل، الاعراف، تحت الآیۃ: ٦٥، ۳ / ۵۸، روح البیان، الاعراف، تحت
الآیۃ: ٦٥، ۳ / ۱۸۵)
قرآن مجید،
برہان رشید میں اللہ تبارک وتعالی نے اس قوم کے تعارف اور اپنے نبی،
حضرت ہود علیہ السّلام کی
دعوت دین بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا
لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵)
ترجمہ
کنزالعرفان: اور قومِ عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا۔( ہود نے) فرمایا: اے
میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں
۔ تو کیا تم ڈرتے نہیں؟ ۔ (اعراف : 65)
آیت مذکورہ
بالا سے "قوم عاد کا تعارف" بھی واضح ہوگیا کہ وہ کون تھے؟ وہ اللہ کے نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السّلام کے ہم قوم
تھے۔ اور ساتھ ہی "اللہ کے نبی
کی دعوت دین" بھی واضح ہوگئی کہ آپ نے انہیں اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت اور اس کے غیر کی پوجا یعنی
بت پرستی سے روکا اور کہا کہ "کیا وہ اپنے رب سے نہیں ڈرتے؟" قارئین
کرام!قوم عاد بھی ایک نافرمان قوم تھی۔ چنانچہ آیت مذکورہ بالا اور اگلی چند آیت اللہ کے نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السّلام اور ان کی
قوم "قوم عاد" کے درمیان واقع مکالمہ کو بیان کر رہی ہیں۔ لیکن ان آیات
کو پیش کرنے سے پہلے اس پورے واقعے کا خلاصہ قارئین کرام کی نظر ہے۔ چنانچہ مفتی اہلسنت، شیخ الحدیث والتفسیر مولانا
مفتی قاسم عطاری زید مجده اپنی تفسیر قرآن بنام تفسیر صراط الجنان میں قصے کی منظر
کشی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
اس آیت اور
اگلی چند آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے قومِ عاد کی ہدایت کے لئےان کے ہم قوم حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کو ان کی طرف بھیجا ۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:’’ اے میری قوم ! تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی
معبود نہیں ، کیا تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا
؟اس پرقوم کے کافر سردار بولے: ہم توتمہیں بیوقوف سمجھتے اور جھوٹا گمان کرتے ہیں
اور تمہیں رسالت کے دعویٰ میں سچا ہی نہیں جانتے ۔
کفار کا حضرت
ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں یہ گستاخانہ کلام کہ’’ تمہیں
بے وقوف سمجھتے ہیں ‘ جھوٹا گمان کرتے ہیں ‘‘انتہا درجہ کی بے ادبی اور کمینگی
تھی اور وہ اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سخت ترین جواب دیا جاتا مگر حضرت
ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے اخلاق و ادب اور شانِ حلم سے جو
جواب دیا اس میں شانِ مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور اُن کی جہالت سے چشم پوشی
فرمائی چنانچہ فرمایا :اے میری قوم ! بے وقوفی کامیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں میں تو
ربُّ العالمین کا رسول ہوں۔ میں توتمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پیغامات
پہنچاتا ہوں اور تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخواہ ہوں اور کیا تمہیں اس بات پر
تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے تمہیں میں سے ایک
مرد کے ذریعے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے
ڈرائے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کے
یہ احسان یاد کرو کہ اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا اور تمہیں عظیم
جسمانی قوت سے نوازا کہ قد کاٹھ اور قوت دونوں میں دوسروں سے ممتاز بنایا تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے
احسانات یاد کرو، اس پر ایمان لاؤ اور اطاعت و بندگی کا راستہ اختیار
کرو۔
حضرت
ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ اپنی قوم کی بستی سے علیحدہ
ایک تنہائی کے مقام میں عبادت کیا کرتے تھے، جب آپ کے پاس وحی آتی تو قوم کے پاس
آکر سنادیتے ، اس وقت قوم یہ جواب دیتی کہ کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اگر
تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔ حضرت ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: بیشک تم پر تمہارے
رب عَزَّوَجَلَّ کا عذاب اور غضب لازم ہوگیا۔ قومِ عاد پر آنے والے
عذاب کی کیفیت کا بیان چند آیات کے بعد مذکور ہے اور اس کے علاوہ یہ واقعہ سورہ
ہود آیت نمبر50تا 60میں بھی مذکور ہے۔" (تفسیر صراط الجنان)
قوم
عاد کی نافرمانیاں:
تفسیر صراط الجنان کی مذکورہ بالا عبارت سے قوم
عاد کی نافرمانی اور ہٹ دھرمی کا خوب اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سامان راحت اور
تشفی قلب کی خاطر یہاں ان نافرمانیوں کا تفصیلی ذکر کیا جاتا ہے تاکہ میری یہ تحریر
اہل عقل و فہم کیلئے سامان عبرت اور ذریعۂ اصلاح و نجات آخرت بن سکے۔ چنانچہ جب اللہ کے
نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السلام نے اپنی قوم "قوم عاد" سے کہا:
"اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی
معبود نہیں، تو کیا تم ڈرتے نہیں؟"
تو معاذ اللہ ان عقل کے اندھوں نے اللہ کے نبی کو بیوقوف
کہ ڈالا۔ چنانچہ اللہ تبارک
و تعالیٰ قرآن مجید، برہان رشید میں فرماتا ہے:
1۔ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ
قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ (۶۶) ترجمہ کنزالعرفان: اس کی قوم کے کافر سردار بولے
،بیشک ہم تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں۔ (اعراف: 66) معاذاللہ! یہ ہود علیہ السلام کی پہلی گستاخی
اور نافرمانی تھی اور اتنے ظلم پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ ان بدنصیبوں نے اللہ کے
نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السلام کو معاذاللہ جھوٹا تک کہ دیا۔ چنانچہ قرآن حکیم میں
ان جفاکاروں کا قول یوں حکایت کیا گیا۔
2۔ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ
الْكٰذِبِیْنَ(۶۶)۔ ترجمہ کنزالعرفان: اور بیشک ہم تمہیں
جھوٹوں میں سے گمان کرتے ہیں۔ یہ ان کی جانب سے دوسری گستاخی اور نافرمانی تھی۔
سبحان
اللہ! اللہ کے
نبی علیہ السلام پہ راہ خدا میں اتنے سخت جملے کسے گئے جن کے وہ قطعاً مستحق نہ
تھے کیونکہ اللہ کے
تمام نبی معصوم ہیں۔ مگر پھر ان کی ذات ِبابرکات سے کمال شان حلم کا ظہور ہوا
چنانچہ ان کے قول کو حکایت کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی قرآن حکیم میں ارشاد
فرماتا ہے: قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ
الْعٰلَمِیْنَ(۶۷) اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا
لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ(۶۸) ترجمہ کنزالعرفان: (ہود نے) فرمایا: اے میری قوم! میرے ساتھ بے وقوفی کا کوئی
تعلق نہیں ۔ میں تو ربُّ العالمین کا رسول ہوں۔ میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات
پہنچاتا ہوں اور میں تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخواہ ہوں۔(تفسیر صراط الجنان)
کافروں نے
گستاخی کرکے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مَعَاذَاللہ بیوقوف
کہا، جس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بڑے تحمل سے جواب دیا کہ
بیوقوفی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اورا س کی وجہ بالکل واضح ہے کہ انبیاءِ
کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کامل عقل والے ہوتے ہیں اور ہمیشہ
ہدایت پر ہوتے ہیں۔تمام جہان کی عقل نبی کی عقل کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے سمندر
کا ایک قطرہ کیونکہ نبی تو وحی کے ذریعے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے علم و عقل
حاصل کرتا ہے اور اس چیز کے برابر کوئی دوسری چیز کا ہونا محال(یعنی ناممکن) ہے۔
(تفسیر صراط الجنان)
فائدہ:
اس آیت سے
دو مسئلے معلوم ہوئے:
(1) جاہل اور
بیوقوف لوگوں کی بد تمیزی و جہالت پر بُردباری کا مظاہرہ کرنا سنت ِ انبیاءعَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے ۔
(2) اہلِ علم و کمال کو ضرورت کے موقع پر اپنے منصب
و کمال کا اظہار جائز ہے ۔ (تفسیر صراط
الجنان)
اللہ کے نبی حضرت سیدنا ہود علیہ السلام نے دعوت حق دیتے
ہوئے ارشاد فرمایا: اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ
مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْؕ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ
قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةًۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ
اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۶۹) ترجمہ کنزالعرفان: اور کیا تمہیں
اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے
نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد جانشین
بنایا اور تمہاری جسامت میں قوت اور وسعت زیادہ کی تو اللہ کی نعمتیں یاد
کروتا کہ تم فلاح پاؤ۔
فائدہ
:
اللہ تعالیٰ
نے قومِ عاد کو سلطنت اور بدنی قوت عطا فرمائی تھی ،چنانچہ شداد ابنِ عاد جیسا بڑا
بادشاہ انہیں میں ہوا۔ یہ بہت لمبے قد والے اور بڑے بھاری ڈیل ڈول والے تھے۔ (تفسیر
صراط الجنان)
لیکن ان بدنصیبوں
پہ اللہ کے
نبی علیہ السلام کی
حلم سے لبریز دعوت حق نے بھی اثر نہ کیا ،
یوں ان کی سرکشی اور نافرمانی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا چنانچہ اس اثر
انگیز پھولوں کے جواب میں انہوں نے جو کہا۔ اسےحکایت کرتے ہوئے اللہ تبارک
وتعالی قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے: قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ نَذَرَ مَا كَانَ
یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۷۰) " ( ترجمہ
کنزالعرفان: قوم نے کہا: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کی
عبادت کریں اور جن چیزوں کی عبادت ہمارے باپ داداکیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اگر
تم سچے ہو تو لے آؤ وہ (عذاب) جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔ ( اعراف : 68 )
معاذ اللہ ! ان
ظالموں کو اپنے باپ، دادا کی اندھی تقلید نے کہیں کا نہ چھوڑا اور وہ اپنے نبی کو
عذاب لانے کا چیلنج کرکے اللہ رب العزت اور اس کے نبی کی نافرمانی
کا قبیح ارتکاب کر بیٹھے۔ بہر حال جب ان کی اس سرکشی نے طول پکڑا تو اللہ کے
نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: قَالَ قَدْ وَ قَعَ عَلَیْكُمْ مِّنْ
رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌؕ-اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ
سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ
سُلْطٰنٍؕ-فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(۷۱) " ( ترجمہ کنزالعرفان: فرمایا: بیشک تم پر تمہارے رب کا
عذاب اور غضب لازم ہوگیا۔ کیا تم مجھ سے ان ناموں کے بارے میں جھگڑ رہے ہو جو تم
نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں
اتاری تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔(اعراف : 71)
(تفسیر صراط الجنان)
حضرت
ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ تم پر تمہارے
رب عَزَّوَجَلَّ کا غضب لازم ہوگیا اور تمہاری سرکشی سے تم پر عذاب آنا
واجب و لازم ہوگیا۔ کیاتم فضول ناموں یعنی بتوں کے بارے میں جھگڑتے ہو جنہیں
تمہارے باپ دادا نے گھڑ لیا اور انہیں پوجنے لگے اور معبود ماننے لگے حالانکہ اُن
کی کچھ حقیقت ہی نہیں ہے اور وہ اُلُوہِیّت کے معنی سے قطعاً خالی و عاری ہیں۔(تفسیر
صراط الجنان)
اللہ کی نافرمانیوں کا انجام :
اس
کے بعد کیا ہوا؟ اللہ تبارک
وتعالیٰ نے قوم عاد پہ عذاب بھیجا جس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تبارک و
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ
بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ
مَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ۠(۷۲) ( ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے اسے اور
اس کے ساتھیوں کو اپنی رحمت کے ساتھ نجات دی اور جو ہماری آیتیں جھٹلاتے تھے ان کی
جڑ کاٹ دی اور وہ ایمان والے نہ تھے۔ اعراف:72)
حضرت
ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل ہونے کا واقعہ:
اس کامختصر
واقعہ یہ ہے کہ قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے درمیان
علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے۔ قومِ عاد نے زمین کو فِسق سے بھر دیا تھا۔ یہ لوگ
بت پرست تھے ان کے ایک بت کا نام’’ صُدَائ‘‘اور ایک کا ’’صُمُوْد‘‘ اور ایک کا ’’
ہَبائی‘‘ تھا۔ اللہ تعالیٰ
نے ان میں حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معبوث فرمایا آپ
نے اُنہیں توحید کا حکم دیا ،شرک وبُت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی، لیکن
وہ لوگ نہ مانے اورآپ کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زور آور کون ہے؟
اُن میں سے صرف چند آدمی حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر
ایمان لائے جو بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی مجبوراً اپنا ایمان چھپائے رکھتے تھے۔
اُن مؤمنین میں سے ایک شخص کا نام مرثدبن سعد
تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھا ۔جب قوم نے سرکشی کی اور اپنے نبی حضرت ہودعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں
زیادتی کی اور بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بنائیں تو اللہ تعالیٰ
نے ان پر بارش روک دی، تین سال بارش نہ ہوئی اب وہ بہت مصیبت میں مبتلا ہوئے اور
اس زمانہ میں دستور یہ تھا کہ جب کوئی بلایا مصیبت نازل ہوتی تھی تو لوگ بیتُ
الحرام میں حاضر ہو کر اللہ تعالیٰ سے اس مصیبت کو دور کرنے
کی دعا کرتے تھے، اسی لئے ان لوگوں نے ایک وفد بیتُ اللہ کو
روانہ کیا اس وفد میں تین آدمی تھے جن میں مرثد بن سعد بھی تھا یہ وہی صاحب ہیں جو حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام پر ایمان لائے تھے اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے۔
اس زمانہ میں مکہ مکرمہ میں عمالیق کی سکونت تھی
اور ان لوگوں کا سردار معاویہ بن بکر تھا، اس شخص کا ننھیال قومِ عاد میں تھا، اسی
علاقہ سے یہ وفد مکہ مکرمہ کے حوالی میں معاویہ بن بکر کے یہاں مقیم ہوا۔ اُس نے
اُن لوگوں کی بہت عزت کی اور نہایت خاطر و مدارت کی، یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور
باندیوں کا ناچ دیکھتے تھے۔ اس طرح انہوں نے عیش و نشاط میں ایک مہینہ بسر کیا
۔معاویہ کو خیال آیا کہ یہ لوگ تو راحت میں پڑ گئے اور قوم کی مصیبت کو بھول
گئے جو وہاں گرفتار ِبلا ہے مگر معاویہ بن بکر کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر وہ ان
لوگوں سے کچھ کہے تو شاید وہ یہ خیال کریں کہ اب اس کو میزبانی گراں گزرنے لگی ہے
اس لئے اُس نے گانے والی باندی کو ایسے اشعار دیئے جن میں قومِ عاد کی حاجت کا
تذکرہ تھا جب باندی نے وہ نظم گائی تو ان لوگوں کویاد آیا کہ ہم اس قوم کی مصیبت کی
فریاد کرنے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجے گئے ہیں۔
اب انہیں خیال ہوا کہ حرم شریف میں داخل ہو کر
قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں ، اس وقت مرثد بن سعد نے کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
قسم ، تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، البتہ اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اوراللہ تعالیٰ
سے توبہ کروتو بارش ہو گی، اس وقت مرثد نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا۔ اُن لوگوں
نے مرثدکو چھوڑ دیا اور خود مکہ مکرمہ جا کر دعا کی اللہ تعالیٰ نے تین قسم کے بادل بھیجے،
ایک سفید، ایک سُرخ اور ایک سیاہ۔ اس کے ساتھ آسمان سے ندا ہوئی کہ اے قِیْل! اپنے
لئے اور اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک بادل اختیار کر، اُس نے اِس خیال سے سیاہ
بادل کو اختیار کیا کہ اس سے بہت پانی برسے گا چنانچہ وہ بادل قومِ عاد کی طرف چلا
اور وہ لوگ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے مگر اس سے ایک ہوا چلی جو اس شدت کی تھی کہ
اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر وہ لوگ
گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند کرلئے مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے اُس
نے دروازے بھی اکھیڑ دیئے اور ان لوگوں کو ہلاک بھی کردیا اور قدرتِ الٰہی سے سیاہ
پرندے نمودار ہوئے جنہوں نے اُن کی لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا ۔
حضرت
ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مؤمنین کو لے کر قوم سے جدا ہوگئے
تھے اس لئے وہ سلامت رہے، قوم کے ہلاک ہونے کے بعدوہ ایمانداروں کو ساتھ لے
کر مکہ مکرمہ تشریف لائے اور آخر عمر شریف تک وہیں اللہ تعالیٰ
کی عبادت کرتے رہے۔(تفسیر صراط الجنان) وماعلینا الا البلاغ المبین
قوم عادمقام احقاف میں رہتی تھی جو عمان و حضر موت کے
درمیان ا یک بڑا ریگستان ہے ان کے مورث اعلیٰ کا نام عادبن آدم بن سام بن نوح ہے،
پوری قوم کے لوگ ان کے مور ث اعلیٰ عاد کے نام سے پکارنے لگے، یہ لوگ بت پرست
اوراور بہت بد اعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ
السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجا اور اس قوم نے اپنے تکبر اور سرکشی کی
وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلادیا اور اپنے کفر پرڈٹے رہے، حضرت ہود علیہ
السلام بار بار ان سرکشوں کو عذاب الہی سے ڈراتے رہے، مگر اس شریر قوم نے نہایت ہی
بے باکی اور گستاخی کے ساتھ ا پنے نبی سے یہ کہہ دیا کہ :
قَالُوۡا یٰہُوۡدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَۃٍ وَّمَا نَحْنُ
بِتَارِکِیۡۤ اٰلِہَتِنَا عَنۡ قَوْلِکَ وَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیۡنَ ، اِنۡ
نَّقُوۡلُ اِلَّا اعْتَرٰىکَ بَعْضُ اٰلِہَتِنَا بِسُوۡٓءٍؕ ۔ ترجمہ کنزالالعرفان : اے ہود تم ہمارے پاس کوئی دلیل لے کر
نہیں آئے اور ہم صرف تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو چھوڑ نے والے نہیں ہیں اور نہ
ہی تمہاری بات پر یقین کرنے والے ہیں۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود
نے تم پر کوئی برائی پہنچادی ہے۔(سورہ ہود آیت : ۵۳۔۵۴)
اور سورہ اعراف میں ہے کہ انہوں نے یہ کہا: قَالُوۡۤا
اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللہَ وَحْدَہٗ وَنَذَرَ مَاکَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا ۚ
فَاۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۷۰﴾ ترجمہ کنزالعرفان : قوم نے کہا: کیا تم ہمارے پاس اس لیے
آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور
جن چیزوں کی عبادت ہمارے باپ داداکیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اگر تم سچے ہو تو
لے آؤ وہ (عذاب) جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو ۔ (سورہ اعراف آیت نمبر :70 )
سَوَآءٌ
عَلَیْنَاۤ اَوَ عَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَۙ(۱۳۶) ترجَمۂ کنزُ العرفان: ہمارے اوپر برابر
ہے کہ آپ ہمیں نصیحت کریں یا آپ نصیحت کرنے والوں میں سے نہ ہوں ۔ ( الشعراء :
136 )
اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَۙ(۱۳۷) وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَۚ(۱۳۸) ترجمہ کنزالعرفان ، و ہ تو صرف پہلے لوگوں کی بنائی ہوئی
جھوٹی باتیں ہیں، اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا۔(سورہ الشعرا ، آیت نمبر : 137)
تو رب عزوجل نے پھر
قوم عاد کے لیے فرمایا: وَ تِلْكَ عَادٌ ﳜ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ
عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹) وَ اُتْبِعُوْا فِیْ
هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور یہ عاد ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا
انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانئ كی اور ہر بڑے سرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے اور اس دنیا میں اور قیامت کے دن ان
کے پیچھے لعنت لگادی گئی۔(سورہ ھود آیت نمبر: ۵۹۔۶۰)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پچھلی قوموں کے واقعات کو پڑھ
کر ان سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اور حضور علیہ الصلوة والسلام کا فرمانبردار بنائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان ہے، تم مجھ پر
درود شریف پڑھو اللہ کریم تم پر رحمت بھیجے گا۔
قوم عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھی، اللہ تعالیٰ نے
اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا، حضرت ہود علیہ
السلام اللہ تعالیٰ کے بہت ہی پیارے نبی تھے، حضرت ہود علیہ ا لسلام ان کو بار بار
اسلام کی دعوت دیتے رہے، لیکن یہ اپنے کفر پر اڑے رہے اور اسلام نہ لائے حضرت ہود
علیہ السلام بار بار ان کو دین اسلام کی لیکن یہ اپنے تکبر اور سرکشی میں مست تھے،
قوم عاد مقام احقاف میں رہتی تھی، جوعمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان ہے
ان کے مورث اعلیٰ کا نام عادبن عوض بن ارم بن سام ہے بن نوح ہے پوری قوم کے لوگ ان
کو مورث اعلیٰ عاد کے نام سے پکارنے لگے، قوم عاد کے لوگ بہت زیادہ بت پرست اور
بداعمال و بدکردار تھے قوم عاد اپنے غرور اور تکبر میں اڑی رہی اور حضرت ہود علیہ
السلام کو جھٹلاتی رہی، مگر اس قوم نے نہایت ہی بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے
نبی سے یہ کہہ دیا کہ تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ تعالیٰ کو پوجیں
اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ، انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے
ہو، اگر سچے ہو، آخر کار قوم عاد پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب آنا شروع ہوگیا
مسلسل تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی، قوم عاد جو تھی وہ بڑی طاقتور اور قد آور قوم
تھی ان لوگوں کی مالی خوشحالی بھی نہایت مستحکم تھی کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور
ہرے بھرے باغات ان کے پاس تھے، قوم عاد نے رہنے کے لیے پہاڑوں کو تراش کر گرمیوں
اور سردیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ محلات تعمیر کیے تھے گرمیوں میں علیحدہ کوٹھیوں
میں اور سردیوں میں علیحدہ کوٹھیوں میں رہتی تھے ان لوگوں کو اپنی کثرت اور اور
طاقت پر بڑا اعتماد اپنے مال اور سامان عیش و عشرت پر بڑا ناز تھا ، مگر کفر اور
بداعمالیوں وبدکاریوں کی نحوست نے ان لوگوں کو قہر الہی میں اس طرح گرفتار کررکھا
تھا کہ جھونکوں اور جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر چکنا چور کردیا، حضرت
ہود علیہ ا لسلام کی پوری قوم صفحہ ہستی سے مٹ گئی، اور ان کی قبروں کانشان بھی
باقی نہ رہا، حضرت ہود علیہا لسلام کی قوم عذاب الہی کے جھٹکوں کی تاب نہ لاسکی،
تو پھر ہم جیسی کمزور قوموں کا کیا ٹھکانہ ہے؟ اس لیے جن لوگوں کو اپنی اور اپنی
نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے انہیں لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
نافرمانیوں اوربداعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں۔حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کے لوگ
اناج کے ذرہ ذرہ کو ترس گئے،ان کو کھانے کے لیے ایک دانہ بھی نہ ملا۔
اس زمانے کا یہ طر
یقہ تھا کہ جب بھی کوئی مصیبت آئی تولوگ خانہ
کعبہ یعنی اللہ تعالیٰ کے گھر میں جا کر دعائیں مانگتے تھے، جو بلائیں آتیں تھیں
وہ ٹل جاتیں تھیں، چنانچہ ان کی ایک جماعت مکہ معظمہ گئی اس جماعت میں مرثد بن سعد
نامی ایک شخص تھا جو مسلمان تھا، مگر وہ اپنے ایمان کو پوری قوم سے چھپائے ہوئے
تھا، جب ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے پاک کعبہ معظمہ میں جا کر دعا مانگنی شروع کی،
تو جو شخص مسلمان تھا اس کا جذبہ ایمانی بیدار ہوگیا اس نے اپنی پوری قوم سے کہا
یعنی سمجھایا کہ تم لاکھ دعائیں مانگو پانی نہیں برسے گا، جب تک تم اللہ تعالیٰ کے
نبی حضرت ہود علیہ ا لسلام پرایمان نہ لاؤ حصرت مرثد بن سعد نامی شخص نے جب اپنا
ایمان ظاہر کیا تو قوم کے لوگوں نے ان کو مارنا شروع کردیا قوم عاد کے لوگ بہت
زیادہ شریر اور گناہ گار تھے، حضرت مرثد بن سعدنامی شخص کو قوم عاد کےلوگوں نے الگ
کردیا، اور دعائیں مانگنے لگے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے تین بدلیاں بھیجیں، جن کے
رنگ مختلف تھے ایک سفید ایک سرخ ایک سیاہ، اس سے ایک آواز آئی کہ اے قوم عاد تم
اپنے لیے ایک بدلی کو پسند کرلو، یہ آواز آسمان کی طرف سے آئی ان لوگوں نے اپنے
لیے کالی بدلی کو پسند کیا، یہ لوگ اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی
چنانچہ وہ ابر قوم عاد کی طرف چل پڑا، قوم عاد کے لوگ کالی بدلی کو دیکھ کر بہت
خوش ہوئے۔
حضرتِ ہود علیہ ا
لسلام نے فرمایا کہ اے میری قوم دیکھ لو عذابِ الہی ابر کی صورت میں تمہاری طرف
بڑھ رہا ہے قوم عاد کے گستاخ لوگوں نے حضرت ہود علیہ السلام کو
جھٹلادیااور کہا کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب کہتے تھے ؟ کہ یہ تو بادل ہے جو ہمیں
بارش دینے کے لیے آیا ہے، یہ بادل پچھم کی طرف سے آبادیوں کی طرف بڑھتا رہا، اور
ایک دم ناگہانی اس میں سے ایک آندھی آئی جو اتنی شدید تھی کہ اونٹوں کو مع ان کے
سوار کے اڑا کر کہیں سے کہیں پھینک دیتی تھی، پھر اتنی زوردار ہوگی کہ درختوں کو
جڑوں س اکھاڑ کر لے جانے لگی، یہ دیکھ کر قوم عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین محلوں
میں داخل ہو کر دروازوں کو بند کرلیا مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازوں کو اکھاڑ
کر لے گئے بلکہ پوری عمارتوں کوجھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی، سات رات اور
آٹھ دن مسلسل یہ آندھی چلتی رہی یہاں تک کہ قوم عاد کا ایک آدمی تک باقی نہ رہا،
قوم قوم عاد کے سارے لوگ اور بچے فنا
ہوگئے، سات رات اور آٹھ دن کے بعد جب یہ آندھی ختم ہوگئی تو قوم عاد کے لوگوں کی لاشیں زمین پر اس طرح
پڑھیں تھیں جس طرح کھجوروں کے درخت زمین پر پڑے ہوتے ہیں۔
پھر قدرت خداوندی
کا حکم اس طرح ہوا کہ کالے رنگ کے پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے ان کی لاشوں
کو اٹھا کر سمندر میں ڈال دیا، حضرت ہود علیہ ا لسلام کی قوم ایمان نہ لائی، حضرت
ہود علیہ السلام نے اس بستی کو چھوڑ دیا، اور چند مومنین کو جو ایمان لائے تھے ان
کو لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے اور آخر زندگی تک بیت اللہ شریف میں عبادت کرتے رہے۔
قرآن مجید کی یہ
آیتیں ہمیں جھنجھوڑ کر یہ سبق دے ر ہی ہیں کہ نیکی کی تاثیر آبادی اور بدی کی
تاثیر بربادی ہے، یعنی بہت سی بستیاں اپنی بدکاریوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے
ہلاک و برباد کردی گئیں جیسا کہ حضرت ہود علیہ السلام کی بستی تھی اللہ تعالی قرآن
مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے توضر ور ہم ان
پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، مگر انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان
کے کیے پر گرفتار کیا۔
طوفانِ نوح کے بعد مسلمانوں نے جودی پہاڑ کے قریبی علاقے میں رہنا شروع کیا۔
ان کی اولاد میں اضافہ ہوا تو لوگ دور دراز کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ انہیں میں
سے ایک قبیلہ جزیرہ عرب کے جنوبی طرف یمن کے ریتلے ٹیلوں والے علاقے ”احقاف“ میں قیام
پذیر ہوا۔ یہ قبیلہ اپنے والد ”عاد“ یا بادشاہ ”عاد“ کی نسبت سے ”قومِ عاد“ کہلایا۔
اس قوم کے لوگ صحت مند ، طاقتور اور لمبی عمروں والے تھے لیکن ایمان و عمل کے
اعتبار سے پستی کا شکار تھے چنانچہ بتوں کی پوجا، لوگوں کا مذاق اڑانا اور لمبی
زندگی کی امید پر مضبوط محل بنانا ان کے عام معمولات تھے۔ اللہ تعالی نے ان
کی ہدایت کے لیے حضرت ہود علیہ السّلام کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ مگر
اس قوم نے ان کی نافرمانیاں کیں۔ جن میں سے چند کا تذکرہ مندرجہ ذیل ہے۔
حضرت ہود علیہ السّلام کی قوم کو نصیحت اور ان کا گستاخانہ جواب :
حضرت
ہود علیہ السّلام نے
قومِ عاد کو وحدانیتِ الہی پر ایمان لانےکا حکم دیا تو قوم کے کافر سرداروں نے کہا
:ہمیں تو تم واضح طور پر بے وقوف لگتے ہو کیونکہ تم اپنے باپ دادا کے دین کی بجائے
دوسرے دین کو مانتے ہو۔(سیرت الانبیاء، ص 209)
قوم عاد کا انکارِ رسالت:
قومِ عاد نے ایک موقع پر واضح الفاظ میں یہ کہہ
کر بھی حضرت ہود علیہ السّلام کی
رسالت کا انکار کر دیا کہ اگر ہمارا رب کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو وہ فرشتوں کو
اتار دیتا اور تم چونکہ فرشتے نہیں ہو اس لیے ہم تماری رسالت کا انکار کرتے ہیں۔
(سیرت الانبیاء، ص 211-212)
سرداران
کفار کا یوم حشر پر اعتراض :
حضرت ہود علیہ السّلام نے
قوم کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے کا
بتایا تھا اس پر کافر سرداروں نے اپنے لوگوں کو ایک عقلی دلیل دیتے ہوئے کہا: یہ
نبی تم سے یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد جب تمہارا گوشت مٹی میں مل جائے گا صرف ہڈیاں
باقی رہ جائیں گی، اس کے بعد پھر تمہیں زندہ کر کے قبروں سے نکالا جائے گا؟ یہ سب
باتیں عقل سے بہت بعید ہیں۔ (سیرت الانبیاء،
ص212-213)
قومِ عاد کا غرور و تکبر کرنا :
قبیلہ
عاد کے لوگ بڑے طاقتور اور متکبر تھے، چنانچہ ایک موقع پر جب حضرت ہود علیہ السّلام نے
انہیں عذاب الہی سے ڈرایا تو انھوں نے اپنی قوت پر غرور کرتے ہوئے کہا: ہم سے زیادہ
طاقتور کوئی نہیں اور اگر عذاب آیا تو ہم اسے اپنی طاقت سے ہٹا سکتے ہیں۔ (سیرت
الانبیاء، ص213)
نصیت
کے جواب میں قوم کی ہٹ دھرمی :
قوم عاد نے حضرت ہود علیہ السّلام کی
نصیحتوں کے جواب میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: آپ کا ہمیں نصیحت کرنا، نہ
کرنا برابر ہیں، ہم ہرگز آپ کی بات نہ مانیں گے، نہ دعوت حق قبول کریں گے اور جن چیزوں
کا آپ ہمیں خوف دلا رہے ہیں، یہ پہلے لوگوں کی باتیں ہیں، وہ بھی ایسی ہی باتیں
کہا کرتے تھے۔ (سیرت الانبیاء، ص215)
تو ان نافرمانیوں کے نتیجے میں اللہ تعالی
کا عذاب ان پر آندھی کی صورت میں نازل ہوا جس کی وجہ سے وہ تباہ ہوئے اور عبرت کا
نشان بنے۔ اس سے یہ سیکھنے کو ملا کہ نیکی کی دعوت اور برائی سے ممانعت کے لیے انبیاء
علیہمُ السَّلام کی سیرت کا مطالعہ بہت
مفید ہے، نیکی کی دعوت دینے والوں کو ہمت کرنی چاہیے۔ کامیاب مبلغ کے لیے ضروی ہے
کہ اسے قوت ایمانی، اللہپر کامل بھروسہ حاصل ہوں اور نیکی کی
دعوت دیتے ہوئے لوگوں کی بد تمیزی و جہالت پر صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ- ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور عاد کی طرف انکی برادری سے ہود کو بھیجا ۔(سورة الاعراف،
آیت: ٦٥)
قومِ
عاد دو ہیں : عادِ اولٰی یہ حضرت ہود علیہ السّلام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے
اور عادِ ثانیہ ، یہ حضرت صالح علیہ السّلام کی قوم ہے ، اسی کو ثمود کہتے ہیں ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ
ہے۔(صراط الجنان، ج ٣، ص ٣٥١)
قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی۔ قوم عاد نے زمین کو فسق سے بھر دیا تھا۔یہ لوگ بت
پرست تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان میں حضرت ہود علیہ السّلام کو
مبعوث فرمایا۔ آپ نے انہیں توحید کا حکم دیا ،شرک و بت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی
ممانعت کی ، لیکن وہ نہ مانے اور آپ کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زورآور کون
؟(صراط الجنان ، ج ٣ ، ص ٣٥٦)
جب
حضرت ھود علیہ السلام کی قوم نے نصیحت حاصل نہ کی تو قادر و قدیر اور سچے رب تعالٰی
کی بارگاہ سے انکے عذاب کا حکم نافذ ہوگیا (صراط الجنان ، ج ٤، ص ٤٥٦)
دنیا
اور آخرت دونوں جگہ لعنت انکے ساتھ ہے اور لعنت کا معنی ہے اللہ تعالٰی کی رحمت اور ہر بھلائی سے دوری ۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے ان کے برے انجام کا اصلی
سبب بیان فرمایا کہ قومِ عاد نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا اس لیے انکا اتنا برا انجام
ہوا۔(صراط الجنان ، ج ٤ ، ص ٤٥٨)
وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
ثمود کی طرف ان کی برادری سے صالح علیہ السلام کو بھیجا۔ (سورة الاعراف، آیت: ٧٣)
قومِ
ثمود قومِ عاد کے بعد ہوئی اور حضرت صالح
علیہ السّلام حضرت
ہود علیہ السّلام کے
بعد ہیں ۔ قومِ ثمود بھی قومِ عاد کی طرح شرک و بت پرستی اور ظلم و جفا کاری میں
مبتلا تھے اور جب حضرت صالح علیہ السّلام نے انہیں ان برائیوں سے روکا تو انہوں نے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں آ کر خوب
نافرمانیاں کی۔ بالآخر قومِ ثمود کا سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السّلام سے
عرض کی کہ آپ پہاڑ سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی لے آئیں تو ہم آپ پر ایمان لیے آئیں
گے۔ چنانچہ حضرت صالح علیہ السّلام نے اپنے رب سے دعا کی تو یہ معجزہ
بھی پورا ہوا اور چند لوگ جندع بن عمرو کے ساتھ ایمان لے آئے اور حضرت صالح علیہ السّلام نے اپنی قوم
کو اس اونٹنی کے پاس بری نیت سے جانے اور اسے نقصان پہنچانے سے خبردار کیا، لیکن
آپ کی قوم باز نہ آئی اور اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں اور کہنے لگے کہ لے آؤ وہ
عذاب جس کا تم ہم سے وعدہ کرتے ہو۔ چنانچہ وہ لوگ ایک زوردار آواز میں گرفتار ہوئے جن سے انکے سینے پھٹ گئے اور ہلاک ہو گئے ۔
(صراط الجنان ، ج ٣ ، ص ٣٦٠ ، ملخصاً)
انبیا ئے کرام علیہمُ السّلام کے
اس دنیا میں بھیجے جانے کا مقصدبنی نوع انسان کی اصلاح کرنا ،ان میں پائی جانے
والی برائیوں پر انہیں آگاہ کرنا اور ان کے ارتکاب سے روکناہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب
بھی کسی قوم کی طرف کسی نبی کو بھیجا گیا تو سب سے پہلے انھوں نےاس قوم میں رائج
بری عادتوں اوران برے رسم و رواج سے لوگوں کو منع فرمایاجو کہ
مزاج شریعت کے موافق نہ تھے۔ لیکن جب قوم نے ان کی باتوں کو تسلیم نہ کیا بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر
اپنے آباو اجداد کی رسوم کو ترجیح دی اور یہ کہہ کر ان کو جھٹلادیا کہ ہم تو وہی
کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا تو نتیجہ یہ نکلا کہ ان پر عذاب نازل
کردیا گیا اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔
انہی قوموں میں سے ایک حضرت
ہود علیہ السلام کی "قوم عاد"ہے۔یہ قوم یمن کے ایک علاقے میں رہتی تھی
ان کے بادشاہ کا نام "عاد" تھا۔ اسی وجہ سے یہ قوم "قوم عاد" کہلاتی ہے۔ (روح البیان ، جلد 3 ، صفحہ 186، سورۃ الاعراف آیت نمبر : 65 )
یہ لوگ بت پرست تھے ۔حضرت ہود
علیہ السلام نے انھیں توحید کی طرف بلایااور کفر و شرک سےبچنے کا حکم دیا لیکن انہوں
نےآپ کی بات نہ مانی اور آپ کو معاذ اللہ بیوقوف اور جھوٹا کہنے لگے۔آپ نے بار بار اس قوم کو عذاب الٰہی سے ڈرایالیکن سوائے چند لوگوں کے سب
نے آپ کو جھٹلادیا اور کہنے لگے کہ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو لے آؤ وہ
عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔نتیجۃً ان پر عذاب الٰہی کے آثارنمودار ہونا شروع
ہوگئے۔ چنانچہ تین سال تک ان پر بارش نہ ہوئی اور وہ شدید قحط سالی میں مبتلا
ہوگئے۔
وہاں کا دستور تھا کہ جب بھی
ان پر کوئی مصیبت آتی تو وہ خانہ کعبہ کے پاس آکر دعائیں مانگتے تو ان کی
مصیبتیں دور ہوجایا کرتی تھیں لہذا انھوں نے چند لوگوں کو مکہ کی طرف روانہ کیا۔ جب ان لوگوں نے خانہ کعبہ کے
پاس پہنچ کردعا مانگنا شروع کی تواچانک ان
پر تین بادل نمودار ہوئے ایک سفید، ایک
سرخ،ایک سیاہ، ساتھ ہی آسمان سے آواز آئی کہ اے قوم عاد! کوئی ایک بادل چن لو۔
چنانچہ انہوں نے سیاہ بادل اس خیال سے چنا کہ یہ زیادہ برسے گا۔
چنانچہ سیاہ بادل قوم عاد کی آبادیوں کی طرف
بڑھا۔ بادل کو دیکھ کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے لیکن ہوا یہ کہ اچانک اتنی شدت کی آندھی چلی کہ درخت جڑ سمیت زمین سے
اکھڑنے لگے، اونٹ اپنے سواروں سمیت ادھر ادھر گرنے لگے۔حتی کہ آندھی نے ان کے
گھروں کے مضبوط دروازوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اس طرح وہ قوم ہلاک کردی گئی
اور اس قوم کا ایک فرد بھی باقی نہ بچا۔جو لوگ ایمان لے آئے تھے حضرت ہود علیہ السلام ان کو لیکر مکہ مکرمہ میں آگئے۔ (ملخص از: روح
البیان ، جلد 3 ، صفحہ881، وتفسیر صراط
الجنان جلد3، صفحہ 356 تا 357)
قرآن پاک میں اس واقعہ کو سورہ اعراف
کی آیت 65 تا70 میں بیان کیا گیا۔اللہ تبارک و تعالی ہمیں اپنے عذاب سے بچائے اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ابتدائے
انسانیت سے ہی اللہ تعالیٰ
لوگوں کی ہدایت کیلئے انبیاء و رسل علیہمُ السّلام کو مبعوث فرماتا رہا ہے جو اللہ تبارک
وتعالیٰ کا پیغام اپنی اُمتوں تک پہنچاتے رہے۔ دعوتِ حق قبول کرنے والے دنیا و
آخرت میں سرفراز رہے ، جبکہ سرکشوں اور نافرمانوں کو اللہ قہار عزوجل
نے پوری قوم سمیت تباہ و برباد فرما کر ان کے نام و نشان تک مٹا دیے ۔ انہیں میں
سے حضرت ہود علیہ السّلام کی قوم،
قوم عاد بھی تھی جو یمن میں آباد تھی ۔یہ قوم انتہائی سرکش، نافرمان اور بت پرست
تھی۔ جب ہود علیہ السّلام نے
اپنی قوم کو ایک اللہ تعالی
کی عبادت کرنے کی یوں دعوت دی:
ترجَمۂ کنزُالایمان:اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے
سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں ۔ (اعراف : 65)
تو دعوت توحید
قبول کرنے کے بجائے آپ علیہ السّلام کی گستاخی کرتے ہوئے یہ جواب دیا :
ہم تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم
تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں ۔ ( اعراف : 66 )
اس جواب پر
آپ علیہ السّلام نے
انتقام لینے کے بجائے قوم سے فرمایا :اے میری قوم ! بے وقوفی کامیرے ساتھ کوئی
تعلق نہیں میں تو ربُّ العالمین کا رسول ہوں۔ میں توتمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے
پیغامات پہنچاتا ہوں۔(اعراف 67)
ہود علیہ السّلام مسلسل
اس قوم کو اللہ وحدہ
لاشریک کی عبادت کی دعوت دیتے رہے لیکن بدبختی اس قوم کو لازم ہوچکی تھی۔اللہ تعالیٰ
کے قہر اور عذاب سے ڈرائے جانے کے باوجود یہ قوم بت پرستی و شرک سے باز نہ آئی اور
تمام حدود پار کرتے ہوئے ہود علیہ السلام سے یہاں تک کہ دیا: ترجمہ کنز
العرفان:اگر تم سچے ہو تو لے آؤ وہ (عذاب) جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو ۔ (الاعرف
70)
جب آپ علیہ
السلام نے اپنی قوم کی یہ بات سنی تو اتمام حجت کیلئے فرما دیا: ترجمہ کنز
العرفان:بیشک تم پر تمہارے رب کا عذاب اور غضب لازم ہوگیا۔(الاعرف : 71)
الغرض عذاب کی
ابتداء اس طرح ہوئی کہ پہلے یہ قوم قحط میں مبتلا ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ
نے ایک سیاہ بادل بھیجا جس کی تیز ہواؤں کو دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوگئے
اور دروازے بند کرلئے مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے اُس نے دروازے بھی اکھیڑ دیئے
اور ان لوگوں کو ہلاک بھی کردیا اور قدرتِ الٰہی سے سیاہ پرندے نمودار ہوئے جنہوں
نے اُن کی لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا ۔یوں یہ قوم صفحہ ہستی سے مٹا دی
گئی۔
اللہ تعالیٰ سے
دعا ہے کہ ہمیں اپنے عذاب سے محفوظ فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
قوم عاد، مقام "احقاف" میں رہتی تھی جو عمان و
حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان ہے ، ان
کے مورثِ اعلی کا نام عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح ہے، پوری
قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلیٰ "عاد" کے نام سے پکارنے لگے یہ لوگ بت
پرست اور بہت بداعمال و بدکردار تھے اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السّلام کو
ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت
ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر پر اڑے رہے حضرت ہود علیہ السلام بار بار ان
سرکشوں کو عذاب الہی سے ڈراتے رہے، مگر اس
شریر قوم نے نہایت ہی بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی
سے یہ کہہ دیا کہ :
ترجمہ کنزالایمان : بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک
اللہکو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انہیں
چھوڑدیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر سچے ہو ۔ ( اعراف : 70 )
آخر عذاب الہی
کی جھلکیاں شروع ہوگئی تین سال تک بارش ہی
نہیں ہوئی اور ہر طرف قحط و خشک سالی کا
دور دوہ ہو گیا یہاں تک کہ لوگ اناج کے
دانے دانے کو ترس گئے اس زمانے کا یہ
دستور تھا کہ جب کوئی بلا اور مصیبت آتی
تھی تو لوگ مکہ معظمہ جا کر خانہ کعبہ میں
دعائیں مانگتے تھے تو بلائیں ٹل جاتی تھی چنانچہ ایک جماعت مکہ معظمہ گئی اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص بھی
تھا جو مؤمن تھا مگر اپنے ایمان کو قوم سے چھپائے ہوئے تھاجب ان لوگوں نے کعبہ
معظمہ میں دعا مانگنی شروع کی تو مرثد بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا اور اس نے تڑپ کر کہا کہ اے میری قوم تم لاکھ
دعائیں مانگو، مگر خدا کی قسم اس وقت تک پانی نہیں برسے گا جب تک تم اپنے نبی حضرت
ہود علیہ السلام پر ایمان نہ
لاؤ گے حضرت مرثد بن سعد نے جب اپنا ایمان
ظاہر کردیا تو قوم عاد کے شریروں نے ان کو مار پیٹ کر الگ کر دیا اور دعائیں
مانگنے لگے اس وقت اللہ تعالی نے تین
بدلیاں بھیجیں ایک سفید، ایک سرخ، ایک سیاہ
اور آسمان سے ایک آواز آئی کہ اے قوم عاد! تم لوگ اپنی قوم کے لئے ان تین بدلیوں میں
سے ایک بدلی کو پسند کر لو ان لوگوں نے
کالی بدلی کو پسند کر لیا اور یہ لوگ اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ
بارش دے گی چنانچہ وہ ابر سیاہ قوم عاد کی
آبادیوں کی طرف چل پڑا قوم عاد کے لوگ کالی
بدلی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے حضرت ہود علیہ السلام نے
فرمایا کے اے میری قوم! دیکھ لو عذاب الہی
ابر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا ہے مگر قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی کو جھٹلا دیا
اور کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟ هٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَاؕ- یہ
بادل ہے کہ ہم پر برسے گا ۔ ( احقاف : 24 )
(روح
البيان،ج3،ص187 تا 189، پ8، الاعراف: 80)
یہ بادل پچھم کی طرف سے آبادیوں کی طرف برابر
بڑھتا رہا اور ایک دم ناگہاں اس میں سے ایک آندھی آئی جو اتنی شدید تھی کہ اونٹوں
کو مع ان کے سوار کے اڑا کر کہیں سے کہیں پھینک دیتی تھی پھر اتنی زوردار ہوگئی کہ درختوں کو جڑوں سے
اکھاڑ کر اڑا لے جانے لگی یہ دیکھ کر قوم
عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین محلوں میں داخل ہو کر دروازوں کو بند کر لیا مگر آندھی
کے جھونکے نہ صرف دروازوں کو اکھاڑ کر لے گئے بلکہ پوری عمارتوں کو چھوڑ کر اُن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، سات اور آٹھ دن مسلسل یہ آندھی چلتی رہیں یہاں تک کہ قوم عاد کا ایک ایک آدمی مر کر فنا
ہو گیا اور اس قوم کا ایک بچہ بھی باقی نہ
رہا جب آندھی ختم ہوئی تو اس قوم کی لاشیں
زمین پر اس طرح پڑی ہوئی تھی جس طرح کھجوروں کے درخت اکھڑ کر زمین پر پڑے ہو ں ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
رہے عاد وہ ہلاک کیے گئے نہایت سخت گرجتی آندھی سے وہ ان پر قوت سے لگادی سات
راتیں اور آٹھ دن لگاتار تو ان لوگوں کو
ان میں دیکھو پچھڑے(مرے) ہوئے گویا وہ کھجور کے ڈنڈ(سوکھے تنے) ہیں گرے ہوئے تو
تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے ہو۔ (پ،29 ، الحاقہ: 6 تا 8)
پھر قدرتِ خداوندی سے کالے رنگ کے پرندوں کا ایک
غول نمودار ہوا جنہوں نے ان کی لاشوں کو
اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور حضرت ہود
علیہ السلام نے اس بستی کو چھوڑ دیا اور چند مؤمنین کو جو ایمان لائے تھے ساتھ لے
کر مکہ مکرمہ چلے گئے اور آخر زندگی تک بیت
اللہ شریف
میں عبادت کرتے رہے ۔
درس ہدایت قرآن کریم کے اس دردناک واقعہ سے یہ
سبق ملتا ہے کہ "قوم عاد" جو بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی اور ان
لوگوں کی مالی خوشحالی بھی نہایت مستحکم تھی کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے بھرے
باغات ان کے پاس تھے پہاڑوں کو تراش تراش
کر ان لوگوں نے گرمیوں اور سردیوں کے لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے تھے ان لوگوں کو
اپنی کثرت اور طاقت پر بڑا اعتماد، اپنے تمول اور سامانِ عیش و عشرت پر بڑا ناز
تھا مگر کفر اور بداعمالیوں و بدکاریوں کی
نحوست نے ان لوگوں کو قہر الٰہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر دیا کہ آندھی کے جھونکوں
اور جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجوڑ کر چکنا چور کر دیا اور اس پوری قوم کے وجود کو صفحہ ہستی سےاس طرح
مٹا دیا کہ ان کی قبروں کا بھی کہیں نشان باقی نہ رہا ، پھر
بھلا ہم لوگوں جیسی کمزور قوموں کا کیا ٹھکانا ہے؟ کہ عذاب الٰہی کے جھٹکوں کی تاب
لا سکیں اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور اپنی
نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے، انہیں لازم ہے کہ وہ اللہ و رسول عزوجل و صلی
اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں اور بداعمالیوں سے ہمیشہ بجتے رہیں اپنی کوشش اور طاقت بھر اور اعمال صالح اور نیکیاں
کرتے رہیں، ورنہ قرآن مجید کی آیتیں ہمیں جھنجھوڑ کر یہ سبق دے رہی ہیں کہ نیکی کی
تاثیر آبادی اور بدی کی تاثیر بربادی ہے قرآن مجید میں پڑھ لو :
ترجمہ کنزالایمان اور اگر بستیوں
والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے
مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں کے کئے پر گرفتار کیا ۔ (پ 9
، الاعراف: 96)
اللہ تعالی
سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی نافرمانی اور اپنے عذابات سے محفوظ فرمائے اور
جنت میں اپنے حبیب علیہ الصلاۃ و السلام کا جنت میں
پڑوس نصیب فرمائے ۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(ماخوذ: عجائب القران مع غرائب القران ،صفحہ 107 تا 110)
قوم عاد ایک
نہایت جسیم ، قدآور اور زورآور قوم تھی ، یہ لوگ اتنے طاقتور تھے کہ مضبوط پہاڑوں
کو تراش کر سردیوں اور گرمیوں کے لئے الگ الگ گھر بناتے تھے ، لیکن جب ایسی قوم نے
اللہ اور اس کے بھیجے ہوئے نبی حضرت سیدنا ہود علیہ السّلام کی
نافرمانی کی تو اللہ پاک
نے ان کو رہتی دنیا تک نشان ِعبرت بنا دیا ۔
اللہ پاک
ان کی ہلاکت وتباہی کو بیان کرتے ہوئے سورۃ الذاريٰت آیت نمبر 41اور42 میں فرماتا
ہے : وَ فِیْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ
الرِّیْحَ الْعَقِیْمَۚ(۴۱) مَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْهِ
اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِیْمِؕ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور عاد میں جب ہم نے اُن پر خشک آندھی بھیجی جس چیز پر گزرتی
اسے گلی ہوئی چیز کی طرح کرچھوڑتی ۔
آخر وہ کون سی
بد اعمالیاں اور بدکرداریاں تھیں کہ جن کی بنا پر اس قوم کوعذاب دیا گیا، آئیے اس
کا جواب قرآن سے لیتے ہیں ۔
1:
غیر اللہ
کی عبادت:
جیسا
کہ سورۃ ہود آیت نمبر 53 میں ان کے قول کو یوں بیان کیا گیا: قَالُوْا یٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَّ مَا
نَحْنُ بِتَارِكِیْۤ اٰلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَ مَا نَحْنُ لَكَ
بِمُؤْمِنِیْنَ(۵۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: بولے اے ہود
تم کوئی دلیل لے کر ہمارے پاس نہ آئے اور ہم خالی تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو
چھوڑنے کے نہیں نہ تمہاری بات پر یقین لائیں ۔
2:اللہ
پاک اور ہود علیہ السّلام
کی نافرمانی:
چنانچہ
سورہ ہود آیت نمبر 59 میں ہے : وَ
تِلْكَ عَادٌ ﳜ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ اتَّبَعُوْۤا
اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور یہ عاد
ہیں کہ اپنے رب کی آیتوں سے منکر ہوئے اور اس کے
رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر بڑے سرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے۔
3:ہود
علیہ
السّلام کی گستاخی :
جیسا
کہ سورۃ الاعراف آیت نمبر 66 میں ان کے اس قول کو بیان کیا گیا: قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖۤ
اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(۶۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اس کی قوم کے
سردار بولے بے شک ہم تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان
کرتے ہیں ۔
4:اللہ
کی نشانیوں کو جھٹلانا:
جیسا
کہ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر 4 میں ہے : كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَ عَادٌۢ بِالْقَارِعَةِ(۴)
ترجَمۂ کنزُالایمان: ثمود
اور عاد نے اس سخت صدمہ دینے والی کو جھٹلایا ۔
5:غرور
و تکبر کرنا:
جیسا
کہ سورۃ حم السجدۃ آیت نمبر 15 میں آتا ہے : فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ
الْحَقِّ وَ قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةًؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: تو وہ جو عاد
تھے انہوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور بولے ہم سے زیادہ کس کا زور ۔
معزز قارئین
کرام قوم عاد کو جن نافرمانیوں کی بنا پر عذاب میں مبتلا کیا گیا ہمیں ان سے بھی
بچتے رہنا چاہیے اور ہمیشہ، ہر حال میں رب قہار وجبار کی اطاعت کرتے رہنا چاہیے ۔
اللہ عزوجل نے سورۃ الفجر کی آیت
نمبر 6 تا 8 میں فرمایا:
ترجمۂ کنزالایمان:کیا تم نے نہ دیکھا، تمہارے ربّ نے عاد کے ساتھ کیسا کیا، وہ ارم حد سے زیادہ طول والے۔(پ30،الفجر:6-8)
تفسیر میں یہ بھی ہے، قومِ عاد کی دو قسمیں ہیں:1۔ عادِاولٰی، 2۔عادِ
اُخریٰ، یہاں اولی مراد ہے اور صراط
الجنان جلد 10، صفحہ 663 پر یہ واقعہ ہے، جس
میں عاد کے بیٹے شداد کے بارے میں تحریر ہے کہ اس نے جنت کا ذکر سن کر سرکشی کے
طور پر دنیا میں جنت بنانی چاہی اور اس ارادے سے ایک شہرِ عظیم بنایا۔
سورۃ الاعراف میں قوم ِعاد کا ذکر
ہے، چنانچہ
ترجمۂ
کنزالایمان:"اس کی قوم کے سردار بولے، بے شک ہم تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم
تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں۔"(پارہ 8،اعراف: 66)
تفسیر :کافروں نے گستاخی کرکے
حضرت ہود علیہ الصلاۃ و السلام کو معاذاللہ بےوقوف کہا، جس پر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے تحمل سے جواب
دیا کہ بے وقوفوں کا میرے ساتھ کوئی تعلق
نہیں۔(صراط الجنان، جلدسوم)
ترجمۂ کنزالایمان:" بولے اے ہود تم کوئی دلیل لے کر
ہمارے پاس نہ آئے اور ہم خالی تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو چھوڑنے کے نہیں نہ
تمہاری بات پر یقین لائیں۔(پ۱۲، ہود:۵۳)
تفسیر: حضرت ہود علیہ السلام کی قوم نے
مذاق اُڑاتے ہوئے اور عناد کے طور پر یہ جواب دیا کہ اے ہود! تم ہمارے پاس کوئی دلیل لے کر نہیں آئے، جو تمہارے دعوے کی صحت پر دلالت کرتی، یہ بات
انہوں نے بالکل غلط اور جھوٹ کہی تھی، کیونکہ حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں جو
معجزات دکھائے تھے، وہ سب سے مکر گئے تھے۔(صراط الجنان، جلد چہارم، صفحہ 452)
ترجمہ کنزالعرفان:"ہم تو صرف یہ کہتے ہیں
کہ ہمارے کسی معبود نے تم پر کوئی برائی پہنچا دی ہے، (ہود نے) فرمایا: میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں
اور تم سب (بھی) گواہ ہو جاؤ کہ میں ان سب سے بیزار ہوں، جنہیں تم اللہ کے سوا اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔(پ12،
ہود: 54)
تفسیر:حضرت
ہود کی قوم نے کہا:بے شک اےہود! تم ہماری مخالفت کر رہے ہو اور ہمارے بتوں کو بُرا
کہتے ہو، اسی وجہ سے ان بتوں نے تمہیں دیوانہ کر دیا ہے، اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ آپ جو کچھ کہتے ہو، یہ سب دیوانگی کی باتیں ہیں۔(معاذ اللہ)(صراط
الجنان، جلد چہارم، صفحہ 453)
یہ قومِ عاد کی وہ نافرمانیاں ہیں،
جن کا ذکر خود ربّ العزت نے قرآن پاک میں
فرمایا، انہوں نے اپنے نبی کی گستاخی کی، مذاق اڑایا، مجنون کہا، اپنے نبی کو جھوٹا کہا، (معاذاللہ) تو ان پر ان کی نافرمانیوں
کے سبب عذاب نازل ہوا۔
حاصل کلام:
ہمیں چاہئے کہ ہم انبیائے کرام کی
شان میں گستاخی کرنے، ان کے بارے میں مذاق
کرنے سے بچیں اور ان کے متعلق ایسا کلام کرنے سے بچیں، جس کے متعلق ہمیں علمِ یقینی نہ ہو۔اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں ادبِ انبیاء، اولیاء، صحابہ عطا فرمائے اور ان کی غلامی اور سچا عشق
عطا فرمائے۔
اللہ کا ہر نبی جنتی جنتی
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم بھی جنتی جنتی
حضرت ہود علیہ السلام بھی جنتی
جنتی
ہر صحابی نبی جنتی جنتی
قطعی جنتی جنتی جنتی
قومِ عاد مقامِ "احقاف"
میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے
درمیان ایک بڑا ریگستان تھا، ان کے مورثِ
اعلی کا نام عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح
ہے، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلی
"عاد"کے نام سے پکارتے تھے، یہ
لوگ بت پرست اور بہت بداعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے
حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر پر اڑے رہے۔
قوم عاد کی سرکشی:
عذاب کا باعث:
حضرت ہود علیہ السلام بار بار ان
سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر
اس شریر قوم نے نہایت بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا کہ
اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ
نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ
مِنَ الصّٰدِقِیْن۔
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8،
اعراف: 70)
عذاب کی نشانیاں:
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع
ہوگئیں، تین سال تک بارشیں ہی نہیں ہوئی
اور ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو
گیا، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کو
ترسنے لگے، اس زمانے کا دستور تھا کہ جب
کوئی بلا اور مصیبت آتی تھی تو لوگ مکہ معظمہ جاکر کعبہ میں دعائیں مانگتے تھے، تو بلائیں ٹل جاتی تھیں، چنانچہ ایک جماعت مکہ معظمہ گئی، اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص بھی تھا، جو مؤمن تھا، مگر اپنے ایمان کو قوم سے چھپائے ہوئے تھا، جب ان لوگوں نے کعبہ معظمہ میں دعا مانگنا شروع کی، تو مرثد بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا اور اس نے تڑپ کر
کہا کہ اے میری قوم! تم لاکھ دعائیں مانگو، مگر خدا
کی قسم!اس وقت تک پانی نہیں بر سے گا، جب
تک تم اپنے نبی پر ایمان نہ لاؤ گے، حضرت
مرثد بن سعد نے جب اپنا ایمان ظاہر کردیا تو قومِ عاد کے شریروں نے ان کو مار پیٹ
کر الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے لگے، اس وقت اللہ نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ اور آسمان سے ایک آواز آئی کہ"اے قومِ عاد! تم لوگ اپنی قوم
کے لئے ان تین بدلیوں میں سے کسی ایک بدلی کو پسند کر لو۔"
ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کیا اور یہ لوگ اس
خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی، چنانچہ وہ ابرِ سیاہ قومِ عاد کی آبادیوں کی طرف
چل پڑا، قومِ عاد کے لوگ کالی بدلی کو
دیکھ کر بہت خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ
السلام نے فرمایا:" کہ اے میری قوم! دیکھ لو! عذابِ الہی اَبر کی صورت میں
تمہاری جانب بڑھ رہا ہے۔"
مگر قوم کے گستاہوں نے اپنے نبی
کو جھٹلایا اور کہاکہ کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟ھٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرْنَا "(پ26، احقاف: 24)یہ تو بادل ہے، جو ہمیں بارش دینے کے لئے آ رہا ہے۔"
عذاب کا نزول: قومِ
عاد کا دردناک انجام:
یہ بادل پچھم کی طرف سےآبادیوں کی
طرف برابر بڑھتا رہا اور ایک دم ناگہاں اس میں سے ایک آندھی جو اتنی تیز تھی کہ اونٹوں
کو مع سو ار اُڑا کر لے گئی، پھر اتنی
زوردار ہوگئی کہ درختوں کو جڑوں سے اُکھاڑ
دیا، یہ دیکھ کر قومِ عاد کے لوگوں نے
اپنے سنگین محلوں میں داخل ہوکر دروازوں کو بند کر لیا، مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازوں کواُکھاڑ کر
لے گئے، بلکہ پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر
ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، سات رات اور
آٹھ دن مسلسل یہ آندھی چلتی رہی، یہاں تک
کہ قومِ عاد کا ایک ایک آدمی مر کر فنا ہو
گیا۔(عجائب القران مع غرائب القران)
قومِ عاد مقامِ "احقاف"
میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے
درمیان ایک بڑا ریگستان تھا، ان کے مورثِ
اعلی کا نام عادبن عوص بن ارم بن سام بن
نوح ہے، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلی
"عاد"کے نام سے پکارنے لگے، یہ
لوگ بت پرست اور بہت بداعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے
حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر پر اڑے رہے، حضرت ہود علیہ السلام
بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر اس شریر قوم نے نہایت بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ
دیا کہ
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8،
اعراف: 70)
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع
ہوگئیں، تین سال تک بارشیں ہی نہیں ہوئی
اور ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو
گیا، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کو
ترس گئے، اس زمانے کا دستور تھا کہ جب
کوئی بلا اور مصیبت آتی تھی تو لوگ مکہ معظمہ جاکر کعبہ میں دعائیں مانگتے
تھے، تو بلائیں ٹل جاتی تھیں۔
چنانچہ ایک جماعت مکہ معظمہ گئی، اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص بھی تھا، جو مؤمن تھا، مگر اپنے ایمان کو قوم سے
چھپائے ہوئے تھا، جب ان لوگوں نے کعبہ
معظمہ میں دعا مانگنی شروع کی، تو مرثد بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا اور اس نے تڑپ کر
کہا کہ اے میری قوم! تم لاکھ دعائیں مانگو، مگر خدا کی قسم!اس وقت تک پانی
نہیں بر سے گا، جب تک تم اپنے نبی حضرت
ہود علیہ السلام پر ایمان نہ لاؤ گے، حضرت
مرثد بن سعد نے جب اپنا ایمان ظاہر کردیا تو قومِ عاد کے شریروں نے ان کو مار پیٹ
کر الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے
لگے، اس وقت اللہ نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ
اور آسمان سے ایک آواز آئی کہ"اے قومِ عاد! تم لوگ اپنی قوم
کے لئے ان تین بدلیوں میں سے کسی ایک بدلی کو پسند کر لو۔"
ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کیا اور یہ لوگ اس
خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی، چنانچہ وہ ابرِ سیاہ قومِ عاد کی آبادیوں کی
طرف چل پڑا، قومِ عاد کے لوگ کالی بدلی کو
دیکھ کر بہت خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ
السلام نے فرمایا:" کہ اے میری قوم! دیکھ لو! عذابِ الہی اَبر کی صورت میں
تمہاری طرف بڑھ رہا ہے۔"
مگر قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی
کو جھٹلایا اور کہاکہ کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟"یہ تو بادل ہیں، جو ہمیں بارش دینے کے لئے آ رہا ہے۔"(روح
البیان، ج3، ص187 تا 189، پ8، الاعراف70)
یہ بادل پچھم کی طرف سےآبادیوں کی
طرف برابر بڑھتا رہا اور ایک دم ناگہاں اس میں سے ایک آندھی آئی، جو اتنی شدید تھی
کہ اونٹوں کو مع سو ار اُڑا کر کہیں سےکہیں پھینک دیتی تھی، پھر اتنی زوردار ہوگئی کہ درختوں کو جڑوں سے اُکھاڑ کر اُڑا لے جانے لگی، یہ دیکھ کر قومِ عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین
محلوں میں داخل ہوکر دروازوں کو بند کر لیا، مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازوں کواُکھاڑ کر لے گئے، بلکہ پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے
اینٹ بجا دی، سات رات اور آٹھ دن مسلسل یہ
آندھی چلتی رہی، یہاں تک کہ قومِ عاد کا
ایک ایک آدمی مر کر فنا ہو گیا اور اس قوم
کا ایک بچہ بھی باقی نہ رہا، جب آندھی ختم
ہوئی تو اس قوم کی لاشیں زمین پر اس طرح
پڑی ہوئی تھیں، جس طرح کھجوروں کے درخت اُ کھڑاکر زمین پر پڑے ہوں، چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے،
ترجمہ کنزالایمان:"اور رہے عادوہ ہلاک کئے گئے، نہایت سخت گرجتی
آندھی سے وہ ان پر قوت سے لگا دی، سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار تو ان لوگوں کو ان میں دیکھو بچھڑے ہوئے، گویا وہ کھجور کے ڈنڈ(سوکھے تنے)ہیں گرے ہوئے تو
تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے
ہو۔"(پ29، الحاقۃ: 6-8)
پھر قدرتِ خداوندی سے کالے رنگ کے
پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے
ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور حضرت ہود علیہ السلام نے اس بستی
کو چھوڑ دیا اور چند مؤمنین کو جو ایمان لائے تھے، ساتھ لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے اور آخر زندگی تک
بیت اللہ شریف میں عبادت کرتے رہے۔(تفسیر الصاوی، ج2، ص686، پ8، الاعراف:70)
"قومِ عاد" بڑی طاقتور
اور قد آور قوم تھی، ان لوگوں کی مالی
خوشخالی بھی نہایت مستحکم تھی، کیونکہ
لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے بھرے باغات ان کے
پاس تھے، پہاڑوں کو تراش تراش کر ان لوگوں نے گرمیوں اور سردیوں کے لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے
تھے، ان لوگوں کو اپنی کثرت اور طاقت پر
بڑا اعتماد تھا، اپنے تمدن اور سامانِ عیش وعشرت پر بڑا ناز تھا، مگر کفر اور بداعمالیوں و بدکاریوں کی نحوست نے
ان لوگوں کو قہر ِالہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر دیا کہ آندھی کے جھونکوں اور
جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھور کر
چکنا چور کر دیا اور اس پوری قوم کے وجود کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا
دیا کہ ان کی قبروں کا کہیں بھی نشان باقی نہ رہا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ :
ترجمہ کنزالایمان:"اور الٹنے والی بستیاں خطا لائے۔"(پارہ 29،
الحاقۃ:9)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے،
ترجمۂ کنزالایمان:"اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ضرور ہم
ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، مگر انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے کئے پر گرفتار کیا۔"(پ9،اعراف:96)