قوم عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
3 years ago

قوم عاد کون ہیں؟ قوم عاد دوہیں یعنی یہ دو قوموں کا نام ہے۔ (1)۔عاد اولی، اور (2)۔عاد ثانیہ۔ ان دونوں قوموں میں سو سال کا فاصلہ تھا۔ عاد ثانیہ کو "قوم ثمود" بھی کہتے ہیں۔ مضمون ہذا میں "قوم عاد اولٰی" مراد ہے۔ جوکہ اللہ کے نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السّلام کی قوم ہے۔تفسیر صراط الجنان میں ہے: "قوم عاد دو ہیں:عادِ اُوْلیٰ یہ حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے اور عادِثانیہ،یہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔ یہاں عادِ اُولیٰ مراد ہے۔" (جمل، الاعراف، تحت الآیۃ: ٦٥، ۳ / ۵۸، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ٦٥، ۳ / ۱۸۵)

قرآن مجید، برہان رشید میں اللہ تبارک وتعالی نے اس قوم کے تعارف اور اپنے نبی، حضرت ہود علیہ السّلام کی دعوت دین بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵) ترجمہ کنزالعرفان: اور قومِ عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا۔( ہود نے) فرمایا: اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔ تو کیا تم ڈرتے نہیں؟ ۔ (اعراف : 65)

آیت مذکورہ بالا سے "قوم عاد کا تعارف" بھی واضح ہوگیا کہ وہ کون تھے؟ وہ اللہ کے نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السّلام کے ہم قوم تھے۔ اور ساتھ ہی "اللہ کے نبی کی دعوت دین" بھی واضح ہوگئی کہ آپ نے انہیں اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت اور اس کے غیر کی پوجا یعنی بت پرستی سے روکا اور کہا کہ "کیا وہ اپنے رب سے نہیں ڈرتے؟" قارئین کرام!قوم عاد بھی ایک نافرمان قوم تھی۔ چنانچہ آیت مذکورہ بالا اور اگلی چند آیت اللہ کے نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السّلام اور ان کی قوم "قوم عاد" کے درمیان واقع مکالمہ کو بیان کر رہی ہیں۔ لیکن ان آیات کو پیش کرنے سے پہلے اس پورے واقعے کا خلاصہ قارئین کرام کی نظر ہے۔ چنانچہ مفتی اہلسنت، شیخ الحدیث والتفسیر مولانا مفتی قاسم عطاری زید مجده اپنی تفسیر قرآن بنام تفسیر صراط الجنان میں قصے کی منظر کشی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

اس آیت اور اگلی چند آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد کی ہدایت کے لئےان کے ہم قوم حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی طرف بھیجا ۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:’’ اے میری قوم ! تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، کیا تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا ؟اس پرقوم کے کافر سردار بولے: ہم توتمہیں بیوقوف سمجھتے اور جھوٹا گمان کرتے ہیں اور تمہیں  رسالت کے دعویٰ میں سچا ہی نہیں جانتے ۔

کفار کا حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں یہ گستاخانہ کلام کہ’’ تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں ‘ جھوٹا گمان کرتے ہیں ‘‘انتہا درجہ کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سخت ترین جواب دیا جاتا مگر حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے اخلاق و ادب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا اس میں شانِ مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور اُن کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی چنانچہ فرمایا :اے میری قوم ! بے وقوفی کامیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں میں تو ربُّ العالمین کا رسول ہوں۔ میں توتمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخواہ ہوں اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرائے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کے یہ احسان یاد کرو کہ اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا اور تمہیں عظیم جسمانی قوت سے نوازا کہ قد کاٹھ اور قوت دونوں میں دوسروں سے ممتاز بنایا تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے احسانات یاد کرو، اس پر  ایمان لاؤ اور اطاعت و بندگی کا راستہ اختیار کرو۔

حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ اپنی قوم کی بستی سے علیحدہ ایک تنہائی کے مقام میں عبادت کیا کرتے تھے، جب آپ کے پاس وحی آتی تو قوم کے پاس آکر سنادیتے ، اس وقت قوم یہ جواب دیتی کہ کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: بیشک تم پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا عذاب اور غضب لازم ہوگیا۔ قومِ عاد پر آنے والے عذاب کی کیفیت کا بیان چند آیات کے بعد مذکور ہے اور اس کے علاوہ یہ واقعہ سورہ ہود آیت نمبر50تا 60میں بھی مذکور ہے۔" (تفسیر صراط الجنان)

قوم عاد کی نافرمانیاں:

تفسیر صراط الجنان کی مذکورہ بالا عبارت سے قوم عاد کی نافرمانی اور ہٹ دھرمی کا خوب اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سامان راحت اور تشفی قلب کی خاطر یہاں ان نافرمانیوں کا تفصیلی ذکر کیا جاتا ہے تاکہ میری یہ تحریر اہل عقل و فہم کیلئے سامان عبرت اور ذریعۂ اصلاح و نجات آخرت بن سکے۔ چنانچہ جب اللہ کے نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السلام نے اپنی قوم "قوم عاد" سے کہا: "اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، تو کیا تم ڈرتے نہیں؟" تو معاذ اللہ ان عقل کے اندھوں نے اللہ کے نبی کو بیوقوف کہ ڈالا۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید، برہان رشید میں فرماتا ہے:

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ (۶۶) ترجمہ کنزالعرفان: اس کی قوم کے کافر سردار بولے ،بیشک ہم تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں۔ (اعراف: 66) معاذاللہ! یہ ہود علیہ السلام کی پہلی گستاخی اور نافرمانی تھی اور اتنے ظلم پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ ان بدنصیبوں نے اللہ کے نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السلام کو معاذاللہ جھوٹا تک کہ دیا۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ان جفاکاروں کا قول یوں حکایت کیا گیا۔

وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(۶۶)۔ ترجمہ کنزالعرفان: اور بیشک ہم تمہیں جھوٹوں میں سے گمان کرتے ہیں۔ یہ ان کی جانب سے دوسری گستاخی اور نافرمانی تھی۔

سبحان اللہ! اللہ کے نبی علیہ السلام پہ راہ خدا میں اتنے سخت جملے کسے گئے جن کے وہ قطعاً مستحق نہ تھے کیونکہ اللہ کے تمام نبی معصوم ہیں۔ مگر پھر ان کی ذات ِبابرکات سے کمال شان حلم کا ظہور ہوا چنانچہ ان کے قول کو حکایت کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے: قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۶۷) اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ(۶۸) ترجمہ کنزالعرفان: (ہود نے) فرمایا: اے میری قوم! میرے ساتھ بے وقوفی کا کوئی تعلق نہیں ۔ میں تو ربُّ العالمین کا رسول ہوں۔ میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخواہ ہوں۔(تفسیر صراط الجنان)

کافروں نے گستاخی کرکے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مَعَاذَاللہ بیوقوف کہا، جس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بڑے تحمل سے جواب دیا کہ بیوقوفی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اورا س کی وجہ بالکل واضح ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کامل عقل والے ہوتے ہیں اور ہمیشہ ہدایت پر ہوتے ہیں۔تمام جہان کی عقل نبی کی عقل کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے سمندر کا ایک قطرہ کیونکہ نبی تو وحی کے ذریعے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے علم و عقل حاصل کرتا ہے اور اس چیز کے برابر کوئی دوسری چیز کا ہونا محال(یعنی ناممکن) ہے۔ (تفسیر صراط الجنان)

فائدہ:

اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے:

(1) جاہل اور بیوقوف لوگوں کی بد تمیزی و جہالت پر بُردباری کا مظاہرہ کرنا سنت ِ انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے ۔

(2) اہلِ علم و کمال کو ضرورت کے موقع پر اپنے منصب و کمال کا اظہار جائز ہے ۔ (تفسیر صراط الجنان)

اللہ کے نبی حضرت سیدنا ہود علیہ السلام نے دعوت حق دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْؕ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةًۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۶۹) ترجمہ کنزالعرفان: اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد جانشین بنایا اور تمہاری جسامت میں قوت اور وسعت زیادہ کی تو اللہ کی نعمتیں یاد کروتا کہ تم فلاح پاؤ۔

فائدہ :

اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد کو سلطنت اور بدنی قوت عطا فرمائی تھی ،چنانچہ شداد ابنِ عاد جیسا بڑا بادشاہ انہیں میں ہوا۔ یہ بہت لمبے قد والے اور بڑے بھاری ڈیل ڈول والے تھے۔ (تفسیر صراط الجنان)

لیکن ان بدنصیبوں پہ اللہ کے نبی علیہ السلام کی حلم سے لبریز دعوت حق نے بھی اثر نہ کیا ، یوں ان کی سرکشی اور نافرمانی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا چنانچہ اس اثر انگیز پھولوں کے جواب میں انہوں نے جو کہا۔ اسےحکایت کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے: قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۷۰) " ( ترجمہ کنزالعرفان: قوم نے کہا: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور جن چیزوں کی عبادت ہمارے باپ داداکیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اگر تم سچے ہو تو لے آؤ وہ (عذاب) جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔ ( اعراف : 68 )

معاذ اللہ ! ان ظالموں کو اپنے باپ، دادا کی اندھی تقلید نے کہیں کا نہ چھوڑا اور وہ اپنے نبی کو عذاب لانے کا چیلنج کرکے اللہ رب العزت اور اس کے نبی کی نافرمانی کا قبیح ارتکاب کر بیٹھے۔ بہر حال جب ان کی اس سرکشی نے طول پکڑا تو اللہ کے نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: قَالَ قَدْ وَ قَعَ عَلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌؕ-اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍؕ-فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(۷۱) " ( ترجمہ کنزالعرفان: فرمایا: بیشک تم پر تمہارے رب کا عذاب اور غضب لازم ہوگیا۔ کیا تم مجھ سے ان ناموں کے بارے میں جھگڑ رہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔(اعراف : 71) (تفسیر صراط الجنان)

 حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ تم پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا غضب لازم ہوگیا اور تمہاری سرکشی سے تم پر عذاب آنا واجب و لازم ہوگیا۔ کیاتم فضول ناموں یعنی بتوں کے بارے میں جھگڑتے ہو جنہیں تمہارے باپ دادا نے گھڑ لیا اور انہیں پوجنے لگے اور معبود ماننے لگے حالانکہ اُن کی کچھ حقیقت ہی نہیں ہے اور وہ اُلُوہِیّت کے معنی سے قطعاً خالی و عاری ہیں۔(تفسیر صراط الجنان)

اللہ کی نافرمانیوں کا انجام :

اس کے بعد کیا ہوا؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قوم عاد پہ عذاب بھیجا جس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ۠(۷۲) ( ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو اپنی رحمت کے ساتھ نجات دی اور جو ہماری آیتیں جھٹلاتے تھے ان کی جڑ کاٹ دی اور وہ ایمان والے نہ تھے۔ اعراف:72)

حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل ہونے کا واقعہ:

اس کامختصر واقعہ یہ ہے کہ قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے۔ قومِ عاد نے زمین کو فِسق سے بھر دیا تھا۔ یہ لوگ بت پرست تھے ان کے ایک بت کا نام’’ صُدَائ‘‘اور ایک کا ’’صُمُوْد‘‘ اور ایک کا ’’ ہَبائی‘‘ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معبوث فرمایا آپ نے اُنہیں توحید کا حکم دیا ،شرک وبُت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی، لیکن وہ لوگ نہ مانے اورآپ کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زور آور کون ہے؟ اُن میں سے صرف چند آدمی حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے جو بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی مجبوراً اپنا ایمان چھپائے رکھتے تھے۔

اُن مؤمنین میں سے ایک شخص کا نام مرثدبن سعد تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھا ۔جب قوم نے سرکشی کی اور اپنے نبی حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بنائیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بارش روک دی، تین سال بارش نہ ہوئی اب وہ بہت مصیبت میں مبتلا ہوئے اور اس زمانہ میں دستور یہ تھا کہ جب کوئی بلایا مصیبت نازل ہوتی تھی تو لوگ بیتُ الحرام میں حاضر ہو کر اللہ تعالیٰ سے اس مصیبت کو دور کرنے کی دعا کرتے تھے، اسی لئے ان لوگوں نے ایک وفد بیتُ اللہ کو روانہ کیا اس وفد میں تین آدمی تھے جن میں مرثد بن سعد بھی تھا یہ وہی صاحب ہیں جو حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے تھے اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے۔

اس زمانہ میں مکہ مکرمہ میں عمالیق کی سکونت تھی اور ان لوگوں کا سردار معاویہ بن بکر تھا، اس شخص کا ننھیال قومِ عاد میں تھا، اسی علاقہ سے یہ وفد مکہ مکرمہ کے حوالی میں معاویہ بن بکر کے یہاں مقیم ہوا۔ اُس نے اُن لوگوں کی بہت عزت کی اور نہایت خاطر و مدارت کی، یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور باندیوں کا ناچ دیکھتے تھے۔ اس طرح انہوں نے عیش و نشاط میں ایک مہینہ بسر کیا ۔معاویہ کو خیال آیا کہ یہ لوگ تو راحت میں پڑ گئے اور قوم کی مصیبت کو بھول گئے جو وہاں گرفتار ِبلا ہے مگر معاویہ بن بکر کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر وہ ان لوگوں سے کچھ کہے تو شاید وہ یہ خیال کریں کہ اب اس کو میزبانی گراں گزرنے لگی ہے اس لئے اُس نے گانے والی باندی کو ایسے اشعار دیئے جن میں قومِ عاد کی حاجت کا تذکرہ تھا جب باندی نے وہ نظم گائی تو ان لوگوں کویاد آیا کہ ہم اس قوم کی مصیبت کی فریاد کرنے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجے گئے ہیں۔

اب انہیں خیال ہوا کہ حرم شریف میں داخل ہو کر قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں ، اس وقت مرثد بن سعد نے کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ، تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، البتہ اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اوراللہ تعالیٰ سے توبہ کروتو بارش ہو گی، اس وقت مرثد نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا۔ اُن لوگوں نے مرثدکو چھوڑ دیا اور خود مکہ مکرمہ جا کر دعا کی اللہ تعالیٰ نے تین قسم کے بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سُرخ اور ایک سیاہ۔ اس کے ساتھ آسمان سے ندا ہوئی کہ اے قِیْل! اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک بادل اختیار کر، اُس نے اِس خیال سے سیاہ بادل کو اختیار کیا کہ اس سے بہت پانی برسے گا چنانچہ وہ بادل قومِ عاد کی طرف چلا اور وہ لوگ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے مگر اس سے ایک ہوا چلی جو اس شدت کی تھی کہ اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند کرلئے مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے اُس نے دروازے بھی اکھیڑ دیئے اور ان لوگوں کو ہلاک بھی کردیا اور قدرتِ الٰہی سے سیاہ پرندے نمودار ہوئے جنہوں نے اُن کی لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا ۔

حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مؤمنین کو لے کر قوم سے جدا ہوگئے تھے اس لئے وہ سلامت رہے، قوم کے ہلاک ہونے کے بعدوہ ایمانداروں کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لائے اور آخر عمر شریف تک وہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے۔(تفسیر صراط الجنان) وماعلینا الا البلاغ المبین