پیارے اسلامی بھائیو! حُقُوق دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک حُقُوقُ اللہ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حُقُوق اور دوسرا حُقُوقُ الْعِباد یعنی بندوں کے حُقُوق۔ حُقُوقُ اللہ تو ہم پر اس وجہ سے لازِم ہیں کہ ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے ہیں، اس نے ہمیں پیدا فرمایا، وہی ہمارا خالق و مالک اور پالنے والا ہے،اِسی وجہ سے اس کے اَحکامات کی بجاآوری ہم پر لازِم ہے۔لیکن بندوں کے حقوق کی ادائیگی ہم پرکیوں ضروری ہے؟ اس بات کا جواب دیتے ہوئے حُجَّۃُالْاِسْلام، حضرتِ سَیِّدُنا امام محمد بن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اِرْشاد فرماتے ہیں: انسان یا تو اکیلا رہتا ہے یا کسی کے ساتھ اور چونکہ انسان کا اپنے ہم جنس لوگوں کے ساتھ مَیل جول رکھے بغیر زِندگی گُزارنا مُشکل ہے، لہٰذا اس پر مل جُل کر رہنے کے آداب سیکھنا ضروری ہیں۔ چُنانچہ ہر اِختِلاط (میل جَول) رکھنے والے (شخص) کے لیے مل جُل کر رہنے کے کچھ آداب (حقوق)ہیں۔ (احیاء العلوم،2/699)

معلوم ہوا بندوں کے حقوق کے لازِم ہونے کا بُنیادی سبب تمام اِنْسانوں کا مل جُل کر ایک ساتھ رہنا ہے۔

پیارے اسلامی بھائیو! مسلمان کی حق تَلَفی آخرت کیلئے بَہُت زِیادہ نُقصان دِہ ہے،حضرت سیِّدُنا شیخ ابُوطالب محمد بن علی مکی رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ قُوْتُ الْقُلوب میں فرماتے ہیں: زِیادہ تَر (اپنے نہیں بلکہ) دوسروں کے گُناہ ہی دوزخ میں داخِلے کا باعِث ہوں گے جو(حُقُوقُ العِباد تَلَف کرنے کے سبب) انسان پر ڈال دئیے جائیں گے۔ نیز بے شُمار اَفْراد (اپنی نیکیوں کے سبب نہیں بلکہ) دوسروں کی نیکیاں حاصِل کرکے جنَّت میں داخِل ہوجائیں گے۔ (قُوتُ القُلُوب ج2 ص 253) ظاہر ہے دوسروں کی نیکیاں حاصل کرنے والے وہی ہوں گے، جن کی دُنیا میں دل آزاریاں اور حق تلفیاں ہوئی ہوں گی، یُوں بروزِ قیامت مظلوم اور دُکھیارے لوگ فائدے میں رہیں گے۔ (ظلم کا انجام، ص17،18ملتقطاً)

پیارے اسلامی بھائیو! احادیثِ مبارکہ میں کئی مقامات پر مسلمانوں کے حقوق کی اَہَمیّت بیان کی گئی ہے، آئیے!ان میں سے پانچ (5) فرامینِ مُصطفٰے پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

1 مُسَلمان کی سب چیزیں مُسلمان پر حرام ہیں، اس کا مال اور اس کی آبرو اور اس کا خُون۔ آدمی کی بُرائی سے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کوحقیر جانے۔(ابو داود، 4/354، حدیث:4882، غیبت کی تباہ کاریاں،101)

2 جس کے ذِمّے اپنے بھائی کا کسی بات کا ظُلم ہو، اسے لازِم ہے کہ قیامت کا دن آنے سے پہلے یہیں دنیا میں اس سے مُعافی مانگ لے،کیونکہ وہاں نہ دِینار ہوں گے اور نہ دِرْہَم، اگر اس کے پاس کچھ نیکیاں ہوں گی، تو بقَدَر اُس کے حق کے،اِس سے لے کر اُسے دی جائیں گی، ورنہ اُس (مظلوم) کے گناہ اِس (ظالم) پر رکھے جائیں گے۔(بخاری، 2/128، حدیث:2448 از غیبت کی تباہ کاریاں،294)

3 دفتر (رجسٹر) تین (3) ہیں، ایک دفتر میں اللہ تَعَالٰی کچھ نہ بخشے گا اور ایک دفتر کی اللہ تَعَالٰی کو کچھ پروا نہیں اور ایک دفتر میں اللہ تَعَالٰی کچھ نہ چھوڑے گا، وہ دفتر جس میں اَصلاً (بالکل) معافی کی جگہ نہیں،وہ توکفر ہے کہ کسی طرح نہ بخشاجائے گا اور وہ دفتر جس کی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو کچھ پروا نہیں،وہ بندے کا گناہ ہے،خالص اپنے اور اپنے رَبّ عَزَّوَجَلَّ کے مُعاملہ میں (کہ کسی دن کا روزہ ترک کیا یا کوئی نماز چھوڑ دی، اللہ تَعَالٰی چاہے تو اسے مُعاف کر دے اور دَرْگُزر فرمائے) اور وہ دفتر جس میں سے اللہ تَعَالٰی کچھ نہ چھوڑے گا وہ بندوں کاآپس میں ایک دوسرے پرظُلم ہے کہ اس میں ضرور بدلہ ہوناہے۔ (مستدرک، 5/794، حدیث: 8757، از فتاویٰ رضویہ، 24/460)

4۔ جو مسلمان اپنے بھائی کی عزت کا بچاؤ کرے (یعنی کسی مسلم کی آبرو ریزی ہوتی تھی اس نے منع کیا) تو اللہ پاک پر حق ہے کہ قیامت کے دن اس کو جہنم کی آگ سے بچائے۔ (شرح السنۃ، 6/494، حدیث: 3422)

5 تم لوگ حُقُوق، حق والوں کے سپرد کردو گے،حتّٰی کہ بے سینگ والی کا سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔ (صَحِیح مُسلِم ص1394حدیث:2582)

پیارے اسلامی بھائیو! ابھی ہم نے پانچ (5) اَحادیثِ مُبارَکہ پڑھیں، ان میں بیان کردہ آخری حدیثِ مُبارَکہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے دُنیا میں لوگوں کے حُقُوق اَدا نہ کئے تو لَامَحالہ (یعنی ہر صورت میں) قِیامت میں اَدا کرو گے، یہاں دنیا میں مال سے اور آخِرت میں اعمال سے، لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ دُنیا ہی میں ادا کر دو، ورنہ پچھتانا پڑے گا۔ مِراٰۃ شَرحِ مشکوۃ میں ہے: جانور اگرچِہ شرعی احکام کے مُکلَّف نہیں ہیں، مگر حُقُوقُ العِباد جانوروں کو بھی اَدا کرنے ہوں گے۔ (مراٰۃ ج6ص674ملتقطاً،از ظلم کا انجام،ص9)

پیارے اسلامی بھائیو! مسلمانوں کے حقوق کا مُعاملہ واقعی بہت نازُک ہے، ہمیں اس بارے میں ہر وَقْت مُحتاط رہنا چاہیے۔اگر کبھی دانستہ یا نادانستہ طور پرکسی مسلمان کا حق تَلَف ہوجائے تو فوراً توبہ کرتے ہوئے صاحبِ حق سے مُعافی بھی مانگنی چاہیے۔حُقُوقُ اللہ سچی توبہ سے مُعاف ہو جاتے ہیں، جبکہ بندوں کے حقوق میں توبہ کے ساتھ ساتھ جس کا حق مارا ہے،اس سے بھی مُعافی مانگنا ضروری ہے۔ اعلیٰ حضرت،امامِ اَہْلسُنَّت،مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں:حق کسی قسم کا بھی ہو، جب تک صاحبِ حق مُعاف نہ کرے،مُعاف نہیں ہوتا، حُقُوقُ اللہ میں توظاہر (ہے) کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا دوسرا معاف کرنے والا کون ہوسکتا ہے کہ (قرآنِ پاک میں ہے)(وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہ تَرْجَمَۂ کنز الایمان:اور گناہ کون بخشے سوا اللہ کے)اور بندوں کے حقوق میں رَبّ تَعَالٰی نے یہی ضابطہ مقرَّرفرما رکھا ہے کہ جب تک وہ بندہ مُعاف نہ کرے، مُعاف نہ ہوگا۔ اگرچہ مَولیٰ تَعَالٰی ہمارا اور ہمارے جان و مال و حُقُوق سب کا مالک ہے، اگر وہ بے ہماری مرضی کے،ہمارے حُقُوق جسے چاہے مُعاف فرمادے، تو بھی عین حق اور عدل ہے کہ ہم بھی اسی کے اور ہمارے حُقُوق بھی اسی کے مُقرَّر فرمائے ہوئے ہیں، اگر وہ ہمارے خُون، مال اورعزت وغیرہا کو معصوم و محترم نہ کرتا تو ہمیں کوئی کیسا ہی آزار (تکلیف) پہنچاتا، کبھی ہمارے حق میں گرفتار نہ ہوتا۔ یُونہی اب بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ جسے چاہے، ہمارے حُقُوق معاف فرما دے کیونکہ وہی مالکِ حقیقی ہے،مگر اس کریم،رحیم عَزَّوَجَلَّ کی رحمت (ہے) کہ ہمارے حُقُوق کا اِختیار ہمارے ہاتھ (میں) رکھا ہے، بے ہمارے بخشے مُعاف ہوجانے کی شکل نہ رکھی،تاکہ کوئی مظلوم یہ نہ کہے کہ اے میرے مالک! مجھے میرا حق نہ ملا۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/460،بتغیر قلیل)

اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں بندوں کے حقوق کی اَہمیّت سمجھنے اور ان کو بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔


اسلام نے حقوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک کو ہم حقوق اللہ اور دوسرے کو حقوق العباد کے نام سے جانتے ہیں۔دونوں کی اہمیت وافادیت مسلّم ہے اور ان کا پاس و لحاظ رکھنا اسلام کی نگاہ میں انتہائی ضروری ہے۔آج کل لالچ اور حرص وہوس نے ہمیں اپنا اتنا گرویدہ کر دیا کہ ہم ہر ایک سے حسد، فراڈ، دھو کہ کرنے لگے اور آپس میں بغض رکھنے لگے جبکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان قلبی بیماریوں سے منع فرمایا ہے۔ہم اپنی دوکانوں کو چمکاتے ہے اپنی واہ وا کے لئے اپنے آپ کو سب سے مختلف ظاہر کرنے کے لئے دوسروں کو حقیر، گھٹیا، سمجھنے لگے تو یہ حق مسلم نہیں بلکہ ہم اپنے لئے دوزخ خرید رہے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے تو کیا ہم اپنے حقیقی بھائی بہن دیگر رشتہ داروں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ لڑائی وجھگڑا کرتے ہیں ایک دوسرےسے قطع تعلق (رشتہ توڑ) کر دیتے ہے اور کئی کئی سال تک ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے اور جب شب قدر یا شب براءت یا اسی طرح کا کوئی اور دن ہوں تو ہم ایک روایتی میسج کرتے ہے وہ بھی ان لوگوں کوجن سے ہمارا رشتہ بہت کم ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ ہم سے ناراض بھی نہیں ہوتے اور جو اس میسج کے زیادہ حق دار ہوتے ہے ہم انہیں بھول جاتے ہیں جبکہ اسلام نے تو تین دن سے زیادہ دیر تک ناراض رہنے سے منع فرمایا ہے اور ان تمام چیزوں میں جو سب سے پہلے نمبر پہ ہے وہ ہماری زبان ہے کیونکہ یہ زبان ہی تو ہے کہ اس سے نکلنے والے الفاظ سے ہم کسی کے دل میں بھی اتر جاتے ہے اور کسی کے دل سے بھی۔ تو آج ہم مسلمان کے مسلمان پرجو حقوق ہے ان میں سے چند حقوق کے متعلق پڑھیں گے اور اس پہ عمل کرنے کی بھی کوشش کرے گے ان شاء اللہ۔

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ۔ ترجمہ کنزالایمان: تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ (پ4، آل عمرٰن:110)

خیر خواہی کا سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مطلق سچائی اور اُخروی کا میابی کی طر ف بلاتا رہے اور اس کو دوسرے افکار و نظریات اور مذاہب کے برے اثرات سے محفوظ رکھے۔دین ہرایک کے لیے نصیحت ہے۔اس لیے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فر مایا: الدین نصیحۃ، یعنی دین سراپا نصیحت ہے۔ یہ جملہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین مر تبہ دُہرایا۔ اس کے بعد ایک صحابی نے عرض کیا کہ یہ کن کے لیے نصیحت ہے ؟۔ فر مایا: اللہ تعالیٰ،اس کی کتاب، مسلم حکمرانوں اور تمام مسلمانوں کے لیے۔(ترمذی)

’خیر‘ کے لغوی معنی فائدہ، بھلائی اور نفع کے ہیں اور اس کے اصطلاحی معنی کسی چیز کو بہتر طریقے سے اپنے کمال تک پہنچانے کے ہیں۔ امام راغب کے مطابق ’ النصح ‘ کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسروں کی خیر خواہی ہو۔ ہر ایک کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سب کے ساتھ خیر خواہی کرنا ہی حقیقتاً دین داری ہے۔ اگر مسلمان بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قرآن مجید اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی اور وفاداری نہ کر ے تو وہ اپنے دعوے میں جھوٹاہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے وہی چاہے جو اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے چاہتا ہو۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے واسطے وہی بات نہ چاہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہو‘‘۔(بخاری،کتا ب الایمان)

ایک مو من دوسرے مومن کا خیر خواہ ہوتا ہے۔ایک مسلمان کودوسرے مسلمان بھائی کی فلاح وبہبود اور تر قی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔خیر خواہی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے ہدایت اور اسلام پر ثابت قدم رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے۔

مسلمان کے مسلمان پہ کئی حقوق ہیں اللہ پاک کے پیارے حبيب،حبيب لبیب، سب سے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے ایک موقع پہ ارشاد فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا،جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا‘‘۔

شرح:اس حدیث میں ان حقوق میں سے کچھ کا بیان ہے جو مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی پر واجب ہوتے ہیں۔ مسلمان کے اپنے بھائی پر بہت سے حقوق لازم ہوتے ہیں لیکن نبی بعض اوقات کچھ معین باتوں کو ان پر خصوصی توجہ دینے اور ان كو شمار کرنے کے لیے صرف انہی کا ذکر فرما دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا ذکر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کرتے ہوئے کیا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا۔ یعنی جب آپ کو کوئی شخص سلام کرے توآپ اس کے سلام کا جواب دیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: ایک یہ کہ جب تم اس سے ملو تو اس سے سلام کرو۔جو شخص مسلمانوں کے سلسلے میں ان حقوق کی پاسداری کرے گا وہ دیگر حقوق کو بدرجۂ اولی پورا کرے گا۔ اس طرح سے وہ ان واجبات و حقوق کو پورا کرے گا جن میں بہت زیادہ بھلائی مضمر یعنی چھپی ہوئی ہے اور بہت بڑا اجر ہے بشرطیکہ وہ اللہ سے اجر کا امیدوار رہے۔ ان حقوق میں سے سب سے پہلا حق یہ ہے کہ جب تم دوسرے مسلمان سے ملو تو اسے سلام کرو ۔

دوسرا حق: جب کوئی شخص بیمار ہو کر اپنے گھر میں مقید ہوجائے تو اس کی تیمار داری کرنا۔ اس کا اپنے مسلمانوں بھائیوں پر یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس کی زیارت کریں۔ اس کے صحت یابی کے لیے دعا کرے۔ اور اگر اس کے لیے آسانی ہو تو اس کی کچھ خدمت بھی کرے تاکہ اس کے لیے آسانی ہو جائے۔

تیسرا حق: جنازے کے پیچھے چلنا اور ان کے ساتھ ساتھ جانا ہے۔مسلمان کا اپنے بھائی پر یہ حق بھی ہے کہ جب وہ انتقال کر جائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ چلے۔ اب یہ جنازہ جنازگاہ میں جارہا ہو یا پھر کسی مسجد میں ہو اور کوشش کرے کہ اسے دفن کرنے کے بعد دعا مغفرت بھی کرے اور پھر واپس آجائے ۔لیکن آج کے دور میں کوئی امیر انتقال کر جائے تو ہم ان کودیکھانے کے لیے جاتے ہے اور کافی دیر تک وہاں رکتے ہیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ہمیں بہت افسوس ہے جبکہ یہی اگر کسی غریب کا گھر ہو تو ہم جاتے ہی نہیں یا پھر جاتے ہے تو بس فورا ہی واپس آجاتے ہے جبکہ وہ بھی مسلمان اور یہ بھی مسلمان۔ تو ہمیں چاہے کہ ہم ان میں اس طرح کا فرق نا کرے۔

چوتھا حق: دعوت قبول کرنا ہے۔ مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی پر یہ حق بھی ہے کہ جب وہ اس کی دعوت کرے تو وہ اس کی دعوت کو قبول کرے مگر آج کے دور میں ہم اس چیز پہ توجہ کرتے ہے کہ اگر تو کوئی امیر ہے تو ہم اس کی دعوت کو قبول کرلیتے ہیں اور اگر وہ غریب ہے تو اس کی دعوت کو رد کر دیتے ہے جبکہ یہ صرف دعوت کو رد کرنا ہی نہیں بلکہ اس سے اس کا دل بھی یقینا دکھتا ہو گا اور مسلمان بھائی کا دل بھی نہیں دکھانا چاہے۔

پانچواں حق: چھینک کا جواب دینا ہے۔ کیونکہ چھینک آنا یہ بھی اللہ پاک کی ایک بہت بڑی نعمت ہے ہم اکثر محسوس کرتے ہیں کہ جب ہمیں چھینک آتی ہے تو چھینک کے بعد ہمارے جسم کو راحت ملتی ہے تو اس نعمت کا بھی شکر ادا کرنا چاہیئے اور جب ہمارے دینی بھائی کو آئے تو اس کا جواب بھی دینا واجب ہے ۔

ہمارا معاشرہ جو ہے وہ آج ان چیزوں کو بھولے بیٹھا ہے اور صرف دنیا کے پچھے ہی لگا ہوا ہے جبکہ وہ اپنے بھائی کے حقوق کو ضائع کر رہا ہے اور تو ہمیں چاہے کہ ہم اپنے بھائی کے حقوق کا خیال رکھے اور ان کو ادا کرنے کی بھی دل و جان سے کوشش کرتے رہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے بھایئوں کے حقوق کا خیال رکھنے اور ان کو اچھے سے ادا کرنے کی توفيق عطإ فرمائے۔ آمین

نوٹ:اکثر ہم جب بھی کوئی تحریر پڑھتے یا کوئی بیان وغيرہ سنتے ہے تو ہمارا اس وقت تو ذہن بن جاتا ہے کہ ہم اب ان چیزوں کا خیال کرے گےے جبکہ ہم نے ابھی اپنے بھائی کے حقوق کے متعلق پڑھا تو ہمارا ذہن بنا ہوگا کہ ہم ان کو ادا کرے یا کبھی قطع تعلق کے متعلق پڑھیں جو کہ اب ہمارے معاشرہ میں بہت زیادہ ہوچکی ہے تو ہم اسی وقت ذہن بناتے ہیں کہ جو ناراض ہے اس کو منائے گئے لیکن کچھ دیر بعد پھر شیطان کے بہکاؤے میں آکر ترک کر دیتے ہے۔

تومیرے عزیز! یاد رکھ جب نیت کرے تو اسے فورا پورا کراور اسے اپنے عادت بنا تاکہ آپ اسے کرتے رہوں۔ اپنے بھائی کا خیال کرنے سے عزت کم نہیں ہوگی بلکہ عزت میں اضافہ ہی ہوگا ان شاء اللہ

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو! الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کے کچھ حقوق ہوتے ہیں آج ہم ان شاء اللہ الکریم مسلمان کے اپنے دوسرے مسلمان بھائ پر حقوق کے حوالے سے کچھ حضور صلہ اللہ علیہ والہ وسلم فرمان سنے گئے ۔مشہور صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے اللہ پاک کے آخری نبی رسول ہاشمی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا حق المسلم على مسلم خمس یعنی ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں ۔ ( بخاری و مسلم ) اس حدیث پاک میں پانچ حقوق کا ذکر ہے بعض دیگر روایات میں سات حق بھی بیان ہوئے ہیں۔

بہرحال یہ پانچ حق کون سے ہیں ارشاد فرمایا (1) حق سلام کا جواب دینا (2)دوسرا حق عیادت کرنا (3)تیسرا حق جنازے میں شرکت کرنا (4)چوتھا حق دعوت قبول کرنا اور (5)پانچواں حق چھینک کا جواب دینا ہے۔ سبحان اللہ

پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے کس قدر حقوق ہے کہ اس کی دعوت قبول کرنا اور اس کی چھینک کا جواب دینا جنازے میں شرکت کرنا اور عیادت کرنا اگر وہ بیمار ہو لیکن ہماری اکثریت اس سے دور ہیں بلکہ ہماری اکثریت تو ایک دوسرے کو بات بات پر دھوکا دہی دینے میں اور فراڈ کرنے میں لگی ہوئی ہے اللہ پاک محفوظ رکھے بہرحال ایک اور حدیث میں ہے کہ

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ اِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى یعنی ایمان والوں کی آپس میں محبت، رحم اورشفقت ومہربانی کی مثال اُس جسم جیسی ہے جس کاایک حصہ بیمار ہوتوباقی جسم بے خوابی اوربخار کی طرف ایک دوسرے کوبلاتا ہے۔ (مسلم، ص1071: 6586

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاانتخاب بے مثال ہوتا ہے خواہ وہ افراد ہوں یاالفاظ۔اس حدیثِ پاک میں جن الفاظ کو زبان ِ مصطفےٰ سے ادا ہونے کا اعزاز ملا ہےاُن میں مرادی معنی کے اعتبار سےفرق ہے مثلاً:

(1) تَرَاحُم کامعنی ایک دوسرے پررحم کرنا ہے، مراد یہ ہے کہ مسلمان کسی اور غرض کے بغیر صرف اور صرف اسلامی بھائی چارے کی وجہ سے ایک دوسرے پررحم کریں۔

(2) تَوادّ کامعنی ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے، یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ آپس کی محبت بڑھانے کے تعلقات رکھے جائیں جیسے ایک دوسرے کو تحفے دیئے جائیں، ملاقات کی جائے وغیرہ۔

(3) تعاطف کامعنی ایک دوسرے پر نرمی کرنا ہے، اس سے مراد ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔

ہمارے ذہن میں یہ بات ہونی چاہئےکہ دوسروں کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرنا کامل مسلمان کی نشانی ہے لہٰذا ایک کامل مسلمان بننے کے لئے ہمیں دوسروں کی تکلیف دور کرنے کی قابلِ عمل صورتیں اپنانی چاہئیں، مثلاً (1) کسی کی بیمار ی کا معلوم ہو تو حسبِ حال خیر خواہی کیجئے اور عیادت کرنے کی عادت بنائیے، حدیثِ پاک میں ہے: جس نے مریض کی عیادت کی، وہ واپسی تک دریائے رحمت میں غو طے لگاتا رہتا ہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت میں ڈوب جاتا ہے۔ (مسنداحمد5/30حدیث:14264)

(2) ہم ہرایک کی مدد نہیں کرسکتے مگر کسی ایک کی مدد تو کرسکتے ہیں، ایک شخص کی مدد کرکےہم پوری دنیا نہیں بدل سکتے مگرایک شخص کی دنیا تو بدل سکتے ہیں لہٰذا تکلیف زدہ مسلمان کادُکھ دور کرنے کی کوشش کیجئے، حدیثِ پاک میں ہے: جوکسی مسلمان کی تکلیف دور کرے اللہ پاک قِیامت کی تکلیفوں میں سے اُس کی تکلیف دُور فرمائے گا۔ (مسلم ص1069:حدیث6578)

(3) مسلمان کی عزت کے محافظ بن جائیے، حدیث پاک میں ہے: جو مسلمان اپنے بھائی کی عزت کا بچاؤ کرے (یعنی کسی مسلم کی آبرو ریزی ہوتی تھی اس نےمنع کیا) تو اللہ پاک پر حق ہے کہ قیامت کےدن اس کو جہنّم کی آگ سے بچائے۔(شرح السنہ 6/464حدیث3422)

(4) دکھی مسلمانوں کو خوش رکھنے کا اہتمام کیجئے، حدیثِ پاک میں ہے: فرائض کے بعد سب اعمال میں الله پاک کو زیادہ پیارا مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔(معجم الکبیر 11/59 حدیث11079)

اللہ پاک ہم سب کو مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوے اچھے طرح پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بحاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارےاسلامی بھائیو! تمام مومنین آپسں میں دینی رشتے کے سبب ایک دوسرے کے معاون و مدد گار ہیں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جس نے بلاوجہ کسی مسلمان کو ایذادی اُس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھ کو ایذادی اُس نے الله عزوجل کو ایذادی حدیث پاک میں مسلمانوں کے حقوق کی عظمت، اُن کی معاونت اور ایک دوسرے سے شفقت واضح ہے۔ حقیقی مددگار اللہ عزوجل ہے اور اُس کی عطا سے اُس کے بندے بھی معاون و مددگار ہیں اللہ عزّوجل ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی باہم مدد و نصرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(1) مسلمانوں کو تکلیف نہ دینا:حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا، جو شخص ہماری مسجدوں اور بازاروں سے گزرے اور اُس کے پاس تیر ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ اُسے تھام لے یا ارشاد فرمایا اُس کی نوک کو اپنے ہاتھ میں پکڑلے تاکہ کسی مسلمان کو اس سے کوئی تکلیف نہ پہنچے( بخاری شریف کتاب الفتن الحدیث (7075)

(2) مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا:حضرت سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔ مسلمانوں کی آپس میں دوستی رحمت و شفقت کی مثال ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو پورا جسم بخار اور بے خوابی کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے؟

علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بخار ایک حرارت غریبہ ہے جو دل میں پیدا ہوتی ہے اور پورے بدن میں پھیل جاتی ہے جس سے پورے بدن کو تکلیف ہوتی ہے اس حدیث میں مسلمانوں کے حقوق کی تعظیم ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کرنے کا درس فرمایا ہے۔ (فیضان ریاض ا لصالحین جلد 3 ص 237)

(3) مسلمانوں کے ساتھ شفقت کرنا:قرآن پاک میں ارشاد ہے:وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ترجمہ کنز الایمان:اور مسلمانوں کو اپنے رحمت کے پروں میں لے لو۔

امام فخر الدین رازی علیہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس آیت مبارکہ میں حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فقراء مسلمانوں پر رحمت و شفقت اور تواضح کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔(تفسیر کبیر پ 14 الحجر آیت 88)

(4) حاجت پوری کرنا:حضرت سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ بندہ جب تک اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں رہتا ہے اللہ اُسکی حاجت پوری فرماتا رہتا ہے۔ (جنت میں لے جانے والے اعمال صفحہ نمبر 531)

(5) عزت کی حفاظت کرنا: حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جس نے دنیا میں اپنے بھائی کی عزت کی حفاظت کی الله عز وجل قیامت کے دن ایک فرشتہ بھیجے گا جو جہنم سے اُس کی حفاظت فرمائے گا۔(غیبت کی تباہ کاریاں صفحہ نمبر 212)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَیُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا وَیَعْرِفْ لَنَا حَقَّنَا یعنی جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے، ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اور مسلمان کاحق نہ جانے وہ ہم سے نہیں (المعجم الکبیر، 11/355، حدیث: 12276)

یقیناً مسلمان کے حقوق نہایت اہم ہیں، مسلمانوں سے ہمارے کئی طرح کے تعلقات ہوتے ہیں مثلاًباپ، بیٹا، بھائی، ماموں، چچا، پڑوسی، ملازم وغیرہا۔ہر ایک کے اعتبار سے ہمیں ان کے حقوق کو ادا کرناہے، جہاں شریعتِ مُطَہَّرہ نے مسلمانوں کی عزت و عظمت اورمقام و مرتبہ بیان کیا ہے وہیں ان کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیااور کچھ حقوق گنوائے ہیں۔چنانچہ

مسلمانوں کے چھ حقوق: خاتَمُ الْمُرْسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں (1)جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرے (2)جب وہ مرجائے تواس کے جنازہ پرحاضر ہو (3)جب دعوت کرے تواس کی دعوت قبول کرے (4)جب وہ ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے (5)جب وہ چھینکے تو جواب دے (6)اس کی غیر حاضری اور موجودگی دونوں صورتوں میں اس کی خیر خواہی کرے۔(ترمذی، کتاب الأدب، باب ما جاء فی تشمیت العاطس، 4/338، حدیث: 2746)

حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اِس حدیث پاک میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق بیان کئے گئے ہیں ان میں تمام مسلمان برابر ہیں، چاہے نیک ہوں یا بد لیکن اتنا ضرور ہے کہ نیک لوگ خندہ پیشانی، اچھے طریقے سے ملاقات کرنے اور مصافحہ میں پہل کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الجنائز، باب عیادۃ المریض، 4/6، تحت الحدیث: 1525)

پیارے اسلامی بھائیو!مذکورہ احادیث میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق بیان فرمائے گئے ہیں، اِن چھ حقوق کا اِجمالی بیان پیش خدمت ہے

(1)ملاقات کے وقت اپنے مسلمان بھائی کو سلام کرنا سنت ہے، اور سلام کا جواب اتنی آواز سے دینا واجب ہے کہ سلام کرنے والا سن لے۔ سلام کرنے کے بہترین الفاظ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ ہیں اورجواب دینے کے بہترین الفاظ وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ ہیں۔

(2)اپنے مسلمان بھائی کی دعوت کو قبول کرنا اُس وقت سنت ہے جبکہ اُس میں کوئی خلافِ شرع کام نہ ہو، یا وہ دعوت دوسروں کو نیچا دکھانے، فخر اور اپنی واہ وا کے لئے نہ ہو ورنہ ایسی دعوتوں میں شرکت کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

(3)اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت اور اُن کی خیر خواہی کرنا سنت مبارکہ ہےاور جب کوئی نصیحت طلب کرے اور دوسرا اُس پر قادر ہو تو اب نصیحت کرنا واجب ہے۔

(4)چھینکنے والے کو چاہیے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن کہے، جبکہ سننے والا اُس کے جواب میں یَرْحَمُکَ اللہ کہے اور اب چھینکنے والا یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ یا یَھْدِیْکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُم کہے، چھینک کا جواب ایک بار دینا واجب ہے جبکہ چھینکنے والا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہے، ورنہ واجب نہیں۔

(5)اپنے بیمار مسلمان بھائی کی عیادت کرنا سنت مبارکہ ہے اور اَحادیث میں اِس کا بڑا اَجروثواب بیان فرمایا گیا ہے اور اگر اُس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی بھی نہ ہو اور یہ اُس پر قادر ہے تو اب اُس کی دیکھ بھال کرنا اِس پر واجب ہے۔

اپنے مسلمان بھائی کے جنازے میں حتی المقدور شرکت کرنی چاہیے کہ احادیث مبارکہ میں اِس کے بھی بہت فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ مذکورہ احادیث میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق کو بیان فرمایا گیا ہے لیکن یہ حقوق فقط ان چھ میں منحصر نہیں، چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کے ایک دوسرے پر بہت سے حقوق ہیں، صرف اِن چھ میں اِنحصار نہیں۔ حضورِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مواقع پر موقع کی مناسبت سے مختلف حقوق کو بیان کیا یا پھر حقوق المسلمین بتدریج نازل ہوئے، جو حق جب نازل ہوا آپ نے اُسی وقت اُس کو بیان فرمادیا۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَیُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا وَیَعْرِفْ لَنَا حَقَّنَا یعنی جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے، ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اور مسلمان کاحق نہ جانے وہ ہم سے نہیں (المعجم الکبیر، 11/355، حدیث: 12276)

یقیناً مسلمان کے حقوق نہایت اہم ہیں، مسلمانوں سے ہمارے کئی طرح کے تعلقات ہوتے ہیں مثلاًباپ، بیٹا، بھائی، ماموں، چچا، پڑوسی، ملازم وغیرہا۔ہر ایک کے اعتبار سے ہمیں ان کے حقوق کو ادا کرناہے، جہاں شریعتِ مُطَہَّرہ نے مسلمانوں کی عزت و عظمت اورمقام و مرتبہ بیان کیا ہے وہیں ان کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیااور کچھ حقوق گنوائے ہیں۔چنانچہ

مسلمانوں کے چھ حقوق: خاتَمُ الْمُرْسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں (1)جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرے (2)جب وہ مرجائے تواس کے جنازہ پرحاضر ہو (3)جب دعوت کرے تواس کی دعوت قبول کرے (4)جب وہ ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے (5)جب وہ چھینکے تو جواب دے (6)اس کی غیر حاضری اور موجودگی دونوں صورتوں میں اس کی خیر خواہی کرے۔(ترمذی، کتاب الأدب، باب ما جاء فی تشمیت العاطس، 4/338، حدیث: 2746)

حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اِس حدیث پاک میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق بیان کئے گئے ہیں ان میں تمام مسلمان برابر ہیں، چاہے نیک ہوں یا بد لیکن اتنا ضرور ہے کہ نیک لوگ خندہ پیشانی، اچھے طریقے سے ملاقات کرنے اور مصافحہ میں پہل کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الجنائز، باب عیادۃ المریض، 4/6، تحت الحدیث: 1525)

پیارے اسلامی بھائیو!مذکورہ احادیث میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق بیان فرمائے گئے ہیں، اِن چھ حقوق کا اِجمالی بیان پیش خدمت ہے

(1)ملاقات کے وقت اپنے مسلمان بھائی کو سلام کرنا سنت ہے، اور سلام کا جواب اتنی آواز سے دینا واجب ہے کہ سلام کرنے والا سن لے۔ سلام کرنے کے بہترین الفاظ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ ہیں اورجواب دینے کے بہترین الفاظ وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ ہیں۔

(2)اپنے مسلمان بھائی کی دعوت کو قبول کرنا اُس وقت سنت ہے جبکہ اُس میں کوئی خلافِ شرع کام نہ ہو، یا وہ دعوت دوسروں کو نیچا دکھانے، فخر اور اپنی واہ وا کے لئے نہ ہو ورنہ ایسی دعوتوں میں شرکت کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

(3)اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت اور اُن کی خیر خواہی کرنا سنت مبارکہ ہےاور جب کوئی نصیحت طلب کرے اور دوسرا اُس پر قادر ہو تو اب نصیحت کرنا واجب ہے۔

(4)چھینکنے والے کو چاہیے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن کہے، جبکہ سننے والا اُس کے جواب میں یَرْحَمُکَ اللہ کہے اور اب چھینکنے والا یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ یا یَھْدِیْکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُم کہے، چھینک کا جواب ایک بار دینا واجب ہے جبکہ چھینکنے والا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہے، ورنہ واجب نہیں۔

(5)اپنے بیمار مسلمان بھائی کی عیادت کرنا سنت مبارکہ ہے اور اَحادیث میں اِس کا بڑا اَجروثواب بیان فرمایا گیا ہے اور اگر اُس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی بھی نہ ہو اور یہ اُس پر قادر ہے تو اب اُس کی دیکھ بھال کرنا اِس پر واجب ہے۔

اپنے مسلمان بھائی کے جنازے میں حتی المقدور شرکت کرنی چاہیے کہ احادیث مبارکہ میں اِس کے بھی بہت فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ مذکورہ احادیث میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق کو بیان فرمایا گیا ہے لیکن یہ حقوق فقط ان چھ میں منحصر نہیں، چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کے ایک دوسرے پر بہت سے حقوق ہیں، صرف اِن چھ میں اِنحصار نہیں۔ حضورِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مواقع پر موقع کی مناسبت سے مختلف حقوق کو بیان کیا یا پھر حقوق المسلمین بتدریج نازل ہوئے، جو حق جب نازل ہوا آپ نے اُسی وقت اُس کو بیان فرمادیا۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو حقوق العباد کے معاملے میں تمام مسلمان چاہے نیک ہو یا گنہگار سب برابر ہیں۔ البتہ نیک لوگ حسن سلوک کے زیادہ حق دار ہیں۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کئی حقوق ہیں۔ البتہ ان تمام حقوق کو کسی ایک حدیث میں نہیں بلکہ وقتا فوقتاً مختلف احادیث مبارکہ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ ایک بار آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کعبہ معظمہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا مومن کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے۔۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں۔ جب اس کی آنکھ میں تکلیف ہوگی تو سارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگر اس کے سر میں درد ہو تو سارے جسم میں درد ہو گا۔ (مسلم، کتاب، البر والصلتہ والآداب، باب تراحم المؤمنین الخ، ص 1396، حدیث 2586

(1)ظلم سے روکنا: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بھائی کی مدد کر وخواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ کسی نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، اگر وہ مظلوم ہو تو مدد کروں گا لیکن ظالم ہو تو کیسے مدد کروں ؟ارشاد فرمایا ’’اس کو ظلم کرنے سے روک دے یہی (اس کی)مدد کرنا ہے۔(بخاری، کتاب الاکراہ، باب یمین الرجل لصاحبہ الخ، 4/389 الحدیث: 952)

(2)ضرورت پوری کرنا : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا’’مسلمان،مسلمان کابھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کورُسواکرے،جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتاہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتاہے اورجوشخص کسی مسلمان سے مصیبت کودورکرتاہے تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں سے کوئی مصیبت دُورفرمادے گااورجوشخص کسی مسلمان کاپردہ رکھتاہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کاپردہ رکھے گا۔(بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلم الخ،2/126، الحدیث: 2662)

(3) پیٹھ پیچھے اس کی عزت کی حفاظت کرنا: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو اپنے (مسلمان) بھائی کی پیٹھ پیچھے اس کی عزت کا تحفظ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کر دے۔(مسند امام احمد جلد 4 ص 461)

(4)مدد کرنا :حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی بندے کی ضرورت میں اس کی مدد کی الله عز وجل اسے اس دن ایسی جگہ پر ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔ جس دن قدم پھسلیں گے۔(الترغیب والترھیب ص 263)

(5)خوشی داخل کرنا: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تمہارا اپنے مسلمان بھائی کے دل میں خوشی داخل کرنا مغفرت کو واجب کرنے والے اعمال میں سے ہے۔ (مجمع الزوائد ص 352)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


دین اسلام میں جس طرح نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا حکم دیا گیا ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان، حیوان، چرند، پڑند اور نیز دیگر مخلوقات کے حقوق کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ان تمام میں بھی سب سے مقدم حقوق العباد ہے۔ حدیث شریف میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کثیر تعداد میں مسلمانوں کے حقوق کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے مسلمان اپنے مسلمان بھائی پر کچھ حقوق رکھتا ہے، جنکی ادائیگی واجب ہے، ان حقوق کی تعداد بہت زیادہ ہے، البتہ ان میں سے بعض حقوق کا ذکر ہم یہاں کرتے ہیں۔

مسلمانوں کے بنیادی حقوق: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فر ما یا: مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!وہ کو ن سے ہیں ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فر ما یا: جب تم اس سے ملو تو اس کو سلام کرو اور جب وہ تم کو دعوت دے تو قبول کرو اور جب وہ تم سے نصیحت طلب کرے تو اس کو نصیحت کرو اور جب اسے چھینک آئے اور الحمدللہ کہے تو اس کے لیے رحمت کی دعاکرو۔ جب وہ بیمار ہو جا ئے تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ فوت ہو جا ئے تو اس کے پیچھے (جنازے میں) جاؤ۔ (صحیح مسلم/5651)

پہلا حق: سلام کا جواب دینا: جب کوئی مسلمان اپنے دوسرے بھائی سے ملتا ہے تو اس پر حق ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو سلام کرے اور دوسرے پر حق ہے کہ وہ سلام کا جواب دے۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دو مسلمان جب آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کو جدا ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔ (ترمذی/2727)

دوسرا حق:دعوت قبول کرنا: جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو دعوت پیش کرے تو دوسرے پر حق ہے کہ وہ اس کی دعوت کو قبول کرے۔ کسی شرعی عذر کے تحت منع بھی کر سکتا ہے۔

تیسرا حق:بہتریں رائے دینا: جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی سے کسی کام کے سلسلے میں نصیحت، رائے طلب کرے تو دوسرے کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کو بہتر سے بہتر اور بھلائی والی نصیحت کرے۔

چوتھا حق: چھینک کا جواب: جب کسی مسلمان بھائی کو چھینک آئے تو دوسرے کو چاہیے کہ اس کے لیے رحمت کی دعا کریں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے تو (الحمد للہ) کہے اور اسکا بھائی یا ساتھی یَرْحَمُکَ اللہ کہے،پھر جب وہ یرحمک اللہ کہے تو چھینکنے والا یَھْدِیْکُمُ اللہ وَ یُصْلِحُ بَالَکُمْ کہے۔(صحیح بخاری، 6624)

پانچواں حق:بیمار کی عیادت: جب کوئی مسلمان بیمار ہو جائے تو دوسرے مسلمان بھائی کو چاہیے کہ اس کی عیادت کے لئے جائے۔ یہ بہت اہم حق ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب کسی بیمار کی عیادت کیلئے تشریف لے جاتے تو فرماتے: لَا بَأْسَ طَھُوْرٌ اِنْ شَآءَ اللہ کوئی حرج نہیں اگر اللہ نے چاہا تو یہ بیماری پاک کرنے والی ہے۔ (صحیح بخاری/3616)

چھٹا حق:جنازہ میں شرکت: جب کوئی مسلمان اس دنیا سے رخصت ہو جائے تو دوسرے مسلمان بھائی کو چاہیے کہ اس کی نماز جنازہ کے لیے جائے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے چلے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھنے اور دفن سے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہے گا تو وہ دو قیراط اجر لے کر لوٹے گا، ہر قیراط احد پہاڑ کی مانند ہے اور جو اس کو دفنائے جانے سے قبل صرف نماز جنازہ پڑھ کر لوٹ آئے تو وہ ایک قیراط کے ساتھ واپس آئے گا۔ (صحیح بخاری/1323/1325)

نیز اسی طرح احادیث میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بہت سے مقامات پر مسلمانوں کے حقوق کے بارے لوگوں کی رہنمائی فرمائی ہے جن میں مسلمان بھائی کی مدد کرنا مصیبت میں، سب کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا، کسی کی عیب جوئی نہ کرنا،نہ کسی کی غیبت کرنا، مسلمان بھائی کے بارے برا گمان نا کرنا اور ہمیشہ اپنے مسلمانوں کی بھلائی کے بارے میں سوچنا۔ اللہ پاک ہمیں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے اپنے مسلمان بھائیوں کے حقوق پورا کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


مسلمانوں کی اہمیت: تمام مسلمان جسم واحد کی طرح ہیں کہ جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اور مسلمانوں کے آپس میں رہنے کے متعلق قرآن وحدیث میں مسلمانوں کی عزت واہمیت کا تذکرہ موجود ہے کیونکہ مسلمان کی عزت و اہمیت بہت ضروری ہے آیئے مسلمانوں کی عزت و اہمیت کو جاننے کے لیے حدیث مبارکہ پڑھتے ہیں۔

مسلمان کی پریشانی دور کرنا: مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی پر ایک حق یہ ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی پریشانی دور کرے اسے کوئی پریشانی، اُلجھن یا تنگدستی میں دیکھے تو اس کی مدد کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کی دنیوی پریشانیوں میں سے کوئی ایک پریشانی دور کرے، الله قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دور فرمائے گا۔(مسلم، کتاب الذکر والدعا۔ الخ۔ باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن ۔ الخ، ص 1110 حدیث:6853)

مسلمان کی تعزیت کرنا: مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے غم میں شریک ہو۔ اُسے مصیبت میں دیکھ کر اس کی تعزیت کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت میں تعزیت کرے۔ الله پاک قیامت کے دن اُسے عزت کا لباس پہنائےگا۔(ابن ماجہ، 268/2، حدیث: 1601)

مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا: مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے دل میں خوشی داخل کرے۔ اس سے اچھے اخلاق سے پیش آئے۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: الله پاک کے نزدیک فرائض کی ادائیگی کے بعد سب سے افضل عمل مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا ہے۔( حدیث نمبر:11079 ، معجم کبیر 59/11)

مسلمان کو پانی اور کھانا کھلانا: اپنے مسلمان بھائی کی حاجات پوری کرے۔ اپنے مسلمان بھائی کی پیاس بھجائے اگر وہ بھوکا ہو تو اسے کھانا کھلائے اسے اچھے کپڑے پہنائے۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ جو مسلمان کسی ننگے مسلمان کو پہنائے اللہ اسے جنت کے سبز جوڑے پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھلائے تو اللہ اسے جنت کے پھل کھلائے گا اور جو مسلمان کسی پیاسے مسلمان کو پلائے تو اللہ اسے مہر والی پاک و صاف شراب پلائے گا۔ (ابو داؤد، ترمذی، مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابيح 3/ص 116)

مسلمان کو تکلیف نہ دینا: اپنے مسلمان بھائی کو کبھی تکلیف نہ دیں۔ اسے کبھی ایذا نہ دیں اسے کبھی پریشان نہ کریں۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ ایک شخص درخت کی شاخ پر گزرا جو بر سر راہ پڑی تھی۔ وہ بولا کہ اسے مسلمانوں کے راہ سے ہٹادوں کہیں انہیں تکلیف نہ دے وہ جنت میں داخل کیا گیا۔ (مسلم بخاری، مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، ج 3/ص111)

مسلمان کا آپس میں مصافحہ کرنا:اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ مصافحہ کرو۔ مصافحہ کرنا سنت ہے۔ہر بار کرنا مستحب ہے۔ اپنے مسلمان بھائی سے جتنی دفعہ ملاقات ہو ہر بار مصافحہ کریں۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان بوقت ملاقات مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے پہلے ان کے گناہ معاف کر دئیے جاتےہیں۔ (ابوداود، کتاب الادب،باب فی المصافحت،4/453 حدیث: 5212)

خیانت نہ کرنا: مسلمان کو آپس میں برادرانہ تعلقات قائم کرنے چاہیں۔ تاکہ کسی کہ حقوق چھینے نہ جا سکیں اور نہ ہی کوئی کمزور پر ظلم کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس کے ساتھ خیانت نہ کرے اور نہ ہی اس سے جھوٹ بولے۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 1927)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اے عاشقان رسول! کسی بھی معاشرے میں رہنے اور اس کو پر سکون بنانے کے لیے کچھ نہ کچھ حقوق و فرائض کی حاجت پیش آتی ہے۔اردو میں حق کی جمع کو حقوق کہتے ہیں یعنی ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر جو حق ہے اس کو حقوق کہتے ہیں اگر کسی معاشرے(Society) میں ایک دوسرے کے حقوق کا اہتمام نہ کیا جائے تو وہ معاشرہ،معاشرہ نہیں بلکہ جنگل کہلاتا ہے۔ہمارا دین اسلام چونکہ سب سے افضل و کامل مذہب ہے لہذا ہمارے مذہب نے نہ صرف ہمیں کل کائنات کے بلکہ حیوانات اور جمادات کے حقوق کے متعلق بھی ہماری رہنمائی کی ہے۔اسلام نے چونکہ ہمیں ایک خوبصورت اسلامی معاشرہ مہیا کیا ہے لہذا ہمیں مسلمانوں کے حقوق پر بھی عمل پیرا ہونے کی تاکید کی ہے۔خود قرآن و حدیث میں مسلمانوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں: مسلمانوں کے چند حقوق پیش خدمت ہے:

(1) احترام مسلم: جس طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے افضل نبی علیہ السلام ہیں اس طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت بھی سب سے افضل امت ہے اور انسان تو اشرف المخلوقات ہے لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کا احترام کرے اس کے ساتھ اچھا رویہ رکھے اور کبھی بھی اس کی عزت خراب نہ کرےاور ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کی اس کے مقام کے مطابق عزت کرے ۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے: جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر میں دراذی اور رزق میں فراخی ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور رشتے داروں سے حسن سلوک کرے۔(بخاری جلد 4 صفحہ 97 حدیث 598)

(2)صلہ رحمی: صلہ رحمی کا معنی رشتہ جوڑنا ہے مسلمانوں کے حقوق میں سے ایک بہت ہی اہم حق صلہ رحمی کرنا ہے۔اے عاشقان رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یاد رکھیے کہ ذو محرم رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا واجب ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى ترجمہ کنزالایمان:اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں سے۔(پ1، البقرۃ: 83) اس آیت کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ قربیٰ بمعنی قرابت ہے یعنی اپنے اہل قرابت کے ساتھ احسان کرو۔تو اے عاشقان رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اب ہمارا کوئی رشتے دار ہمارے ساتھ حسن سلوک کرے یا نہ کریں ہم پر لازم ہے کہ ہم اس کے ساتھ حسن سلوک کریں ۔

(3) ماتحتوں کے حقوق: پیارے اسلامی بھائیو! عموماً ہمارے ماتحت کچھ نہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جیسے کہ اگر ایک شخص والد ہے تو اس کی اولاد اس کی ماتحت ہے شوہر ہے تو بیوی اس کی ماتحت ہے اسی طرح اگر وہ مالک ہے تو اس کا غلام اس کے ماتحت ہے۔لہذا اس شخص پر ضروری ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کرے اور ان کی غلطیوں پر درگزر کرے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرے۔

(4) تعزیت کرنا: پیارے اسلامی بھائیو اگر ایک مسلمان بیمار ہو جائے تو دوسرے مسلمان پر اس کا حق ہے کہ وہ اس کی عیادت کرے۔جو کہ حدیثوں سے ثابت ہے۔اسی طرح اگر کسی پر کوئی مصیبت آ جائے تو اس پر ہنسنے کی بجائے اس کی مصیبت پر خوش ہونے کی بجائے ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے ساتھ تعزیت کریں ۔فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت میں تعزیت کرے اللہ پاک قیامت کے دن اسے عزت کا لباس پہنائے گا۔(ابن ماجہ 268/2 حدیث نمبر 1601)

(5) تکلیف دور کرنا: محترم اسلامی بھائیو کسی مسلمان کو ایذا نہیں د ینا چاہیے وہ زبان سے ہو یا ہاتھ سے بہت سخت گناہ اور اس کی حق تلفی ہے۔پرسکون ماحول قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم لڑائی جھگڑے،طعنے بازی اور گالی گلوچ سے دور رہیں۔ فرمان تاجدارِ رسالت ہے:مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(بخاری 15/1 حدیث نمبر 16)

پیارے اسلامی بھائیو مذکورہ بحث سے آپ پر یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ اسلام نے ہم پر مسلمانوں کے بہت سے حقوق لازم کیے ہیں لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم مسلمانوں کے حقوق کو ادا کر نے کی بھر پور کوشش کریں۔فقط واٹس ایپ سٹیٹس اور فیس بک پوسٹ کی حد تک ہی نہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی مسلمانوں کو سکون پہنچائیں اور ان کی راحت کا باعث بنیں۔اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں عرض ہے کہ ہمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین ثم آمین بجاہ خاتم النبین الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


جان لیجئے کہ انسان یا تو اکیلا رہتا ہے یا کسی کے ساتھ اور چونکہ انسان کا اپنے ہم جنس لوگوں کے ساتھ میل جول رکھے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہے، لہذا اس پر مل جل کر رہنے کے آداب سیکھنا ضروری ہیں۔ چنانچہ ہر اختلاط رکھنے والے کے لئے مل جل کر رہنے کے کچھ آداب ہیں اور وہ بھی اس کے حق کی مقدار کے مُطابق ہیں اور اس کا حق اس کے رابطے و تعلق کی مقدار کے مطابق ہے آیئے مسلمانوں کے کچھ حقوق پڑھتے اور ان پر عمل کرنے کی نیت کرتے ہیں :

(1) مسلمان کو حقیر نہ جاننا: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:مسلمان کی سب چیزیں مسلمان پر حرام ہیں، اس کا مال اور اس کی آبرو اور اس کا خون آدمی کو بُرائی سے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔(غیبت کی تباہ کاریاں، 101)

(2) مسلمان پر عیب نہ لگانا: ابو داود نے معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص مسلمان پر کوئی بات کہے اس سے مقصد عیب لگانا ہو، اللہ تعالی اس کو پل صراط پر روکے گا جب تک اس چیز سے نہ نکلے جو اس نے کہی۔(سنن ابی داود، كتاب الأدب، باب من رد عن مسلم غيبة، الحديث:4883٫ج4،ص355)

(3) اللہ تعالیٰ کی مدد:شرح سنہ میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جس کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت کی جائے اور وہ اس کی مدد پر قادر ہو اور مدد کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی مدد کرے گا اور اگر باوجود قدرت اس کی مدد نہیں کی تو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اسے پکڑے گا۔(شرح السنة كتاب البر والصلۃ باب الذب عن المسلمين، الحدیث:3424، ج 6، ص 495)

(4) آگ سے حفاظت :رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو مسلمان اپنے بھائی کی آبرو سے روکے یعنی کسی مسلم کی آبرو ریزی ہوتی تھی اس نے منع کیا تو اللہ عز وجل پر حق ہے کہ قیامت کے دن اس کو جہنم کی آگ سے بچائے۔ اس کے بعد اس آیت کی تلاوت کی: وَكَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ(47) ترجمہ کنزالایمان: اور ہمارے ذمہ کرم پر ہے مسلمانوں کی مدد فرمانا۔ (سنن أبی داود، كتاب الأدب، باب في النصيحة والحياطة، الحديث: 4918، ج 4، ص365)

(5) مسلمان پر ظلم و ستم نہ کرے: رحمت عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: الْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ لَا يُظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ یعنی مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے رسوا کرتا ہے اور نہ ہی اسے بے یار و مدد گار چھوڑتا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب تحريم الظلم، الحدیث: 2580، ص 1394)

(6) مسلمان کا ذکر:حضرت سید نا مجاہد بن جبیر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تم اپنے مسلمان بھائی کی عدم موجودگی میں اس کا ذکر اس طرح کرو جس طرح اپنی غیر موجودگی میں تم اپنا تذکرہ کیا جانا پسند کرتے ہو۔(احیاء العلوم جلد دوم صفحہ 656)

اللہ پاک ہمیں مسلمانوں کے حقوق احسن طریقے سے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو! اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے، اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں چھوٹے بڑے، امیر و غریب، مرد و عورت، بچے نوجوان بوڑھے ہر شخص کے تفصیل کے ساتھ حقوق بیان کیے گئے ہیں، نیز اُن کی پاسداری کا بھی عظیم الشان درس دیا گیا ہےکہ اسلام میں اگر کوئی شخص حقوق اللہ کو اچھے طریقے سے ادائیگی نہ کر سکے، مگر اس پر شرمندہ ہو، ندامت اختیار کرے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اُسے کل بروز قیامت اپنے وہ حقوق معاف فرمادے لیکن حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق تلف کیے تو رب تعالیٰ بھی اُس وقت تک وہ حقوق معاف نہ فرمائے گا جب تک کہ جس شخص کا حق تلف کیا ہے وہ معاف نہ کر دے، یا حق تلفی کرنے والا اُسے راضی نہ کرلے۔

(1) دعوت قبول کرنا: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ دو عالم کے مالک و مختار، مکی مدنی سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، جنازوں کے پیچھے چلنا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا۔ (مسلم کتاب السلام،باب من حق المسلم،ص1196،حدیث2162)

(2) نصیحت کرنا: اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت اور اُن کی خیر خواہی کرنا سنتِ مبارکہ ہے اور جب کوئی نصیحت طلب کرے اور دوسرا اُس پر قادر ہو تو اب نصیحت کرنا واجب ہے۔(فیضان ریاض الصالحین،ج3،ص،303)

(3) قسم کو پورا کرنا: علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص مستقبل کے متعلق کسی ایسے کام کی قسم کھائے جو تم کرسکتے ہو تو ضرور کر دو تاکہ اس کی قسم پوری ہو جائے اور قسم ٹوٹنے کی وجہ سے اُس پر کفار واجب نہ ہو جیسے کوئی کہے: خدا کی قسم! جب تک تم فلاں کام نہ کر لو، میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا تو تم وہ کاضرور کر لو بشر طیکہ وہ کام نا جائز نہ ہو۔( مرقاة المفاتيح، كتاب الجنائز، باب عيادة المريض ۔۔۔ الخ، 7/4، تحت الحدیث: 1522 ملتقطاً)

(4) حاجت پوری کرنا: حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ تو وہ اس پر ظلم کرے اور نہ ہی اُسے کسی ظالم کے حوالے کرے۔ جو مسلمان اپنے کسی بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے۔ جو کسی مسلمان بھائی کی ایک دُنیوی تکلیف کو دور کرے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کی تکالیف میں سےاُس کی ایک تکلیف کو دور فرمائے گا۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ عزو جل قیامت کے دن اُس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (فیضانِ ریاض الصالحیں ج ،3 ،ص، 331)

(5) حضرت سید نازید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک صاحب لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ بندہ جب تک اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں رہتا ہے اللہ عزو جل اسکی حاجت پوری فرماتا رہتا ہے۔ (مجمع الزوائد، کتاب البر والصلۃ، باب فضل قضاء الحوائج، رقم 13723، ج 8، ص 353)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔