پیارے اسلامی بھائیو! الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کے کچھ حقوق ہوتے ہیں آج ہم ان شاء اللہ الکریم مسلمان کے اپنے دوسرے مسلمان بھائ پر حقوق کے حوالے سے کچھ حضور صلہ اللہ علیہ والہ وسلم فرمان سنے گئے ۔مشہور صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے اللہ پاک کے آخری نبی رسول ہاشمی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا حق المسلم على مسلم خمس یعنی ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں ۔ ( بخاری و مسلم ) اس حدیث پاک میں پانچ حقوق کا ذکر ہے بعض دیگر روایات میں سات حق بھی بیان ہوئے ہیں۔

بہرحال یہ پانچ حق کون سے ہیں ارشاد فرمایا (1) حق سلام کا جواب دینا (2)دوسرا حق عیادت کرنا (3)تیسرا حق جنازے میں شرکت کرنا (4)چوتھا حق دعوت قبول کرنا اور (5)پانچواں حق چھینک کا جواب دینا ہے۔ سبحان اللہ

پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے کس قدر حقوق ہے کہ اس کی دعوت قبول کرنا اور اس کی چھینک کا جواب دینا جنازے میں شرکت کرنا اور عیادت کرنا اگر وہ بیمار ہو لیکن ہماری اکثریت اس سے دور ہیں بلکہ ہماری اکثریت تو ایک دوسرے کو بات بات پر دھوکا دہی دینے میں اور فراڈ کرنے میں لگی ہوئی ہے اللہ پاک محفوظ رکھے بہرحال ایک اور حدیث میں ہے کہ

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ اِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى یعنی ایمان والوں کی آپس میں محبت، رحم اورشفقت ومہربانی کی مثال اُس جسم جیسی ہے جس کاایک حصہ بیمار ہوتوباقی جسم بے خوابی اوربخار کی طرف ایک دوسرے کوبلاتا ہے۔ (مسلم، ص1071: 6586

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاانتخاب بے مثال ہوتا ہے خواہ وہ افراد ہوں یاالفاظ۔اس حدیثِ پاک میں جن الفاظ کو زبان ِ مصطفےٰ سے ادا ہونے کا اعزاز ملا ہےاُن میں مرادی معنی کے اعتبار سےفرق ہے مثلاً:

(1) تَرَاحُم کامعنی ایک دوسرے پررحم کرنا ہے، مراد یہ ہے کہ مسلمان کسی اور غرض کے بغیر صرف اور صرف اسلامی بھائی چارے کی وجہ سے ایک دوسرے پررحم کریں۔

(2) تَوادّ کامعنی ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے، یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ آپس کی محبت بڑھانے کے تعلقات رکھے جائیں جیسے ایک دوسرے کو تحفے دیئے جائیں، ملاقات کی جائے وغیرہ۔

(3) تعاطف کامعنی ایک دوسرے پر نرمی کرنا ہے، اس سے مراد ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔

ہمارے ذہن میں یہ بات ہونی چاہئےکہ دوسروں کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرنا کامل مسلمان کی نشانی ہے لہٰذا ایک کامل مسلمان بننے کے لئے ہمیں دوسروں کی تکلیف دور کرنے کی قابلِ عمل صورتیں اپنانی چاہئیں، مثلاً (1) کسی کی بیمار ی کا معلوم ہو تو حسبِ حال خیر خواہی کیجئے اور عیادت کرنے کی عادت بنائیے، حدیثِ پاک میں ہے: جس نے مریض کی عیادت کی، وہ واپسی تک دریائے رحمت میں غو طے لگاتا رہتا ہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت میں ڈوب جاتا ہے۔ (مسنداحمد5/30حدیث:14264)

(2) ہم ہرایک کی مدد نہیں کرسکتے مگر کسی ایک کی مدد تو کرسکتے ہیں، ایک شخص کی مدد کرکےہم پوری دنیا نہیں بدل سکتے مگرایک شخص کی دنیا تو بدل سکتے ہیں لہٰذا تکلیف زدہ مسلمان کادُکھ دور کرنے کی کوشش کیجئے، حدیثِ پاک میں ہے: جوکسی مسلمان کی تکلیف دور کرے اللہ پاک قِیامت کی تکلیفوں میں سے اُس کی تکلیف دُور فرمائے گا۔ (مسلم ص1069:حدیث6578)

(3) مسلمان کی عزت کے محافظ بن جائیے، حدیث پاک میں ہے: جو مسلمان اپنے بھائی کی عزت کا بچاؤ کرے (یعنی کسی مسلم کی آبرو ریزی ہوتی تھی اس نےمنع کیا) تو اللہ پاک پر حق ہے کہ قیامت کےدن اس کو جہنّم کی آگ سے بچائے۔(شرح السنہ 6/464حدیث3422)

(4) دکھی مسلمانوں کو خوش رکھنے کا اہتمام کیجئے، حدیثِ پاک میں ہے: فرائض کے بعد سب اعمال میں الله پاک کو زیادہ پیارا مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔(معجم الکبیر 11/59 حدیث11079)

اللہ پاک ہم سب کو مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوے اچھے طرح پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بحاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔