انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق مختصر تمہیدی گفتگو: ہر مسلمان کو چاہئے کہ انفاق فی سبیل اللہ کرتے رہے تاکہ اللہ اور اس کے رسول کا قرب حاصل کر سکے۔ راہِ خدا میں انفاق کرکے وہ مقام و مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں جو ہر کوئی نہیں کر سکتا ہے۔ اگر اللہ نے آپ کو مال دیا ہے تو ضرور نیک کاموں میں خرچ کرے۔ حشر کے میدان میں کوئی بھی چیز فائدہ نہیں دے گی۔ دنیوی دوستی بھی بیکار ہو گی بلکہ ماں باپ بھی اپنی اولاد سے جان چھڑا رہے ہونگے۔ ہر عزیر و اقرباء ایک دوسرے سے بھاگ رہے ہوں گے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ آخرت کا فکر کرتے ہوئے نیک و جائز کاموں میں اپنا مال انفاق کرے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے حکم بھی دیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌؕ-وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۵۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اللہ کی راہ میں ہمارے دئیے میں سے خرچ کرو وہ دن آنے سے پہلے جس میں نہ خریدفروخت ہے نہ کافروں کے لیے دوستی اور نہ شفاعت اور کافر خود ہی ظالم ہیں ۔(پ3،البقرۃ:254)

فکرآخرت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ قیامت کے آنے سے پہلے پہلے راہِ خدا میں اللہ پاک کا دیا ہوا مال خر چ کرلو۔ قیامت کا دن بڑی ہیبت والا ہے، اس دن مال کسی کو بھی فائدہ نہ دے گا اور دنیوی دوستیاں بھی بیکار ہوں گی بلکہ باپ بیٹے بھی ایک دوسرے سے جان چھڑا رہے ہوں گے اور کافروں کو کسی کی سفارش کام نہ دے گی اور نہ دنیوی انداز میں کوئی کسی کی سفارش کرسکے گا۔ صرف اِذنِ الٰہی سے اللہ پاک کے مقبول بندے شفاعت کریں گے جیسا کہ اگلی آیت یعنی آیتُ الکرسی میں آرہا ہے اور مال کا فائدہ بھی آخرت میں اسی صورت میں ہے جب دنیا میں اسے نیک کاموں میں خرچ کیا ہو اور دوستیوں میں سے بھی نیک لوگوں کی دوستیاں کام آئیں گی۔ (صراط الجنان)

جو راہ خدا میں انفاق کرتے ہیں اسے اللہ رب العزت ایک مثال کے ذریعے بیان کر رہا ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا: مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمہ کنز الایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔(پ3،البقرۃ:261)

راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ حاصل کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ پاک اسے اس کے اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں بلکہ اللہ پاک کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور وہ کریم و جواد ہے جس کیلئے چاہے اسے اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے چنانچہ کئی جگہ پر اس سے بھی زیادہ نیکیوں کی بشارت ہے جیسے پیدل حج کرنے پر بعض روایتوں کی رو سے ہر قدم پر سات کروڑ نیکیاں ملتی ہیں۔(مسند البزار، مسند ابن عباس رضی اللہ عنہما، طاوس عن ابن عباس، 11 / 52، حدیث: 4745)

اس آیت میں خرچ کرنے کا مُطْلَقاً فرمایا گیا ہے خواہ خرچ کرنا واجب ہو یا نفل، نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا شامل ہے خواہ وہ کسی غریب کو کھانا کھلانا ہو یا کسی کو کپڑے پہنانا، کسی غریب کو دوائی وغیرہ لے کر دینا ہو یا راشن دلانا، کسی طالب علم کو کتاب خرید کر دینا ہو یا کوئی شِفا خانہ بنانا یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے فُقراء و مساکین کو تیجے، چالیسویں وغیرہ پر کھلادیا جائے۔(صراط الجنان)

اللہ پاک ہمیں انفاق فی سبیل اللہ کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انفاق کرے تو کہاں کرے۔ تو اس بارے میں بھی اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے : لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ٘-یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ-تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰىهُمْۚ-لَا یَسْــٴَـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًاؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۠(۲۷۳)ترجمہ کنز الایمان: ان فقیروں کے لیے جو راہ خدا میں روکے گئے زمین میں چل نہیں سکتے نادان انہیں تونگر سمجھے بچنے کے سبب تو انہیں ان کی صورت سے پہچان لے گا لوگوں سے سوال نہیں کرتے کہ گڑگڑانا پڑے اور تم جو خیرات کرو اللہ اسے جانتا ہے۔(پ3،البقرۃ:273)

اللہ پاک ہمیں علمائے کرام کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ دین کا کام تیزی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کر سکے۔ اٰمین یا رب العالمین۔

انفاق فی سبیل اللہ میں معاشرے کا کردار: لیکن آج جب ہم معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ لوگ اس طرف بالکل ہی توجہ نہیں دیتے ہیں۔ سستی کا شکار ہے۔ وہ سوچتے ہیں ہمارا مال ختم ہو جائے گا ۔ ہم مفلس ہو جائیں گے۔ لوگ ہم سے زیادہ مالدار ہو جائے گا۔ اس طرح کے وسوسے انسانوں کو شیطان دلاتا ہے جسے اللہ پاک نے قرآن میں بیان کیا ہے: اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِۚ-وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًاؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ(۲۶۸) ترجمۂ کنز الایمان : شیطان تمہیں اندیشہ دلاتا ہے محتاجی کا اور حکم دیتا ہے بے حیائی کا اور اللہ تم سے وعدہ فرماتا ہے بخشش اور فضل کا اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (پ3 ،البقرۃ : 268 )

بغیر کسی دنیاوی مفاد کے رضائے الٰہی کیلئے خرچ کرنے کے فضائل کے بیان کے بعد اِس راہ میں پیش آنے والے سب سے بڑے وسوسے کا بیان کیا جا رہا ہے کہ شیطان طرح طرح سے وسوسے دلاتا ہے کہ اگرتم خرچ کرو گے ،صدقہ دو گے تو خود فقیر و نادا رہوجاؤ گے لہٰذا خرچ نہ کرو۔ یہ شیطان کی بہت بڑی چال ہے کہ اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرتے وقت اس طرح کے اندیشے دلاتا ہے حالانکہ جن لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالا جارہا ہوتا ہے وہی لوگ شادی بیاہ میں جائز و ناجائز رسومات پر اور عام زندگی میں بے دریغ خرچ کررہے ہوتے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ شیطان تو تمہیں بخل و کنجوسی کی طرف بلاتا ہے لیکن اللہ پاک تم سے وعدہ فرماتا ہے کہ اگر تم اس کی راہ میں خرچ کرو گے تو وہ تمہیں اپنے فضل اور مغفرت سے نوازے گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ وہ پاک پروردگار بڑی وسعت والا ہے، وہ صدقہ سے تمہارے مال کو گھٹنے نہ دے گا بلکہ اس میں اور برکت پیدا کردے گا۔(صراط الجنان)

لہذا مسلمانوں کو شیطانی وسوسے سے بچنا چاہئے اور فضائل کو ذہن نشین رکھے کہ صدقہ غضبِ الٰہی کو بجھاتا اور بری موت دور کرتا ہے۔ گناہ مٹاتا ہے۔ برائی کے ستر دروازے بند کرتا ہے اور بری قضا ٹال دیتا ہے۔ صدقہ دینے سے روزی اور مدد ملتی ہے۔ عمر بڑھتی ہے۔ آفتیں دور ہوتی ہیں، نیز بلا صدقے سے آگے قدم نہیں بڑھاتی۔ (فتاوی رضویہ، 23 / 137تا 140، ملخصاً)


اللہ پاک جب کسی بندے کو پیدا فرماتا ہے۔ تو اس کے رزق کا ذمہ کرم اپنے اوپر لے لیتا ہے۔ زمانہ حال میں لوگ اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے سے کتراتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کے انفاق فی سبیل اللہ سے ہمارے مال میں کمی آ جائے گی اور اسی مال کو مختلف پارٹیوں اور فنکشنز میں اڑاتے وقت ان کو مال کے کم ہونے کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ جبکہ قراٰن پاک میں جگہ جگہ اللہ پاک کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے نقصانات بیان کئے گئے ہیں۔ آئیے ان میں سے چند سن کر انفاق فی سبیل اللہ کا ذہن بناتے ہیں۔

(1)اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴)ترجمہ کنزالایمان:اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوشخبری سناؤ درد ناک عذاب کی۔ (پ 10، التوبۃ: 34)

کَنز کی وَعید میں کون سا مال داخل ہے؟حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی گئی وہ کنز نہیں(یعنی وہ اس آیت کی وعید میں داخل نہیں)خواہ دفینہ (زمین میں دفن شدہ خزانہ) ہی ہو اور جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی وہ کنز ہے جس کا ذکر قراٰن میں ہوا کہ اس کے مالک کو اس سے داغ دیا جائے گا۔(تفسیر طبری،التوبۃ،تحت الآیۃ:34، 6/357)

(2) ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ- ترجمہ کنز الایمان: اور تمہیں کیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو حالانکہ آسمانوں اور زمین سب کا وارث اللہ ہی ہے۔(پ27،الحدید:10) صراطُ الجنان میں ہے: یعنی تم کس وجہ سے اللہ پاک کی راہ میں خرچ نہیں کر رہے حالانکہ آسمانوں اور زمین سب کا مالک اللہ پاک ہی ہے وہی ہمیشہ رہنے والا ہے جبکہ تم ہلاک ہو جاؤ گے اور تمہارے مال اسی کی ملکیت میں رہ جائیں گے اور تمہیں خرچ نہ کرنے کی صورت میں ثواب بھی نہ ملے گا، تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ تم اپنا مال اللہ پاک کی راہ میں خرچ کر دو تاکہ ا س کے بدلے ثواب تو پا سکو۔(صراطُ الجنان،10/721)

(3) اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- وَ اَحْسِنُوْاۚۛ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ(۱۹۵)ترجمہ کنزالایمان: اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور بھلائی والے ہو جاؤ بیشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں۔(پ2، البقرة: 195 )خود کو ہلاکت میں ڈالنے کی بہت سی صورتیں ہیں: بخاری شریف میں ہے:یہ آیت خرچ کرنے سے متعلق نازل ہوئی۔ (بخاری،3 / 178،حدیث: 4516) یعنی راہ ِ خدا میں خرچ کرنا بند کرکے یا کم کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (صراطُ الجنان،1/309)

پیارے اسلامی بھائیو!اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے انسان پاک ہو جاتا ہے، اس کا دل بھی پاک ہو جاتا ہے اور مال بھی، اور آفات سے بھی محفوظ رہتا ہے اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے سے مال میں کمی نہیں آتی بلکہ اللہ پاک اس کے مال میں اضافہ فرما دیتا ہے۔

ربِ کریم فرماتا ہے: اے ابنِ آدم! اپنے خزانے میں سے میرے پاس کچھ جمع کر دے، نہ جلے گا، نہ ڈوبے گا، نہ چوری کیا جائے گا۔ میں اُس وقت تجھے پورا بدلہ دوں گا، جب تو اُس کا زیادہ ضرورت مند ہوگا۔(شعب الایمان، 3/211، حدیث: 3342)

تو پیارے اسلامی بھائیو ہم سب کو اللہ پاک کی راہ میں اپنے نفیس مال میں سے خرچ کرتے رہنا چاہئے تاکہ آخرت میں ہمیں اس کا بدلہ مل سکے۔


راہِ خدا میں خرچ کرنا  ایک محمود صفت ہے جس کے سبب اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا ، دوزخ سے نجات اور جنّت میں داخلہ نصیب ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غریب لوگوں کو معاشی سکون حاصل ہوتا ہے، معاشرے سے غربت کا خاتمہ ہوتا ہے اور معیشت ترقی کی جانب سفر کرتی ہے۔جبکہ اس کے بر عکس راہِ خدا میں خرچ نہ کرنا ایک مذموم صفت ہے جو اللہ اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضی، جہنم میں داخلے اور جنت سے محرومی کا سبب ہو سکتا ہے۔ اس سے معاشرے پر بھی بُرے اثرات پڑتے ہیں اور معاشرہ چوری ،ڈکیتی، بدامنی اور بے سکونی والا بن جاتا ہے۔ قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر راہِ خدا میں خرچ کرنے کی اہمیت اور افادیت کو بیان کیا اور کئی مقامات پر راہِ خدا میں خرچ نہ کرنےکے متعلق آیات نازل فرماکر مسلمانوں کو اس کی وعید اور اس کے نقصانات سے آگاہ کیا۔

خود کو ہلاکت میں ڈالنے کا سبب: وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- ترجمۂ کنزالایمان : اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ (پ2، البقرة: 195) بخاری شریف میں ہے:یہ آیت خرچ کرنے سے متعلق نازل ہوئی۔ (بخاری،3/178،حدیث:4516) یعنی راہ ِ خدا میں خرچ کرنا بند کر کے یا کم کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔(صراطُ الجنان،1/309)

اپنے آپ سے بخل کرنا: وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان پر بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ۔(پ26 ،محمد:38)

تفسیر صراطُ الجنان میں ہے: جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے کیونکہ وہ خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہو جائے گا اور بخل کرنے کا نقصان اٹھائے گا۔ بخل کرنے والا راہِ خدا میں خرچ کرنے کے ثواب سے محروم رہتا اور حرص جیسی خطرناک باطنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ (صراطُ الجنان، 9/333 ملتقطاً)

درد ناک عذاب کی خوشخبری: وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان : اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوش خبری سناؤ دردناک عذاب کی۔ (پ10 ،التوبۃ:34)

کَنز کی وَعید میں کون سا مال داخل ہے؟:حضرت عبدُاللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی گئی وہ کنز نہیں(یعنی وہ اس آیت کی وعید میں داخل نہیں)خواہ دفینہ (زمین میں دفن شدہ خزانہ) ہی ہو اور جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی وہ کنز ہے جس کا ذکر قراٰن میں ہوا کہ اس کے مالک کو اس سے داغ دیا جائے گا۔(تفسیر طبری،التوبۃ،تحت الآیۃ:34، 6/357)

اللہ پاک ہمیں بخل کی آفت سے بچائے اور دل کھول کر اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مختصر تمہید: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو انفاق فی سبیل اللہ کہا جاتا ہے۔ یقیناً اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بہت سارے فضائل ہیں مگر اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے بھی نقصانات ہیں خصوصاً اس صورت میں جب زکوٰۃ فرض ہو پھر تو زیادہ ہی نقصانات ہیں۔

انفاق فی سبیل اللہ معاشرے میں: انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا نہ صرف آپ کو فائدہ پہنچتا ہے بلکہ معاشرے میں جو لوگ غریب ہیں ان کو بھی اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔

انفاق نہ کرنے کے قراٰنی آیات سے نقصانات: وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴): ترجمۂ کنز العرفان: اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔(پ10،التوبۃ: 34) اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کرتے ہیں ، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ جب اللہ پاک نے یہودی و عیسائی علما و پادریوں کی حرصِ مال کا ذکر فرمایا، تو مسلمانوں کو مال جمع کرنے اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے سے خوف دلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اسے اللہ پاک کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔(صراط الجنان تحت الآیہ (

تنگدلی سے راہِ خدا میں مال خرچ کرنا: وَ لَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَ هُمْ كٰرِهُوْنَ(۵۴) ترجمہ کنز العرفان: اور ناگواری سے ہی مال خرچ کرتے ہیں۔ (پ10،التوبۃ : 54 (منافقین کا راہ خدا میں خرچ کرنا مردود ہے اس لئے کہ جو کچھ وہ خیرات کرتے ہیں وہ بھی ناگواری سے کرتے ہیں کیونکہ اس میں بھی وہ ثواب کے قائل نہیں ، صرف اپنے نفاق کو چھپانے کے لئے خیرات کرتے ہیں۔( صراط الجنان سورہ توبہ تحت الآیہ) اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ راہ ِ خدا میں خرچ کرنے سے د ل تنگ ہونا منافقوں کا طریقہ ہے۔ لہٰذا اللہ پاک کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کیا جائے اور وہ بھی خوش دلی سے خرچ کیا جائے۔

انفاق فی سبیل اللہ کا درس: تو جیسا کہ آپ نے سنا اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے کتنے نقصانات ہیں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ منافقوں کی علامت ہے۔ اللہ پاک ہمیں اس سے بچائے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کریں اور غریبوں ، فقیروں کا خیال ضرور رکھیں۔


اللہ پاک کے دیئے ہوئے مال میں سےاسکی خوشنودی و رضا کو حاصل کرنے کے لیے اسکے حاجت مند بندوں پر اور راہِ خدا میں خرچ کرنا ”انفاق فی سبیل  اللہ“ کہلاتا ہے۔ راہ خدا میں خرچ کرنے کا حکم قراٰن مجید میں جابجا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے: وَ الَّذِیْنَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌﭪ(۲۴) لِّلسَّآىٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِﭪ(۲۵) ترجمۂ کنزالایمان : اور وہ جن کے مال میں ایک معلوم حق ہے۔ اس کے لیے جو مانگے اور جو مانگ بھی نہ سکے تو محروم رہے۔(پ29، المعارج:25،24) معلوم حق سے مراد زکوٰۃ ہے جس کی مقدار معلوم ہے یا اس سے وہ صدقہ مراد ہے جو آدمی اپنے آپ پر مُعَیَّن کرلے اور اس ے مُعَیَّن اوقات میں  ادا کیا کرے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مُستحب صدقات کیلئے اپنی طرف سے وقت مُعَیَّن کرنا شریعت میں  جائز اور قابلِ تعریف ہے۔ سائل سے مراد وہ شخص ہے جو حاجت کے وقت سوال کرے اور محروم سے مراد وہ شخص ہے جو حاجت کے باوجود شرم و حیا کی وجہ سے نہیں  مانگتا اور اس کی محتاجی ظاہر نہیں  ہوتی۔( تفسیر کبیر، المعارج، تحت الآیۃ: 24-25، 10 / 645، خازن، المعارج، تحت الآیۃ: 24-25، 4 / 310، ملتقطاً)اس سے معلوم ہوا کہ ہر صاحبِ استطاعت شخص کے مال میں فقیروں مسکینوں اور محتاجوں کا بھی حق ہوتا ہے، لہٰذا اسے راہِ خدا میں حسبِ توفیق خرچ کرتے رہنا چاہیے۔

اللہ پاک کی راہ میں  مال خرچ کرنے سے بخل کرنے والوں کے متعلق قراٰن و حدیث میں سخت وعیدات موجود ہیں۔ چند وعیدیں  ملاحظہ ہوں، اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ- ترجمۂ کنزُالایمان: ہاں ہاں یہ جو تم ہو بلائے جاتے ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان پر بخل کرتا ہے ۔(پ26،محمد:38) یہاں اپنی جان سے بخل کرنے سے مراد یہ ہے کہ راہِ خدا میں خرچ کرنے میں کنجوسی کرنے سے ثواب سے محرومی ہے اور ثواب کی کمی بروزِ حشر مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ اور ارشاد فرمایا:

وَ  لَا  یَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  یَبْخَلُوْنَ  بِمَاۤ  اٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  مِنْ  فَضْلِهٖ  هُوَ  خَیْرًا  لَّهُمْؕ-بَلْ  هُوَ  شَرٌّ  لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ  مَا  بَخِلُوْا  بِهٖ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-ترجمۂ کنزُالایمان: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا۔(پ4،آل عمرٰن:180)

مال جمع کرنا بذاتِ خود برا عمل نہیں ہے لیکن اس کے حقوق یعنی زکوٰة اور صدقاتِ واجبہ ادا نہ کرنا انتہائی برا عمل ہے اور دردناک عذاب کی طرف لے جانے والا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے: وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴) یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْؕ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ(۳۵)ترجمۂ کنز الایمان : اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوش خبری سناؤ دردناک عذاب کی جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا۔(پ10،التوبۃ:35،34)

اور فرماتا ہے:وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- ترجمۂ کنزالایمان : اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔(پ2، البقرة:195) یہاں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے مراد راہِ خدا میں خرچ نہ کرنا بھی ہے ۔

جب بھی خرچ کرنے کا ذہن ہو تو کوشش کرنی چاہیے ہمیشہ اپنی محبوب ترین شے کو راہِ خدا میں خرچ کیا جائے ورنہ اعلٰی تقوٰی کو پانے میں ناکامی ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ  ترجمۂ کنز الایمان : تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو ۔(پ4، اٰل عمرٰن:92) اس آیت میں بھلائی سے مراد تقویٰ اور فرمانبرداری ہے ۔ (صراط الجنان،2/10)

مال اللہ پاک کی نعمت ہے اور یہ بندے پر ہے کہ وہ اس نعمت کا درست استعمال کر کے اپنے لیے منافع بخش بناتا ہے یا غلط استعمال اور بخل کر کے اپنی ہلاکت کا سامان بناتا ہے ۔ اللہ پاک نے ہر انسان کو اس دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا ہے ۔ کسی کو امیر بنایا اور کسی کو غریب ۔ غریب کا امتحان یہ ہے کہ وہ صبر و شکر کرے اور جس حال میں اللہ پاک نے رکھا ہے اس پر رضا مند رہے اور امیر کا امتحان یہ ہے کہ وہ راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کرے اور مال کو سنبھال کر نہ رکھے ورنہ یہی مال تباہی کا سبب بن سکتا ہے ۔جیسا کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:فقیر ہرگز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں  گے مگر مال داروں  کے ہاتھوں ، سن لو! ایسے مالداروں  سے اللہ پاک سخت حساب لے گا اور انہیں  دردناک عذاب دے گا۔( معجم الاوسط، باب الدال، من اسمہ: دلیل، 2/ 374، حدیث: 3579)

اسی لیے رضا الٰہی حاصل کرنے اور ثواب کمانے کی نیت سے راہِ خدا میں خوب اپنا مال خرچ کرنا چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


اللہ پاک کی رضا کیلئے اس کی راہ میں مال خرچ کرنے کو اِنْفاق فِیْ سبِیْلِ اللہ کہتے ہیں۔ نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا راہِ خدا میں خرچ کرنا ہے، خواہ وہ خرچ کرنا واجب ہو یا نفل۔ خواہ کسی غریب کو کھانا کھلانا ہو یا کسی کو کپڑے پہنانا، کسی کو دوائی وغیرہ لے کر دینا ہو یا راشن دلانا، کوئی شِفا خانہ بنانا ہو یا یتیموں کی کفالت کرنا، اسی طرح طلبہ، علماء اور مساجد و مدارس وغیرہا کو دینا نیز اولیاء کرام یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے جو مال خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی انفاق فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ (صراط الجنان، البقرة، تحت الآیة 3 + 261، ملتقطاً)

خیال رہے کہ اللہ پاک کو لوگوں کے مال کی حاجت نہیں بلکہ راہِ خدا میں خرچ کرنے میں بندوں کا ہی دینی اور دنیوی فائدہ ہے۔ دینی فائدہ تو یہ ہے کہ مال خرچ کرنے کی صورت میں وہ ثواب کے حقدار ٹھہریں اور (واجب ہونے کی صورت میں) خرچ نہ کرنے کے وبال سے بچ جائیں گے، جبکہ دنیوی فائدہ یہ ہے کہ غریب اور مَفْلُوکُ الحال لوگوں کو معاشی سکون نصیب ہو گا اور معاشرے سے غربت اور محتاجی کا خاتمہ ہوگا۔ (صراط الجنان، محمد، تحت الآیة 38، ملتقطاً)

جس طرح راہِ خدا میں خرچ کرنا دینی و دنیاوی فوائد کے حصول کا ذریعہ ہے، اسی طرح خرچ نہ کرنا دنیا و آخرت میں نقصانات کا سبب ہے۔ جیساکہ قرآن کریم میں ارشادِ باری ہے:

• ”اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالو۔“ (البقرة 198)

یعنی راہ ِ خدا میں خرچ کرنا بند کرکے یا کم کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (صراط الجنان، البقرة، تحت الآیۃ 198)

• ”اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔“ (التوبۃ 34)

اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کرتے ہیں، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ (صراط الجنان، التوبة، تحت الآیۃ 34، ملتقطاً)

• ”ہاں ہاں یہ تم ہوجو بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو۔“ (محمد 38)

ارشاد فرمایا کہ جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے کیونکہ وہ خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہو جائے گا اور بخل کرنے کا نقصان اٹھائے گا۔ (صراط الجنان، محمد، تحت الآیة 38)

• ”تو وہ چلے اور آپس میں آہستہ آہستہ کہتے جاتے تھے۔ کہ ہرگز آج کوئی مسکین تمہارے پاس باغ میں آنے نہ پائے۔ اور وہ خود کو روکنے پر قادرسمجھتے ہوئے صبح سویرے چلے۔ پھر جب انہوں نے اس باغ کو دیکھا توکہنے لگے:بیشک ہم ضرور راستہ بھٹک گئے ہیں۔ بلکہ ہم محروم ہوگئے ہیں۔“ (القلم 23۔27)

اس آیت میں ایک باغ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس کا مالک ایک نیک مرد تھا اور وہ باغ کے پھل کثرت سے فُقراء کو دیتا تھا، اس کے انتقال کے بعد اس کے تین بیٹوں نے باہم مشورہ کیا کہ اگر والد کی طرح ہم بھی خیرات جاری رکھیں تو تنگ دست ہوجائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے آپس میں مل کر قسمیں کھائیں کہ صبح سویرے لوگوں کے اٹھنے سے پہلے ہی باغ میں چل کر پھل توڑ لیں گے تاکہ مسکینوں کو خبر نہ ہو۔ لیکن جب وہ باغ کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ جل چکا ہے اور اس میں پھل کا نام ونشان نہیں۔ اس پر وہ بولے: بیشک ہم کسی اور باغ پر پہنچ گئے ہیں کیونکہ ہمارا باغ تو بہت پھل دار ہے۔ پھر جب غور کیا اور اس کے درو دیوار کو دیکھا اور پہچان لیا کہ یہ اپنا ہی باغ ہے تو کہنے لگے: ہم راستہ نہیں بھولے بلکہ حق دار مسکینوں کو روکنے کی نیت کر کے ہم خوداس کے پھل سے محروم ہوگئے ہیں۔ (صراط الجنان، القلم، تحت الآیة 17۔32، مختصراً)

• ”اور جب وہ ہلاکت میں پڑے گا تو اس کا مال اسے کام نہ آئے گا۔“ (اللیل 11)

یعنی جو شخص اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے بخل کر رہا ہے وہ جب مر کر قبر میں جائے گا یا جہنم کی گہرائی میں پہنچے گا تواس کا مال اللہ پاک کے عذاب سے بچانے میں اسے کچھ کام نہ آئے گا۔ (صراط الجنان، اللیل، تحت الآیة 11)

ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک کے عطا کیے ہوئے مال میں سے دل کھول کر اس کی راہ میں خرچ کریں بالخصوص زکوٰة، فطرہ، عشر اور دیگر صدقاتِ واجبہ کی ادائیگی میں ہر گز کوتاہی نہ کریں۔ اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلّم


تمہید: اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔ والبقیت الصلحت خیر عند ربک ثوابا و خیر املا۔

ترجمہ کنز الایمان:"مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی رونق ہیں اور باقی رہنے والی اچھی باتیں تیرے ربّ کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے زیادہ بہتر اور امید کے اعتبار سے زیادہ اچھی ہیں۔" (پارہ 15، سورۃ الکہف، آیت نمبر 46)

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ مال اور اولاد فی نفسہ تو اگرچہ دنیا ہیں، لیکن یہی دو چیزیں آخرت کے لئے عظیم زادِ راہ بھی بن سکتی ہیں، کیونکہ اگر مال کو راہِ خدا میں خرچ کیا جائے، خصوصاً کوئی صدقہ جاریہ کیا تو یہی مال نجات کا ذریعہ بنے گا اور باعثِ ثواب ہوگا۔

انفاق فی سبیل اللہ میں معاشرے کا کردار:

حضور صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلّم نے فرمایا: "بے شک مؤمن کے لئے مؤمن مثلِ عمارت کے ہے، بعض بعض کو تقویت دیتا ہے۔" (صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ، حدیث نمبر 481، جلد اول، صفحہ نمبر 181)

جب کوئی شخص راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کرتا ہے تو یہ مال جب ضرورت مند تک پہنچے تو اسے معاشرے میں سر اُٹھا کر جینے کا حوصلہ مہیا کرتا ہے اور یہ شخص اس کے مال میں برکت کے لئے دعاگو رہتا ہے۔ بھائی چارہ مضبوط ہوتا ہے، اسلامی معاشرے میں اجتماعیت کو فروغ ملتا ہے، معاشرہ خوشحال ہوجاتا ہے۔

انفاق نہ کرنے کے قرآنی آیات و تفسیر کی روشنی میں نقصانات:

راہِ خدا میں خرچ کرنے کے بے شمار فضائل و برکات ہیں، مثلاً رضائے الہی کا حصول، مال میں برکت، بلائیں کافور، اجرو ثواب وغیرہ، اس کے ساتھ ساتھ خرچ نہ کرنے کی ہلاکت خیزیاں بھی ہیں، اس متعلق کچھ آیات، مختصر وضاحت کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔

مختلف آیات کا ترجمہ کنزالایمان مع تفسیر:

1۔اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ (پارہ1، سورہ البقرہ، آیت نمبر 195)

اس آیت کا مطلب ہے کہ اللہ پاک کی فرمانبرداری اور رضا میں اپنے مال و جان کو صرف کرو، راہِ خدا میں خرچ کرنا بند یا کم کرکے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، معلوم ہوا کہ راہِ خدا میں خرچ کرنا ترک کر دینا ہلاکت کا باعث ہے۔ (صراط الجنان)

2۔ تم ہرگز بھلائی کونہ پہنچو گے، جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ (پ3،سورۃ آل عمران، آیت نمبر 92)

یہاں بھلائی سے مراد تقویٰ اور فرمانبرداری ہے، گویا اگر کوئی راہِ خدا میں اپنی پسندیدہ چیز خرچ نہ کرے گا تو وہ اپنے مالک کا فرماں بردار نہیں کہلائے گا۔

3۔ وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں خوشخبری سناؤ دردناک عذاب کی۔ (پارہ نمبر 9، سورہ التوبہ:34)

اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کر تے ہیں، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے، سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں، راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے، ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (صراط الجنان)

اس مال کو بروزِ قیامت جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، یہاں تک کہ شدتِ حرارت سے سفید ہو جائے گا، پھر اس سے زکوۃ نہ دینے والوں کے پہلوؤں، پیشانیوں اور پشتوں کو داغا جائے گا۔ (صراط الجنان)

لہٰذا مسلمان کو چاہئے کہ اللہ پاک کی دی ہوئی نعمتوں میں سے خرچ کرے، کبھی بھی تنگی مال کا خوف نہ رکھے، بلکہ حدیث پاک کے مطابق راہِ خدا میں خرچ کرنے سے مال بڑھ جاتا ہے ،اس پریقین رکھیں اور اپنی دنیا کی زندگی میں اپنے لئے صدقہ جاریہ کے کام کر جائیں،تاکہ اس کے قبر و حشر میں نجات کا باعث بن سکیں۔