راہِ خدا میں خرچ کرنا  ایک محمود صفت ہے جس کے سبب اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا ، دوزخ سے نجات اور جنّت میں داخلہ نصیب ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غریب لوگوں کو معاشی سکون حاصل ہوتا ہے، معاشرے سے غربت کا خاتمہ ہوتا ہے اور معیشت ترقی کی جانب سفر کرتی ہے۔جبکہ اس کے بر عکس راہِ خدا میں خرچ نہ کرنا ایک مذموم صفت ہے جو اللہ اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضی، جہنم میں داخلے اور جنت سے محرومی کا سبب ہو سکتا ہے۔ اس سے معاشرے پر بھی بُرے اثرات پڑتے ہیں اور معاشرہ چوری ،ڈکیتی، بدامنی اور بے سکونی والا بن جاتا ہے۔ قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر راہِ خدا میں خرچ کرنے کی اہمیت اور افادیت کو بیان کیا اور کئی مقامات پر راہِ خدا میں خرچ نہ کرنےکے متعلق آیات نازل فرماکر مسلمانوں کو اس کی وعید اور اس کے نقصانات سے آگاہ کیا۔

خود کو ہلاکت میں ڈالنے کا سبب: وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- ترجمۂ کنزالایمان : اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ (پ2، البقرة: 195) بخاری شریف میں ہے:یہ آیت خرچ کرنے سے متعلق نازل ہوئی۔ (بخاری،3/178،حدیث:4516) یعنی راہ ِ خدا میں خرچ کرنا بند کر کے یا کم کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔(صراطُ الجنان،1/309)

اپنے آپ سے بخل کرنا: وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان پر بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ۔(پ26 ،محمد:38)

تفسیر صراطُ الجنان میں ہے: جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے کیونکہ وہ خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہو جائے گا اور بخل کرنے کا نقصان اٹھائے گا۔ بخل کرنے والا راہِ خدا میں خرچ کرنے کے ثواب سے محروم رہتا اور حرص جیسی خطرناک باطنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ (صراطُ الجنان، 9/333 ملتقطاً)

درد ناک عذاب کی خوشخبری: وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان : اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوش خبری سناؤ دردناک عذاب کی۔ (پ10 ،التوبۃ:34)

کَنز کی وَعید میں کون سا مال داخل ہے؟:حضرت عبدُاللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی گئی وہ کنز نہیں(یعنی وہ اس آیت کی وعید میں داخل نہیں)خواہ دفینہ (زمین میں دفن شدہ خزانہ) ہی ہو اور جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی وہ کنز ہے جس کا ذکر قراٰن میں ہوا کہ اس کے مالک کو اس سے داغ دیا جائے گا۔(تفسیر طبری،التوبۃ،تحت الآیۃ:34، 6/357)

اللہ پاک ہمیں بخل کی آفت سے بچائے اور دل کھول کر اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم