سیّد الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٍ کی ولادت 4شعبان المعظم کو مدینہ منورہ میں ہوئی،  حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کا نام حسین اور شبیر رکھا اور آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب"سِبْطِ رسُولُ اللہ اور ریْحَانۃُ الرَّسُول اور آپ کے برادرِ معظم کی طرح آپ کو بھی جنتی جوانوں کا سردار اپنا فرزند فرمایا۔

خصوصیات:

1۔راکبِ دوشِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جگر گوشہ مرتضٰی، دلبندِ فاطمہ، سلطانِ کربلا، سیّد الشہداء، امام عالی مقام، امام عرش مقام، امام ہمام، امام تشنہ کام حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہم اجمعین سراپا کرامت تھے، حتٰی کہ آپ کی ولادت باسعادت بھی با کرامت ہے، حضرت سیّدی عارف باللہ نورالدین عبدالرحمن جامی قدس سرہ السامی شواھدالنبوہ میں فرماتے ہیں، سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت 4 شعبان المعظم، 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں منگل کے دن ہوئی، منقول ہے کہ امام پاک رضی اللہ عنہ کی مدتِ حمل چھ ماہ ہے، حضرت سیدنا یحیٰی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا، جس کی مدّت حمل چھ ماہ ہوئی ہو۔

حضرت علامہ جامی قدس سرہ السامی مزید فرماتے ہیں، حضرت امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما تے تو آپ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدّس رُخسار سے انوار نکلتے اور قُرب و جوار ضیابار یعنی روشن ہو جاتے۔

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

2۔مسجد نبوی میں عصر کی نماز ہو رہی تھی، امام الانبیاءعلیہ السلام جماعت کرا رہے تھے اور مقتدی حضرت صدیق اکبر، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہم اجمعین تھے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی چھ سال کی عمر تھی، وہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں کھیل رہے تھے، وہ کبھی مدینے کے درودیوار کو دیکھتے اور کبھی نانا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلّے کو، کملی (علماء نے اس کی ممانعت فرمائی ہے)والے آقائےدوعالم سجدے میں گئے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے چھلانگ لگائی اورنبی علیہ السلام کے کندھوں پر سوار ہو گئے، عرش والے حیران رہ گئے، فرشتے دم بخود تھے اور حوریں محوِ حیرت، مگر روحِ فطرت مسکرا رہی تھی، جبرائیل پکار اٹھے کہ مولا یہ کیا نظارہ ہے کہ بچہ حسین امام الانبیاء کے کندھوں پر نماز میں اور سجدے کی حالت میں سوار ہوگیا ہے، خدا نے فرمایا:جبرائیل خاموش!آج جس بچے حسین کو تم سجدے میں نانا مصطفی علیہ السلام کے کندھوں پر دیکھ رہے ہو، کل اسی بچے حسین کو میدانِ کربلا میں نیزے پر چڑھ کر قرآن پڑھتے بھی دیکھنا۔

سیّدالمرسلین نے ارادہ کیا کہ سجدے سے سرِ اقدس اُٹھاؤں، مگر جبرائیل نے آکر فرمانِ خداوندی سنایا کہ جب تک حسین اپنی مرضی سے نہ اُتریں، آپ سجدے سے سر نہ اٹھائیے، کملی والے نے نماز لمبی کر دی اور تین یا پانچ بار کی بجائے 72 دفعہ تسبیح پڑھی، حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنی مرضی سے نانا پاک کے کندھوں پر سے اُترے اور ہنستے کھیلتے گھر آگئے، آکر اپنی امّی سے سارا قصّہ کہہ سُنایا، قصّہ سُن کرخاتونِ جنت نے فرمایا:بیٹا حسین تم نے نماز کا خیال نہ کیا اور تم نے نبوت کا لحاظ نہ کیا، بیٹے نے زبانِ حال عرض کیا، امّا جان!پریشان نہ ہوں، یہ ایک راز کی بات ہے۔ ماں نے پوچھا بیٹا! وہ کیا راز ہے؟ عرض کی:امّاں جان! میرے نانا مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے بہتّر تسبیحیں پڑھی ہیں اور کربلا کے میدان میں اس کے بدلے اپنے نانا کے دین کے خاطر 72 تن قربان کر دوں گا۔سبحان اللہ

3۔یزیدی فوج کا ایک سخت دل مُزنی شخص امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے سامنے آکر یہ بکنے لگا، "دیکھو تو سہی دریائے فرات کیسا موجیں مار رہا ہے، خدا کی قسم!تمہیں اس کا ایک قطرہ بھی نہ ملے گا اور تم یوں ہی پیا سے ہلاک ہوجاؤگے"، امام تشنہ کام رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ ربّ الانام میں عرض کی:

"اَللّٰھُمَّ اَمِنْہ عَطْشَانًا"یعنی یا اللہ عزوجل اس کو پیاسا مار۔"

امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے دُعا مانگتے ہی اس بے حیا مُزنی کا گھوڑا بدک کر دوڑا، مُزنی پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگا، پیاس کا غلبہ ہو ا، اس شدت کی پیاس لگی کہ العطش! العطش! ہائے پیاس! ہائے پیاس! پکارتا تھا، مگر پانی جب اس کے منہ سے لگاتے تھے تو ایک قطرہ بھی نہیں پی سکتا تھا، یہاں تک کہ اِسی شدت ِپیاس میں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔

4۔امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ کے سرِ منور سے مُتعدد کرامات کا ظہور ہوا، اہلِ بیت علیہم الرضوان کے قافلے کے بغیر افراد 11 محرم الحرام کو کوفہ پہنچے، جبکہ شھدائے کربلا علیہم الرضوان کے مبارک سر اُن سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے، امام عالی مقام رضی اللہ عنہ ھاسرِانور رُسوائے زمانہ یزیدی بد بخت "خولی بن یزید" کے پاس تھا، یہ مردود رات کے وقت کوفہ پہنچا، گورنر ہاؤس کا دروازہ بند ہو چکا تھا، یہ سرِ انور کو لے کر اپنے گھر آ گیا، ظالم نے سرِ انور کو بے ادبی کے ساتھ زمین پر رکھ کر ایک بڑا برتن اس پر اُلٹ کر اس کو ڈھانپ دیا اور اپنی بیوی"نوار" کے پاس جا کر کہا، میں تمہارے لئے زمانے بھر کی دولت لایا ہوں، وہ دیکھ حسین بن علی کا سر تیرے گھر پر پڑا ہے، وہ بگڑ کر بولی:تجھ پر خدا کی مار، لوگ تو سیم و زر لائیں اور تو فرزندِ رسول کا مبارک سر لایا ہے، خدا کی قسم! اب میں تیرے ساتھ کبھی نہ رہوں گی، نوار یہ کہہ کر اپنے بچھونے سے اُٹھی اور جدھر سرِ انور تشریف فرما تھا، ادھر آ کر بیٹھ گئی، ُ اس کا بیان ہے، خدا کی قسم! میں نے دیکھا کہ ایک نور برابر آسمان سے اُس برتن تک مثلِ سُتون چمک رہا تھا اور سفید پرندے اس کے ارد گرد منڈلا رہے تھے۔سبحان اللہ

5۔حضرت سیّدنا شیخ خلیل ابی الحسن تمارسی رحمۃ اللہ علیہ سرِ انور کی زیارت کے لئے جب مشھد مبارک کے پاس حاضر ہوتے تو عرض کرتے، السلام علیکم یا ابنِ رسول اللہ اور فوراً جواب سنتے، وعلیکم السلام یا ابالحسن، ایک دن سلام کا جواب نہ پایا، حیران ہوئے اور زیارت کر کے واپس آگئے، دوسرے روز پھر حاضر ہو کر سلام کیا تو جواب تو جواب پایا:عرض کی ، یا سیّدی! کل جواب سے مشرف نہ ہوا، کیا وجہ تھی؟ فرمایا:اے ابو الحسن!کل اِس وقت میں اپنے نانا جان رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھا اور باتوں میں مشغول تھا۔ حضرت سیّدنا زید بن اَرقم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، جب یزیدیوں نے حضرت امام عالی مقام سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا سرِ انور کو نیزے پر چڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا، اُس وقت میں اپنے مکان کے بالاخانے پر تھا، جب سرِ مبارک میرے سامنے سے گُزرا تو میں نے سُنا کہ سرِ پاک نے (پارہ 15، سورۃ الکہف کی آیت نمبر 9)تلاوت فرمائی،

ترجمہ کنزالایمان:کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ (غار)اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔سبحان اللہ

سورہ کہف کی تلاوت کیوں کررہے تھے، اس لئے کہ سورۃ کہف اصحابِ کہف کے لئے نازل ہوئی تھی، اس کا قرآن نے عجیب و غریب واقعہ قرار دیا ہے۔

اِسی طرح ایک دوسرے بزرگ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب یزیدیوں نے سرِ مبارک کو نیزہ سے اُتار کر ابنِ زیاد بد نہاد کے محل میں داخل کیا، تو آپ رضی اللہ عنہ کے مقدس ہونٹ ہل رہے تھے اور زبانِ اقدس پر پارہ 13، سورۃ ابراہیم کی ایت نمبر 42 کی تلاوت جاری تھی،

ترجمہ کنزالایمان:اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔"

منہال بن عمرو کہتے ہیں واللہ میں نے بچشمِ خود دیکھا کہ جب امام حسین رضی اللہ عنہ کے سرِانور کو لوگ نیزے پر لئے جاتے تھے، اُس وقت میں"دمشق"میں تھا، سرِ مبارک کے سامنے ایک شخص سورہ کہف پڑھ رہا تھا، جب وہ آیت نمبر 9 پر پہنچا:اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا۔

" اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔"

اس وقت اللہ تعالی نے قوتِ گویائی بخشی، تو سرِ اَنور نے بزبانِ فصیح فرمایا:اَعْجَبَ مِنْ اَصْحٰبَ الْکَہْفِ قتلی وَحَمْلِیً۔

اصحاب کہف کے واقعہ سے میرا قتل اور میرے سر کو لئے پھرنا عجیب تر ہے۔"

صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سیّد محمد نعیم الدّین مرادآبادی علیہ الرحمہ اپنی کتاب سوانح کربلا میں یہ حکایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:"درحقیقت بات یہ ہے کیونکہ اصحابِ کہف پر کافروں نے ظلم کیا تھا اور حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو ان کے نانا جان صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نے مہمان بنا کر بلایا، پھر بے وفائی سے پانی تک بند کر دیا، آل و اصحاب علیھم الرضوان کو حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ کے سامنے شہید کیا، پھر خود حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، اہل بیت کرام علیھم الرضوان کو اسیر یعنی قیدی بنایا، سرِ مبارک کو شہر شہر پھرایا، اصحابِ کہف سالہا سال کی طویل نیند کے بعد بولے، یہ ضرور عجیب ہے، مگر سرِانور کا تنِ مبارک سے جُدا ہونے کے بعد کلام فرمانا عجیب تر ہے، یہ حضرت اِمام عالی مقام کی سب سے بڑی خصوصیت تھی۔

کملی والے نے حضرت حسین کے کانوں میں اذان کہی اور ساتھ ہی فرمایا: بیٹا!حسین یہ تیرے نانا مصطفٰی کی آواز ہے، اس کی لاج رکھنا، امام حسین رضی اللہ عنہ نے آنکھ کھولی اور نا نا پاک کی طرف دیکھا اور نگاہ سے نگاہ ملی تو حضرت امام حسین نے نگاہوں میں جواب دیا کہ نانا جان!آپ فکر نہ کریں، اگر آواز آپ کی ہے تو کان حسین رضی اللہ عنہ کے ہیں اور لوگ تو مسجدوں میں قرآن پڑھتے ہیں، مگر نانا جان اگر وقت آیا تو میں نیزے پر بھی قرآن پڑھ کر سُناؤں گا۔

جب تک دُنیا قائم رہے گی، امام حسین کا نام زندہ رہے گا، اس لئے نہیں کہ وہ نواسہ رسول ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ جگر گوشہ بتول ہے اور اس لئے نہیں کہ وہ نوِر نگاہِ علی ہے، نواسہ رسول ہونا بڑی سعادت ہے، جگر گوشہ بتول ہونا بڑی عزت، لیکن امام حسین کا نام اس لئے بھی زندہ رہے گا کہ خدا کو ناز ہے اور ہو بھی کیوں نہ؟ سجدہ فرش والے بھی کرتے ہیں اور عرش والے بھی، زمین والے بھی کرتے ہیں اور آسمان والے بھی، جنت کی حوریں بھی کرتی ہیں اور بہشت کے غلمان بھی اور زمین سے لے کر آسمان تک اور فرش سے لے کر عرش تک کائنات کا ذرّہ ذرّہ خداوند تعالیٰ کی حمد و ثنا اور تسبیح و تہلیل میں ہر وقت مشغول رہتا ہے، مگر عرشِ عظیم کے سائے میں سجدہ کرنا آسان ہے، جنت کی پُر کیف فضاؤں میں حمد و ثنا کرنی مشکل نہیں، مسجد کے حجرے میں اللہ اللہ کرنا آسان ہے، لیکن جوان بیٹے کی لاش پر گھوڑے دوڑتے دیکھ کر، مظلوم اصغر کے حلق پر تیر پیوست ہوتا دیکھ کر، عباس کے بازو قلم ہوتے دیکھ کر، عون و محمد کی لاش تڑپتی دیکھ کر اور پھر اپنے جسم پر سینکڑوں زخم کھانے کے بعد کربلا کی تپتی ہوئی ریت پر بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کرنا حسین ہی کا کام ہے۔

میدانِ کربلا میں جو کچھ ہوا، وہ کیوں ہوا؟ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایسا کیوں کیا؟ تواس کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ امام عرش مقام کے کانوں میں آخری دم تک نانا مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آتی رہی کہ کسی فاسق و فاجر حکمران کی اطاعت اور سیاہ کا رو گنہگار بادشاہ کی بیعت ایک مسلمان کے لئے باعثِ ذلت ہے اور پھر اس لئے وہ جانتے تھے کہ اِلَّا اللہ کی بنیاد لَااِلٰہ سے قائم ہے۔


1۔امام حسین رضی اللہ عنہ سراپا کرامت تھے، آپ کی ولادت باسعادت بھی باکرامت ہے، آپ 5 شعبان المعظم، 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، حضرت سیّدنا نورالدّین عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ "شواھدالنبوہ" میں فرماتے ہیں کہ امام پاک رضی اللہ عنہ کی مدتِ حمل چھ ماہ ہے۔

2۔حضرت علامہ عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدّس رُخساریعنی گال سے انوار نکلتے اور اطراف روشن ہو جاتے تھے۔

3۔آپ رضی اللہ عنہ کا مبارک نام حسین، کنیت ابو عبداللہ اور القاب سبطِ رسول اللہ اور ریحانۃ الرسول(یعنی رسول کے پھول) ہے۔

کیا بات رضا اس چمنستان کرم کی

زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول

4۔ چار فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:"حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے، حسن و حسین رضی اللہ عنہ سے جس نے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے دشمنی کی، حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں، حسن و حسین رضی اللہ عنہما دنیا میں بھی میرے دو پھول ہیں۔"

تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

5۔صحابی رسول حضرت سیّدنا زید بن اَرقم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، جب یزیدیوں نے حضرت امامِ عالی مقام، سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ انور کو نیزے پر چڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا، اس وقت میں اپنے مکان کے بالاخانہ (یعنی اوپر والے حصّے) پر تھا، جب سر ِمبارک میرے سامنے سے گزرا تو میں نے سُنا کہ سرِ پاک نے (پ 15، سورۃ الکہف ، 9) تلاوت فرمائی:

ترجمہ کنزالایمان:"کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ (یعنی غار) اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔"

اسی طرح ایک اور بزرگ نے فرمایا:" کہ جب سرِ مبارک کو نیزے سے اُتار کر ابنِ زیاد بدنہاد کے محل میں داخل کیا تو آپ رضی اللہ عنہ کےمقدس ہونٹ ہل رہے تھے اور زبانِ اقدس پر پارہ13، سورہ ابراہیم کی آیت 42 تلاوت کی:

ترجمہ کنزالایمان:"اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا طالموں کے کام سے۔"

عبادت ہو تو ایسی ہو تلاوت ہو تو ایسی ہو

سرِ شبّیر تو نیزے پہ بھی قرآن سُناتا ہے


سلطانِ کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا مبارک نام"حسین"  کنیت ابو عبداللہ اور القاب"سِبْطِ رسُول اللہ اور ریْحَانۃُ الرَّسُول (یعنی رسول کے پھول ہیں)، آپ کی ولادت ہجرت کے چوتھے سال، 5 شعبان المعظم کو مدینۂ منورہ میں ہوئی، حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کا نام حسین اور شبیر رکھا اور آپ کو اپنا بیٹا فرمایا۔(اسد الغابہ، جلد 2، صفحہ 25،26 متقظاً، دارالکتب العلمیہ بیروت)

کیا بات رضا اس چمنستانِ کرم کی

زہرہ ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول

(حدائق بخشش، ص79)

1۔غریبوں مسکینوں سے محبت:

محبت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا غریبوں اور مسکینوں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ نواسۂ رسول حضرت سیّدنا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی زوجہ یہ پیغام لے کر گئیں کہ "ہم نے آپ کے لئے لذیذ کھانا اور خوشبو تیار کی ہے، آپ اپنے ہم پلہ دیکھیں اور انہیں ساتھ لے کر ہمارے پاس تشریف لائیے۔"حضرت سیدنا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف لے گئے اور وہاں جو مساکین تھے، انہیں لے کر گھر تشریف لے گئے، پڑوس کی خواتین آپ کی زوجہ کے پاس آ کر کہنے لگیں، خدا کی قسم!آپ کے گھر تو مساکین جمع ہوگئے ہیں، پھر حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:"میں تمہیں اپنے اُس حق کی قسم دیتا ہوں، جو میرا تجھ پر ہے کہ تم کھانا اور خوشبو بچا کر نہیں رکھو گی۔" پھر انہوں نے ایسا ہی کیا، آپ نے مساکین کو کھانا کھلایا، انہیں کپڑے پہنائے اور خوشبو لگائی۔(حسن اخلاق، ص62)

2۔گالیاں دینے والوں کو دعائیں دیں:

ایک دفعہ عصام بن مصطلق نامی شخص جو کہ مولائے کائنات حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا، حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے اُنہیں اور ان کے ابُّو جان حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو برابھلا کہنے لگا، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کو جھڑکنے یا جوابی کارروائی کرنے کے بجائے اعُوذُ باللہ اور بِسْمِ اللہ پڑھنے کے بعد آیاتِ مبارکہ کی تلاوت فرمائی:
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ؕ-اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَ ۚ

ترجمہ کنز الایمان:اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو اور اے سننے والے، اگر شیطان تجھے کوئی کونچا دے( کسی بُرے کام پر اُکسائے) تو اللہ کی پناہ مانگ، بے شک وہی سنتا جانتا ہے، بے شک وہ جو ڈر والے ہیں، جب انہیں کسی شیطانی خیال کی ٹھیس لگتی ہے، ہوشیار ہو جاتے ہیں، اُسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔"(پ9، الاعراف:199۔201)

پھر فرمایا:"اپنے اوپر بوجھ ہلکا رکھ لو اور میں اللہ سے تیرے لئے اور اپنے لئے مغفرت کا سوال کرتا ہوں، اس کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ اس قدر عفو ودرگزر، نرمی و خوش اخلاقی سے پیش آئے کہ اُس کا بغض و عداوت ایک دم محبت میں تبدیل ہوگیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا:وَمَا عَلَی وَجْہِ الْاَرْضِ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْہُ وَ مِنْ اَبِبْہِ۔یعنی" روئے زمین پر حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ابو جان حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ میرے نزدیک کوئی معبود نہیں۔"(تفسیر بحر المحیط، جلد 4، صفحہ 446، دار الکتب العلمیہ بیروت، تفسیر قرطبی، جلد 4، صفحہ 250، ملخصاً دار الفکر بیروت)

3۔نواسۂ رسول رضی اللہ عنہ کی عبادات:

ہمارے آقا و مولا، شہیدِ کربلا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بڑے عبادت گزار تھے، چنانچہ شبِ عاشورا(10 محرم کی رات) امام عالی مقام، امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے پیارے بھائی حضرت سیّدنا عباس علمدار رضی اللہ عنہ کو فرمایا:"کسی طرح یہ لڑائی کل تک مؤخر ہو جائے اور آج کی رات ہمیں اللہ پاک کی عبادت کے لئے مل جائے، اللہ کریم خوب جانتا ہے کہ مجھے نماز، تلاوتِ قرآن اور کثرت کے ساتھ دُعا مانگنا اور اِسْتغفار کرنا بہت پسند ہے۔"(الکامل فی التایخ، جلد 3، صفحہ 415، بیروت)

4۔نماز روزے کی کثرت:

حضرت سیدنا علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کثرت سے نماز پڑھتے، روزے رکھتے، حج کرتے، صدقہ و خیرات کرتے اور تمام بھلائی کے کاموں کو کرتے تھے ۔(اسد الغابۃ، ج 2، ص28، رقم 1173)

شہزادۂ امام عالی مقام، حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"میرے ابو جان حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دن اور رات میں ہزار(1000) رکعت نوافل ادا فرمایا کرتے تھے۔"(عقد الفرید، ج3، صفحہ 114، مختصراً، دار الکتب العلمیہ بیروت)

عظیم تابعی بزرگ حضرت سیّد نا امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"میں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ رمضان المبارک میں مکمل قرآن کریم ختم فرمایا کرتے تھے۔"(سیر اعلام النبلاء، ج4، ص410، دارالفکر بیروت)

آپ کو حج کا بہت شوق تھا، چنانچہ مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے 25 حج پیدل کئے۔(ابن عساکر، جلد 14، صفحہ 180)

4۔سخاوت:

امام ِعالی مقام، امامِ عرشِ مقام، امامِ ہمام، امامِ تشنہ کام، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی سواری کا گزر مساکین کے پاس سے ہوا، وہ بچے کھچے ٹکڑے کھا رہے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں سلام ارشاد فرمایا، مساکین نے آپ کو کھانے کی دعوت دی تو آپ رضی اللہ عنہ نے پارہ 20، سورۃ القصص، آیت نمبر 83 کا یہ حصّہ تلاوت فرمایا: لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا ؕ

ترجمہ کنز الایمان:جو زمین میں تکبر نہیں چاہتے اور نہ فساد۔

پھر آپ رضی اللہ عنہ سواری سے نیچے تشریف لائے اور اُن کے ساتھ کھانا کھایا، اس کے بعد ارشاد فرمایا:"میں نے تمہاری دعوت قبول کی، اب تم میری دعوت قبول کرو"، پھر حضرت سیدنا امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے اُن کو سوار کیا اور اپنے گھر لا کر ان کو کھانا کھلایا ا ور کپڑے اور دراہم عطا فرمائے۔(حسن اخلاق، ص63)

سخاوت بھی تیرے گھر کی، عنایت بھی ترے گھر کی

تِرے در کا سوالی، جھولیاں بھر بھر کے لاتا ہے

(وسائل بخشش،ص445)

5۔ابو جان سے محبت کا عالم:

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ابو جان حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ سے بے حد پیار کرتے تھے اور اسی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ اپنے تمام شہزادوں(بیٹوں) کے نام "علی" رکھتے تھے، بڑے شہزادے (یعنی بڑے بیٹے) کا نام "علی اکبر رضی اللہ عنہ"ہے، اُن سے چھوٹے جوکہ امام زین العابدین کے نام سے مشہور ہیں، مگر اِن کا اَصل نام"علی اوسط رضی اللہ عنہ"اور سب سے چھوٹے شہزادے، ننھے ننھے پیارے پیارے"علی اصغر رضی اللہ عنہ"ہیں۔


مختصر تعارف-

راکبِ دوشِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جگر گوشۂ مرتضیٰ دلبند فاطمہ سلطان کربلا سید الشہداء امام عالی مقام امام تشنہ کام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہم اجمعین سراپا کرامت تھے حتیٰ کہ آپ کی ولادت باسعادت بھی با کرامت ہے حضرت سید عارف باللہ نور الدین عبدالرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ شواھر انبوت میں فرماتے ہیں سیانا امام حسین رضی اللہ عنہم کی ولادت باسعادت چار شعبان المعظم نو ھجری کو مدینہ منورہ میں منگل کے دن ہوی

منقول ہے کہ امام پاک رضی اللہ عنہم کی مدت حمل چھ ماہ ہے حضرت سیدنا یحییٰ علیہ السلام اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہم کے علاوہ کوئی ایسا بچہ ذندہ نہ رہا جس کی مدت حمل چھ ماہ ہے

مرحبا سرور عالم کے پسر آءے ہیں

سیدہ فاطمہ کے لخت جگر آءے ہیں

واہ قسمت کہ چراغ حرمین آءے ہیں

ای مسلمانو مبارک ہو کہ حسین آءے ہیں

امام حسین رضی اللہ عنہ کی خصوصیات-

یوں تو امام حسین رضی اللہ عنہ کی بے شمار خصوصیات ہیں آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل و کمالات مختصر تعارف میں بتانا بہت مشکل ہے پھر بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی پانچ خصوصیات آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں

1رخسار سے انوار کا اظہار

حضرت علامہ جامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ مبارک پیشانی اور دونوں مقدس رخسار سے انوار نکلتے اور قرب و جوار ضیابار یعنی روشن ہو جا تے۔

2کنویں کا پانی ابل پڑا

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت سیدنا ابن مطیع علیہ رحمۃ اللہلبرح سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے عرض کی میرے کنویں کا پانی کم ہے براءے کرم دعاءے برکت سے نواز دیں آپ رضی اللہ عنہ نے اس کنویں کا پانی طلب فرمایا جب پانی کا ڈول حاضر کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے منہ لگا کر اس میں سے پانی نوش کیا اور کلی کی پھر ڈول کو واپس کنویں میں ڈال دیا جیسے ہی ڈول پانی میں گیا فور کنویں کا پانی کافی بڑھ گئا اور پہلے سے ذیادہ میٹھا اور لذیذ بھی ہو گیا

3 اللہ عزوجل کی رضا کے لئے نماز اور تلاوت کا معمول

امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے ربّ کریم کی رضا کے لئے نماز اور تلاوت سے محبت ہے اور کسرت کے ساتھ دعا اور استغفار میرا معمول ہے

4 امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت کی رات حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھ کو نماز تلاوت اور استغفار اور دعا سے بے حد محبت ہے

5 ابو مھزم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ہم ایک جنازہ میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کر رہے تھے

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا


امام حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت و القابات:

امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی کنیت ابو عبداللہ اور القابات سبط رسول، ریحانة الرسول، راکب دوش مصطفی ﷺ، جگر گوشہ مرتضی، دل بند فاطمہ، امام ہمام اور امام تشنہ کام ہے

امام حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل:

پہلی خصوصیت: امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنھما کو پیارے آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے پھول قرار دیا چناچہ ارشاد فرمایا کہ حسن و حسین (رضی اللہ عنھما) دنیا میں میرے دو پھول ہیں (بخاری،ج2،ص547،حدیث3753)از امام حسین کی کرامات

دوسری خصوصیت: حضور پر نور ﷺ نے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ سے ایک بار اظہار محبت کچھ ان الفاظ میں فرمایا کہ حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوں اللہ عزوجل دوست رکھے اسے جو حسین رضی اللہ عنہ کو دوست رکھے ،حسین رضی اللہ تعالی عنہ سبط ہے اسباط سے (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب المناقب ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث3800،ج5،ص429)از آئینہ قیامت

تیسری خصوصیت: آپ رضی اللہ عنہ سے انوار کا ظہور ہوتا اور کیوں نہ ہو کہ آپ رضی اللہ عنہ حضور پُرنور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے ہیں چناچہ حضرت علامہ جامی قدس سرہ فرماتے ہیں حضرت امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ رضی اللہ عنہ کی مبارک پیشانی اور دونوں رخسار ( یعنی گال) سے انوار نکلتے اور قرب و جوار ضیا بار (یعنی اطراف روشن) ہوجاتے (شواہد النبوہ،ص228)از امام حسین کی کرامات

چوتھی خصوصیت: آپ رضی اللہ عنہ کی ایک خصوصیت اور ولادت با سعادت با کرامت بیان کرتے ہوۓ حضرت عارف باللہ نور الدین عبد الرحمن جامی قدس سرہ السامی شواھد النبوة میں فرماتے ہیں :منقول ہے کہ امام پاک رضی اللہ تعالی عنہ کی مدت حمل چھ ماہ ہے . حضرت سیدنا یحیی علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ کوئی بچہ زندہ نہ رہا جسکی مدت حمل چھ ماہ ہوئی ہو (شواہد النبوہ،ص228)از امام حسین کی کرامات

واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم

پانچویں خصوصیت: آپ رضی اللہ عنہ کا ایک معجزہ ملاحظہ ہو نیز مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ مستجاب الدعوات تھے چناچہ ملاحظہ ہو امامِ عالی مقام ، امامِ عرش مقام، امامِ ہمام، امامِ تشنہ کام، حضرتِ سیِّدُنا امامِ حُسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ یومِ عاشورا یعنی بروز جمعۃُ المبارک10مُحَرَّمُ الْحَرام 61ھ کو یزیدیوں پر اِتمامِ حُجّت (یعنی اپنی دلیل مکمَّل ) کرنے کیلئے جس وَقت میدانِ کربلا میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اُس وَقت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے مظلوم قافِلے کے خیموں کی حِفاظت کیلئے خندق میں روشن کردہ آگ کی طرف دیکھ کر ایک بد زَبان یزیدی (مالک بن عُروہ ) اس طرح بکواس کرنے لگا: ’’اے حُسین ! تم نے وہاں کی آگ سے پہلے یہیں آگ لگا دی!’‘ حضرتِ سیِّدُنا امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: کَذَبْتَ یاعَدُوَّ اللّٰہ یعنی’’ اے دشمنِ خدا!تو جھوٹا ہے، کیا تجھے یہ گمان ہے کہ (مَعَاذَ اللہ ) میں دوزخ میں جاؤں گا!’‘ اِمامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے قافِلے کے ایک جاں نثار حضرتِ سیِّدُنا )مسلم بن عَوْسَجَہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)نے حضرتِ امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے اُس منہ پھٹ بد لگام کے منہ پر تیر مارنے کی اجازت طلب کی۔ حضرتِ امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے یہ فرما کر اجازت دینے سے انکار کیا کہ ہماری طرف سے حَملے کا آغاز نہیں ہو نا چاہئے ۔ پھر امامِ تشنہ کام (یعنی پیاسے امام ) رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے دستِ دُعا بُلند کر کے عرض کی:’’اے ربِّ قہّار!اس نا بکار (نا۔ بَہ۔ کار یعنی شریر )کوعذابِ نار سے قبل بھی اِس دنیائے نا پائیدار میں آگ کے عذاب میں مبتَلا فرما۔ ‘‘ فوراًدُعا مُستجاب (یعنی قبول ) ہوئی اور اُس کے گھوڑے کا پاؤں زمین کے ایک سوراخ پر پڑا جس سے گھوڑے کو جھٹکا لگا اور بے ادب و گستاخ یزیدی گھوڑے سے گرا ، اُس کا پاؤں رِکاب میں اُلجھا ، گھوڑا اُسے گھسیٹتا ہوا دوڑا اور آگ کی خندق میں ڈا ل دیا! اور بدنصیب آگ میں جل کربَھسَم ہو گیا۔ امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے سجدہ ٔ شکر ادا کیا، حمدِ اِلٰہی بجا لائے اور عرض کی: ’’یااللہ کریم! تیرا شکر ہے کہ تُو نے اٰلِ رسول کے گستاخ کو سزا دی۔ ‘‘ (سَوانِحِ کربلا ص۱۳۸ملخّصاً )از امام حسین کی کرامات

اس سے بزرگانِ دین کی شان عالی مرتبت میں گستاخیاں کرنے والوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے

اللہ عزوجل ہمیں ہمیشہ صحابہ کرام اور اہلبیت عظام اور بزرگان دین کا ادب کرنے والا بناۓ اور ان کی شان عالی میں گستاخیاں کرنے والوں کے شر سے محفوظ رکھے

اہلِ بیتِ پاک سے گستاخیاں بے باکیاں

لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ دشمنانِ اہلِ بیت


آپ رضی اللہ عنہ کا نام "حسین"،  کنیت ابو عبداللہ اور القاب سبطِ رسول اللہ اور ریجانۃ الرسول (یعنی رسول کے پھول) ہیں۔

کیا بات رضا اس چمنستانِ کرم کی

زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول

فضائلِ امام حسین رضی اللہ عنہ:

1۔ترمذی، جلد 5، صفحہ 429، حدیث380 میں ہے، مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے، جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔"

2۔المستدرک، جلد 4، صفحہ 156، حدیث 383 میں ہے، مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسن و حسین رضی اللہ عنہم سے جس نے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے دشمنی کی۔"

3۔بخاری شریف، جلد 2، صفحہ 547، حدیث 3753 میں ہے، فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم::حسن و حسین رضی اللہ عنہم دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔"

4۔ترمذی شریف، جلد 5، صفحہ 426، حدیث 3792 میں ہے، فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:" حسن و حسین رضی اللہ عنہم جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔"

5۔امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی ظاہری وصال فرما جانے کے بعد بھی اپنی قبر پر آنے والوں کو سلام کا جواب دیتے ہیں، چنانچہ روایت ہے، نورُ الابصار، صفحہ 149 سے اختصاراً پیشِ خدمت ہے:"حضرت سیدنا شیخ ابو الحسن علیہ رحمۃ اللہ الوالی سرِ انور کی زیارت کے لئے جب مشہد مبارک کے پاس حاضر ہوتے تو عرض کرتے"السلام علیکم" اور اس کا جواب سنتے "وعلیکم السلام یا اباالحسن"۔

دعا:اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صدقے یہ دنیا سے کرونا وائرس کا خاتمہ ہوجائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"اس شخص کی ناک خاک آلود ہو،  جس کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود پاک نہ پڑھے۔"

آپ رضی اللہ عنہ کا مبارک نام"حسین" کنیت ابو عبداللہ اور القاب"سِبْطِ رسُولُ اللہ اور ریْحانۃُ الرَّسُول (یعنی رسول کے پھول ہیں)، آپ کی ولادت ہجرت کے چوتھے سال، 5 شعبان المعظم کو مدینہ منورہ میں ہوئی، آپ علیہ السلام نے آپ رضی اللہ عنہ کا نام حسین اور شبیر رکھا، آپ کے بارے میں بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں، جن میں سے چار درج ذیل ہیں:

1۔حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے، جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔

2۔حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے جس نے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے دشمنی کی، حسن وحسین رضی اللہ عنہما دنیا میں میرے دو پھول ہیں، حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔

3۔امام حسین رضی اللہ عنہ کے سیدھے کان میں اذان دی آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے اور بائیں کان میں تکبیر پڑھی اور اپنے مبارک جُوٹھے شریف سے گھٹی عطا فرمائی اور دعاؤں سے نوازا۔ 4۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی شکل مبارک سر سے سینہ تک حضور علیہ السلام سے مشابہ تھی اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی سینے سے ناخنِ پا(یعنی پاؤں کے ناخن) تک۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کی پاک و بلند بارگاہ میں دعا ہے کہ اس بیان کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے۔آمین یا ربّ العالمین


1۔ولادت باکرامت:امام حسین رضی اللہ عنہ سراپا کرامت تھے، حتٰی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت بھی باکرامت ہے، سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت شعبان المعظم 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی، حضرت سیّدنا عارف باللہ نورالدین عبدالرحمن جامی قدس سرہ السامی "شواھدالنبوہ" میں فرماتے ہیں، منقول ہے کہ امام پاک رضی اللہ عنہ کی مدتِ حمل چھ ماہ ہے، حضرت سیدنا یحیٰی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا، جس کی مدّت حمل چھ ماہ ہوئی ہو۔

مرحبا سرورِ عالم کے پسر آئے ہیں

سیّدہ فاطمہ کے لختِ جگر آئے ہیں

واہ قسمت! کہ چراغِ حرمین آئے ہیں

اے مسلمانو مبارک کہ حسین آئے ہیں

2۔امام حسین کے فضائل پرچار فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:

حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔

حسن و حسین رضی اللہ عنہ سے جس نے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے دشمنی کی۔

حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔

حسن و حسین رضی اللہ عنہما دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔(امام حسین کی کرامات، ص3)

3۔رُخسار سے انوار کا اظہار:

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدّس رُخسار سے انوار نکلتے اور قُرب و جوار ضیابار ہو جاتے۔

تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

4۔کنویں کا پانی اُبل پڑا:

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت سیّدنا ابن مطیع رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے عرض کی: میرے کنویں میں پانی بہت کم ہے ، براہِ کرم! دعائے برکت سے نواز دیجئے، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کنویں کا پانی طلب فرمایا، جب پانی کا ڈول حاضر کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مُنہ لگا کر اس میں سے پانی نوش کیا(یعنی پیا) اور کُلّی کی، پھر ڈول کو واپس کنویں میں ڈال دیا تو کنویں کا پانی کافی بڑھ بھی گیا اور پہلے سے زیادہ میٹھا اور لذیذ بھی ہو گیا۔

باغِ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیت

تم کو مثردہ نار کا اے دُشمنانِ اہلِ بیت

5۔سونے کے سِکّوں کی تھیلیاں:

حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص نے اپنی تنگدستی کی شکایت کی، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ، ابھی کُچھ ہی دیر گزری تھی کہ حضرت سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک ہزار دینار(یعنی سونے کے سکّے) کی پانچ تھیلیاں آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں پیش کی گئیں، حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے وہ ساری رقم اس غریب آدمی کے حوالے کر دی اور اس کرم نوازی کے باوجود تاخیر پر معذرت فرمائی۔

یا شہیدِ کربلا فریاد ہے

نورِ چشمِ فاطمہ فریاد ہے

ہے میری حاجت میں طیبہ میں مروں

اے میرے حاجت روا فریاد ہے


درود پاک کی فضیلت:

بے چین دلوں کے چین، رحمتِ دارین، تاجدارِ حرمین، سرورِ کونین، نانائے حسین صلی اللہ علیہ وسلم ورضی اللہ عنہما کا فرمانِ رحمت شان ہے:جب جمعرات کا دن آتا ہے، اللہ تعالی فرشتوں کو بھیجتا ہے، جن کے پاس چاندی کے کاغذ اور سونے کے قلم ہوتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کون یومِ جمعرات اور شبِ جمعہ مُجھ پر درود پڑھتا ہے۔

ولادتِ با کرامت:

راکب دوش مصطفی، جگر گوشہ مرتضی، دلبندِ فاطمہ، سلطانِ کربلا، سید الشہدا، امام عالی مقام، امام عرش مقام، امام ہمام، امام تشنہ کام، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سراپا کرامت تھے، حتٰی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت بھی باکرامت ہے، حضرت سیّدی عارف باللہ نورالدّین عبدالرحمن جامی قدس سرہ السامی "شواھدالنبوہ" میں فرماتے ہیں، سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت 4 شعبان المعظم، 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں منگل کے دن ہوئی، منقول ہے کہ امام پاک رضی اللہ عنہ کی مدتِ حمل چھ ماہ ہے، حضرت سیدنا یحیٰی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا، جس کی مدّت حمل چھ ماہ ہوئی ہو۔

مرحبا سرورِ عالم کے پسر آئے ہیں

سیّدہ فاطمہ کے لختِ جگر آئے ہیں

واہ قسمت! کہ چراغِ حرمین آئے ہیں

اے مسلمانو مبارک کہ حسین آئے ہیں

رُخسار سے انوار کا اظہار:

حضرت علامہ جامی قدس سرہ السامی مزید فرماتے ہیں:حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدّس رُخسار سے انوار نکلتے اور قُرب و جوار ضیابار ہو جاتے(یعنی روشن ہو جاتے)۔

تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

حسین کے 4 حروف کی نسبت سے امام حسین کے فضائل پرچار فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:

1۔حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔

2۔حسن و حسین رضی اللہ عنہ سے جس نے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے دشمنی کی۔

3۔حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔

4۔حسن و حسین رضی اللہ عنہما دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔

کنویں کا پانی اُبل پڑا:

حضرت سیدنا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت سیّدنا ابن مطیع رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے عرض کی: میرے کنویں میں پانی بہت کم ہے ، براہِ کرم! دعائے برکت سے نواز دیجئے، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کنویں کا پانی طلب فرمایا، جب پانی کا ڈول حاضر کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مُنہ لگا کر اس میں سے پانی نوش کیا(یعنی پیا) اور کُلّی کی، پھر ڈول کو واپس کنویں میں ڈال دیا تو کنویں کا پانی کافی بڑھ بھی گیا اور پہلے سے زیادہ میٹھا اور لذیذ بھی ہو گیا۔

باغِ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیت

تم کو مثردہ نار کا اے دُشمنانِ اہلِ بیت

سونے کے سِکّوں کی تھیلیاں:

حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص نے اپنی تنگدستی کی شکایت کی، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ، ابھی کُچھ ہی دیر گزری تھی کہ حضرت سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک ہزار دیناریعنی سونے کے سکّوں کی پانچ تھیلیاں آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں پیش کی گئیں، حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے وہ ساری رقم اس غریب آدمی کے حوالے کر دی اور اس کرم نوازی کے باوجود تاخیر پر معذرت فرمائی۔

یا شہیدِ کربلا فریاد ہے

نورِ چشمِ فاطمہ فریاد ہے

ہے میری حاجت میں طیبہ میں مروں

اے میرے حاجت روا فریاد ہے

خولی بن یزید کا درد ناک انجام:

دنیا کی محبت اور مال و زر کی ہوس انسان کو اندھا اور انجام سے بے خبر کر دیتی ہے، بدبخت خولی بن یزید نے دنیا ہی کی محبت کی وجہ سے مظلومِ کربلا کا سرِ انور تن سے جدا کیا تھا، مگر چند ہی برس کے بعد اس دنیا میں ہی اس کا ایسا خوفناک انجام ہوا کہ کلیجہ کانپ جاتا ہے، چنانچہ چند ہی برس کے بعد مختار ثقفی نے قاتلینِ امام حسین کے خلاف جو انتقامی کاروائی کی، اسی ضمن میں صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سیّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مختار نے ایک حکم دیا کہ کربلا میں جو شخص لشکرِ یزید کے سپہ سالار عمرو بن سعد کا شریک تھا، وہ جہاں پایا جائے، مار ڈالا جائے، یہ حکم سن کر کوفہ کے جفاشعار سُورما بصرہ بھاگنا شروع ہوئے، مختار کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا، جس کو جہاں پایا، ختم کر دیا، لاشیں جلا ڈالیں، گھر لُوٹ لئے، خولی بن یزید وہ خبیث ہے، جس نے حضرت امام عالی مقام سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک تنِ اقدس سے جُدا کیا تھا، یہ رُو سیاہ بھی گرفتار کرکے مختار کے پاس لایا گیا، مختار نے پہلے اس کے چاروں ہاتھ پیر کٹوائے، پھر سُولی چڑھایا، آخر آگ میں جھونک دیا، اس طرح لشکر ابنِ سعد کے تمام اشرار کو طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کیا، چھ ہزار کوفی جو حضرت امام عالی مقام کے قتل میں شریک تھے، ان کو مختار نے طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کر دیا۔

اے تشنگانِ خون جوانانِ اہل بیت دیکھا کہ تم کو ظلم کی کیسی سزا ملی

کتوں کی طرح تمہاری لاشیں سڑاکئے گھوڑے پہ بھی رکھ گور کو تمہاری جا ملی

رُسوائے خلق ہوگئے برباد ہوگئے مردودو تم کو ذلتِِ ہر دو سرا ملی

تم نے اُجاڑا حضرتِ زہرہ کا بوستاں تم خود اُجڑ گئے تمہیں یہ بد دعا ملی

دنیا پرستو! دین سے مُنہ موڑ کر تمہیں دنیا ملی نہ عیش و طرب کی ہوا ملی

آخر دکھایا رنگ شہیدوں کے خون نے سر کٹ گئے اماں نہ تمہیں اک ذرا ملی

پائی ہے کیا نعیم انہوں نے ابھی سزا دیکھیں گے وہ جحیم میں جس دم سزا ملی


شاہ ہست حسین بادشاہ ہست حسین دیں ہست حسین دیں پناہ ہست حسین

سر داد نہ داد دست در دست یزید حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین

)خواجہ اجمیری (

نواسۂ رسول ، جگر گوشۂ بتول ، امام عالی مقام ، نوجوانانِ جنت کے سردار، کربلا کے قافلہ سالار، حق و صداقت کے علم بردار، سبطِ رسول ، شیر خدا حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کے نور نظر ، سیدۃ النساء اہل الجنۃ حضرت فاطمۃ الزہراءکے لخت جگر ، حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔امام حسین کا نام پاک حسین اور کنیت ابو عبداللہ ہے اور لقب ذکی ، شہید اکبر، طیب، سبط ہیں۔امام حسین پیارے آقاصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چھوٹے نواسے تھے۔ ان کے بارے میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ حُسَيْن مِنِّي وَأَنَا مِنْ الحُسَيْن أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا یعنی 'حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے گا۔پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔"حسن اور حسین نوجوانان اہل بہشت کے سردار ہیں

(اَلْبِدایَة و النَّهایَة،فَضائِلُ الصَّحابَة، تاریخ دمشق)

جب تک دنیا قائم رہے گی امام حسین کا نام زندہ رہے گا۔ اس لئے نہیں کہ وہ نواسہ رسول ہے ، اس لئے نہیں کہ وہ جگر گوشہ بتول ہےاور اس لئے نہیں کہ وہ نور نگاہ علی ہے۔ یہ تمام سعادتیں بھی بڑی سعادتیں ہیں لیکن امام حسین کا نام اس لئے بھی زندہ رہے گا کہ آپ بے شمار خوبیوں کے حامل تھے۔ آپ بہت جرات مند اور بہادر تھے ۔امام عالی مقام سیدنا امام حسین بے حد فیاض، نہایت متقی، عبادت گزار اور کثرت کے ساتھ نیک عمل کرنے والے تھے۔ سخاوت، مہمان نوازی، غرباء پروری، اخلاق و مروت، حلم و تواضع اور صبر و تقویٰ آپ کی خصوصیات حسنہ تھیں۔عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے۔ آپ کی عبادت، زہد، سخاوت اور آپ کے کمالِ اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے- پچیس حج آپ نے پاپیادہ کیے۔ آپ نہایت ایماندار ، نیک سیرت ، اعلی اخلاق کے حامل تھے ۔ دس سال منصب امامت پر فائز رہے اور واقعہ کربلا میں شہید ہوئے۔

آپ نہ صرف صورت بلکہ سیرت مبارکہ میں بھی رسول اللہﷺ کے شبیہ تھے۔ آپ کی ذات گرامی اتنے محاسن اور محامد سے آراستہ ہے کہ نگاہیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ سیدنا امام حسین نے علم و تقویٰ کے ماحول میں آنکھ کھولی اور خانوادۂ نبوی میں پرورش پائی، اسی لئے معدنِ فضل و کمال بن گئے۔ علم کا باب تو آپ کے گھر میں کھلتا تھا اور تقویٰ کی سیدنا امام حسین کو گھٹی ملی تھی، اسی لئے فطری طور پر آپ اپنے دور میں شریعت اور طریقت کے امام تھے۔سبط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حضرت امام حسین دینی علوم کے علاوہ عرب کے مروجہ علوم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔یوں تو امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ بے شمار خوبیوں کے حامل تھے۔ آئیے چند خصوصیات کا اجمالی تذکرہ پڑھتے ہیں۔

1۔ حضرت امام حسین عبادت گذار تھے:- امام حسین ایسے عابد تھے کہ انتہائی مظلومی و بے کسی کے عالم میں بھی شب عاشورہ کی ساری رات اپنے خیمے میں عبادت الہی میں گذاری اور ایسے عابد کہ جوان بیٹے کی لاش پر گھوڑے دوڑتے دیکھ کر، مظلوم اصغر کے حلق پر تیر پیوست ہوتا دیکھ کر ، عباس کے بازو قلم ہوتے دیکھ کر ، عون و محمد کی لاش تڑپتی دیکھ کراور پھر اپنے جسم پاک پر سینکڑوں زخم کھانے کے بعد بھی میدان کربلا کی تپتی ہوئی ریت پر تہ خنجر بھی نماز ادا کر گئے۔

2۔ امام حسین بہت بہادر تھے :- حضرت امام حسین ایسے بہادر تھے کہ بے سرو سامان ہونے اور تین دن کے بھوکے پیاسے ہونے کے باوجود بھی بیس ہزار دشمنوں کے مقابلے میں صبح سے لے کر ظہر تک ڈٹے رہے اور ایسے بہادر کہ جن پر تیروں کا مینہ برسا، نیزوں کی بارش ہوئی، برچھیوں کے بادل چھائے اور تلواروں کے طوفان اٹھے مگر آپ کے پاؤں میں ذرہ بھر بھی لغزش نہ آئی اور آخری دم تک ثابت قدم رہے۔

3۔ امام حسین نہایت سخی تھے:-

امام حسین ایسے سخی تھے کہ دشت کربلا میں اللہ کی راہ میں اپنے جوان بیٹے اکبر کو قربان کیا، اپنے مظلوم بچے اصغر کو اپنی جھولی میں دم توڑتے دیکھا، اپنے بھائی کی امانت قاسم کے سر کو پائیمال کروایا ، اپنی بہن کے جگر گوشے عون و محمد کی لاشوں کو خون میں تڑپتے دیکھا۔ اپنے بھائی عباس کے بازو قلم کروائے اور پھر سب سے آخر میں اپنی جان بھی سخاوت کردی۔

4۔ امام حسین پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے نواسے تھے:-

جگرگوشۂ بتول، سیدنا حضرت امام حسین فضائل و مناقب اور سیرت و کردار کا روشن و درخشاں باب ہیں۔ متعدد احادیثِ مبارکہ آپ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ بارگاہِ رسالتﷺ میں حضرات حسنین کی عظمت و محبوبیت کا یہ عالم ہے کہ اکثر نبی مہربانﷺ آپ دونوں کے لئے دعائیں مانگتے اور لوگوں کو آپ کے ساتھ محبت رکھنے کی تاکید فرماتے۔ آپﷺ نے فرمایا:

٭… ’’حسن اور حسین، یہ میرے بیٹے، میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ! میں ان سے محبت رکھتا ہوں تو بھی انہیں اپنا محبوب بنا اور جو ان سے محبت کرے تو بھی ان سے محبت فرما‘‘۔ (ترمذی۔ مشکوٰۃ)

ایک موقع پر خاتم النبیینﷺ نے فرمایا: ’’جس نے حسن و حسین سے محبت کی،اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی اور جو ان دونوں سے بغض رکھے گا، وہ دراصل مجھ سے بغض رکھنے والا ہے‘‘۔ (البدایۃ و النہایۃ ج8 ص208)

5۔ فصاحت و بلاغت:

امام حسین علیہ السلام ایک بہترین سخنور تھے۔ آپ ایسے گھر میں پروان چڑھے کہ جہاں الٰہی فرشتے کلام خدا لے کر نازل ہوتے تھے۔ جب آپ نے انکھیں کھولیں تو سب سے پہلے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے اذان و اقامت کی صورت میں کلام وحی کو سنا۔ آپ کی معلم اور مربی آپ کی والدہ گرامی سیدہ کونین دختر رسول جناب حضرت فاطمہ زہرا تھیں اور استاد آپ کے والد بزرگوار علی مرتضیٰ تھے کہ جن کا خطابت کے میدان میں عرب و عجم میں کوئی ماں کا لال مقابلہ نہ کر پایا۔

6۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شباہت:-

حضرت امام حسین علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ شباہت رکھتے تھے۔ اصحاب نے اس بات کا ذکر امام حسین علیہ السلام کی صورت و سیرت کے سلسلے میں متعدد مرتبہ کیا ہے۔ خاص طور سے آپ کی قامت رسول اسلام سے بہت زیادہ مشابھت رکھتی تھی اور جو بھی آپ کو دیکھتا اسے رسول خدا یاد آ جاتے تھے۔


حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت میں سے ہیں،  قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا ۚ

ترجمہ کنزالعرفان:"اے نبی کے گھر والو! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب صاف ستھرا کردے۔(پارہ22، الاحزاب، آیت33)

اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی المرتضی، حضرت سیّدۃ النساء فاطمۃ الزہراء، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حق میں نازل ہوئی۔(سوانح کربلا، ص 79)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شہزادے پر آپ رضی اللہ عنہ کو ترجیح دی، جیسا کہ مروی ہے کہ ایک روز حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے دہنے زانو پر امام حسین رضی اللہ عنہ اور بائیں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حاضر ہو کر عرض کی کہ"ان دونوں کو خدا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ رکھے گا، ایک کو اختیار فرما لیجئے"، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی جدائی گوارا نہ فرمائی، تین دن کے بعد حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا، اس واقعے کے بعد جب حاضر ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوسے لیتے اور فرماتے"مرحبا بمن فدیتہ بابنی"(ایسے کو مرحبا جس پر میں نے اپنا بیٹا قربان کیا)۔(آئینہ قیامت، ص13، 14)

آپ رضی اللہ عنہ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں، چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث مبارکہ میں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔"(سوانح کربلا، ص 94)

جنتی جوانوں کا سردار فرمانے سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ راہِ خدا عزوجل میں اپنی جوانی میں راہی جنت ہوئے، حضرت امامینِ کریمین ان کے سردار ہیں۔(سوانح کربلا، ص 103)

حضوراقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کمال رافت و محبت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کے بارے میں ارشاد فرمایا:"وہ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔"(سوانح کربلا، ص 104)

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں نونہالوں کو پھول کی طرف سونگھتے اور سینہ مبارک سے لپٹاتے۔(سوانح کربلا، ص 104)

ایک حدیث شریف میں ارشاد ہوا:"جس نے ان دونوں(حضرت امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما)سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی، اس نے مجھ سے عداوت کی۔"(سوانح کربلا، ص 103)

نیز فرمایا:"حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ دوست رکھے اُسے جو حسین کو دوست رکھے، حسین سبط ہے اسباط سے۔"( آئینہ قیامت، ص 13)

آپ رضی اللہ عنہ نے راہِ حق میں پہنچنے والی تکالیف پر صبر کیا، یہاں تک کہ جامِ شہادت نوش فرمایا، لیکن باطل کے آگے سر نہ جھکایا۔

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اِسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


سلطانِ کربلا،  سیّد الشّہداء، امام عالی مقام، امام عرش مقام، حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا مبارک نام حسین، کنیت ابو عبد اللہ، آپ کی ولادت ہجرت کے چوتھے سال 5 شعبان المعظم کو مدینہ منورہ میں ہوئی، حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام حسین اور شبیر رکھا اور آپ کو اپنا بیٹا فرمایا، امام حسین رضی اللہ عنہ کی خصوصیات آپ کے القابات سے بھی خوب ظاہر ہوتی ہیں، خاص طور پر سبطِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ریحانۃ الرسول ان کے بہت ہی پیارے القابات میں سے خاص القاب ہیں۔(فضائل امام حسین، ص1ملخصاً)

ان کی خصوصیات کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے فرامین احادیث کی بہت سی مقدس کتابوں میں ملتے ہیں، خصوصیات کی نشاندہی کے ساتھ پانچ فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:

1۔جنتی جوانوں کے سردار:

"حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "حسن و حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں"(ترمذی، جلد 5، صفحہ 426) مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ جوانی میں وفات پائیں اور جنتی ہوں، حضراتِ حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما ان کے سردار ہیں، ورنہ جنت میں تو سبھی جوان ہوں گے۔(مرآۃ، جلد 8، صفحہ 475)

2۔ ریحانۃ الرسول:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں"(بخاری، جلد 2، صفحہ 3753) مفتی احمد یار خان علیہ الرحمۃ الرحمن نے اس فرمان کے تحت فرمایا کہ حسن و حسین دنیا میں جنت کے دو پھول ہیں تو مجھے(حضور صلی اللہ علیہ وسلم)کو عطا ہوئے، ان کے جسم سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔(مرآۃ، جلد 8، صفحہ 475)

3۔سبطِ رسول:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا" کہ حسین اسباط میں سے ایک سبط ہے۔"

( ترمذی، جلد 5، صفحہ 469 )

مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرحمن اس حدیث کے تحت فرمایا کہ سبط وہ درخت ہے، جس کی جڑ ایک ہو اور شاخیں بہت سی، ایسے ہی میرے حسین سے میری نسل چلے گی اور اس فرمانِ عالی کا ظہور یوں ہوا کہ حسنی سیّد کم اور حسینی سیّد بہت زیادہ ہیں۔(فضائل امام حسین، ص3)

4۔ان کا دوست حضور کا دوست:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے حسن و حسین سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے دشمنی۔"(المستدرک، جلد 4، ص 156،ح 4835)

5۔عرش کی تلوار:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ دونوں(حسنینِ کریمین) عرش کی دو تلواریں ہیں۔"(آئینہ قیامت، ص 4)

آخریہ ذات خصوصیات والی کیوں نہ ہو، آخر ان کو حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبتِ خاص حاصل تھی۔اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں امام حسین کی محبت عطا فرمائے۔آمین یا ربّ العٰلمین