امام حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت و القابات:

امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی کنیت ابو عبداللہ اور القابات سبط رسول، ریحانة الرسول، راکب دوش مصطفی ﷺ، جگر گوشہ مرتضی، دل بند فاطمہ، امام ہمام اور امام تشنہ کام ہے

امام حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل:

پہلی خصوصیت: امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنھما کو پیارے آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے پھول قرار دیا چناچہ ارشاد فرمایا کہ حسن و حسین (رضی اللہ عنھما) دنیا میں میرے دو پھول ہیں (بخاری،ج2،ص547،حدیث3753)از امام حسین کی کرامات

دوسری خصوصیت: حضور پر نور ﷺ نے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ سے ایک بار اظہار محبت کچھ ان الفاظ میں فرمایا کہ حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوں اللہ عزوجل دوست رکھے اسے جو حسین رضی اللہ عنہ کو دوست رکھے ،حسین رضی اللہ تعالی عنہ سبط ہے اسباط سے (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب المناقب ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث3800،ج5،ص429)از آئینہ قیامت

تیسری خصوصیت: آپ رضی اللہ عنہ سے انوار کا ظہور ہوتا اور کیوں نہ ہو کہ آپ رضی اللہ عنہ حضور پُرنور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے ہیں چناچہ حضرت علامہ جامی قدس سرہ فرماتے ہیں حضرت امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ رضی اللہ عنہ کی مبارک پیشانی اور دونوں رخسار ( یعنی گال) سے انوار نکلتے اور قرب و جوار ضیا بار (یعنی اطراف روشن) ہوجاتے (شواہد النبوہ،ص228)از امام حسین کی کرامات

چوتھی خصوصیت: آپ رضی اللہ عنہ کی ایک خصوصیت اور ولادت با سعادت با کرامت بیان کرتے ہوۓ حضرت عارف باللہ نور الدین عبد الرحمن جامی قدس سرہ السامی شواھد النبوة میں فرماتے ہیں :منقول ہے کہ امام پاک رضی اللہ تعالی عنہ کی مدت حمل چھ ماہ ہے . حضرت سیدنا یحیی علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ کوئی بچہ زندہ نہ رہا جسکی مدت حمل چھ ماہ ہوئی ہو (شواہد النبوہ،ص228)از امام حسین کی کرامات

واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم

پانچویں خصوصیت: آپ رضی اللہ عنہ کا ایک معجزہ ملاحظہ ہو نیز مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ مستجاب الدعوات تھے چناچہ ملاحظہ ہو امامِ عالی مقام ، امامِ عرش مقام، امامِ ہمام، امامِ تشنہ کام، حضرتِ سیِّدُنا امامِ حُسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ یومِ عاشورا یعنی بروز جمعۃُ المبارک10مُحَرَّمُ الْحَرام 61ھ کو یزیدیوں پر اِتمامِ حُجّت (یعنی اپنی دلیل مکمَّل ) کرنے کیلئے جس وَقت میدانِ کربلا میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اُس وَقت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے مظلوم قافِلے کے خیموں کی حِفاظت کیلئے خندق میں روشن کردہ آگ کی طرف دیکھ کر ایک بد زَبان یزیدی (مالک بن عُروہ ) اس طرح بکواس کرنے لگا: ’’اے حُسین ! تم نے وہاں کی آگ سے پہلے یہیں آگ لگا دی!’‘ حضرتِ سیِّدُنا امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: کَذَبْتَ یاعَدُوَّ اللّٰہ یعنی’’ اے دشمنِ خدا!تو جھوٹا ہے، کیا تجھے یہ گمان ہے کہ (مَعَاذَ اللہ ) میں دوزخ میں جاؤں گا!’‘ اِمامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے قافِلے کے ایک جاں نثار حضرتِ سیِّدُنا )مسلم بن عَوْسَجَہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)نے حضرتِ امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے اُس منہ پھٹ بد لگام کے منہ پر تیر مارنے کی اجازت طلب کی۔ حضرتِ امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے یہ فرما کر اجازت دینے سے انکار کیا کہ ہماری طرف سے حَملے کا آغاز نہیں ہو نا چاہئے ۔ پھر امامِ تشنہ کام (یعنی پیاسے امام ) رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے دستِ دُعا بُلند کر کے عرض کی:’’اے ربِّ قہّار!اس نا بکار (نا۔ بَہ۔ کار یعنی شریر )کوعذابِ نار سے قبل بھی اِس دنیائے نا پائیدار میں آگ کے عذاب میں مبتَلا فرما۔ ‘‘ فوراًدُعا مُستجاب (یعنی قبول ) ہوئی اور اُس کے گھوڑے کا پاؤں زمین کے ایک سوراخ پر پڑا جس سے گھوڑے کو جھٹکا لگا اور بے ادب و گستاخ یزیدی گھوڑے سے گرا ، اُس کا پاؤں رِکاب میں اُلجھا ، گھوڑا اُسے گھسیٹتا ہوا دوڑا اور آگ کی خندق میں ڈا ل دیا! اور بدنصیب آگ میں جل کربَھسَم ہو گیا۔ امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے سجدہ ٔ شکر ادا کیا، حمدِ اِلٰہی بجا لائے اور عرض کی: ’’یااللہ کریم! تیرا شکر ہے کہ تُو نے اٰلِ رسول کے گستاخ کو سزا دی۔ ‘‘ (سَوانِحِ کربلا ص۱۳۸ملخّصاً )از امام حسین کی کرامات

اس سے بزرگانِ دین کی شان عالی مرتبت میں گستاخیاں کرنے والوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے

اللہ عزوجل ہمیں ہمیشہ صحابہ کرام اور اہلبیت عظام اور بزرگان دین کا ادب کرنے والا بناۓ اور ان کی شان عالی میں گستاخیاں کرنے والوں کے شر سے محفوظ رکھے

اہلِ بیتِ پاک سے گستاخیاں بے باکیاں

لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ دشمنانِ اہلِ بیت