طلاق
کے خاندان پر اثرات از بنت محمد اسماعیل قادری، جامعۃ المدینہ سرجانی ٹاؤن کراچی
اسلامی قانون
میں طلاق کا مطلب ہے نکاح کے بندھن کو ختم کرنا۔ یہ لفظ عربی میں گرہ کھولنے کے
معنی رکھتا ہے۔ فقہا کے مطابق طلاق کا مطلب ہے نکاح کو مخصوص الفاظ کے ذریعے ختم
کرنا۔ اسلام میں طلاق ایک جائز مگر ناپسندیدہ عمل ہے، جسے صرف آخری حل کے طور پر
اختیار کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ شریعت نے نکاح کو مضبوط بندھن قرار دیا ہے اور
طلاق کو اس بندھن کو توڑنے کا آخری راستہ سمجھا جاتا ہے۔
طلاق ایک
سنجیدہ معاملہ ہے جو پورے خاندان پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: اللہ کی بارگاہ میں سب سے ناپسندیدہ حلال کام طلاق دینا ہے۔ (ابو
داود،2/370، حدیث:2178)یہ حدیث طلاق کے جواز کو تسلیم کرتی ہے، لیکن اس کی
ناپسندیدگی کو بھی واضح کرتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق طلاق سے پہلے مصالحت کی
ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے جیسے کہ خاندان کے بزرگوں کی مداخلت اور باہمی
گفتگووغیرہ تاکہ خاندان تباہ ہونے سے بچ جائیں اور اس کا بیان قرآن مجید میں بھی
موجود ہے۔ جیسا کہ سورۃ النسا آیت نمبر 35 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ اِنْ خِفْتُمْ
شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ
اَهْلِهَاۚ-اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ
كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا(۳۵)ترجمہ کنز العرفان: اور اگر تم کو میاں
بیوی کے جھگڑے کا خوف ہو تو ایک منصف مرد کے گھروالوں کی طرف سے بھیجو اور ایک
منصف عورت کے گھروالوں کی طرف سے (بھیجو) یہ دونوں اگر صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ
ان کے درمیان اتفاق پیدا کردے گا۔ بیشک اللہ خوب جاننے والا،خبردار ہے۔
نیز یہ کہ آج
کل عورتیں اعلیٰ قسم کا کھانا نہ ملنے پر، میک اپ کا سامان نہ ملنے پر، رشتے داروں
کے ہاں جانے کی اجازت نہ ملنے پر، مشترکہ گھر میں جدا کمرہ ملنے کے باوجود علیحدہ
گھر کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر اور اسی قسم کی دیگر معمولی معمولی باتوں پر طلاق
کا مطالبہ کرتی ہیں یہ ناجائز و گناہ ہے اور ایسی عورتوں کی مذمت احادیث مبارکہ
میں بھی کی گئی: چنانچہ حدیث مبارک میں ہے: جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر شدید
ضرورت کے طلاق کا مطالبہ کیا اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (ترمذی، 2/402، حديث:1190)
اور ایسے ہی
وہ ماں باپ اور بہن بھائی اور دیگر رشتے دار جو عورت کو مذکورہ وجوہات کی بنا پر
طلاق لینے پر ابھارتے ہیں اور شوہر کو دھمکاتے اور اس سے طلاق کا مطالبہ کرتے ہیں
اور عورت کو جبراً گھر (میکے ) میں بٹھالیتے ہیں وہ سب بھی اس گناہ اور وعید میں
شریک ہیں اور بعض احادیث میں بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورتوں کو منافقہ
قرار دیا ہے۔ (طلاق کے آسان مسائل، ص 10، 11)
طلاق
کے منفی اثرات: خاندان
کے مختلف افراد پر طلاق کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
بچوں
پر ہونے والے منفی اثرات: بعض و اوقات طلاق کی بناء پر بچوں کا
والدین سےرابطہ بھی کم ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بچوں کے لیے طلاق ایک جذباتی صدمہ
بن جاتی ہے۔ وہ الجھن غصہ، خوف اور افسردگی جیسے جذبات محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہ
جذبات بعض اوقات تعلیمی کارکردگی میں کمی اور سماجی تنہائی کی صورت میں بھی ظاہر
ہوتے ہیں۔ والدین کی طلاق کے بعد بچوں کے تعلقات خاندان کے دیگر افراد جیسے دادا،
دادی چچا اور خالہ کے ساتھ بھی متاثر ہو سکتے ہیں، جس سے خاندان کی مجموعی ہم
آہنگی میں کمی آتی ہے۔اور یوں سب کے دل ایک دوسرے کیلئے بد گمانی کا شکار رہتے ہیں
زوجین(میاں
بیوی ) پر ہونے والے منفی اثرات: طلاق ان کی جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی
حالت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ ایسے افراد کو بہت سے
جسمانی و نفسیاتی مسائل لاحق ہو جاتے ہیں جو کہ ان کی بچوں کے ساتھ تعلقات پر بھی
اثرانداز ہوتے ہیں۔
طلاق
کے خاندان کے دیگر افراد پر منفی اثرات: اگر یہ شادی رشتہ داروں میں
ہوئی ہو تو پورے پورے خاندان اجڑ جاتے ہیں، ایک دوسرے پر جاں لٹانے والے ایک دوسرے
کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے اور اگر پہلے سے دشتہ دار نہ بھی ہوں تب بھی
طلاق بہت سی برائیوں کی جڑ بنتی ہے کہ دونوں کہ خاندان والے اپنے اپنے رفیق کو
درست ثابت کرنے کیلئے جھوٹ ٫بہتان تراشی جیسے بہت سے گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں
اور بعض و اوقات بیچارے بوڑھے والدین اس سبب سے اپنے بچوں کی فکر میں بے حال ہو
جاتے ہیں اور ان کی یہ پریشانی انہیں ہر وقت بے چین رکھتی ہے۔
اسی لیے بہتر
ہے کہ یہ فیصلہ لینے سے پہلے صلح کی ہر ممکن کوشش کرلی جائے۔ لہذا پیاری اسلامی
بہنو! ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر صبر و برداشت پیدا کریں تاکہ بہت سے خاندانوں کے
سر سبز و شاداب باغ اجڑنے سے بچ جائیں اور ہم اللہ پاک و رسول ﷺ کی ناراضگی سے خود
کو بچا سکیں۔
اللہ پاک ہمیں
دین کے معاملات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔