پیارے آقا ﷺ کے لڑکپن اور جوانی کے زمانے کی طرح آپ کا بچپن شریف کا زمانہ بھی نہایت ہی خوبصورت اور آپ کی لاجواب اداؤں سے مزین تھا۔آپ جس طرح اپنے اہل بیت کرام سے محبت فرمایا کرتے تھے اسی طرح آپ اپنی رضاعی ماؤں سے بھی بہت زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے۔آپ کو جن مشہور خوش نصیب خواتین نے دودھ پلایا ان کے مبارک نام یہ ہیں: آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا، حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا۔جن جن عورتوں کو پیارے آقا ﷺ کو دودھ پلانے کا شرف نصیب ہوا ان تمام عورتوں کو دولت ایمان نصیب ہوئی۔(آخری نبی کی پیاری سیرت، 17)

پیارے آقا ﷺ کو حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کو سپرد کرنےکی وجہ:مکہ کے معزز لوگوں کا یہ رواج تھا کہ وہ اپنے بچوں کو ماں کی گود میں پلتا دیکھنے کے بجائے صحرا میں رہنے والےقبیلوں کے پاس بچپن گزارنے کے لیے بھیجتے، اس کی وجہ یہ تھی کہ دیہات کی خالص غذائیں کھا کر بچوں کے اعضا اور جسم مضبوط ہوں اور ان کی خالص عربی سیکھ کر وہ بھی اس کی فصاحت و بلاغت سے کلام کرنے والے بن جائیں اسی وجہ سے آخری نبی ﷺ کو حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے سپرد کردیا گیا۔

نبی کریم ﷺ کی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا سے محبت:جب حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ﷺ ان کا ادب و احترام فرماتے اور محبت سے پیش آتے۔ایک مرتبہ غزوۂ حنین کے موقع پر حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا محبوب خدا ﷺ سے ملنے آئیں تو آپ نے ان کے لیے چادر بچھائی۔( الاستیعاب، 4 / 374)

اسی طرح ایک مرتبہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا پیارے آقا ﷺ کے پاس آئیں اور قحط سالی کا بتایا تو نبی ﷺ کے کہنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حلیمہ کو ایک اونٹ اور 40 بکریاں دیں۔

( الحدائق لابن الجوزی، 1 / 169)

ایک مرتبہ پیارے آقا ﷺ ایک کپڑا بچھائےہوئے تشریف فرماتھے کہ آپ کے رضاعی باپ حاضر ہوئے آپ نے ان کے لیے کپڑے کا کچھ حصہ چھوڑدیا، اس کے بعد حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا حاضر ہوئیں تو آپ نے ان کے لیے چادر کا دوسرا کنارہ چھوڑدیا اور آپ اس پر بیٹھ گئیں، اس کے بعد آپ کے رضاعی بھائی پہنچے تو آپ کھڑے ہوگئے اور آپ ان کے سامنے تشریف فرما ہوئے۔(سیرت حلبیہ، 1/130)

حضور ﷺ کی رضاعی والدہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا:بعض اہل علم کے نزدیک حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا بھی ان خوش نصیب عورتوں میں شامل ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ کی رضاعی ماں ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ حضور ﷺ کے والد ماجد حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی لونڈی تھی جنہیں سرکار ﷺ نے بعد میں آزاد کردیا تھا۔حضور ﷺ ان کا بہت خیال رکھتے تھے اور ان کی شفقت و محبت دیکھ کر اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میری سگی امی جان کے بعد ام ایمن میری ماں ہیں۔(مواہب لدنیہ،1/428ملخصاً)

آقا ﷺ کی اپنی  حقیقی والدہ بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا سے جہاں محبت کی مثالیں ملتی ہیں وہیں آپ کی رضاعی ماؤں ( جنہوں نے مدت رضاعت کے اندر اپنا دودھ پلایا) سے محبت کی مثالیں ملتی ہیں ۔

حضور ﷺ نے فرمایا:میں حسنِ اخلاق کے( قدروں) کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔(مؤطاامام مالک، ،2/404، حدیث:1723)

پیارے نبی ﷺ کی زندگی رہتی دنیا کے لیے بہترین نمونہ ہے۔جب آخری نبی ﷺ کی ولادت ہوئی تو سب سے پہلے آپ کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو دودھ پلایا، ان کے علاوہ جن خواتین کو شرف حاصل ہوا وہ آپ کی رضاعی ماں کے لقب سے مشرف ہوئیں۔آقا ﷺ کی ان سے کیسی محبت تھی اس بارے میں جانتی ہیں۔

ام ایمن:آپ رضی اللہ عنہا حضرت عبداللہ بن عبد المطلب کی کنیز تھیں جو وراثت میں آپ کے حصے میں آئیں انہوں نے ولادت کے بعد ساری زندگی آپ کی خدمت میں گزار دی۔آقا ﷺ نے فرمایا:ام ایمن میری سگی ماں کے بعد میری ماں ہیں۔(مواہب لدنیہ ، 1 / 428)

حضرت ثویبہ:آپ رضی اللہ عنہا ابو لہب کی کنیز تھیں جن کو آپ کی ولادت کی خوشخبری دینے کی وجہ سے آزاد کردیا گیا تھا۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے بعد انہوں نے آپ کو اپنا دودھ پلایا ۔حضور ﷺ حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہمیشہ کپڑا وغیرہ بھیجا کرتے تھے۔( الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، 1/ 126تا 128)

حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا سے نکاح سے بعد جب حضرت ثویبہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضور ﷺان کا بہت احترام فرماتے اور مدینے سے حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کے لیے کپڑے وغیرہ کا ہدیہ بھیجا کرتے تھے ۔(الکامل فی التاریخ ،1/356)

حضرت حلیمہ سعدیہ :مدت رضاعت میں جنہوں نے پیارے نبی ﷺ کو دودھ پلایا ان میں آپ سر فہرست ہیں ۔حضرت حلیمہ رضی اللہُ عنہا جب بھی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کا ادب و احترام فرماتے اور محبت سے پیش آتے۔چنانچہ غزوۂ حنین کے موقع پر جب آپ آقا ﷺ سے ملنے آئیں تو آپ نے ان کے لیے اپنی چادر بچھائی۔( الاستعاب ، 4/347)

ایک مرتبہ آپ تاجدار رسالت ﷺ کے پاس آئیں اور قحط سالی کا بتایا تو نبی کریم ﷺ کے کہنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کو ایک اونٹ 40 بکریاں دیں۔( الحدائق لابن الجوزی، 1/169)

حضور اکرم ﷺ اپنی رضاعی ماؤں سے بہت ہی محبت فرماتے تھے اور ان کا نہایت ادب واحترام فرماتے تھے۔حضور اکرم ﷺ کو 6 خوش نصیب خواتین نے دودھ پلایا ان تمام خواتین کو دولت ایمان اور صحابیات کا شرف حاصل ہوا۔حضور اکرم ﷺ کو سب سے پہلے حضرت ثویبہ رضی اللہ  عنہا (جو کہ ابو لہب کی لونڈی تھی)دودھ پلایا،حضور اکرم ﷺ ان سے بہت ہی محبت فرماتے تھے۔حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا سے جب حضور اکرم ﷺ نے نکاح کر لیا تو حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ کے پاس آ یا کرتی تھی،آپ ان کا احترام فرماتے تھے اور مدینہ منورہ سے حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کے لئے تحائف وغیرہ بھیجا کرتے تھے۔ (الکامل فی التاریخ ،1/356)

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے سب سے زیادہ عرصہ حضور اکرم ﷺ کو دودھ پلایا۔حضور اکرم ﷺ نے اپنے بچپن کے چار سال حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر گزارے۔حضور اکرم ﷺ ان سے بہت محبت اور احترام فرماتے تھے۔جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو تی تو آپ ان کا ادب و احترام فرماتے اور محبت سے پیش آتے۔چنانچہ

ایک مرتبہ غزوۂ حنین کے موقع پر جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ سے ملنے آئیں تو آپ نے ان کے لئے اپنی چادر بچھائی۔(الاستیعاب،4/324)ایک مرتبہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ کے پاس آئی اور قحط سالی کا بتایا تو حضور اکرم ﷺ کے کہنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کو 1 اونٹ اور 40 بکریاں دیں۔(الحدائق لابن الجوزی، 1/169)

بی بی ام ایمن حضور اکرم ﷺ کے والد ماجد کی کنیز اور حضور ﷺ کی رضاعی والدہ تھیں۔حضور ﷺ فرماتے ہیں:ام ایمن میری سگی ماں کے بعد میری ماں ہیں۔(مواہب لدنیہ،1/428ملخصاً)آپ نے حضور اکرم ﷺ کی تبلیغ سے ابتدا ہی اسلام قبول کر لیا تھا نیز آپ نے پہلے حبشہ پھر مدینہ ہجرت کی۔(اسدالغابہ، 7/325)

حضور اکرم ﷺ اپنی تینوں رضاعی ماؤں سے بہت محبت فرماتے اور ان کا نہایت ہی احترام فرماتے۔ان کے علاوہ تین کنواری لڑکیوں نے حضور اکرم ﷺ کو دودھ پلایا جو عاتقہ کہلاتی ہیں۔چنانچہ سرکار اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:تین نوجوان کنواری لڑکیوں نے وہ خدا بھائی صورت دیکھی جو شِ محبت سے اپنی پستانیں دہن اقد س میں رکھیں،تینوں کے دودھ اترآیا ، تینوں پاکیزہ بیبیوں کا نام عاتکہ تھا۔عاتکہ کے معنی زن شریفہ،رئیسہ،کریمہ،سراپا عطرآلود، تینوں قبیلہ بنی سلیم سے تھیں کہ سلامت سے مشتق اور اسلام سے ہم اشتقاق ہے۔(فتاویٰ رضویہ،30/295)

آپ نے پڑھا کہ حضور اکرم ﷺ اپنی رضاعی ماؤں سے اتنی زیادہ محبت فرماتے اور ادب و احترام فرمایا کرتے۔تو ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے والدین سے محبت کرکے اور ان کا ادب و احترام کر کے حضور اکرم ﷺ کی سنت پر عمل کیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے والدین کا فرمانبردار بنائے اور حضور اکرم ﷺ کی سیرت پر عمل کرنے والی بنادے ۔اٰمین بجاہِ النبی الامین ﷺ

آقا کریم ﷺ کی ولادت کے بعد سب سے پہلے آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی آمنہ رضی الله عنہا  نے اپنے نورِ نظر اور لختِ جگر کو دودھ پلایا،پھر ابولہب کی آزاد کرده کنیز حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو دودھ پلانے کا شرف حاصل کیا۔جن خوش قسمت خواتین نے آپ کو دودھ پلایا انہیں یہ انعام ملا کر انہیں ایمان کی دولت نصیب ہوئی۔حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حق یہ ہے کہ حضرت ثویبہ اور حضرت حلیمہ اسی طرح حضرت حلیمہ کے خاوند مسلمان ہوگئے۔(مراۃ المناجیح،6/534)

حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا: بی بی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے جب حضور ﷺ نے نکاح کر لیا تو حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہما آپ کے پاس آیا کرتی تھیں۔حضور ﷺ ان کا بہت احترام فرماتے تھے اور مدینہ منورہ سے حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کے لیے کپڑے وغیرہ ہدیا بھیجا کرتے تھے۔(مراۃ المناجیح،6/ 534)

حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا:جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کا ادب و احترام فرماتے اور محبت سے پیش آتے۔چنانچہ غزوۂ حنین کے موقع پر جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ سے ملنے آئیں تو آپ نے ان کے لئے اپنی چادر بچھائی۔(الاستیعاب، 4/ 374)

ابو طفیل غنوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اسی مقام پر حضور ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی، پس نبی کریم ﷺ نےاپنی چادر مبارک بچھا دی اور وہ عورت اس چادر پر بیٹھ گئی۔ابو طفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حاضرین سے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ سرکار دو عالمﷺ کو دودھ پلانے والی (دائی حلیمہ) ہے۔(ابو داود،4/434،حدیث:5144)

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضور ﷺ کے یہ دونوں عمل اظہار احترام واظہار کے لئے تھے۔معلوم ہوا!قیام تعظیمی جائز ہے اور انسان خواہ کتنا ہی عظمت والا ہو مگر اپنے مربی یعنی (تربیت کرنے والے) کا احترام کرے۔(مراۃ المناجیح،5/51)

ایک مرتبہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کے پاس آئیں اور قحط سالی کی شکایت تو نبی کریم ﷺ کے کہنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کو 2 اونٹ اور 40 بکریاں دیں۔(الحدائق لابن جوزی، 1/149)

حضرت بی بی ام ایمن رضی اللہ عنہا:حضرت ام ایمن ربیعہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا وہ خوش نصیب خاتون ہیں جنہوں نے رسول اکرم ﷺ کی ولادت کے بعد اپنی ساری زندگی آپ کی خدمت میں گزار دی۔آپ حضور ﷺ کی رضائی والدہ بھی تھی۔حضور ﷺ فرماتے ہیں:ام ایمن میری سگی ماں کے بعد میری ماں ہیں۔(مواہب لدنیۃ ، 1/ 428 ملخصاً)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ اپنی رضاعی ماؤں کا بھی کسی قدر ادب کیا کرتے تھے۔ جب دودھ پلانے والی دائی کا یہ ادب ہے تو سگی ماں کا ادب احترام کیا ہو گا!لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنے والدین ، چاہے وہ سگے سوتیلے یا رضاعی ہوں ان کا دل و جان سے ادب کریں ،ان کی ضروریات کا خیال رکھیں،ان سے اچھے لہجے میں بات کریں،ان کے جذبات کا خیال رکھیں،ان کو تکلیف دینے سے بچیں،ان کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کریں،ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں،ان کی بات کو تو جہ سے سنیں،ان کا ہر جائز حکم مانیں۔ الغرض جب تک کوئی مانع شرعی نہ ہو ماں باپ کےحقوق ادا کریں۔

دینِ اسلام اپنے ماننے والوں کو اور جن کے ساتھ ہمارا تعلق وابستہ ہے ان کے ساتھ اچھا اور محبت  بھرا انداز رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے اور خصوصاً اپنے رشتہ داری کے تعلق کو قائم رکھنے کا درس دیتا ہے ۔اسی رشتے میں ایک رشتہ رضاعی ماں کا بھی ہے یعنی وہ عورت جس نے مدتِ رضاعت میں کسی بچے کو دودھ پلایا ہو تو وہ عورت اس بچے کی رضاعی ماں کہلاتی ہے۔دیگر رشتہ داروں کی طرح رضاعی ماں کو بھی اہمیت حاصل ہے اور اس کے حقوق بیان کیے جاتے ہیں۔اگر بات کی جائے حضور ﷺ کی ماؤں کی تو ان میں سب سے پہلی خاتون جن کو پیارے آقا ﷺ کو دودھ پلانے کی سعادت حاصل ہوئی وہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا ہیں۔جنہوں نے ابتدائی ایام میں حضور ﷺ کو دودھ پلایا۔ان کے بعد حضور ﷺ کو دودھ پلانے کی سعادت ابو لہب کی آزاد کردہ لونڈی حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کو ملی اور ان کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے یہ خدمت سر انجام دی۔(سیرتِ رسولِ عربی،ص59)جن مبارک ہستیوں نے حضور اکرم ﷺ کو دودھ پلایا ان میں ایک نام حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کا بھی ملتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 30/296مفہوماً)

رسولِ اکرم ﷺ کو جتنی بھی خواتین نے دودھ پلایا ان کے ایمان کے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ سب ایمان لائیں ۔(فتاویٰ رضویہ،30/295)

حضور ﷺ کا انداز کریمانہ جہاں اپنی ازواجِ مطہرات، اولاد پاک، غلاموں اور دیگر صحابہ کرام کے ساتھ قابل رشک و بے مثال تھا وہیں آپ کا مبارک انداز اپنی رضاعی ماؤں کے ساتھ بھی لاجواب تھا ۔اس کا اندازہ ذیل کی گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے۔چنانچہ

حضور اقدس ﷺ کی حقیقی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کا انتقال اس وقت ہوا جب آپ کی عمر شریف چھ سال کی ہوئی۔(سیرتِ رسولِ عربی،ص62) چونکہ آقا ﷺ نے اپنی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی حیات کا زیادہ عرصہ نہ پایا تھا اس لیے جب ایک موقع پر آقا ﷺ اپنی والدہ کی قبر پر تشریف لے گئے تو رونے لگے۔صحابہ کرام نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا: مجھے اپنی والدہ کی شفقت و مہربانی یاد آگئی تو میں روپڑا۔(سیرۃ حلبیہ،1/154)

آقا ﷺ کی رضاعی والدہ حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ جب حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کا بہت ادب و احترام فرماتے اور مدینہ منورہ سے ان کے لیے تحائف بھیجا کرتے تھے۔(الکامل فی التاریخ ،1/356)

اسی طرح حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہے کہ جب یہ پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کا ادب و احترام فرماتے اور ان سے محبت بھرا برتاؤ کرتے۔ایک مرتبہ ان کے آنے پر حضور ﷺ نے ان کے لیے اپنی مبارک بچھا دی۔ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر قحط سالی کی شکایت کی تو نبی کریم ﷺ کے کہنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں 1 اونٹ اور 40بکریاں دی۔(الحدائق لابن جوزی،1/169)

حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا سے آقا ﷺ کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے ان کے بارے میں فرمایا:اُمُّ اَیْمَن اُمِّی بَعْدَ اُمِّی یعنی اُمِّ اَیمَن میری سگی ماں کے بعد میری ماں ہیں۔(مواہب لدنیہ،1/428 ملخصاً)

ایک موقع پر آپ کو جنتی ہونے کی بشارت یوں عطا فرمائی کہ جو کسی جنّتی خاتون سے نکاح کرنا چاہتا ہے وہ اُمِّ اَیمَن سے نکاح کرلے۔(الاصابہ،8/359)

حضور ﷺ کا اپنی ماؤں کے ساتھ یہ محبت بھرا انداز اپنے اندر ہمارے لیے درس کے بے شمار پہلو رکھتا ہے۔ آقا ﷺ کی حیات طیبہ کے اس پہلو سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں بھی اپنے بڑوں کا خصوصاً والدین کا ادب و احترام کرنا چاہیے اور ان کے آنے پر تعظیما کھڑے ہو جانا چاہئے۔ آقا ﷺ کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے کبھی والدین کے لیے ہم بھی اپنی چادر بچھا دیں، ان کے سامنے اونچی آواز سے کلام نہ کریں ۔نیز ان کی وفات کے بعد بھی ان کو یاد رکھیں اور ان کو خوب ایصال ثواب کرتی رہیں۔اللہ پاک حضور ﷺ کی ماؤں کے صدقے ہمیں اپنی ماؤں کی محبت اور ان کی قدر نصیب فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


ماں درحقیقت دنیا میں محبتِ الٰہی کا ایک روپ ہے۔چنانچہ سورۂ لقمان میں ارشاد ہوتا ہے:وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(۱۴)(پ21،لقمن:14)ترجمہ:اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اُس کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھی تک آنا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے نہ صرف ہمیں والدین کی خدمت کے احکام بتائے بلکہ عملی زندگی میں آپ نے کر کے دکھایا ۔چنانچہ رسولِ پاک ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے بعد پہلے آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے اپنے لخت جگر کو خود دودھ پلایا اس کے بعد کچھ مدت کے لیے کنیز ثویبہ رضی اللہ عنہا نے اس کے بعد یہ خدمت سر انجام دی۔در اصل مکہ کے شرفا میں رواج تھا کہ وہ اپنے شیر خواہ بچے کو کچھ عرصے کے لیے گاؤں میں رکھنا پسند فرماتے تاکہ شہر کی آلودہ ماحول سے دور صاف ستھری فضا میں بچوں کی صحت خوشگوار رہے۔

حضور ﷺ کی رضائی ماؤں میں یہ خواتین شامل ہیں:

1- حلیمہ سعدیہ

2-ام فروہ

3-بی بی ثوبیہ

4- بنو سلیم کی دو خواتین۔(آخری نبی کی پیاری سیرت،ص137)

رضائی ماں کا احترام:جعرانہ مکہ مکرمہ سے ایک منزل کے فاصلے پر ایک بستی ہے جہاں حضور ﷺ فتحِ حنین کے بعد 16 دن قیام پذیر رہے اور مالِ غنیمت تقسیم فرماتے رہے۔

ابو طفیل غنوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اسی مقام پر حضور ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی، پس نبی کریم ﷺ نےاپنی چادر مبارک بچھا دی اور وہ عورت اس چادر پر بیٹھ گئی۔ابو طفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حاضرین سے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ سرکار دو عالمﷺ کو دودھ پلانے والی (دائی حلیمہ) ہے۔(ابو داود،4/434،حدیث:5144)

معلوم ہوا!حضور ﷺ نے ماں کی خدمت کی صرف ترغیب ہی نہیں دی بلکہ عملی نمونہ بھی پیش فرمایا۔جب رضائی ماں کا اس قدر احترام ہے تو حقیقی ماں کی شان کا عالم کیا ہوگا!