حضور ﷺ کی اپنے نواسوں سے محبت از ام
ہانی،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ
.png)
رسول اللہﷺ اپنے اہلِ بیت کے ساتھ ساتھ اپنے نواسوں سے بھی
بہت محبت فرماتے تھے۔نواسہ: بیٹی کے بیٹے کو نواسہ کہتے ہیں۔آقا کریم ﷺ کے پانچ
نواسے ہیں اور ان کے نام درج ذیل ہیں:
1 -حضرت علی بن ابو العاص
2 -حضرت عبداللہ بن
عثمان
3 -حضرت حسن بن علی
4 -حضرت حسین بن علی
5 -حضرت محسن بن علی۔
حضرت علی ابن ابو العاص: آپ کا اسم گرامی علی اور لقب سبط الرسول تھا۔آپ ابو العاص بن ربیع اور زینب
بنتِ محمد رسول اللہﷺ کے صاحبزادے اور امامہ بنتِ ابی العاص کے بھائی تھے۔آپ ہجرتِ
مدینہ سے قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے۔
رسول اللہﷺ کے زیر کفالت:رضاعت کی مدت پوری ہونے کے بعد رسول اللہﷺ نے اپنے نواسے کو اپنے زیر کفالت لے لیا تھا کیونکہ ان کے باپ ابو العاص بن
ربیع اس وقت مکہ میں مقیم تھے اور اسلام قبول نہیں کیا تھا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو
شریک ہو میری اولاد میں تو مجھ کو اس پر اس سے زیادہ حق ہے (یعنی میری دختری اولاد
پر ان کے والد سے زیادہ مجھ کو اختیار ہے) اور جو کافر کسی مسلمان کا کسی چیز میں
شریک ہو تو مسلمان اس سے زیادہ کا حق دار ہے۔ ابو العاص بن ربیع جب غزوۂ بدر میں
گرفتار ہوئے تو اس شرط پر رہا ہوئے کہ وہ اپنی بیوی کو مدینہ بھیج دیں گے۔چنانچہ انہوں
نے رہائی کے بعد زینب بنتِ رسول اللہ اور ان کے دونوں بچوں (علی بن ابو العاص اور
امامہ بنت ابو العاص) کو بھی ساتھ بھیج دیا۔رسول اللہﷺ نے اپنے نواسے کی تربیت اور پرورش خود فرمائی۔(اسد
الغابہ،2/626)
ہم رکاب رسول:الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں ہے:رسول اللہﷺ نے فتحِ مکہ کے روز اپنی سواری پر علی بن ابو
العاص کو اپنے پیچھے سوار کیا تھا ،رسول اللہﷺ مکہ میں داخل ہوئے اور علی بن ابو العاص آپ کے ردیف تھے۔
عبداللہ
بن عثمان:آپ کا نام عبد اللہ والد ماجد کا نام عثمان بن عفان اور والدہ
ماجدہ کا نام رقیہ بنت محمد ہے۔ آپ کے والد ماجد کی کنیت ابو عبد اللہ آپ کے نام
پر ہے۔مصعب زبیری نے کہا کہ جب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے
حبشہ کی طرف ہجرت کی تو آپ کے ساتھ آپ کی زوجہ حضرت رقیہ بنتِ رسول اللہ بھی تھیں۔سرزمینِ
حبشہ میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام عبد اللہ رکھا گیا۔حضرت عبد اللہ چھ سال کے
ہوئے تو ایک مرغ نے آپ کی آنکھ میں چونچ مار دی جس کی وجہ سے آپ بیمار ہو گئے۔جمادی
الاخریٰ چار ہجری میں آپ نے وفات پائی۔رسول اللہ ﷺ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور
آپ کی قبر میں آپ کے والد ماجد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اترے۔(طبقات
ابن سعد،2/131)
حضرت امام حسن:حضرتِ سیّدہ فاطمۃُالزّہراء رضیَ
اللہُ عنہا کے گلشن کے مہکتے پھول،اپنے نانا جان ،رحمتِ
عالمیان ﷺ کی آنکھوں کے نور ، راکبِ دوشِ مصطفےٰ ،مصطفےٰ
جانِ رحمت ﷺ کے مبارک کندھوں پر سواری کرنے والے،سردارِ
امّت،حضرت امام حَسَن مجتبیٰ رضیَ اللہُ عنہُ کی ولادتِ باسعادت 15رمضان المبارک 3ہجری کو مدینہ طیبہ میں ہوئی۔(البدايۃوالنہایہ، 5/519)
نام،القابات اورکنیت:آپ کا نام حسن، کنیت ابو محمد اور
لقب سبطِ رسول اللہ(رَسُولُ اللہﷺکا نَواسہ) اوررَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل(رَسُولُ اللہ ﷺ کا
پھول)ہے۔(تاریخ الخلفاء، ص149)
مبارك تحنیک (گھُٹی):نبیِ اکرم ﷺ نے آپ کے کان میں اذان کہی۔(معجم کبیر،1/313، حدیث: 926) اور
اپنے لعابِ دہن سے گھٹی دی۔(البدايۃ والنہایہ، 5/519)
شہد
خوارِ لعابِ زبانِ نبی چاشنی
گیر عصمت پہ لاکھوں سلام
ہم شکلِ مصطفیٰ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ امام حسن رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر
رسولِ کریم ﷺ سے ملتا جلتا کوئی بھی شخص نہ تھا۔(بُخاری،2/547،حدیث: 3752)
شفقتِ مصطفیٰ مرحبا مرحبا:نبیِّ رحمت،شفیعِ اُمّت ﷺ کو امام حسن
مجتبیٰ رضی اللہ عنہ سے بہت محبت تھی۔ آپ ﷺ حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ
کوکبھی آغوشِ شفقت (یعنی مبارک گود )میں اُٹھاتے تو کبھی دوشِ اقدس(یعنی مبارک
کندھوں) پر سوار کئے ہوئے گھر شریف سے باہَر تشریف لاتے، کبھی آپ رضی اللہ عنہ کو
دیکھنے اور پیار کرنے کے لئے سیّدہ فاطِمہ رضی اللہ عنہا کے گھر شریف پر تشریف لے
جاتے، حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ بھی
آپ ﷺ سے بے حد مانوس ہو(یعنی ہِل)گئے تھے کہ کبھی نماز کی حالت میں مبارَک پیٹھ
پر سُوار ہو جاتے تھے۔
راکبِ دَوشِ مصطفیٰ: ایک مرتبہ حضور پاکﷺ حضرت امامِ حسن
مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو شانۂ اقدس (یعنی مبارک کندھے) پرسُوار کئے ہوئے تھے تو ایک
صاحِب نے عرض کی:نِعْمَ الْمَرْکَبُ رَکِبْتَ یَا غُلَام یعنی صاحبزادے !آپ کی سواری توبڑی اچھی ہے۔رسولِ اکرم ﷺ
نے فرمایا:وَنِعْمَ الرَّاکِبُ ہُوَیعنی سواربھی تو کیسا اچھا ہے! (ترمذی،5/432،حدیث:3809)
وہ
حسن مجتبیٰ، سیّد الاسخیا راکِبِ دوشِ عزت پہ لاکھوں سلام
(حدائق بخشش، ص309)
یہ میرا پھول ہے: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ نبی کریم ﷺ ہمیں نماز پڑھا رہے تھے کہ
حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما جو ابھی چھوٹے سے تھے تشریف لائے۔جب بھی رسول
اللہﷺ سجدہ فرماتےحضرت امام حسن مجتبیٰ رضی
اللہ عنہ سرکارِ مدینہ ﷺ کی گردن شریف اور پیٹھ مبارک پر بیٹھ جاتے۔آپﷺ نہایت
آرام سے اپنا سرِ اقدس سجدے سے اٹھاتے اور انہیں شَفقَت سے اُتارتے۔جب نماز مکمَّل
کرلی تو صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارَسُول اللہ ﷺ! اس بچے سے آپ اس
انداز سے پیش آتے ہیں کہ کسی اور سے ایسا سُلوک نہیں فرماتے؟ارشاد فرمایا:یہ دنیا
میں میرا پھول ہے۔
(مسند بزار،9/111، حدیث:3657 ملخصاً)
اُن دو کا صدقہ جن کو کہا
میرے پُھول ہیں
کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل
(حدائق بخشش، ص77)
میرا یہ بیٹا سردار ہے:حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سرکارِ نامدار،مدینے
کے تاجدار ﷺ منبر پر جلوہ گر تھے اور امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ ﷺ کے
پہلو(یعنی برابر) میں تھے۔نبی کریم ﷺ کبھی
لوگوں کی طرف توجُّہ کرتے اورکبھی امام حسن رضی اللہ عنہ کی طرف نظر فرماتے، آپ ﷺ
نے ارشاد فرمایا:میرا یہ بیٹا سیِّد(یعنی سردار) ہے، اللہ پاک اس کی بدولت مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں
صلح فرمائے گا۔ (بخاری،2 /214،حدیث: 2704 )
اے اللہ!میں اس سے محبت کرتا ہوں:حضرت بَراء بن عازِب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے
سَرْوَر ﷺ امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما
کو کندھے پر اُٹھائے ہوئے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کررہے ہیں:اَللّٰہمَّ اِنِّی اُحِبُّہٗ فَاَحِبَّہٗ یعنی اے اللہ پاک!میں اس سے محبت
کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔(ترمذی، 5 / 432 ،حدیث: 3808 )
یا
حسن! اپنی محبت دیجئے! عشق
میں اپنے ہمیں گُم کیجئے
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ:حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کی ولادت 5 شعبانُ المعظم 4 ہجری کو حضرت علی رضی اللہُ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا کے
گھر مدینۂ منورہ میں ہوئی۔آپ کا اسمِ مبارک حسین رکھا گیا۔آپ کی کُنْیت ابو عبدُاللہ اورآپ کے ا لقاب سِبطُ رَسُولِ اللہِ(یعنی رسولِ خداﷺ کے نواسے) اور رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل(یعنی رسولِ خداﷺ کے پھول)ہیں۔آپ نے دس محرمُ
الحرام 60 ہجری کو میدانِ کربلا میں باطل
کو خاک میں ملا کر جامِ شہادت نوش فرمایا۔اللہ کریم کے آخری نبی ﷺ نےاپنے پیارے پیارے نواسے حضرتِ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کےسیدھے(Right)کان میں اَذان
دی اور بائیں (Left)کان میں تکبیر
پڑھی اور اپنے مبارک جُوٹھے شریف سے گُھٹی عطا فرماتے ہوئے دُعاؤں سے نوازا۔ساتویں
دن آپ کا نام حُسین رکھا اور ایک بکری سے عقیقہ کیا۔
فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: حُسین مجھ سے ہیں اور میں حُسین سے ہوں۔ اللہ پاک اُس سے مَحَبَّت فرماتا ہے جو حُسین سے
مَحَبَّت کرے ۔ حُسین اَسباط میں سے ایک سِبط ہیں۔( ترمذی، 5/ 429 ، حدیث: 3800)
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک
کےتحت اِرشادفرماتے ہیں:میں اورحُسین گویا ایک ہی ہیں ہم دونوں سے مَحَبَّت ہر
مسلمان کو چاہیے،مجھ سے مَحَبَّت حُسین سے مَحَبَّت ہے اور حُسین سے مَحَبَّت مجھ
سے مَحَبَّت ہےچونکہ آئندہ واقعات حضور پاکﷺ کے پیشِ نظر تھے اِس لیے اِس
قسم کی باتیں اُمت کو سمجھائیں۔سِبط وہ
درخت جس کی جڑ ایک ہو اور شاخیں بہت ایسے ہی میرے حُسین سے میری نسل چلے گی اور
اِن کی اَولاد سے مشرق و مغرب بھرجائے گی،دیکھ لو!آج سادات ِکرام مشرق و مغرب میں
ہیں اور یہ بھی دیکھ لو کہ حَسَنی سیّد تھوڑے ہیں حُسینی سید بہت زیادہ ہیں اِس
فرمانِ عالی کا ظہور ہے۔
(مراۃ المناجیح، 8/480)
یاشہیدِ
کربلا فریاد ہے نورِ چشمِ فاطمہ
فریاد ہے
آہ!
سِبطِ مصطَفٰے فریاد ہے ہائے!
ابنِ مُرتَضیٰ فریاد ہے
(وسائلِ بخشش،ص596)
حسن میرے ہیں اور حُسین علی کے۔( فیض القدیر، 3 / 551 )
مفتی احمد یار خان رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:اِس فرمانِ عالی شان
کا مطلب یہ ہے کہ بڑا بیٹا دادا ، نانا کا ہوتا ہے چھوٹا بیٹا باپ کا ، یہ تقسیم
اظہار ِکرم کے لیے ہے۔(مراۃ المناجیح،8/479)
جِسے یہ پسند ہو کہ
کسی جنتی مَرد کو دیکھے (ایک روایت میں ہے)جنّتی جوانوں کے سردار کو دیکھے وہ حُسین
بن علی کو دیکھے۔( الشرف المؤبد،ص 69)
حُسین
ابنِ علی کا صدقہ
ہمارے غوثِ جلی کا صدقہ
عطا
مدینے میں ہو شہادت نبیِّ
رَحمت شفیعِ اُمّت
(وَسائلِ بخشش،ص214)
محسن ابنِ
علی: یہ بی بی فاطمہ کے سب سے چھوٹے فرزند ہیں ان کا انتقال بچپن
ہی میں ہو گیا تھا۔
اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب
مغفرت ہو۔ آمین
.png)
آپ ﷺ کے پانچ نواسے اور تین نواسیاں تھی۔
1۔آپ ﷺ کی بڑی
بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی ایک بیٹی حضرت امامہ رضی اللہ عنہا اور ایک بیٹا
حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔
2۔آپ ﷺ کی دوسری بیٹی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کےایک
بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تھے۔
3۔آپﷺ کی تیسری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کےتین
بیٹے حضرت حسن ،حضرت حسین،حضرت محسن رضی اللہ عنہم تھے۔یہ تیسرے بیٹے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اور دو بیٹیاں حضرت ام
کلثوم اور حضرت زینب رضی اللہ عنہما تھیں۔
عُمُوماً جب بھی بچہ پیدا ہوتا ہے عقیقہ اس کے والِدَین ہی کرتے ہیں، لیکن
ہم دیکھتی ہیں کہ جب حضرت امامِ حسن رضی
اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تب بھی اور جب حضرتِ امام حُسین رضی اللہ عنہ تشریف لائے تب بھی عقیقہ ان کے والِدَین نے نہیں کیا
بلکہ ان کے نانا جان، رحمتِ عالمیان ﷺ نے ہی اپنے پیارے نواسوں کا عقیقہ فرمایا،اس
سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حُضُور ﷺ اپنے نواسوں سے کیسی مَحَبَّت فرماتے
تھے؟آقا ﷺ نہ صرف حَسَنَینِ کَریمَیْن سے پیار اور مَحَبَّت فرماتے تھے بلکہ آپ ﷺ
نے کئی مواقع پر ان کی شان و عظمت کو بھی بَیان فرمایا ہے۔چنانچہ
1: امیرُالمؤمنین حضرت عُمر فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ میں نے حضرت امام حَسن اور
حضرتِ اما م حُسین رضی اللہ عنہما کو
سرکار ﷺ کے کندھوں پر سُوار دیکھاتو کہا:آپ دونوں کی سُواری کیسی شاندار ہے؟تونبی
ﷺ نے اِرْشاد فرمایا:اور سوار بھی تو کیسے
لاجواب ہیں۔
(ترمذی،5/432،حدیث 3809)
2:ایک اور حدیثِ پاک میں اِرْشاد فرمایا:مَنْ اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ یعنی جس نے ان دونوں سےمحبت کی،اُس نے مجھ سے محبت کی اور
جس نے ان سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی اس نے مجھ سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی۔(ابن
ماجہ،1/96، حدیث:143)
3:حَسَن اورحُسَین جَنَّتی جوانوں کے سردار ہیں۔(ترمذی،5/426،حدیث:3793)
4:یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ
کے ساتھ کھانے کی ایک دعوت میں نکلے، دیکھا تو حسین رضی اللہ عنہ گلی میں کھیل رہے
ہیں، نبی اکرم ﷺ لوگوں سے آگے نکل گئے، اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلا لیے، حسین رضی اللہ
عنہ بچے تھے، ادھر ادھر بھاگنے لگے اور نبی اکرم ﷺ ان کو ہنسانے لگے، یہاں تک کہ
ان کو پکڑ لیااور اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا سر پر رکھ کر بوسہ
لیا، اور فرمایا:حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔اللہ اس سے محبت رکھے جو حسین
سے محبت رکھےاور حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہیں ۔( ترمذی، 5/ 429 ،حدیث: 3800)
5:حُضُورِ اقدس ﷺ اِن دونوں نونہالوں کوسونگھتے اورسینۂ
مُبارَک سے لپٹاتے۔
( ترمذی، 5/428،حدیث:3797)
6:هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنْ الدُّنْيَا یعنی حَسن
وحُسَین دُنیا میں میرے دو پُھول ہیں۔
(ترمذی،5/ 427،حدیث: 3795)
میرا یہ
بیٹا سردار ہے:حضرت ابوبکرہ رضی
اللہ عنہ کا بیان ہے:میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہیں اور امام
حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں بیٹھے ہیں۔آپ ﷺ کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے ،کبھی اپنے نواسے کو ملاحظہ
فرماتے اور ارشاد فرما تے:اِنَّ ابْنِيْ هٰذَا
سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ اَنْ يُّصْلِحَ بِهٖ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ
مِنَ الْمُسْلِمِينَیعنی میرا یہ بیٹا سردار ہے،اﷲ پاک اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرادے گا۔(بخاری،2/214،حدیث:2704)
7: رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا:میرےنزدیک
حضرت حسن بن علی زیادہ محبوب اور پیارا کوئی نہیں۔
(بخاری،4/73،حدیث:5884)
8:حضرت اسامہ بن زیدرضی
اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ
مجھے پکڑ کر اپنی ایک ران پر بٹھاتے، امام حسن رضی اللہ عنہ کو دوسری ران پر
بٹھاتے اور پھر دونوں (رانوں) کو ملا کر یہ دعا کرتے:اَللّٰهُمَّ ارْحَمْهُمَا فَاِنِّي اَرْحَمُهُمَا یعنی اے اللہ!ان دونوں پر رحم فرما کیونکہ میں بھی ان پر رحم کرتا ہوں۔
(بخاری،4/101،حدیث:6003
)
نواسے
کے رونے سے تکلیف:
9: نبی کریم ﷺ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے گھر کے قریب سے گزرے اور امام حسین رضی اللہ
عنہ کے رونے کی آواز سنی تو خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا:اَلَمْ تَعْلَمِيْ اَنَّ بُكَاءَهٗ يُؤْذِيْنِيْ یعنی کیا تم نہیں جانتیں کہ اس کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے!(معجم کبیر،3/116،حدیث:2847
)
نواسے سے کھیلنے کا مبارک انداز:
10:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رحمتِ
کونین،نانائے حسین ﷺ امام حسین رضی اللہ عنہ کے لئے اپنی زبان مبارک باہر
نکالتے۔شہزادے جب مبارک زبان کو دیکھتے تو اس کی طرف لپکتے۔
(صحیح ابن
حبان،9/60،حدیث:6936)
پیارے آقا ﷺ کی حَسَنَینِ کَریمَیْن رضی اللہ عنہما سے کیسی
کمال مَحَبَّت و اُلفت تھی، وہ لوگ جو اپنے بچوں سے اِس وجہ سے پیار و مَحَبَّت سے
پیش نہیں آتے کہ کہیں ان کا رُعب و دبدبہ ختم نہ ہو جائے ،ان کے لیے آقا ﷺکا یہ
عمل درسِ نصیحت ہے کہ حُضُورِ اکرم ﷺسیدِ کائنات ہونے کے باوجود بھی اپنے نواسوں
کو کندھوں پر سوار فرماتے تھے۔
آقا ﷺنے
حَسَنَینِ کَریمَیْن رضی اللہ عنہما کی محبت کو اپنی مَحَبَّت قرار دیا اورحَسَنَینِ
کَریمَیْن رضی اللہ عنہما سے دشمنی کو خود سے دشمنی قرار دیا، اپنی اولاد کو
چُومنا، خُود سے چمٹانا، کندھوں پر سوار کرنا اور اُنہیں سینے سے لگانا یہ تو ہوتا
ہی ہے لیکن آقا ﷺ حَسَنَینِ کَریمَیْن رضی
اللہ عنہما کو سُونگھا بھی کرتے اور فرماتے: حسن و حسین دنیا میں جنت کے پھول ہیں۔(مراٰۃ
المناجیح، 8/462)
فرمانِ مُصطَفٰے ﷺ:کوئی
بندہ مومنِ کامل نہیں ہوتا یہاں تک کہ میں اسے اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوں
اور میری اَولاد اس کو اپنی جان سے زیادہ پیاری نہ ہوا ور میرے اہل اُن کو اپنے
اہل سے زیادہ مَحْبُوب نہ ہوں اور میری
ذات اس کو اپنی ذات سے زیادہ پیاری نہ
ہو۔(شعب الایمان ، 2/189،حدیث:1505)
ایک مُسَلمان کے لیے
لازم ہے کہ وہ اپنی جان، مال،اولاد سے بڑھ کر سرکارِ مدینہ،قرارِ قلب وسینہ ﷺ سے
مَحَبَّت رکھے، کیونکہ حُضُور ﷺکی مَحَبَّت ہی اصلِ ایمان ہے، اس کے بغیر دعویِ ایمان
ہر گز قابلِ قبول نہیں۔آقا کریم ﷺ سے مَحَبَّت کی علامت یہ بھی ہے کہ بندہ اُن
تمام لوگوں سے بھی مَحَبَّت کرےاور ان کا
ادب و احترام کرےجن کو رَسُولُ اللہ ﷺ سے نسبت وتعلق حاصل ہے۔اللہ پاک ہمیں اہلِ
بیت سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حضور ﷺ کی اپنے نواسوں سے محبت از بنتِ محمد
رمضان،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
.png)
آقا ﷺ نے اپنے پیارے
نواسوں کی شان کو بیان فرمایا۔حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما دونوں بھائی
بہت ہی عزت و تکریم عظمت و شان و بہت بڑے
مقام و مرتبہ کے مالک تھے۔ کئی احادیث میں حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی
شان کو بیان فرمایا۔حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس
نے حسن و حسین سے محبت کی گویا اس نے مجھ سے مُحبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض
رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔(ابن ماجہ،1/96، حدیث:143)
حضور نبی اکرم ﷺ اپنے دونوں نواسوں سے بہت محبت فرماتے،
کاندھوں پر چڑھاتے، سینہ مبارک پر بٹھاتے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے کہ ان سے
محبت رکھو لیکن چھوٹے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے آپ کی محبت کا خاص امتیاز
تھا ۔
امامِ حسن رضی
اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تب بھی اور جب حضرتِ امام حُسین رضی اللہ عنہ تشریف لائے تب بھی عقیقہ ان کے والِدَین نے نہیں کیا
بلکہ ان کے نانا جان، رحمتِ عالمیان ﷺ نے ہی اپنے پیارے نواسوں کا عقیقہ فرمایا،
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حُضُور ﷺاپنے نواسوں سے کیسی مَحَبَّت فرماتے
تھے؟آقا ﷺ نہ صرف حَسَنَینِ کَریمَیْن سے پیار اور مَحَبَّت فرماتے تھے بلکہ آپ
نے کئی مواقع پر ان کی شان و عظمت کو بھی بیان فرمایا ہے۔چنانچہ حدیثِ پاک میں
اِرْشاد فرمایا:مَنْ اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ
اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْیعنیجس نے ان
دونوں سےمحبت کی،اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی اس
نے مجھ سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی۔(ابن ماجہ، 1/96، حدیث:143)
حَسَن اورحُسَین رضی
اللہ عنہما جَنَّتی جوانوں کے سردار ہیں۔(ترمذی،5/426،حدیث:3793)
جب صَحابۂ کرام علیہم الرضوان نےسرکارﷺ کو اپنے اہلِ بیت
اورپیارے نواسوں سے بے انتِہامَحَبَّت کرتے دیکھا تو آپ سے نسبت کی وجہ سے یہ
حضرات بھی ان سے مَحَبَّت وشَفْقَت سے پیش
آتے اور آپ کے وصالِ ظاہری کےبعدبھی آپ کے اہلِ بیت اطہار اور بالخُصوص حَسَنَیْنِ
کَرِیْمَیْن کا بے حد خَیال رکھاکرتے۔
آقا ﷺ کو امام حسن سے بہت محبت تھی۔چنانچہ آقا ﷺ حضرت امام
حسن رضی اللہ عنہ کو کبھی اپنی مبارک گود میں اُٹھاتے اور کبھی
اپنے کندھوں پر سوار کرتے ہوئے گھر تشریف لاتے اور کبھی امام حسن رضی اللہ
عنہ کو دیکھنے کے لئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے
گھر تشریف لے جاتے۔
حدیثِ مُبارَک:امیرُالمومنین
حضرت عُمر فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام حَسن اور حضرتِ اما م حُسین رضی اللہ عنہما کو سرکار ﷺ کے
کندھوں پر سُوار دیکھاتو کہا:آپ دونوں کی سُواری کیسی شاندار ہے؟تونبی ﷺ نے
اِرْشاد فرمایا:اور سوار بھی تو کیسے
لاجواب ہیں۔
(ترمذی ،5/432، حدیث: 3809)
اللہ پاک سے دعا ہے
کہ امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی سچی
محبت عطا فرمائے۔ آمین
حضور ﷺ کی اپنے نواسوں سے محبت از بنتِ اشرف،
فیضان اُمّ عطّار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
.png)
پیارے آقا ﷺ کی اپنے
نواسوں حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کے حوالے سے بہت سی احادیث ِ مبارکہ اور
واقعات موجود ہیں کہ پیارے آقا ﷺ کو اپنے نواسوں سے کتنی محبت ہے۔چنانچہ
حدیثِ مبارک میں ہے:حضرت بَراء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ مقبول،بی بی آمنہ کے پھول ﷺ
نے(اپنے دونوں نواسوں) حَسن اور حُسین کی طرف(محبت بھری نظر سے ) دیکھا اور
(ربّ کی بارگاہِ عالی میں ) عرض کی:اے
اللہ پاک ! میں اِن دونوں سے محبت کرتاہوں، تُو بھی اِن سے محبت فرما۔
( ترمذی ،4/523،حدیث:4136)
یہاں تک کہ پیارے آقا ﷺ نے اپنی امت کو بھی حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی ترغیب دلائی
اور ان سے بغض رکھنے والے کے بارے میں وعید
بھی ارشاد فرمائی۔چنانچہ
حضرت سلمان رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسولِ ہاشمی، مکی مدنی
ﷺ نے حضرت حَسن اورجناب حُسین رضی اللہ عنہما سے متعلّق اِرشاد فرمایا:جس نے ان دونوں سے محبت کی ، وہ میرا محبوب ہوگیا
اور جو میرا محبوب ہوگیا اللہ اُس سے محبت فرماتاہے اور جس سے اللہ پاک محبت فرمائے ، اُسے جَنَّاتِ نعیم(نعمتوں والے باغات) میں داخل فرمائے گا۔
جس نے ان دونوں(حسن و حسین) سے بُغض رکھا یا ان سے بغاوت کی، وہ میری بارگاہ میں
بھی مبغوض ہوگیااور جو میری نظر میں مبغوض ہوگیا ،وہ اللہ پاک کے جلال و غضب کا مستحق ہوگیا اور جو خُدائے قہار کے غضب کا شکار ہوگیا تو اللہ پاک اُسے جہنم کے عذاب میں داخل فرمائے گا اور اس کے لئے ہمیشہ رہنے والا عذاب
ہے۔(معجم کبیر ، 3/43 حدیث:2655)
مَنْ اَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ اَحَبَّنِي
وَمَنْ اَبْغَضَهُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِي یعنی جس
نے حسن و حسین سے محبت کی تو بے شک اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی تو بلاشبہ اس نے مجھ سے دشمنی کی۔
(ابن
ماجہ،1/96،حدیث:143)
ولادت کے
وقت نام مبارک عطا فرمائے:خاتونِ جنت،حضرت فاطمہ
زہرا ء رضی اللہ عنہا کے یہاں امام حسن رضی اللہ عنہ کی ولاد ت پر حضورِ اقدس ﷺ
تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:اَرُوْنِیْ اِبْنِیْ مَا سَمَّیْتُمُوْہُ یعنی مجھے میرا بیٹا دکھاؤ،تم نے اس کا کیا نام رکھا؟مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے
عرض کی:میں نے اس کا نام حَرْب رکھا ہے۔فرمایا:بلکہ وہ حسن ہے۔امام حسین رضی اللہ
عنہ کی ولادت پر بھی رحمتِ عالَم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا:مجھے میرا بیٹا دکھاؤ،
تم نے اس کا کیا نام رکھا؟ مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: حَرْب۔فرمایا:بلکہ
وہ حسین ہے۔اس کے بعد تیسرے شہزادے کی ولادت پر تشریف لاکر بھی یہی سوال کیا اور
مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے وہی نام عرض کی تو فرمایا:بلکہ وہ محسن ہے۔اس کے بعد
ارشا د فرمایا:اِنَّمَا سَمَّيْتُهُمْ بِاسْمِ وُلْدِ
هَارُوْنَ شَبَرٌ وَ شُبَيْرٌ وَ مُشْبِرٌ یعنی میں
نے ان کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کے بیٹوں شَبَر، شُبَیْر اور مُشْبِر کے
ناموں پر رکھے ہیں۔(مستدرک، 6/221 ، حدیث:4829 )
شرح ِ حدیث:اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:شَبَر
شُبَیْر مُشْبِر حَسَن حُسَیْن مُحْسِن ان سے ہم وزن و ہم معنی ہیں ، اس سے مولیٰ
علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو تنبیہ ہوئی کہ اولاد کے نام اَخیار کے ناموں پر رکھنے
چاہئیں لہٰذا ان کے بعد اپنے صاحبزادوں کے نام ابو بکر، عمر، عثمان، عباس وغیرہا
رکھے ۔ (فتاویٰ رضویہ، 29 /80)
نواسے کے
لئے سجدے کو لمبا کر دیا:حضرت شَدّاد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ
امام حسن یا امام حسین رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو اٹھائے ہوئے نمازِ ظہر یا
عصر کے لئے ہمارے پاس تشریف لائے۔آپ نے آگے بڑھ کر بچے کو (زمین پر) رکھا،تکبیرِ
تحریمہ سے نماز شروع فرمائی اور پھر نماز کے دوران (غیر معمولی طور پر)لمبا سجدہ
فرمایا۔میں نے سر اٹھاکر دیکھا تو رسول اللہ ﷺ سجدے کی حالت میں تھے اور شہزادے
اپنے نانا جان کی مبارک پیٹھ پر سوار
تھے۔(یہ منظر دیکھ کر)میں واپس سجدے میں چلا گیا۔جب رسول اللہ ﷺ نے نماز مکمل
فرمائی تو لوگوں نے عرض کی:یارسول اللہﷺ!آپ نے اس نماز کے دوران اتنا لمبا سجدہ
فرمایا کہ ہم سمجھے کوئی معاملہ ہوگیا ہے یا آپ کی طرف وحی نازل ہورہی ہے۔ارشاد
فرمایا: ایسا کچھ نہیں تھالیکن میرا بیٹا مجھ پر سوار ہوگیا تھا تو میں نے ناپسند
کیا کہ جلدی کروں یہاں تک کہ وہ اپنی ضرورت پوری کرلے۔ (مسند
احمد،5/426،حدىث:16033 )
شرح ِ حدیث:شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:امام حسن مجتبیٰ
رضی اللہ عنہ کے پُشت مبارک پر بیٹھنے کے
بعد حضورِ اقدس ﷺ نے قَصْداً(جان بوجھ کر)سجدہ کو دَراز(لمبا) فرمایا کہ کہیں ایسا
نہ ہو کہ یہ گر پڑیں اور چوٹ آجائے۔حضورِ اقدس ﷺ کے اس فعل مبارک سے ثابت ہوا کہ
کوئی چھوٹا بچہ جو ناپاک نہیں،اگر سجدہ میں کسی کی پیٹھ پر بیٹھ جائے اور وہ بغیر
عملِ کثیر کے اُتار نہ سکے اور سجدے سے سر اٹھانے میں بچے کے گر کر چوٹ لگنے کا
اندیشہ ہو تو جب تک بچہ اتر نہ جائے ، سجدے سے سر نہ اٹھائے۔سجدے کو تَقَرُّباً(نیکی
کے طور پر)دَراز(لمبا)کرلینا جائز ہے اور کسی بچے کو اذیت(تکلیف) سے بچانا بھی
کارِ تَقَرُّب (نیکی کا کام) ہے۔(فتاویٰ
شارحِ بخاری،2/26)
تمہارے مردوں
میں بہترین:حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبیِ رحمت ،شافعِ اُمّت ﷺ نے اِرشاد فرمایا:تمہارے مَردوں میں بہترین علی بن ابو طالب ہیں،تمہارے
نوجوانوں میں بہترین حسن اور حُسین ہیں اور تمہاری خواتین میں بہترین فاطمہ بنتِ
محمد ہیں۔(تاریخ بغداد،6/59)
حضرت حسن
و حسین رضی اللہ عنہما پر دم فرماتے:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:نبیِ مکرَّم،شفیعِ اُمَم ﷺ حضرت
حَسن اور حضرت حُسین رضی اللہ عنہما پر تعویذ(دَم)کرتے تھے اور فرماتے تھےکہ بیشک
تمہارے والد(یعنی جدِّ اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے صاحبزادوں)حضرت اسمعیل
اور حضرت اسحاق علیہما السلام کی حفاظت
کے لیے یہ دُعا پڑھتے تھے:میں تمہیں اللہ پاک کے پورے کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں
، ہرشیطان و زہریلے جانور سے اور ہر بیمار کرنے والی نظر سے۔
(بخاری،ص832، حدیث:3371)
حضور ﷺ کی اپنے نواسوں سے محبت از بنتِ ناصر
محمود،بہار مدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ
.png)
حسنین کریمین رضی
اللہ عنہما رسول اللہ ﷺ کے جگر پارے،حضرت
بی بی فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے شہزادے
اور امیرالمومنین حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے دُلارے(بہت ہی پیارے اورلاڈلے)
ہیں، ان کےفضائل و مناقب بے شمار ہیں، کیوں نہ ہو کہ انہی کا گھرانہ ہی تو ہے جو
تمام فضائل و کمالات اور برکات و حسنات کا منبع و مرکز ہے۔یہ دونوں شہزادے رسول
اللہ ﷺ کے کمالات کے مظہر اور جامع تھے۔رسول اللہ ﷺ اپنے اہلِ بیت میں سےحَسَنَینِ
کریمین رضی اللہ عنہما سے بے پناہ
مَحَبَّت فرماتے ہیں۔
ان دونوں شہزادوں میں سے بڑے حضرت امام حَسَن رضی اللہ عنہ ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو محمد ہے،لقب تقی و سید جبکہ
عرف سبط رسول للہ ﷺاورسبطِ اکبرہے۔آپ کو
رَیْحَانَۃُالرَّسُوْل (یعنی رسولِ خدا کے پھول)اورآخرالخلفاء بنص (یعنی حدیثِ پاک
کے مطابق آخری خلیفہ)بھی کہتے ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ کی ولادتِ مبارکہ 15 رمضان المبارک 3ھ کی شب میں مدینۂ طیبہ میں ہوئی۔حضور
سید عالم ﷺ نے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا اور بال جُدا کیے گئے اورحکم دیا کہ
بالوں کے وزن کی چاندی صدقہ کی جائے۔
(تاریخ الخلفا،ص149- روضۃ الشہداء
(مترجم)، 6/139)
آپ کا نام امام الانبیاء،سید الانبیا ﷺ نے ہی حسن رکھا۔(سوانحِ کربلا،ص92)
آپ رضی اللہ عنہ
کےچھوٹے بھائی امامِ عالی مقام، حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت
5شعبانُ المعظم سن 4 ھ کو مدینۂ منورہ میں ہوئی۔ان کا نام بھی حضور ﷺ
نےحسین اورشبیر رکھا جبکہ آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور آپ کا لقب بھی سبط رسول اللہ (یعنی رسول خداﷺ کے
نواسے)اورریحانۃ الرسول(یعنی رسولِ خدا ﷺکے پھول)ہے اور آپ رضی اللہ عنہ بھی جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
(اسد الغابہ،ص25،26ملتقطاًوسیر
اعلام النبلاء، 4/402-404)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت امام حسن اور امام
حسین رضی اللہ عنہما کى پیدائش کے ساتویں
دن ان کى طرف سے دو دو بکریاں عقیقہ میں ذبح فرمائیں۔
(سنن کبری،9/510،حدیث:19294)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
حضور ﷺ نے فرمایا:جس نے مجھ سے محبت کی اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں(یعنی حسنین
کریمین)سے بھی محبت کرے۔
(ابن
حبان،7/563، حدیث:7012 الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان،
کتاب التاریخ،باب اخبارہﷺ عن مناقب الصحابۃ۔۔۔الخ، ذکرالبیان بان محبۃ الحسن
والحسین۔۔۔الخ،7/563،حدیث:7012 الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، کتاب التاریخ،باب
اخبارہﷺ عن مناقب الصحابۃ۔۔۔الخ، ذکرالبیان بان محبۃ الحسن
والحسین۔۔۔الخ،7/563،حدیث:7012 الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، کتاب التاریخ،باب اخبارہﷺ عن
مناقب الصحابۃ۔۔۔الخ، ذکرالبیان بان محبۃ الحسن والحسین۔۔۔الخ،7/563،حدیث:7012)
نبی کریم ﷺ حضرت فاطمہ الزھرا رضی اللہ عنہا سے فرماتے:میرے دونوں بیٹوں کو لاؤ،پھر
دونوں کو سونگھتے اور سینے انور سے لگاتے۔( ترمذی، 5/ 428،حدیث: 3797) الاحسان فی
تقریب صحیح ابن حبان، کتاب التاریخ،باب اخبارہﷺ عن مناقب الصحابۃ۔۔۔الخ، ذکرالبیان
بان محبۃ الحسن والحسین۔۔۔الخ،7/563،حدیث:7012
سبحان اللہ!حضور ﷺ کوحسنین کریمین رضی اللہ عنہما سےکیسی محبت تھی کہ آقا ﷺ کیسے دونوں
شہزادوں کو کتنے محبت بھرے انداز میں اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور ﷺ سے پوچھا
گیا کہ اہلِ بیت میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا: حسن اور حسین
۔(ابن ماجہ،1/96، حدیث:143)
نبی کریم ﷺ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو
فرمایا:اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان دونوں سے محبت فرما۔(ترمذی،5/432،حدیث:3808)
حضور ﷺ کی اپنے نواسوں سے محبت از بنتِ عارف
حسین ،بہار مدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ
.png)
نبی کریم ﷺ اپنے
نواسوں یعنی حضرت حسنین حسین رضی اللہ عنہما سے بے حد محبت فرماتے۔نبی کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا:بے شک حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ اس دنیا میں میرے دو
پھول ہیں۔( بخاری،2/ 547 ،حدیث:3753)
امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو گھٹی
دی: حضرت علی المرتضیٰ،شیرِ خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا
ہوئے تو میں نے ان کا نام حرب رکھا اور میں یہ پسند کرتا تھا کہ مجھے ابو حرب کی کنیت
سے پکارا جائے ۔حضور اکرم ﷺ میرے گھر تشریف لائے، حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو گھٹی دی اور مجھ سے فرمایا کہ تم نے میرے
بیٹے کا نام کیا رکھا ہے؟ تو میں نے عرض کی:حرب۔آپ نے فرمایا: وہ حسن ہے۔ پھر جب
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو
میں نے ان کا نام بھی حرب رکھا،حضور ﷺ تشریف
لائے،حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو گھٹی دی
اور مجھ سے پوچھا کہ تم نے میرے بیٹے کا کیا نام رکھا ہے؟تو میں نے عرض کی:حرب۔نبی
کریم ﷺ نے فرمایا:یہ حسین ہے۔
(مستدرک،6/221
،حدیث: 4829 )
جنتی جوانوں کے سردار: نبی کریم، رؤف الرحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حسن
اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں ۔(ترمذی ،5/426 ، حدیث: 3793)
شرح حدیث: یعنی جو لوگ جوانی میں وفات پائیں اور ہوں جنتی حضرات حسنین کریمین رضی
اللہ عنہما ان کے سردار ہیں ورنہ جنت میں
تو سبھی جوان ہوں گے۔(مراۃ المناجیح،8/475)( اربعین عطار، قسط 1)
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عقیقہ: نبی کریم ﷺ نے دو دنبوں کے ذریعے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عقیقہ کیا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو آپ کا سر منڈوانے اور سر کے بالوں کے
برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا ۔( ماہنامہ فیضان مدینہ 2024 ،ص 36)
کندھے پر سوار فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ حضرت امام حسن
اور امام حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ گھر سے باہر نکلے،آپ نے ایک کندھے پر حضرت
امام حسن کو اور دوسرے کندھے پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کو سوار فرمایا ہوا
تھا۔ رحمتِ عالم ﷺ کبھی امام حسن رضی اللہ
عنہ کا بوسہ
لیتے تو کبھی امام حسین رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیتے یہاں تک کہ ہمارے گھر تشریف لے آئے۔(مستدرک،
4/156، حدیث:4835)
نبی کریم ﷺ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے بے حد محبت
فرماتے تھے۔آپ نے ارشاد فرمایا:اے اللہ پاک !میں اس حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی
حسین سے محبت فرما ۔(ترمذی،5/432،حدیث:3808)
فرمانِ آخری نبی :حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔اللہ پاک اس سے محبت رکھے جو حسین سے محبت
رکھتا ہے ۔( ترمذی،5/429،حدیث: 3800)
نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ کو اہلِ بیت میں سے سب سے زیادہ
محبت کس سے ہے؟ آپ نے فرمایا: حسن اور حسین ۔آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا: میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ،پھر آپ
انہیں چومتے اور سینے سے لگاتے ۔( ترمذی ،
5 / 428،حدیث:3797)
حضور نے بوسہ لیا :ایک موقع پر حضور اکرم ﷺ نے امام حسن رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیا،اس وقت آپ ﷺ کے پاس اقرع بن
حابس تمیمی رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا کہ میرے دس بیٹے ہیں میں نے
کبھی کسی کا بوسہ نہیں لیا، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر
رحم نہیں کیا جاتا ۔
(بخاری،08/ 07، حدیث:5997)
کندھے پر سوار فرمایا :حضرت برا بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ
اپ نے امام حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر سوار فرمایا ہوا تھا اور اللہ پاک کی
بارگاہ میں عرض کرتے تھے :اے اللہ !میں اس (یعنی حسن) سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس
سے محبت فرما اور جو اسے محبت کرے اسے محبت فرما۔ ( بخاری،2/547 ،حدیث:3749)
امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کی بچپن کی مرویات:آپ رضی اللہ عنہ سے احادیثِ مبارکہ بھی مروی ہیں، چنانچہ ایک
روایت میں آپ فرماتے ہیں کہ میں نے پیارے آقا
ﷺ سے یہ ایک بات یاد کی ہے کہ جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور جو شک میں
نہ ڈالے اسے کر لو کیونکہ سچ اطمینان ہے
اور جھوٹ تردد ہے۔( ترمذی، 2/232 ،حدیث:2526)
حضور ﷺ کی امام حسین و حسن سے شفقت و محبت :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے
ساتھ عشا کی نماز پڑھ رہے تھے،جب آپ سجدے میں گئے تو امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما
آپ کی مبارک پیٹ پر چڑھ گئے،آپ نے سجدے سے سر مبارک اٹھاتے ہوئے ان دونوں کو اپنے
ہاتھ سے آہستہ سے اتار دیا۔جب آپ نے دوبارہ سجدہ ادا کیا تو ان دونوں نے پھر اسی
طرح کیا یہاں تک کہ آپ نے نماز پوری ادا فرما لی اور ان دونوں کو اپنی رانوں پر
بٹھا لیا۔میں حضور ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی:یا رسول اللہﷺ! کیا میں ان دونوں کو ان
کی والدہ کے پاس چھوڑ آؤں؟آپ نے فرمایا: نہیں۔ جب ایک بجلی سی چمکی تو آپ نے ان
دونوں سے فرمایا کہ اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ، تو روشنی اس وقت تک ٹھہری رہی جب تک
امام حسن اور حسین گھر میں داخل نہ ہو گئے۔ (مسند امام احمد،3/592،حدیث:10664)
حضور ﷺ نےحضرت
فاطمہ رضی اللہُ عنہا کے عرض کرنے پر حضرت حسین اور حسن رضی اللہ عنہما کو اپنی وراثت سے شجاعت و
سخاوت عطا فرمائی۔ ( معجم کبیر، 22/423،حدیث:1041)
اللہ کریم ہمیں حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کا فیضان اور
ان سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
حضور ﷺ کی اپنے نواسوں سے محبت از بنتِ رزاق
،بہار مدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ
.png)
یہاں یہ بات
قابلِ غور ہے کہ عُموماً جب بھی بچہ پیدا ہوتا ہے عقیقہ اس کے والِدَین ہی کرتے ہیں،
لیکن ہم دیکھتی ہیں کہ جب حضرت امامِ حسن رضی
اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تب بھی اور جب حضرتِ امام حُسین رضی اللہ عنہ تشریف لائے تب بھی عقیقہ ان کے والِدَین نے نہیں کیا
بلکہ ان کے نانا جان، رحمتِ عالمیان ﷺنے ہی اپنے پیارے نواسوں کا عقیقہ فرمایا، اس
سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حُضُور ﷺاپنے نواسوں سے کیسی مَحَبَّت فرماتے تھے۔آقا
ﷺ نہ صرف حَسَنَینِ کَریمَیْن رضی اللہ عنہما سے پیار اور مَحَبَّت فرماتے تھے
بلکہ آپ ﷺنے کئی مواقع پر ان کی شان و عظمت کو بھی بَیان فرمایا ہے، آئیے!حَسَنَین رضی اللہ عنہما کی
عظمت وشان کے مُتَعَلِّق احادیثِ مُبارَکہ سنتی ہیں:
1) امیرُالمومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے
حضرت امام حَسن اور حضرت اما م حُسین رضی اللہ عنہما کو سرکار ﷺ کے
کندھوں پر سُوار دیکھاتو کہا:آپ دونوں کی سُواری کیسی شاندار ہے؟تونبی ﷺ نے
اِرْشاد فرمایا:اور سوار بھی تو کیسے
لاجواب ہیں۔
(ترمذی،5/432،حدیث: 3809)
2)ایک اور حدیثِ پاک میں اِرْشاد فرمایا:مَنْ اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ یعنی جس نے ان دونوں سےمحبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور
جس نے ان سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی اس نے مجھ سے عَداوت(یعنی دُشمنی)کی۔(ابن
ماجہ،1/96، حدیث:143)
3) حَسَن اورحُسَین
جَنَّتی جوانوں کے سردار ہیں۔( ترمذی،5/426،حدیث:3793)
حُضُورِ اقدس ﷺ اِن دونوں نو نہالوں کو سونگھتے اور سینۂ
مُبارَک سے لپٹاتے۔
(ترمذی،5/428، حدیث:3797)
4) هُمَا رَيْحَانَتَايَ
مِنْ الدُّنْيَا یعنی حَسن وحُسَین
دُنیا میں میرے دو پُھول ہیں۔
(ترمذی ، 5/ 427،حدیث: 3795)
آقا ﷺ حَسَنَینِ
کَریمَیْن رضی اللہ عنہما کو سُونگھا بھی کرتے اور فرماتے:حسن و حسین دنیا میں میرے
دوپھول ہیں۔( بخاری،2/ 547 ،حدیث:3753)
اُن دو کا صدقہ جن کو کہا
میرے پُھول ہیں
کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل
(حدائقِ بخشش، ص77)
شرحِ
کلامِ رضا:اے میرے پیارے آقا!اپنے جن دو شہزادوں کوآپ نے اپنا پُھول
فرمایا یعنی حضرت امامِ حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما ان کے صدقے میں
رَضا کو میدانِ محشر میں ہر قسم کی مشکلات و پریشانیوں سے بچا کر مسکراتے (یعنی کھلتے )ہوئے پھول کی طرح کر دیجئے۔
(شرح حدائقِ
بخشش، ص217، ماخوذاً)
قرآنِ کریم کے بعد سب سے زیادہ قابلِ اعتماد احادیثِ
مبارکہ کی کُتب صحاح سِتہ یعنی چھ صحیح کُتب کہلاتی ہیں جن میں سے ایک کتاب تِرمذی
بھی ہے اِس میں ہے کہ وَلیوں کے شہنشاہ،مولیٰ علی مُشکل کُشا رضی اللہُ عنہ فرماتے
ہیں:حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی شکل مبارک سَر سے سینہ تک حضور ﷺسے مُشَابِہ (یعنی
مِلتی جُلتی)تھی اور امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی سینے سے ناخن پَا (یعنی پاؤں کے
ناخن) تک۔
( ترمذی،5/ 430 ، حدیث: 3804)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
مَعْدوم
نہ تھا سایۂ شاہِ ثقلین اس
نور کی جلوہ گہ تھی ذاتِ حسنین
تَمْثِیْل
نے اس سایہ کے دو حصّے کیے آدھے سے حَسن بنے
ہیں آدھے سے حُسین
(حدائق بخشش،ص444)
شرحِ
کلامِ رضا: انسان و جنات کے شہنشا ہ ، مکّی مَدَنی مصطَفٰے ﷺ کے
مبار ک جسم کا سایہ مبارک نہ تھا مگر نور والے آقا ﷺ کا
سایہ مبارک حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ
عنہما کی صورت میں نظر آتا تھا کہ سرِ پاک
سے سینہ ٔ مبارکہ تک امام حسن رضی اللہ
عنہ اور امام حُسین رضی اللہ عنہ مبارک سینے سے پاؤں شریف تک حضور ﷺ سے مِلتے جُلتے تھے۔(فضائل امام حسین،ص7)
حضرت مفتی احمد یار
خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:خیال رہے کہ حضرت (بی بی) فاطمہ
زہرا ( رضی اللہ عنہا )ازسر تا قدم بالکل ہم شکلِ مصطفیٰ تھیں اور
آپ کے صاحبزادگان (یعنی بیٹوں)میں یہ مشابہت تقسیم کردی گئی تھی۔(مراۃ المناجیح،8/480)
رسولُ اللہ کی
جیتی جاگتی تصویر کو دیکھا کیا نظارہ جن
آنکھوں نے تفسیرِ نُبُوّت کا
(دیوانِ سالک)
آقا ﷺ نے اِرْشاد
فرمایا:اَدِّبُوْا اَوْلَادَکُمْ عَلٰی ثَلاثِ خِصَالٍ یعنی اپنے بچوں کو
تین(3)چیزیں سکھاؤ :حُبِّ نَبِیِّکُمْ اپنے نبی کی مَحَبَّت،وَ حُبِّ اہلِ بیتہٖ اور اہلِ بیت کی
مَحَبَّت،وَ قِرَاءَۃِ الْقُرْاٰنِ اور قرآنِ پاک پڑھنا۔
(صواعق مُحرقہ، ص172)
اِس حدیثِ
پاک سے مَعْلُوم ہو اکہ حُضُور ﷺ اپنے اہلِ بیت کرام سے کس قَدر مَحَبَّت فرماتے کہ صحابۂ کِرام علیہم
الرضوان کو اس بات کی تعلیم اِرْشاد فرما رہے ہیں کہ تم تو مجھ سے اور میرے اہلِ بیت سے مَحَبَّت کرتے ہی ہو اپنی آنے والی
نسلوں کے دلوں میں بھی
میری اور میرے اہلِ بیت کی مَحَبَّت پیدا کرو تاکہ ان کا شُمار بھی نَجات یافتہ لوگوں میں ہو۔ایک اور مقام پر تو آقا ﷺ نے اپنے اہلِ بیت کرام کی مَحَبَّت کو اِیْمانِ
کامل کے لیےشرط قرار دیا۔چنانچہ
فرمانِ
مُصطَفٰے ﷺ:کوئی بندہ مومنِ کامل نہیں ہوتا یہاں تک کہ میں اسے اس کی جان سے زیادہ
پیارا نہ ہوں اور میری اَولاد اس کو اپنی جان سے زیادہ پیاری نہ ہوا ور میرے اہل
اُن کو اپنے اہل سے زیادہ مَحْبُوب نہ
ہوں اور میری ذات اس کو اپنی ذات سے زیادہ پیاری نہ ہو۔(شعب الایمان، 2/189، حدیث:1505)
اِیماں
جسے کہتے ہیں عقیدے میں ہمارے وہ تیری محبت تِری عِتْرَت کی وِلا ہے
معلوم ہوا کہ مومنِ
کامل بننے اور اُخروی نجات پانے کے لیے اہلِ بیت کرام کی مَحَبَّت بہت ضروری ہے۔اہلِ
بیت کی محبت رَسُول ُاللہ ﷺ کی مَحَبَّت ہے، اہلِ بیت کی مَحَبَّت اللہ پاک اور اس
کے رسول ﷺ کی رضا پانے کا سبب ہے، اہلِ
بیت کی مَحَبَّت ایمانِ کامل کی نشانی ہے
اور اہلِ بیت کی مَحَبَّت دونوں جہاں کی کامیابی پانے کا سبب ہے۔اللہ کریم ہمیں اہلِ
بیت کی سچی پکی محبت نصیب فرمائے۔ آمین
.png)
آقا کریم ﷺ اپنے
نواسوں اور نواسیوں سے بہت محبت فرماتے اور
ان کی پیدائش پر تہنیک واذان وغیرہ کا اہتمام بھی فرماتے جیسے روایت ہے، ابو رافع رضی
اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ جب امام حسن رضی اللہُ عنہ پیدا ہوئے تو رسولِ کریم ﷺ نے
آپ کے کان میں اذان دی۔(ترمذی،3/173،حديث:1519)
آقا ﷺ کو اپنے تمام نواسے نواسیوں میں سے سب سے زیادہ محبت حسنین کریمین رضی اللہ
عنہما سے تھی، حضور نبی کریم ﷺ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو اپنے پھول فرماتے
اور انہیں سونگھا کرتے۔
(ابن ماجہ،1/96، حدیث:143)
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺنے
فرمایا کہ حسن اور حسین یہ دونوں دنیا میں
میرے دو پھول ہیں ۔( بخاری،2/ 547 ،حدیث:3753)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ سے پوچھا
گیا کہ اہلِ بیت میں آپ کو زیادہ پیارا کون ہے؟فرمایا:حسن اورحسین اور حضور ﷺ
حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے
فرماتے:میرے بچوں کو میرے پاس لاؤ،پھر انہیں سُونگھتے اور اپنے ساتھ لپٹالیتے۔
(ابن ماجہ،1/96، حدیث:143)
حضرت حسن سے محبت و دعا: حضرت
ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں
رسول الله ﷺ کے ساتھ دن کے ایک حصہ میں نکلا حتی کہ آپ جناب فاطمہ کے ڈیرے پر آئے
تو فرمایا کہ کیا یہاں بچہ ہے؟ کیا یہاں بچہ ہے؟یعنی جناب حسن رضی اللہُ عنہ تو نہ ٹھہرے کہ حسن رضی اللہُ عنہ دوڑتے
ہوئے آگئے حتی کہ ان دونوں میں سے ہر ایک اپنے صاحب کے گلے لگ گئے،پھر رسول الله ﷺ
نے فرمایا:الٰہی!میں اس سے محبت کرتا ہوں تو تو بھی اس سے محبت کر اور جو اس سے
محبت کرے اس سے محبت کر۔
(مشکاۃ المصابیح،2/436-437،حدیث:6143)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت و دعا:نبیِّ کریم
ﷺ نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی:اے اللہ!میں اس (یعنی حسین) سے محبت کرتا ہوں
تو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے محبت فرما۔(ترمذی، 5/427، حدیث:3794)
حضور اکرم ﷺ اپنے نواسوں کا بوسہ فرماتے:حضرت ابوہریرہ رضی
اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِّ کریم ﷺ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی
اللہُ عنہما کے ساتھ گھر سے باہر نکلے، آپ
نے ایک کندھے پر حضرت امام حسن رضی اللہُ عنہ کو اور
دوسرے کندھے پر امام حسین رضی اللہُ عنہ کو سوار فرمایا ہوا تھا،رحمتِ عالَم ﷺ کبھی امام
حسن رضی اللہُ عنہ کا بوسہ لیتے تو کبھی
امام حسین رضی اللہُ عنہ کا بوسہ لیتے یہاں تک کہ ہمارے پاس تشریف لے آئے۔(مستدرک،
4/156، حدیث:4835)
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں بچوں سے شفقت و محبت کا انداز اپنانا چاہیے،ان کو
بوسہ بھی دیا جائے، پیار بھی کیا جائے، ان کے ساتھ کھیلا جائے اور ان کو خوش کیا
جائے ۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنی ،اپنے محبوب ﷺ اور آپ کی آل پاک
کی کامل پکی سچی محبت عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں ہمارا بیڑا پار
فرمائے ۔آمین بجاہِ خاتم النبیین ﷺ
.png)
آقا ﷺ اپنے تمام نواسوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔حضور ﷺ کے
پانچ نواسے تھے :
1 -حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بیٹے حضرت علی رضی اللہ عنہ۔حضور
ﷺ ان سے بہت محبت فرماتے تھے یہاں تک کہ جب آقا ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے
تو جو ان کے سامنے بیٹھے تھے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی تھے جو کہ حضرت زینب رضی
اللہ عنہا کے بیٹے تھے۔
2-حضرت رقیہ رضی
اللہ عنہا کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ۔
3-4-5حضرت فاطمہ رضی
اللہ عنہا کے شہزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ،حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت محسن
رضی اللہ عنہ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد مبارکہ کو اللہ پاک نے
عمر دراز بالخیر عطا فرمائی جبکہ باقی شہزادیوں کے بیٹے بچپن میں وصال فرما گئے۔
حضرت عبداللہ ابنِ
عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی:قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی
الْقُرْبٰىؕ (پ25،الشوریٰ:
23)ترجمہ: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔
صحابہ کرام علیہم رضوان نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!آپ کے
قرابت دار کون ہیں؟ارشاد فرمایا:علی ، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے یعنی حسن و حسین
رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ (معجم کبیر،3/47،حدیث:2641)
حضور ﷺ کی حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے
محبت:رسول اللہ ﷺ حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کو
اٹھائے ہوئے انصار کی ایک مجلس سے گزرے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یا
رسول اللہﷺ! کتنی اچھی سواری ہے!آپ نے فرمایا: نعم الراکبان ھمایعنی دونوں سوار بھی کتنے اچھے ہیں! (مصنف ابن ابی شیبہ،7/ 514،حدیث:21)
نواسے
سے محبت کا انوکھا انداز:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:میرے ان
دونوں کانوں نے سنا اور میری دونوں آنکھوں نے دیکھا کہ نبی ﷺ نے امام حسن رضی اللہ
عنہ یا امام حسین رضی اللہ عنہ کو پکڑا ہوا ہے،شہزادے کے دونوں پاؤں رسول اللہ ﷺ
کے دونوں پاؤں پر ہیں اور آپ فرما رہے ہیں:اوپر چڑھو! چھوٹی آنکھوں والے! شہزادے
اوپر چڑھے یہاں تک کہ اپنے دونوں قدم ناناجان کے مبارک سینے پر رکھ دیئے۔ حضور ﷺ
نے فرمایا :اپنا منہ کھولو !پھر ان کا بوسہ لیا اور دعا کی: اَللّٰھمَّ انِّی اُحِبّهُ فَاَحِبَّهُیعنی اللہ پاک میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اسے اپنا محبوب بنا لے۔ (معجم
کبیر، 3/49 ،حدیث:2653)
حضرت محمد بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:حضور ﷺ کے سامنے حضرت حَسن اور حُسین رضی اللہ
عنہما کُشتی کر رہے تھے،جانِ ایمان ﷺ فرماتے تھے :حسن جلدی کرو! تو خاتونِ جنّت حضرت فاطمہ رضی
اللہُ عنہا
نے اپنے بابا جان کی بارگاہ میں عرض کی:یاسول اللہ ﷺ!آپ حَسن کی مدد فرما رہے
ہیں،گویا کہ یہ آپ کو حُسین سے زیادہ محبوب ہیں؟ شاہِ انس و جان ﷺ نے اِرشاد
فرمایا:بے شک سیِّدالملائکہ جبرئیل علیہ السلام حُسین کی مدد کر رہے ہیں،اس
لئے مجھے یہ پسند ہوا کہ میں حسن کی مدد
کروں۔
(خصائص کبری،2/465)
پیاس کیسے بجھی؟حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم رسول اللہ ﷺ
کے ساتھ (ایک سفر پر) روانہ ہوئے تو راستے میں ایک جگہ آپ نے امام حسن و امام حسین
رضی اللہ عنہما جو اپنی والدہ ماجدہ رضی
اللہ عنہا کے ساتھ تھے۔ان کے رونے کی آواز
سنی،آپ جلدی جلدی ان دونوں کے پاس پہنچے اور اپنی شہزادی سے پوچھا: میرے بیٹے کو کیا
ہوا ہے؟انہوں نے عرض کی:انہیں پیاس لگی ہے۔رسول اللہ ﷺ پانی تلاش کرنے کے لیے ایک
مشکیزے کی طرف بڑھے (لیکن اس میں پانی نہ
تھا) اس دن پانی نایاب تھا اور لوگ پانی کے طلبگار تھے۔آپ نےآواز لگائی: کیا تم میں
سے کسی کے پاس پانی ہے؟ لوگوں نے اپنے مشکیزوں میں تلاش کیا لیکن کسی کو ایک قطرہ
پانی بھی نہ ملا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ان دونوں میں سے ایک مجھے پکڑاؤ۔انہوں نے پردے کے نیچے سے
شہزادے كو حضور ﷺکی طرف بڑھا دیا،اس وقت وہ مچل مچل کر رو رہے تھے،آپ نے انہیں پیار
سے سینے لگایا اور پھر اپنی مبارک زبان ان کے لیے نکال دی جسے وہ چوسنے لگے یہاں تک کہ پرسکون ہو گئے اور پھر ان
کے رونے کی آواز نہیں آئی۔دوسرے شہزادے اب تک اسی طرح رو رہے تھے۔لہٰذا آپ نے خاتونِ
جنت رضی اللہُ عنہا سے دوسری شہزادے کو لے کر ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا تو پرسکون ہو گئے اور
ان کے رونے کی آواز بند ہو گئی۔حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں ان دونوں شہزادوں سے محبت کیوں نہ کروں جب کہ میں نے رسول
اللہ ﷺ کو ان کے ساتھ ایسا کرتے دیکھا ہے!(معجم کبیر، 3/50، حدیث: 2656)
اللہ پاک کی ان سب پر رحمت ہو اور ان کے صدقے میں ہماری بلا
حساب و کتاب بخشش و مغفرت ہو۔ ہمیں بھی عشقِ اہلِ بیت،ان سب کی زیارتیں اور چل مدینہ کی سعادت نصیب ہو۔اٰمین
.png)
حضور ﷺ کے نواسوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ایک قول کے مطابق
آپ کے پانچ نواسے ہیں:
1) حضرت عبداللہ(حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے)
2)حضرت حسن
3)حضرت حسین
4)حضرت محسن
5)حضرت علی رضی اللہ عنہم۔(نام رکھنے کے احکام،ص 134)
جن میں حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے لعل امام حسن و حسین
کا ذکر کثیر ہے۔حضور ﷺ اپنے نواسوں( امام حسن و حسین) سے بے حد محبت فرمایا کرتے
تھے۔چنانچہ
بعدِ ولادت کرم نوازی:
جب امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اس دنیا میں تشریف
لائے تو حضور ﷺ نے آپ کے کان میں اذان دی، نام مبارک رکھا، گھٹی دی اور عقیقہ فرمایا۔حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہ کو آپ کا سر منڈانے اور سر کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ (معجم کبیر،
1/313، حدیث: 926)(مسند بزار، 2/315 ، حدیث: 743) یہ محبت کی علامت ہے۔
سینے سے لگایا:حضرت یعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت حسنین کریمین دوڑتے ہوئے
حضور ﷺ کے پاس آئے تھے حضور ﷺ نے ان دونوں کو اپنے سینے سے لگا لیا فرمایا:اولاد
بخیل اور بزدل بنا دینے والی ہے۔(مسند احمد،29/104،حدیث:17562)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:اولاد کو
(بخیل اور بزدل) فرمانا ان کی برائی کے لیے نہیں بلکہ انتہائی محبت کا اظہار ہے یعنی
اولاد کی انتہائی محبت انسان کو بخیل و بزدل بن جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔
(مراۃ المناجیح، 6/ 367)
کندھے پر سوار فرمایا:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ حضرت امام حسن و امام حسین
رضی اللہ عنہما کے ساتھ گھر سے باہر نکلے،آپ نے ایک کندھے پر امام حسن رضی اللہ
عنہ کو اور ایک پر امام حسین رضی اللہ عنہ کو سوار کیا ہوا تھا۔رحمتِ عالم ﷺ کبھی
امام حسن رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیتے اور کبھی امام حسین رضی اللہ عنہ کا یہاں تک
کہ آپ ہمارے پاس تشریف لے آئے۔(مستدرک،4/ 156، حدیث: 4830)
حضور ﷺ کی شفقت و محبت :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عشا کی نماز
پڑھ رہے تھے،جب آپ سجدے میں گئے تو امام حسن امام حسین رضی اللہ عنہما آپ کے مبارک
پیٹھ پر چڑھ گئے،آپ ﷺ نے سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے آہستہ
سے اتار دیا، جب آپ نے دوبارہ سجدہ کیا تو ان دونوں نے پھر اسی طرح کیا یہاں تک کہ
آپ نے پوری نماز ادا فرما لی اور ان دونوں کو اپنی زانوں پر بٹھا لیا،میں حضور ﷺ
کے پاس آیا اور عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ! کیا میں ان دونوں کو ان کی والدہ کے پاس چھوڑ آؤں؟ آپ نے فرمایا:نہیں، جب ایک بجلی
سی چمکی تو آپ نے دونوں سے فرمایا: اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ، تو روشنی اس وقت تک
ٹھہری رہی جب تک امام حسن حسین رضی اللہ
عنہما گھر میں داخل نہ ہوگئے۔(مسند احمد،3/ 592، حدیث: 10664)
فضائل و مناقب:حضور ﷺ کا امام حسن حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا
جا سکتا ہے کہ حضور ﷺنے آپ دونوں کے کثیر فضائل ذکر کیے جیسا کہ آپ نے حسنین کریمین
رضی اللہ عنہما کو اپنی گود میں بٹھایا،
سونگھا، اپنے سینے سے لگایا، اپنی مبارک چادر میں لیا، آپ کو جنتی جوانوں کا سردار اور دنیا میں اپنا پھول فرمایا۔(مسند
احمد،10/ 184،حدیث: 266022)
حضرت محمد ﷺ نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی:اے اللہ پاک!میں
حسن حسین سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے
بھی محبت فرما۔ (ترمذی،5/427، حدیث: 3794)اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے
صدقے ہماری بے حساب بخشش ہو ۔آمین
.png)
حضرت سلمان فارسی
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم بارگاہِ رسالت میں بیٹھے تھے کہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا نے خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!حسن
و حسین رضی اللہ عنہما مل نہیں رہے نا جانے کہاں چلے گئے ہیں!دن خوب نکلا ہوا تھا،
آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما سے ارشاد فرمایا:چلو! میرے بیٹوں کو تلاش کرو۔ہر
ایک تلاش کے لیے کسی نہ کسی راستے چل دیا جبکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ چل پڑا
،آپ مسلسل چلتے رہے،حتی کے ہم ایک پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے،(دیکھا کہ) حسن و حسین
رضی اللہ عنہما ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے ہیں اور ایک اژدھا ان کے پاس اپنی دم پر
کھڑا ہے اور اس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں،آپ تیزی سے آگے بڑھے تو وہ اژدھا
آپ کو دیکھ کر سکڑ گیا اور پھر پتھروں میں چھپ گیا،آپ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما
کے پاس تشریف لائے اور دونوں کو الگ الگ کر کے ان کے چہروں کو صاف کیا اور ارشاد
فرمایا:میرے ماں باپ تم پر قربان! تم اللہ پاک کے ہاں کتنی عزت والے ہو۔(معجم کبیر،3/
65،حدیث:2677)
اسی طرح آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ میں بے شمار فضائل
بیان ہوئے ہیں:
حسنین کریمین سے محبت واجب ہے:حضرت عبد اللہ بن
عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب یہ آیت مبارکہ:قُلْ
لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ (پ25،الشوری:23)(ترجمہ
کنزالایمان:تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔)نازل
ہوئی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: آپ کے قرابت دار کون ہیں؟ارشاد فرمایا:علی المرتضی، فاطمۃ الزہرا
اور ان کے بیٹے حسن و حسین رضی اللہ عنہم۔(معجم کبیر،11/351،حدیث
:12259)
فضائلِ حسنین کریمین بزبانِ مصطفےٰ:هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنْ الدُّنْيَا یعنی حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔(بخاری،
2/574،حدیث:3753)
.png)
حضور اکرم، نور مجسم، شاہِ بنی آدم ﷺ کی حسنین کریمین، سیدا
شبابِ اہلِ الجنۃ ،سبطینِ رسول،ریحانتینِ رسول ، راکبینِ دوشِ مصطفےٰ سے محبت مثالی
تھی۔آقائے شہزادگانِ خیر النساء سیدہ فاطمۃ الزہرا ﷺ و رضی اللہ عنہم نے حسنین کریمین
رضی اللہ عنہما کا خود عقیقہ فرمایا۔(مصنف عبد الرزاق،4/254،حدیث: 7993)جبکہ
عموماً والدین یہ کام سر انجام دیتے ہیں۔پھر ان دونوں پاکباز ہستیوں کو گھٹی بھی
آپ نے دی۔(البدايۃ والنہایہ، 5/519)پھر جن کے بارے حضور فرمائیں کہ ”اے اللہ!میں
ان سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی ان سے محبت کر “ان کی شان کا کوئی احاطہ کر ہی نہیں
سکتا۔چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک رات کسی کام سے نبیِ
اکرم،نورِ مجسّم ﷺ کی خدمت میں گیا تو نبیِ پاک،صاحبِ لولاک ﷺ اس طرح تشریف لائے
کہ آپ کسی چیز کو گود میں لیے ہوئے تھے، مجھے خبر نہ تھی کہ وہ کیا ہے، جب میں
اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تومیں نے پوچھا:یہ کیا ہے جو آپ گود میں لیے ہوئے ہیں؟ حضور
ﷺ نے اسے کھولا تو حَسن و حُسین رضی اللہ عنہما آپ کی آغوش میں تھے،پھر آپ نے اِرْشاد فرمایا:یہ دونوں میرے بیٹے ،میری
بیٹی کے بیٹے ہیں۔الٰہی! میں ان دونوں سے مَحَبَّت کرتا ہوں تُو بھی ان سے
مَحَبَّت کر اور جو اِن سے مَحَبَّت کرے اس سے بھی مَحَبَّت کر! ۔(1)
حضور ﷺ نے ان سے محبت کو اپنی ذات سے محبت کرنا قرار دیا جیسا
کہ ابنِ ماجہ کی حدیثِ پاک میں ہے: مَنْ اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ یعنی جس نے ان
دونوں سےمحبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی
اس نے مجھ سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی۔(2)
اللہ اکبر ! اندازہ لگائیے کہ حضور کے نزدیک امام حسن و حسین
رضی اللہ عنہما کا مقام و مرتبہ کس قدر
بلند اور آپ کی ان سے محبت کتنی زیادہ ہے!
حضور ﷺ آپ سے محبت کا جید صحابہ کرام کے سامنے بھی اظہار
فرماتے تھے جیسا کہ ایک دفعہ امیرُ المؤمنین حضرت عُمر فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت امام حَسن اور حضرتِ اما م حُسین رضی
اللہ عنہما کو سرکار ﷺ کے کندھوں پر سُوار دیکھاتو کہا:آپ دونوں کی سُواری کیسی
شاندار ہے؟تونبی ﷺ نے اِرْشاد فرمایا:اور
سوار بھی تو کیسے لاجواب ہیں۔(3)
پھر جنتی جوانوں کے سردار کی شان دیکھئے کہ سرکار مدینہ ﷺ
سے پوچھا گیا کہ أی اھل بیتک احب الیک کہ آپ کو اہلِ
بیت میں کون سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ تو ارشاد فرمایا:حسن اور حسین رضی اللہ عنہما۔حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور ﷺ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے فرماتے: میرے بچوں کو میرے پاس لاؤ، پھر انہیں سُونگھتے اور اپنے ساتھ لپٹالیتے۔
(4)
کیسا خوبصورت اور
دلنشین انداز ہے!حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث
کے تحت فرماتے ہیں:حضور انہیں کیوں نہ سُونگھتے وہ دونوں تو حضور ﷺ کے پھول تھے
،پھول سُونگھے ہی جاتے ہیں،انہیں کلیجے سے لگانا لپٹانا انتہائی محبت و پیار کے لیے
تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ چھوٹے بچوں کو سُونگھنا، ان سے پیارکرنا،انہیں لپٹانا چمٹا
نا سنتِ رسول ہے۔(5)
حضور ﷺ نے انہیں اپنا پھول قرار دیا۔چنانچہ ترمذی شریف کی حدیثِ
پاک ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: هُمَا رَيْحَانَتَايَ
مِنْ الدُّنْيَا یعنی حَسن وحُسَین
دُنیا میں میرے دو پُھول ہیں۔(6)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں محبتِ حسنین کریمین سے
لبریز ، خوبصورت اشعار فرمائے:
اُن دو کا صدقہ جن کو کہا
میرے پُھول ہیں
کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل
(حدائقِ بخشش، ص77)
کیا
بات رضاؔ اُس چَمَنِسْتانِ کرم کی
زَہرا
ہے کلی جس میں حُسَیْن اور حَسَن پھُول
(1)(تاریخ الخلفاء، ص 149روضۃ الشهداء (مترجم) ، 1 /396)
(2)(مسند بزار،
2/315، حدیث:743)(مستدرک، 4/154، 155، حدیث:4826)
(3)(ترمذی ،5/427،حدیث:3794)
(4) (ابن ماجہ،1/96، حدیث:143)
(5)(ترمذی ،5/432، حدیث: 3809)
(6) (ترمذی، 5/428، حدیث:3797)
(7)(مراۃ المناجیح،8/477)