حضور ﷺ کی اپنے نواسوں سے محبت از بنتِ محمد
اسحاق عطاریہ،قادر پوراں ملتان
حضور ﷺ اپنے اہلِ بیت سے
بے پناہ محبت رکھتے تھے اور آپ ﷺ
اپنے اہلِ بیت کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے۔نبی کریم ﷺکو اہلِ بیت میں سب سے زیادہ
عزیز اور محبوب حسنین کریمین رضی اللہ عنہما
تھے۔آپ ﷺ اپنے دونوں نواسوں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اپنے نواسوں کو اپنے کندھوں
پر سوار کر لیا کرتے تھے حتی کہ نماز میں سجدے کی حالت میں دونوں پشتِ اطہر پر
سوار ہوتے تو آپ سجدہ طویل کر دیا کرتے اور جب سجدہ سے سر اقدس اٹھاتے تو انہیں آرام سے زمین پر
بٹھا دیتے۔چنانچہ
حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سےمروی ہے کہ ایک روز ہم سرکارِ
نامدار،مدینے کے تاجدار ﷺ کے ساتھ نمازِ عشاء ادا کر رہے تھے۔ سرکار ﷺ جب سجدے میں
گئے تو امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما آپ کی پشتِ مبارک پر سوار ہو گئے، آپ نے سجدے سے سر اٹھایا تو ان کو
نرمی سے پکڑ کر زمین پر بٹھا دیا، پھر جب آپ دوبارہ سجدے میں گئے تو امام حسن اور
امام حسین رضی اللہ عنہما نے دوبارہ ایسے
ہی کیا حتی کہ آپ نے نماز مکمل فرما لی اور ان دونوں کو اپنی رانوں پر بٹھا لیا۔(مسند
احمد،5/426،حدىث:16033)
اسی طرح بچپن میں ایک
مرتبہ خطبے کے دوران دونوں شہزادے مسجد میں تشریف لائے تو نبی پاکﷺ خطبہ چھوڑ کر ان کے پاس گئے اور انہیں اٹھا کر اپنے سامنے بٹھا لیا۔(ترمذی،5/ 429،حدیث:
3799)
اللہ پاک کے حبیبﷺ حسنین کریمین یعنی حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے اس قدر محبت فرماتے تھے کہ دونوں
شہزادوں کو کسی تکلیف میں مبتلا دیکھنا بھی گوارا نہیں تھا۔بہت سی احادیثِ مبارکہ
میں حضورﷺ کی دونوں شہزادوں سے بے انتہا محبت کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ پاک ﷺ سے عرض کی گئی:آپ
کے اہلِ بیت میں آپ کو زیادہ پیارا کون ہے؟ فرمایا:حسن اور حسین۔آپ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے فرمایا کرتے کہ میرے بچوں کو میرے پاس
بلاؤ پھر انہیں سونگتے اور اپنے ساتھ چمٹا لیتے۔
(ترمذی،5/428، حدیث:
3797)
حضور ﷺ نے ایک اور حدیثِ
پاک میں ارشاد فرمایا: حسن و حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔
(ترمذی ،5/426 ،
حدیث: 3793)
حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو لوگ جوانی میں وفات پائیں
اور یہ اور ہوں بھی جنتی تو حضرت حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ان کے سردار ہیں۔ورنہ جنت میں تو سب ہی جوان
ہوں گے۔(مراۃ المناجیح،8/475)
ایک اور مقام پر
فرمایا: حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔( بخاری،2/ 547 ،حدیث:3753)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:فرمانِ نبوی کا مطلب یہ
ہے کہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما دنیا میں جنت کے پھول ہیں،جو مجھے
عطا ہوئے، ان کے جسم سے جنت کی خوشبو آتی ہے اس لیے حضور اکرم ﷺ انہیں سونگھا
کرتے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرماتے:السلام
علیک یا ابا ریحانین یعنی اے دو پھولوں کے ابو! تم پر سلام ہو۔( مراۃ المناجیح، 8 /462)
اُن دو کا صدقہ جن کو کہا
میرے پُھول ہیں
کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل
(حدائقِ
بخشش، ص77)
ایک اور مقام پر
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:جیسے باغ والے کو سارے باغ میں پھول پیارا ہوتا ہے ایسے ہی دنیا کی
تمام چیزوں میں مجھے حضرات حسنین کریمین پیارے
ہیں۔اولاد پھول ہی کہلاتی ہے۔سارے نواسے نواسوں میں حضور ﷺ کو یہ دونوں فرزند بہت
پیارے تھے۔
(مراۃ المناجیح،8/
475)
فرمایا: یہ میرے دونوں بیٹے میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔الٰہی!میں
ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور جو ان سے محبت کرے اس سے بھی محبت
فرما۔(تاریخ الخلفاء،ص149)
جب صحابہ کرام علیہم الرضوان نے سرکار ﷺ کو اپنے اہلِ بیت اور پیارے نواسوں سے بے انتہا محبت کرتے دیکھا تو آپ سے
نسبت کی وجہ سے یہ حضرات بھی ان سے محبت و شفقت سے پیش آتے اور آپ کے وصالِ ظاہری کے بعد
بھی آپ کے اہلِ بیتِ اطہار اور بالخصوص حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کا بے حد خیال رکھا کرتے۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
فرماتے ہیں:جب یہ آیت ِمبارکہ نازل ہوئی:
قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ
اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ (پ 25،الشوری:23 )ترجمہ: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت
نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔
تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یا رسول اللہﷺ!آپ کے
وہ کون سی قرابت دار ہیں؟فرمایا: علی المرتضی، فاطمۃ الزہر اور ان کے دونوں بیٹے(حسن
اور حسین)۔
(معجم
کبیر،11/351،حدیث
:12259)
نبی کریم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے:کوئی بندہ مومن کامل نہیں
ہو سکتا، جب تک کہ مجھے اپنی جان سے بڑھ
کر نہ چاہے اور میری ذات،اسے اپنی ذات سے بڑھ کر محبوب نہ ہو اور میری اولاد اس کو
اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہو اور میرے اہلِ بیت اسے اپنے گھر والوں سے بڑھ کر پیارے اور محبوب نہ ہو جائیں۔
(شعب الایمان، 2/189، حدیث:1505)
معلوم ہوا کہ اہلِ
بیت علیہم الرضوان کی محبت واجب اور ضروری ہے۔ہر مسلمان کے نزدیک اپنی جان و مال،
عزت و آبرو،ماں باپ اور اولاد سے بھی زیادہ محبوب اہلِ بیت کرام علیہم الرضوان
ہونے چاہئیں۔ان مبارک ہستیوں کی محبت حضور ﷺکی محبت ہے اور حضور ﷺکی محبت ایمان کامل کی نشانی ہے۔ اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت علیہم الرضوان کے نقشِ قدم پر چلنے
اور ان سے بے پناہ محبت کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ