روزہ
کالغوی معنی ہے "اِمساک یعنی رُکنا"، شرعی اصطلاح میں روزے کے معنی ہے"
صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے
پینے اور جماع سے رُکنے کا نام روزہ ہے"، جہاں روزے کے فقہی (ظاہری) احکام ہیں، وہیں اِس کے باطنی احکام بھی ہیں، جو شخص صبحِ صادق سے لے کر مغرب تک صرف کھانے پینے اور جماع سے رُکا رہے، فقہاء کے نزدیک
اس نے روزے کو مکمل کر لیا، لیکن اہلِ باطن کے نزدیک یہ کافی نہیں۔
اِمام
غزالی علیہ رحمۃ اپنی مایہ
ناز تصنیف "احیاءُالعلوم" میں فرماتے ہیں:" خاصُ الخاص لوگوں کا روزہ
دِل کو بُرے خیالات اور دنیوی فکروں بلکہ اللہ عزوجل کے سوا ہر چیز سے مکمل طور پر خالی کرنا ہے، اس صورت میں جب اللہ عزوجل کے سوا کوئی دوسری فکر یا دنیوی فکر آئے گی تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔(احیاء العلوم مترجم، ج 1، ص712، مکتبۃ المدینہ)
یقیناً
جو اِس طرح روزہ رکھ لے، اس کے روزے کی قبولیت سے کیا چیز مانع ہو سکتی ہے، مزید فرماتے ہیں:"فقہائے ظاہر وہی پابندیاں
بیان کرتے ہیں جو عام غافل اور دنیا کی طرف متوجّہ ہونے والے لوگوں کے لئے آسان
ہوں، لیکن فقہائے آخرت روزے کی صحت سے
قبولیت مُراد لیتے ہیں اور قبولیت سے مراد مقصود تک رسائی ہے۔"(ایضاً، ص 712)
حضرت
عبد اللہ بن عمر وبن عاص رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:"اِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطرہ لدَعْوَۃُٗ مَّا ترَدّ۔بیشک
روزے دار کے لئے اِفطار کے وقت ایک ایسی دُعا ہوتی ہے جو رَد نہیں کی جاتی۔"
(الترغیب والترہیب، ج 2، ص 53،
حدیث 29، فیضان رمضان، ص 192)
الغرض جس طرح روزے میں اپنے آپ کو ظاہری عَوارضات سے بچانا ضروری ہے ، اِسی طرح باطنی عَوارضات سے بچانا بھی ضروری ہے، یہی وہ زرائع ہیں جو قبولیتِ روزہ کی دلیل ہیں، جیساکہ فیضان سنت، جلد اوّل، صفحہ نمبر 1057 پر ہے:"جھوٹ، غیبت، چُغلی، بد
نگاہی، گالی دینا وغیرہ ویسے بھی ناجائزو حرام ہیں، روزے میں اور زیادہ حرام اور
ان کی وجہ سے روزہ میں کراہیت آتی ہے اور روزے کی نورانیت چلی جاتی ہے۔"
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں روزہ تمام تر ظاہری اور باطنی آداب کے ساتھ
رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین
”روزہ عرف شرع
میں مسلمان کا بہ نیّت عبادت صبح صادق سے
غروب آفتاب تک اپنے کو قصداً کھانے پینے جماع سے باز رکھنے کا نام ہے“۔ (بہار
شریعت ج1، ح5، ص966) ۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے روزے جیسی عظیم
الشان عبادت ہمیں عطا فرمائی۔ جس کا دنیاوی و اخروی، جسمانی و روحانی فائدہ ہی
فائدہ ہے۔ اس کی قبولیت کے بھی کچھ ذرائع ہیں اگر ان کا لحاظ رکھا جائے تو اللہ سے قوی امید ہے کہ نہ صرف وہ روزے کو قبول کرے
گا بلکہ اپنی رحمت کے مطابق اجر عظیم بھی عطا فرمائے گا۔
اخلا:
روزہ دار کو چاہیے صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے روزہ رکھے۔ آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اخلاص کے ساتھ عمل کرو کہ اخلاص کے ساتھ تھوڑا عمل بھی تمہیں کافی ہے ۔ (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص 26)
شریعت کے اصولوں کی
پاسداری:
روزہ دار کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ وہ روزے کے
شرعی احکام سیکھے مثلاً وہ کون سی چیزیں ہیں جن سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، روزے کے
مکروہات کون کون سے ہیں وغیرہا۔ اس مقصد کے لیے امیر اہلسنت مولانا الیاس قادری
صاحب دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی کتاب ”فیضان رمضان “ کا مطالعہ بے حد مفید ہے۔
گناہوں سے بچنا:
روزے کے دوران گناہوں اور فضولیات سے بچنا
انتہائی ضروری ہے چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ نے فرمایا:
جو بری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ کو
کچھ حاجت نہیں۔ (فیضان سنت، ص967، 968)
روزہ کو مخفی رکھنا:
روزہ دار کو چاہیے کہ وہ بلاوجہ دوسروں کو یہ نہ
بتاتا پھرے کہ وہ روزہ دار ہے، اس سے نہ
صرف ثواب کے ضائع ہونے کا خوف ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ تکبر، خود پسندی جیسی
خطرناک باطنی بیماریوں کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ” تم میں سے جو کوئی نیک اعمال پوشیدہ رکھنے کی
طاقت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ ایسا ہی کرے (یعنی اپنے نیک اَعمال کو پوشیدہ
رکھے)“۔ (نیکیاں چھپاؤں، ص12 )
عاجزی:
مذکورہ بالا تمام باتوں پر عمل کرنے کے بعد کوئی
یہ ہرگز نہ سمجھے کہ اب روزہ قبول ہے کیونکہ کیا معلوم کہ روزہ میں کونسی کمی رہ
گئی ہو بلکہ ڈرتا رہے کہ اللہ قبول کرتا بھی ہے یا نہیں، ساتھ ہی یہ بھی امید
رکھے کہ اللہ رحیم
ہے وہ اپنی رحمت سے میرا روزہ قبول فرما
لے گا۔
دعا:
روزے کی قبولیت کے لیے دعا لازمی کرنی چاہیے
کیونکہ آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ”دعا مومن
کا ہتھیار ہے اور دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے”۔ (خزینہ رحمت، ص15)
دعا اس طرح کرے؛ ”یا
اللہ! تو نے مجھے کمزور پیدا کیا پھر یہ کیونکر ممکن
ہو سکتا ہے کہ تیری شان کے مطابق میں روزہ رکھتا، میں اپنی طرف سے جو بھی کوشش کر
سکتا کی، اے میرے پیارے پیارے اللہ ! میرے عمل کو مت دیکھ بلکہ تو رحیم و
کریم ہے اپنی رحمت کے صدقے میرا روزہ قبول فرما لے اور روئے زمین پر جس جس نے روزہ
رکھا، قبول فرما لے، بے شک تو اپنے بندے کی دعا کو رد نہیں فرماتا۔ آمین!“
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ہمیں بخیر و عافیت رمضان
المبارک تک پہنچائے اور رمضان کے فرض روزے رکھنے کے علاوہ نفل روزے رکھنے کی توفیق
بھی عطا فرمائے۔ اٰمین
عربی لغت میں
صوم (روزہ)کا معنی ”باز رہنا“ ہے۔ شریعت میں
صبح سے شام تک بنیتِ عبادت صحبت سے اور کسی چیز کے پیٹ یا دماغ میں داخل
کرنےسے باز رہنے کو صوم کہا جاتا ہے۔
( مراةالمناجیح
،جلد3 ، کتاب الصوم)
روایت ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو ایمان و اخلاص سے رمضان کے روزے رکھے اس کے
پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔ (صحیح بخاری)
کھانے پینے اور صحبت وغیرہ سے صبح صادق سے لے کر
غروبِ آفتاب تک رکے رہنا فقط عوامی روزہ ہے لیکن خواص کا روزہ یہ ہے کہ ان معاملات
کے ساتھ ساتھ تمام ظاہری و باطنی گناہوں سے اپنے پورے بدن کو بچاتے ہوئے رضائے الٰہی پانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ الغرض کہ کامل
روزہ وہی ہے جس میں ایمان کے ساتھ ساتھ اخلاص کا ہونا بھی لازم ہے ۔
کافر اگرچہ تمام برائیوں سے بچ کر روزہ رکھے پھر
بھی اس کا روزہ قبول نہیں کیونکہ اُسکے پاس ایمان نہیں بلکہ تمام برائیوں سے بچنے
کے باوجود ایک سب سے بڑا مرض ”کفر“ اسے لاحق ہے۔ اور اگر کوئی شخص روزہ رکھنے کا مقصد صرف علاج رکھے اور ثواب
کی طلب نہ ہو تو اسکے لئے کوئی اجر نہیں کیونکہ روزہ فقط بھوکے،پیاسے رہنے کا نام
نہیں بلکہ یہ عمل ایک عبادت ہے اور عبادت اس وقت ہی کامل ہے جب اسکا مقصد حصولِ رضائے
ہو۔ امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ احیا ء العلوم میں فرماتے ہیں کہ خاص لوگوں کا
روزہ اولیائے کاملین علیہمُ الرّضوان کا روزہ ہے اور وہ یہ کہ اپنے
اعضا کو گناہوں سے بچانا۔یہ روزہ چھ باتوں سےمکمل ہوتا ہے :
(1) آنکھ
کا روزہ :
ان چیزوں کو
دیکھنے سے بچنا جو بری اورمکروہ ہیں اور نظر کو ہر اس چیز سے بچانا جو دل کو
(دنیاوی کاموں میں ) مشغول کر کے ذکرِ الٰہی سے غافل کر دے۔
(2) زبان
کا روزہ :
زبان کوبیہودہ گفتگو کرنے، جھوٹ،غیبت، چغلی، فحش
گو، ظلم ،لڑائی ، ریاکاری، اور خاموشی اختیار کرنے سے بچا کر ذکرِ الٰہی اور
تلاوتِ قرآن میں مشغول رکھنا۔ 3) کانوں کا
روزہ :
یہ ہے کہ انہیں ہر بری بات سننے سے روکنا کیونکہ
جس بات کا کرنا حرام ہے اس کی طرف توجہ دینا بھی حرام ہے۔
بقیہ اعضاء کو گناہوں سے بچانا :
(3) ہاتھ کا روزہ :
گناہوں اور
نا پسندیدہ امور سے بچنا ۔
پیٹ کا روزہ : افطار کے وقت اسے شبہات سے بچانا۔
(5) افطار کے وقت پیٹ بھر کر حلال کھانے سے
بچنا۔
(6) افطار کے بعد روزے دار کے دل کا امید و خوف
کے درمیان رہنا۔
قبولیتِ روزہ
کے بے شمار ذرئع ہیں جن میں سے ایک اعلٰی درجے کی عبادت تلاوتِ قرآن مجید بھی ہے۔
نزولِ کلامِ الٰہی رمضان میں ہوا اور رمضان ہی میں سب سے زیادہ تلاوتِ قرآن مجید
ہوتی ہےکہ روزہ دار ابھی روزہ افطار کر کے اپنے بدن کو تقویت دلاتا اور جسم کوآرام
کراتا ہی ہے کہ نمازِ عشاء کا وقت ہوتے ہی مسجدکا رخ کرتا ہے اور نماز و تراویح
میں کلامِ الٰہی سننے کی سعادت حاصل کرتا ہے ۔ انھیں مومنوں کے حوالے سے حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا ،” روزے اور قرآن بندے کی شفاعت کریں گے ، روزے عرض کریں گے یا رب ! میں نے
اسے دن میں کھانے اور شہوت سے روکے رکھا لہٰذا اس کے بارے میں میری شفاعت قبول کر
اور قرآن کہے گا میں نے اسے رات سونے سے روکا لہٰذا اس کے متعلق میری شفاعت قبول
کر ۔ دونوں کی شفاعت قبول ہوگی“۔(بیہقی شعب الایمان)
ٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ
مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے
گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے ۔(پ2،البقرۃ:183)
توحید و رسالت کا اقرار کرنے اور
تمام ضروریاتِ دین پر ایمان لانے کے بعد جس طرح ہر مسلمان پر نماز فرض ہے، اسی طرح رمضان شریف کے روزے بھی ہر مسلمان عاقل
و بالغ پر فرض ہیں، دُرِّمختار میں ہے"
کہ روزے 10 شعبان، 2 ہجری کو فرض ہوئے۔"
سُرخ یاقوت کا مکان
:
امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا عمرفاروق اعظم رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم، رؤف
الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے:"جس نے ماہِ رمضان کا ایک روزہ
بھی خاموشی اور سکون سے رکھا، اس کے لئے
جنت میں ایک گھر سُرخ یاقوت یا سبز زبرجد کا بنایا جائے گا۔( مجمع الزوائد، ج3،
صفحہ 346)
جسم کی زکوٰۃ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور پر نور، شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمان پُرسُرور ہے:" ہر شے کے لئے زکوۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ آدھا صبر ہے۔"( سنن ابن ماجہ، ج2 ، صفحہ 347)
سونا بھی عبادت ہے:
حضرت سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے، مدینے کےتاجور، محبوبِ ربِّ اکبر صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ
منور ہے:"روزہ دار کا سونا بھی عبادت اور اس کی خاموشی تسبیح کرنا اور اس کی
دعا قبول اور اس کا عمل مقبول ہوتا ہے۔"( شعب ایمان، ج3، ص 415 )
روزہ کی اگرچہ ظاہری شرط یہی ہے
کہ روزہ دار قصداً کھانے پینے اور جماع سے باز رہے، ایک مقام پر فرمایا:" صرف کھانے اور پینے
سے باز رہنے کا نام روزہ نہیں، بلکہ روزہ
تو یہ ہے کہ لغو اور بے ہودہ باتوں سے بچا جائے" مطلب یہ ہے کہ روزہ دار کو
چاہئے کہ وہ روزے میں جہاں کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے، وہاں جھوٹ، غیبت، چغلی، بدگمانی، الزام تراشی اور بدزبانی وغیرہ گناہ بھی چھوڑ دے
کہ ان کے چھوڑنے پر ہی روزہ قبول ہوگا۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے روزوں کوقبول فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ
النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
روزہ بھی مثلِ نماز فرضِ عین ہے، روزہ عربی زبان میں" صوم" کو کہتے ہیں
اور اس کا معنیٰ روکنا ہے، اِصطلاحِ شرع
میں مسلمان کابہ نیتِ عبادت صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک اپنے آپ کو کھانے پینے
اور جماع سے باز رکھنے کا نام روزہ ہے۔
روزہ کی قبولیت کے ذرائع میں روزہ
کے مقاصد کو مدِّنظر رکھا جائے گا تو اس
کی قبولیت کا قوی اِمکان ہے، یعنی یوں
کہنا غلط نہ ہوگا کہ روزہ کے مقاصد کو پورا کرنا ہی اس کی قبولیت کا ذریعہ ہے۔
تقوی روزے کی
قبولیت کا ذریعہ:
قرآن پاک میں اِرشادِ ربّانی ہے
کہ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے، جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں
پرہیزگاری ملے۔(سورۃ بقرہ:183)
معلوم ہوا کہ روزوں کی فرضیّت کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری ہے، تقوٰی دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہوجانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک
معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کو بے تابانہ تڑپ ہوتی ہے، یعنی اللہ پاک کی رِضا کا حصول اور تقوی کا حصول
نیکیوں کو اختیار کرتے ہوئے گناہوں سے بچنا ہے
اور یہی روزہ کی قبولیت کا ایک ذریعہ ہے۔
اللہ پاک کی
کبریائی کا اظہار:
روزہ کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ مسلمان اللہ
تعالی کی کبریائی اور اس کی عظمت کا اظہار کرے، اب جب مقصد اظہارِ عظمت و کبریائی
کہ اللہ پاک جاہ و جلال اونچی شان والا ہے، تو اس کی شان کے عین لائق یہ ہے کہ اللہ پاک کی
بندگی اس کے حق کے مطابق کرے اور حق یہ ہے کہ اس کی نافرمانی والے کاموں کو روزہ
میں چھوڑ دے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم ہے:جو روزہ دار بُری بات کہنا اور بُرے کام کرنا نہ چھوڑے ، اللہ تعالی کو اس
کے بھوکے پیاسے رہنے کی کچھ پرواہ نہیں۔(بخاری شریف)
تو یہ بھی اس کی قبولیت کا ایک ذریعہ ہے کہ
نافرمانی والے کاموں کو چھوڑ دیا جائے، ایک اور اِرشادِ پاک ہے:روزہ محض کھانے پینے سے
رُکے رہنے کا نام نہیں، بلکہ روزہ کی اصل
یہ ہے کہ لغو اور بے ہودہ باتوں سے بچاجائے۔(حاکم)
تو یہ تمام مقاصد روزہ کی قبولیت
کا سبب ہیں کہ محض بھوکا پیاسا رہنا روزہ نہیں، بلکہ لغوکاموں کو ترک کرنا اس کی قبولیت کا
ذریعہ ہے ۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں
باکمال روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
علیہ وسلم
روزہ
ارکانِ اسلام میں سے ایک رُکن ہے، یہ بَدنی
عبادت ہے، روزے کے متعلق اللہ تبارک
تعالیٰ کا فرمان ہے:" کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی
جزا دوں گا۔"
اب یہ سُوال ہے کہ روزے کی قبولیت کے ذرائع
کونسے ہیں تو اِس میں سب سے پہلی چیز وہ یہ
ہے کہ اخلاص عبادت میں ضرور ہو، اخلاص سے
مراد یہ کہ جو کام بھی کیا جائے، خالصتاً اللہ
کی رضا کے لیے کیا جائے یعنی روزہ رکھنے میں مقصود ربّ تعالیٰ کی رِضا ہو، پھر چونکہ ہم روزے کی قبولیت پر بحث کر رہے ہیں
تو اِس میں یہ اَمر بھی پیش ِنظر رہے کہ
وقت پر روزہ بند کیا جائے اور وقت پر ہی افطار کیا جائے، پھر یہ دیکھا جائے گا کہ روزہ کس طرح گزارا، کیا مکمل ٹائم سو کر گزارا یا عبادت میں گزارا، ہاں! روزے میں حقوق اللہ عزوجل اور حقوق العباد کی بجا آوری کے
ساتھ جو نیندکی جاتی ہے، وہ بھی عبادت میں
ہی شمار ہوتی ہے، پھر ہمیں انبیائے کرام
اور ہمارے اَسلاف کے روزوں کے متعلق بھی
معلومات ہونی چاہئے کہ اِن نُفوسِ قُدسیہ نے کس طرح روزے رکھے، پھر دنیا کی محبت دِل سے
نکالنا بھی ضروری اَمر ہے کہ دنیا کی محبت غم بڑھاتی اور ہر گناہ کی جڑ ہے، جبکہ دنیا سے بے رغبتی ہر نیکی اور بھلائی کی بُنیاد
ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم
نے اِرشاد فرمایا:"یعنی دنیا سے بے رغبتی دل اور بدن کو آرام دیتی ہے۔"
اِس کے علاوہ خاموشی اختیار کرنے میں بھی عافیت
ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم نے
ارشاد فرمایا:"مَنْ صَمَتَ نَجَاََ۔
جو چُپ رہا، اُس نے نجات پائی۔"
مزید آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا
فرمانِ عالیشان:" خاموشی پر قائم رہنا ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔"
پھر
کم کھانا بھی روزے کی قبولیت کے ذرائع میں سے ایک زریعہ ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اِرشاد
فرمایا:" کہ آدمی نے پیٹ سے زیادہ بُرا کوئی برتن نہیں بھرا ، اِبنِ آدم کو
چند لُقمے کافی ہیں، جو اس کی پیٹھ کو سیدھا
کر دیں، اگر زیادہ کھانے کی ضرورت ہو تو تہائی
پیٹ کھانے کے لئے اور تہائی پانی کے لئے اور تہائی سانس کے لئے رکھے۔" لہذا زیادہ کھانے سے عبادت میں سُستی آتی ہے، پھر جس کام کے کرنے میں زیادہ مشقت ہو گی، اُتنی ہی اس کی قبولیت کی سند پُختہ ہو گی۔
حجّاج
بن یوسف ایک مرتبہ دورانِ سفر ِ حج مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک منزل پر اُترا
اور دوپہر کا کھانا تیار کروایا اور اپنے
محافظ سے کہا کہ کسی مہمان کو لے آؤ، محافظ
خیمے سے باہر نکلا تو اسے ایک اَعرابی لیٹا ہوا نظر آیا، اس نے اُسے جگایا اور کہا:" چلو! تمہیں اَمیر
حجاج نے بلایا ہے"، اعرابی آیا تو
حجاج نے کہا:" میری دعوت قبول کرو اور ہاتھ دھو کر میرے ساتھ کھانا کھانے بیٹھ جاؤ"، اعرابی بولا:" معاف فرمائیے
آپ کی دعوت سے پہلے میں آپ سے بہتر ایک کریم کی دعوت قبول کر چکا ہوں، حجاج نے کہا: وہ کس کی؟ بولا:" اللہ عزوجل کی، جس نے مجھے روزہ رکھنے کی دعوت دی، میں روزہ رکھ چُکا ہوں، حجاج نے کہا:" اِتنی سخت گرمی میں روزہ! ا
عرابی نے کہا: ہاں! قیامت کی سخت ترین گرمی سے بچنے کے لئے، حجاج نے کہا: آج کھانا کھا لو کل روزہ رکھ لینا، اَعرابی بولا: کیا آپ اس بات کی ضمانت دیتے ہیں
کہ میں کل زندہ ہوں گا؟ حجاج نے کہا:میں ایسا نہیں کر سکتا، اَ عرابی بولا: پھر آپ
مُجھ سے دیر سے آنےوالے کے بدلے میں اِس جلدی آنے والے کے بارے میں کیسے کہہ سکتے ہیں، جس پر آپ قادر نہیں۔بہر حال صبرو
برداشت بھی روزے کی قبولیت کے ذرائع ہیں۔
روزے
کی قبولیت کے بہت سے زرائع ہیں، اِن میں
پہلا تو یہ ہے کہ سب سے پہلے روزہ رکھ کر اس کے مُکمل تقاضے پورے کریں، آیئے پہلے اَصل روزہ کیا ہے؟ اِسکی حقیقت اور
تقاضے کیا ہیں؟ یہ جانتے ہیں:
روزے کی حقیقت وتقاضے :
حضرت
داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں، روزے
کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے
رہنے کی بہت سی شرائط ہیں:
مثلاً
معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ
کو شَہوانی نظر سے روکے رکھنا، کان کو غیبت
سننے، زبان کو فضول اور فِتنہ انگیز باتیں
کرنے اور جسم کو حُکمِ الٰہی عزوجل
کی مخالفت سے روکے رکھنا روزہ ہے۔(کشف المحجوب، صفحہ354/353)
جب
بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا تو ان
شاءاللہ اسکا روزہ ضرور مقبول
ہو گا، اِسی طرح معاذ اللہ بہت سے
نادان روزےمیں ٹائم پاس کرنے کے لیے اِحترامِ رمضان کو ایک طرف رکھ کر حرام وناجائز
کاموں کا سہارا لے کر وقت پاس کرتے ہیں اور یوں رمضان شریف میں شطرنج، تاش، لڈو، گانے باجے وغیرہ میں مشغول ہو جاتے ہیں، لہذا چاہئے کہ حرام وناجائز کاموں سے بچے۔(فیضانِ
رمضان، صفحہ94)
لہذا
جو اِن تمام ناجائز کاموں سے بچے تو اس کا روزہ مقبول ہوگا۔۔
اِسی
طرح گناہوں سے توبہ کرے، کیونکہ روزے میں
گناہ کرنے سے روزے کی روحانیت چلی جاتی ہے، جب بندہ گناہوں سے توبہ کرلے اور روزے کی حالت میں
کثرت سے نیکیاں کرے، اِستغفار کرے، فضول کاموں میں نہ پڑے، اسی طرح ماں باپ کی
نافرمانی اور لوگوں کی دِل آزاری سے بچتے ہوئے روزہ گزارے، اللہ تعالی
کی رِضا کے لئے ماں باپ کے دل میں خوشی داخل کرے، ماں باپ کے دل سے آپ کے لئے دُعا نکلے گی، تو انشاءاللہ
روزہ ضرور قبول ہوگا۔
یا اللہ عزوجل ہمیں صحیح طریقے سے روزہ
رکھنے کی توفیق عطا فرما اور ہمارے روزوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔اٰمین
دینِ
اسلام ایک بہت ہی خوبصورت اور پیارا دین
ہے، اِس کی بُنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی
ہے کہ بخاری و مسلم شریف کی حدیثِ مبارکہ ہے "اِسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر
رکھی گئی ہے، یہ گواہی دینا کے اللہ
کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور بےشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
(2)نماز
قائم کرنا(3)زکوۃ ادا کرنا(4)حج کرنا(5)اور رَمضان المبارک کے روزے رکھنا۔
(اربعین نوویہ مکتبۃ المدینہ، ص36)
اِن
پانچ باتوں میں سے ایک بنیادی بات روزہ رکھنا بھی ہے، روزہ رکھنا رمضان المبارک کے مہینے میں فرض ہے اور عام حالات میں نفل ہے، چند ایّام کے روزے رکھنا سنت و مستحب بھی ہے۔
روزے کی تعریف:
الصوم عصو الامساک عن الا کل والشرب والجماع نھارا مع
النیۃ
روزے
کے معنی ہیں رُکنا (اِصطلاح)روزہ دن کے وقت نیت کے ساتھ کھانے پینے اورجماع سے رُکنے
کا نام ہے۔
روزہ رکھنے کے کثیر فوائدو فضائل ہیں، روزہ باطنی عبادت ہے کہ یہ ہمارے بتائے بغیر کسی
کو معلوم نہیں ہوسکتی اور باطنی عبادت ربِّ کریم کو زیادہ پسند ہے۔
روزے کی فضیلت:
اللہ کی آخری نبی محمدِ عربی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:"جس
نے ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایک نفل روزہ رکھا، تو اللہ عزوجل
اسے دو زخ سے چالیس سال ( کا فاصلہ)دور فرما دے گا ۔"
روزے کی قبولیت کے ذرائع:
یاد
رکھیں! صرف خود کو بھوکا پیاسا رکھنے کا نام ہی روزہ نہیں، بلکہ اپنے تمام اعضاء کو گناہوں سے بچانے اور ان سے روکنے کا نام حقیقی روزہ ہے، اگرچہ اعضاء کو گناہوں سے نہ روکے، فقہی اعتبار سے روزہ ہو جائے گا مگر روحانیت وکیف و سرور حاصل نہ ہوگا۔
روزے کی قبولیت کے چند ذرائع درج ذیل ہیں:
گناہوں
سے بچنا روزے کی قبولیت کا ایک ذریعہ ہے، مثلاً روزے میں وقت پاس کرنے کے لئے جُوا کھیلنا
، لُڈو کھیلنا اس کے علاوہ غیبت کرنا، لَعن طعن، لڑائی جھگڑا کرنا سب گناہ کے کام ہیں اور روزے میں زیادہ گناہ، کیونکہ
اس میں روزے کی بے حُرمتی پائی جا رہی ہے، چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضورِ اکرم، آخری نبی،
محمدِ عربی صلی اللہ علیہ و سلم نے
فرمایا:جو جھوٹی باتیں اور بُرے کام کرنا
نہ چھوڑ ے تو اللہ کو اس کے کھانا پانی چھوڑ دینے کی
پرواہ نہیں۔"
روزے
کو فضولیات میں گزارنے سے بچاتے ہوئے نیکیوں میں گزارنا بھی روزے کی قبولیت کا ذریعہ
ہے اور روزے کو نفل نماز، ذِکر و اَذکار، نعتیں سننے، تلاوتِ قرآن پاک کرنے، نیکی کی دعوت دینے میں گزاریں، فضول گوئی سے بچے، ذکرُاللہ
کریں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم
نے فرمایا:"ذِکرُ اللہ کے بغیر زیادہ باتیں نہ کرو کیونکہ بغیرذکر اللہ زیادہ باتیں دل کی سختی ہیں۔"
قبولیت
کے اِن ذرائع پر عمل کرنے والا حقیقی روزہ دار ہوگا اور اللہ کی رحمت سے اس کا روزہ بارگاہِ
الٰہی میں قبولیت پائے گا۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کثرتِ صوم اور
اس کی رِضا والے کام اِخلاص کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
تمام
خوبیاں اللہ عزوجل کے لئے جس نے اپنے بندوں پر اِحسان ِعظیم فرمایا کہ ان سے شیطان کے مَکرو
فریب کو دُور کیا، اس کی اُمید کو مَردُود
اور اس کے گمان کو ناکام کر دیا، روزوں کو اپنے دوستوں کے لئے قلعہ اور ڈھال بنایا۔
فرمانِ
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:"روزہ
صبر ہے اور صبرآ دھا ایمان ہے۔"
ارشادِ
باری تعالی عزوجل ہے: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ
اَعْیُنٍۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔
ترجمہ کنز الایمان:تو کسی جی کو نہیں معلوم جو آنکھ کی ٹھنڈک اُن کے لیے چھپا رکھی ہے،
صلہ اُن کے
کاموں کا۔"(پ21، السجدہ، آیت17)
اس
کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ ان لوگوں کا عمل روزے رکھنا ہے، کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:
اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ
بِغَیْرِ حِسَابٍ۔(پارہ23،سورہ زمر، آیت نمبر10)
ترجمہ:صابروں کو ان کا ثواب بھرپور دیا جائے گا بے گنتی ۔۔۔۔لہذا روزہ دار کو اس کی جزا بے حساب دی جائے گی، جو کسی گمان اور پیمانے کے تحت نہیں ہوگی اور مناسب بھی ہے، کیونکہ روزہ اللہ عزوجل کے لئے ہے۔
فقہائے
ظاہر وہی پابندیاں روزے کی قبولیت کے لئے بیان کرتے ہیں جوعام غافل اور دنیا کی
طرف متوجّہ ہونے والے لوگوں کے لئے آسان ہوں، لیکن علمائے آخرت روزے کی صحت سے قبولیت مراد
لیتے ہیں اور قبولیت سے مراد مقصود تک رسائی ہے اور وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ روزے
کا مقصد اللہ عزوجلکے اَخلاق سے متصف ہونا ہے اور وہ
بے نیازی ہے، نیز اس کا ایک مقصد شہوات سے بچ کر فرشتوں کی پیروی کرنا ہے کیونکہ
وہ شہوات سے پاک ہیں۔
جب
اہلِ عقل اور اہلِ دل حضرات کے نزدیک روزے کا مقصد اور راز یہ ہے تو ایک کھانے کو
مؤخر کر کے دونوں کو شام کے وقت اکٹھا کر نے نیز دن بھر شہوات میں مُنہمک رہنے کا
فائدہ؟ اگر اس کا کوئی فائدہ ہے تو پھر
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کے اس فرمانِ عالی شان کا کیا مطلب ہو گا کہ "کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں، جنہیں اپنے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ
حاصل نہیں ہوتا۔"
اس
پر بعض علماء نے فرمایا:"کتنے ہی روزے دار بےروزہ اور کتنے ہی بے روزہ ، روزہ دار ہوتے ہیں،
روزہ نہ رکھنے کے باوجود روزہ دار وہ شخص ہے جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچاتا ہے، اگرچہ وہ کھاتا پیتا بھی ہے اور روزہ رکھنے کے
باوجود بے روزہ وہ شخص ہے، جو بھوکا پیاسا
رہتا ہے اور اپنے اعضاء کو گناہوں کی کھلی چھوٹ دے دیتا ہے ۔"( لیکن یاد رہے کہ
روزہ رکھنا ہی لازم ہے یہ نہیں کہ دیگر نیکیاں کرے اور روزہ نہ رکھے اور روزہ دار
کہلائے ۔ )
گناہوں میں ملوث رہنے والے روزہ دار کی مثال:
روزے
کا مفہوم اور اس کی حِکمت سمجھنے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جو شخص کھانے پینے اور
جماع سے تو رُکا رہے، لیکن گناہوں میں مُلوّث
ہونے کے باعث روزہ توڑ دے(یعنی ایسا گناہ کرے جس سے روزے کی روحانیت ختم ہو جائے
روزہ نہ ٹوٹے) تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو وضو میں اپنے کسی عُضو پر تین بار مسح
کرے تو اس نے ظاہر میں تعداد کو پورا کیا، لیکن مقصود یعنی اعضاء کو دھونا ترک کر دیا تو
جہالت کے سبب اس کی نماز اس پرلوٹا دی جائے گی، جو کھانے کے ذریعے روزہ دار نہیں لیکن
اَعضاء کونا پسندیدہ افعال سے روکنے کے سبب روزہ دار ہے، اس کی مثال اُس شخص کی سی ہے، جو اپنے اعضاء کو ایک ایک بار دھوتا ہے، اس کی نماز ان شاء اللہ عزوجل قبول ہوگی، کیونکہ اس نے اَصل کو پختہ کیا، اگرچہ زائد کو چھوڑ دیا اور جس نے دونوں کو جمع
کیا وہ اس کی طرح ہے جو ہر عضو کو تین بار دھوتا ہے، اس نے اصل اور زائد دونوں کو جمع کیا اور یہی کمال ہے۔
مروی
ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"بے
شک روزہ امانت ہے تو تم اپنی امانت کی حفاظت کرو۔"
یہی
وہ باطنی آداب ہیں جن کا جاننا ضروری ہے تاکہ ہم حقیقی معنوں میں روزہ کی برکتیں
حاصل کرسکیں۔(بحوالہ احیاء العلوم)
اللہ عزّوجل ہمیں مقبول روزے رکھنے کی سعادت نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
اِرشاد
باری تعالی ہے: ترجمہ:"
روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا میں خود ہی دوں گا۔"(حدیثِ قدسی)
حضرت مفتی احمد یار خان" تفسیرِنعیمی" میں
فرماتے ہیں:" روزہ صبر ہے، جس کی جزاء ربّ ہے۔" (تفسیر نعیمی)
سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"
روزہ سِپَر ہے دوزخ سے، یعنی جس طرح سِپَر(
ڈھال) تلوار کے وار کو روکتی ہے، اسی طرح روزہ بھی جہنم کے آگ وعذاب سے روزہ دار
کا بچاؤ کرتا ہے۔"( انیس الواعظین)
ایک اور مقام پر فرمایا:" ہر شے کے لئے زکوۃ
ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ نِصف
صبر ہے۔"
حضرت
سیّدنا داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی
شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو شہوانی نظر سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔(فیضانِ سنت)
مشکوٰۃ
شریف میں ہے:" کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں، جن کو روز وں سے سوائے بھوک اور پیاس سے کچھ
حاصل نہیں ہوتا۔"( مشکوۃ)
افسوس صد افسوس! ہمارے اکثر اسلامی بھائی اور
بہنیں روزہ کا لحاظ ہی نہیں کرتے، وہ صرف "بھوکے پیاسے" رہنے ہی کو بہت
بڑی بہادری تصور کرتے ہیں، روزہ رکھ کر بے
شمار ایسے افعال کر گزرتے ہیں، جو خلافِ
شرع ہوتے ہیں، اِس طرح فِقہی اعتبار سے
روزہ ہو تو جائے گا لیکن ایسا روزہ رکھنے
سے روحانی کیف و سُرور حاصل نہ ہوسکے گا۔
سرکارِ
مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم
کا فرمانِ عالیشان ہے:" جو بُری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اس
کے بھوکے پیاسے رہنے کی اللہ کو کچھ حاجت نہیں۔"( بخاری)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:"صرف کھانے پینے
سے باز رہنے کا نام روزہ نہیں، بلکہ روزہ
تو یہ ہے کہ لغو اور بے ہودہ باتوں سے بچا جائے۔"(حاکم)
اس لئے روزہ دار کو چاہئے کہ وہ جہاں روزے میں
کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے، اسی طرح لڑائی
جھگڑا، غیبت، جھوٹ، بدزبانی وغیرہ گناہوں کو بھی چھوڑ دے اور اپنے اَعضائے
بدن کو بھی روزے کا پابند بنائے۔
دو جہاں کی نعمتیں ملتی ہیں روزہ دار کو
جو نہیں رکھتا ہے روزہ وہ بڑا نادان ہے
رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ انہیں روزہ سے سوائے بھوک کے کچھ نہیں ملتا اور بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے کہ انہیں جاگنے کے سوا کچھ حاصل
نہیں۔ (ابن ماجہ، 2/320، حدیث: 1690)
روزہ کیا ہے؟ روزہ عرفِ شرع میں مسلمان کا
عبادت کی نیت سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے آپ کو قصداً کھانے پینے
جماع سے باز رکھنا ہے۔ (فتاوی ھندیۃ،1/194)
کسی بھی عبادت کو کرنے
کا مقصد رضائے الٰہی ہونا چاہئے، اور جب
تک وہ عبادت مقبول نہ
ہو رضائےالٰہی حاصل نہیں ہوتی۔ روزہ ایک عظیم عبادت ہے اور اس کو مرتبۂ قبولیت تک پہنچانے کےلئے کچھ اُمور کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔
گناہوں سےبچنا: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
روزہ سِپر ہے، جب تک اسے پھاڑا نہ ہو۔ عرض کی گئی، کس چیز سے پھاڑا جائے گا؟ ارشاد
فرمایا:جھوٹ یا غیبت سے۔
(معجم اوسط،3 /264،
حدیث:4536)
بیہودہ باتوں سےبچنا:نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:روزہ کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں، روزہ تو یہ ہے کہ لغو و بیہودہ باتوں
سے بچا جائے۔ (مستدرک، 2/67، حدیث: 1611)
نیّت اچھی ہو: حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
جو ایمان کی وجہ سے اور ثواب کے لئے رمضان کا روزہ رکھے گا، اس کے اگلے گناہ بخش دئیے
جائیں گے۔
(بخاری، 1/658، حدیث:2009)
متفرقات:نیز گناہوں سے بچے اور عبادات بجالائے،
ہر ایسی چیز سے بچے کہ جو روزے کی نورانیت ضائع کرنےوالی ہے، اعتکاف کرے، کثرت سے
سجدے کرے، ذکرُاللہ کرے،کثرت سے درودِ
پاک پڑھے، صدقہ و خیرات کرے، لوگوں سے اچھا سلوک کرے، اپنے اخلاق اچھے کرے، علمِ
دین سیکھے اور سکھائے، قراٰنِ پاک پڑھے اور پڑھائے کہ یہ کام اللہ کی رضا کے ہیں۔ غیبت، جھوٹ، چغلی، حسد،
تکبر، ریاکاری، خود پسندی، حبِّ جاہ، وعدہ خلافی اورظلم سے بچے۔ یادرکھئے! روزہ
وہی کام آئے گا جو قبول ہوگا، اپنا ذہن اس طرح بنائے کہ اگر میرا روزہ گناہوں سے
بھرا ہوا ہوگا، پھر جب یہ میرے رب کی بارگاہ میں پیش ہوگا تو میرا رب اس پر
کیا حکم فرمائے گا!
میرے اعمال ایسے ہوں
کہ میرا محبوب مجھ سے راضی ہو، میرے اعمال ایسے نہ ہوں کہ میرا محبوب مجھ سے ناراض
ہوجائے۔ دنیا کا معاملہ تو یہ ہے کہ ہم کسی کے سامنے کم تر لباس میں آنا پسندنہیں
کرتے، کسی کوتحفہ دیں تو اچھا دینے کی کوشش کرتےہیں کہ اگر
تحفہ اچھا نہ ہوا تو سامنے والا کیا سوچے گا۔مگریہاں
معاملہ کیاہے؟
اللہ
پاک کو ہماری عبادات
کی ضرورت نہیں،مگریہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم اپنے رب کی عبادت کیسی کرتےہیں، فرشتے ہمارےنماز، روزے سیاہ
کپڑوں میں لپیٹ کرلےجاتےہیں یا روشن اور چمک دار کپڑوں میں۔ یہ ہمارا امتحان ہے اور
درحقیقت یہ ہمارے عشق کا امتحان ہے کہ آیا ہمارے عشق کے دعوے صرف گفتار میں ہیں یا
کردار و عمل میں بھی ہیں۔ فیصلہ
خود کریں!
روزہ
ایک بہترین عبادت ہے، جس کے لُغوی معنی" رُکنا" اور اِصطلاحی معنی صبحِ
صادق سے غُروبِ آفتاب تک قصداً کھانے پینے
اور جماع سے رُکنا روزہ کہلاتا ہے۔
روزہ کس پر فرض ہے؟
توحیدو
رسالت کا اِقرار کرنے اور ضروریاتِ دین
پر ایمان لانے کے بعد جس طرح ہر مسلمان پر
نماز فرض ہے، اِسی طرح رمضان کے روزے بھی
ہر مسلمان عاقل و بالغ پر فرض ہیں، روزہ 10 شعبان 2 ہجری کو فرض ہوا۔
روزہ فرض ہونے کی وجہ:
آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غارِ
حرا میں رَمضانُ المبارک کے چند دن گزارے، تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم دن میں کھانے سے پرہیز فرماتے اور رات کو ذِکرُ اللہ کرنے میں مشغول رہتے تو اللہ نے آپ کی یاد تازہ کرنے کے لیے
روزہ فرض کیا۔
حضرت
مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہاس
حدیث مبارک کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:" کہ ماہِ رمضان کا نفل دوسرے
مہینوں کے فرض کے برابر اور فرض عبادت دوسرے مہینوں کے کے ستّر فرائض کے مِثل ہے
اور اِرشاد فرماتے ہیں" ماہِ رمضان کے تین عشرے ہیں، پہلا عشرہ ربّ تعالی مؤمنوں پر خاص رحمتیں فرماتا ہے، دوسرا عشرہ تمام صغیرہ گناہوں کی معافی ہے، تیسرے عشرے میں روزے داروں کے لئے جنتی ہونے کا
اعلان ہے ۔
( مراۃ المناجیح، 140/142)
یا الٰہی تو
مدینے میں کبھی رمضان دکھا
مدتوں سے دل
میں یہ عطار کے اَرمان ہے
جب
بندہ رَمَضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اس کے گزشتہ رمضان سے لے کر اس دن تک کئے گئے گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے، اس کے لئے روزانہ ستّر ہزار فرشتے نمازِ فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک اِستغفار
کرتے ہیں، اِسے رمضان کے ہر دن اور ہر رات میں سجدہ کرنے پر جنّت میں ایک ایسا درخت عطا
کیا جاتا ہے، جس کے سائے میں کوئی سوار
پانچ سو سال تک چلتا رہے گا۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا روزہ:
رمضان
المبارک کا مہینہ تھا، اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے پہلے روزہ کشائی کی تقریب تھی، افطار میں بہت قسم کا سامان تھا، ٹھیک گرمی کی شدّت کا وقت تھا، آپ رحمۃ اللہ
علیہ کے والد ماجد آپ کو
ایک کمرے میں لے کر گئے اور وہاں کا دروازہ بند کر دیا، وہاں فیرنی کا پیالہ پڑا تھا، آپ رحمۃ اللہ
علیہ کے والد ماجد نے آپ سے کہا کہ اسے کھالو، بچوں کا ایسا ہی روزہ ہوتا ہے اور میں نے دروازہ
بھی بند کر دیا ہے، کوئی دیکھنے والا بھی
نہیں ہے۔
اعلی
حضرت رحمۃ اللہ علیہ
عرض کرتے ہیں" جس کے حکم سے روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے"
یہ
سنتے ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ
کے والد ماجد آپ کو کمرے سے باہر لے آئے۔
اس کی ہستی میں تھا عملِ جو ہر، سنتِ مصطفی کا وہ پیکر
عالمِ دین صاحبِ تقویٰ، واہ ! کیا بات اعلیٰ حضرت کی
سبق :
اس
حکایت سے بچوں کے لئے سبق ہے کہ انہیں ایمان داری اور اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے
لئے روزہ رکھنا چاہئے، روزے میں گناہ کرنا
بھی بہت بڑا گناہ ہے اور روزے میں نیک عمل کرنے البتہ روزے دار کا سونا
بھ عبادت ہے اور ہر چھوٹے عمل کرنے کا بھی
بڑا ثواب ہے۔
تو
نیت کیجئے کے روزے میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل (مثلاً نماز، قرآن مجید کی تلاوت اور دعوتِ اِسلامی کے سنتوں
بھرے اِجتماع میں شرکت وغیرہ) کر کے خُوب ثواب حاصل کریں گے۔