عربی لغت میں
صوم (روزہ)کا معنی ”باز رہنا“ ہے۔ شریعت میں
صبح سے شام تک بنیتِ عبادت صحبت سے اور کسی چیز کے پیٹ یا دماغ میں داخل
کرنےسے باز رہنے کو صوم کہا جاتا ہے۔
( مراةالمناجیح
،جلد3 ، کتاب الصوم)
روایت ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو ایمان و اخلاص سے رمضان کے روزے رکھے اس کے
پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔ (صحیح بخاری)
کھانے پینے اور صحبت وغیرہ سے صبح صادق سے لے کر
غروبِ آفتاب تک رکے رہنا فقط عوامی روزہ ہے لیکن خواص کا روزہ یہ ہے کہ ان معاملات
کے ساتھ ساتھ تمام ظاہری و باطنی گناہوں سے اپنے پورے بدن کو بچاتے ہوئے رضائے الٰہی پانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ الغرض کہ کامل
روزہ وہی ہے جس میں ایمان کے ساتھ ساتھ اخلاص کا ہونا بھی لازم ہے ۔
کافر اگرچہ تمام برائیوں سے بچ کر روزہ رکھے پھر
بھی اس کا روزہ قبول نہیں کیونکہ اُسکے پاس ایمان نہیں بلکہ تمام برائیوں سے بچنے
کے باوجود ایک سب سے بڑا مرض ”کفر“ اسے لاحق ہے۔ اور اگر کوئی شخص روزہ رکھنے کا مقصد صرف علاج رکھے اور ثواب
کی طلب نہ ہو تو اسکے لئے کوئی اجر نہیں کیونکہ روزہ فقط بھوکے،پیاسے رہنے کا نام
نہیں بلکہ یہ عمل ایک عبادت ہے اور عبادت اس وقت ہی کامل ہے جب اسکا مقصد حصولِ رضائے
ہو۔ امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ احیا ء العلوم میں فرماتے ہیں کہ خاص لوگوں کا
روزہ اولیائے کاملین علیہمُ الرّضوان کا روزہ ہے اور وہ یہ کہ اپنے
اعضا کو گناہوں سے بچانا۔یہ روزہ چھ باتوں سےمکمل ہوتا ہے :
(1) آنکھ
کا روزہ :
ان چیزوں کو
دیکھنے سے بچنا جو بری اورمکروہ ہیں اور نظر کو ہر اس چیز سے بچانا جو دل کو
(دنیاوی کاموں میں ) مشغول کر کے ذکرِ الٰہی سے غافل کر دے۔
(2) زبان
کا روزہ :
زبان کوبیہودہ گفتگو کرنے، جھوٹ،غیبت، چغلی، فحش
گو، ظلم ،لڑائی ، ریاکاری، اور خاموشی اختیار کرنے سے بچا کر ذکرِ الٰہی اور
تلاوتِ قرآن میں مشغول رکھنا۔ 3) کانوں کا
روزہ :
یہ ہے کہ انہیں ہر بری بات سننے سے روکنا کیونکہ
جس بات کا کرنا حرام ہے اس کی طرف توجہ دینا بھی حرام ہے۔
بقیہ اعضاء کو گناہوں سے بچانا :
(3) ہاتھ کا روزہ :
گناہوں اور
نا پسندیدہ امور سے بچنا ۔
پیٹ کا روزہ : افطار کے وقت اسے شبہات سے بچانا۔
(5) افطار کے وقت پیٹ بھر کر حلال کھانے سے
بچنا۔
(6) افطار کے بعد روزے دار کے دل کا امید و خوف
کے درمیان رہنا۔
قبولیتِ روزہ
کے بے شمار ذرئع ہیں جن میں سے ایک اعلٰی درجے کی عبادت تلاوتِ قرآن مجید بھی ہے۔
نزولِ کلامِ الٰہی رمضان میں ہوا اور رمضان ہی میں سب سے زیادہ تلاوتِ قرآن مجید
ہوتی ہےکہ روزہ دار ابھی روزہ افطار کر کے اپنے بدن کو تقویت دلاتا اور جسم کوآرام
کراتا ہی ہے کہ نمازِ عشاء کا وقت ہوتے ہی مسجدکا رخ کرتا ہے اور نماز و تراویح
میں کلامِ الٰہی سننے کی سعادت حاصل کرتا ہے ۔ انھیں مومنوں کے حوالے سے حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا ،” روزے اور قرآن بندے کی شفاعت کریں گے ، روزے عرض کریں گے یا رب ! میں نے
اسے دن میں کھانے اور شہوت سے روکے رکھا لہٰذا اس کے بارے میں میری شفاعت قبول کر
اور قرآن کہے گا میں نے اسے رات سونے سے روکا لہٰذا اس کے متعلق میری شفاعت قبول
کر ۔ دونوں کی شفاعت قبول ہوگی“۔(بیہقی شعب الایمان)