اے عاشقان رسول اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مذہب کی صورت میں ہمیں  دین اسلام عطا فرمایا یہ وہ مذہب ہے جس نے ہمیں ہر شے کے حقوق سکھائے چاہے وہ انسان ہوں یا حیوان ہوں یہاں تک کہ دین اسلام نے ہمیں نہ صرف زندہ لوگو ں کے بلکہ قبر والوں کے حقوق بھی بتائے ہیں۔ آئیے حصول برکت کے لیے چند حقوق سنتے ہیں :

(1) اہل قبر کا احترام:اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم! شریعت اسلام ہمیں اہل قبر کا بھی احترام کرنے کا حکم دیتی ہے لہذا قبر پر بیٹھنا، سونا، چلنا، پاخانہ، پیشاب کرنا حرام ہے۔ قبرستان میں جو نیا راستہ نکالا گیا اس سے گزرنا ناجائز ہے، خواہ نیا ہونا اسے معلوم ہو یا اس کا گمان ہو۔ (الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج 3 ، ص 183)

(2) اپنے پیاروں کی قبر پر جانا: پیارے اسلامی بھائیو ! قبرستان کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس میں بسنے والے یعنی قبر والوں کے اپنے ان کی قبروں کی زیارت کے لیے آئیں اور ان کو ایصال ثواب کی صورت میں خوبصورت تحفہ بھی دیں بہار شریعت میں ہے کہ زیارتِ قبور مستحب ہے ہر ہفتہ میں ایک دن زیارت کرے،جمعہ یا جمعرات یا ہفتہ یا پیر کے دن مناسب ہے، سب میں  افضل روزِ جمعہ وقتِ صبح ہے۔ اولیائے کرام کے مزارات طیبہ پر سفر کر کے جانا جائز ہے، وہ اپنے زائر کو نفع پہنچاتے ہیں اور اگر وہاں  کوئی منکرِ شرعی ہو مثلاً عورتوں  سے اختلاط تو اس کی وجہ سے زیارت ترک نہ کی جائے کہ ایسی باتوں  سے نیک کام ترک نہیں  کیا جاتا، بلکہ اسے بُرا جانے اور ممکن ہو تو بُری بات زائل کرے۔ (ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور، ج 3، ص 177)

(3) عورتوں کا قبرستان جانا : پیارے اسلامی بھائیو! قبرستان کا یہ بھی حق ہے کہ شریعت نے چونکہ عورتوں کو قبرستان جانا منع کیا ہے لہٰذا عورتیں قبرستان نہ جائیں ۔فتاوی رضویہ شریف میں میرے امام اہلسنت اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مسئلہ کچھ یوں بیان فرمایا ہے :

افضل یہ ہے کہ عورتیں  مطلقاً منع کی جائیں  کہ اپنوں  کی قبور کی زیارت میں  تو وہی جزع و فزع ہے اور صالحین کی قبور پر یا تعظیم میں  حد سے گزر جائیں  گی یا بے ادبی کریں  گی کہ عورتوں  میں  یہ دونوں  باتیں  بکثرت پائی جاتی ہیں۔ (الفتاوی الرضویۃ، ج 9 ، ص 538)

(4) اہل قبور کو سلام کرنا : اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان کا یہ بھی حق ہے کہ جب قبرستان جایا جائے تو اہل قبور کو سلام کیا جائے اور قبرستان جانے کی دعا بھی پڑھی جائے۔ عالم بنانے والی کتاب بہار شریعت میں قبرستان جانے کی یہ دعا لکھی ہوئی ہے:

 اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ دَارِ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ اَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَّ اِنَّا اِنْ شَا َٔ اللہ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللہ لَنَا وَلَکُمُ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ یَرْحَمُ اللہ الْمُسْتَـقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَاْخِرِیْنَ اَللّٰھُمَّ رَبَّ الْاَرْوَاحِ الْفَانِیَۃِ وَالْاَجْسَادِ الْبَالِیَۃِ وَالْعِظَامِ النَّخِرَۃِ اَدْخِلْ ھٰذِہِ الْقُبُوْرِ مِنْکَ رَوْحًا وَّرَیْحَانًا وَّمِنَّا تَحِیَّۃً وَّسَلَامًا (بہار شریعت، جلد 1 حصہ چہارم کتاب الجنائز)

اے عاشقان رسول !یقینا ًمذکورہ چند نکات سے آپ پر قبر والوں کے چند حقوق واضح ہو چکے ہوں گے۔

پیارے پیارے اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں قبر والوں کے جمیع حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں قبر و حشر کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین امین ثم امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلّم

دنیا میں رہتے ہوئے بنی نوع انسان ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال رکھتے ہیں ۔تب جا کر کہیں معاشرہ بھلائی اور اچھے راستے پر گامزن ہوتا ہے۔اگر ہم دنیا میں رہتے ہوئے اپنے اور دوسروں کے حقوق و فرائض کا خیال نہ رکھیں تو معاشرہ برائیوں کا شکار ہو کر ہمارے ہی گلے پڑ جائے گا۔ اور نظام زیست درہم برہم ہو جائے گا۔ زندگی میں انسان دوسروں کے حقوق کا خیال رکھتا ہے خواہ وہ کسی ڈر سے ہو یا اپنے مفاد سے ہو لیکن اہل اللہ صرف اللہ کی رضا کے لیے یہ فرائض و حقوق سر انجام دیتے ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ پر حقوق و فرائض کا تصور قائم ہے لیکن مرنے کے بعد بعض جگہوں پر یا بعض مذاہب میں یہ تصور نہیں ہے۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں مرنے کے بعد بھی انسان کے حقوق کا خیال رکھا ہے۔ اور اس کی تعظیم و تکریم کو برقرار رکھا ہے درج ذیل میں ہم کچھ قبرستان کے حقوق کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ جن کو ہم اپنے عملی زندگی میں بھی سرانجام دے سکیں۔

(1) قبروں کی زیارت : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قبروں کی زیارت کرنے جایا کرو کیونکہ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 976 ,کتاب الجنائز، باب استحباب زیارۃ القبور للرجال)

(2) سلام پیش کرنا: نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 975 ,کتاب الجنائز، باب ما یقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا)

(3) دعائے مغفرت: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بقیع الغرقد (مدینہ کے قبرستان) میں دعا کی اور فرمایا: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ الْبَقِيعِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 974 ,کتاب الجنائز، باب ما یقال عند زیارۃ القبور)

(4) قبر پر بیٹھنے یا چلنے سے اجتناب: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: "کسی کے لیے یہ بات بہتر ہے کہ وہ انگارے پر بیٹھے جو اس کے کپڑے جلا دے اور اس کے جسم کو پہنچ جائے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی مسلمان کی قبر پر بیٹھے"

(صحیح مسلم، حدیث نمبر 971 ,کتاب الجنائز، باب النھی عن الجلوس علی القبر)

(5) قبر کی مرمت: فقہاء کے مطابق، قبر کی مرمت کرنا واجب ہے اگر اس کو نقصان پہنچے، تاکہ اس کی بے حرمتی نہ ہو۔ (رد المحتار، جلد 2، صفحہ 234)۔

(7) پھول یا پودے لگانا:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک تر شاخ کے دو حصے کرکے دو قبروں پر لگائیں اور فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں گی، ان کے لیے عذاب میں تخفیف ہوگی۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر 1361,کتاب الجنائز، باب الجرید علی القبر)

(8) قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا: حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وفات سے پانچ دن پہلے یہ کہتے ہوئے سنا: ’’میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس چیز سے براءت کا اظہار کرتا ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے، جس طرح اس نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا تھا، اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیل بناتا، خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاءعلیهم السلام اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا کرتے تھے، خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہیں نہ بنانا، میں تم کو اس سے روکتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 532، کتاب المساجد، باب النھی عن اتخاذ القبور مساجد)

(10) تعلیمات اسلامی کی پیروی:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر 13 ،کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ)

اللہ تعالی سے دعا ہے وہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے ہمیں زندوں کے ساتھ ساتھ اپنے قبرستان میں مدفون لوگوں کے حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مسلمانوں کی تدفین کے لیے باقاعدہ قبرستانوں کا قیام ابتدائے اسلام سے چلا آرہا ہے ، دور نبوی میں مکہ مکرمہ میں جنت المعلیٰ اور مدینہ منورہ میں جنت البقیع کے قبرستان قائم کیے گئے تھے، طبقات ابن سعد میں ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدینہ تشریف لائے تو اپنے اصحاب کے لیے قبرستان کی تلاش میں تھے، آپ مدینے کے اطراف آئے اور فرمایا کہ مجھے اس جگہ کا حکم دیا گیا ہے، یعنی بقیع کا، چنانچہ یہ جگہ قبرستان کے لیے مختص کردی گئی، قبرستان اور قبروں کے آداب اسلام کے اہم احکام میں شامل ہیں جو مسلمانوں کو موت ،آخرت اور زندگی کی فانی حقیقت کی یاد دلاتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں قبرستان کی زیارت اور قبروں کے احترام پر زور دیا گیا ہے تاکہ انسان اپنی آخرت کی تیاری کے لیے فکرمند رہے۔ قرآن و حدیث میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ قبرستان کی حرمت اور احترام کو کس طرح برقرار رکھا جائے، تاکہ اس مقام کااحترام ہمیشہ قائم رہے۔

(1) قبروں پر پاؤں نہ رکھو : الاختيار لتعليل المختار میں ". ہے: ویکرہ وطء القبر والجلوس والنوم عليه لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن ذلك، وفيه إهانة به یعنی : قبر پر پاؤں رکھنا ، اس پر بیٹھنا اور سونا مکروہ ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا اور اس میں اس کی اہانت ہے۔ ( الاختيار لتعليل المختار، باب الجنائز، جلد 1 ، صفحہ 97، طبعة الحلبی، القاهرة)

(2) قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو:وَعَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “لَا تَجْلِسُوا عَلَی القُبُورِ وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ روایت ہے حضرت ابو مرثدغنوی سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف نماز پڑھو۔ (مسلم۔ مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 حدیث نمبر:1698)

(3) قبروں پر نہ چلو : امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: قبور مسلمین پر چلنا جائز نہیں بیٹھنا جائز نہیں ، ان پر پاؤں رکھنا جائز نہیں، یہاں تک کہ آئمہ نے تصریح فرمائی کہ قبرستان میں نیا راستہ پید اہو اس میں چلنا حرام ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ ، جلد 9، صفحہ 480)

( 4 ) قبر کے اوپر نہ بیٹھو : وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “لَأَنْ يَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلیٰ جَمْرَةٍ فَتُحْرِقَ ثِيَابَهٗ فَتَخْلِصَ إِلٰى جِلْدِهٖ خَيْرٌ لَهٗ مِنْ أَنْ يجلس عَلیٰ قَبْرٍ”.رَوَاهُ مُسْلِمٌ روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ تم میں سےکسی کا چنگاری پر بیٹھنا کہ جو کپڑے کو جلاکر اس کی کھال تک پہنچ جائے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔ (مسلم۔ مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 , حدیث نمبر:1699)

( 5 ) قبروں کی زیارت کرنا : عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِي فَوْقَ ثَلَاثٍ فَأَمْسِكُوا مَا بَدَا لَكُمْ وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ النَّبِيذِ إِلَّا فِي سِقَاءٍ فَاشْرَبُوا فِي الْأَسْقِيَةِ كُلِّهَا وَلَا تَشْرَبُوا مُسْكِرًا . رَوَاهُ مُسْلِمٌ روایت ہے حضرت بریدہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا اب زیارت کیا کرو اور میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کے گوشت سے منع کیا تھا اب جب تک چاہو رکھو اور میں نے تمہیں مشکیزوں کے سواء میں نبیذ پینے سے منع کیا تھا اب تمام برتنوں میں پیا کرو ہاں نشہ کی چیز نہ پینا۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 , حدیث نمبر:1762)

اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ امین 


قبروں کی زیارت دنیا سے بے رغبتی اور فکر آخرت پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ جس طرح والدین کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اور استاتذہ کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اسی طرح قبرستان کے  بھی حقوق بیان کیے گئے ہیں چنانچہ فرمان مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہے ، قبروں کی زیادت کیا کرو کہ وہ دنیا میں بے رغبتی کا سبب ہے اور آخرت یاد دلاتی ہے۔

حافظ قاضی ابو الفضل رحمۃ الله الوھاب فرماتے ہیں: حضور علیہ السلام نے قبروں کی زیادت کا حکم اس لیے دیا تا کہ فکر آخرت پیدا ہو اور عبرت حاصل کی جائے۔ قبر میں شجرہ اور عہد نامہ رکھنا جائز ہے اور بہتر یہ ہے کہ میت کے منہ کے سامنے قبلہ کی جانب طاق کھود کر اس میں رکھے ۔ قبرستان میں کسی نے اپنے لیے قبر کھود رکھی ہے۔ اگر قبرستان میں جگہ موجود ہے تو دوسرے کو اس قبر میں دفن نہ کرنا چاہیے اور جگہ موجود نہ ہو تو دوسرے لوگ اپنا مردہ اس میں دفن کر سکتے ہیں ۔ قبرستان کے تمام آداب بجا لائے جائیں۔

(1) قبر پر ٹھہرنا : دفن کے بعد قبر کے پاس اتنی دیر تک ٹھہرنا مستحب ہے جتنی دیر میں اونٹ ذبح کرکے گوشت تقسیم کر دیا جائے ، کہ ان کے رہنے سے میت کو انس ہوگا اور نکرین کا جواب دینے میں وحشت نہ ہوگی اور اتنی دیر تک تلاوت قرآن اور میت کے لیے دعا و استغفار کریں اور یہ دعا کریں کہ سوال نکرین کے جواب میں ثابت قدم رہے۔

( الجوهرة النيرة ، باب الجنائز ، ص : 141) (یہ تدفین کےآداب میں سے ہے نہ کہ قبرستان کے آداب میں سے )

(2) قبر پر سونا : قبرستان کے حقوق میں یہ بھی ہے کہ قبر پر نہ بیٹھا جائے ۔ قبر پر بیٹھنا ، سونا ، چلنا ، پاخانہ کرنا، پیشاپ کرنا حرام ہے۔ (الفتاوى الهنديہ، كتاب الصلاة ، الباب الحادي والعشرون فی الجنائز، الفصل السادس ، ج:1 ، ص: 166)

(3) قبر کی زیارت کرنا : قبرستان کے حقوق میں سے ہے کہ قبرستان کی زیارت کے لیے جایا جائے۔ زیارت قبور مستحب ہے ہر ہفتہ میں ایک دن زیارت کرے ، جمعہ یا جمعرات یا ہفتہ یا پیر کے دن مناسب ہے سب میں افضل روز جمعہ وقت صبح ہے۔ (ردالمختار، صلاة الجنازة ، طلب فى زيادة القبور ، ج : 3 ،ص 177 )

(4) قبر والوں کو سلام کرنا : بُرَیْدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم رَءُوْفٌ رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انہیں تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو کہیں:’’اےمؤمنو اورمسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو،اِنْ شَآءَ اللہ ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سےاپنے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔( فیضان ریاض الصالحین جلد:5 , حدیث نمبر:583)

اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ امین 

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں زندگی کے ہر شعبے کے متعلق حقوق و احکام بیان کئے ہیں۔ جس طرح دیگر حقوق بیان کئے ‏ہیں اسی طرح قبرستان کے حقوق کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ آئیے قبرستان کے 6 حقوق پڑھئے:‏

(1) زیارتِ قبور کرنا:‏قبرستان کے حقوق میں سے ہے کہ قبرستان کی زیارت کے لئے جایا جائے، رد المحتار میں ہے: زیارتِ قبور مستحب ‏ہے، ہر ہفتہ میں ایک دن زیارت ‏کرے، جمعہ یا جمعرات یا ہفتہ یا پیر کے دن مناسب ہے، سب میں افضل روز جمعہ وقت صبح ہے۔ ‏‏(دیکھئے: ‏ردالمحتار، 3/177)‏

( 2) سلام کہنا :‏ حضور علیہ السّلام مدینہ کے قبرستان گئے تو اس طرح سلام کیا: اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا اَهْلَ القُبُورِ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ، اَنْتُمْ ‏سَلَفُنَا، وَنَحْنُ بِالاَثَرِ یعنی اے قبر والو! تم پر سلام ہو، اللہ پاک ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم ہم سے پہلے آگئے اور ہم تمہارے بعد ‏آنے والے ہیں۔ (دیکھئے: ترمذی، 2/329، حدیث: 1055) حضرت بُرَیْدہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انہیں تعلیم دیتے ‏‏تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو کہیں: اے مؤمنوں اورمسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو، اِن شآءَ اللہ ہم بھی تم سے ملنے ‏والے ہیں، ہم ‏الله پاک سےاپنے اور تمہارے لئے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔‏‏( فیضان ریاض الصالحین، 5/357، حدیث : 583 )‏

(3) قبر پر اگر بتی نہ جلانا: قبر کے اوپر اگربتّی نہ جلائیں کہ بے ادبی ہے اور اس سے میِّت کو تکلیف ہوتی ہے بلکہ قبر کے پاس خالی جگہ ‏ہوتو وہاں رکھ سکتے ہیں،جبکہ وہ خالی جگہ ایسی نہ ہو کہ جہاں پہلے قَبْر تھی اب مِٹ چکی ہے۔(دیکھئے: قبروالوں کی 25حکایات، ص47) ‏

(4) قبر پر نہ بیٹھنا : ‏ قبرستان کے حقوق میں یہ بھی ہے کہ قبر پر نہ بیٹھا جائے۔ قبر پر بیٹھنا، سونا، چلنا، پاخانہ کرنا حرام ہے۔ ‏‏(فتاوى عالمگیری، ‏‏1/166) ‏ ‏

(5) نئے راستے سے اجتناب کرنا:‏ قبرستان میں قبریں ڈھاکرجو نیا راستہ نکالا گیا اس سے گزرنا جائز نہیں ہے۔ خواہ نیا ہونا اسے معلوم ہو یا ‏اس کا گمان ‏ہو۔‏(رد المحتار، 3/183)‏

(6) تکلیف نہ دینا : ‏قبر بھی لائقِ تعظیم ہےاس سےتکیہ لگانا جائز نہیں، روایت ہے حضرت عمر و بن حزم سے فرماتے ہیں کہ مجھ کو نبیِّ ‏کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک قبر پر تکیہ لگائے دیکھا تو فرمایا اس قبر والے کو نہ ستاؤ یا اسے مت ستاؤ۔ (مراٰۃ المناجیح،2/499)‏

اللہ پاک ہمیں قبرستان کے حقوق و آداب بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏