محمد
مبشر عطاری درجہ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)
قبروں کی
زیارت دنیا سے بے رغبتی اور فکر آخرت پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ جس طرح
والدین کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اور استاتذہ کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اسی طرح
قبرستان کے بھی حقوق بیان کیے گئے ہیں چنانچہ فرمان مصطفے صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم ہے ، قبروں کی زیادت
کیا کرو کہ وہ دنیا میں بے رغبتی کا سبب ہے اور آخرت یاد دلاتی ہے۔
حافظ قاضی ابو
الفضل رحمۃ الله الوھاب فرماتے ہیں: حضور علیہ السلام
نے قبروں کی زیادت کا حکم اس لیے دیا تا کہ فکر آخرت پیدا ہو اور عبرت حاصل کی
جائے۔ قبر میں شجرہ اور عہد نامہ رکھنا جائز ہے اور بہتر یہ ہے کہ میت کے منہ کے
سامنے قبلہ کی جانب طاق کھود کر اس میں رکھے ۔ قبرستان میں کسی نے اپنے لیے قبر
کھود رکھی ہے۔ اگر قبرستان میں جگہ موجود ہے تو دوسرے کو اس قبر میں دفن نہ کرنا
چاہیے اور جگہ موجود نہ ہو تو دوسرے لوگ اپنا مردہ اس میں دفن کر سکتے ہیں ۔
قبرستان کے تمام آداب بجا لائے جائیں۔
(1)
قبر پر ٹھہرنا : دفن کے بعد قبر کے پاس اتنی دیر تک ٹھہرنا مستحب
ہے جتنی دیر میں اونٹ ذبح کرکے گوشت تقسیم کر دیا جائے ، کہ ان کے رہنے سے میت کو
انس ہوگا اور نکرین کا جواب دینے میں وحشت نہ ہوگی اور اتنی دیر تک تلاوت قرآن اور
میت کے لیے دعا و استغفار کریں اور یہ دعا کریں کہ سوال نکرین کے جواب میں ثابت
قدم رہے۔
( الجوهرة النيرة ، باب الجنائز ، ص : 141) (یہ
تدفین کےآداب میں سے ہے نہ کہ قبرستان کے
آداب میں سے )
(2)
قبر پر سونا : قبرستان کے حقوق
میں یہ بھی ہے کہ قبر پر نہ بیٹھا جائے ۔ قبر پر بیٹھنا ، سونا ، چلنا ، پاخانہ
کرنا، پیشاپ کرنا حرام ہے۔ (الفتاوى
الهنديہ، كتاب الصلاة ، الباب الحادي والعشرون فی الجنائز، الفصل السادس ، ج:1 ،
ص: 166)
(3)
قبر کی زیارت کرنا : قبرستان کے حقوق میں سے ہے کہ قبرستان کی زیارت
کے لیے جایا جائے۔ زیارت قبور مستحب ہے ہر ہفتہ میں ایک دن زیارت کرے ، جمعہ یا
جمعرات یا ہفتہ یا پیر کے دن مناسب ہے سب میں افضل روز جمعہ وقت صبح ہے۔
(ردالمختار، صلاة الجنازة ، طلب فى زيادة القبور ، ج : 3 ،ص 177 )
(4)
قبر والوں کو سلام کرنا : بُرَیْدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم رَءُوْفٌ رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انہیں تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو
کہیں:’’اےمؤمنو اورمسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو،اِنْ شَآءَ اللہ ہم بھی
تم سے ملنے والے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سےاپنے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے
ہیں۔( فیضان ریاض الصالحین جلد:5 , حدیث
نمبر:583)