دین اسلام نے ہمیں ایک مکمل نظام حیات عطا کیا ہے، اس نے اپنے ماننے والوں کو کہیں بھی بے بس و مجبور نہیں چھوڑا ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات دیا ہے۔زندگی کے ہر ہر پہلو کے متعلق اسلامی تعلیمات اور شرعی رہنمائی فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز الایمان: تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا ۔

قرآن کریم میں نیک عورتوں کا ایک وصف اطاعت کرنے والی بیان کیا گیا ہے۔

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: نیک اور پارسا عورتوں کے اوصاف بیان فرمائے جا رہے ہیں کہ جب ان کے شوہر موجود ہوں تو ان کی اطاعت کرتی اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں مصروف رہتی اور شوہر کی نافرمانی سے بچتی ہیں اور جب موجود نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہیں۔

شوہر کے حقوق و مرتبہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بلند فرمایا ہے، قرآن و حدیث میں بھی شوہر کی اطاعت کرنے اور نافرمانی سے بچنے کا حکم ہے۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے: رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: سب سے بہترین عورت کون ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ عورت کہ شوہر جب اسے دیکھے تو عورت اسے خوش کر دے اور شوہر جب حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنی جان و مال میں شوہر کا نا پسندیدہ کام نہ کرے، اس کی مخالفت نہ کرے۔ (ابن ماجہ، 2/414، حدیث:2857)

فرمان خاتم النبیین ﷺ ہے: اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح و شام کا کھانا لیکر کھڑی رہے۔ (کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 44809)

ہمارا دین اسلام امن و سلامتی والا کامل مذہب ہے، دین اسلام نے ہمیں زندگی گزارنے کا ایک کامل طریقہ عطا فرمایا ہے، زندگی کے ہر ادوار میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے، ہماری شریعت نے ہمیں شوہر کی نافرمانی کرنے سے بھی منع فرمایا ہے، اور شوہر کی اطاعت کا حکم فرمایا ہے، تاکہ گھر امن و سکون کا گہوارہ بن سکے۔

افسوس صد کروڑ افسوس! آج معاشرہ جس طرح بگڑتا جا رہا ہے، ہر طرف بد امنی پھیلی ہوئی ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے دین اسلام کے بتائے ہوئے راستے سے منہ پھیر لیا ہے، آج بیویاں شوہر کی حاکم بنی ہوئی نظر آتی ہیں، بلکہ باضابطہ جن کے شوہر ان کی ہر اچھی بری بات کو مانتے ہیں، عورتیں ان کی خوب تعریف کرتی نظر آتی ہیں اس کے برعکس اگر کوئی شخص شرعی یا اخلاقی معاملات میں اپنی زوجہ کی اصلاح کرے یا روک ٹوک کرے تو عورتیں ایسے شوہر کو نا جانے کن کن برے القابات سے پکارتی ہیں اور ان سے بدظن ہوتی ہیں۔ جبکہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح و شام کا کھانا لیکر کھڑی رہے۔ (کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 44809)

شوہر کی نافرمانی کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے اور عورتیں اسے اپنی آزادی سمجھ بیٹھی ہیں،ان سب کے اسباب علم دین سے دوری، شرعی احکام سے ناواقف ہونا، خوف خدا کا نا ہونا یا کم ہونا، دینی تربیت کی کمی وغیرہ ہے۔

کئی بیویاں ایسا بھی کر گزرتی کہ جب شوہر کہیں جانے سے منع کردے وہ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے چھپ چھپا کر نکل پڑتی ہیں۔ جبکہ غور کریں کہ ہمارے پیارے پیارے آقا ﷺ کیا فرماتے ہیں: جو عورت اپنے گھر سے باہر جائے اور اسکے شوہر کو ناگوار ہو جب تک پلٹ کر نہ آئے آسمان میں ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے اور جن و آدمی کے سوا جس جس چیز پر گزرے سب اس پر لعنت کریں۔ (معجم اوسط، 6/408، حدیث: 9231)

اللہ اکبر! جو شوہر قدرت کے باوجود اپنی بیوی کو بے پردگی سے نہ روکے تو شریعت مطہرہ اسے دیوث قرار دیتی ہے لیکن آج بدقسمتی سے ایسا ماحول پلٹا ہے کہ آج جو شوہر اپنی بیوی کو پردے کا حکم دے وہ بیچارہ قصوروار ٹھہرتا ہے، نماز کا کہے تو بیویاں چڑتی ہیں، یہ معاملات تو فرائض کے ہیں جن پر ہمیں ہر حال میں عمل پیرا ہونا ضروری ہے، اس کے علاوہ کے احکام میں بھی شوہر کی نافرمانی سے بچنا چاہیے، وہ تمام کام جو شریعت سے نہ ٹکراتے ہوں، اس میں فوراً شوہر کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے۔

حدیث پاک میں ہے: اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (مسند امام احمد، 9/353، حدیث: 24565)

ایک اور حدیث میں آیا ہے: کسی عورت کا شوہر گھر میں حاضر ہو تو اس کے لیے اس کی اجازت کی بغیر نفل روزہ رکھنا جائز نہیں اور نہ ہی وہ کسی کو شوہر کی اجازت کے بغیر گھر میں آنے دے۔ (فیضان ریاض الصالحین، 3/496، حدیث: 282)

ان احادیث طیبہ کی روشنی میں سوچیں کہ جب ایک عورت کو شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ بھی رکھنے کی اجازت نہیں، جو کہ نیکی کا کام ہے، تو عورتیں کس طرح دیگر دنیاوی کاموں میں اپنے شوہر کی نافرمانی کر سکتی ہیں؟

جو مومنہ عورتیں اپنے شوہروں کی اطاعت کرتی ہیں اور انہیں راضی رکھنے کی کوشش کرتی ہیں، اسے اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔

چنانچہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو عورت اس حال میں فوت ہو جائے اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1164)

شوہر کی نافرمانی پر کی گئی وعیدوں اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری پر ملنے والے اجر کو اگر مد نظر رکھ جائے، تو ان شاءاللہ ضرور اطاعت کا ذہن بنے گا اور گھر کا گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

اللہ نے مردوں اور عورتوں کو جنسی بےراہ روی اور وسوسہ شیطانی سے بچانے نیز نسل انسانی کی بقا و بڑھوتری اور قلبی سکون کی فراہمی کے لیے انہیں جس خوبصورت رشتے کی لڑی میں پرویا ہے وہ رشتہ ازدواج کہلاتا ہے۔ یہ رشتہ جتنا اہم ہے اتنا نازک بھی ہے۔ کیونکہ ایک دوسرے کی خلاف مزاج باتیں برداشت نہ کرنے،درگزر سے کام نہ لینے اور ایک دوسرے کی اچھائیوں کو نظر انداز کر کے صرف کمزوریوں پر نظر رکھنے کی عادت زندگی میں زہر گھول دیتی ہے جس کے نتیجے میں گھر جنگ کا میدان بن جاتا ہے۔ گھر میاں بیوی کی باہمی محبت میں حسن سلوک اور عفو درگزر سے ہی سکون کا گہوارہ بنتا ہے۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کا نافرمان ہوگا تو گھر کا سکون برباد ہو جائے گا۔

شوہر کو بھی شریعت کا پابند ہونا لازمی ہے اور بیوی کو بھی۔ اگر بیوی اپنے شوہر کے عیب کسی دوسری عورت کے سامنے بیان کرے گی تو اس طرح دونوں میں ناچاقیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے بیوی پر شوہر کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے۔ بیوی نافرمان ہو، اس کو تکلیف پہنچانے والی ہو، بچوں کو اس کے خلاف کرنے والی ہو تو یہ شرعا ناجائز و حرام ہے۔ حضور ﷺنے بہت ساری احادیث میں عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت کو لازم قرار دیا اور نافرمانی پر سخت وعیدات ارشاد فرمائی ہیں۔ چنانچہ

حدیث پاک میں ہے: اگر میں کسی کو خداوند تعالی کے علاوہ کسی اور کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم کرتا تو بیوی کو خاوند کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم کرتا۔ (ابن ماجہ،2/411، حدیث: 1853)

ذرا سوچیے کہ پیارے اقا علیہ الصلوۃ والسلام نے شوہر کے حقوق کو کتنی اہمیت کے ساتھ بیان فرمایا۔

شوہر کے حقوق کے بارے میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان ہے: جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اس پر لازم ہے کہ شوہر کے پاس چلی آئے اگرچہ چولہے کے پاس بیٹھی ہو۔ (ترمذی، 2/386، حدیث:1163)

شوہر بیوی کو اپنے بچھونے پر بلائیں اور وہ آنے سے انکار کرے اور اس کا شوہر اس بات سے ناراض ہو کر سو جائے تو رات بھر اس عورت کے فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (بخاری، 3/462، حدیث: 5193)

حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا ہے

اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح اور شام کا کھانا لے کر کھڑی رہے۔ (کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 44809)

ایک اور جگہ پر فرمایا: اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (ابن ماجہ، 2/411، حدیث: 1852)

اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیوی کو اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور اس پر کس قدر ثواب رکھا گیا ہے۔ فکر آخرت دلانے والے ہمارے پیارے اقا علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان عبرت نشان ہے: میں نے دیکھا کہ جہنم میں اکثر عورتوں کی تعداد تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ اس کی کیا وجہ ہے فرمایا وہ ناشکری کرتی ہیں پوچھا گیا وہ اللہ پاک کی ناشکری کرتی ہیں؟ ارشاد فرمایا:وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان سے مکر جاتی ہیں، اگر کسی عورت کے ساتھ عمر بھر اچھا سلوک کرو پھر بھی تم سے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو وہ کہیں گی: میں نے تم سے کبھی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔ (بخاری،3/463، حدیث: 5197)

اگر شوہر کے ساتھ احسان فراموشی والا سلوک کرنے، فرامائش پوری نہ کرنے پر اسے جلی کٹی باتیں سنانے اور اس کا دل دکھانے کی وجہ سے اگر جہنم میں ڈال دیا گیا تو ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔ شوہر کی ناشکری سے عورت کو اس لیے بھی بچنا چاہیے کہ مسلسل اس قسم کی باتیں شوہر کے دل میں نفرت کے طوفان پیدا کر دیں گی اور اگر خدانخواستہ اس کی ضد میں آ کر تعلقات کی کشتی ڈوب گئی تو عمر بھر پچھتانا پڑے گا اس لیے کامیاب بیوی وہی ہے جو کبھی بھی ناشکری کے الفاظ زبان پر نہ لائے بلکہ آسانیوں ب کے علاوہ تنگدستی کے حالات میں بھی صبر و شکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے شوہر کے ساتھ زندگی کے دن گزارے تاکہ شوہر پریشانیوں میں خود کو تنہا نہ سمجھے۔

اللہ پاک ہمیں تادم حیات اسلام کی عمدہ تعلیمات پر عمل کرنے اور دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ہم میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ میرے حقوق پورے کیے جا ئیں اور یہ بھول جاتا ہے کہ دوسروں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جنہیں ادا کرنا مجھ پر لازم ہے بس یہیں سے نا اتفاقی کی آ گ شعلہ زن ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے لڑائی جھگڑے کا روپ دھار کر قلبی سکون جلا کر راکھ کر دیتی ہے اگر میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرے اور اپنے حقوق کے معاملےمیں نرمی سے کام لے تو گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔

حضرت حصین بن محصن رضی اللہ عنہ اپنی پھوپھی کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ وہ کسی کام سے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں جب رسول اللہ ﷺ انکی حاجت پوری فرما چکے تو ارشاد فرمایا:کیا تم شوہر والی (شادی شدہ)ہو؟انہوں نے عرض کی جی ہاں! فرمایا:تم خدمت کے اعتبار سے شوہر کے لیے کیسی ہو؟عرض کی: جو کام میرے بس میں نہ ہو اسکے علاوہ میں ان کی خدمت میں کوتاہی نہیں کرتی ارشاد فرمایا:اس بارے میں غور کر لینا کہ شوہر کے اعتبار سے تمہارا کیا مقام ہے کیونکہ وہی تمہاری جنت اور دوزخ ہے۔ (سنن کبریٰ للنسائی، 5/311، حدیث: 8963)

یقیناً دانش مند اور ذہین عورت وہی ہے جو اپنے گھر کی بربادی بننے والی چیزوں کو پیش نظر رکھے اور ان سے بچنے کی کوشش جاری رکھے اگر کبھی لڑائی جھگڑے یا اختلاف کی کوئی صورت پیدا ہو جائے تو نہایت خوش اسلوبی سے اسے رفع دفع کرے، کیونکہ اللہ نے عورت کو یہ خوبی بخشی ہے اگر وہ چاہے تو چند لمحوں میں گھر کے نا خوش گوار ماحول کو خوش گوار بنا سکتی ہے۔

بیوی اپنے شوہر کی نا فرمانی تبھی کرتی ہے جب اس پر ظلم کیا جائے یا پھر اسے برا سمجھا جائے۔

اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز الایمان: مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا ۔

شوہر کی نافرمانی پر احادیث مبارکہ:

پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: تین شخصوں کی نماز ان کے کانوں سے اوپر نہیں اٹھتی: آقا سے بھاگا ہوا غلام جب تک پلٹ کر آئے، عورت کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو اور جو کسی قوم کی امامت کرے وہ اس کے عیب کے باعث اس کی امامت پر راضی نہ ہوں۔ (ترمذی، 1/375، حدیث: 320)

پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: جو عورت بلا حاجت شرعی اپنے گھر سے باہر جائے اور اسکے شوہر کو ناگوار ہو جب تک پلٹ کر نہ آئے آسمان میں ہر فرشتہ اس پر لعنت کرئے گا اور جن و آدمی کے سوا جس جس چیز پر گزرئے سب اس پر لعنت کریں۔ (معجم اوسط، 1/158، حدیث: 513)

پیاری اسلامی بہنو! آج ہر اسلامی بہن گھر میں ناچاقیوں اور لڑائی جھگڑے سے پریشان ہے غور کریں اسکی وجہ اسکی شوہر کی نافرمانی تو نہیں۔شوہر کی ناراضگی اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی ناراضگی ہے جو عورتیں بات بات پہ شوہر سے روٹھتی گال پھلاتی اور غصے میں چلا چلا کر کفتگو کرتی ہیں اگر زبان سے غصے کی آگ ٹھنڈی نہ ہو تو گھر کی قیمتی چیزیں توڑ کر شوہر کا مالی نقصان کرتی ہیں اور بچوں کو مار پیٹ کر گھر کا ماحول خراب کر دیتی ہیں ایسی بے باک عورتیں نہ صرف اپنا وقار کھو دیتی ہیں بلکہ پورے گھر کا چین وسکون بھی داؤ پر لگا دیتی ہیں۔

ہونا تو یہ چاہے اگر شوہر سے کسی بات پر ناراضی ہو بھی جائے تو ازدواجی زندگی اور گھر کے سکون کو برباد نہ کیا جائے۔بلکہ ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ ناراضی کا اظہار بھی ہو جائے اور گھر یلو معاملات بھی متاثر نہ ہوں۔

شادی شدہ اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ وہ صرف اپنے حقوق ادا کریں کیونکہ ہم نے صرف اپنا حساب دینا ہے۔


اللہ نے بیوی پر شوہر کی اطاعت فرض کی ہے جب تک شوہر سے اللہ کی معصیت کا حکم نہ دے بیوی پر واجب ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ہر بات مانے اور اس کے حکم کو فوراً بجا لائے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ عورتوں میں سے کون سی عورت بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ عورت کہ جب اس کا شوہر دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے اور جب وہ اسے حکم دے تو یہ اس کی اطاعت کرے اور اپنی جان و مال کے بارے میں کوئی ایسا اقدام نہ کرے جو اس کے شوہر کو ناگوار ہو۔(سنن کبریٰ للنسائی،5/ 310،حدیث: 8961)

یہاں ہمیں ایک ضابطہ یاد رکھنا چاہیے کہ شوہر حاکم ہوتا ہے اور بیوی محکوم ہوتی ہے اس کو الٹ کرنے کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:میں نے جہنم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی ہے وجہ پوچھی گئی تو فرمایا شوہر کو ناشکری اور احسان فراموشی کرتی تھی۔

بیوی کو چاہیے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر فرمائش نہ کرے اس کی خوشیوں میں شریک ہو پریشانی میں اس کی ڈھارس بنے اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرے اور خاموش رہے۔

بیوی کو چاہیے بغیر اجازت شوہر کے گھر سے نہ نکلے اگر ایسا کیا تو جب تک توبہ نہ کرے اللہ پاک اور فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں عرض کی گئی اگرچہ شوہر ظالم ہو؟ فرمایا: اگرچہ شوہر ظالم ہو۔

اگر شوہر نے بیوی کو بلایا اس نے انکار کر دیا اور شوہر نے غصے میں رات گزاری تو فرشتے صبح تک اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (بخاری، 2/377 ، حدیث: 3237)

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)

ان تمام احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شوہر کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے ان کے حقوق کی ادائیگی کس قدر لازم ہے شوہر کے حقوق میں شامل ہے جب اس کا شوہر اسے نفل روزہ رکھنے سے منع کرے تو وہ ہرگز نہ رکھے اور اگر رکھے گی تو روزہ قبول نہ ہو گا مرد حاکم ہے اس لئے عورت اس کی اطاعت کرے گی اور نافرمانی سے ہر دم بچے گی کہ شوہر کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز الایمان: مرد افسر ہیں عورتوں پر ۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مرد اپنی عورت کی بداخلاقی پر صبر کرتا ہے اسے صبر ایوب جتنا اجر دیا جائے گا اور جو عورت اپنے شوہر کی بد سلوکی بد خلقی کو برداشت کرے گی آسیہ زوجہ فرعون جتنا اجر ملے گا۔

اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور اپنے حقوق کے مطالبے کے بارے میں درگزر کرنے کا رویہ بنائے شوہر کی نافرمانی اور حکم عدولی کی بنا پر عورتوں کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔

اللہ مسلم معاشرے کی تمام خواتین کو شوہر کے حقوق احسن انداز میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز الایمان: مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا ۔

اس آیت مبارکہ کے تحت صراط الجنان میں ہے: عورت کی ضروریات، اس کی حفاظت، اسے ادب سکھانے اور دیگر کئی امور میں مرد کو عورت پر تسلّط حاصل ہے گویا کہ عورت رعایا اور مرد بادشاہ، اس لئے عورت پر مرد کی اطاعت لازم ہے عورت پر شوہر کے حقوق کی ادائیگی کرنا لازم ہے شوہر کو تکلیف دینا شوہر کی نافرمانی کرنا عورت کے لیے جائز نہیں جو عورتیں شوہروں کی نافرمانی کرتی ہیں اس حدیث مبارکہ پر غور کریں کہ

جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ عورت نہ آئے، پھر اس کا شوہر ناراضی کی حالت میں رات گزارے تو فرشتے صبح ہونے تک اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔صحیحین کی روایت میں ہے: جب کوئی عورت اپنے شوہر کے بستر سے علیحدہ رات گزارے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔(بخاری، 2/377 ، حدیث: 3237) ایک روایت میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کردے تو آسمان والوں کا مالک یعنی اللہ اس عورت سے اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک کہ اس کا شوہر اس سے راضی نہ ہوجائے۔

قارئین اس حدیث مبارکہ کے تحت امام شرف الدین حسین بن محمّدطیبی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ شوہر کی رضا میں رب کی رضا ہے اور شوہر کی ناراضی میں ربّ کی ناراضی ہے اورسوچو کہ قضائے شہوت میں شوہر کی رضامندی اتنی اہم ہے تو پھر دین کے معاملے میں اس کی رضا و ناراضی کی کس قدر اہمیت ہوگی۔

اسی طرح شوہر کو تکلیف دینے کے متعلق حدیث مبارکہ میں ہے: آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: جب کوئی عورت دنیا میں اپنے شوہر کو تکلیف دیتی ہے تو جنت میں حور عین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے کہ اسے تکلیف مت دے، اللہ تجھے ہلاک کرے، بے شک وہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب اسے تجھ سے جدا ہوکر ہمارے پاس آنا ہے۔ (ترمذی، 2/392، حدیث: 1177)

حدیث مبارکہ سے شوہر کو ایذاء دینے کے متعلق معلوم ہوا لہذا عورت کو چاہیے کہ اپنے شوہر کی ہر جائز بات میں اطاعت کرے۔

اگر شوہر زینت اختیار کرنے کا کہے تو عورت پر زینت اختیار کرنا لازم ہوجاتا ہے یہاں کئی اسلامی بہنیں نادانی کرتی ہیں کہ بازاروں میں،غیر محرموں کے سامنے،شاپنگ مالوں، شادی ہال میں تو سج سنور کر نکلتی لیکن جہاں جس کے لیے زینت کرنا ضروری ہے وہاں نہیں کرتیں، گھر میں میلے کچیلے کپڑے بدبودار رہتی ہیں۔

اسی طرح شوہر اپنے والدین کی خدمت کا حکم دے تو بیوی کو چاہیے انہیں اپنے ساس سسر کے بجائے اپنے والدین سمجھتے ہوئے خوش دلی کے ساتھ انکی خدمت کرے۔

عورت کو چاہیے کہ شوہر کے ہر اس حکم پر جو خلاف شرع نہ ہو لبیک کہے، خوش دلی کے ساتھ اسے انجام دے۔

شوہر اگر نفلی روزے رکھنے سے منع کرے تو عورت پر لازم ہے کہ وہ نفلی روزے نہ رکھے

اس بارے میں حدیث مبارکہ ہے: کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی روزہ) رکھےاور کسی کو اس کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر نہ آنے دے۔ (فیضان ریاض الصالحین، 3/496، حدیث: 282)

لیکن یاد رہے عورت پر شوہر کے حکم کی پابندی اسی وقت لازم ہے کہ جب تک شوہر خلاف شرع حکم نہ کرے کیونکہ شرع کے مخالف کسی کا حکم ماننا جائز ہی نہیں ایسا نہ ہو کہ شوہر بےپردگی کا حکم دے تو عورت اس کی مانے۔

اسی طرح اگر شوہر ناجائز زینت کا حکم دے جیسے آئی بروز بنوانا تو عورت پر لازم ہے کہ وہ اس کی نہ مانے۔

اسی طرح اگر شوہر عورت کو یہ حکم دے کہ وہ اس کے دوستوں کے ساتھ بات چیت کرے، ہنسی مذاق کرے عورت پر لازم ہے کہ شوہر کی نہ مانے اور اس کے دوستوں اور تمام نامحرموں سے شرعی پردہ کرے۔

اسی طرح شوہر اگر عورت کو حکم دے کہ میرے ساتھ سینما چلو عورت پر لازم ہے وہ ہرگز نہ جائے۔


عورت پر شوہر کے بہت احسانات ہیں اگر وہ اس کے حقوق کو کما حقہ ادا کرنا چاہے نہیں کر سکتی۔ اللہ کریم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ- (پ 21، الروم: 21) ترجمہ کنز الایمان: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ اُن سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبّت اور رحمت رکھی۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو شوہر کے سکون و آرام کیلئے پیدا فرمایا ہے اور عورت سے سکون حاصل کرنے کا ایک ذریعہ شرعی نکاح کے بعد ازدواجی تعلق قائم کرنا ہے لہذا عورتوں کو چاہئے کہ اگر کوئی شرعی یا طبعی عذر ناہو تو اپنے شوہر کو ازدواجی تعلق قائم کرنے سے منع نا کریں اور شوہروں کو بھی چاہیے کہ اپنی بیویوں کے شرعی یا طبعی عذر کا لحاظ رکھیں جو عورت بغیر کسی عذر کے اپنے شوہر کو ازدواجی تعلق قائم کرنے سے منع کر دیتی ہے اس کیلئے درج زیل حدیث میں بڑی عبرت ہے:

حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم!جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جس شخص نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا اور بیوی آنے سے انکار کردے تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس عورت سے ناراض رہتا ہے جب تک اس کا شوہر اس سے راضی نا ہو جائے۔ (مسلم، ص 853، حدیث: 121)

افسوس!کہ آج کل عورتیں اپنے شوہروں کی تسکین تو دور کی بات طرح طرح کی فرمائشیں اور جھگڑے کرتی ہیں اور یوں پریشانی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں آئیے مزید عبرت کیلئے حدیث مبارکہ ملاحظہ کیجئے کہ

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ پیارے آقا ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: جب کوئی عورت دنیا میں اپنے شوہر کو تکلیف دیتی ہے تو جنت میں حور عین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے کہ اسے تکلیف مت دے، اللہ تجھے ہلاک کرے، بے شک وہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب اسے تجھ سے جدا ہوکر ہمارے پاس آنا ہے۔(ترمذی، 2/392، حدیث: 1177)

اس حدیث پاک میں شوہر کی بڑی عزت وعظمت کا بیان ہے، نیز اس بات کا بھی بیان ہے کہ شوہر کو تکلیف دینا اتنا برا ہے کہ جب کوئی عورت دنیا میں اپنے نیک شوہر کو تکلیف دیتی ہے تو جواب میں جنت کی حور اسے تنبیہ کرتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے نیک شوہر کو تکلیف دینا گویا جنتی مخلوق کو تکلیف دینا ہے۔

حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا ہے۔ (ابن ماجہ، 2/411، حدیث: 1852)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: یہ فرمان مبارک مبالغے کے طور پر ہے،سیاہ و سفید پہاڑ قریب قریب نہیں ہوتے بلکہ دور دور ہوتے ہیں مقصد یہ ہیکہ اگر خاوند شریعت کے دائرے میں رہ کر مشکل سے مشکل کام کرنے کا بھی حکم دے تب بھی بیوی اسے کالے پہاڑ کا پتھر سخت پہاڑ تک پہنچانا سخت مشکل ہے کہ بھاری بوجھ لے کر سفر کرنا ہے۔ (ابن ماجہ، 2/411، حدیث: 1852)


شوہر کی نافرمانی سے مراد وہ اعمال یا رویے ہیں جن میں ایک عورت جان بوجھ کر اپنے شوہر کے جائز اور شرعی طور پر درست احکامات یا خواہشات کو رد کرے یا ان کی تعمیل نہ کرے، خاص طور پر جب وہ شوہر کی ذمہ داریوں اور حقوق سے متعلق ہوں۔ اسلام میں میاں بیوی کے تعلقات محبت، تعاون، اور احترام پر مبنی ہیں، اور شوہر کے حقوق کو پورا کرنا بیوی کے فرائض میں شامل ہے اسلام میں شوہر اور بیوی کے حقوق اور فرائض کا ذکر نہایت وضاحت کے ساتھ کیا گیا ہے تاکہ گھرانہ خوشگوار اور اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔ شوہر کی نافرمانی کو اسلام میں ناپسندیدہ اور گناہ قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:

1۔ شوہر کے حق کی عظمت: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے، تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، اس حق کی بنا پر جو اللہ نے شوہر کو اس پر دیا ہے۔ (ابن ماجہ،2/411، حدیث: 1853)

2۔ شوہر کی نافرمانی پر وعید: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہ عورت جو اپنے شوہر کی نافرمانی کرے اور اس کا حق ادا نہ کرے، اس کی نماز اور دیگر اعمال قبول نہیں ہوتے یہاں تک کہ وہ اپنے شوہر کو راضی کر لے۔ (ابن ماجہ، 2/412، حدیث: 1853)

3۔ جنت میں داخلے کی شرط: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر عورت پانچ وقت کی نماز ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے، اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے، تو وہ جنت کے کسی بھی دروازے سے داخل ہو سکتی ہے جو وہ چاہے۔(مسند امام احمد، 1/406، حدیث: 1661)

4۔ شوہر کی رضا مندی کی اہمیت: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: عورت کا وہ شوہر جس کا انتقال اس حال میں ہو کہ وہ اپنی بیوی سے راضی ہو، وہ عورت جنت میں جائے گی۔ (ترمذی،2/ 273، حدیث: 1173)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے دوزخ دکھائی گئی تو میں نے دیکھا کہ اس میں اکثریت عورتوں کی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ کثرت سے لعنت کرتی ہیں اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہیں۔ (بخاری،3/463، حدیث: 5197)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: جو عورت اس حال میں فوت ہو کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگی۔

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ شوہر کی ناراضی دنیا اور آخرت میں نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کے حقوق پورے نہیں کرتی اور اس کی نافرمانی کرتی ہے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں جب تک وہ توبہ نہ کرے یا اپنے شوہر کو راضی نہ کر لے۔ (بخاری، 3/462، حدیث: 5193)

شوہر کی نافرمانی کے ممکنہ پہلو: جائز احکامات کی خلاف ورزی: اگر شوہر بیوی کو ایسے کام کا حکم دے جو شریعت کے دائرے میں جائز ہو اور وہ انکار کرے تو یہ نافرمانی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔

ناپسندیدہ رویہ: شوہر کے ساتھ بدسلوکی، بدتمیزی، یا بدکلامی بھی نافرمانی میں شامل ہو سکتی ہے۔

بلاوجہ انکار: اگر بیوی کسی معقول وجہ کے بغیر شوہر کی بات نہ مانے یا اس کے حقوق ادا نہ کرے۔

حضرت حسین بن محسن رضی اللہ عنہ اپنی پھوپھی کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ وہ کسی کام سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جب رسول اللہ ﷺ ان کی حاجت پوری فرما چکے تو ارشاد فرمایا کیا تم شوہر والی ہو یعنی شادی شدہ ہو انہوں نے عرض کی جی ہاں فرمایا تم خدمت کے اعتبار سے شوہر کے لیے کیسی ہو عرض کی جو کام میرے بس میں نہ ہو اس کے علاوہ میں ان کی خدمت میں کوتاہی نہیں کرتی ارشاد فرمایا اس بارے میں غور کر لینا کہ شوہر کے اعتبار سے تمہارا کیا مقام ہے کیونکہ وہی تمہاری جنت اور دوزخ ہے۔ (سنن كبری للنسائی، 5/311، حدیث: 8963)

الغرض اگر شوہر سے کسی بات پر ناراضی ہو بھی جائے تو اادوا جی زندگی اور گھر کے سکون کو اس کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے بلکہ ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ ناراضی کا اظہار بھی ہو جائے اور گھریلو معاملات بھی متاثر نہ ہوں۔


اسلام میں میاں بيوی کا رشتہ ایک خاص مقام و مرتبہ کا حاصل ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کا احترام و حقوق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے بیوی کا شوہر کی نافرمانی کرنا ناشکری کرنا شریعت کے اصول کا خلاف ہے اور یہ گھروں کا سکون برباد ہونے کا ایک بڑا نمایاں پہلو ہے۔

اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ- (پ 2، البقرۃ: 187) ترجمہ کنز العرفان:وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔

اللہ تعالی نے کتنے خوبصورت انداز میں رشتہ ازدواج کو تشبیہ دی ہے۔ اللہ تعالی نے مرد کو عورت سے افضل بنایا ہے مرد اپنے آرام و سکون کی پرواہ کیے بغیر کٹھن مشکلات کو اپنے اہل و عیال کی خوشیوں اور خواہشات پر قربان کرتا ہے مگر آج کل کچھ جدید اور آزاد دین کے حاصل اس بات کو سمجھنے کے بجائے یہ کہتے ہے کے عورت مردوں سے کم نہیں خواہ بہن ہو یہ بیٹی ہو یہ بیوی اسی سوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت سے عورتیں اپنے شوہر کی نافرمانی اور مخالفت کرتی ہے اور حق کو بھلا دیتی ہے کو شوہر کا ہے اسی ضمن میں حدیث مبارکہ ہے:

حضرت انس رضہ اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر آدمی کا آدمی کے لیے سجدہ کرنا درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کے و اپنے شوہر کو سجدہ کرے کہ اس کی ذمے بہت بڑا حق ہے قسم ہے اس کی جس قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر پیر سے لیے کر سر تک شوہر کے جسم پر کوئی زخم ہو جس سے پیپ یہ خون بہتا ہو۔ (مسند امام احمد، 5/445، حدیث: 1249)

اللہ پاک نے شوہر کا کتنا حق بیان فرمایا ہے اگر کوئی عورت نہ شکری کرے یا نافرمانی کرے تو وہ غضب الہٰی کی حقدار ہو گی عورتوں کی خاوند کی نافرمانی ہی یہ وجہ ہے کے کثیر تعداد عورتوں کی جہنم میں ہو گی۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا: میں نے شب معراج کی رات دوزخ میں جھانکا تو وہاں زیادہ تر عورتیں تھیں صحابی نے عرض کی یا رسول االلہ کس وجہ سے فرمایا اس لیے کا عورتیں لعن طعن زیادہ کرتی اور خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ (بخاری، 1/15، حدیث: 29)

اللہ بڑا رحیم ہے معاف فرمانے پر آئے تو کتنے ہی گنہگار کو معاف فرما دے پکڑ کرنے پر آئے تو ایک تنکے پر بھی پکڑ فرما سکتا ہے اسلامی بہنوں ہمیں حتی الامکان کو کوشش کرنی چاہیے کہ شوہر کی نافرمانی سے بچیں کیوں کہ یہ نافرمانی کا رویہ رشتوں میں تناؤ اور ہے چینی کا سبب بن سکتا ہے اور یہ نافرمانی عذاب نار کا حقدار کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔


عورت کی حفاظت کرنے، اسے ادب سکھانے اور دیگر کئی امور میں مرد کو عورت پر تسلّط حاصل ہے گویا کہ عورت رعایا اور مرد بادشاہ، اس لئے عورت پر مرد کی اطاعت لازم ہے،یہاں ایک بات یہ بھی واضح رہے کہ میاں بیوی کے حقوق ایک جیسے نہیں بلکہ مرد کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں اور ایسا ہونا عورت کے ساتھ نا انصافی یا ظلم نہیں بلکہ عین انصاف اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے۔ اب اگر عورت یہ سوچے کہ میں شوہر کو اپنا غلام بنا کر رکھوں گی،شوہر نے کچھ اڑی دکھائی تو میں پورا ہفتہ اس سے بات نہیں کروں گی وغیرہ وغیرہ تو یاد رکھیے!یہ سوچ بیوی کو شوہر کی نا فرمانی اور باہمی تعلقات کی خرابی پر مجبور کر دے گی،جس کے نتیجہ میں ہوسکتا ہے بیوی اپنا بسا بسایا گھر خراب کر بیٹھے۔یاد رکھیے عورت جہاں شوہر کی اطاعت و فرماں برداری کر کے جنت کی مستحق بن سکتی ہے وہیں شوہر کی نا فرمانی انہیں جہنم میں بھی جھونک سکتی ہے۔جیسا کہ روایت ہے کہ

حضرت حصین بن محصن رضی اللہ عنہ کی پھوپھی جان نے بارگاہ رسالت میں اپنے شوہر کا ذکر کیا تو رسول مقبول ﷺ نے ارشاد فرمایا: دیکھ لو تمہارا ان سے کیا رویہ ہے وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہے۔ (سنن الکبری للنسائی،5/ 310، حدیث: 8962)

اس روایت سے ان اسلامی بہنوں کو درس حاصل کرنا چاہئے جو بات بات پر بلاوجہ شوہر سے روٹھتی، گال پھلاتی اور غصے میں چلّا چلّا کر گفتگو کرتی ہیں اگر زبان سے غصے کی آگ ٹھنڈی نہ ہو تو گھر کی قیمتی اشیاء زمین پر پٹخ کرشوہر کا مالی نقصان کرتی۔ایسی عورتوں کو اس حدیث مبارکہ سے بھی نصیحت حاصل کرنی چاہیے،چنانچہ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں یہ بتاؤں کہ جنتی عورتوں کونسی ہیں؟ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: جی ہاں!یارسول اللہﷺ ارشاد فرمایا:ہر محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت،جب وہ شوہر کوناراض کردے یا اسے تکلیف دی جائے یا اس کا شوہراس پرغصہ کرے تو وہ کہے کہ میرا یہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، میں اس وقت تک سوؤں گی نہیں جب تک آپ راضی نہ ہوجائیں۔ (معجم صغیر، 1/46،حدیث:118)

غور کیجئے کہ ہمارے میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطفٰےﷺ نے کتنے احسن انداز میں خواتین کو حسن اخلاق کا درس دیا ہے یہ ہے جینے کا حقیقی انداز، یہ ہے زندگی گزارنے کااصل ڈھنگ، ایسے اخلاق سے گھر جنت کا نمونہ بنتے ہیںبے شک جو عورتیں اپنے شوہر کی نا فرمانی کرتی اور انہیں کسی بھی طرح سے ایذا دیتی ہیں وہ فقط اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہی ہوتی ہیں،شوہر کو ایذا دینے کے متعلق ایک روایت پیش خدمت ہے،چنانچہ

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورعین کہتی ہیں: خدا تجھے قتل کرے، اسے ایذا نہ دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آجائے گا۔ (ترمذی، 2 / 392، حدیث: 1177)

اللہ پاک تمام عورتوں کو عقل سلیم عطا فرمائے۔آمین

شریعت مطہرہ میں میاں بیوی کے باہمی حقوق کو بہت اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کے بہت تاکید کی گئی ہے، اس بارے میں چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے چار چیزیں ملیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی ملی: (1) شکر گزار دل (2) یاد خدا کرنے والی زبان (3) مصیبت پر صبر کرنے والا بدن (4) ایسی بیوی کہ اپنے نفس اور شوہر کے مال میں گناہ کی متلاشی یعنی اس میں خیانت کرنے والی نہ ہو۔ (معجم كبير، 11 / 109، حدیث: 11275)

فرمان مصطفیٰ: کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھے اور کسی کو اس کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر نہ آنے دے۔ (فیضان رياض الصالحين، 3/496، حدیث: 282) اس حدیث پاک سے ہمیں معلوم ہوا کہ عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر روزے نہ رکھے کہ اس کی خدمت میں روزہ رکھنے سے کوئی خلل نہ آئے اور اس کی اجازت کے بغیر کسی شخص کو گھر میں نہ آنے دے۔

فرمان آخری نبی ﷺ: جب آدمی بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اسے چاہیے کہ فوراً چلی جائے اگرچہ وہ تنور پر ہی کیوں نہ بیٹھی ہو۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1163)

شوہر حاکم ہوتا ہے اور بیوی محکوم، اس کے الٹ کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہٰذا جائز کاموں میں شوہر کی اطاعت کرنا بیوی کو شوہر کی نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار ہوگی، چنانچہ فرمان مصطفے ﷺ ہے: عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ۔ (مسند امام احمد، 1/406، حدیث: 1661)

ایک اور حدیث ملا حظہ فرمائیے چنانچہ سیده ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو عورت اس حال میں فوت ہو جائے اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/386، حديث: 1164)

ہم بستری سے متعلق ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: جب شوہر اپنی بیوی کو بچھو نے پر بلائے اور وہ نہ آئے شوہر نا راضگی کی حالت میں رات بسر کرے تو اس عورت پر فرشتے صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (بخاری، 2/377، حديث: 3237)

اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (مسند امام احمد 9/353، حديث: 24565)

شوہر ناراض ہو جائے تو اس حدیث پاک کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے جس میں جنتی عورت کی یہ خوبی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اس کا شوہر اس سے ناراض ہو تو وہ کہتی ہے: میرا یہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جب تک آپ راضی نہ ہوں گے میں سوؤں گی نہیں۔ (معجم صغیر 1/64، حدیث:118)

اگر سجدہ تعظیمی جائز ہوتا تو عورت اپنے شوہر کو کرتی، فرمان مصطفی ﷺ اگر میں کسی شخص کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)

شوہر نے عورت کو بلایا اس نے انکار کر دیا اور غصے میں اس نے رات گزاری تو صبح تک اس عورت پر فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (بخاری، 2/377 حدیث: 3237) اور دوسری روایت میں ہے کہ جب تک شوہر اس سے راضی نہ ہو، اللہ اس سے ناراض رہتا ہے۔ (مسلم، ص 853، حدیث: 1436)

جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورعین کہتی ہیں خدا تجھے قتل کرے، اسے ایذا نہ دے یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔ (ترمذی، 2/392، حدیث: 1177)

ذرا سوچئے کہ آپ ﷺ نے شوہر کے حقوق کو کتنی اہمیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ اس سے درس حاصل کریں اور شوہر کے حقوق میں کوئی کمی نہ آنے دیں کیونکہ شوہر کی رضا میں رب کی رضا اور شوہر کی ناراضی میں رب کی ناراضی پوشیدہ ہے۔

عورت کی زندگی میں یوں تو بہت سے موڑ آتے ہیں مگر اس کی زندگی کے چار دور خاص قابل ذکر ہیں۔ (1۔) عورت کا بچپن (2۔) عورت بالغ ہونے کے بعد (3۔) بیوی بن جانے کے بعد (4۔) ماں بن جانے کے بعد

شادی ہونے کے بعد/بیوی بن جانے کے بعد اسی طرح عورت پر مرد کے حقوق لازم ہوتے ہیں جس طرح مرد پر عورت کے حقوق لازم ہوتے ہیں۔ آج کل میاں بیوی میں نااتفاقی بات بات پر لڑائی جھگڑے ایک عام سی بات ہے اور جب دو ایسے افراد میں نااتفاقی پیدا ہو جائے جنہوں نے پوری زندگی ایک ساتھ رہنا ہے تو پھر ان کی زندگی بہت تلخ اور نتائج سنگین ہو جاتے ہیں یہ نااتفاقی نا صرف امن و سکون تباہی کرتی ہے بلکہ کبھی دین و آخرت کی بربادی کا سبب بھی بنتی ہے اور میاں بیوی کے علاوہ اس نااتفاقی کا اثر اولاد سمیت دیگر کئی رشتوں پر پڑتا ہے۔ اس نااتفاقی کا سبب سے بڑا سبب علم دین سے دوری اور ایک دوسرے کے حقوق کو نہ جاننا ہے۔ جب عورت شوہر کی عزت و عظمت کا خیال نہیں کرے گی تو لڑائی جھگڑے معمول بن جاتے ہیں لہذا عورت کو چاہیے کہ شوہر کے حقوق جانے ان کا تحفظ کرے اور اس کی نافرمانی کا وبال اپنے سر نہ لے کہ اس میں دین و آخرت دونوں کا نقصان ہے۔

بیوی پر شوہر کا انتہائی اہم حق یہ ہے کہ بیوی اسکی ہر ایسے کام میں اطاعت کرے جس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو۔

حدیث پاک:خاوند کی فرماں بردار خاتون کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب ایک عورت پانچوں نمازیں ادا کرے ماہ رمضان کے روزے رکھے اپنی عزت کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو اسے کہا جائے گا تم جنت کے جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ۔ (مسند امام احمد، 1/406، حدیث: 1661)

شوہر اگر وظیفہ زوجیت کے لئے بیوی کو بلائے تو اس مطالبے کی تکمیل میں خصوصاً کوتاہی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس سے شوہر کی ناراضگی پر اسکے گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا: جب شوہر بیوی کو اپنے بچھونے پر بلائے اور عورت آنے سے انکار کر دے اور اس کا شوہر اس بات سے ناراض ہو کر سو رہے تو رات بھر خدا کے فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (بخاری، 3/462، حدیث: 5193)

حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا ہے

اور یہ بھی فرمایا کہ جب کوئی مرد اپنی بیوی کو کسی کام کے لیے بلائیں تو وہ عورت اگر چولہے کے پاس بیٹھی ہو اس کو لازم ہے کہ وہ اٹھ کر شوہر کے پاس چلی آئے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث:1163)

حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورت چاہے کتنے بھی ضروری کام میں مشغول ہو مگر شوہر کے بلانے پر سب کاموں کو چھوڑ کر شوہر کی خدمت میں حاضر ہو جائے۔

اور رسول اللہﷺ نے عورتوں کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ پیلے رنگ کے پہاڑ کو کالے رنگ کا بنا دے اور کالے رنگ کے پہاڑ کو سفید بنا دے تو عورت کو اپنی شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (ابن ماجہ، 2/411، حدیث: 1852)

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مشکل سے مشکل اور دشوار کام کا بھی اگر شوہر حکم دے تو تب بھی عورت کو شوہر کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کے ہر حکم کی فرمانبرداری کے لیے اپنی طاقت بھر کمر بستہ رہنا چاہیے۔

اور خاوند کی نافرمانی کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اسکی وجہ سے نافرمان بیوی کی نماز تک قبول نہیں ہوتی جیسا کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے: دو آدمیوں کی نماز انکے سروں سے اوپر نہیں جاتی ایک اپنے آقا سے بھاگا ہوا غلام یہاں تک کہ وہ واپس آجائے اور دوسری وہ عورت جو اپنے خاوند کی نافرمان ہو یہاں تک کہ وہ اسکی فرمانبردار بن جائے۔(شعب الایمان، 6/417، حدیث: 8727)

ہاں یہ بات یاد رہے کہ خاوند کی اطاعت اس وقت تک ضروری ہے جب تک اللہ کی نافرمانی نہ ہو اور اگر خاوند کسی ایسی بات کا حکم دے جس میں اللہ کی نافرمانی ہوتو اس میں خاوند کی اطاعت ہرگز نہیں ہوگی جیسا کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے: اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔

کسی نے بہت خوب کہا کہ بےوقوف عورت شوہر کی نافرمانی کرکے اور اسے اپنا فرماں بردار بنا کر غلام بنانے کی کوشش کرتی ہے یوں وہ غلام کی بیوی بن جاتی ہے جبکہ عقل مند عورت شوہر کو بادشاہ کی حیثیت دے کر ملکہ بن جاتی ہے۔

اللہ پاک تمام شادی شدہ اسلامی بہنوں کو خاوند کے حقوق سمجھ کر انہیں احسن انداز سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین

اسلام دین فطرت ہے اور اس کے احکامات میں انسانی فطرت کی رعایت رکھی گئی ہے اسلام فطری تقاضوں کی مخالفت نہیں کرتا اسی طرح اللہ نے انسانوں کو بدکاری،بے حیائی،جنسی بے راہروی اور شیطانی وساوس سے بچانے کے لیے نیز ان کو راحت وسکون پہنچانے کے لیے نکاح کی نعمت عطا فرمائی تاکہ عورتیں اور مرد نکاح کے ذریعے رشتا ازواج میں منسلک ہو کر خود کو گناہوں سے بچائیں اور معاشرے کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کریں اسی کے پیش نظر اللہ نے ان کے حقوق متعین فرما دیئے تاکہ ان کے درمیان دڈار نہ آسکے اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلے تو وہ خوشحال اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔

یوں ہی آج کل عورتیں اپنے شوہر کی نافرمانی کرتی ہیں وہ اس حدیث سے شوہر کے حقوق کے متعلق جان لے جیسا کہ حدیث پاک میں عورت کو شوہر کی فرمانبرداری کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اس پر لازم ہے کہ شوہر کے پاس چلی آئے اگرچے چولہے کے پاس بیٹھی ہوں۔ (ترمذی، 2/386، حدیث:1163)

شوہر کی فرمانبرداری کا اس قدر حکم ہے تو نافرمانی کی کیا وعید ہوگی حدیث پاک میں ہے کہ عورت بے اذن (یعنی بے اجازت) شوہر کہیں نہ جائے اگر جائے گی تو آسمان کے فرشتے،رحمت کے فرشتے،عزا ب کے فرشتے سب اس پر لعنت کرینگے جب تک پلٹ کر آئے۔ (مجمع الزوائد، 4/563، حدیث: 8637)

دیکھا آپ نے شوہر کی نافرمانی اور اسکی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کا وبال کہ اس پر فرشتے لعنت کرتے ہیں تو دیگر معاملات میں کس قدر معاملہ سخت ہوگا یا رکھئے کہ شوہر کا ہر حکم ماننا عورت پر فرض ہے جبکہ وہ کوئی خلاف شرع کام نہ ہو کیونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی میں کسی کی فرمانبرداری نہیں ہے یوں ہی اگر شوہر کام پر چلا جائے تو اسکے گھر کی اسکی عزت کی حفاظت کرے اور جس کا گھر آنا شوہر کو پسند نہیں اسکو گھر بھی نہ آنے دیا جائے۔

شوہر کی نافرمانی کا حکم؟ عورت کا شوہر کی نافرمانی کرنا اور اس کو تکلیف دینا ناجائز اور حرام ہے۔ حدیث میں ارشاد ہوتا ہے: میں نے جہنم کو دیکھا تو میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے اس (جہنم) میں عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ پایا۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کیوں؟ تو آپ ﷺ نے بتایا کہ ان کے کفر کی وجہ سے، کہا گیا کہ کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:وہ خاوند کی نافرمانی کرتی ہیں اور احسان فراموشی کرتی ہیں، اگر آپ ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کریں، پھر وہ آپ میں کوئی ناگوار بات دیکھ لیں تو کہتی ہے میں نے تجھ میں کبھی خیر نہیں دیکھی۔ (بخاری، 1/15، حدیث:29)

شوہر کو بیوی پر حاکم کسی افسر نے نہیں بلکہ اللہ نے بنایا ہے چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز الایمان: مرد افسر ہیں عورتوں پر ۔

اسلامی بہنوں شوہر کے حقوق کا خوب خیال رکھیے۔