
بیوی
کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کی فرمانبرداری کر کے اسے راضی رکھے، حضرت ام سلمہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جو عورت اس حال
میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی،2/ 273، حدیث:
1173)
بیوی
شوہر کو اپنا غلام نہ بنا لے جو میں چاہوں وہی ہو، چاہے کچھ بھی ہو جائے مگر میری
بات میں فرق نہ آئے بلکہ اس کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ اپنے شوہر کے حقوق کا خیال
رکھے،اس کی جائز خواہشات کو پورا کرتی رہے اور اس کی نافرمانی سے بچتی رہے۔
حضرت
قیس بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ کا فرمان عظیم الشان ہے:
اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ غیر خدا کو سجدہ کرے تو حکم دیتا کہ عورت اپنے شوہر کو
سجدہ کرے۔ (ابن ماجہ،2/411، حدیث: 1853)
اس
حدیث پاک سے شوہر کی اہمیت خوب واضح ہوتی ہے لہذا اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ ان کے
حقوق کے خیال میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔
میاں
بیوی دونوں ایک دوسرے کے والدین کو اپنے والدین سمجھ کر ان کے آداب بجا لاتے رہیں
اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مابین محبت قائم دائم رکھے
اور ہمارا گھر امن کا گہوارہ بنائے۔
ہر
نیک و جائز کام میں شوہر کی اطاعت فرمانبرداری کرنا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی
زوجہ اپنے شوہر کی اطاعت فرمانبرداری میں مشغول رہیں۔ یاد رہے! اللہ تعالیٰ کا قرآن
پاک میں ارشاد ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا
فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ
اَمْوَالِهِمْؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز
العرفان:عورتوں پرنگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت
دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
لہذا
عورتوں کو مرد کی اطاعت فرمانبرداری کرنی چاہیے اس کے بجائے اگر عورت چاہے کہ شوہر
میری مانے اور میرا فرمانبردار ہو تو یہ درست نہیں، جائز درخواستیں اور فرمائشیں
مثلاً طرح طرح کے کھانے نت نئے ڈیزائن کے کپڑے وغیرہ کی طلب پوری کرنا شوہر پر
واجب نہیں، واجب صرف نان و نفقہ وغیرہ ہے البتہ اگر شوہر دیگر فرمائشیں پوری کرتا
ہے تو یہ بیوی پر احسان ہوگا۔ (عورت اور قرآن، ص 85)
شوہر کی نافرمانی کی مذمّت پر مشتمل احادیث مبارکہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس عورت کی نماز سر سے آگے نہیں بڑھتی جو اپنے خاوند کی
نافرمانی کرے جب تک وہ اس (نافرمانی) سے باز نہ آ جائے۔ (طبرانی کبیر 3/36)
2۔ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: دو قسم کے آدمی جن کی نماز ان کے سروں سے اونچی نہیں اٹھتی: اس
غلام کی نماز جو اپنے آقا سے فرار ہو جائے جب تک وہ لوٹ نہ آئے اور اس عورت کی
نماز جو شوہر کی نافرمانی کرے جب تک کہ شوہر کی نافرمانی سے باز نہ آ جائے۔

بیوی
کے لیے لازم ہے کہ اپنے خاوند سے محبت میں مخلص ہو بیوی پر اس کے شوہر کے بہت
زیادہ حقوق ہیں جن کی ادائیگی شکر سے وہ عاجز ہیں بیوی پر اپنے شوہر کے اطاعت اور
فرمانبرداری واجب ہے۔ اللہ تعالی نے شوہروں کو بیویوں پر حاکم بنایا ہے اور بہت بڑی
بزرگی دی جس کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے: اَلرِّجَالُ
قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ
بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان:عورتوں پرنگہبان ہیں اس
وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں
پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
یاد
رکھو بیوی پر شوہر کی اطاعت لازم ہے اور اپنے شوہر کو راضی و خوش رکھنا بہت بڑی
عبادت ہے اور ناراض رکھنا بہت بڑا گناہ۔
ایک
روایت میں ہے کہ جب خاوند اس (بیوی) پر ناراض ہو تو وہ لعنت کے حقدار ہے۔ جیسا کہ
حدیث مبارکہ میں ہےجب کوئی عورت دنیا میں اپنے شوہر کو تکلیف دیتی ہے تو جنت میں
حورین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے کہ اسے تکلیف مت دے اللہ تجھے ہلاک کرے بے شک وہ
تو تیرے پاس مہمان ہے عنقریب اسے تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آنا ہے۔ (ترمذی، 2/392، حدیث: 1177)
اس
حدیث مبارکہ میں شوہر کی بڑی عزت و عظمت کا ذکر ہے نیز اس بات کا بھی ذکر ہے کہ
نیک شوہر کو تکلیف دینا گویا جنتی مخلوق کو تکلیف دینا ہے۔
ایک
بار آپ ﷺ سے جہنم میں عورتوں کی کثرت کی وجہ کے متعلق استفسار کیا گیا تو آپ ﷺ نے
فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان سے مکر جاتی ہیں۔ (بخاری، 3/ 463،
حدیث: 5197)
شوہر
کی جسمانی ضرورت و خواہش کی تکمیل بیوی پر لازم ہے شرعی عذر کے بغیر تسکین شہوت سے
شوہر کو روکنا بیوی کے لیے شرعا جائز نہیں۔ احادیث میں ایسی عورتوں کے لیے سخت
وعیدات آئی ہیں، مثلاً
رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: جب شوہر اپنی بیوی کو ہمبستری کے لیے بلائے بیوی انکار کر دے
اور شوہر اپنی بیوی پر ناراضگی کی حالت میں ہی ساری رات گزار دے تو ایسی عورت پر
صبح ہونے تک فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (بخاری، 3/462، حدیث: 5193)
بیوی کا
غصہ بجا ہو یا بے جا مگر اطاعت کے پیش نظر اس کا فرض ہے کہ خاوند کے بستر پر حاضری
دینا اگر وہ خفگی میں رات کو ایسا نہ کرے تو بلاشک اس وعید شدید کی مستحق ہے۔
کئی
اسلامی بہنوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ شوہروں کی نافرمانی ہی کرتی رہتی ہیں چاہے
شوہر ان کے لئے جتنی بھی محنت کرلے اور اپنی استطاعت کے مطابق جتنی ہی ان کے ساتھ
بھلائی کرلے لیکن پھر بھی اسلامی بہنیں صبر و شکر کے بجائے ناشکری ہی کرتی رہتی
ہیں جس کے انتہائی بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں، ایسی اسلامی بہنوں کو احسان
فراموشی، ان کی نافرمانی، زبان کی بد تہذیبی اور بد تمیزی کی وجہ سے بسا اوقات
دنیا میں یہ سزا ملتی ہے کہ شوہر تنگ آکر ان کو چھوڑ دیتا ہے اور پھر انہیں ساری
عمر پچھتاوے کے ساتھ اور گھر والوں کی ڈانٹ ڈپٹ اور طعنے سن کر گزارنا پڑتی ہے۔
بیوی
کے لیے خاوند کی اطاعت ہی اس کی زندگی کو بہتر بنا سکتی ہے اس لیے اسلامی بہنوں کو
چاہیے کہ اپنے جسم،لباس اور گھر کی صفائی کا خیال رکھے، شوہر کے لیے بناؤ سنگھار
کرے، تاکہ شوہر کا دل خوش رہے کیونکہ شادی کی حکمت اور مصلحت میں سے ایک جنسی اور
نفسانی خواہشات اور ضروریات کو پورا کرنا بھی ہے۔
آپ ﷺ نے
فرمایا: جس عورت نے اس حالت میں وفات پائی کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا وہ جنت
میں داخل ہوگی۔ (ترمذی،2/ 273، حدیث: 1173)
روایت
میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی۔ اس عورت کا باپ
بیمار ہوا تو اس نے حضور ﷺ سے پیغام بھیج کر دریافت کیا کہ وہ اپنے والد کے پاس
جائے یا خاوند کی فرماں برداری کرے؟ آپ ﷺ نے خاوند کی اطاعت کا حکم دیا۔ کچھ عرصہ
بعد اس کے باپ کا انتقال ہو گیا ہے۔ تو اس عورت نے آپ ﷺ کو پیغام بھیجا۔ جس کے
جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کی اطاعت کی وجہ سے تمہارے باپ کی
مغفرت فرما دی ہے۔

اسلامی
تعلیمات کے مطابق، شوہر اور بیوی کے تعلقات میں باہمی عزت، محبت، اور تعاون کی
ضرورت ہوتی ہے۔ بیوی کو شوہر کی اطاعت کی ترغیب دی گئی ہے۔
شوہر کی نافرمانی کی وجوہات: شوہر کی نافرمانی کے کئی اسباب
ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
ناپسندیدہ رویہ: اگر شوہر کا رویہ ناپسندیدہ ہو، جیسے
کہ سختی، توہین، یا بدسلوکی تو یہ بیوی کو دل سے اس کی اطاعت سے روک سکتا ہے۔
مساوات کی خواہش: جدید دور میں بہت سی خواتین اپنے حقوق
اور مساوات کی اہمیت کو سمجھتی ہیں۔ وہ شوہر کے اس رویے کو قبول نہیں کرتیں جو ان
کی خود مختاری کو مجروح کرتا ہو۔
شوہر کی نافرمانی کے اثرات:
ازدواجی زندگی پر منفی اثرات: نافرمانی کی وجہ سے گھر کا
ماحول کشیدہ ہو سکتا ہے، جو کہ بچوں کی پرورش اور ازدواجی تعلقات پر برا اثر ڈال
سکتا ہے۔
اسلامی احکام کی خلاف ورزی: اسلامی نقطۂ نظر سے شوہر کی
جائز بات ماننے سے انکار کرنا ناپسندیدہ عمل ہے اور اس سے اللہ کی ناراضی کا خدشہ
ہوتا ہے۔
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب مرد اپنی بیوی کو
بستر پر بلائے اور وہ انکار کرے، اور شوہر ناراض ہو کر رات گزارے تو فرشتے اس پر
صبح تک لعنت بھیجتے ہیں۔ (بخاری، 3/462، حدیث: 5193)
مسائل کا حل:
باہمی بات چیت: دونوں کو ایک دوسرے کے مسائل اور جذبات
کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے اختلافات کو باہمی گفتگو کے ذریعے حل کرنا
چاہیے۔
معاف کرنا اور سمجھوتا کرنا: اسلامی تعلیمات میں معاف کرنے
اور صبر کرنے کو بہترین صفات میں شمار کیا گیا ہے، اس لیے بیوی اور شوہر دونوں کو
ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے اور سمجھوتا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
قرآن پاک
میں اللہ نے ارشاد فرمایا: وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا
اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا
صُلْحًاؕ-وَ الصُّلْحُ خَیْرٌؕ- (پ 5، النساء: 128) ترجمہ کنز الایمان:
اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی زیادتی یا بے رغبتی کا
اندیشہ کرے تو ان پر گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح خوب ہے۔
اسلامی تعلیمات پر عمل: اگر دونوں فریق اسلامی تعلیمات پر عمل
کریں اور اپنے فرائض کو سمجھیں، تو زندگی میں سکون اور برکت حاصل ہو سکتی ہے۔

اللہ
نے انسانی دنیا میں عورتوں کو جو مقام و مرتبہ بخشا ہے اور جن خوبیوں اور گونا گوں
صفات سے نوازا ہے اور اس دنیا میں انسانی خوشگوار زندگی اورپرسکون حیات انسانی
کیلئے عورت کو جو اساس و بنیاد کا درجہ حاصل ہے یہ کسی بھی باشعور انسان کی معرفت
پر پوشیدہ نہیں اسی طرح اللہ نے مردوں کو بھی بہت زیادہ مقام و مرتبہ عطا فرمایا
ہے اور وہ یہ ہے کہ مرد کو عورت کا حاکم بنایا ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ
قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ
بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان:عورتوں پرنگہبان ہیں اس
وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں
پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
اس کی
تفسیر میں صدر الافاضل سید مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: تو عورتوں کو ان (مردوں) کی اطاعت لازم ہے اور مردوں کو حق ہے کہ وہ عورتوں
پر رعایا کی طرح حکمرانی کریں اور ان کے مصالح اورتدابیر اور تادیب و حفاظت کی
سرانجام دہی کریں۔ (خزائن العرفان، ص 107)
معلوم
ہوا کہ اللہ نے مردوں کو عورتوں کا حاکم بنایا ہے اور مرد کو بڑی فضیلت عطا کی ہے
اس لئے بیوی کا فرض ہے کہ وہ خاوند کا حکم مانے اور ہر شرعی مسئلےمیں خاوند کی
اطاعت کرے بلکہ عورت کیلئے اپنے شوہر کو راضی رکھنا بڑے اجر کا کام ہے۔ لہذا بیوی
ہر لحاظ سے خاوند کی اطاعت گزاری اور اس کے حقوق میں ہرگز کوتا ہی نہ کرے بلکہ خود
تکلیف جھیل کر اپنے خاوند کو آرام پہنچانے کی کوشش میں رہے کیونکہ عورت کیلئے اپنے
شوہر کو راضی رکھنا بہت بڑی سعادت مندی ہے۔ جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے
مروی ہے کہ حضور تاجدار کائنات ﷺ نے فرمایا: جس عورت کا انتقال اس حالت میں ہو کہ
اس کا شوہر اس سے خوش و راضی ہو تو وہ عورت جنت میں جائے گی۔ (شعب الایمان، 5 /421)
محترم
اسلامی بہنو! اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ شوہر کی رضا اور خوشنودی جنت میں
جانے کا باعث ہے۔ لہذا شوہر کو ناراض رکھنا بات بات پر اختلاف اور جھنجھٹ کرنا ان
سے شاکی رہنا مال یا دیگر سلسلے میں اسے پریشان کرنا ان کی خوشی اور نا خوشی کی
پرواہ نہ کرنا یہ سب اچھی بات نہیں اور جنتی عورت کا یہ مزاج اورشیوہ نہیں۔ بہت سی
عورتوں کو دیکھا گیا ہے کہ ان کے شوہر بوڑھے ضعیف اور بیمار ہو جاتے ہیں تو ان کی
پرواہ نہیں کرتیں۔ کمزوری اور بیماری کی وجہ سے ان کو خدمت اور کھانے پینے میں وقت
کے لحاظ کی ضرورت ہوتی ہے تو عورت ایسی خدمت سے ہاتھ کھینچ لیتی ہے۔
شوہر
کا حق اتنا زیادہ ہے کہ ادا نہیں ہو سکتا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ حضور پرنور ﷺ کی خدمت میں ایک شخص اپنی بیٹی کو لے کر حاضر ہوا اور کہا
کہ یہ میری بیٹی ہے شادی سے انکار کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے بیٹی! اپنے والد
کا کہنا مان لو۔ اس نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں
اسوقت تک شادی نہیں کروں گی جب تک کہ مجھے یہ نہ معلوم ہو جائے کہ بیوی پر شوہر کا
کیا حق ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ شوہر کا بیوی پر یہ حق ہے کہ خاوند کو اگر کوئی زخم
ہے تو بیوی چاٹ لے یا اس کی ناک سے پیپ یا خون بہے اور بیوی اسے پی بھی جائے تب
بھی اس نے خاوند کا حق ادا نہ کیا (یہ مبالغہ ہے غایت خدمت اور محبت سے حقیقا پینا
مراد نہیں کیونکہ مذکورہ چیزیں ناپاک ہیں) اس نے کہا: قسم اس کی جس نے آپ کو حق کے
ساتھ بھیجا ہے میں شادی نہیں کروں گی، کیونکہ مجھ سے حق ادا نہیں ہو سکے گا۔(مستدرک
للحاکم، 2/547، حدیث: 2822)
اس
حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ عورت شوہر کا حق کماحقہ (Exactly)
ادا نہیں کرسکتی۔ مطلب بیوی یہ نہ سوچے کہ میں نے فلاں خدمت کر دی حق ادا ہو گیا
بلکہ خدمت کرتی رہے۔
جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتےہیں: حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سید المرسلین ﷺ نے فرمایا: جو عورت اللہ سے
(گناہ کے بارے میں ڈرے اور گناہ نہ کرے) اور اپنی عزت کی حفاظت کرے اور شوہر کی
اطاعت و فرمانبرداری کرے اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتےہیں اور ان
سے کہا جائے گا: جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ۔ (مسند امام احمد، 1/406،
حدیث: 1661)
جنت
کے آٹھ دروازے ہوں گے۔ لوگ اپنے اپنے خصوصی اعمال کی وجہ سے جنت کے دروازے سے
جائیں گے۔ عموما لوگ ایک دروازے سے جانے کے مستحق ہوں گے لیکن بعض مرد اور بعض
عورتیں ایسی ہوں گی کہ ان کو جنت کے آٹھوں دروازوں سے جانے کی اجازت ہوگی اور ان
کو اختیار ہوگا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہیں جنت میں چلے جائیں۔
یہ
کون عورت ہوگی جس میں یہ تین اوصاف ہوں گے:
(1)
ایک یہ کہ تقویٰ والی زندگی یعنی تمام نا جائز اور شریعت کے منع کردہ چیزوں سے
بچتی ہوگی۔ ہر گناہ کی بات سے بچتی ہوگی۔ مثلاً پانچوں نمازوں کی پابند، خصوصاً
صبح کی نماز کی۔ اپنے زیوروں کے حساب سے اگر نصاب کے برابر ہو زکوۃ نکالتی ہوگی۔
کسی
سے لڑتی جھگڑتی نہ ہوگی، لعن طعن نہ دیتی ہوگی، کوستی نہ ہوگی، احسان نہ جتلاتی
ہوگی، اسی طرح بے پردہ کہیں نہ جاتی ہوگی،اجنبی مردوں سے سخت احتیاط کرتی ہوگی،بلا
شدید ضرورت کے گھر سے باہر نہ پھرتی ہوگی،رشتہ داروں میں سے کسی سے کینہ اور بغض و
عناد نہ رکھتی ہوگی، غیبت سے بچتی ہوگی، نا محرم رشتہ داروں اور دیور سے پردہ کرتی
ہوگی، نہ ٹی وی خود دیکھتی ہوگی اور نہ گھر میں رکھتی ہوگی،ناچ و گیت گانے میں
شریک نہ ہوگی۔ غرض کہ ہر گناہ کبیرہ سے بچتی ہوگی اور اگر کسی وجہ سےگناہ ہو جائے
تو فورا توبہ کر لیتی ہوگی۔
(2)
یہ کہ شوہر کے علاوہ کسی پر نظر اور نگاہ نہ رکھتی ہوگی۔
(3)
شوہر کی اس امر میں جس سے شریعت نے منع نہیں فرمایا۔ اطاعت و فرمانبرداری کرتی
ہوگی۔ اس میں غفلت وسستی کا بہانہ نہ تلاش کرتی ہوگی۔ مثلاً عادت اور ضرورت کے
مطابق وقت پر تمام کام کر دیتی ہوگی۔ بیماری و تھکن کی حالت میں خدمت کر دیتی ہو
گی۔ مثلاً شوہر کا مزاج (Disposition) معلوم ہے کہ گرم کھانا کھاتے ہیں۔ گرم پانی
سے وضو کرتے ہیں تو ان (شوہر) کے حکم دینے سے پہلے ہی اس کا اہتمام رکھتی ہوگی۔
مطلب یہ کہ اس کی خوشی اور آرام کا لحاظ رکھتی ہوگی تو ایسی عورت کیلئے جنت کے
آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے۔
محترم
ماؤں، بہنوں! ان تینوں چیزوں پر پیشگی سے عمل کر لو اور اسی کی تعلیم موجودہ
بیٹیوں اور کل کی ہونے والی ماں کو دو اور جنت کے آٹھوں دروازے کھلوا لو۔ آج تھوڑی
نفس اور ماحول کیخلاف مشقت برداشت کرلو۔کل جنت کے مزے لوٹ لو جو ہمیشہ ہمیشہ کا
مزہ ہے۔
اللہ
ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
شوہر کی بلا اجازت گھر سے نکلنے پرفرشتوں کی لعنت: حضرت
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے حضور پر نور ﷺ سے سنا کہ آپ فرما
رہے تھے: جب عورت شوہر کے گھر سے شوہر کی ناراضگی میں نکلتی ہے تو آسمان کے سارے
فرشتے اور جس جگہ سے گزرتی ہے۔ ساری چیزیں انسان اور جن کے علاوہ سب لعنت کرتے ہیں۔(مجمع
الزوائد، 4/563، حدیث: 7638)
شوہر
کی بلا اجازت کے جب عورت باہر نکلتی ہے تو آسمان کے فرشتے رحمت کے فرشتے عذاب کے
فرشتے سب اس پر لعنت کرتے ہیں۔ جب تک کہ وہ واپس نہ آ جائے۔ (معجم اوسط، 6/408،
حدیث: 9231)
عورتوں کیلئے نصیحت آموز حکایت: حضرت انس بن
مالک رضی اللہ عنہ حضور مکی مدنی سرکار،سرکار ابد قرار ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک
شخص گھر سے باہر جاتے ہوئے اپنی بیوی سے کہہ گیا کہ گھر سے نہ نکلنا۔ اس کے والد
گھر کے نچلے حصہ میں رہتے تھے اور وہ گھر کے اوپر رہا کرتی تھی۔ اس کے والد بیمار
ہوئے تو اس نے حضور نور مجسم ﷺ کی خدمت میں بھیج کر عرض کیا اور معلوم کیا۔ آپ ﷺ نے
فرمایا: اپنے شوہر کی بات مانو چنانچہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ پھر اس نے
حضورطہ ویس ﷺ کے پاس آدمی بھیج کر معلوم کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: شوہر کی اطاعت کرو۔
پھر حضور سرکار مدینہ راحت قلب و سینہ ﷺ نے اس کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ اللہ نے
تمہارے شوہر کی اطاعت کرنے کی وجہ سے تمہارے والد کی مغفرت کر دی اور جنت عطا فرما
دی۔ (مجمع الزوائد، 4/316)
حدیث
مذکورہ میں عورت کا اپنے والد کے پاس نہ جانا صرف شوہر کی اطاعت کی وجہ سے تھا۔
یہ
جذبہ ایمانی صحابیہ کا رضی اللہ عنہا ہے۔ ورنہ آج کے اس پرفتن دور میں کون عورت ہے
کہ باپ وفات پا جائے اور وہ نہ جائے بلکہ اس زمانہ میں تو کوئی شریعت کی اجازت
لینا ہی گوارا نہ کرے۔ اللہ ہماری اسلامی بہنوں کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حدیث
مذکورہ پر غور کیجئے کہ حضور فخر بنی آدم ﷺ نے بھی اس صحابیہ رضی اللہ عنہ کو اسی
بات کی تاکید کی تھی کہ جب شوہر نے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی ہے تو مت نکلو
اور شوہر کی بات کا نصیحت کا لحاظ رکھو۔ یہاں تک کہ والد کی وفات ہوگئی۔ اللہ نے
خاوند کی اطاعت کی برکت سے اس کے والد کی مغفرت فرمادی اور جنت عطا فرما دی۔ جب
بیوی کی اطاعت سے اس کے والد کی مغفرت ہو گئی تو خود عورت بھی مغفرت کے لائق نہ
ہوگی؟ یقینا ہوگی۔
شوہر کی خدمت صدقہ ہے: حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
کہ حضور پر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیوی کا شوہر کی خدمت کرنا صدقہ ہے۔ كنز العمال،
16/169)
شوہر
کی خدمت گزار اسلامی ماؤں، بہنوں تمہیں مبارک ہو کہ اس کی خدمت کرنے کی کتنی فضیلت
ہے کہ جس طرح اہل مال کو اللہ کے راستہ میں مال خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ اسی طرح
تمہیں شوہروں کی خدمت میں ثواب ملتا ہے۔
شوہر
کی خدمت کا مفہوم ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدمت کا مفہوم وسیع ہے۔ اس میں لیل و
نہار یعنی دن اور رات کے تمام معمول شامل ہیں مثلاً ناشتہ اور کھانا ان کے وقت اور
مزاج کی رعایت کر کے بنانا ان کے بھی سامان کی حفاظت اور طریقہ سلیقہ سے رہنا، غسل
و وضو میں تعاون کرنا اور اگر غسل کی حاجت ہو تو ان کے کہے بغیر انتظام کرنا اور
پہلے سے تیار رکھنا حسب ضرورت کپڑے دھودینا۔ پھٹے ہوں تو سی دیتا۔ حسب ضرورت سر
پاؤں دبا دینا،بیمار ہوں تو ان کی دوا اور کھانے کے پر ہیز کا اہتمام کرنا، صبح
فجر کیلئے دو پہر کو ظہر کیلئے جگا دینا،سونے سے پہلے تکیہ و بستر کا اہتمام کرنا۔
شوہر کے احباب اور مہمانوں کی خدمت کرنا رات میں کچھ دیر ہو جائے تو انتظار کرنا
موسم کے موافق تھوڑا گرم کھانا دینا۔
غرض
کہ ہر وہ کام جس میں شوہر کو راحت اور سکون ملے۔ اس کا اہتمام اور خیال کرنا خدمت
ہے جس کے کرنے پر عورت کو صدقہ و خیرات کا سا ثواب ملتا ہے۔
لہذا
جو عورت صدقہ مالی کا ثواب حاصل نہیں کر سکتی وہ خدمت سے صدقہ کا ثواب حاصل کر
سکتی ہے۔

اسلامی تعلیمات میں شوہر اور بیوی کا رشتہ: ایک مقدس اور
مضبوط بندھ اسلام میں شوہر اور بیوی کے رشتے کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن و
سنت کی روشنی میں یہ رشتہ محض دو افراد کے درمیان ایک معاہدہ نہیں، بلکہ محبت،
سکون، اور رحمت پر مبنی ایک بابرکت تعلق ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، نکاح کو
انسان کی فطرت کے مطابق بنایا گیا ہے اور اس رشتے کو دنیا و آخرت کی کامیابی کا
ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔
ازدواجی تعلقات کی اہمیت: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ
قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ
بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان:عورتوں پرنگہبان ہیں اس
وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں
پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
اس
آیت میں اللہ تعالیٰ نے شوہر کی قوامیت کو تسلیم کرتے ہوئے بیوی کی سرکشی کی صورت
میں تین تدابیر بتائی ہیں: نصیحت کرنا، بستر الگ کرنا اور ہلکی سزا دینا، مگر ظلم
اور زیادتی سے گریز لازم ہے۔
احادیث مبارکہ:
حضرت
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی عورت
اپنے شوہر کی نافرمانی کرتی ہے اور اس کے حقوق کو نظر انداز کرتی ہے تو اس کے
اعمال کو اللہ کے ہاں قبول نہیں کیا جاتا۔ اس حدیث میں بیوی کی نافرمانی کے نتائج
بیان کیے گئے ہیں۔ بیوی پر شوہر کے حقوق کا احترام لازم ہے، اور اگر وہ نافرمانی
کرے تو اس کے اعمال اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتے۔
نافرمانی کے اسباب: محبت اور توجہ کی کمی، گھریلو مسائل
اور اختلافات، دین کی کمی یا روحانی تربیت کا فقدان، بے جا توقعات، دیگر لوگوں کا
منفی اثر، شک و شبہات، مالی مسائل یا بے روزگاری، شخصی آزادی اور خود مختاری کی
خواہش، نفسیاتی اور جذباتی مسائل وغیرہ۔
حضرت
لوط علیہ السلام کی بیوی کا واقعہ نافرمانی کی علامت کے طور پر تاریخ میں ملتا ہے۔
وہ اپنی قوم کی بداعمالیوں میں شریک تھی اور اپنے شوہر کے پیغام کو رد کرتی رہی۔
جب عذاب آیا اور حضرت لوط علیہ السلام کو اپنی قوم سمیت شہر چھوڑنے کا حکم دیا
گیا، تو بیوی نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی نافرمانی کی اور عذاب میں مبتلا ہوئی۔ یہ
واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ازدواجی زندگی کی بنیاد محبت، فرمانبرداری اور
اعتماد پر ہونی چاہیے؛ ورنہ نافرمانی نہ صرف فرد بلکہ خاندان اور معاشرتی زندگی پر
بھی منفی اثرات ڈالتی ہے۔
مولانا
جلال الدین رومی نے ازدواجی تعلقات میں محبت اور ہم آہنگی کی اہمیت پر یوں فرمایا
کہ:
ہر کجا عشق آید و ساکن شود ہر بدی و ناخوبی بہتر شود
ترجمہ: جہاں محبت آ جائے اور قیام کرے، وہاں ہر برائی اور
ناخوشگواری نیکی اور بھلائی میں بدل جاتی ہے۔

ہر
نيک و جائز كام ميں اپنے شوہر كی اطاعت و فرمانبرداری نہ كرنا شوہر كی نافرمانی
كہلاتا ہے
ہر وه
جائز كام جو خلاف شرع نہ ہو اس ميں اپنے شوہر كی اطاعت و فرمانبرداری نہ كرنا شوہر
كی نافرمانی كہلاتا ہے۔ ہر وه دينی و دنياوی جائز كام جس كے كرنے كا شوہر حكم دے
اور وه خلاف شرع بھی نہ ہو اس كام ميں شوہر كی اطاعت و فرمانبرداری نہ كرنا جيسے
شوہر بيوی كو بناؤ سنگھار كا كہے اور بيوی نہ كرے يہ شوہر كی نافرمانی ہوئی بيوی
پر شوہر كی اطاعت كرنا واجب ہے۔ اللہ فرماتا ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ
لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ
بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ- (پ 21، الروم: 21) ترجمہ کنز
الایمان: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے
جوڑے بنائے کہ اُن سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبّت اور رحمت رکھی۔
قرآن پاک
ميں ارشاد ہوتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا
فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ
اَمْوَالِهِمْؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز
العرفان:عورتوں پرنگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت
دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
عورت
پر سب سے زياده حق اس كے شوہر كا ہوتا ہے اور مرد پر اس كی ماں كا۔
شوہر
كی فرمانبرداری پر انعام:
1۔ عورت
جب پانچوں نمازيں پڑھے اور ماه رمضان كے روزے ركھے اور اپنی عزت و ناموس كی حفاظت
كرے اور شوہر كی اطاعت كرے تو جنت كے جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔ (سنی بہشتی زيور،
ص 299)
2۔عورت
كے ذمہ پر (3) فرائض ہيں جو قرآن پاک نے اس پر عائد كيے: 1۔اپنے شوہر كی اطاعت
گزار اور وفادار ہو 2۔ سليقہ شعار ہو كہ شوہر كے مال و دولت كو برباد نہ كرے 3۔عفت
مآب ہو كہ اپنی اور اپنے شوہر كی عزت و ناموس پر آنچ نہ آنے دے۔ (سنی بہشتی زيور، ص
228)
نافرمانی كرنے كا انجام: شوہر نے عورت كو بلايا اور اس نے انکار
كرديا اور غصے ميں رات گزاری تو صبح تک اس عورت پر فرشتے لعنت بھيجتے رہتے ہيں اور
دوسری روايت ميں ہے كہ جب تک شوہر اس سے راضی نہ ہو اللہ اس سے ناراض رہتا ہے۔
ايک
روايت ميں ہے كہ وه عورت جس كا شوہر اس سے ناراض ہے اس كی نماز قبول نہيں ہوتی اور
كوئی نيكی بلند نہيں ہوتی۔ (ترمذی، 1/375، حدیث: 360)
جو
عورت بغير كسی حرج كے شوہر سے طلاق كا سوال كرے اس پر جنت كی خوشبو حرام ہے۔ (سنی
بہشتی زيور، ص236)
عورت
اپنے شوہر كی اجازت كے بغير گھر سے (بلاوجہ) باہر نہ جائے اور
جو عورت اپنے شوہر كی اجازت كے بغير باہر جاتی ہے تو فرشتے اس پر لعنت كرتے ہيں۔ (مجمع
الزوائد، 4/563، حدیث: 7638)

دین
اسلام میں مسلمانوں کو جن کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور جن کی نافرمانی پر وعیدیں
بیان ہوئیں، ان میں سے ایک اہم شخص شوہر ہے اللہ تعالی نے شوہر کو اپنی
بیوی پر حاکم بنایا ہے لیکن آج کل اسے نا انصافی کا نام دے کر اس قول کی تردید کی
جاتی ہے حتی کہ عورتیں اپنے آپ کو مرد کے برابر مانتی ہیں اور کچھ نادان تو شوہر
کو اپنی مٹھی میں کرکر اپنا غلام بنانے میں لگی ہوتی ہیں۔ حالانکہ اللہ پاک پارہ 5سورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں
ارشاد فرماتا ہے اور اللہ کا کلام سچ اور حق ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى
النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا
مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز
العرفان:عورتوں پرنگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت
دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
عورت
کی ضروریات، اس کی حفاظت، اسے ادب سکھانے اور دیگر کئی امور میں مرد کو عورت پر
تسلّط حاصل ہے گویا کہ عورت رعایا اور مرد بادشاہ، اس لئے عورت پر مرد کی اطاعت
لازم ہےاس سے ایک بات یہ واضح ہوئی کہ میاں بیوی کے حقوق ایک جیسے نہیں بلکہ مرد
کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں اور ایسا ہونا عورت کے ساتھ نا انصافی یا ظلم نہیں بلکہ
عین انصاف اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے۔
مرد
کو عورت پر جو حکمرانی عطا ہوئی اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے مرد کو عورت
پر فضیلت بخشی ہے۔ لیکن اکثر بیوی شوہر کو اپنا غلام بنانا چاہتی ہے حتی کہ ماں
بھی اپنی بیٹی کو شوہر کے حقوق سمجھانے اور ان حقوق کی پابندی کا درس دینے کی
بجائے یہ سکھلاتی ہیں کہ شوہر کو اپنی مٹھی میں کیسے کیا جائے، اس بری تربیت کے
نتیجے میں اکثر کچھ سالوں بلکہ مہینوں میں بیٹیاں شوہر سے لڑائی، جھگڑا کرکے ماں
کے گھر آکر بیٹھ جاتی ہیں اور کچھ دنوں میں طلاق کا پیغام آجاتا ہے اور ساری زندگی
ماں کے پاس افسوس کے بجائے کچھ ہاتھ نہیں رہتا۔ حالانکہ اسلام میں شوہر کا عورت پر
سب سے زیادہ حق ہے اور اسکی نافرمانی پر کئی وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔
شوہر
کی نافرمانی کے متعلق کچھ احادیث مبارکہ پڑھیے: چنانچہ
1) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت پر
سب آدمیوں سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر اس کی ماں کا۔ (مستدرک للحاکم،
5/244، حدیث:7418)
2)حضورﷺ نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کو
دنیامیں ایذا دیتی ہے تو حور عین کہتی ہیں: خدا تجھے قتل کرے، اسے ایذا نہ دے یہ
تو تیرے پاس مہمان ہے عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔ (ترمذی، 2/392،
حدیث: 1177)
3)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت ایمان کا
مزہ نہ پائے گی جب تک حق شوہر ادا نہ کرے۔ (معجم کبیر،20 /52، حدیث:90)