محمد عبد المبین عطاری (درجۂ رابعہ جامعۃ
المدينہ فيضان امام فیصل آباد ، پاکستان)

رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے تعلیم و تربیت کے مختلف انداز اختیار فرمائے، جن میں ایک مؤثر
طریقہ "اشارے سے تربیت دینا" بھی ہے۔ آپ ﷺ اکثر اوقات بغیر الفاظ کے،
اپنے عمل یا ہاتھ کے اشارے سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سکھایا کرتے
تھے۔ ذیل میں چند احادیث اور ان کی وضاحت پیش کی جا رہی ہے جن میں نبی کریم ﷺ نے
اشارے سے تعلیم دی ہے۔
(1) قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:
بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ هَكَذَا. وَيُشِيرُ بِإِصْبَعَيْهِ فَيَمُدُّ بِهِمَا
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اور قیامت
اتنے نزدیک نزدیک بھیجے گیے ہیں اور نبی کریم ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کے اشارہ سے
(اس نزدیکی کو) بتایا پھر ان دونوں کو پھیلایا۔ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق ، باب
قول النبی بعثت أنا والساعۃ ، ج 08 ، صفحہ 105، حدیث نمبر 6503)
اس کا مقصد یہ تھا کہ انسان غفلت چھوڑ کر نیک
اعمال کی طرف متوجہ ہو، توبہ کرے، اور زندگی کو آخرت کی تیاری کے مطابق گزارے۔
(2) قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: لَا
تَحَاسَدُوا، وَلَا تَنَاجَشُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا
يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَكُونُوا، عِبَادَ اللهِ! إِخْوَانًا. الْمُسْلِمُ
أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ. التَّقْوَى
هَاهُنَا وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ
الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ
حَرَامٌ: دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کے لیے دھوکے سے قیمتیں
نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، تم میں سے کوئی
دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے اور اللہ کے بندے بن جاؤ جو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
مسلمان (دوسرے) مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یارو مددگار
چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے۔ تقویٰ یہاں ہے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کیا، (پھر فرمایا): ”کسی آدمی کے برے ہونے کے لیے
یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے، ہر مسلمان پر (دوسرے) مسلمان
کا خون، مال اور عزت
حرام ہے ۔“ (صحیح مسلم ، كتاب البر
والصلۃ والآداب،باب تحريم ظلم المسلم وخذلہ واحتقاره ودمہ وعرضہ ومالہ، ج04 ، صفحہ 1986، حدیث نمبر 2563)
یہ حدیث ہمیں
سکھاتی ہے کہ ایک سچا مسلمان وہی ہے جو دوسروں کے لیے خیر خواہی، عزت، اور امن کا
ذریعہ بنے۔ دوسروں کی عزت، جان اور مال کا احترام کرنا اسلامی معاشرت کی بنیاد ہے۔
ہمیں چاہیے کہ دلوں سے حسد، بغض، اور نفرت کو نکال کر، محبت، خلوص، اور بھائی چارے
کو فروغ دیں۔ یہی وہ اخلاقی بنیادیں ہیں جن پر ایک مثالی اسلامی معاشرہ قائم ہو
سکتا ہے۔
ان احادیث
مبارکہ کے علاوہ، نبی کریم ﷺ نے اپنی زبان مبارک اور اشاروں سے امت کو ہدایت کے
روشن راستے دکھائے۔ آپ ﷺ کے الفاظ اور عمل ہماری زندگیوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ دعا
ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پیغاموں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے،
تاکہ ہم بھی اپنی زندگیوں کو انوارِ نبوت سے منور کر سکیں۔ آمین۔
محمد مبشر عبدالرزاق (درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ
سادھوکی لاہور ، پاکستان)

اللہ عزوجل
اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے وقتا فوقتا اپنے مقدس انبیاء علیہم السلام
کو مبعوث فرماتا رہا اور سب سے آخر میں اس نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم
کو مبعوث فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حکمت و دانائی عقل و فراست قول و
فعل علم و عمل سے مختلف مقامات پر اپنی امت کی تعلیم و تربیت فرمائی جس پر عمل پیرا
ہو کر انسان اپنی زندگی کو دین اسلام کے مطابق ڈال کر دنیا و آخرت میں کامیابی و
کامرانی حاصل کر سکتا ہے ان میں سے ایک پہلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا
اشارے سے اصلاح و تربیت فرمانا بھی ہے ان میں سے چند فرامین آپ بھی پڑھیے اور علم
و عمل کی نیت کیجیے
(1)
ایک عمارت کی مثل: عَنْ اَبِیۡ مُوسٰی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ عَنِ النَّبِىِّ
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم قَالَ:الْمُؤْمِنُ
لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ثُمَّ شَبَّكَ بَيْنَ
اَصَابِعِهِ ترجمہ: حضرت سیدنا ابو
موسٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حُضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ایک مؤمن دوسرے مؤمن
کے لیےعمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصّہ دوسرے حصّے کو تقویت دیتاہے پھر آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےاپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے
ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کرکے اشارہ فرمایا ( بخاری شریف کتاب الادب ،باب تعاون
المومنین بعضھم بعضا 106/4الحدیث6026)
اُس حدیث پاک
میں مؤمن کو دوسرے مؤمن کی مدد ونصرت پراُبھاراگیاہےاور ایک دوسرے کی مدد کرنا ایک
پختہ اور ضروری امر ہے جس سے مسلمان تقویت پا سکتے ہیں اور دنیا و آخرت کا نظام
احسن انداز میں چل سکتا ہے
(2)
مسلمان کے حقوق: عَنْ
اَبِيْ هُرَيْرَةَرَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:الْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَخُوْنُهُ وَلَا
يَكْذِبُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ كُلُّ الْمُسْلِـمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ عِرْضُهُ
وَمَالُهُ وَدَمُهُ التَّقْوَى هَا هُنَا بِحَسْبِ امْرِئٍ مِّنَ الشَّرِّ اَنْ يَحْقِرَاَخَاهُ
الْمُسْلِمَ ترجمہ :حضرت سیدنا ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورنبی رحمت ، شفیعِ اُمت ﷺ نے
ارشاد فرمایا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس سے خیانت کرے ، نہ اُس سے جھوٹ
بولے اور نہ اُسےرُسوا کرے ہر مسلمان کی عزت ، مال اور جان دوسرے مسلمان پر حرام
ہے۔ تقویٰ یہاں ہے ۔ (اوریہ فرماتے ہوئےدست اقدس سے اپنے دل کی طرف اشارہ فرمایا۔
پھر فرمایا : )کسی بھی انسان کے بُرا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے
مسلمان بھائی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے ۔ ( ترمذی کتاب البرو الصلہ باب ما جاء فی
شفقت 3 /372حدیث 1032 )
اس حدیث پاک میں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے چند حقوق بیان فرمائے مثلاً مسلمان کی عزت و
حرمت کا خیال رکھنا اس سے خیانت نہ کرناوغیرہ
(3)
یتیم کی کفالت: وَعَنْ
سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اَنَا وَكَافلُ اليَتِيْمِ في الجَنَّةِ هٰكَذا وَاَشَارَ
بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطٰى وَفَرَّجَ بَيْنَهُمَا ترجمہ:حضرت سَیِّدُنا سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے ، حُسن اَخلاق کے پیکر ، محبوبِ رَبِّ اکبر ﷺ نے ارشاد فرمایا
: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی شہادت والی اور درمیانی انگلی سے
اشارہ کیااور اُن کے درمیان کچھ کشادگی فرمائی ۔ (بخاری شریف، کتاب الطلاق باب
اللعان، 3 /497 حدیث : 8304 )
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! یتیم کی کفالت کرنا ایک عظیم کام ہے اور اِس کی فضیلت اَحادیث
مبارکہ میں بیان فرمائی گئی ہے، یتیم کی کفالت کرنے والے کو قیامت کے دن حضورسَیِدُ
الانبیاء، احمد مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مبارک
رَفاقت نصیب ہو گی۔
ان کے علاوہ
بھی بہت سی احادیث کریمہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے
اشارے سے اپنی امت کی اصلاح فرمائی جس کا مقصد انسان کی دنیاوی و اخروی کا کامیابی
کی طرف رہنمائی کرنا اور اس کو راہ ہدایت پر گامزن کرنا تھا اللہ پاک کی بارگاہ میں
دعا ہے کہ وہ ہمیں ان کا مطالعہ کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے
۔ آمین
محمد مدثر رضوی عطاری (درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ
سادھوکی لاہور ، پاکستان)

اللہ پاک نے
اس کائنات رنگا رنگ کو تخلیق بخشی پھر حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہادی برحق اور معلم امت بنا کر مبعوث فرمایا
تاکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ان کی اصلاح و تربیت فرما کر ان کو راہ ہدایت پر گامزن فرمائیں اس میں سے آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک انداز
مبارک یہ تھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم اشارے کے ذریعے اصلاح فرماتے تھے ، چنانچہ آ پ بھی اس کے
متعلق چند احادیث مبارکہ پڑھئے اور اپنے قلوب و اذھان کو معطر کیجیے:
(1)
ایک مومن دوسرے مؤمن کیلئے عمارت : عَنْ اَبِیۡ مُوسٰی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ عَنِ
النَّبِىِّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم قَالَ:الْمُؤْمِنُ
لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ثُمَّ شَبَّكَ بَيْنَ
اَصَابِعِهِ
حضرت سیدنا
ابو موسٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حُضور نبی کریم رؤف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا :ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لیےعمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصّہ دوسرے حصّے کو
تقویت دیتاہے ۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نےاپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں
داخل کرکے اشارہ فرمایا۔ (فیضان ریاض الصالحین ،حرمت مسلمین کی تعظیم کا بیان ،جلد3
، صفحہ نمبر 229 ،حدیث نمبر:222 مکتبۃ المدینہ )
(2)
مسلمان مسلمان کا بھائی ہیں : عَنْ اَبِيْ هُرَيْرَةَرَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:قَالَ
رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:الْمُسْلِمُ اَخُو
الْمُسْلِمِ لَا يَخُوْنُهُ وَلَا يَكْذِبُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ كُلُّ الْمُسْلِـمِ
عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ عِرْضُهُ وَمَالُهُ وَدَمُهُ التَّقْوَى هَا هُنَا بِحَسْبِ
امْرِئٍ مِّنَ الشَّرِّ اَنْ يَحْقِرَاَخَاهُ الْمُسْلِمَ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے کہ حضورنبی رحمت ، شفیعِ اُمت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ’مسلمان
مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس سے خیانت کرے ، نہ اُس سے جھوٹ بولے اور نہ اُسےرُسوا
کرے۔ ہر مسلمان کی عزت ، مال اور جان دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ تقویٰ یہاں ہے ۔
(اوریہ فرماتے ہوئےدست اقدس سے اپنے دل کی طرف اشارہ فرمایا۔ پھر فرمایا : )کسی بھی
انسان کے بُرا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت کی
نگاہ سے دیکھے ۔ (کتاب:فیضان ریاض الصالحین حرمت مسلمین کی تعظیم کا بیان ،جلد3 ، صفحہ
272 ،حدیث نمبر:234 مطبوعہ مکتبۃالمدینہ )
(3)
ایک دوسرے سے حسد نہ کرو : وعن ابوہریرۃ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَنَاجَشُوْا وَلَا
تَبَاغَضُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ
وَكُوْنُوْا عِبَادَ اللَّهِ اِخْوَانًا اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ لَا
يَظْلِمُهُ وَلَا يَحْقِرُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ التَّقْوَى هَاهُنَا ، وَيُشِيْرُا
ِلیٰ صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ اَنْ يَحْقِرَ
اَخَاهُ ،
الْمُسْلِمَ كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ
وَعِرْضُهُ ’اَلنَّجَشُ‘‘ اَنْ يَزِيْدَ فِيْ ثَمَنِ سَلْعَةٍ يُنَادٰي عَلَيْهَا
فِيْ السُّوْقِ وَنَحْوِهٖ وَلَا رَغْبَةَ لَهُ فِيْ شَرَائِهَا بَلْ يَقْصِدُاَنْ
يَّغُرَّ غَيْرَهُ وَهٰذَا حَرَامٌ وَالتَّدَابُرُاَنْ يُعْرِضَ عَنِ الْاِنْسَانِ
وَيَهْجُرَهُ وَيَجْعَلَهُ كَالشَّيْءِ الَّذِيْ وَرَاءَ الظَّهْرِ وَالدُّبُرِ
حضرت سیدنا
ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ مدینہ ، قرارِ قلب
و سینہ ﷺ نے ارشادفرمایا : ’’ایک دوسرےسے حسد نہ کرو ، تناجش نہ کرو ، ایک دوسرے
سے بغض نہ رکھو اورقطع تعلقی نہ کرو۔ کسی کی بیع پر بیع نہ کرو ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ
کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، وہ اس پر ظلم نہ کرے ،
اُسے حقیر نہ جانے ، اور نہ ہی اُسے بے یارو مددگارچھوڑ ے۔ ‘‘ پھر آپ صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے تین مرتبہ فرمایا :
’’تقویٰ یہاں ہے۔ ‘‘ پھر فرمایا : ’’کسی شخص کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ
اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ، ہر مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کی عزت ، اس کا
مال اور اس کا خون حرام ہے ۔ ‘‘
مشکل الفاظ کے
معانی : ’’النَّجَشْ‘‘ کسی سامان کی فروخت کے لئے بازار میں بولی لگائی جا رہی ہو
تو کوئی شخص دوسروں کو دھوکہ دینے کے لئے قیمت میں اضافہ کردےحالانکہ وہ خریدنا نہیں
چاہتا تو یہ نجش ہے اور نجش حرام ہے۔ ’’تَدَابُر‘‘یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے بے رخی
کرے اور اسے اس طرح چھوڑدے جیسے کوئی چیز پیٹھ کے پیچھے ہوتی ہے۔(فیضان ریاض
الصالحین حرمت مسلمین کی تعظیم کا بیان جلد:3 , صفحہ نمبر 280، حدیث نمبر:235، مطبوعہ
مکتبۃالمدینہ )
اللہ پاک ہمیں
حضور نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
محمد عاصم اقبال عطاری ( درجہ سادسہ جامعۃُ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور )

حضور نبیِ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کے آخری نبی ہونے کے ساتھ ساتھ معلم
کائنات بھی ہیں۔ حضور علیہ السّلام نے اپنے امتیوں کی مختلف مواقع پرمختلف انداز
میں اصلاح و تربیت کی ہے۔ نبیِ کریم علیہ السّلام نے اپنے امتیوں کی تربیت کبھی
اپنے قول سے کبھی فعل سے اور کبھی اشاروں سے تربیت فرمائی ہے۔ ذیل میں ایسی چند
احادیث نقل کی جا رہی ہیں جن میں اشاروں سے تربیت فرمائی ہے:
(1)سواری
تیز چلانے میں کوئی خوبی نہیں ہے: حضرت
ابن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ آپ عرفہ کے دن نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ واپس ہوئے نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
اپنے پیچھے اونٹوں کو سخت ڈانٹ ڈپٹ اور مار(کی آواز ) سنی ۔فَاَشَارَ بِسَوْطِهٖ
اِلَيْهِمْ وَقَالَ:يَااَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ فَاِنَّ
الْبِرَّ لَيْسَ بِالاِيضَاعِ یعنی
تو انہیں اپنے کوڑے سے اشارہ فرمایا اور حکم دیا کہ اے لوگو اطمینان اختیار کرو
تیز دوڑنے میں خوبی نہیں ۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/486، حدیث:2605 )
اس حدیث کا
مقصود یہ ہے کہ ہمیں سواری تیز چلانے سے
پرہیز کرنا چاہیے ۔ اس میں جہاں اپنی جان کی حفاظت ہوتی ہے وہیں دوسرے لوگوں کی
بھی جان محفوظ رہتی ہے ۔ کتنے ہی لوگ اس تیز رفتاری کی وجہ سے خود کو اور دوسروں
کو موت کی آغوش میں لے جاتے ہیں ۔
(2)
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے باریک کپڑوں والی صحابیہ سے منہ موڑ لیا :حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ جناب
اسماء بنتِ ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہما رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں، حضور علیہ السّلام نے ان سے منہ پھیرلیا اور
فرمایا:يَا
اَسْمَاءُ، اِنَّ الْمَرْاَةَ اِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ اَنْ يُرَى
مِنْهَا اِلَّا هَذَا وَهَذَا وَاَشَارَ اِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ یعنی اے اسماء عورت جب بالغ ہو جائے تو جائز نہیں
کہ اس کا کوئی حصہ دیکھا جائے سوائے اِس کے اور اُس کے۔نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ فرمایا۔ (ابوداؤد،4/75، حدیث:4104
)
اس حدیث سے
معلوم ہوا کہ اُس زمانہ میں بھی باریک کپڑے ایجاد ہوچکے تھے، اب تو بہت ہی بُرا
حال ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 6/121) اس حدیث سے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو ماننے والیوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور ہرگز ہرگز ایسے کپڑے استعمال نہیں
کرنے چاہیے جن سے جسم کا کوئی بھی عضو نظر آئے۔دور ِ حاضر میں فتنے کی وجہ سے چہرے
اور ہاتھوں کو بھی چھپانا چاہیے ۔
(3)
شیطان کی طرح بال بکھرے ہوئے نہ رکھو : حضرت عطاء ابن یسار سےروایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم مسجد میں تھے تو ایک شخص سر اور داڑھی بکھیرے آیا ۔فَاشَارَ إِلَيْهِ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ كَاَنَّهُ يَاْمُرُهُ
بِاِصْلَاحِ شَعْرِهِ وَلِحْيَتِهِ فَفَعَلَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اَلَيْسَ هَذَا خَيْرًا مِنْ اَنْ
يَاْتِيَ اَحَدُكُمْ وَهُوَ ثَائِرُ الرَّاْسِ كَاَنَّهُ شَيْطَان تو آپ علیہ السّلام نے اس کی طرف اپنے ہاتھ سے
اشارہ کیا، گویا آپ اسے بال اور داڑھی کی درستی کا حکم دے رہے تھے، چنانچہ (وہ گیا
اور ) اس نے (بال اور داڑھی کو درست)کرلیا ۔ پھر واپس آیاتو رسولِ معظّم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کیا یہ اس سے بہتر نہیں کہ تم میں سے کوئی
شیطان کی طرح سر بکھیرے ہوئے آئے ۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/137، حدیث:4486 )
ہمیں شریعت کے
دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ایسی حالت بنا كر رکھنی چاہیے جس سے نہ صرف مسلمان بلکہ
غیر مسلم بھی متأثر ہوں نہ کہ ایسی کہ
جس سے دوسروں کو ہم سے خوف آئے ۔
(4)
دوسروں کو حقیر مت سمجھو : حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سےروایت ہے، رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے ذلیل وحقیر جانے۔اَلتَّقْوَى هَاهُنَاوَيُشِيرُ
اِلیٰ صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ اَنْ يَحْقِرَ
اَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ،
وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ تقویٰ یہاں
ہے اور اپنے سینہ کی طرف تین بار اشارہ فرمایا، مزید فرمایا کہ انسان کے لیے یہ
شر کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان
کاخون ،مال اور اس کی آبرو حرام ہے ۔
(دیکھیے:مسلم، ص1064، حدیث: 6541 )
یعنی مسلمان
کو نہ تو دل میں حقیر جانو نہ اسے حقارت کے الفاظ سے پکارو یا برے لقب سے یاد کرو
نہ اس کا مذاق اڑاؤ، آج کل بعض لوگ نسب ، پیشہ اور غربت و افلاس کی وجہ سے اپنے
مسلمان بھائی کو حقیر سمجھتے ہیں حتی کہ صوبجاتی تعصب ہم میں بہت ہو گیا ہے کہ وہ
پنجابی ہے ، وہ بنگالی ہے ، وہ سندھی، اسلام نے یہ سارے فرق مٹا دیے ہیں، جس طرح
شہد کی مکھی مختلف پھولوں کے رس چوس لیتی ہے تو ان کا نام شہد ہو جاتا ہے، اسی
طرح جب حضور کا دامن پکڑ لیا تو سب مسلمان ایک ہوگئے حبشی ہو یا رومی۔اسلام میں
عزت تقویٰ و پرہیزگاری سے ہے اور تقویٰ کا اصلی ٹھکانہ دل ہے۔تمہیں کیا خبر کہ جس
مسکین مسلمان کو تم حقیر سمجھتے ہو اس کا دل تقویٰ کی شمع سے روشن ہو اور وہ
الله کا پیارا ہو تم سے اچھا ہو۔(دیکھیے:مراٰةالمناجیح، 6/552 )
اللہ پاک ہم
سب کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن