مولانااسعد شاہد عطاری مدنی زِیْدَشَرْفُہ (متخصص فی الحدیث)

نگران شعبہ تدوینِ مخطوطات،مرکزخدمۃ الحدیث(دعوتِ اسلامی)

کتب ِ احادیث میں بلاشبہ بے شمار احادیثِ نبویّہ اپنی شان کے ساتھ جلوہ پذیر ہیں، اور اُن احادیث کی حیثیت باعتبارِ صحّت و ضُعف تعیین کرنا اُمورِ مھمّہ میں سے ایک ہے تاکہ صحیح ؛ سقیم (کمزور) سے ممتاز ہو اور ہر ایک اپنے اپنے مرتبے و شان کے لائق مقامات میں مقبول و معمول ہو۔لیکن عصر ِ حاضر میں صحّت و ضُعف کی پہچان کے لئے کیا طریقہ کار درست ہے؟ آیا ہر ایک کو اختیار ہے کہ فقط سند اور راویوں کی چھا ن بِین کے بعد جس حدیث پر جو چاہے حکم لگا دے قطعِ نظر اِس سے کہ اُس حدیث کے بارے میں اکابر ائمّہ محدّثین کی کیا رائے ہے اور اُنہوں سے اُس پر کیا حکم صادر فرمایا ہے؟ یا سب سے پہلے اُس حدیث کے متعلق کلام ائمّہ و احکام ائمہ کو تلاش کر کے اُس سےمدد لی جائے اور اُسی کو معتمد جان کر اُسی کا اعتبار کیاجائے؟

اِس بات کا فیصلہ کرنے کےلئے سب سے پہلے ہم ائمّہ محدّثین متقدمین و متاخرین کی جانب سے احادیث پر لگائے گئے احکامات کی کیفیت ملاحظہ ہو:

متقدمین محدثین کی نقدِ حدیث میں انوکھی مہارت و قابلیت:

اللہ کریم نےائمّہ متقدمین کو احادیث کی جانچ پڑتال میں ایسا مَلکَہ وفہم عطا فرمایا تھا کہ اِس مَلکَۂ تامّہ و فہمِ ثاقب کی بدولت وہ احادیث کی صحّت اور اُس کے ضُعف کو پَرَکھ لیتے تھے اور سندوں میں موجود پوشیدہ علّتوں پر مطّلع ہوجاتے تھے، اُن کی یہ معرفت الہامی ہوا کرتی تھی حتیٰ کہ بعض اوقات اِن پوشیدہ باتوں کو الفاظ کے ذریعے تعبیر کرنے سے بھی عاجز ہوتے تھے ، ملاحظہ ہو:

قَالَ السّيُوطِي: وَرُبَّمَا تَقْصُرُ عِبَارَةُ الْمُعَلِّلِ عَنْ إِقَامَةِ الْحُجَّةِ عَلَى دَعْوَاهُ، كَالصَّيْرَفِيِّ فِي نَقْدِ الدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ. امام سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”بسا اوقات حدیث کو معّلل قرار دینے والے کی عبارت اپنے دعوے پر دلیل قائم کرنے سے قاصر ہوتی ہے جیسا کہ تاجر درہم و دینار کو پَرَکھنے کے معاملے کوبذریعہ الفاظ بتانے سے قاصر ہوتا ہے۔“

قَالَ ابْنُ مَهْدِيٍّ: فِي مَعْرِفَةِ عِلَّةِ الْحَدِيثِ إِلْهَامٌ، لَوْ قُلْتَ لِلْعَالِمِ بِعِلَلِ الْحَدِيثِ: مِنْ أَيْنَ قُلْتَ هَذَا؟ لَمْ يَكُنْ لَهُ حُجَّةٌ، وَكَمْ مِنْ شَخْصٍ لَا يَهْتَدِي لِذَلِكَ.

امام عبد الرحمن بن مہدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”حدیث میں موجود علّت کی معرفت اِلہامی ہوا کرتی ہے، اگر تم کسی عِلَلِ حدیث میں مہارت رکھنے والے سے پوچھو گے کہ تم نے یہ بات کیسے کہی؟ تو اُس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی جبکہ کتنے ہی لوگ ہوتے ہیں جو اِس بات تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔

وَقِيلَ لَهُ أَيْضًا: إِنَّكَ تَقُولُ لِلشَّيْءِ: هَذَا صَحِيحٌ، وَهَذَا لَمْ يَثْبُتْ، فَعَن مَنْ تَقُولُ ذَلِكَ؟ فَقَالَ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَتَيْتَ النَّاقِدَ، فَأَرَيْتَهُ دَرَاهِمَكَ، فَقَالَ: هَذَا جَيِّدٌ وَهَذَا بَهْرَجٌ، أَكُنْتَ تَسْأَلُ عَنْ مَنْ ذَلِكَ، أَوْ تُسَلِّمُ لَهُ الْأَمْرَ؟ قَالَ: بَلْ أُسَلِّمُ لَهُ الْأَمْرَ، قَالَ: فَهَذَا كَذَلِكَ، لِطُولِ الْمُجَالَسَةِ وَالْمُنَاظَرَةِ وَالْخِبْرَةِ.

امام عبد الرحمن بن مہدی علیہ الرحمہ سے ہی عرض کی گئی: آپ کسی حدیث کے متعلق کہتے ہیں: ”یہ صحیح ہے، اور یہ ثابت نہیں۔“ تو یہ کس سے سُن کر کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”کیا خیال ہے کہ جب تم کسی ناقد کے پاس جاکر اُسے دَرَاہِم دکھاؤ تو وہ کہتا ہے: یہ جید (خالص) ہے اور یہ ردّی (ملاوٹی) ہے، تو کیا تم اُس سے یہ کہتے ہو کہ یہ تمہیں کس نے بتایا؟ یا اُس کی بات مان لیتے ہو؟“ اُس نے عرض کی : ”جی میں مان لیتاہوں۔“ تو آپ نے فرمایا: ”یہاں بھی طُولِ مُجالَسَت(کثرتِ مَشق)، مناظرہ اور ذہانت کے سبب ایسا ہی ہے۔“

وَسُئِلَ أَبُو زُرْعَةَ: مَا الْحُجَّةُ فِي تَعْلِيلِكُمُ الْحَدِيثَ؟ فَقَالَ: الْحُجَّةُ أَنْ تَسْأَلَنِي عَنْ حَدِيثٍ لَهُ عِلَّةٌ فَأَذْكُرَ عِلَّتَهُ ثُمَّ تَقْصِدَ ابْنَ وَارَةَ فَتَسْأَلَهُ عَنْهُ فَيَذْكُرَ عِلَّتَهُ ثُمَّ تَقْصِدَ أَبَا حَاتِمٍ فَيُعَلِّلَهُ، ثُمَّ تُمَيِّزَ كَلَامَنَا عَلَى ذَلِكَ الْحَدِيثِ، فَإِنْ وَجَدْتَ بَيْنَنَا خِلَافًا، فَاعْلَمْ أَنَّ كُلًّا مِنَّا تَكَلَّمَ عَلَى مُرَادِهِ، وَإِنْ وَجَدْتَ الْكَلِمَةَ مُتَّفِقَةً فَاعْلَمْ حَقِيقَةَ هَذَا الْعِلْمِ، فَفَعَلَ الرَّجُلُ ذَلِكَ فَاتَّفَقَتْ كَلِمَتُهُمْ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ هَذَا الْعِلْمَ إِلْهَامٌ.

امام ابو زُرْعَہ رازی سے سوال ہوا: آپ حضرات جب کسی حدیث کو معلّل قرار دیتے ہیں تو اِس پر دلیل کیا ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا : ”دلیل یہ ہے کہ تم مجھ سے کسی حدیث کے متعلق سوال کرو جس میں کوئی علّت پوشیدہ ہو، میں تمہیں وہ علّت بتادوں ، پھر تم ابنِ وَرَاۃ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جاؤ اُن سے پوچھو وہ بھی علّت بتادیں، پھر تم ابو حاتِم رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جاؤ وہ بھی علّت بیان کردیں، پھر تم اُس حدیث کے متعلق تمام کلام میں غور کرو، اگر تم ہمارے مابین فرق پاؤ تو سمجھ جانا کہ ہر ایک نے اپنی مرضی سے کلام کیا ہے،لیکن اگر سارے متّفق ہوں تو اِس علم کی حقیقت پر یقین کر لینا۔“ تو اُس شخص نے ایسا ہی کیا اور اُن تمام کے کلام کو متّفق پایا، تو کہا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ علم اِلہَامِی ہے۔“ (تدريب الراوی،1/ 296-297)

متاخرین میں اس صلاحیت کا فقدان:

بلا شبہ ایسی نایاب مہارت وقابلیت فقط اُن متقدمین کا ہی خاصّا تھا، متاخرین اگر چہ اپنی بَساط و استطاعت کے مطابق ذُروَۂ اعلیٰ (بلندی) کو پہنچے لیکن متقدمین کےہم درجہ نہ ہوسکے ۔ یہی وجہ تھی کہ امام ابنِ صلاح علیہ الرحمہ نے ساتویں سنِ ہجری میں اپنے زمانے کے لوگوں کو تصحیحِ احادیث سے منع فرمایا اور ان کے لئے یہ کام عدمِ صلاحیت کے سبب متعذر (مشکل) قرار دیا:

قال ابنُ الصلاح: إذا وَجَدْنَا فيما يُروى مِن أجزَاءِ الحَدِيثِ وَغَيرِهَا حديثًا صحيحَ الإِسناد وَلَمْ نجدْه في أحدِ (الصحيحَينِ) ولَا مَنصُوصًا على صِحّتِهِ في شيءٍ من مُصَنَّفَاتِ أئمَةِ الحَدِيثِ المُعتَمَدَةِ المَشهُورَةِ، فإنّا لا نَتَجَاسَرُ على جَزْم ِ الحُكم بِصِحَّتِهِ فَقَدْ تَعذَّرَ في هذه الأعصَارِ الاستقلالُ بإدراكِ الصّحيحِ بمُجَرَّدِ اعتبارِ الأسَانِيدِ. امام ابنِ صلاح نے فرمایا: ”جب کوئی مروی حدیث ایسی ہو کہ جو سند کے اعتبار سے صحیح ہو، لیکن صحیحین میں موجود نہ ہو اور نہ ہی ائمّہ محدثین کی معتمد اور مشہور تصانیف میں سے کسی میں اُس کی صحّت پر تصریح ہوتو ہم اُس کی صحّت پر جَزمی حکم کرنے کی جَسَارت نہیں کرسکتے، کیونکہ آج کے زمانے میں وہ صلاحیت متعذر ہوچکی ہے کہ محض سند کے ذریعے حدیث کی صحّت کو پہچان لیں۔“(مقدمہ ابن الصلاح،ص16-17)

امام بدر الدین ابنِ جماعہ علیہ الرحمۃ نے ”خلاصہ مقدمہ ابن الصلاح“ میں امام ابنِ صلاح علیہ الرحمہ کی متابعت کی اور اِسے برقرار رکھا: قَالَ فِي الْمَنْهَلِ الرَّوِيِّ: مَعَ غَلَبَةِ الظَّنِّ أَنَّهُ لَوْ صَحَّ لَمَا أَهْمَلَهُ أَئِمَّةُ الْأَعْصَارِالْمُتَقَدِّمَةِ؛ لِشِدَّةِ فَحْصِهِمْ وَاجْتِهَادِهِمْ. آپ نے فرمایا: کیونکہ اِس بات پر غلبۂ ظنّ ہے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہی ہوتی تو پچھلے زمانے کے ائمّہ کرام اِس پر ضرور حکم لگاتے کیونکہ اِن کی چھان بِین اور اجتہاد کا معیار بہت سخت تھا۔ (تدريب الراوی ،1/ 157)

بلکہ امام ابنِ صلاح نے فقط تصحیح نہیں، تحسین وتضعیف کو بھی متعذر قرار دیا جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی شافعی علیہ الرحمہ نے اُن کے کلام سےاخذ کیا: قال السيوطي: فَالْحَاصِلُ أَنَّ ابْنَ الصَّلَاحِ سَدَّ بَابَ التَّصْحِيحِ وَالتَّحْسِينِ وَالتَّضْعِيفِ عَلَى أَهْلِ هَذِهِ الْأَزْمَانِ لِضَعْفِ أَهْلِيَّتِهِمْ. امام سیوطی نے فرمایا: تو خلاصہ یہ نکلا کہ ابنِ صلاح نے آج کے لوگوں پر حدیث کی تصحیح، تحسین اور تضعیف تینوں دروازوں کو بند کردیا۔ (تدريب الراوی ،1/ 162)

متاخرین میں سے حُذّاق ائمّہ کے لئے استثناء:

البتہ اِس کے بعد دیگر ائمّہ محدثین مثلِ امام نووی، امام عراقی، امام بُلقِینی ، حافظ ابن حجر علیہم الرحمۃ وغیرہم نے اِن کے اِس قول میں کچھ مُستَثنِیات کو بیان فرمایا کہ یہ حکم کلّی نہیں بلکہ اس میں کچھ گنجائش ہے۔ اگر متاخرین میں کوئی ایسا حاذق ماہر حافظ ناقد ہو کہ جو فنِ حدیث و اصول ِحدیث میں رُسوخ و تَبحّر (مہارت) اور نظرِ تامّ رکھے تو اس کے لئے احادیث پر احکام لگانا جائز ہے:

قَالَ النّوَوِی: والأظهَرُ عِندِي جَوَازُهُ لِمَن تَمَكَّنَ وَقَوِيَتْ مَعرِفَتُه، والله أعلم.

امام نووی نے فرمایا: ”میرے نزدیک اظہر یہی ہے کہ جو قادر ہو اور اسکی معرفت پختہ ہو تو اُس کے لئے تحکیم جائز ہے۔“ (التقريب والتيسير للنووی،ص: 28)

قال البُلقینی: والمختارُ أنّ المُتَبحِّرَ في هذا الشَّأنِ له ذَلِكَ بِطُرُقِه التي تَظْهَرُ لَه.

امام بُلقِینی نے فرمایا: ”مختار یہی ہے کہ اِس فن میں متبحّر شخص کے لئے تحکیم جائز ہے اُن سندوں کو مطابق جو اُس تک پہنچے۔(مقدمۃابن الصلاح ومحاسن الاصطلاح ،ص 159)

اِسی طرح جب حکم لگائے تو مطلقاً حکم نہ لگائے بلکہ اُس حدیث کی سند پر حکم لگائے کہ سندکے اعتبار سے یہ حدیث صحیح یا حسن ہے، متن کے صحت و ضُعف کا دعویٰ نہ کرے (مثلا: هذا حديث صحيح الاسناد، هذا حديث حسن الاسناد وغیرہ) ممکن ہے کہ متن میں کوئی ایسی مخفی علّت موجود ہو جس تک اُس کی رَسائی نہ ہو سکی ہو، یا اُس حدیث کی کوئی دوسری سند بھی موجود ہوجس کو یہ ضعیف قرار دے رہا ہے۔

قال السیوطي: وَالْأَحْوَطُ فِي مِثْلِ ذَلِكَ أَنْ يُعَبَّرَ عَنْهُ بِصَحِيحِ الْإِسْنَادِ، وَلَا يُطْلَقُ التَّصْحِيحُ لِاحْتِمَالِ عِلَّةٍ لِلْحَدِيثِ خَفِيَتْ عَلَيْهِ، وَقَدْ رَأَيْتُ مَنْ يُعَبِّرُ خَشْيَةً مِنْ ذَلِكَ بِقَوْلِهِ صَحِيحٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى. امام سیوطی نے فرمایا: ”اِس جیسی صورت میں احوط(زیادہ محتاط انداز) یہی ہے کہ حدیث کو ”صحیح الاسناد“ سے تعبیر کیا جائے مطلقاً صحیح قرار نہ دیا جائے، کیونکہ اِس بات کا احتمال موجود ہے کہ اُس حدیث میں کوئی ایسی علّت ہو جو اُس پر مخفی رہ گئی ہو۔ اور میں نے بعض کو دیکھا ہے جو اسی احتیاط کے پیشِ نظر حدیث پر ”صحیح اِنْ شاء الله“ کا اطلاق کرتے ہیں۔ (تدريب الراوی،1/ 161)

قال أيضاً: وَقَدْ مَنَعَ فِيمَا سَيَأْتِي وَوَافَقَهُ عَلَيْهِ الْمُصَنِّفُ وَغَيْرُهُ أَنْ يَجْزِمَ بِتَضْعِيفِ الْحَدِيثِ اعْتِمَادًا عَلَى ضَعْفِ إِسْنَادِهِ، لِاحْتِمَالِ أَنْ يَكُونَ لَهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ غَيْرُهُ. آپ نے یہ بھی فرمایا: ”اور امام ابنِ صلاح نے ممنوع قرار دیا (اور مصنّف امام نووی وغیرہ نے اِن کی موافقت کی) اِس بات کو کہ محض سند کے ضعیف ہونے کی وجہ سے کسی حدیث کے ضعیف ہونے پر جَزمی حکم کر دیا جائے ، کیونکہ ممکن ہے اس حدیث کی کوئی دوسری صحیح سند بھی موجود ہو۔“ (تدريب الراوی (1/ 162)

متاخرین کے لئے حدیث کو موضوع قرار دینا بدرجہ اولیٰ ممنوع:

یہ ساری گفتگو احادیث کی تصحیح، تحسین اور تضعیف کے متعلق تھی، رہی بات متاخرین کے لئے حدیث پاک کو موضوع قرار دینے کی تو وہ تو ائمہ کرام نے بدرجۂ اولیٰ ممنوع قرار دیا کہ حدیث پاک کو موضوع قرار دینے کے لئے جو قرائن (دلائل) درکار ہیں ان پر اطّلاع متاخرین کے لئے ممکن ہی نہیں، اِلَّا یہ کہ اُس حدیث میں قرائنِ عامّہ (یعنی وہ قرائن جن کے ادراک پر متقدمین و متاخرین دونوں شریک ہوتے ہیں) پائے جائیں۔ (اِن قرائن کی تفصیل اعلیٰ حضرت کے رسالہ منیر العین میں موجود ہے)

قال السیوطی: وَلَا شَكَّ أَنَّ الْحُكْمَ بِالْوَضْعِ أَوْلَى بِالْمَنْعِ قَطْعًا إِلَّا حَيْثُ لَا يَخْفَى؛ كَالْأَحَادِيثِ الطِّوَالِ الرَّكِيكَةِ الَّتِي وَضَعَهَا الْقُصَّاصُ، أَوْ مَا فِيهِ مُخَالَفَةٌ لِلْعَقْلِ أَوِ الْإِجْمَاعِ. امام سیوطی نے فرمایا: بلاشبہ حدیث پر وضع کا قطعی (موضوع ہونے کا یقینی) حکم لگانا بدرجہ اولیٰ ممنوع ہے مگر جہاں موضوع ہونا واضح ہو، مثلاً وہ لمبی لمبی رکیک (کمزور الفاظ والی) احادیث جنہیں قصہ گو نے وضع کیا ہو، یا جو احادیث عقل یا اجماع کے خلاف ہو۔“ (تدريب الراوی ،1/ 162)

قال العَلَائِي: الحُكمُ عَلَى الحَديثِ بِكَونِهِ مَوضُوعاً مِن المُتَأخّرِينَ عُسرٌ جِدّاً، لأنّ ذَلِكَ لا يَتَأتَّى إلا بَعدَ جَمعِ الطُّرُقِ وكَثرَةِ التّفتِيشِ وإنّه لَيسَ لِهَذا المَتنِ سِوَى هَذِهِ الطَّرِيقِ. امام عَلَائی نے فرمایا: ”متاخرین کی جانب سے حدیث پر موضوع ہونے کا حکم لگانا انتہائی مشکل امر ہے۔ کیونکہ ایسا اُس حدیث کے تمام طُرُق (اسانید) کو جمع کرنے اور کثرتِ تفتیش کے بعد ہی ممکن ہے۔ اور پھر یہ یقین ہو کہ اِس کے علاوہ اِس حدیث کی کوئی اور سند ہے ہی نہیں۔“ (النقد الصحيح لما اعترض من أحاديث المصابيح ،ص 24)

اِس کے علاوہ کثیر نصوص ہیں جو یہ واضح کرتی ہیں کہ متاخرین کے لئےحدیث کو قطعی طور پر موضوع قرار دینا ممنوع ہے۔

کیا معاصرین اِس کام کی اہلیت رکھتے ہیں؟

معلوم ہوا کہ احادیث پر صحت، ضعف اور وضع وغیرہ کا حکم لگانا دراصل متقدمین محدثین کا کام تھا جن کی معرفتِ حدیث اِلہامی تھی اور حدیث اُن کی غِذا تھی، متاخرین میں ضُعفِ اہلیت کے سبب یہ امر ممنوع قرار پایا۔ ہاں اگر متاخرین میں سے کوئی ایسا جِہبِذ (ماہر) ہو جو فنِ حدیث میں اطّلاعِ تام رکھتا ہو تو اُس کے لئے احادیث کی سند پر حکم لگانا جائز ہے۔ لیکن وہ بھی صحت و ضعف کی حد تک، حدیث پاک کو موضوع قرار دینے کے لئے قرائنِ خاصّہ خفیہ (وہ قرائن جن کے ادراک پر صرف متقدمین قادر ہوتے ہیں) کا ادراک اُن کے لئے بھی ممکن نہیں، فقط قرائنِ عامہ کا ادراک ممکن ہے۔ یہ بات بھی متاخرین جَہابِذہ (ماہرین) کی ہے، وہ جَہابِذہ کہ بغیرکسی ڈیجیٹل ذرائع کے کتب و مصنفین پر اُن کی نظر اتنی وسیع ہوا کرتی تھی کہ آج بھی دیکھ کر عقلیں حیران ہو جاتی ہیں کہ کیا شاملہ اور کیا گوگل! یقین نہ آئے تو بطورِ نمونہ کتاب ”فہرس الفہارس والاثبات“ اور ”الرسالۃ المستطرفۃ“ اور اِن جیسی دیگر کتب دیکھ لی جائیں۔

لہٰذا وہ معاصرین کہ جن کی ساری تحقیقات، سارا مواد ، نیٹ اور شاملہ کے سہارے چلتا ہے اُن کا کیا حال ہوگا؟ اور اُن کا حدیث پر حکم لگانے کے متعلق کیا حکم ہوگا اِس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

دورِ حاضر میں حدیث پر کس طرح حکم لگایا جائے؟

لہٰذا یہ بات اب واضح ہے کہ عصر ِحاضر میں اگر کوئی کسی حدیث کی فنی حیثیت معلوم کرنا چاہے تو وہ بذات خود نئے سِرے سے تحقیق کرنے کی کوشش نہ کرے بلکہ اُس کا سارا دار و مدار ائمّہ محدثین (متقدمین و متاخرین) کی جانب سے کی گئی تحقیقات اور احادیث پر لگائے گئے احکام و کلام پر ہونا چاہئے،کیونکہ دورِ حاضر کے افراد میں اتنی سَکَت ہے ہی نہیں کہ محدثین کی اتباع و پیروی کیے بغیر فقط اپنی اَٹَکل سے حدیث پاک پر حکم لگا سکیں۔

اب جب بھی کسی حدیث کے متعلق صحت و ضُعف کی جانچ کرنی ہو تواُن کتب محدثین کی طرف رجوع کیا جائے گا جن میں انہوں نے احادیث پر احکام لگائے ہوں یا کچھ کلام کیا ہو (مثلا سنن ترمذی، مستدرک ، مجمع الزوائد،المقاصد الحسنۃ وغیرہ ،اور اسکے علاوہ اس طرح کی بے شمار کتابیں ہیں)

کلام ائمہ کے متعلق مختلف صورتیں:

بعض اوقات کسی حدیث کے متعلق کلامِ ائمّہ آسانی سے مل جاتے ہیں اور اُن کے مطابق فیصلہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن بسا اوقات کلام ائمّہ باوجود کثیر تلاش کے نہیں ملتے، یا ملتے ہیں تو مختلف ائمّہ کے کلام آپس میں مختلف ہوتے ہیں۔ تو اسکی صورتیں اور اور اُن کے متعلق حکم ملاحظہ ہو:

اول: اگر محدثین کی جانب سے لگائے گئے احکامات یکساں ہوں اور کسی طرح کا اختلاف نہ ہو،تو معاملہ آسان ہےکہ جو حکم وہاں موجود ہوگا وہی معتبر مانا جائے گا۔

ثانی:اگر اُن کتب میں ایک ہی حدیث کے متعلق ائمّہ کرام کے کلام مختلف ہوں، مثلا ایک جانب کسی امام نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہواور دوسری جانب کسی اور نے ضعیف، تو ایسی صورت میں ترجیح کا طریقہ اختیار کیاجائے گا۔ جیسا کہ علامہ عبد الحی لکھنوی علیہ الرحمۃ نے ”ظفر الامانی“ میں بالتفصیل بیان فرمایا ہے۔ ملاحظہ ہو:

وأمّا إِذَا اختَلَفُوا فِيمَا بَينَهُم فَالأَمْرُ عَسِيرٌ وَالاختِلَافُ فِيمَا بَينَ جَهَابِذَةِ الحَدِيثِ فِي هَذَا البَابِ غَيرُ قَلِيلٍ وعِندَ ذَلِكَ يُطلَبُ التَّرجِيحُ بِوَجهٍ مِن الوُجُوهِ فَيُؤخَذ بِالمُرَجَّحِ ويُترَكُ مَا سِوَاهُ. وله طُرُقٌ كَثِيرَةٌ:

مِنهَا أن يُدَقَّقَ النَّظرُ فِيمَا قَالَهُ الفَرِيقَانِ وَيُنظَرَ فِيمَا به حَكَمَ بَعضُهُم بِالوَضعِ أو بِالضّعفِ وبَعضُهُم بِالصِّحَّةِ بِنَظرِ التَّأمُّلِ والعِرْفَانِ فَيُؤخَذ بِمَا وَضَحَتْ صِحَّتُهُ ويُترَك مَا ظَهَرَ سَقِيمُهُ.

ومِنهَا أنْ يَكُونَ صاحب أحد القَولَينِ مُتساهِلاً في التَّحسِينِ والتَّصحِيحِ والآخَرُ مُنقِّحاً ومُفَتِّشاً مُهتَمّاً بِالتَّحقِيقِ والتَّنقِيحِ فَحِينَئِذٍ يُرجَّح قولُ غَيرِ المُتَسَاهِلِ على قَولِ المُتَسَاهِلِ كالحَاكِمِ صَاحِبِ المُستَدرَكِ فإنَّهُم بِأجْمَعِهِم نَصُّوا عَلَى أنّهُ لا اعتِمَادَ عَلَى تَصحِيحِهِ.

ومِنهَا أنْ يَكُونَ صَاحِبُ أَحَدِ القَولَينِ من المُبَالِغِينَ في الجَرحِ والآخَرُ مُتَوسِّطاً ومُعتَدِلاً فِي القَدَحِ فيُرَجَّح قَولُ غَيرِ المُتَشدِّدِ على قَولِ المُتَشَدِّدِ ويُقبَل تَصحِيحُ المُتَوسِّطِ وتَحسِينُهُ دُونَ تَضعِيفِ المَشَدِّدِ وحُكمِ وَضعِهِ.

ومِنهَا أنْ يَكُونَ صَاحِبُ أحَدِ القَولَينِ مِنَ المُشَدِّدِينَ فِي الحُكمِ بِالوَضعِ والضُّعفِ كابنِ الجَوزِيِّ.... وَالآخَرُ من المُتَوَسِّطِينَ المُنَقِّحِينَ كابنِ حَجَر العَسقَلانِيّ وشَيخِهِ العِرَاقِيّ والسُيُوطِيّ وأشبَاهِهِم فَحِينَئِذٍ يُرَجَّح قَولُ الآخَرِينَ عَلى الأوَّلِينَ ولا يُبَادَر إلى الحُكمِ بِالضُّعفِ والوَضعِ بِمُجَرَّدِ حُكمِ الأوّلِينَ.

ترجمہ: بہر حال جب کلام ائمّہ آپس میں مختلف ہوں (اور درحقیقت اُن جَہَابِذہ کے مابین اختلاف کم تعداد میں نہیں) تو ایسی صورت میں وجوہ ِترجیح میں سے کسی وجہ کو تلاش کیا جائے گا، اور راجح کو اختیار کر کے ماسویٰ کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اسکے کثیر طریقے ہیں:

ایک یہ کہ دقّتِ نظری کے ساتھ دونوں جانب كے اقوال دیکھے جائیں اور خوب غور و فکر کر کے اُن احادیث کو دیکھا جائےجن پر ایک نے وضع یا ضُعف کا حکم لگایا ہے اور دوسرے نے صحت کا۔ تو جس قول کی درستگی واضح ہو اُسے اختیار کیا جائے اور دوسرے کو چھوڑ دیا جائے۔

دوسرا یہ کہ اُن دو قائلین میں سے ایک حدیث کو صحیح و حسن قرار دینے میں مُتساہِل (نرمی برتنے والا) ہو اور دوسرا مُنقِّح و مفتّش ہو اور تحقیق و تنقیح کا اہتمام رکھنے والا ہو۔ تو ایسی صورت میں غیر مُتساہِل کا قول مُتساہِل کے مقابلے میں مقبول ہوگا۔ مثلا امام حاکم( صاحبِ مستدرک)کے بارے میں تمام محدثین نے یہ صراحت کی ہے کہ اِن کی تصحیح پر اعتماد نہیں۔

تیسرا یہ کہ دو قائلین میں سے ایک جَرح میں مبالغہ کرنے والا ہو جبکہ دوسرا جَرح کرنے میں متوسّط و معتدل ہو۔ تو غیر متشدّد کا قول متشدّد کے مقابلے میں راجح ہوگا اور متوسّط کی جانب سے تصحیح و تحسین مقبول ہوگی نہ کہ متشدّد کی جانب سے تضعیف اور حکمِ وضع۔

چوتھا یہ کہ دو قائلین میں سے ایک وضع اور ضُعف کا حکم لگانے میں متشدّد ہو مثلاً امام ابن الجوزی۔۔۔۔۔ اور دوسرا متوسّطین اور منقّحین میں سے ہو مثلاً امام ابنِ حجر عسقلانی اور اِن کے شیخ امام عراقی اور امام سیوطی وغیرھم۔ تو ایسی صورت میں متوسّطین کا قول راجح ہوگا متشدّدین کے مقابلے میں اور محض متشدّدین کی جانب سے حکم دیکھ کر حدیث کے ضُعف و وضع کا فیصلہ نہیں کر لیا جائے گا۔

کیا یہ طریقۂ ترجیح بھی ہر ایک کے بس میں ہے؟

یہاں ایک اور امر توجہ طلب ہےوہ یہ کہ ائمّہ کرام کے کلاموں کے مابین اختلاف کو حل کرنے کے لئے ترجیح کے طریقے کار کو اختیار کرنا بھی ہر ایک کےبس میں نہیں جیسا کہ امام لکھنوی علیہ الرحمہ نے اِس صورتحال کو امرِ عسیر (مشکل ترین امر)قرار دیا۔ کیونکہ اِس کے لئے خوب دقّتِ نظری اور غور و فکر چاہئے اور پھر محدثین اور کتبِ محدثین کے مناہج و صفات پر گہری نظر چاہئے کہ فلاں امام متشدّد ہے فلاں امام متوسط ہے، اور فلاں کتاب کی یہ خصوصیت ہے اور فلاں کی یہ وغیرہ وغیرہ ۔ فقط اپنی رِضا و خواہش سے جس قول پر دل جَمے اُس قول کو اختیار کر لینا اور باقی کو ترک کردینا کسی جرأت سے کم نہیں ہوگا۔

کسی کا یہ کہنا: ”کسی محدث کا حکم ہمارے لئے پتھر پر لکیر نہیں ہوتا“

یہی سے یہ بات ہر اَنکھیارے (آنکھ والے) کے لئے اَظْہَر مِنَ الشَّمس (سورج سے زیادہ روشن) ہو گئی کہ اختلاف کی صورت میں جب کسی ایک اما م کے قول کو اختیار کر کے مرجوح قول کو ترک کر دیا جائے تو متروکہ قول کے بارے میں ہر گز یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ”چونکہ کسی محدث کا حکم ہمارے لئے ”پتھر پر لکیر“ نہیں ہوتا اس لئے اس قول کو چھوڑ دیا گیا۔ کیونکہ در حقیقت اِس قول کو اِس وجہ سے ترک نہیں کیا گیا کہ اِس قول پر اعتماد نہیں تھا بلکہ اِس وجہ سے ترک کیا گیا کہ اِس قول کے مقابلے میں ایک دوسرا قول موجود تھا اور پھر وجوہِ ترجیح میں سے ایسی وجہِ ترجیح پائی گئی کہ جس نے اُس قولِ مقابِل کو راجح قرار دیا اور اِسے مرجوح۔جیسا کہ امام حاکم علیہ الرحمہ کی تصحیح اور اُس کے مقابلے میں امام ذہبی کی تضعیف، ایسے ہی امام ابنِ جوزی علیہ الرحمہ کی جانب سے حکمِ وضع اور اُس کے مقابلے میں امام سیوطی علیہ الرحمہ کا تعقب۔ وعلیٰ ہذا القیاس۔

اور پھر اگربطورِ تسلیم کسی محدّث کا حکم ہمارے لئے معتمد ہے ہی نہیں تو پھر کس طرح کسی حدیث کی فنی حیثیت کوجانا جائے؟ وہ مہارت وقابلیت کہاں سے حاصل کی جائے کہ جو محض ائمّہ محدثین کا ہی خاصّہ تھا؟ کسی حدیث پر صحت و ضُعف کاحکم لگانا کتنا دشوار ترین امر ہے اور کِن کِن منازِل کو طے کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کے رسالے ”الفضل الموھبی“ میں بیان کردہ منازل سے لگانا چاہئے۔ مزید یہ کہ اگر اُن کے احکام معتبر ہے ہی نہیں تو کیا اُن کی جانب سے کی گئی تحقیقات کا فائدہ فقط اتنا ہے کہ قیامت تک کتابوں کی زینت بنی رہے؟ نہ اُن پر اعتماد نہ اعتبار اور عمل تو کُجَا!

ثالث: اگر اُس حدیث کے متعلق کلام ائمّہ باوجود بحث و تفصیح کے ملے ہی نہیں تو اب ضرورت کے پیشِ نظر اپنی استطاعت و حیثیت کے مطابق حکم صادر کیا جائے گا اور یہ کام بھی اُن معاصرین مشتغلین بِعِلم الحدیث (علمِ حدیث میں مشغول علما) کا ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگی اِ س فن میں وقف کردی ہواور کلامِ محدثین و کتبِ محدثین میں کثرتِ ممارست رکھتے ہوں، تو وہ راویوں کی تحقیق کے ذریعے محض سند پر صحت وضُعف کا حکم لگا سکتے ہیں، اور موضوع کاحکم فقط قرائنِ عامّہ کے ذریعے لگا سکتے ہیں (یعنی اُن قرائن کے ذریعے جن کے ادراک پر متقدمین ومتاخرین دونوں شریک ہوتے ہیں) لیکن یاد رہے یہ تب ہے کہ جب اُس حدیث کے متعلق کلام ائمّہ باوجود کثرتِ تلاش کے نہ ملے، ورنہ سب سے پہلے کلامِ ائمہ کو تلاش کیا جائے گا اور وہی پہلی ترجیح ہوگی۔

خلاصۂ بحث:

سابقہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ حدیث پر تحکیم آسان امر نہیں۔ یہ اکابر متقدمین محدثین کا کام تھا، عصر ِ حاضر میں اہلیت و قابلیت کے فُقدَان کے سبب حدیث کی فنی حیثیت کو جاننے کے لئے اُن محدثین کے اقوال کی طرف ہی رجوع کیا جائے گا اور اُسی کے مطابق صحت و ضُعف کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور اگر بالفرض کسی حدیث کے متعلق کلام ائمہ نہ ملے تو احتیاج کے پیشِ نظر حدیث کی سند پر حکم لگایا جا سکتا ہے بشرط یہ کہ حکم لگانے والا اِس فن میں کثیر مہارت و مُمارَست رکھتا ہو اور مناہجِ محدثین و کتبِ محدثین سے واقف ہو، نیٹ، شاملہ اور دیگر سرچ انجن سافٹ ویئرز کے سہارے اُس کی گاڑی نہ چلتی ہو۔ والله أعلم


مولانامحمد عمیر عطاری مدنی زِیْدَشَرْفُہ

(ناظم ُالامور”مرکز خدمۃ الحدیث وعلومہ(دعوتِ اسلامی)“)

کتابُ اللہ کے بعد حدیثِ رسول پرہی ہمارے دین کی بنیاد ہے، بلکہ حدیثِ رسول کے بغیر کتاب اللہ کو کما حقہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ حدیث کا علم جتنا اہم ہےاتنا ہی مشکل بھی ہےاِس کے باوجود اسے حاصل کرنے کے لیے ہمارے اسلاف نے اپنی زندگیاں وقف کیں ۔ محدثین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمیں علومِ حدیث کا خزانہ حاصل ہے۔

علمِ حدیث کی دوقسمیں:

حدیث بظاہر ایک لفظ ہےلیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہو۔ اہلِ علم اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ہر علم وفن کے اپنے اصول وضوابط ہوتے ہیں، اسی طرح علم حدیث کے بھی ہیں۔

علم حدیث کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

(1) روایتِ حدیث: یعنی وہ علم جو نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اقوال، افعال، تقاریر، احوال واوصاف پر مشتمل ہو۔اِس علم کے ذریعے ہم حدیث کے معانی واستباط اورمعمول بہ ہونے کا علم حاصل کرتے ہیں۔

(2) درایت حدیث: یہ اُن قوانین کا علم ہےجن کے ذریعے”سند ومتن کےاحوال“جانے جاتے ہیں۔ اسی کو اصولِ حدیث یا مصطلح الحدیث کہتے ہیں۔یہ علم صحیح کو سقیم سےجدا کرکےدینِ اسلام کی روشن تعلیمات کی حفاظت کرتا ہے ۔

علم ِدرایت ِ حدیث کاثمرہ ”تحکیمِ حدیث“ ہے:

سند و متن کے احوال جاننے کے بعد باری آتی ہے حدیث پر حکم لگانے کی، بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ علمِ اصولِ حدیث کی غایت و انتہا یہی ہے کہ حدیث کے حکم کو جان لیا جائے، نہ صرف علم اصول حدیث بلکہ علم جرح وتعدیل، علم الرجال، علم التاریخ، علمِ عللِ حدیث اور وہ سارے علوم جن کا مقصد صحت و ضعف کے اعتبار سے حدیث کا حال جاننا ہوتا ہے، ان سب علوم کی انتہایہیں پر ہوتی ہے کہ مذکورہ قول حدیث ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کس درجے کی؟

تحکیم حدیث کی اقسام

حدیث پر حکم لگانے کے تین طریقے ہو سکتے ہیں:

(1) نقلی (2) درایتی (3) نقلی و درایتی

(1)نقلی

اس میں حکمِ حدیث معتبر ائمہ کرام سے اخذ کیے جاتے ہیں کہ انہوں نے احادیث پر حکم لگا کر صحیح کو ضعیف سے ممتاز کر دیا ہے، تو اگر منقولی حکم تک رسائی میسّر ہو تو اسی کو اختیار کرنا چاہیے کیونکہ دیگرخوبیوں کے ساتھ ساتھ درایت کے اعتبار سے بھی یہ حضرات ہم سے کہیں زیادہ فائق ہیں۔

(2)درایتی

کئی بار ایسا ہو جاتا ہے کہ منقولی حکم نہیں مل پاتا تو یہ ”کَمْ تَرکَ المُتَقَدِّمُ لِلّمُتَأخِّر“ کے قبیل سے ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں ہم پر یہ ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ علومِ درایت کو پیشِ نظر رکھ کر حدیث کے حال کا دراسہ کریں تاکہ حکم تک پہنچ سکیں۔

(3)نقلی و درایتی

کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ منقولی حکم مل تو جاتا ہے لیکن اقوالِ ائمہ اس میں مختلف ہوتے ہیں، اس صورت میں علومِ درایت کے مطابق تطبیق وترجیح کا طریقہ اختیار کیا جائے۔

ہمارا مقصد چونکہ منقولی احکام سے متعلق ہے اس لئے ہم اسی پر اپنی گفتگو جاری رکھتے ہیں:

حکمِ حدیث کن کتابوں سے نقل کیا جائے؟

ذیل میں مختلف عنوانات کے تحت کتب ذکر کیے جا رہے ہیں:

جوامع ، سنن وغیرہ:

(1)مستدرک علی الصحیحین از امام ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ حاکم شافعی : اس کے ساتھ امام ذہبی کی تلخیص لازمی دیکھنا چاہیے کہ امام ذہبی نے حکم کی موافقت کی ، تعقب کیا یا سکوت فرمایا۔

(2)الاحادیث المختارۃ از امام ضیاء الدین محمد بن عبد الواحد مقدسی حنبلی: عموماً متقدمین سے نقل کرتے ہیں لیکن کئی مرتبہ مناقشہ بھی کرتے ہیں۔

(3)سنن ابی داود از امام ابو داود سلیمان بن اشعث سجستانی:اس کی احادیث کی بات کی جائے تو امام منذری نے اس کا (مختصر) لکھا اور کئی احادیث پر حکم بھی لگایا۔ اسی طرح امام یحی بن شرف نووی شافعی نے بھی (الإيجاز في شرح سنن أبي داود) کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں طہارت سے متعلق سو (۱۰۰) سے کچھ زائد احادیث پر حکم بیان کیا۔

(4)جامع الاصول از امام ابن الاَثیر مبارک بن محمد جزری: اس میں بھی کئی مقامات پر احادیث و رواۃ کے متعلق کلام موجود ہے۔

(5)سنن ترمذی از امام ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی:جہاں تک تعلق ہے اس کتاب کاتو مصنف نے خود احکام ذکر فرمائے ہیں، مزید تحقیق کے لئے ابو الفتح ابن سید الناس کی شرح (النفح الشذی فی شرح جامع الترمذی) کا مطالعہ فرمائیں۔احادیث الباب وغیرہ پر کلام موجود ہے۔

(6)سنن ابن ماجہ از امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید قزوینی: اس میں دو طرح کی احادیث ہیں، ایک وہ جو صحیحین اور دیگر سنن میں ہیں تو اس کا حکم مذکورہ کتب میں اگر ہوں تو وہاں سے دیکھ لیا جائے۔ دوسری وہ جو زوائد کہلاتی ہیں، ان زوائد کو امام احمد بن ابو بکر بوصیری شافعی نے ”مصباح الزجاجہ فی زوائد ابن ماجہ“ کے نام سے جمع کیا ہےاور حکم سے متعلق کلام بھی کیا ہے۔

(7)القول المسدّد فی الذّبّ عن مسند احمدازامام ابن حجراحمد بن علی عسقلانی شافعی

(8)حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ والنسائی از امام ابو الحسن محمد بن عبد الھادی سندی

احادیثِ احکام پر حکم:

(1)نصب الرایہ ازامام عبد اللہ بن یوسف زیلعی حنفی

(2)الدرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ از امام ابن حجراحمد بن علی عسقلانی شافعی: یہ کتاب در اصل نصب الرایہ للزیلعی کی تلخیص ہیں لیکن اضافی فوائد ونکات پر مشتمل ہے۔

(3)البدر المنیر فی تخریج احادیث الشرح الکبیر از امام ابن ملقن عمر بن علی شافعی: امام غزالی نے فقہ شافعی پر ایک کتاب (الوجیز) لکھی، امام رافعی نے (فتح العزیز) کے نام سے اس کی شرح لکھی، پھر ابن ملقن نے اس شرح کی احادیث کی تخریج کی اور ساتھ احکام بھی بیان کیے۔

(4)التلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر از امام ابن حجراحمد بن علی عسقلانی شافعی: در اصل ابن حجر نے اپنے شیخ ابن ملقن کی ہی کتاب (البدر المنیر)کی تلخیص کی ہے اور مزید چند کتابوں کی احادیث کو بھی شامل کیا ہےاور ساتھ احکام پر گفتگو بھی فرمائی۔

(5)الاحکام الوسطی از امام عبد الحق بن عبد الرحمن الاشبیلی: عموما بغیر سند کے احادیث ذکر کرتے ہیں سوائے پہلے راوی کے پھر حدیث کے حکم سے متعلق کلام کرتے ہیں ۔

(6)السنن الکبری از امام احمد بن حسین بیہقی شافعی

(۷)خلاصۃ الاحکام از امام یحی بن شرف نووی شافعی

(۸)المجموع شرح المھذب از امام یحی بن شرف نووی شافعی

کتبِ دعوات:

(1)الترغیب والترھیب از امام عبد العظیم بن عبد القوی منذری شافعی

(۲)الاذکار از امام یحی بن شرف نووی شافعی

(۳)نتائج الافکار فی تخریج احادیث الاذکار از امام ابن حجراحمد بن علی عسقلانی شافعی

کتبِ شروحات:

(1)شرح السنۃ از امام حسین بن مسعود بغوی شافعی

(2)فیض القدیر شرح الجامع الصغیر از علامہ محمد عبد الرؤوف مناوی

(3)التیسیر بشرح الجامع الصغیر از امام محمد عبد الرؤوف مناوی

(4)السراج المنیر شرح الجامع الصغیر از امام علی بن احمد عزیزی شافعی

(5)مرقاۃ المفاتیخ شرح مشکاۃ المصابیح از امام علی بن سلطان محمدالقاری حنفی

(۶)شرح صحیح مسلم از امام یحی بن شرف نووی شافعی

(۷)فتح الباری از امام ابن حجراحمد بن علی عسقلانی شافعی

کتبِ تخریج وزوائد:

(1)الجامع الصغیر از امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکرسیوطی

(2)الجامع الکبیر/جمع الجوامع از امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکرسیوطی

(3)مجمع الزوائد از امام نور الدین علی بن ابو بکرہیثمی

(4)اتحاف الخیرۃ المہرۃ از امام احمد بن ابو بکر بوصیری شافعی

(5)المطالب العالیہ از امام ابن حجراحمد بن علی عسقلانی شافعی

(۶)المغنی عن حمل الاسفار از علامہ عبد الرحیم بن حسین عراقی شافعی: یہ امام غزالی کی کتاب احیاء العلوم کی احادیث کی تخریج سے متعلق ہے۔

(۷)جامع الاحادیث از مفتی حنیف رضوی صاحب:اعلی حضرت کی تالیفات میں موجود حدیثوں کو اس کتاب میں جمع کیا اور امام اہلسنت نے جو حکم لگائے اسے بیان کیااور بعض اوقات اپنی طرف سے حکم ذکر کیا۔

کتب الرجال:

(1)الضعفاء الکبیر از امام محمد بن عمروعُقَیلی: راوی کے ترجمہ کے تحت اسی راوی کی سند سے حدیث ذکر کرتے ہیں تو راوی جس درجے کا ہوگا حدیث پر بھی وہی حکم لگے گا۔بعض اوقات حدیث سے راوی کا درجہ معلوم ہوتا ہے۔

(2)المجروحین از امام محمد بن حبان بُستی

(3)الکامل فی ضعفاء الرجال از امام عبد اللہ بن عدی جرجانی

(4)میزان الاعتدال از امام شمس الدین محمد بن احمد ذہبی

(5)لسان المیزان از امام ابن حجراحمد بن علی عسقلانی شافعی

کتبِ موضوعات وغیرہ

(1)الموضوعات از امام ابن جوزی عبد الرحمن بن علی حنبلی

(2)تعقبات ابن جوزی از امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکرسیوطی

(3)اللآلی المصنوعۃ از امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکرسیوطی

(4)ذیل اللآلی از امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکرسیوطی

(5)الموضوعات از امام حسن بن محمد صغانی حنفی

(۶)جزء فیہ الرد علی الصغانی از علامہ عبد الرحیم بن حسین عراقی شافعی

(۷)تنزیہ الشریعہ از امام ابن عَرّاق علی بن محمد شافعی

(۸)کشف الخفاءاز امام اسماعیل بن محمدعجلونی

(۹)العلل المتناہیہ از امام ابن جوزی عبد الرحمن بن علی حنبلی

(۱۰)سِفر السعادۃ از امام محمد بن یعقوب فیروزآبادی

(۱۱)شرح سفر السعادۃ از امام عبد الحق محدث دہلوی حنفی، فارسی

(۱۲)المقاصد الحسنہ از امام محمد بن عبد الرحمن سخاوی شافعی

علل حدیث سے متعلق کتابوں سے بھی احکام اخذ کیے جا سکتے ہیں، مزید یہ کہ خاص خاص موضوع پر لکھی گئی کتابیں یا اجزاء وغیرہ بھی ہیں جن میں حکم ہوتا ہےجیسے:

فضائل خلفاء راشدین و اہل بیت سے متعلق کتب:

(1)الصواعق المحرقہ از امام ابن حجراحمد بن محمد ہیتمی شافعی

(2)استجلاب ارتقاء الغرف از امام محمد بن عبد الرحمن سخاوی شافعی

(3)تاریخ الخلفاء از امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکرسیوطی

درود شریف سے متعلق کتب:

(1)القول البدیع از امام محمد بن عبد الرحمن سخاوی شافعی

(2)الدر المنضود از امام ابن حجراحمد بن محمد ہیتمی شافعی

یہاں احاطہ مقصود نہیں ،اگر مزیدنام شامل کیے جائیں تو ایک طویل فہرست تیار ہو سکتی ہے۔

وضاحت:

لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ نقلی حکم کئی بار صرف خاص سند کے اعتبار سے ہوتا ہےلہذا متنِ حدیث پر حکم جمیع جہات کو پیش نظر رکھ کر لگایا جائے گا، سند کے ضعیف ہونے سے حدیث کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا اسی طرح سند کے صحیح ہونے سے متنِ حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتاکہ کبھی متن شاذ یا معلل ہوتی ہے۔

مذکورہ کلام صرف اُن معروف کتب کی نشاندہی کے لیے ہے جن سے منقولی احکام مل سکتے ہیں، باقی رہا اصلِ حدیث پر حکم کیسے لگے گا؟ متابع و شواہدات کے کیا اصول ہیں؟ ضعیف ہونے کی صورت میں کس کا ضعف کا پوراہو سکے گا اور کس کا نہیں؟ان سب کی تفصیل کے لیے متعلقہ کتب کا مطالعہ فرمائیں۔

28 ربیعُ الاخر1447مطابق22اکتوبر2025


مسلمانوں کے دلوں میں عشقِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، محبتِ صحابۂ کرام اور اولیائے کرام کی عقیدت پیدا کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام آج مؤرخہ 02 اکتوبر 2025ء کو دنیا بھر میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا جائے گا جن میں اراکین شوریٰ و مبلغین دعوتِ اسلامی سنتوں بھرے بیانات فرمائیں گے۔ہفتہ وار اجتماعات میں بیانات کے ذریعے کردار سازی اور معاشرے کی اصلاح کے ساتھ ساتھ گناہوں سے توبہ اور روحانی ترقی کے لئے ذکر و اذکار اور دعاؤں کا سلسلہ ہوتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق آج رات مدنی چینل پر براہ راست نشر ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں رکنِ شوریٰ حاجی محمد اظہر عطاری، شاہین گراؤنڈ فاروق آباد ڈسٹرکٹ شیخوپورہ سے سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔

اس کے علاوہ عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں رکنِ شوریٰ حاجی محمد امین عطاری، مدنی مرکز فیضان مدینہ کامونکی مدینہ ٹاؤن میں رکنِ شوریٰ مولانا حاجی محمد اسد عطاری مدنی، بابری مسجد نزد غازی آباد تھانہ تاجپورہ سکیم لاہور (عزیز بھٹی ٹاؤن) میں رکنِ شوریٰ حاجی یعفور رضا عطاری، مدنی مرکز فیضانِ مدینہ آفندی ٹاؤن حیدر آباد میں رکنِ شوریٰ حاجی محمد علی عطاری، جامع مسجد عبدالرشید کرنافولی چٹاگانگ بنگلہ دیش میں رکن شوریٰ عبد المبین عطاری اور مدنی مرکز فیضان مدینہ Old Firth Library Sheffield S5 6WSمیں رکن شوریٰ حاجی محمد خالد عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔

ہر طبقہ فکر کے افراد کو ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔


جوہر ٹاؤن لاہور، پنجاب میں موجود دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں شعبہ کفن دفن کے تحت 29 دسمبر 2024ء کو ایک ٹریننگ سیشن ہوا جس میں صوبائی ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے شرکت  کی۔

دورانِ سیشن ایچ آر ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی کے GM محمد مبشر عطاری نے ذمہ دار اسلامی بھائیوں سے مختلف امور پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں مسائل حل کرنے، نظام کو مزید بہتر بنانے اور کم وقت میں زیادہ کام کرنے کے حوالے سے ٹریننگ دی۔

اس موقع پر دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی منصور عطاری بھی موجود تھے۔(رپورٹ: عمیر عطاری معاون رکن شوری حاجی منصور عطاری ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


شعبہ معاونت برائے اسلامی بہنیں دعوتِ اسلامی کے تحت پچھلے دنوں تھانہ سوات میں مدنی مشورے کا انعقاد کیا گیا جس میں شعبے کے ڈسٹرکٹ و ڈویژن ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

اس مدنی مشورے میں نگرانِ شعبہ غلام الیاس عطاری نے ذمہ دار اسلامی بھائیوں سے گفتگو کرتے ہوئے گلی گلی مدرسۃ المدینہ، غیر رہائشی کورسز اور ماہانہ اجتماع شروع کروانے نیز دعوتِ اسلامی کے 12 دینی کاموں کو مضبوط کرنے کا ذہن دیا۔

بعد ازاں مدنی مشورے میں موجود ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں مزید بہتری و ترقی لانے کے لئے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ: مومن عطاری شعبہ معاونت برائےا سلامی بہنیں صوبائی ذمہ دار کے پی کے ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

ہر طبقے کے لوگوں کو علمِ دین سکھانے اور انہیں دینِ اسلام کی تعلیمات دینے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ کے تحت آج مؤرخہ 01 جنوری 2025ء سے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ جوہرٹاؤن لاہور میں  رہائشی ”سائن لینگویج کورس“ (اشاروں کی زبان کا کورس) کا انعقاد کردیا گیا ہے جوکہ 7 دنوں تک جاری رہے گا۔

معلومات کے مطابق اس کورس میں مختلف نکات پر شرکا کی رہنمائی کی جائے گی جن میں سے بعض یہ ہیں: ٭اسپیشل پرسنز (گونگے اور بہرے اسلامی بھائیوں) سے گفتگو کا طریقہ٭فضول گوئی سے حفاظت٭کم بولنے کی عادت٭مسلمانوں کی دل جوئی٭امر بالمعروف و النہی عن المنکر۔(رپورٹ: سید عمیر عطاری نگران شعبہ اسپیشل پرسنز ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

علمِ دین حاصل کرنے اور اس کورس میں داخلہ لینے کے لئے اس نمبر پر رابطہ کریں:

03134817492


عالمی سطح کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت صوبہ پنجاب، پاکستان کے  مدنی مرکز فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور میں 29 دسمبر 2024ء کو شعبہ کفن دفن کا مدنی مشورہ منعقد کیا گیا جس میں صوبائی ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

مدنی مشورے میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی منصور عطاری نے ابتداءً ”اصولوں کی پاسداری“ کے موضوع پر بیان کیا اور وہاں موجود اسلامی بھائیوں کی تربیت و رہنمائی کی۔

رکنِ شوریٰ نے اس دوران ذمہ دار اسلامی بھائیوں سے شعبے کی سابقہ 5 ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور اس میں نمایاں کارکردگی والے اسلامی بھائیوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔(رپورٹ: عمیر عطاری معاون رکن شوری حاجی منصور عطاری ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

پنجاب پاکستان کے شہر  نارو وال میں قائم دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں 31 دسمبر 2024ء کو شعبہ مدنی کورسز کے تحت معلم کورس ہوا جس میں شعبہ جامعۃ المدینہ کے طلبۂ کرام، شعبہ مدرسۃ المدینہ کے مدرسین، شعبہ مدرسۃ المدینہ بالغان اور شعبہ مدنی کورسز کے ذمہ داران کی شرکت ہوئی۔

تفصیلات کے مطابق معلم کورس میں مبلغینِ دعوتِ اسلامی نے مختلف موضوعات پر شرکا کی رہنمائی کی جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:٭معلم کو کیسا ہونا چاہیئے؟٭معلم کی خصوصیات٭کامیاب معلم کے اوصاف٭کورس تیار کرنے کا طریقہ٭ ڈیٹا انٹری کی اہمیت و افادیت٭ایپلیکیشن میں ڈیٹا انٹری کرنا٭کورس کے ذریعے 12 دینی کام کو مضبوط کرنا٭کورس میں کارکردگی جمع کرنے کا طریقہ٭رہائشی کورسز کے لئے اسلامی بھائیوں کو تیار کرنا٭کورس کے اختتام پر اختتامی نشست کا انعقاد کرنا ٭اختتامی نشست کا شیڈول٭دورانِ کورس فرض علوم کیسے سکھائے جائیں؟٭فیضانِ نماز کورس کا اجمالی شیڈول٭سبق سننے کا انداز کیا ہو؟۔

اس موقع پر کورس میں شریک طلبۂ کرام، مدرسین اور ذمہ دار اسلامی بھائیوں نےدعوتِ اسلامی کے مختلف دینی کاموں میں حصہ لیا جن میں صدائے مدینہ، تفسیر سننے / سنانے کا حلقہ اور مسجد درس شامل تھا۔

معلم کورس کے اختتام پر وہاں موجود تمام ذمہ دار اسلامی بھائیوں کا ٹیسٹ لیا گیا اور اسلامی بھائیوں نے مدنی چینل کو اپنے تأثرات دیتے ہوئے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ: محمد ابوبکر عطاری گلبرگ ٹاؤن لاہور ڈویژن، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

اسلامی تعلیمات عام کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت 22 دسمبر 2024ء کو  لاہور، پنجاب میں موجود فیضانِ صحابیات میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں اسٹاف کی اسلامی بہنیں شریک ہوئیں۔

دورانِ میٹنگ نگرانِ پاکستان مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے فیضانِ صحابیات میں داخلوں کو بڑھانے کے حوالے سے مدنی پھول بیان کئے اور ذمہ دار اسلامی بہنوں کی تربیت و رہنمائی کی۔مدنی مشورے کے اختتام پر ذمہ دار اسلامی بہنوں نے دینی کاموں کو مزید بہتر انداز سے کرنے کے لئے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔

دعوتِ اسلامی کے تحت 22 دسمبر 2024ء کو   لاہور سٹی کی تنظیمی ذمہ داران کا مدنی مشورہ منعقد ہوا جس میں سٹی تا یوسی نگران اور سٹی تا ٹاؤن سطح کی شعبہ ذمہ دار اسلامی بہنوں کی شرکت ہوئی۔

تفصیلات کے مطابق دعوتِ اسلامی کی نگرانِ پاکستان مشاورت اسلامی بہن نے ذمہ داران کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں نیکی کی دعوت کا کام اللہ پاک کی رضا کے لئے ثوابِ آخرت کی امید پر خیر خواہی امت کے جذبے کے تحت کرنا ہے ۔

نگرانِ پاکستان مجلسِ مشاورت نے دعوتِ اسلامی کے لئے ڈونیشن جمع کرنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ڈونیشن دعوتِ اسلامی کے دینی کام کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہے لہذا ہمیں اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے آرام و نیند کی قربانی دے کر رجب، شعبان اور رمضان میں اپنی دعوتِ اسلامی کو مضبوط بنانے کے لئے کوشش کرنی ہے۔

نگرانِ پاکستان مجلسِ مشاورت نے دورانِ مدنی مشورہ رمضان عطیات، منسلکین کا ڈیٹا انٹر کروانے ، اجتماعات کی لوکیشن گوگل میپ میں اپلوڈ کروانے، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کی سالانہ بکنگ کروانے اور رہائشی کورسز میں ایڈمیشن بڑھانے کے متعلق اہداف دیئے جس پر ذمہ دار اسلامی بہنوں نے اپنی اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا ۔

22 دسمبر 2024ء کو   شعبہ 8 دینی کام (اسلامی بہنیں)دعوتِ اسلامی کے تحت عباس پور شہر میں نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے ایک سیشن منعقد ہوا جس میں عباس پور تحصیل اور دیگر اطراف کے علاقوں سے اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

تلاوت و نعت کے بعد صوبہ کشمیر کی نگران اسلامی بہن نے ”قافلہ“ کے موضوع پر بیان کیا اور کہا کہ راہ ِخدا میں سفر کرنا سنت انبیاء ہے کہ کئی انبیائے کرام علیہم السلام نے دعوت و تبلیغ کے لئے راہ خدا میں سفر کیا جبکہ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی صحابہ کرام علیہم الرضوان کو راہِ خدا میں سفر کے لئے روانہ کیا۔

صوبہ کشمیر کی نگران اسلامی بہن نے حاضرین کو ترغیب دلائی کہ تمام اسلامی بہنیں اپنے محارم پر انفرادی کوشش کرتے ہوئے انہیں 3 دن،12 دن اور ایک ماہ کے لئے راہ ِخدا کا مسافر بنائیں نیز اس کی کارکردگی اپنی شعبہ محارم قافلہ ذمہ دار کو جمع کروائیں۔

بعدِ بیان نگران اسلامی بہن نے پونچھ ڈسٹر کٹ کی حالیہ کارکردگی کا جائزہ لیا اور ذمہ دار اسلامی بہنوں کو آئندہ کے اہداف دیتے ہوئے وہاں موجود اسلامی بہنوں کو دعوتِ اسلامی کے ساتھ مل کر دینی کاموں میں بڑھ چڑھ حصہ لینے کی ترغیب دلائی۔آخر میں مبلغۂ دعوتِ ا سلامی نے دعا کروائی اور تحائف تقسیم کرنے کا سلسلہ بھی ہوا۔


دعوتِ اسلامی کے تحت 21 دسمبر 2024ء کو  DHA کلفٹن ڈویژن کے تنظیمی اسٹرکچر کے حوالے سے آن لائن مدنی مشورہ منعقد کیا گیا جس میں عالمی مشاورت کی بعض اراکین ، DHA ، کلفٹن ڈویژن نگران اور کراچی سٹی نگران اسلامی بہنیں شریک ہوئیں۔

اوکاڑہ شہر سے بذریعہ انٹرنیٹ گفتگو کرتے ہوئے نگرانِ پاکستان مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے 8 دینی کاموں کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور ان میں مزید بہتری لانے کے لئے مدنی پھولوں سے نوازا۔

مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں نے دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں ترقی کے لئے اچھی اچھی نیتیں کیں۔ اپنے اہداف کا اظہار کیا۔