ایمان اور کفر کے درمیان فرق کو واضح کرنے کے لیے قرآن مجید میں مختلف مثالیں بیان کی گئی ہیں جو انسان کی ہدایت کے لیے نہایت اہم ہیں۔ یہ مثالیں فطرت، زندگی اور اعمال کے اثرات کو سمجھانے کے لیے بہترین تشبیہوں پر مشتمل ہیں، جو ایمان کی روشنی اور کفر کی تاریکی کے حقائق کو آشکار کرتی ہیں۔ ان مثالوں سے انسان کو غور و فکر اور صحیح راستہ اختیار کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔

ایمان کی تعریف : ایمان کا مطلب ہے دل سے اللہ کی وحدانیت کو ماننا، زبان سے اس کا اقرار کرنا، اور اعمال کے ذریعے اس پر عمل پیرا ہونا۔ ایمان کا مرکز اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے، کتابیں، انبیاء، قیامت کا دن، اور تقدیر پر یقین رکھنا ہے۔

کفر کی تعریف: کفر کا مطلب ہے اللہ کا انکار یا اس کی نعمتوں کی ناشکری کرنا، اور وہ چیزیں نہ ماننا جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم تک پہنچائیں۔

ایمان روشنی اور ہدایت کا راستہ ہے، جبکہ کفر گمراہی اور اندھیروں کی علامت ہے۔

ایمان کی قرآنی مثالیں:

(1) روشنی اور اندھیرا: اللہ تعالیٰ نے ایمان کو روشنی اور ہدایت سے تشبیہ دی ہے: اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۙ-یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ترجمہ کنزالایمان: اللہ والی ہے مسلمانوں کا انہیں اندھیریوں سے نور کی طرف نکالتا ہے ۔(البقرة: 257)

(2) بارش اور زمین کی زرخیزی: ایمان کو ایسی زمین سے تشبیہ دی گئی ہے جو بارش کے پانی سے سرسبز ہوجاتی ہے: وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِ ترجمہ کنز العرفان:اور وہ (پانی) جو لوگوں کو فائدہ دیتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے ۔(پ13 ، الرعد : 17)

(3) پختہ جڑوں والا درخت: ایمان کو ایسے مضبوط درخت سے تشبیہ دی گئی جس کی جڑیں زمین میں مضبوط ہوں اور شاخیں آسمان تک ہوں:

اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ(۲۴) ترجمہ کنزالایمان: کیا تم نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں۔ (ابراھیم: 24)

کفر کی قرآنی مثالیں:

(1) سراب: کفر کو سراب سے تشبیہ دی گئی جو دور سے پانی نظر آتا ہے لیکن قریب پہنچ کر کچھ نہیں ہوتا:

وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ ترجمہ کنز العرفان :اورکافروں کے اعمال ایسے ہیں جیسے کسی بیابان میں دھوپ میں پانی کی طرح چمکنے والی ریت ہو۔(پ18 ، النور: 39)

(3) کھوکھلا درخت: کفر کو ایسے درخت سے تشبیہ دی گئی جو زمین سے اکھڑا ہوا اور غیر مستحکم ہو: وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ ﹰ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ(۲۶) ترجمہ کنز العرفان: اور گندی بات کی مثال اس گندے درخت کی طرح ہے جوزمین کے اوپر سے کاٹ دیا گیا ہو ۔ ( پ13 ، ابراہیم: 26)

یہ مثالیں ایمان کی خوبصورتی اور اس کے اثرات کو واضح کرتی ہیں، جبکہ کفر کی کمزوری اور بے ثباتی کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔ ان مثالوں پر غور و فکر انسان کے دل کو حق کی طرف مائل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اللہ پاک ہمیں نیکی والے کام کرنی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین 

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایمان اور کفر کے درمیان واضح فرق بیان کیا ہے اور ان دونوں کی مثالیں دے کر انسان کو حق و باطل کے انجام سے آگاہ کیا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ایمان اور کفر کی بعض نمایاں مثالیں درج ذیل ہیں:

ایمان کی قرآنی مثالیں

(1) روشنی اور اندھیرے کی مثال : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۙ-یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۬ؕ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓـٴُـھُمُ الطَّاغُوْتُۙ- یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِؕ

ترجمہ کنزالایمان: اللہ والی ہے مسلمانوں کا انہیں اندھیریوں سے نور کی طرف نکالتا ہے اور کافروں کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں نور سے اندھیریوں کی طرف نکالتے ہیں۔(البقرة: 257)

یہ آیت ایمان کو روشنی اور کفر کو اندھیروں سے تشبیہ دیتی ہے۔ ایمان والا شخص ہدایت کے نور میں زندگی بسر کرتا ہے، جبکہ کافر گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکتا ہے۔

(2) پاکیزہ درخت کی مثال: ایمان کی ایک اور مثال اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کی: اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ(۲۴) ترجمہ کنزالایمان: کیا تم نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں۔ (ابراھیم: 24)

ایمان مضبوط درخت کی طرح ہوتا ہے جو نفع بخش ہوتا ہے، اس کی جڑیں دل میں پیوست ہوتی ہیں، اور اعمال کی شاخیں بلند ہوتی ہیں۔

(3) بارش اور زمین کی مثال: ایمان کو بارش اور اس کے اثرات سے بھی تشبیہ دی گئی ہے: اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا ترجمہ کنزالایمان: اس نے آسمان سے پانی اتارا تو نالے اپنے اپنے لائق بہہ نکلے تو پانی کی رَوْ(دھار) اس پر ابھرے ہوئے جھاگ اٹھا لائی۔ (الرعد: 13)

بارش ایمان کی علامت ہے، جو دلوں کو سیراب کرتی ہے، لیکن جس دل میں کفر ہو، وہ اس پانی کو قبول نہیں کرتا۔

کفر کی قرآنی مثالیں

(1) سراب کی مثال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْــٴًـا ترجمہ کنزالایمان: اور جو کافر ہوئے اُن کے کام ایسے ہیں جیسے دھوپ میں چمکتا ریتا کسی جنگل میں کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک جب اُس کے پاس آیا تو اُسے کچھ نہ پایا ۔(النور: 39)

یہ مثال بتاتی ہے کہ کافر دنیا میں جو بھی اعمال کرتا ہے، وہ آخرت میں بے فائدہ ہوں گے۔

(2) چٹان پر مٹی کی مثال: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً اور کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے جو پکارے ایسے کو کہ خالی چیخ و پکار کے سوا کچھ نہ سنے۔ (البقرة: 171)

کافر ہدایت کو سنتے ہیں، مگر ان کے دل اسے قبول نہیں کرتے۔

(3) اندھیروں میں شخص کی مثال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌؕ-ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍؕ-اِذَاۤ اَخْرَ جَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَاؕ ترجمہ کنزالایمان: یا جیسے اندھیریاں کسی کُنڈے کے دریا میں اس کے اوپر موج مو ج کے اوپر اَور موج اس کے اوپر بادل اندھیرے ہیں ایک پر ایک جب اپنا ہاتھ نکالے تو سوجھائی دیتا معلوم نہ ہو۔ (النور: 40)

یہ مثال بیان کرتی ہے کہ کافر گمراہی میں اس قدر ڈوبے ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی روشنی دکھائی نہیں دیتی۔

ایمان اسے کہتے ہیں کہ سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریاتِ دین ہیں اور کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں ، اگرچہ باقی تمام ضروریات کی تصدیق کرتا ہو قرآن پاک میں مختلف مقامات پر ایمان و کفر کو بیان کیا گیا ہے اور امت کی رہنمائی کے لیے مختلف امثلہ بھی ذکر کی گئی ہیں تاکہ عقل والے اس میں غوروفکر کرکے نصیحت حاصل کریں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1) کفر وجہالت کی مثال: اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۲۲)

ترجمہ کنزالایمان: اور کیا وہ کہ مُردہ تھا تو ہم نے اُسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایک نور کردیا جس سے لوگوں میں چلتا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو اندھیریوں میں ہے ان سے نکلنے والا نہیں یونہی کافروں کی آنکھ میں ان کے اعمال بھلے کردئیے گئے ہیں۔ (الانعام: 122)

وضاحت:

اس آیتِ کریمہ میں کفر اور جہالت کی مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ مومن اور کافر کا حال یہ ہے کہ ہدایت پانے والا مومن اُس مردہ کی طرح ہے جس نے زندگی پائی اور اس کو نور ملا جس سے وہ مقصود کی طرف راہ پاتا ہے اور کافر اس کی مثل ہے جو طرح طرح کی اندھیریوں میں گرفتار ہوا اور اُن سے نکل نہ سکے، ہمیشہ حیرت میں ہی مبتلا رہے۔ یہ دونوں مثالیں ہر مومن و کافر کے لئے عام ہیں ۔(تفسیر صراط الجنان)

(2) کافر اور مؤمن کی دُنْیَوی مثال اوران کا اُخروی حال: اَفَمَنْ یَّمْشِیْ مُكِبًّا عَلٰى وَجْهِهٖۤ اَهْدٰۤى اَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ترجمہ کنز الایمان:تو کیا وہ جو اپنے منہ کے بل اوندھا چلے زیادہ راہ پر ہے یا وہ جو سیدھا چلے سیدھی راہ پر۔(سورۃ الملک آیت 22)

وضاحت: اس مثال کا مقصود یہ ہے کہ کافر گمراہی کے میدان میں  اس طرح حیران و سرگرداں  جاتا ہے کہ نہ اسے منزل معلوم اور نہ وہ راستہ پہچانے اور مؤمن آنکھیں  کھولے راہِ حق دیکھتا اورپہچانتا چلتا ہے۔یہ تو کافر اور مؤمن کی دُنْیَوی مثال ہے جبکہ آخرت میں کفار کو واقعی منہ کے بل اٹھایا اور چہروں  کے بل جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔(تفسیر صراط الجنان)

(3) کافر و مومن برابر نہیں: مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ كَالْاَعْمٰى وَ الْاَصَمِّ وَ الْبَصِیْرِ وَ السَّمِیْعِؕ-هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًاؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ترجمہ کنزالایمان: دونوں فریق کا حال ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا اور دوسرا دیکھتا اور سنتا کیا ان دونوں کا حال ایک سا ہے تو کیا تم دھیان نہیں کرتے۔(سورۃ الھود آیت 24)

وضاحت: اس آیت میں دونوں فریقوں یعنی کافر اور مومن کا حال بیان کیا جارہا ہے کہ ان کا حال ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا ہو اور دوسرا دیکھنے والا اور سننے والا۔ کافر اس کی مثل ہے جو نہ دیکھے نہ سنے اور یہ ناقص ہے، جبکہ مومن اس کی مثل ہے جو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے اوروہ کامل ہے اور حق و باطل میں امتیاز رکھتا ہے، اس لئے ہر گز ان دونوں کی حالت برابر نہیں۔(تفسیر صراط الجنان)

اللہ پاک ہمیں ایمان کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے کفر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایمان اور کفر اسلام کے بنیادی تصورات ہیں جو انسان کے عقیدہ اور عمل کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایمان اور کفر کی تفصیلات قرآن و حدیث میں بڑی وضاحت سے آئی ہیں اور یہ دونوں انتہائی اہم موضوعات ہیں جو مسلمان کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

ایمان: ایمان کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی ہستی، اس کے رسولوں، کتابوں، فرشتوں، یوم آخرت اور تقدیر پر یقین لانا۔ ایمان ایک داخلی حقیقت ہے جو دل میں جڑ پکڑتی ہے، لیکن اس کے اثرات ظاہری اعمال پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ایمان کے ذریعے انسان اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرتا ہے اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالتا ہے۔

کفر: کفر کا مطلب ہے اللہ کی ہدایت سے انکار کرنا اور اس کے دین کو رد کرنا۔

کفر ایک ایسی حالت ہے جس میں انسان اللہ کی ہدایت کو قبول نہیں کرتا اور اس کے راستے کو چھوڑ دیتا ہے۔ کفر کے مختلف درجات ہیں، اور قرآن میں کفر کی مختلف علامات اور اس کے انجام کا ذکر آیا ہے۔

آئیے ایمان اور کفر کے حوالے سے کچھ قرآنی مثالیں اور ان کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں:

اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۲۲)

ترجمہ کنزالایمان: اور کیا وہ کہ مُردہ تھا تو ہم نے اُسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایک نور کردیا جس سے لوگوں میں چلتا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو اندھیریوں میں ہے ان سے نکلنے والا نہیں یونہی کافروں کی آنکھ میں ان کے اعمال بھلے کردئیے گئے ہیں۔ (الانعام: 122)

اس آیت میں مردہ سے کافر اور زندہ سے مومن مراد ہے کیونکہ کفر دلوں کے لئے موت جبکہ ایمان زندگی ہے اور نور سے ایمان مراد ہے جس کی بدولت آدمی کفر کی تاریکیوں سے نجات پاتا ہے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نور سے کتابُ اللہ یعنی قرآن مراد ہے۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۱۰۵)

ایک اور مقام پر رب العالمین فرماتا ہے: وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُۙ(۱۹) وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْرُۙ (۲۰) وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُۚ(۲۱) ترجمہ کنزالایمان: اور برابر نہیں اندھا اور انکھیارا اور نہ اندھیریاں اور اُجالا اور نہ سایہ اور نہ تیز دھوپ ۔ (فاطر: 19تا 21)

تفسیر صراط الجنان: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافر اور مومن کی ذات میں فرق بتایا کہ کافر ایسا ہے جیسے اندھا اور مومن ایسا ہے جیسے دیکھنے والا اوریہ دونوں برابر نہیں ۔ بعض مفسرین نے اس آیت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جاہل اور عالم برابر نہیں ۔ (جلالین مع صاوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۵ / ۱۶۹۴، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۹۷۶، ملتقطاً)

وَ لَا الظُّلُمٰتُ: اور نہ اندھیرے:اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافر اور مومن کے اوصاف میں فرق بیان فرمایا کہ کفر ایسے ہیں جیسے اندھیرے اور ایمان ایسا ہے جیسے اجالا،اور یہ دونوں برابر نہیں ۔( جلالین مع صاوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۱۶۹۴، ملخصاً)

اور رب تعالیٰ کفر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے: اَفَمَنْ یَّمْشِیْ مُكِبًّا عَلٰى وَجْهِهٖۤ اَهْدٰۤى اَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ترجمۂ کنز الایمان: تو کیا وہ جو اپنے منہ کے بل اوندھا چلے زیادہ راہ پر ہے یا وہ جو سیدھا چلے سیدھی راہ پر۔ (الملک: 22)

تفسیر صراط الجنان: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مؤمن اور کافر کا حال واضح کرنے کے لئے ایک مثال بیان فرمائی ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! کیا وہ شخص جو اپنے منہ کے بل اوندھا چلے اور نہ آگے دیکھے نہ پیچھے ،نہ دائیں دیکھے نہ بائیں ،وہ زیادہ راہ پر ہے یا وہ شخص جو راستے کو دیکھتے ہوئے سیدھی راہ پرسیدھا چلے جو منزلِ مقصود تک پہنچانے والی ہے۔( صاوی، الملک، تحت الآیۃ: ۲۲، ۱۰ / ۲۲۰۶، تفسیر طبری، الملک، تحت الآیۃ: ۲۲، ۱۲ / ۱۷۱، ملتقطاً)

کافر اور مؤمن کی دُنْیَوی مثال اوران کا اُخروی حال: اس مثال کا مقصود یہ ہے کہ کافر گمراہی کے میدان میں اس طرح حیران و سرگرداں جاتا ہے کہ نہ اسے منزل معلوم اور نہ وہ راستہ پہچانے اور مؤمن آنکھیں کھولے راہِ حق دیکھتا اورپہچانتا چلتا ہے۔یہ تو کافر اور مؤمن کی دُنْیَوی مثال ہے جبکہ آخرت میں کفار کو واقعی منہ کے بل اٹھایا اور چہروں کے بل جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔

ایمان اور کفر دونوں انسان کے دل اور اعمال کی حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایمان اللہ کی رضا اور ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے، جبکہ کفر اللہ کے راستے سے منحرف کرتا ہے۔ ہم سب کو ایمان کی حالت میں اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے اور کفر سے بچنا چاہیے تاکہ ہم اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی حاصل کر سکیں۔

اللہ تعالیٰ سے ہم ہمیشہ ایمان کی مضبوطی اور کفر سے بچنے کی دعا کرتے ہیں، کیونکہ ایمان کی حالت انسان کی دنیا اور آخرت کی فلاح کے لیے ضروری ہے۔

اللّهُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَىٰ دِينِكَ وَإِيمَانِكَ

ترجمہ: اے اللہ! میرے دل کو اپنے دین اور ایمان پر ثابت قدم رکھ۔