پیارے پیارے اسلامی بھائیوں اللّہ تعالیٰ کے نبی اپنی امت کو اللّہ تعالیٰ کے پیغامات سناتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ ہم آخرت میں کامیابی حاصل کر سکے انشاءاللّہ (عزوجل) آج اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت صالح علیہ السلام کی کچھ قرآنی نصیحتیں پڑھئے:

1) حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف بھیجنے کا قرآن میں ذکر : وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(73) ترجمۂ کنز الایمان : اور ثمود کی طرف ان کی برادری سے صالح کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی یہ اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لیے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں درد ناک عذاب آلے گا۔(پارہ 8 سورۃ الاعراف آیت 73)

2)حضرت صالح علیہ السلام کا خلوص و للہیت:حضرت صالح علیہ السلام نے قوم سے یہ بھی فرمایا:وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ(45) ترجمۂ کنز الایمان : اور بیشک ہم نے ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا کہ اللہ کو پوجو تو جبھی وہ دو گروہ ہوگئے جھگڑا کرتے۔(پارہ 19 سورۃ النمل آیت 45)

3)دعوت و تبلیع کی اجرت نہیں لیتا:وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (145) ترجمۂ کنز الایمان : اور میں تم سے کچھ اس پر اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔(پارہ 19 سورۃ الشعراء آیت 145) تفسیر کبیر میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ علیہ السلام اپنی قوم میں سب سے زیادہ ذہین ، انتہائی فہم و فراست والے، فراخ دل اور بڑے حوصلہ مند شخص تھے۔ یونہی غریب و نادار لوگوں کی مالی امداد کرنا اور بیماروں کی عیادت و خدمت کرنا آپ علیہ السلام کا عام معمول تھا۔ (تفسیر کبیرـ ھود تحت الایۃ 62 6/ 368 ملخصاً)

4)قوم کو عبادت الہی اور توبہ واستغفار کی دعوت :آپ علیہ السلام نے قوم کو وحدانیتِ باری تعالٰی پر ایمان لانے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور فرمایا:وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ(61) ترجمۂ کنز الایمان : اور ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صا لح کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس میں تمہیں بسایا تو اس سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بیشک میرا رب قریب ہے دعا سننے والا۔(پارہ 12 سورۃ الھود آیت 61)

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت صالح علیہ السلام کی نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ثم آمین


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں اللّہ تعالیٰ کے نبی اپنی امت کو اللّہ تعالیٰ کے پیغامات سناتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ ہم آخرت میں کامیابی حاصل کر سکے انشاءاللّہ (عزوجل) آج اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت صالح علیہ السلام کی کچھ قرآنی نصیحتیں پڑھئے:

1) حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف بھیجنے کا قرآن میں ذکر : وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(73) ترجمۂ کنز الایمان : اور ثمود کی طرف ان کی برادری سے صالح کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی یہ اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لیے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں درد ناک عذاب آلے گا۔(پارہ 8 سورۃ الاعراف آیت 73)

2)حضرت صالح علیہ السلام کا خلوص و للہیت:حضرت صالح علیہ السلام نے قوم سے یہ بھی فرمایا:وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ(45) ترجمۂ کنز الایمان : اور بیشک ہم نے ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا کہ اللہ کو پوجو تو جبھی وہ دو گروہ ہوگئے جھگڑا کرتے۔(پارہ 19 سورۃ النمل آیت 45)

3)دعوت و تبلیع کی اجرت نہیں لیتا:وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (145) ترجمۂ کنز الایمان : اور میں تم سے کچھ اس پر اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔(پارہ 19 سورۃ الشعراء آیت 145) تفسیر کبیر میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ علیہ السلام اپنی قوم میں سب سے زیادہ ذہین ، انتہائی فہم و فراست والے، فراخ دل اور بڑے حوصلہ مند شخص تھے۔ یونہی غریب و نادار لوگوں کی مالی امداد کرنا اور بیماروں کی عیادت و خدمت کرنا آپ علیہ السلام کا عام معمول تھا۔ (تفسیر کبیرـ ھود تحت الایۃ 62 6/ 368 ملخصاً)

4)قوم کو عبادت الہی اور توبہ واستغفار کی دعوت :آپ علیہ السلام نے قوم کو وحدانیتِ باری تعالٰی پر ایمان لانے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور فرمایا:وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ(61) ترجمۂ کنز الایمان : اور ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صا لح کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس میں تمہیں بسایا تو اس سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بیشک میرا رب قریب ہے دعا سننے والا۔(پارہ 12 سورۃ الھود آیت 61)

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت صالح علیہ السلام کی نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ثم آمین


نصیحت کا لغوی معنی "اچھی بات،اچھا مشورہ،خیر خواہی " کے ہیں (فیروزاللغات اردو، ص:1362)

وقتاً فوقتاً وعظ و نصیحت دینی ، اخلاقی،روحانی اور معاشرتی زندگی کے لیے ایسے ہی ضروری ہے جیسے طبیعت خراب ہونے کی صورت میں دوا ضروری ہے۔ نصیحت قولی صورت میں بھی ہوتی ہے اور فعلی صورت میں بھی، لوگوں کو اللہ پاک اور اس کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پسندیدہ باتوں کی طرف بلانے اور ناپسندیدہ باتوں سے بچانے کا ، دل میں نرمی پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ وعظ و نصیحت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پر مختلف انداز سے نصیحت فرمائی۔اسی طرح انبیاء کرام علیھم السلام نے بھی اپنی قوموں کو قولی اور عملی نصیحتیں فرمائیں،جن کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ملتاہے۔ انہی انبیاء کرام علیھم السلام میں سے حضرت صالح علیہ السلام بھی ہیں جنہوں نے اپنی قوم کو مختلف مقامات پر نصیحتیں فرمائیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے اور توبہ و استغفار کی نصیحت:ارشاد باری تعالیٰ ہے:قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ- هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ(۶۱)ترجمہ کنزالعرفان: فرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اسی میں تمہیں آباد کیا تو اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو ۔ بیشک میرا رب قریب ہے ،دعا سننے والا ہے (سورہ ھود61:)

غفلت چھوڑنے کی نصیحت:ارشاد باری تعالیٰ ہے:اَتُتْرَكُوْنَ فِیْ مَا هٰهُنَاۤ اٰمِنِیْنَۙ(۱۴۶) فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ(۱۴۷) وَّ زُرُوْعٍ وَّ نَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِیْمٌۚ(۱۴۸) وَ تَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِهِیْنَۚ(۱۴۹) فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۵۰) وَ لَاتُطِیْعُوْۤا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۵۱) الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَ لَا یُصْلِحُوْنَ(۱۵۲)
ترجمہ کنزالعرفان: کیا تم یہاں (دنیا) کی نعمتوں میں امن و امان کی حالت میں چھوڑ دئیے جاؤ گے؟ باغوں اور چشموں میں ۔ اور کھیتوں اور کھجوروں میں جن کا شگوفہ نرم ونازک ہوتاہے ۔ اور تم بڑی مہارت دکھاتے ہوئے پہاڑوں میں سے گھر تراشتے ہو۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اور حد سے بڑھنے والوں کے کہنے پر نہ چلو۔ وہ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے ۔(سورہ شعراء:152-146)

بھلائی اور بخشش مانگنے کی نصیحت:ارشاد باری تعالیٰ ہے:قَالَ یٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِۚ-لَوْ لَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۴۶)ترجمہ کنزالعرفان:صا لح نے فرمایا: اے میری قوم! بھلائی سے پہلے برائی کی جلدی کیوں کرتے ہو؟تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے ؟ ہوسکتا ہے تم پر رحم کیا جائے۔ (سورۃالنمل: 46)

اونٹنی کو چھوڑے رکھنے اور برائی سے نہ چھونے کی نصیحت:ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ یٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِیْبٌ(۶۴)ترجمہ کنزالعرفان:اور اے میری قوم! یہ تمہارے لئے نشانی کے طور پر اللہ کی اونٹنی ہے تو اسے چھوڑ دو تاکہ یہ اللہ کی زمین میں کھاتی رہے اور اسے برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا ورنہ قریب کا عذاب تمہیں پکڑ لے گا (سورہ ھود:64)

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی مبارک نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں فیضانِ انبیاء سے مالا مال فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے پسلی سے حضرت حوا  رضی اللہ عنہا کو پیدا فرما کر انسانیت کی ابتدا فرمائی پھر اللہ پاک نے انہیں اولاد کی نعمت سے نوازا جس سے رفتہ رفتہ انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور لوگ مختلف علاقوں اور خطوں میں آباد ہوتے چلے گئے ابتدا میں تو سب لوگ توحید و مذہب کے ماننے والے تھے پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لوگوں نے شیطان کےبہکاوے میں ا ٓکر اللہ پاک کی بندگی کو چھوڑ کر بتوں کو اپنا معبود سمجھ لیا اللہ عزوجل نے ان لوگوں کی اصلاح کے لیے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کو روشن نشانیوں اور معجزات کے ساتھ بھیجا اور لوگوں کی ہدایت و نصیحت کے لیے ان انبیاء مرسلین علیہم السلام پر صحیفے اور کتابیں نازل فرمائی ان سب کی دعوت اور تبلیغ و نصیحت یہی تھی کہ ایک خدا کو مانو کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ صرف اسی کی عبادت کرو اور اس کے انبیاء و مرسلین علیہم السلام پر ایمان لاؤ اور ان کی اطاعت کرو مگر انہوں نے ان انبیاء و مرسلین علیہم السلام پر ایمان لانے کے بجائے ان کی تکذیب کی اور عذاب الہی کے مستحق ہوئے ۔

ان انبیاء علیہم السلام میں سے ایک نبی حضرت صالح علیہ السلام بھی ہیں آپ نے اپنی قوم کو توحید و رسالت کی دعوت دی اور اللہ پاک کے عذاب سے ڈرایا مگر انہوں نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کر دیا اور عذاب الہی میں گرفتار ہو گئے آئیے آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو جو نصیحتیں کی ان میں سے کچھ سنتے ہیں ۔

1:- قوم کو عبادت الہی کی دعوت :آپ علیہ السلام نے قوم کو اللہ عزوجل کے ایک ہونے پر ایمان لانے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی جیسا کہ قران پاک میں ارشاد ہوتا ہے : وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ ترجمہ کنز العرفان : اور قوم ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا صالح نے فرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ ( پ 8 ،الاعراف:73 )

2 :-قوم کو زمین میں فساد پھیلانے سے منع کرنا :آپ علیہ السلام نے قوم کو اللہ پاک کی نعمتیں یاد کرنے اور زمین میں کفر اور گناہ کرنے سے بچنے کی دعوت دی کیونکہ گناہ، سرکشی اورکفر کی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا ہے جیسا کہ قران پاک میں ارشاد ہوتا ہے ۔فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۷۴) ترجمہ کنز العرفان: تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو (ف۱۴۴) اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ ( پ 8 ،الاعراف: 74 )

3:-قوم کو توبہ و استغفار کی دعوت : آپ علیہ السلام نے قوم کو اللہ پاک کی نعمتیں یاد دلا کر اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور شرک سے کنارہ کشی کر کے اسی کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی جیسا کہ قران پاک میں ہے۔ فَاسْتَغْفِرُ وهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ ترجمہ کنز العرفان : تو اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو بے شک میرا رب قریب ہے دعا سننے والا ہے۔ (پ 12 هود۔61 )

4:- قوم کو عذاب الہی سے ڈرانا :آپ علیہ السلام نے قوم کو اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرنے اور اپنے اطاعت کرنے کی دعوت دی چنانچہ قران پاک میں ہے ۔ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ ترجمہ کنز العرفان تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (پ 19 الشعراء ،150)

5:- قوم کو مشرکوں کی پیروی کرنے سے منع کرنا: آپ علیہ السلام نے قوم کو مشرکین کی اتباع سے منع کرتے ہوئے فرمایا چنانچہ قران پاک میں ارشاد ہے وَلَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ ترجمہ کنز العرفان : اور حد سے بڑھنے والوں کے کہنے پہ نہ چلو۔ (پ 19 الشعراء ،151)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ مُسرفین سے مراد مشرکین ہے ( صراط الجنان تحت الايۃ 151 )اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سابقہ قوموں کے انجام سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ تعالی نے لوگوں کی اصلاح کے لیے انبیا کو مبعوث کیا۔ ان نفوس قدسیہ کی بعثت کی کڑی میں سے ایک حضرت صالح علیہ السلام ہیں۔ آپ اللہ تعالی کے جلیل القدر نبی ہیں۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد عظیم قوم کو کفر کی اندھیری کوٹھڑیوں سے نکال کر نور توحید سے منور کرنا ہوتا ہے نیز انکے اعمال سیئات کی نہ صرف نشاندہی کرنی ہوتی بلکہ برے اعمال کے انجام سے ڈرانا بھی ہوتا ہے۔ تاکہ مخلوق خدا امن و امان کے ساتھ زیست کی سڑھیاں عبور کرے۔ اسی طرح اسی مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے خالقِ کائنات نے حضرت صالح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ۔ پھر آپ نے قوم کی اصلاح کے لیے ہر طرح کی کوشش کی۔

طلب بخشش کا حکم دینا:- قَالَ یٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِۚ-لَوْ لَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۔ ترجمۂ کنز العرفان: صا لح نے فرمایا: اے میری قوم! بھلائی سے پہلے برائی کی جلدی کیوں کرتے ہو؟تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے ؟ ہوسکتا ہے تم پر رحم کیا جائے۔ (پارہ 19،سورۃالنمل ،آیت نمبر46)

بد شگونی اور آزمائش میں فرق:- قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَؕ-قَالَ طٰٓىٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ۔ ترجمۂ کنز العرفان: انہوں نے کہا:ہم نے تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے برا شگون لیا۔ صالح نے فرمایا: تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے بلکہ تم ایک ایسی قوم ہو کہ تمہیں آزمایا جارہا ہے۔(پارہ 19،سورۃالنمل ،آیت نمبر 47)

رجوع الی اللہ کی ترغیب دینا:- وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۔ ترجمۂ کنز الایمان:اور ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صا لح کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس میں تمہیں بسایا تو اس سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بیشک میرا رب قریب ہے دعا سننے والا۔(پارہ 12، سورۃ ھود آیت نمبر:61)

گزشتہ قوموں کے اعمال سے سبق سکھانا:-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَكُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًاۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ۔(پارہ 8،سورۃالاعراف،آیت نمبر،74) ترجمۂ کنز العرفان: اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ عاد کے بعد جانشین بنایا اور اس نے تمہیں زمین میں ٹھکانا دیا ، تم نرم زمین میں محلات بناتے تھے اور پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے تھے تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔(پارہ 8،سورۃالاعراف،آیت نمبر،74)

باری مقرر کرنا:- قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّ لَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۔ ترجمۂ کنز العرفان: صالح نے فرمایا: یہ ایک اونٹنی ہے، ایک دن اس کے پینے کی باری ہے اور ایک معیّن دن تمہارے پینے کی باری ہے۔(پارہ 19،سورۃ الشعراء آیت نمبر155)

حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کی خرابیوں کی نشاندہی بھی کی اور ان کی اصلاح بھی فرمائی۔ کبھی ان کو رب کی نعمتیں یاد دلائیں۔ اور کبھی خدا کے عذاب سے ڈرایا ۔ جس طرح ممکن ہو سکا آپ نے اصلاح فرمانے کی کوشش کی۔ حضرت صالح علیہ السلام کے خصائص میں سے یہ ہے ان کے پاس ایک اونٹنی تھی ۔اس کو نحر کرنے سے منع فرمایا۔ کیونکہ یہ الله تعالٰی کی نشانی ہے۔ اور اس کا احترام کرنے کا حکم دیا۔ مگر وہ رجعت پسند قوم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور اس کو نحر کر کے عذاب خداوندی کی مستحق ٹھہری۔ ہمیں بھی گزشتہ امتوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور ہر وہ چیز جس سے اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے اس سے بچنا چاہیے تاکہ ہم کامیابی سے سرفراز ہو سکیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے ہمیں اپنی اور اپنے رسول کی پیروی کرنے اور رب کی تمام برگزیدہ ہستیوں اورمقدس اشیاء کا اکرام کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین


اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السّلام کو قومِ ثمود کی طرف رسول بناکر بھیجا۔آپ علیہ السّلام نے انہیں صرف اللہ پاک کی عبادت ‏کرنے اور بتوں کی پوجا چھوڑنے کی دعوت دی تو چند لوگ ایمان لائے اور اکثریت کفر و ‏شرک پر ہی قائم رہی۔قوم کے مطالبے پر ‏آپ علیہ السّلام نے انہیں اونٹنی کا معجزہ بھی دکھایا اور اس کے متعلق چند ‏احکامات دیئے۔ تھوڑے عرصے بعد قوم نے احکامات سے ‏روگردانی کی اور اونٹنی کو بھی قتل کر دیا۔ پھر ایک گروہ نے آپ علیہ السّلام کے گھر ‏پر حملہ کرکے شہید کرنے کی سازش کی تو نتیجہ میں وہ ‏سازشی گروہ عذابِ الٰہی سے ہلاک ہوگیا اور بقیہ منکرین تین دن ‏بعد عذابِ الٰہی کے شکار ہوئے۔

آئیے! حضرت صالح علیہ السّلام کی قراٰنِ کریم میں مذکور نصیحتوں میں سے 5 نصیحتیں پڑھئے:‏

(1)عذابِ الٰہی سے ڈرانے کی نصیحت: قومِ ثمود کو حضرت صالح علیہ السّلام نے تکذیب و اِنکار کرنے پر عذابِ الٰہی سے ڈرایا۔ ‏چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ(۱۴۱) اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۴۲) اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۴۳) ‏فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِۚ(۱۴۴)﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا جب کہ اُن سے ان کے ہم قوم صالح نے فرمایا کیا ڈرتے ‏نہیں بےشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔(پ19،الشعرآء:141تا144)‏

(2)بخشش مانگنے کی نصیحت کرنا:‏عذابِ الٰہی کی بات سُن کر قوم نے کہا: اے صالح علیہ السّلام اگر تم واقعی رسول ہو تو عذاب لے ‏آؤ جس سے تم ہمیں ‏ڈراتے ہو۔ تو آپ نے قوم کو اللہ سے بخشش مانگنے کی نصیحت کی جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ہے:﴿قَالَ یٰقَوْمِ لِمَ ‏تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِۚ-لَوْلَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۴۶)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان:صالح نے فرمایا اے میری قوم کیوں برائی ‏کی جلدی کرتے ہو بھلائی سے پہلے اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے شاید تم پر رحم ہو۔(پ19،النمل:46)‏

(3)غفلت پر نصیحت: نعمتوں کی فراوانی سے قومِ ثمود غفلت کی شکار ہوگئی تھی جس پر آپ علیہ السّلام نے انہیں جھنجھوڑتے ہوئے ‏فرمایا:﴿اَتُتْرَكُوْنَ فِیْ مَا هٰهُنَاۤ اٰمِنِیْنَۙ(۱۴۶)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: کیا تم یہاں کی نعمتوں میں چین سے چھوڑ دئیے جاؤ ‏گے۔(پ19،الشعرآء:146)‏

(4)اللہ پاک پر ایمان لانے اور اسی کی عبادت کرنے کی نصیحت: آپ علیہ السّلام نے قوم کو وحدانیتِ باری تعالیٰ پر ایمان لانے اور ‏صرف اسی کی عبادت کرنے کی نصیحت کی اور فرمایا: ﴿قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ ﴾ترجَمۂ کنزُالایمان:‏ ‏ کہا ‏اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ ‏(پ12،ھود:61)‏

‏(5)معافی چاہنے اور رجوع کرنے کی نصیحت:‏آپ علیہ السّلام نے فرمایا کہ اے میری قوم اللہ پاک سے معافی چاہو اور اسی کی ‏طرف رجوع کرو بیشک وہ دعا سنتا ‏ہے،جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ہے: ﴿فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ(۶۱)﴾ ‏ترجَمۂ کنزالایمان:‏ تو اس سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بےشک میرارب قریب ہے دعا سننے والا۔(پ12،ھود:61)‏

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام کی سیرت پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی ‏اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم