حضور ﷺ کی اپنے والدین سے محبت از بنتِ محمد
ریاض،فیضان خدیجۃ الکبری کنگ سہالی گجرات

دنیا میں موجود تمام مخلوقات جو کہ حساسیت سے متصف ہیں ان
کا اپنے والدین سے محبت کرنا ایک فطری امر ہے ، پھر وہ نبی کہ جو مخلوق خدا سے اس
قدر محبت فرماتے ہیں کہ اس پر قرآنی آیات گواہ ہیں وہ اپنے والدین سے کس قدر محبت
فرماتے ہوں گے!یہ بات یقیناً بیان سے باہر ہے کیونکہ تمام مخلوقات کو اپنے والدین
سے محبت اور نرم روش اختیار کرنے کا حکم ہی اس پاک بارگاہ سے صادر ہوا۔جیساکہ
منقول ہے کہ حضور ﷺ کے والد محترم حضرت
عبد اللہ بن عبد المطلب کا وصال حضور ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری سے قبل ہی ہو چکا
تھا اور جب حضور ﷺ کی عمر مبارک 5 یا 6 برس ہوئی تو والدہ محترمہ حضرت بی بی آمنہ رضی
اللہ عنہا کا بھی انتقال ہو گیا مگر حضور ﷺ کو اپنے والدین سے کس قدر محبت تھی اس کا
واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔ چنانچہ
امام قرطبی نے اپنی کتاب التذکرہ میں تحریر فرمایا کہ اُمُّ
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب حضور ﷺ حجہ الوداع کے موقع پر ہمیں ساتھ لے
کر چلے اور حجون کی گھاٹی پر گزرے تو رنج و غم میں ڈوبے ہوئے رونے لگے اور حضور ﷺ
کو روتا دیکھ میں بھی رونے لگی ۔ پھر حضور ﷺ اپنی اونٹنی سے اتر پڑے اور کچھ دیر
بعد واپس میرے پاس تشریف لائے تو خوش خوش مُسکراتے ہوئے تشریف لائے ۔میں نے دریافت
کیا: یا رسول اللہ ﷺ!آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں!کیا بات ہے کہ آپ رنج و غم میں
ڈوبے ہوئے اونٹنی سے اترے اور واپس لوٹے تو شاداں و فرحاں مسکراتے ہوئے واپس تشریف
لائے۔تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں اپنی ماں حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی قبر کی
زیارت کے لئے گیا تھا اور میں نے اللہ کریم سے سوال کیا کہ وہ ان کو زندہ فرما دے
تو خدا نے ان کو زندہ فرمایا اور وہ ایمان لے آئیں ۔(تفسیرروح البیان، 1/217 )
حضور ﷺ کی امت کو حضور ﷺ کے صدقے بے شمار فضائل عطا کئے گئے۔آقا
کریم ﷺ نے اپنے والدین سے محبت کی بدولت یہ چاہا کہ ان فضائل سے وہ بھی حصہ پائیں لہٰذا
ان کو اپنی امت میں شامل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل معجزہ دکھایا ۔ آپ بھی پڑھئے اور
جھومئے۔چنانچہ
امام ابو القاسم عبد الرحمن سہیلی الروض الانف میں نقل کرتے
ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ سرکار مدینہ ﷺ نے دعا
مانگی :یا اللہ کریم!میرے والدین کو زندہ فرما دے تواللہ کریم نے اپنے حبیب ﷺ کی دعا کو قبول
فرماتے ہوئے ان دونوں حضرات کو زندہ کر دیا ۔ وہ دونوں اللہ کریم کے آخری نبی ﷺ پر
ایمان لائے اور پھر اپنے اپنے مزارات مبارکہ میں واپس تشریف لے گئے۔( الروض الانف،299)
آقا کریم ﷺ اپنی والدہ سے کس قدر محبت فرماتے اس کا واقعہ
ملاحظہ فرمائیے۔چنانچہ
حضرت مفتی احمدیار خان رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں :حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کی اس بیماری
میں رسول پاک ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کا سر مبارک دباتے تھے اور روتے جاتے تھے ۔حضور ﷺ
کے آنسو آ پ کی امی جان کے چہرے پر گرے تو آنکھ کھولی اور اپنے دوپٹے سے آپ کے
آنسو پونچھ کر بولیں:دنیا مرے گی مگر میں کبھی نہیں مروں گی کیونکہ میں تم جیسا
بیٹا چھوڑ رہی ہوں جس کے سبب مشرق و مغرب
میں میرا چرچا رہے گا۔(مراۃ المناجیح،2/523)ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ
ایک بار اپنی والدہ کی مبارک قبر پر تشریف لے گئے تو رونے لگے ، حاضرین نے رونے کا
سبب پوچھا تو فرمایا:مجھے اپنی والدہ کی شفقت اور مہربانی یاد آ گئی تو رو پڑا ۔ (سيرة
حلبیہ ،1/ 154)
صدقہ تم پہ ہوں دل و جان آمنہ تم نے
بخشا ہم کو ایمان آمنہ
جس شکم میں
مصطفٰی ہوں جاگزیں عرشِ
اعظم سے ہے ذیشاں آمنہ
(دیوان سالک ، ص 32)
والدین مصطفےٰ کے متعلق عقیدہ :اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے فتاویٰ
رضویہ جلد 30 صفحہ 299 پر موجود کلام کا خلاصہ یوں ہے:کثیر اکابر علماء کا مذہب
یہی ہے کہ حضور ﷺ کے پیارے والدین مسلمان ہیں اور آخرت میں ان کی نجات کا فیصلہ ہو
چکا ہے ۔(فتاویٰ رضویہ،30/299)
حضور ﷺ کی اپنے والدین سے محبت از بنتِ ہدایت
اللہ،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ

حضور پاک ﷺ اپنے والدین سے بہت محبت کرتے تھے۔ جو آقا ﷺ
غریبوں کا سہارا ہیں، جو ہر کسی سے نرمی و محبت سے پیش آئیں، ہر کسی سے محبت کریں
تو وہ اپنے والدین سے کسی قدر محبت کرتے ہوں گئے! اور حضور ﷺکے والدین بھی ان سے
بہت محبت کرتےتھے۔
حضور پاک ﷺ کے والدین کی شان اور تعارف:حضرت عبد الله بن
عبد المطلب رضی الله عنہما نور والے آقاﷺ
کے والد محترم ہیں، آپ کا نام مبارک عبد اللہ، کنیت ابو محمد،ابو احمد اور ابو قثم(یعنی
خیر و برکت سمیٹنے والا) ہے۔(شرح زرقانى على مواہب لدنیۃ،1/135)اور والد محترم کا
نام مبارک آمنہ رضی اللہ عنہا ہے۔قبیلہ قریش کی تمام حسین عورتوں نے حضرت عبد الله رضی اللہ عنہ سے شادی کی درخواست کی مگر حضرت عبد المطلب رضی
اللہ عنہ ایسی عورت کی تلاش میں تھے جو حسن و جمال کے ساتھ ساتھ حسب ونسب کی شرافت
اور اعلیٰ درجے کی پاک د امن بھی ہو۔ یہ سب خوبیاں حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا میں
موجود تھیں ۔ (شانِ مصطفےٰ پر 12 بیانات،ص 4)
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے وفات کے وقت اشعار
پڑھے:وقتِ انتقال اپنے پیارے بیٹے،دو جہاں کے سردار،محمد مصطفےٰ ﷺ
کی طرف نگاہِ محبت سے دیکھا اور چند عربی اشعار پڑ ھے (جن کا ترجمہ یوں ہے:) اے
ستھرے لڑکے!اللہ پاک تجھ میں برکت رکھے۔اے
ان کے بیٹے جنہوں نے بڑے انعام والے باد شاہ اللہ پاک کی مدد سے موت کے گھیرے سے
نجات پائی۔
جس صُبْح کو قُرعہ ڈالا گیا 100بُلَند اُونْٹ ان کے فِدْیَہ میں قُربان کئے گئے،
اگر وہ ٹھیک اُترا جو میں نے خواب دیکھا ہے تو تُو سارے جَہان کی طرف پیغمبر بنایا
جائے گا جو تیرے نِکو کار باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے۔میں اللہ پاک کی قَسم دے کر تجھے بتوں سے منع کرتی
ہوں کہ قوموں کے ساتھ ان کی دوستی نہ کرنا۔(مواہب لدنیۃ،1/88-89)
حضرت مفتی احمدیار خان رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں :حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کی اس بیماری
میں رسول پاک ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کا سر مبارک دباتے تھے اور روتے جاتے تھے ۔حضور ﷺ
کے آنسو آ پ کی امی جان کے چہرے پر گرے تو آنکھ کھولی اور اپنے دوپٹے سے آپ کے
آنسو پونچھ کر بولیں:دنیا مرے گی مگر میں کبھی نہیں مروں گی کیونکہ میں تم جیسا
بیٹا چھوڑ رہی ہوں جس کے سبب مشرق و مغرب
میں میرا چرچا رہے گا۔(مراۃ المناجیح،2/523)
فوت شدہ والدین زندہ ہو گئے: ہر ایک کو اپنے ماں باپ پیارے ہوتے ہیں، پھر ہمارے آقا ﷺ
کو کیوں نہ پیارے ہوں گے!اپنے والدین کو اپنی پیاری امت کے ساتھ شمولیت کی خاطر
عطائے رب قادر سے کیسا عظیم الشان معجزہ دکھایا پڑھئے اور جھومئے۔چنانچہ
امام ابو القاسم عبد الرحمن سہیلی الروض الانف میں نقل کرتے
ہیں کہ امام المومنین حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور پاک ﷺ نے دعا مانگی:یا اللہ !میرے ماں
باپ کو زندہ کر دے۔ اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کی دعا قبول فرماتے ہوئے دونوں حضرات
یعنی والدین کو زندہ کر دیا اور وہ دونوں اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ پر ایمان لائے
اور پھر اپنے اپنے مزارات مبارک میں تشریف لے گئے۔( الروض الانف،299)
شرح :خبر دار:اس
سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ والدین کریمین رضی اللہ عنہا معاذ اللہ حالتِ کفر میں فوت ہوئے تھے اور عذابِ قبر میں مبتلا تھے اس
لئے نور والے آقا ﷺ نے ان کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا تاکہ عذاب سے نجات پائیں، ہرگز
ایسا نہیں تھا بلکہ وہ دونوں توحید پر قائم تھے یعنی اللہ پاک کو ایک ماننے والے
تھے اور کبھی بھی انہوں نے بت پرستی نہیں کی تھی۔رسول پاک ﷺ نے انہیں اپنی امت میں
شامل کرنے کے لئے دوبارہ زندہ فرما کر کلمہ پڑھایا ۔(سیاہ فام غلام،ص25)
حضور ﷺ کی اپنے والدین سے محبت از بنتِ رمضان
احمد،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ

والدین کے متعلق آیتِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:اللہ
پاک فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ
اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ
لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15 ،بنی اسرائیل :23)ترجمہ: اور
تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان
میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت ، نرم بات کہنا۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے:اس
آیت اور اس کے بعد والی 16 آیات
میں اللہ پاک نے تقریباً 25کاموں کا حکم دیا ہے۔آیت کے ابتدائی حصے کا معنی یہ
ہے کہ تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ تم اللہ پاک کی عبادت میں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہراؤ اور
تمہیں جو کام کرنے کااللہ پاک نے حکم دیا
انہیں کرو اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے بچو۔اس میں سیّد المرسَلین ﷺ کی رسالت کا اقرار، ان سے محبت اور ان کی
تعظیم کرنا بھی داخل ہیں کیونکہ اس کا بھی
اللہ پاک نے حکم دیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے:قُلْ
اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (پ3،اٰل
عمرٰن:31)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے حبیب!فرمادو کہ
اے لوگو!اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤ اللہ تم سے محبت
فرمائے گا۔(صاوی، 3 / 1125)
اللہ پاک
نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ،اس
میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی
سبب اللہ پاک کی تخلیق اور اِیجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں ا س لئے اللہ پاک نے پہلے انسانی
وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم
دیا ۔ ا ٓیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک
کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی
ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔(تفسیرکبیر،7/321،323)(تفسیر صراط الجنان،5/439)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے
ہیں:(جس کا خلاصہ ہے کہ )ایک صحابی رضی اللہ عنہ
نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی:
یا رسولَ اللہ ﷺ!میں اپنے ماں باپ کے ساتھ زندگی میں نیک سلوک
کرتا تھا ، وہ انتقال کرگئے ہیں تو اب ان کے ساتھ نیک سلوک کی کیا صورت ہے؟ارشاد
فرمایا:انتقال کے بعد نیک سلوک سے یہ ہے کہ تواپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے بھی
نماز پڑھے اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کے
لئے روزے رکھے۔ یعنی جب اپنے ثواب ملنے کے لئے کچھ نفلی نماز پڑھے یاروزے رکھے تو
کچھ نفل نماز ان کی طرف سے کہ انہیں ثواب
پہنچائے یانماز روزہ جونیک عمل کرے ساتھ ہی انہیں ثواب پہنچنے کی بھی نیت کرلے کہ انہیں بھی ثواب ملے گا اور تیرا بھی کم نہ
ہوگا۔(فتاویٰ رضویہ،24/395ملخصاً)
اور ان حضرات کے ایمان کو ثابت کرنے میں علماء
متأخرین کے تین طریقے ہیں:اول یہ کہ حضور ﷺ کے والدین رضی اللہ عنہما اور آباء و اجداد سب حضرت ابراہیم علیہ
السلام کے دین پر تھے،لہٰذا مؤمن ہوئے ۔ دوم یہ کہ تمام حضرات حضور ﷺ کے اعلانِ
نبوت سے پہلے ہی ایسے زمانے میں وفات پا گئے جو زمانۂ فترت کہلاتا ہے اور ان
لوگوں تک حضور ﷺ کی دعوتِ ایمان پہنچی ہی نہیں،لہٰذا ہرگز ہرگز ان حضرات کو کا
فرنہیں کہا جا سکتا بلکہ ان لوگوں کو مومن ہی کہا جائے گا ۔سوم یہ کہ اللہ پاک نے
ان حضرات کو زندہ فرما کر ان کی قبروں سے اٹھایا اور ان لوگوں نے کلمہ پڑھ کر حضور
ﷺ کی تصدیق کی اور حضور ﷺکے والدین رضی اللہ عنہما کو زندہ کیا گیا ۔
حضرت شیخ اسمعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب التذکرہ میں تحریر فرمایا کہ اُمُّ
المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے
فرمایا :حضور ﷺجب حجۃ الوداع میں ہم لوگوں کو ساتھ لے کر چلے اور حجون کی گھاٹی پر
گزرے تو رنج وغم میں ڈوبے ہوئے رونے لگے اور حضور ﷺ کوروتا دیکھ کر میں بھی رونے
لگی۔ پھرحضور ﷺ اپنی اونٹنی سے اتر پڑے اور کچھ دیر کے بعد میرے پاس واپس تشریف
لائے تو خوش خوش مسکراتے ہوئے تشریف لائے۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ
پر میرے ماں باپ قربان ہوں!کیا بات ہے کہ آپ رنج وغم میں ڈوبے ہوئے اونٹنی سے اترے
اور واپس لوٹے تو شاداں و فرحاں مسکراتے ہوئے تشریف فرما ہوئے؟ تو حضور ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ میں اپنی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی قبر کی زیارت کے لئے گیا تھا اور میں نے اللہ پاک سے سوال کیا کہ وہ ان کو زندہ فرمادے تو اللہ پاک
نے ان کو زندہ فرما دیا اور وہ ایمان لائیں ۔(تفسیر روح البيان،1/217)
یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ اپنے ماں باپ رضی
اللہ عنہما کی قبروں کے پاس روئے اور ایک
خشک درخت زمین میں بو دیااور فرمایا کہ اگر یہ درخت ہرا ہو گیا تو یہ اس بات کی
علامت ہوگی کہ ان دونوں کا ایمان لانا ممکن ہے ۔چنانچہ وہ درخت ہرا ہو گیا پھر
حضور ﷺ کی دعا کی برکت سے وہ دونوں اپنی اپنی قبروں سے نکل کر اسلام لائے اور پھر
اپنی اپنی قبروں میں تشریف لے گئے ۔(سیرتِ مصطفی ٰ، ص63)
اللہ پاک کی طرف سے حفاظتِ قبر:کچھ
کفار کا گزر مقام ابواء سے ہوا تو انہوں نے چاہا کہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کا جسدِ مبارک قبر سے
نکال کر نبی اکرم ﷺ کو تکلیف پہنچائیں، لیکن اللہ کریم نے اپنے نبی ﷺ کی والدہ کے
اکرام کی خاطر انہیں اس نا پاک ارادے سے باز رکھا۔(الکامل فی التاريخ،1/ 361)
والدہ سے محبت کا عالم:ایک
بار نبی کریم ﷺ اپنی والدہ کی قبر پر آئے تو رونے لگے، حاضرین نے رونے کا سبب
پوچھا تو فرمایا :مجھے اپنی والدہ کی شفقت و مہربانی یاد آگئی
تو میں رو پڑا۔(سيرة حلبیہ ،1/ 154)
صدقہ تم پہ ہوں دل و جان آمنہ تم نے
بخشا ہم کو ایمان آمنہ
جو مِلا جس کو مِلا تم سے مِلا دین و
ایمان علم و عرفان آمنہ
کُل جہاں کی
مائیں ہوں تم پر فدا تم محمد کی بنیں ماں آمنہ
(دیوان سالک ، ص 32)

حضرت محمد عربی ﷺ کے والد ماجد کا نام عبد الله ہے۔(مسلم، ص
172 ، حدیث : 912)
کنیت :حضرت عبد الله
کی کنیت ابو محمّد، ابو احمد اور ابو قثم
ہے۔قثم حضور ﷺکا ہی ایک نام ہے جس سے مراد
وہ ہستی ہے جو خیر و بھلائی کی جامع ہو۔(سیرت
حلبیہ، 1 / 48 )
حضور ﷺ کا حسب و نسب :اس تناظر میں اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ جن ہستیوں کو حضور ﷺ کے والدین
بننے کا شرف حاصل ہوا تھا وہ حسب و نسب کے اعتبار سے کتنی عظیم ہوں گی تو اس کے
لئے وہ فرمانِ مصطفےٰ کافی ہےکہ جس میں
آپ نے ارشاد فرمایا: میں عرب کے دو سب سے
افضل قبیلوں بنی ہاشم و بنی زہرہ سے پیدا ہوا۔( تاریخ ابن عساکر،3/ 401) یعنی حضور
خاتم النبیینﷺ کا تعلق ماں باپ کی طرف سے جن دو قبیلوں سے تھا وہ اس
وقت سب سے افضل تھے۔ باقی رہے آپ کے
والدین کریمین تو وہ کسی قدر عظیم ہستیاں تھیں اُن کے ناموں سے ظاہر ہے، جیسا کہ حضور ﷺ کے
والد کا نام عبد اللہ تھا جس کا معنی بنتا ہے: الله پاک کا بندہ،اللہ پاک کا عبد
یعنی عبادت اور بندگی کی طرف معنی جاتا ہے جبکہ والدہ محترمہ کا اسم ذی شان آمنہ
جس کے معنی میں سے امن و سکون اور پیارو محبت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔گویا ان دونوں
ناموں کے معانی کو جمع کرو تو الله پاک کی عبادت اور امن و سکون نتیجہ نکلتا
ہے۔پھر ان کے وجود گرامی قدر سے جس مولودِ مسعود،محمد مصطفےٰﷺ کی ولادتِ با سعادت
ہوئی وہ پوری کائنات کے لئے خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت اور امن و سکون کا پیغام
لے کر آئے یعنی سراپا رحمۃ للعالمین بن کر جلوہ گر ہوئے۔(خاندانِ مصطفےٰ، ص 189)
سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کی زبانِ مبارک سے
نکلنے والے کلمات: اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے کلمات نقل کرنےکے بعد فرماتے ہیں:سیدہ آمنہ
رضی اللہ عنہا نے مزید ارشاد فرمایا :کل
حی میت وکل جدید بال وکل کبیر یفنی و انا میتۃ و ذکری باق وقد ترکت خیرا وولدت
طھراًیعنی ہر زندے کو مرنا ہے اورہرنئے کو پرانا
ہونا ، اور کوئی کیسا ہی بڑا ہو ایک دن فنا ہونا ہے۔میں مرتی ہوں اورمیرا ذکر
ہمیشہ خیر سے رہے گا،میں کیسی خیر عظیم چھوڑ چلی ہوں اور کیسا ستھرا پاکیزہ مجھ سے
پیدا ہوا۔(الخصائص الکبری،1/ 135)پیاری بہنو!جن کی مائیں زندہ ہیں اُن
کی خدمت کرو، ان بات سنو اوران کا حکم مانو ! اس رشتہ کی قدران سے پوچھو جن کی ماں نہیں ۔
حضور خاتم النبینﷺ کا اپنی والدہ کے ساتھ قیام اور مدینے کو یاد
کرنا :اُس مہینا پھر قیام کے دوران جو واقعات پیش آئے حضور بعد ہجرت
بسا اوقات ان کی یادوں کو تازہ فرمایا کرتے تھے۔مثلاً جب اس مکان کو دیکھتے جہاں
اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ قیام کیا تھا تو فرماتے یہی وہ مکان ہے جس میں میری والدہ نے قیام کیا تھا میرے والد ماجد کو بھی
دفنا یا گیا تھا اور فرماتے ! میں نے بنو
عدی بن نجار کے تالاب میں تیرنے میں مہارت حاصل کی تھی۔(طبقات ابن سعد ، 1 / 93)

حضرت عبد اللہ
بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما نور والے آقا ﷺ کے والد محترم ہیں۔آپ کا نام مبارک
عبد اللہ، کنیت ابو محمد،ابو احمد اور ابو قثم( یعنی خیر و برکت سمیٹنے والا)ہےاور
والدہ محترمہ کا نام مبارک آمنہ رضی اللہ عنہا ہے۔حضرت عبد اللہ اپنے والد ِمحترم حضرت عبد المطلب رضی
اللہ عنہ کے تمام بیٹوں میں سب سے زیادہ لاڈلے اور پیارے تھے۔قبیلۂ قریش کی
تمام حسین عورتوں نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے شادی کی درخواست کی مگر حضرت عبد المطلب رضی
اللہ عنہ اسی عورت کی تلاش میں تھے جو حسن و جمال کے ساتھ ساتھ حسب ونسب کی شرافت
اور اعلیٰ درجے کی پاک دامن بھی ہو۔(سیرت مصطفیٰ،ص58) آیاتِ مبارکہ:
وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا
رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (بنی اسرائیل 24)ترجمہ:اور عرض کر کہ
اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں
پالا ۔
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا
تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا(پ 5 ،النسآء:36)ترجمہ:اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا
شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو۔
وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ
تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌۙ-فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا
فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا٘- (پ21،لقمن:15)ترجمہ: اور اگر وہ
دونوں تجھ سے کوشش کریں کہ میرا شریک ٹھہرائے ایسی چیز کو جس کا تجھے علم نہیں تو
ان کا کہنا نہ مان اور دنیا میں اچھی طرح
ان کا ساتھ دے۔
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ
بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-(پ26،الاحقاف:
15) ترجمہ:اور ہم نے آدمی کو حکم کیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے ۔
یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا
یُنْفِقُوْنَؕ-قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ
الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ-(پ2،البقرۃ:215)ترجمہ: تم
سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو وہ ماں باپ
اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لیے ہے۔
حدیث شریف:والدین کو گالی
دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔(مسلم، ص60،حدیث:90)
ہر ایک کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا
چاہیے اور ان کی اطاعت کرتے ہوئے ان کا دیا ہوا ہر جائز کام فوراً کرنا چاہیے۔ماں باپ اگر شریعت کے خلاف کوئی حکم دیں تو اس میں
ان کی اطاعت نہ کی جائے۔اگر کسی کے والد
نے اپنی اولاد کے ساتھ برا سلوک کیا ہے تو اس کی اولاد کویہ اجازت نہیں کہ وہ اپنے
والد کےساتھ بد سلوکی کرے۔یاد رکھئے!حدیثِ پاک میں ہے:سب گناہوں کی سزا اللہ پاک
چاہے تو قیامت کے لئے اٹھا رکھتا ہے مگر
ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی دیتا ہے۔(مستدرک، 5/216، حدیث: 7345)
اللہ پاک
کی اطاعت والدکی اطاعت کرنے میں ہے اور اللہ پاک کی نافرمانی والد کی نافرمانی
کرنےمیں ہے۔( معجم اوسط، 1 /641،حدیث:2255)
حضرت مفتی احمدیار خان رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں :حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کی اس بیماری
میں رسول پاک ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کا سر مبارک دباتے تھے اور روتے جاتے تھے ۔حضور ﷺ
کے آنسو آ پ کی امی جان کے چہرے پر گرے تو آنکھ کھولی اور اپنے دوپٹے سے آپ کے
آنسو پونچھ کر بولیں:دنیا مرے گی مگر میں کبھی نہیں مروں گی کیونکہ میں تم جیسا
بیٹا چھوڑ رہی ہوں جس کے سبب مشرق و مغرب
میں میرا چرچا رہے گا۔(مراۃ المناجیح،2/523)
ہر ایک کو ماں باپ پیارے ہوتے ہیں،پھر ہمارے آقا ﷺ
کو کیوں پیارے نہ ہوں گے!اپنے والدین کریم کو اپنی پیاری امت کے ساتھ شمولیت کی
خاطر عطائے رب قادر سے کیسا عظیم الشان معجزہ دکھایا پڑھئے اور جھو مئے۔چنانچہ
حضور ﷺ کی اپنے والدین سے محبت از بنتِ
غلام رسول،فیضانِ اُمِّ عطار گلبہار سیالکوٹ

ارشاد باری ہے: اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-(پ21،لقمن:14)ترجمہ:یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے:اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ والدین
کا مقام انتہائی بلند ہے ۔ کیونکہ اللہ پاک نے اپنے ساتھ بندے کے والدین کا ذکر
فرمایا اور ایک ساتھ دونوں کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا۔اب اگر کوئی بد قسمت اپنے
والدین کی خدمت نہ کرے اور انہیں تکلیفیں دے تو یہ اس کی بدنصیبی اور محرومی
ہے۔حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:جس نے
پنجگانہ نمازیں ادا کیں وہ اللہ پاک کا شکر بجا لایا اور جس نے پنجگانہ نمازوں کے
بعد والدین کے لئے دعائیں کیں تو اس نے والدین کی شکر گزاری کی۔(تفسیر صراط
الجنان،7/487) (تفسیربغوی،
3 /423)
قرآنِ کریم میں
اور بھی بہت سے مقامات پر والدین کی عزت و عظمت کو بیان کیا گیا ہے ۔چنانچہ ارشاد
فرمایا:
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا
تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا(پ 5 ،النسآء:36)ترجمہ:اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا
شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو۔
اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ
اِلَّا اللّٰهَ- وَ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًا(پ 1،البقرۃ:83)اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ
اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ
رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًاۚ-(پ8، الانعام: 151)ترجمہ:تم فرماؤآؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں جو تم پر تمہارے رب نے حرام کیا یہ کہ
اس کا کوئی شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرو)۔
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا
اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- (پ
15 ،بنی اسرائیل :23)ترجمہ: اور تمہارے رب
نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ
بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-(پ26،الاحقاف:
15) ترجمہ:اور ہم نے آدمی کو حکم کیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے ۔
آپ ﷺ کو اپنی والدہ سے اور آپ کی والدہ کو آپ سے بے حد محبت
تھی ۔جبکہ آپ کی عمر مبارک جب برس ہوئی تو
آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو ساتھ لے کر مدینہ شریف میں آپ کے والد کے ننھیال سے ملانے
لے گئیں ۔ اس سفر میں بی بی ام ایمن بھی ساتھ تھیں ۔ بی بی ام ایمن آپ کے والد کی
کنیز تھیں ۔ واپسی پر ابواء کے مقام پر آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور وہیں تدفین ہوئیں۔باپ کا سایہ پہلےاُٹھ چکا
تھا ،اب ماں کی آغوشِ محبت و شفقت سے بھی محروم ہوگئے۔حضرت ام ایمن نے آپ کے آنسو
پونچھے،آپ کو تسلی دی اور واپس مکہ شریف لا کر آپ کے دادا حضرت ابو عبد المطلب کے
سپرد کر دیا ۔پھر آپ کے دادا نے آپ کی پرورش کی۔آپ اپنی رضائی والدہ سے بھی بہت
محبت کرتے تھے۔آپ کے والد حضرت عبد الله بن عبد المطلب کا وصال آپ کی ولادت سے قبل
25 سال کی عمر میں ہوا تھا ۔
آپ ﷺ کی کئی احادیثِ مبارکہ میں بھی والدین کا ذکر فرمایا
ہے۔چنانچہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے پوچھا گیا:کون سا عمل اللہ
پاک کو زیادہ پسند ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا ۔عرض کیا گیا:پھر
کون سا؟فرمایا:والدین کے ساتھ نیکی کرنا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل الله۔(مسلم،ص812،حدیث:25
(1510)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے
ارشاد فرمایا:والدین کی نافرمانی نہ کر اگرچہ وہ تجھے حکم دیں کہ اپنے
اہل و مال کوچھوڑ دے۔(مسند امام احمد،8/249،حدیث:22136)
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ
نے ارشاد فرمایا:تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ ان کے نفل قبول فرماتا ہے نہ فرائض:(1)ماں باپ کو ستانے والا (2)خیرات کر
کے احسان جتلانے والا اور(3) تقدیر کو
جھٹلانے والا۔(السنۃ
للامام ابن ابی عاصم، ص73،حدیث:332)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے تین
مرتبہ ارشاد فرمایا:والدین کو ستانے والا لعنتی ہے۔(معجم اوسط،6/199،حدیث:8497)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور ﷺ کا ارشاد ہے:
سب گنا ہوں کی سزا اگر اللہ چاہے گا تو قیامت کے دن کے لئے باقی رکھتا ہے مگر ماں
باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی دیتا ہے۔(مستدرک، 5/216، حدیث: 7345)
حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص
نے حضور ﷺ کی بارگاہ کی میں حاضر ہو کر اپنے والدین کی شکایت کی کہ میرا باپ مجھ
سے میرا مال لینا چاہتا ہے تو آپ نے فرمایا : تو اور تیرا سارا مال تیرے باپ ہی کا ہے۔(ا بن ماجہ ،3/81، حدیث:2292)
حضور ﷺ کی اپنے والدین سے محبت از بنتِ ظہور
الٰہی،فیضانِ اُمِّ عطار گلبہار سیالکوٹ

نبی کریم ﷺ کی اپنے والدین سے محبت کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔وہ پاک ذات
جس نے امت کو والدین سے محبت کرنے کا طریقہ بتایا اور سلیقہ سکھایا اس ذات کی اپنے والدین سے کیسی محبت ہو گی!اس
کی ایک جھلک قرآنِ مجید میں بیان فرمائی گئی ہے اورقرآنِ مجید نے ان سے اُف تک کہنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ قرآن ِمجید
میں والدین کی محبت اور احتر ام کے بارے میں سورۂ بنی اسرائیل،آیت نمبر 23 میں اللہ پاک نے فرمایا:وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ
اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ
لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15 ،بنی اسرائیل :23)ترجمہ: اور
تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان
میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت ، نرم بات کہنا۔
اس آیتِ مبارکہ میں
اللہ پاک کی طرف سے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ،عزت و احترام اور محبت سے پیش آنے
کا حکم ارشاد فرمایا گیا ۔
بے شک ہمارے پیارے آقا ﷺ تو سب سے بڑھ کر اللہ پاک کے حکم
پر عمل فرمانے والے ہیں۔
(1)آقا ﷺ کے والد آپ کی ولادت سے قبل ہی اس دنیا سے کوچ
فرما گئے۔والد گرامی کا نام حضرت عبد اللہ
رضی اللہ عنہ ہے اور والدہ حضرتِ آمنہ رضی
اللہ عنہا ہیں۔ حضور ﷺ کی عمر مبارک پانچ یا چھ برس کی ہو گئی تو آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا ۔
(2)حضرت مفتی احمدیار خان رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں :حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کی اس بیماری
میں رسول پاک ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کا سر مبارک دباتے تھے اور روتے جاتے تھے ۔حضور ﷺ
کے آنسو آ پ کی امی جان کے چہرے پر گرے تو آنکھ کھولی اور اپنے دوپٹے سے آپ کے
آنسو پونچھ کر بولیں:دنیا مرے گی مگر میں کبھی نہیں مروں گی کیونکہ میں تم جیسا
بیٹا چھوڑ رہی ہوں جس کے سبب مشرق و مغرب
میں میرا چرچا رہے گا۔(مراۃ المناجیح،2/523)
سبحان اللہ! ابھی عمر مبارک چھ برس کی ہوئی ہے اور والدہ
محترمہ سے محبت کا یہ انداز تھا۔
(3)اُمُّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:حضور ﷺ جب حجۃ الوداع کے موقع پر ہم لوگوں کو ساتھ لے کر چلے جب حجون کی
گھاٹی پر گزرے تو رنج و غم میں ڈوبے ہوئے رونے لگے ،ان کو روتا دیکھ کر
میں بھی رونے لگی تھوڑی دیر بعد جب واپس تشریف لائے تو مسکراتے ہوئے آئے۔ فرماتی
ہیں: میں عرض کی:میرے ماں باپ آپ پر قربان!اونٹنی سے اترے تو رنج و غم میں ڈوبے
ہوئے اور واپس لوٹے ہیں تو شاداں و فرحاں مسکراتے ہوئے تشریف فرما ہوئے! تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں
اپنی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی قبر کی زیارت کے لئے گیا تھا ،میں نے اللہ
پاک سے سوال کیا کہ وہ ان کو زندہ فرما دے تو خدا پاک نے ان کو زندہ فرما دیا اور
وہ ایمان لے آئیں ۔(تفسیرروح البیان، 1/217 )
(4)اُمُّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،
سرکار مدینہ ﷺ نے دعا مانگی: یا الله! میرے ماں باپ کوزندہ کردے تو اللہ پاک نے
اپنے حبیب ﷺ کی دعا قبول فرماتے ہوئے دونوں کو زندہ کر دیا اور وہ دونوں اللہ پاک
کے آخری نبی ﷺ پر ایمان لائے اور پھر اپنے اپنے مزاراتِ مبارکہ میں تشریف لے گئے۔(
شانِ مصطفیٰ ،ص9،8)
(5)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی
بارگاہ میں عرض کی : یا رسول اللہﷺ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس شخص نے پھر پوچھا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تمہاری
ماں۔اس نے پھر پوچھا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا:تمہاری ماں۔اس نے چوتھی مرتبہ پھر
پوچھا: پھر کون؟تو آپ نے فرمایا:تمہارا باپ۔ (مسلم،ص 1378 ، حدیث:1)
حضور ﷺ کی اپنے والدین سے محبت از بنتِ شبیر
حسین فیضانِ اُمِّ عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

احترام والدین:آپ ﷺ نے ہمیشہ اپنے والدین کا احترام کیا، حالانکہ آپ کے والد حضرت عبداللہ رضی
اللہ عنہ آپ کی پیدائش سے پہلے وفات پا چکے تھے۔
والدہ
کی قدر: اپنی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ انتہائی محبت
اور عزت کا رویہ اختیار کیا۔
یتیمی
کا صبر:آپ ﷺ کی والدہ کی وفات کے بعد آپ نے انتہائی صبر و تحمل کا
مظاہرہ کیا اور ہمیشہ والدین کے لئے دعا گو رہے۔
دادا کی
پرورش:اپنے دادا حضرت عبد المطلب کی زیر سرپرستی آپ نے ان کی محبت
و شفقت کو والدین جیسا مقام دیا۔
والدہ
کی قبر پر دعا: ایک موقع پر آپ نے اپنی والدہ کی قبر پر جا کر ان کے لئے
دعا کی اور آنکھوں سے آنسو بہائے۔
والدین
کی تعظیم:والدین کی تعظیم کو ہمیشہ اہمیت دی اور دوسروں کو بھی اس کی
تلقین کی۔چنانچہ فرمایا:اللہ پاک کی رضا والدین کی رضا میں ہے اور اللہ پاک کی
ناراضی والدین کی ناراضی میں ہے۔(شعب الایمان ،6 /177
،حدیث : 7830)
یتیم
بچوں کا خیال:اپنے والدین کے ساتھ یتیمی کا تجربہ ہونے کی وجہ سے آپ نے
یتیموں کا خصوصی خیال رکھا اور ان کے حقوق کی حفاظت کی۔
والدین
کے حق میں دعا: والدین کی مغفرت اور رحمت کے لئے دعا کو آپ نے ایک عبادت
سمجھا۔
محبت
اور شفقت کا درس: آپ نے اپنی امت کو والدین کے ساتھ محبت، ادب اور احسان کا
حکم دیا۔
والدین
کی خدمت: آپ نے فرمایا :والدین کی خدمت جنت کا راستہ ہے۔چنانچہ ارشاد
فرمایا:جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔(مسند شہاب ،1/102،حديث:119)
والدین
کی نافرمانی سے بچاؤ: آپ نے والدین کی نافرمانی کو
کبیرہ گناہوں میں شمار کیا۔
والدین
کا حق:آپ کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ
سلوک اور نیکی کرنا ایک مسلمان کا بنیادی فرض ہے۔چنانچہ فرمایا:اللہ پاک
کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ پاک کی ناراضی والد کی ناراضی میں
ہے۔(ترمذی،3/360،حدیث:1907)
والدین
کی اطاعت: والدین کی اطاعت اور ان کی بات ماننا ایک بہترین عمل قرار
دیا۔
والد کے
حقوق:آپ ﷺ نے والد کو جنت کا درمیانی دروازہ قرار دیا۔چنانچہ
فرمایا:والد
جنّت کے دروازوں میں سے بیچ کا دروازہ ہے،اب تُو چاہے تو اس دروازے کو اپنے ہاتھ
سے کھو دے یا حفاظت کرے۔ (ترمذی،3/359، حدیث:1906)
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک: آپ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کو اللہ پاک کی رحمت کے حصول کا ذریعہ بتایا۔
والدین
کی عدم موجودگی میں دعا: آپ نے اپنے والدین کے حق میں
دعا کو ایک بہترین نیکی قرار دیا۔
رشتہ
داروں سے حسنِ سلوک:آپ ﷺ کی تعلیمات سے معلوم
ہوتا ہے کہ والدین کے بعد ان کے رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا بھی والدین کی خدمت
کا حصہ ہے۔
یتیمی
کی وقعت: آپ کی یتیمی کی حالت نے آپ کو یتیموں کے لئے بہترین نمونہ
بنا دیا اور والدین کی محبت کی اہمیت کو سمجھایا۔
والدین کے حقوق کا تحفظ: آپ ﷺ نے ہمیشہ والدین کے حقوق کو مقدم رکھا اور لوگوں کو ان کی اہمیت بتائی۔
عقیدت
کا اظہار: والدین کے تذکرے پر ہمیشہ عقیدت کا اظہار کیا اور ان کی
اہمیت کو یاد کیا۔
والدین
کی وفات کے بعد صبر:آپ نے اپنے والدین کی وفات پر
صبر کا مظاہرہ کیا اور اللہ پاک کی رضا میں راضی رہے۔
والدین
کے حق میں استغفار:آپ نے ہمیشہ والدین کے لئے
استغفار کیا اور امت کو بھی یہ تعلیم دی کہ اپنے والدین کے لئے دعا کرتے رہیں۔چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:تین
دعائیں ایسی ہیں جن کے مقبول ہونے میں کوئی شک نہیں والد کی دعا ،مظلوم کی دعا اور
مسافر کی دعا۔(ترمذی،3 /362،رقم:1912)
حضور ﷺ کی اپنے والدین سے محبت از بنتِ
شاہد،بہار مدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ

سرکارِ مدینہﷺ کا فرمانِ رحمت ہے :جب اولاد اپنے
ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ پاک اس کے لئے ہر نظرکے بدلے (مقبول حج ) کا ثواب لکھتا ہے۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:اگر چہ دن میں سو مرتبہ کی
نظر کرے ؟تو رسولِ پاکﷺ نے ارشاد فرمایا:ہاں۔اللہ پاک
سب سے بڑا اور سب سے زیادہ پاک ہے۔(شعب الایمان،6/186،حدیث:7856)
یقیناً اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے،وہ جس قدر چاہے
دے سکتا ہے،ہرگز عاجز نہیں،لہٰذا اگر کوئی اپنے ماں باپ کی طرف روزانہ 100تو کیا ایک ہزار بار بھی رحمت کی نظر کرے تو
وہ اُسے ایک ہزار مقبول حج کا ثواب عنایت فرمائے گا۔(نیکی کی دعوت،ص434)
حضور ﷺ اپنے والدین سے بہت محبت کرتے تھے اور آپ نے فرمایا:ماں
کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔(نسائی،ص504، حديث:3101) یعنی ان کے ساتھ بھلائی کرنا جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے،جو ان
کے ساتھ بھلائی کرے گا وہ جنت میں جائے گا۔(قسط67:دوست کیسے بنایا جائے؟ص23)در
مختارمیں ہے:جس نے اپنے والدہ کا پاؤں
چوما تو یہ ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ یعنی
دروازے کو بوسہ دیا۔(در مختار،9/606)
ماں باپ کے سامنے آواز بلند نہیں کرنی چاہیے،نظریں بھی نیچی رکھنی چاہئیں
اور جب بھی والدین بلائیں تو لبیک کہتے
ہوئے حاضر ہوں۔ان کو دور سے آتا دیکھ کر تعظیماً کھڑے ہو جانا چاہیے۔ان سے آنکھیں
ملا کر بات نہیں کرنی چاہیے۔ان کے ساتھ تمیز
سے اور آپ جناب سے بات کرنی چاہیے۔ایک مرتبہ حضرت عون رضی اللہ عنہ کی والدہ نے آپ
کو بلایا تو جواب دیتے وقت آپ کی آواز کچھ بلند ہوئی تو آپ نے اس وجہ سے دو غلام
آزادکیے ۔(امیرِ اہلِ سنت سے والدین کے
بارے میں سوال جواب ،ص2)
حضرت ابو امامہ سے روایت ہے:ایک مرتبہ ایک شخص نے عرض کی:یا
رسول اللہ ﷺ! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟فرمایا:وہ دونوں تیری جنت اور دورخ ہیں۔(ابن
ماجہ،4/186،حدیث:3662)
حضرت ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: جو ماں باپ یا ان سے ایک کی قبر پر ہر جمعہ زیارت کے لئے حاضر ہو تو اللہ پاک اس کے گناہ بخش دے گا اور
وہ ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے
والا لکھا جائے گا۔(معجم اوسط،4/321، حدیث:6114)
والدین کی اہمیت کو کون نہیں جانتا !اسلام نے ہمیں ماں باپ
کو خوش رکھنے اور ان کی ناراضی سے باز رہنے کا حکم دیا ہے، یقیناً اس میں ہمارے لئے
دنیا اور آخرت کی بے شمار بھلائیاں ہیں۔
حضرت محمد عربی ﷺ کے والد ماجد کا نام عبد الله ہے۔(مسلم، ص
172 ، حدیث : 912)
کنیت :حضرت عبدالله کی کنیت ابو محمّد ،ابو احمد اور ابو قثم ہے۔قثم حضورﷺ کا ہی ایک نام ہے جس سے مراد وہ ہستی ہے جو خیر و
بھلائی کی جامع ہو۔(سیرت حلبیہ 1 / 48 )
حضور ﷺ کا حسب و نسب :اس تناظر میں اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ جن ہستیوں کو حضورﷺ کے والدین بننے کا شرف حاصل ہوا تھا وہ حسب و
نسب کے اعتبار سے کتنی عظیم ہوں گی تو اس کے لئے وہ فرمانِ مصطفےٰ کافی ہے کہ جس میں آپ نے ارشاد فرمایا:میں عرب
کے دو سب سے افضل قبیلوں بنی ہاشم و بنی زہرہ
سے پیدا ہوا۔( تاریخ ابن عساکر،3/ 401)
حضور ﷺ کا تعلق ماں باپ کی طرف سے جن دو قبیلوں
سے تھا وہ اس وقت سب سے افضل تھے۔ باقی
رہے آپ کے والدین کریمین تو وہ کسی قدر عظیم ہستیاں تھیں اُن کے ناموں سے ظاہر ہے،
جیسا کہ حضور ﷺ کے والد کا نام عبداللہ تھاجس کا معنی بنتا ہے:الله پاک کا بندہ۔عبد یعنی عبادت اور بندگی کی طرف معنی
جاتا ہے جبکہ والدہ محترمہ کا اسم ذی شان آمنہ جس کے معنی سے امن و سکون اور پیارو
محبت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔گویا ان دونوں ناموں کے معانی کو جمع کرو تو الله پاک کی
عبادت اور امن و سکون نتیجہ نکلتا ہے۔ پھر ان کے وجود گرامی قدر سے جس مولود مسعود
محمد مصطفے ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی وہ
پوری کائنات کے لئے خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت اور امن و سکون کا پیغام لے کر
آئے یعنی سراپا رحمۃ للعالمین بن کر جلوہ گر ہوئے ۔(خاندان مصطفے، ص 189)
سیدہ کی زبان مبارک سے نکلنے والے کلمات:اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے کلمات نقل کرنےکے بعد فرماتے ہیں:سیدہ آمنہ
رضی اللہ عنہا نے مزید ارشاد فرمایا :کل
حی میت وکل جدید بال وکل کبیر یفنی و انا میتۃ و ذکری باق وقد ترکت خیرا وولدت
طھراًیعنی ہر زندے کو مرنا ہے اورہرنئے کو پرانا
ہونا ، اور کوئی کیسا ہی بڑا ہو ایک دن فنا ہونا ہے۔میں مرتی ہوں اورمیرا ذکر
ہمیشہ خیر سے رہے گا،میں کیسی خیر عظیم چھوڑ چلی ہوں اور کیسا ستھرا پاکیزہ مجھ سے
پیدا ہوا۔(الخصائص الکبری،1/ 135)
یہی وہ آخری کلمات تھے جو حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی زبان
مبارک سے ادا ہوئے اور اس کے بعد آپ
اس جہان سے کوچ
فرما گئیں ۔(فتاوی رضویہ،30/303)اے عورتو!جن کی مائیں زندہ ہیں اُن کی خدمت کرو اور
ان کا حکم مانو ! اس رشتے کی قدران سے پوچھو جن کی ماں نہیں
!
حضور خاتم النبینﷺ کا اپنی والدہ کے ساتھ قیام اور مدینہ کو یاد
کرنا:مہینا پھر قیام کے دوران جو واقعات پیش آئے حضور بعد ہجرت
بسا اوقات ان کی یادوں کو تازہ فرمایا کرتے تھے۔مثلاً جب اس مکان کو دیکھتے جہاں
اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ قیام کیا تھا تو فرماتے:یہی وہ مکان ہے جس میں میری
والدہ نے قیام کیا تھا میرے والد ماجد کو بھی دفنا یا گیا تھا اور فرماتے:میں
نے بنو عدی بن نجار کے تالاب میں تیرنے میں
مہارت حاصل کی تھی۔(طبقات ابن سعد ، 1 / 93)
ماں دل کرتا ہےتیرا
ہاتھ چوموں تیرے گلے
لگ کر اپنی ساری تھکن اتار لوں