حضرت محمد عربی ﷺ کے والد ماجد کا نام عبد الله ہے۔(مسلم، ص 172 ، حدیث : 912)

کنیت :حضرت عبد الله کی کنیت ابو محمّد، ابو احمد اور ابو قثم ہے۔قثم حضور ﷺکا ہی ایک نام ہے جس سے مراد وہ ہستی ہے جو خیر و بھلائی کی جامع ہو۔(سیرت حلبیہ، 1 / 48 )

حضور ﷺ کا حسب و نسب :اس تناظر میں اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ جن ہستیوں کو حضور ﷺ کے والدین بننے کا شرف حاصل ہوا تھا وہ حسب و نسب کے اعتبار سے کتنی عظیم ہوں گی تو اس کے لئے وہ فرمانِ مصطفےٰ کافی ہےکہ جس میں آپ نے ارشاد فرمایا: میں عرب کے دو سب سے افضل قبیلوں بنی ہاشم و بنی زہرہ سے پیدا ہوا۔( تاریخ ابن عساکر،3/ 401) یعنی حضور خاتم النبیینﷺ کا تعلق ماں باپ کی طرف سے جن دو قبیلوں سے تھا وہ اس وقت سب سے افضل تھے۔ باقی رہے آپ کے والدین کریمین تو وہ کسی قدر عظیم ہستیاں تھیں اُن کے ناموں سے ظاہر ہے، جیسا کہ حضور ﷺ کے والد کا نام عبد اللہ تھا جس کا معنی بنتا ہے: الله پاک کا بندہ،اللہ پاک کا عبد یعنی عبادت اور بندگی کی طرف معنی جاتا ہے جبکہ والدہ محترمہ کا اسم ذی شان آمنہ جس کے معنی میں سے امن و سکون اور پیارو محبت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔گویا ان دونوں ناموں کے معانی کو جمع کرو تو الله پاک کی عبادت اور امن و سکون نتیجہ نکلتا ہے۔پھر ان کے وجود گرامی قدر سے جس مولودِ مسعود،محمد مصطفےٰﷺ کی ولادتِ با سعادت ہوئی وہ پوری کائنات کے لئے خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت اور امن و سکون کا پیغام لے کر آئے یعنی سراپا رحمۃ للعالمین بن کر جلوہ گر ہوئے۔(خاندانِ مصطفےٰ، ص 189)

سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کی زبانِ مبارک سے نکلنے والے کلمات: اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے کلمات نقل کرنےکے بعد فرماتے ہیں:سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے مزید ارشاد فرمایا :کل حی میت وکل جدید بال وکل کبیر یفنی و انا میتۃ و ذکری باق وقد ترکت خیرا وولدت طھراًیعنی ہر زندے کو مرنا ہے اورہرنئے کو پرانا ہونا ، اور کوئی کیسا ہی بڑا ہو ایک دن فنا ہونا ہے۔میں مرتی ہوں اورمیرا ذکر ہمیشہ خیر سے رہے گا،میں کیسی خیر عظیم چھوڑ چلی ہوں اور کیسا ستھرا پاکیزہ مجھ سے پیدا ہوا۔(الخصائص الکبری،1/ 135)پیاری بہنو!جن کی مائیں زندہ ہیں اُن کی خدمت کرو، ان بات سنو اوران کا حکم مانو ! اس رشتہ کی قدران سے پوچھو جن کی ماں نہیں ۔

حضور خاتم النبینﷺ کا اپنی والدہ کے ساتھ قیام اور مدینے کو یاد کرنا :اُس مہینا پھر قیام کے دوران جو واقعات پیش آئے حضور بعد ہجرت بسا اوقات ان کی یادوں کو تازہ فرمایا کرتے تھے۔مثلاً جب اس مکان کو دیکھتے جہاں اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ قیام کیا تھا تو فرماتے یہی وہ مکان ہے جس میں میری والدہ نے قیام کیا تھا میرے والد ماجد کو بھی دفنا یا گیا تھا اور فرماتے ! میں نے بنو عدی بن نجار کے تالاب میں تیرنے میں مہارت حاصل کی تھی۔(طبقات ابن سعد ، 1 / 93)

ماں دل کرتا ہے تیرا ہاتھ چوموں تیرے گلے لگ کر اپنی ساری تھکن اتار لوں